باب 1: بریلویت تاریخ و بانی
بریلویت پاکستان میں پائے جانے والے احناف کے مختلف مکاتب فکر میں سے ایک مکتب فکر ہے۔ بریلوی حضرات جن عقائد کے حامل ہیں، ان کی تاسیس و تنظیم کا کام بریلوی مکتب فکر کے پیروکاروں کے مجدد جناب احمد رضا بریلوی نے انجام دیا۔ بریلویت کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہے 1۔
جناب احمد رضا ہندوستان کے صوبے اتر پردیش (یوپی) 2 میں واقع بریلی شہر میں پیدا ہوئے 3۔ بریلوی حضرات کے علاوہ احناف کے دوسرے گروہوں میں دیوبندی اور توحیدی قابل ذکر ہیں۔
بریلویت کے مؤسس و بانی راہنما علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نقی علی اور دادا رضا علی کا شمار احناف کے مشہور علماء میں ہوتا ہے 4۔ ان کی پیدائش 14 جون 1865 میں ہوئی 5۔ ان کا نام محمد رکھا گیا۔ والدہ نے ان کا نام امن میاں رکھا۔ والد نے احمد میاں اور دادا نے احمد رضا 6۔
لیکن جناب احمد رضا ان اسماء میں سے کسی پر بھی مطمئن نہ ہوئے اور اپنا نام عبد المصطفیٰ رکھ لیا 7۔ اور خط و کتابت میں اسی نام کا استعمال کثرت سے کرتے رہے۔ جناب احمد رضا کا رنگ نہایت سیاہ تھا۔ ان کے مخالفین انہیں اکثر چہرے کی سیاہی کا طعنہ دیا کرتے تھے۔ ان کے خلاف لکھی جانے والی ایک کتاب کا نام ہی
"الطّین اللّازب علی الاسود الکاذب" یعنی "کالے جھوٹے کے چہرے پر چپک جانے والی مٹی" رکھا گیا 8۔
(اس کتاب کے مصنف مولانا مرتضیٰ حسن دیوبندی مرحوم ہیں۔ بریلوی حضرات مصنف رحمہ اللہ کے اس پیرائے پر بہت جز بز ہوئے ہیں، حالانکہ یہ ایسی بات نہیں ہے کہ اس پر چیں بہ جبیں ہوا جائے۔ مصنف یہاں جناب احمد رضا کا حلیہ بیان کر رہے ہیں، اور ظاہر ہے کہ حلیہ بیان کرتے وقت کالی رنگت کا ذکر آ جانا معیوب شے نہیں ہے۔ اور ندامت اور شرمندگی کا اظہار تو کسی عیب پر کیا جاتا ہے۔ اس کے جواب میں ندامت سے بچنے کے لئے مختلف حیلے بہانوں اور خود ساختہ عبارتوں سے کسی کتاب میں تردیدی دلائل کا ذکر کر کے کالے کو گورا کرنے کی سعی لاحاصل بہر حال بے معنی ہے۔ علامہ مرحوم نے حرمین شریفین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا ذکر جس انداز سے کیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے :
1: بعض لوگوں کو اعتراض ہے کہ ہم نے جناب احمد رضا صاحب کی رنگت کا ذکر کیوں کیا ہے، حالانکہ یہ قابل اعتراض بات نہیں۔
2: اس کے جواب میں بعض حضرات نے سیاہ کو سفید ثابت کرنے کے لئے اپنی کتاب کے صفحات کو بھی بلاوجہ سیاہ کر دیا ہے۔
3 : جواب میں کہا گیا کہ اعلیٰ حضرت کا رنگ تو سیاہ نہیں تھا، البتہ گہرا گندمی تھا اور رنگ کی آب و تاب بھی ختم ہو چکی تھی۔ ہم کہتے ہیں کہ "گہرا گندمی" رنگ کی کون سی قسم ہے۔ کیا ضرورت ہے ان تاویلات میں پڑنے کی؟ سیدھا اعتراف کیوں نہیں کر لیا جاتا کہ ان کا رنگ سیاہ تھا۔
4 : اس جواب میں جن لوگوں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ اعلیٰ حضرت کا رنگ سیاہ نہیں بلکہ سفید تھا، ان میں سے اب کوئی بھی موجود نہیں۔ یہ خود ساختہ دلائل ہیں !
