• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بریلویوں کا شکوہ اہلحدیثوں سے - آپ کا اس بارے میں کیا کہنا ہیں

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
شکوہ نمبر - 4 - آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں
Hsn Prince آپ کے تمام سوال اس فورم پر پوسٹ کر دیئے ہیں آپ اس فورم پر اپنا اکاونٹ بنائے اور اپنی قیمتی علم سے ھمیں بھی نوازے - فورم ضرور جوائنٹ کریں - جزاک اللہ
یہ روایت بھی ضعیف ہے ۔
اس کےتینوں حوالوں کی حقیقت مسند احمد ( طبعۃ الرسالۃ )کے محققین نے واضح کردی ہے کہتے ہیں :



إسناده ضعيف لجهالة داود بن أبي صالح، وكثير بن زيد مختلف فيه، حسَّن القول فيه جماعة، وضعَّفه آخرون، وفي متنه نكارة.
وأخرجه الحاكم 4/515 من طريق أبي عامر عبد الملك بن عمرو، بهذا الإسناد. وصحَّحه!
وأخرجه الطبراني في "الكبير" (3999) ، وفي "الأوسط" (286) و (3962) من طريق حاتم بن إسماعيل، عن كثير بن زيد، عن المطلب بن عبد الله بن حنطب قال: قال أبو أيوب الأنصاري ... فذكره دون قصة. وشيخ الطبراني فيه: أحمد ابن رشدين المصري، وهو ضعيف


اس عبارت کا خلاصہ یا مفہوم یوں ہے :
مسند احمد :
کی سند میں دو علتیں ہیں :
داؤد بن ابی صالح راوی مجہول ہے ۔ اور مجہول کی روایت ناقابل قبول ہوتی ہے ۔
اس کی سند میں ایک راوی کثیر بن زید مختلف فیہ ہے ۔
مستدرک حاکم :
میں بھی یہ روایت اسی سند کے ساتھ ہے یعنی اس کے اندر بھی کثیر بن زید اور داؤد بن أبی صالح ہیں ۔ گویا اس کی وجہ ضعف بھی وہی ہے جو مسند احمد والی حدیث میں ہے ۔
طبرانی کا حوالہ :
ایک تو اس میں طبرانی کا شیخ احمد بن رشدین ضعیف ہے ۔
دوسرا اس میں قبر والے قصے کا ذکر ہی نہیں ہے ۔
تیسرا اس میں کثیر بن زید مختلف فیہ راوی بھی ہے ۔
چوتھا اس میں مطلب بن عبد اللہ مدلس راوی ہے اور اس نے تصریح بالسماع نہیں کی ۔
یہ آخری بات کا اضافہ ابن حجر کی تقریب التہذیب کی عبارت ’’ صدوق کثیر التدلیس والإرسال ‘‘ کی بنیاد پر کیا گیا ہے ۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
شکوہ نمبر - 4 - آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں
Hsn Prince آپ کے تمام سوال اس فورم پر پوسٹ کر دیئے ہیں آپ اس فورم پر اپنا اکاونٹ بنائے اور اپنی قیمتی علم سے ھمیں بھی نوازے - فورم ضرور جوائنٹ کریں - جزاک اللہ
شکوہ نمبر 4 کا جواب:-

اس حدیث کی سند سے قطع نظر کر کے دیکھا جائے تو اس میں بھی نبی ﷺ سے دعا کرنے یا مدد مانگنے کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ حضرت معاویہ کے دور میں فتنے دیکھ کر حضرت ابو ایوب انصاری کو نبی ﷺ کا مبارک دور یاد آتا تھا جب کوئی فتنہ نہیں تھا۔ غالب یہی ہے کہ اسی دور کی یاد کو تازہ کرنے کے لیےاور اپنی دل کو تسلی دینے کے لیے حضرت ابو ایوب انصاری نبی ﷺ کی قبر پر آئے ہونگے۔ اگر حضرت ابو ایوب انصاری کو نبی ﷺ سے دعا ہی کرنی تھی تو وہ نبی ﷺ کی قبر پر آنے کی بجائے کہیں سے بھی نبی ﷺ سے دعا کر سکتے تھے جبکہ ایک خاص طبقہ کے من گھڑت عقیدے کے مطابق نبی ﷺ تو '' حاظر و ناظر '' ہیں۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص علامہ اقبال کی قبر پر جا کے موجودہ دور میں انقلابی شاعر نہ ہونے پر علامہ اقبال کے کارناموں کو یاد کر کے روئے۔ اس سے یہ بات کہاں سے نکلتی ہے کہ وہ علامہ اقبال کو واسطہ بنا کے اللہ سے فریاد کر رہا ہے۔
لہذا اس حدیث کا بھی نبی ﷺ سے انکی وفات کے بعد انکی قبر پر مدد کی دعا کرنا ثابت نہیں ہوتا۔
 
Top