• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بنات الصلیب

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
چنگیز خان کی بیویاں
تثلیث کے پرستاروں نے روزِ اوّل سے تاتاریوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کی ٹھانی تھی اور اس سلسلے میں انہوں نے اپنی لڑکیوں سے نہایت پُر اثر کردار ادا کرایا چین کی شمالی حدود پر بسنے والے کرائت Kiraet ترک مدتوں پہلے دینِ مسیحی کو قبول کرچکے تھے ۔ اوغور Uighar ایک دوسرا تاتاری قبیلہ بھی عیسائی تھا۔ منگولوں میں اور قبیلے بھی اپنے ہم زبان ، ہم تہذیب، ہم نسل اور رات دن روابط رکھنے والے ان ترک قبائل سے متاثر تھے ۔ تاوانگ خان اعظم کی مثال اورمسلمانوں کو مفتوح کرنے کا پروگرام چنگیز خان کو اپنے اس پیشرو سے ملا تھا ادھر پڑوسی ملکوں کے عیسائی فرمانرئواں نے اپنی لڑکیاں منگول خاقان کو بیاہ دی تھیں۔ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی کو جس میں مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹاڈالنا شامل تھا پوری تندہی کے ساتھ ادا کررہی تھیں چنگیز خان کا مسلمانوں پر ناقابلِ مثال تشدد ان عیسائی دوشیزائوں کی کوششوں کا رہینِ منت ہے ۔
آرمینیا کے بادشاہ ہتین کی بیٹیاں
Daughters of King Hayton Armenia
Preaching of Islam کے مصنف W-T-Arnold کے قول کے مطابق آرمینیا کے بادشاہ کی دو بیٹیاں چنگیز خان کے پوتے اورتلوئی خان Tului Khan کے بیٹے منگو خان کے عقد میں تھیں ۔ اوّل تو یہ خود متعصب سیر ککتیتی بیگی کا بیٹا تھا اور پھر اس کی یہ دونوں بیگمات اس خاقان کو مسلمانوں کے خلاف اُکسانے میں کوئی موقع جانے نہ دیتی تھیں ۔منگولوں کے ہاتھوں اہلِ اسلام کی تباہی کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
دوکوز خاتون Dokuz Khatoon
یہ مسلمانوں کے مشہورقاتل ہلاکوخان کی بیوی تھی کٹّر ایسی کہ فوج کے ساتھ اس کا گرجا Taber Nacle بھی ایک خیمے میں اس کے ساتھ چلتا تھا۔ہلاکوخان کو ایران اور بغداد کی مہم پرروانہ کرتے وقت خاقان کی ہدایت تھی کہ شاہزادی دوکوز خاتون کے مشورہ کے بغیر کوئی کام نہ کیا جائے اس کے مشورہ پر منگول فوج میں کلیدی عہدے عیسائیوں کے پاس تھے ۔ہمسایہ ملکوں کے عیسائی حکمرانوں کی بھیجی ہوئی آرمنی، یونانی ، کاکیشی، رومی عیسائیوں پر مشتمل افواج منگول میں شامل تھیں۔ مشہور کت بوغا Kit Bogha عیسائی سردار ایک اہم فوجی حصہ کی کمان کررہا تھا اسلام کا نام لینے والوں کے لیے سخت عذاب کا سامان تھا اور یہ سب کچھ اپنے مذہب پر دیوانی دوکوز خاتون کے حکم پر ہورہا تھا۔ ایران اوربغداد کی تباہی کا ذمہ دار ہلاکوخان تھا لیکن یہ سب اسی دوکوز خاتون کے اشارے پر اس کے مذہبی جنون کی تسکین کے لیے کیاگیا اور لاکھوں مسلمان نہایت بے دردی کے ساتھ تہہ تیغ کیے گئے سینکڑوں بستیاں جن میں عروس البلاد بغداد شامل ہے پیوندِ خاک کی گئیں۔اس عیسائی شاہزادی سے مسیحی دنیا کو بہت توقعات وابستہ تھیں وہ اسے صلیب کا سب سے بڑا علمبردار سمجھ رہے تھے جب دوکوز خاتون کا انتقال ہوا تو تمام مسیحی دنیا میں صفِ ماتم بچھ گئی کہ آج مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کا آخری اور سب سے زبردست سہارا ختم ہوگیا اس کے بعد مشرق میں عیسائیت کے فروغ اور بیت المقدس کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے لینے کی کوششیں ماند پڑگئیں۔
ماریا Maria
قسطنطنیہ کے رومی شہنشاہ کی بیٹی ہلاکوخان کے بیٹے اباکا خان کے عقد میں آئی اباکا خان بعد میں ایران اور بغداد وغیرہ میں خاقان کا نائب الخان Al-Khan مقرر ہوا۔ اس نے تمام عیسائی ملکوں میں سفارتیں بھیج کر کوشش کی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف اس سے تعاون کریں اور مدد دیں۔ وہ ۱۲۸۱ء میں اسلامی دنیا کی واحد بچی کھچی حکومت مصر پر حملہ آور ہوا اس کی فوج میں آرمنی ، جارجیائی سپاہ جو عیسائی ملکوں سے آئیں موجود تھیں ۔ان تمام محاربات میں بادشاہ کی عیسائی بیوی متذکرہ الصدر ماریا نے محمد ﷺ کے متبعین کے خلاف کچھ کم کوششیں نہ کی ہوںگی۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