5: آج بھی احمد رضا صاحب کی ساری اولاد کا رنگ سیاہ ہے۔ بہرحال یہ عیب کی بات نہیں۔ کچھ لوگوں نے ہمارے حوالے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ؛ چنانچہ ہم نے ان کی تردید ضروری سمجھی .
اس بات کا اعتراف ان کے بھتیجے نے بھی کیا ہے وہ لکھتے ہیں :
"ابتدائی عمر میں آپ کا رنگ گہرا گندمی تھا۔ لیکن مسلسل محنت ہائے شاقہ نے آپ کی رنگت کی آب و تاب ختم کر دی تھی 9۔ جناب احمد رضا نحیف و نزار تھے 10۔ درد گردہ اور دوسری کمزور کر دینے والی بیماریوں میں مبتلا تھے 11 کمر کی درد کا شکار رہتے 12۔ اسی طرح سر درد اور بخار کی شکایت بھی عموماً رہتی13۔ ان کی دائیں آنکھ میں نقص تھا۔ اس میں تکلیف رہتی اور وہ پانی اتر آنے سے بے نور ہو گئی تھی۔ طویل مدت تک علاج کراتے رہے مگر وہ ٹھیک نہ ہو سکی14۔
جناب عبدالحکیم صاحب کو شکایت ہے کہ مصنف نے یہاں بھی حضرت صاحب کی آنکھ کے نقص کا ذکر کیوں کیا ہے۔ حالانکہ یہ بھی انسانی حلئے کا ایک حصہ ہے اور اس پر غیض و غضب کا اظہار کسی طور پر بھی روا نہیں۔ جواب میں قادری صاحب رقمطراز ہیں کہ :
حقیقتاً یہ بالکل خلاف واقع ہے۔ ہوا یہ کہ 1300ھ میں مسلسل ایک مہینہ باریک خط کی کتابیں دیکھتے رہے۔ گرمی کی شدت کے پیش نظر ایک دن غسل کیا۔ سر پر پانی پڑتے ہی معلوم ہوا کہ کوئی چیز دماغ سے داہنی آنکھ میں اتر آئی ہے۔ بائیں آنکھ بند کر کے داہنی سے دیکھا تو وسط سے مرئی میں ایک سیاہ حلقہ نظر آیا۔ "
جناب قادری صاحب نے یہ عبارت "ملفوظات" سے ذکر کی ہے، لیکن علمی بددیانتی کا ثبوت دیتے ہوئے مکمل عبارت تحریر کرنے کی بجائے عبارت کا اگلا حصہ حذف کر گئے ہیں۔ اس کے متصل بعد ملفوظات میں لکھا ہے :
دائیں آنکھ کے نیچے شے کا جتنا حصہ ہوتا ہے (یعنی جس چیز کو دائیں آنکھ سے دیکھتے ) وہ ناصاف اور دبا معلوم ہوتا۔ "
اس عبارت کو چھوڑنے کا مطلب سوائے اس کے کیا ہو سکتا ہے کہ قادری صاحب اپنے اعلیٰ حضرت کی آنکھ کے نقص کو چھپانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایسی چیز نہیں جس کے ذکر پر ندامت محسوس کی جائے۔ کسی آنکھ میں نقص کا پایا جانا انسان کے بس کی بات نہیں، ربّ کائنات کا اختیار ہے، لہٰذا ہم قادری صاحب سے گزارش کریں گے کہ وہ اظہار مذمت کی بجائے اعتراف حقیقت کر لیں۔ (ثاقب)
ایک مرتبہ ان کے سامنے کھانا رکھا گیا۔ انہوں نے سالن کھا لیا مگر چپاتیوں کو ہاتھ بھی نہ لگایا۔ ان کی بیوی نے کہا کہ کیا بات ہے؟ انہوں نے جواب دیا مجھے نظر ہی نہیں آئیں۔ حالانکہ وہ سالن کے ساتھ ہی رکھی ہوئی تھیں 15۔
جناب بریلوی نسیان میں مبتلا تھے۔ ان کی یادداشت کمزور تھی۔ ایک دفعہ عینک اونچی کر کے ماتھے پر رکھ لی، گفتگو کے بعد تلاش کرنے لگے، عینک نہ ملی اور بھول گئے کہ عینک ان کے ماتھے پر ہے۔ کافی دیر تک پریشان رہے، اچانک ان کا ہاتھ ماتھے پر لگا تو عینک ناک پر آ کر رک گئی۔ تب پتہ چلا کہ عینک تو ماتھے پر تھی16۔
ایک دفعہ وہ طاعون میں مبتلا ہوئے اور خون کی قے کی 17۔ بہت تیز مزاج تھے 18۔
بہت جلد غصے میں آ جاتے۔ زبان کے مسئلے میں بہت غیر محتاط 19 اور لعن طعن کرنے والے تھے۔ فحش کلمات کا کثرت سے استعمال کرتے۔ بعض اوقات اس مسئلے میں حد سے زیادہ تجاوز کر جاتے اور ایسے کلمات کہتے کہ ان کا صدور صاحب علم و فضل سے تو درکنار،کسی عام آدمی کے بھی لائق نہ ہوتا۔
بریلویت کے موسس و مجدد جناب احمد رضا نہایت فحش اور غلیظ زبان استعمال کرتے تھے۔ ذیل میں ان کی غیر مہذبانہ زبان کے چند نمونے ذکر کئے جاتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب وقعات السنان میں رقمطراز ہیں :
ضربت مرداں دیدی نقمت رحمٰن کشیدی۔ تھانوی صاحب! اس دسویں کہاوی پر اعتراضات میں ہمارے اگلے تین پر پھر نظر ڈالئے۔ دیکھئے وہ رسلیا والے پر کیسے ٹھیک اتر گئے۔ کیا اتنی ضربات عظیم کے بعد بھی نہ سوجی ہو گی۔ (وقعات السنان ص 51مطبوعہ کراچی بحوالہ "شریعت حضرت محمد مصطفیٰ اور دین احمد رضا از ملک حسن علی بی اے علیگ)
"رسلیا کہتی ہے میں نہیں جانتی میری ٹھہرائی پر اتر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھوں تو اس میں تم میری ڈیڑھ گرہ کیسے کھولے لیتے ہو۔ (ایضاً)
"اف ہی رسلیا تیرا بھول پن۔ خون پونچھتی جا اور کہہ خدا جھوٹ کرے۔ (وقعات السنان ص 60)
"رسلیا والے نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنی دوشقی میں تیرا احتمال بھی داخل کر لیا۔ (وقعات السنان ص 27)
اپنی کتاب خالص الاعتقاد میں مولانا حسین احمد مدنی کے متعلق لکھتے ہیں :
"کبھی کسی بے حیاء ناپاک گھنونی سی گھنونی، بے باک سے بے باک۔ پاجی کمینی گندی قوم نے اپنے خصم کے مقابلے بے دھڑک ایسی حرکات کیں؟ آنکھیں میچ کر گندہ منہ پھاڑ کر ان پر فخر کئے؟انہیں سر بازار شائع کیا؟ اور ان پر افتخار ہی نہیں بلکہ سنتے ہیں کہ ان میں کوئی نئی نویلی، حیا دار،شرمیلی،بانکی،نکیلی،میٹھی،رسیلی،اچیل البیلی،چنچلانیلی،اجودھیابا شی آنکھ یہ تان لیتی اوبجی ہے
ناچنے ہی کو جو نکلے تو کہاں گھونگھٹ
اس فاحشہ آنکھ نے کوئی نیا غمزدہ تراشا اور اس کا نام "شہاب ثاقب" رکھا ہے۔ (خالص الاعتقاد ص 22)
اسی کتاب میں فرماتے ہیں :
"کفر پارٹی وہابیہ کا بزرگ ابلیس لعین۔ ۔ ۔ ۔ خبیثو! تم کافر ٹھہر چکے ہو۔ ابلیس کے مسخرے، دجال کے گدھے۔ ۔ ۔ ۔ ارے منافقو!۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہابیہ کی پوچ ذلیل، عمارت قارون کی طرح تحت الثریٰ پہنچتی نجدیت کے کوے سسکتے، وہابیت کے بوم بلکتے اور مذبوح گستاخ بھڑکتے۔ (خالص الاعتقاد ص 2تا20)
شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ کے متعلق فرماتے ہیں :
" سرکش ، طاغی ، شیطان ، لعین ، بندہ داغی " (الامن والعلی ص 112)
فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں :
"غیر مقلدین و دیوبندیہ جہنم کے کتے ہیں۔ رافضیوں (شیعہ) کو ان سے بدتر کہنا رافضیوں پر ظلم اور ان کی شان خباثت میں تنقیص ہے۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 2ص 90)
سبحان السبوح میں ارشاد کرتے ہیں :
"جو شاہ اسماعیل اور نذیر حسین وغیرہ کا معتقد ہوا، ابلیس کا بندہ جہنم کا کندہ ہے۔ غیر مقلدین سب بے دین، پکے شیاطین پورے ملاعین ہیں۔ (سبحان السبوح ص 134)
ان کے ایک معتقد بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ :
"آپ مخالفین کے حق میں سخت تند مزاج واقع ہوئے تھے اور اس سلسلے میں شرعی احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھتے تھے۔ 20"
یہی وجہ تھی کہ لوگ ان سے متنفر ہونا شروع ہو گئے۔ بہت سے ان کے مخلص دوست بھی ان کی عادت کے باعث ان سے دور ہوتے چلے گئے۔ ان میں سے مولوی محمد یٰسین بھی ہیں جو مدرسہ اشاعة العلوم کے مدیر تھے اور جنہیں جناب احمد رضا اپنے استاد کا درجہ دیتے تھے، وہ بھی ان سے علیحدہ ہو گئے۔ 21
اس پر مستزاد یہ کہ مدرسہ مصباح التہذیب جو ان کے والد نے بنوایا تھا، وہ ان کی ترش روئی، سخت مزاجی، بذات لسانی اور مسلمانوں کی تکفیر کی وجہ سے ان کے ہاتھ سے جاتا رہا اور اس کے منتظمین ان سے کنارہ کشی اختیار کر کے وہابیوں سے جا ملے۔ اور حالت یہ ہو گئی کہ بریلویت کے مرکز میں احمد رضا صاحب کی حمایت میں کوئی مدرسہ باقی نہ رہا۔ باوجودیکہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت وہاں اپنی تمام تر سرگرمیوں سمیت موجود تھے۔ 22
جہاں تک بریلوی حضرات کا تعلق ہے تو دوسرے باطل فرقوں کی مانند اپنے امام و قائد کے فضائل و مناقب بیان کرتے وقت بہت سی جھوٹی حکایات اور خود ساختہ کہانیوں کا سہارا لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بریلوی حضرات اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ جھوٹ کسی کی قدر و منزلت میں اضافے کی بجائے اس کی تذلیل اور استہزاء کا باعث ہوتا ہے۔
چنانچہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ:
"آپ کی ذہانت و فراست یہ عالم تھا کہ چار برس کی مختصر عمر میں، جس میں عموماً دوسرے بچے اپنے وجود سے بھی بے خبر ہوتے ہیں، قرآن مجید ناظرہ ختم کر لیا۔ آپ کی رسم بسم اللہ خوانی کے وقت ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے لوگوں کو دریائے حیرت و استعجاب میں ڈال دیا۔ حضور کے استاد محترم نے آپ کو "بسم اللہ الرحمن الرحیم" پڑھانے کے بعد الف،با،تا،پڑھایا۔ پڑھاتے پڑھاتے جب لام الف (لا) کی نوبت آئی تو آپ نے خاموشی اختیار فرما لی۔ استاد نے دوبارہ کہا کہ "کہو میاں لام الف" حضور نے فرمایا کہ یہ دونوں تو پڑھ چکے پھر دوبارہ کیوں؟
اس وقت آپ کے جد امجد مولانا رضا علی خان صاحب قدس سرہ العزیز نے فرمایا "بیٹا استاد کا کہا مانو۔ "
حضور نے ان کی طرف نظر کی۔ جد امجد نے اپنی فراست ایمانی سے سمجھ لیا کہ بچے کو شبہ ہے کہ یہ حرف مفردہ کا بیان ہے۔ اب اس میں ایک لفظ مرکب کیوں آیا؟ اگر بچے کی عمر کے اعتبار سے اس راز کو منکشف کرنا مناسب نہ تھا، مگر حضرت جد امجد نے خیال فرمایا کہ یہ بچہ آگے چل کے آفتاب علم و حکمت بن کر افق عالم پر تجلی ریز ہونے والا ہے، ابھی سے اسرار و نکات کے پردے اس کی نگاہ و دل پر سے ہٹا دئیے جائیں۔ چنانچہ فرمایا:"بیٹا تمہارا خیال بجا و درست ہے، لیکن پہلے جو حرف الف پڑھ چکے ہو وہ دراصل ہمزہ ہے اور یہ الف ہے۔، لیکن الف ہمیشہ ساکن ہوتا ہے اور ساکن کے ساتھ چونکہ ابتداء ناممکن ہے، اس لئے ایک حرف یعنی لام اول میں لا کر اس کی ادائیگی مقصود ہے۔ حضور نے اس کے جواب میں کہا تو کوئی بھی حرف ملا دینا کافی تھا، لام ہی کی کیا خصوصیت ہے؟ با،تا،دال اور سین بھی شروع میں لا سکتے تھے۔
جد امجد علیہ الرحمہ نے انتہائی جوش محبت میں آپ کو گلے لگا لیا اور دل سے بہت سی دعائیں دیں۔ پھر فرمایا کہ لام اور الف میں صورتاً خاص مناسبت ہے۔ اور ظاہراً لکھنے میں بھی دونوں کی صورت ایک ہی ہے۔ لایا لا اور سیرت اس وجہ سے کہ لام کا قلب الف ہے اور الف کا قلب لام"۔ 23
اس بے معنی عبارت کو ملاحظہ فرمائیے۔ اندازہ لگائیں کہ بریلوی حضرات چار برس کی عمر میں اپنے اعلیٰ حضرت کی ذہانت و فراست بیان کرنے میں کس قسم کے علم کلام کا سہارا لے رہے ہیں اور لغو قسم کے قواعد و ضوابط کو بنیاد بنا کر ان کے ذریعہ سے اپنے امام کی علمیت ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
خود اہل زبان عرب میں سے تو کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس لا یعنی قاعدے کو پہچان سکے اور اس کی وضاحت کر سکے۔ لیکن ان عجمیوں نے الف اور لام کے درمیان صورت و سیرت کے لحاظ سے مناسبت کو پہچان کر اس کی وضاحت کر دی۔
دراصل بریلوی قوم اپنے امام کو انبیاء ا ور رسل سے تشبیہ ہی نہیں، بلکہ ان پر افضلیت دینا چاہتی ہے اور یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ ان کے امام و قائد کو کسی کی طرف سے تعلیم دینے کی ضرورت نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا سینہ علوم و معارف کا مرکز و محیط بن چکا تھا اور تمام علوم انہیں وہبی طور پر عطا کیے جا چکے تھے۔ اس امر کی وضاحت نسیم بستوی کی اس نص سے بھی ہو جاتی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں :
"عالم الغیب نے آپ کا مبارک سینہ علوم و معارف کا گنجینہ اور ذہن و دماغ و قلب و روح کو ایمان و یقین کے مقدس فکر و شعور اور پاکیزہ احساس و تخیل سے لبریز فرما دیا تھا۔ لیکن چونکہ ہر انسان کا عالم اسباب سے بھی کسی نہ کسی نہج سے رابطہ استوار ہوتا ہے، اس لیے بظاہر اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ (معاذ اللہ) کو بھی عالم اسباب کی راہوں پر چلنا پڑا۔ (انوار رضا ص 55 بستوی ص 27)24
یعنی ظاہری طور پر تو جناب احمد رضا صاحب نے اپنے اساتذہ سے اکتساب علم کیا مگر حقیقی طور پر وہ ان کی تعلیم کے محتاج نہ تھے، کیونکہ ان کا معلم و مربی خود رب کریم تھا۔
جناب بریلوی خود اپنے متعلق لکھتے ہیں :
"درد سر اور بخار وہ مبارک امراض ہیں جو انبیاء علیہم السلام کو ہوتے تھے۔
آگے چل کر لکھتے ہیں :
"الحمد للہ کہ مجھے اکثر حرارت اور درد سار رہتا ہے۔ 25
جناب احمد رضا یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ان کی جسمانی کیفیت انبیاء کرام علیہم السلام سے مشابہت رکھتی ہے۔ اپنی تقدیس ثابت کرنے کے لیے ایک جگہ فرماتے ہیں :
"میری تاریخ ولادت ابجدی حساب سے قرآن کریم کی اس آیت سے نکلتی ہے جس میں ارشاد ہے :
( اولٰئک کتب فی قلوبھم الایمان و ایدھم بروح منہ )
یعنی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے ایمان لکھ دیا ہے اور ان کی روحانی تائید فرما دی ہے۔ "26
نیز ان کے بارے میں ان کے پیروکاروں نے لکھا ہے :
"آپ کے استاد محترم کسی آیت کریمہ میں بار بار زبر بتا رہے تھے اور آپ زیر پڑھتے تھے۔ یہ کیفیت دیکھ کر حضور کے جد امجد رحمہ اللہ علیہ نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا اور کلام مجید منگوا کر دیکھا تو اس میں کاتب کی غلطی سے اعراب غلط لکھا گیا تھا۔ یعنی جو زیر حضور سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کی زبان حق ترجمان سے نکلتا ہے، وہی صحیح اور درست تھا۔ پھر جد امجد نے فرمایا کہ مولوی صاحب جس طرح بتاتے ہیں اسی کے مطابق پڑھوں، مگر زبان پر قابو نہ پاتا تھا۔ 27
نتیجہ یہ نکلا کہ "اعلیٰ حضرت" صاحب کو بچپن سے ہی معصوم عن الخطاء کا مقام و مرتبہ حاصل تھا۔ بریلوی حضرات نہ صرف یہ کہ مختلف واقعات بیان کر کے اس قسم کا نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں، بلکہ وہ اپنے امام وبانی کے متعلق صراحتاً اس عقیدے کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ عبدالکریم قادری صاحب لکھتے ہیں :
"اعلیٰ حضرت کی قلم و زبان ہر قسم کی لغزش سے محفوظ تھی۔ اور باوجودیکہ ہر عالم کی کوئی نہ کوئی لغزش ہوتی ہے، مگر اعلیٰ حضرت نے ایک نقطے کی غلطی بھی نہیں کی۔ 28"
ایک دوسرے صاحب لکھتے ہیں :
"اعلیٰ حضرت نے اپنی زبان مبارک سے کبھی غیر شرعی لفظ ادا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر قسم کی لغزشوں س محفوظ رکھا۔ 29"
نیز یہ کہ :
"اعلیٰ حضرت بچپن ہی سے غلطیوں سے مبرا تھے۔ صراط مستقیم کی اتباع آپ کے اندر ودیعت کر دی گئی تھی۔ 30
انوار رضا میں ایک صاحب بڑے برملا انداز میں تحریر فرماتے ہیں :
"اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلم اور زبان کو غلطیوں سے پاک کر دیا تھا۔ 31"
مزید کہا جاتا ہے :
"اعلیٰ حضرت غوث اعظم کے ہاتھ میں اس طرح تھے جیسے کاتب کے ہاتھ میں قلم، اور غوث اعظم رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ میں اس طرح تھے جیسے کاتب کے ہاتھ میں قلم۔ اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وحی کے سوا کچھ ارشاد نہ فرماتے تھے۔ 32"
ایک بریلوی شاعر اپنے اعلیٰ حضرت کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں
ہے حق کی رضا احمد کی رضا
احمد کی رضا مرضی رضا(٣٣)
ان کے ایک اور پیروکار لکھتے ہیں :
"اعلیٰ حضرت کا وجود اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھا۔ 34"
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا ایک گستاخ اپنے امام و راہنما کے بارے میں کہتا ہے :
"اعلیٰ حضرت کی زیارت نے صحابہ کرام کی زیارت کا شوق کم کر دیا ہے "۔ 35
مبالغہ آرائی کرتے وقت عموماً عقل کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایک بریلوی مصنف اس کا مصداق بنتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :"ساڑھے تین سال کی عمر شریف کے زمانے میں ایک دن اپنی مسجد کے سامنے جلوہ افروز تھے کہ ایک صاحب اہل عرب کے لباس میں تشریف لائے اور آپ سے عربی زبان میں گفتگو فرمائی۔ آپ نے ( ساڑھے تین برس کی عمر میں ) فصیح عربی میں ان سے کلام کیا اور اس کے بعد ان کی صورت دیکھنے میں نہیں آئی۔ 36"
ایک صاحب لکھتے ہیں :
ایک روز استاد صاحب نے فرمایا:احمد میاں تم آدمی ہو کہ جن؟ مجھے پڑھاتے ہوئے دیر نہیں لگتی ہے، لیکن تمہیں یاد کرتے دیر نہیں لگتی۔ دس برس کی عمر میں ان کے والد، جو انہیں پڑھاتے بھی تھے، ایک روز کہنے لگے تم مجھ سے پڑھتے نہیں بلکہ پڑھاتے ہو۔ 37" یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان کا استاد مرزا غلام قادر بیگ مرزا غلام احمد قادیانی کا بھائی تھا۔ 38 جناب بستوی صاحب کم سنی میں اپنے امام کے علم و فضل کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
14 برس کی عمر میں آپ سند و دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے۔ اسی دن رضاعت کے ایک مسئلے کا جواب لکھ کر والد ماجد قبلہ کی خدمت عالی میں پیش کیا۔ جواب بالکل درست (صحیح) تھا۔ آپ کے والد ماجد نے آپ کے جواب سے آپ کی ذہانت و فراست کا اندازہ لگا لیا اور اس دن سے فتویٰ نویسی کا کام آپ کے سپرد کر دیا۔ "
اس سے پہلے آٹھ سال کی عمر مبارک میں آپ نے ایک مسئلہ وراثت کا جواب تحریر فرمایا:۔
"واقعہ یہ ہوا کہ والد ماجد باہر گاؤں میں تشریف فرما تھے۔ کہیں سے سوال آیا، آپ نے اس کا جواب لکھا اور والد صاحب کی واپسی پر ان کو دکھایا۔ جسے دیکھ کر ارشاد ہوا معلوم ہوتا ہے یہ مسئلہ امن میاں (اعلیٰ حضرت)نے لکھا ہے۔ ان کو ابھی نہ لکھنا چاہئے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ہمیں اس جیسا کوئی بڑا مسئلہ کوئی لکھ کر دکھائے تو جانیں۔ 39"
اس نص سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اعلیٰ حضرت صاحب نے آٹھ برس کی عمر میں فتویٰ نویسی کا آغاز کر دیا تھا۔ مگر خود اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں :
"سب سے پہلا فتویٰ میں نے 1286ء میں لکھا تھا، جب میری عمر 13 برس تھی۔ اور اسی تاریخ کو مجھ پر نماز اور دوسرے احکام فرض ہوئے تھے۔ 40"
یعنی بستوی صاحب فرما رہے ہیں کہ اعلیٰ حضرت نے آٹھ برس کی عمر میں ہی وراثت جیسے پیچیدہ مسئلے کے متعلق فتویٰ صادر فرما دیا تھا جب کہ خود اعلیٰ حضرت صاحب اس کی تردید کرتے ہوئے ارشاد فرما رہے ہیں کہ میں نے سب سے پہلا فتویٰ 13 برس کی عمر میں دیا تھا۔ "
اس سے بھی زیادہ لطف کی بات یہ ہے کہ بریلوی حضرات کا یہ دعویٰ ہے کہ جناب احمد رضا بریلوی صاحب نے 14 برس کی عمر میں ہی تعلیم مکمل کر کے سند فراغت حاصل کر لی تھی۔ 41
مگر کئی مقامات پر خود ہی اس کی تردید بھی کر جاتے ہیں۔ چنانچہ حیات اعلیٰ حضرت کے مصنف ظفر الدین بہاری لکھتے ہیں : "اعلیٰ حضرت نے مولانا عبدالحق خیر آبادی سے منطقی علوم سیکھنا چاہے، لیکن وہ انہیں پڑھانے پر راضی نہ ہوئے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی کہ احمد رضا مخالفین کے خلاف نہایت سخت زبان استعمال کرنے کے عادی ہیں۔ 42"
بستوی صاحب کہتے ہیں کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب ان کی عمر 20 برس تھی۔ 43
اسی طرح بریلوی صاحب کے ایک معتقد لکھتے ہیں :
اعلیٰ حضرت نے سید آل رسول شاہ کے سامنے 1294ھ میں شرف تلمذ طے کیا اور ان سے حدیث اور دوسرے علوم میں سند اجازت لی۔ 44"
ظفر بہاری صاحب کہتے ہیں :
"آپ نے سید آل رسول شاہ کے بیٹے ابوالحسین احمد سے 1296ھ میں بعض علوم حاصل کیے۔ 45"
بہرحال ایک طرف تو بریلوی حضرات یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ احمد رضا 13 برس یا 14 برس کی عمر میں ہی تمام علوم سے فارغ ہو چکے تھے، دوسری طرف بے خیالی میں اس کی تکذیب بھی کر رہے ہیں۔ اب کسے نہیں معلوم کہ 1272ھ یعنی احمد رضا صاحب کی تاریخ پیدائش اور 1296ھ میں بھی بعض علوم حاصل کیے ہوں تو 14 برس کی عمر میں سند فراغت کے حصول کا کیا معنی ہے؟ مگر بہت دیر پہلے کسی نے کہہ دیا تھا
"لا ذاکرۃ لکذّاب" یعنی "دروغ گورا حافظہ نبا شد۔ (جھوٹے کا حافظہ نہیں ہوتا)