نوگائی کی بیوی Nogai's Wife
تاتاریوں میں جو پہلا شخص حلقہ بگوشِ اسلام ہو اوہ روس کا فرمانروا برکائی خان تھا یہی برکائی خان تھا جس نے اسلامیانِ عالم کی بچی ہوئی سلطنت مصر کو جو اپنی زندگی کے آخری سانس لے رہی تھی ہلاکوخان کے قہر وغضب سے محفوظ رکھا اور عملاً مصر کی مدد یوں کی کہ ہلاکو خان پر جس وقت وہ مصر کی طرف یلغار کررہا تھا پشت سے حملہ کیا اور شکست دی ۔ اب اگر مصر بھی ختم ہوجاتا تو دنیا میں کوئی اسلامی سلطنت باقی نہ رہتی اس طرح برکائی خان نے دنیائے اسلام پر احسانِ عظیم کیا اس محسنِ اسلام کا انتقال ۱۴۷۶ء میں ہوگیا ۔ اس کا وہ سپہ سالار جس نے ہلاکوخان کو کوہِ قاف Caucasus میں شکست دے کر پیچھے دھکیل دیا تھا اس کا نام نوگائی تھا اس کی بیوی ایک بازنطینی دوشیزہ تھی اس کے مشورہ پر سردار روسی اسلامی سلطنت سے ٹوٹ گیا اور اپنی خودمختار سلطنت قائم کرلی ۔ بس یہیں سے اسلامی روس کی حکومت کا زوال شروع ہوگیا ۔یوں آئندہ چل کر یہ اسلامی سلطنت کمزور ہوگئی اور عاقبت کار زارِ روس نے اس کا خاتمہ کردیا ۔ اس طرح وسطِ ایشیا کی مسلمان حکومتیں اپنے زیرِ نگیں کرکے اورٹرکی پر خفیہ معاہدوں کے ذریعہ دستِ تصرف دراز کرکے زارِ روس اسلام کا نام صفحۂ ہستی سے مٹانے والا تھا کہ لینن کی کمیونسٹ حکومت نے وہ خفیہ معاہدات شائع کردیے۔ دیکھا آپ نے اس نصرانیہ نے اسلام کو زک دینے کے لیے کیسی پالیسی چلی تھی ۔
]سلطنت عثمانیہ کے زوال کا باعث بننے والی نصرانی خواتین[
اس کے بعد سلطنتِ عثمانی ترکیہ میں لا تعداد نصرانی خواتین حرمِ سلطانی میں داخل ہوئیں ا ن کی سرگرمیاںمنظرِ عام پر نہ آسکیں لیکن سابقہ عیسائی عورتوں کے کرتوت اور ان کے عمائدین کے منصوبہ سامنے رکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کیا کچھ گل نہ کھلائے ہونگے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ موجودہ دور سے پہلے جو ترکی یورپ کے مردِ بیمار کے نام سے موسوم اور دنیا کی ایک بڑی سلطنت سے گھٹ کر اب صرف ایشیائے کوچک کے جزیرہ نما تک محدود ہوا، وہ ان عیسیٰ( علیہ السلام ) کی بھیڑوں کی ساحرانہ ترکیبوں کا نتیجہ ہو ۔ ذیل میں ان صلیب کی پرستار خواتین کی فہرست ہے جو ترکی سلاطین کے حرم میں آئیں وہ یورپ کے شاہی خاندانوں کی شاہزادیاں تھیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ادر خان ۱۴۸۸ء نیلوفر لارڈ آف ہر حصار
تھیڈورا اسٹیفن اوروش چہارم
تھیوڈورا ماریا جان چہارم کانٹا کازینس خلیل ۱۳۴۷ء
آرین جان پنجم پیلالوگس مراد ۱۳۲۶ء
لڑکی جان پنجم پیلالوگس
تمارامارا جان الیگزنڈر دویم
لڑکی قسطنطین لارڈ آف کوسٹنسڈل
یعقوب۱۳۸۹ء
لڑکی
قسطنطین فادریق
لڑکی
جان بلالوگس
بایزید اوّل ۱۳۶۰ء
انجلینا
ماریا
لوئیس فادریق
لڑکی
قسطیطین
ڈسپنا ماریا اولیویرا
لازارِ اوّل
ماریا
لوئیس فادریق کائونٹ آف سالونا
لڑکی
جان پنجم پیلالوگس
عیسیٰ امیر ۱۴۰۴ء
لڑکی
جان ٹینٹرس
موسیٰ امیر ۱۴۱۳ء
لڑکی
مرچیا گریٹ آف ویلانچیا
سلیمان امیر ۱۴۱۱ء
لڑکی
جان تھیوڈور پیلالوگس
مراد دویم ۱۴۰۴ء
مارا
جارج برانکووچ
محمد پاشا ۱۴۶۰ء
انناکمیئس
محمد دویم ۱۴۳۲ء
اننا
پائولواریزد
آیرین
اننا
ڈیوڈ کمیئس
ہیلن
ڈیمٹریس پیلالوگس
ماریا
ڈور ینو اوّل گائیلوزیو
لڑکی
ڈور ینو اوّل گائیلوزیو
تمارا
جارج فرانٹزز
اکیدی
سلیمان اوّل ۱۴۹۴ء
حوریم دخسانہ لاروزا روسی

سلیمان دویم ۱۵۲۴ء
نوربانو
ونیر بانو
محمد چہارم ۱۶۴۴ء
رابعہ گلنوس امت اللہ
ورزیزی
مصطفی دوم ۱۶۶۴ء
اننا صوفیہ دیپاچ
عبد الحمید اوّل
نقش ول
عبد الحمید اوّل
گل استو
مرچم آباذا
جم اوّل ۱۷۷۲ء
ہیلن ڈی ساسے ناگ فرانسیسی
عبد الحمید اوّل
پیتر مژگاں
امیر موسیٰ
مرچیا آف والانجیبا
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مندرجہ ذیل فہرست ان نصرانی خواتین کی ہے جن کے بطن سے ترکی پرحکومت کرنے والے سلاطین پیدا ہوئے:
نیلوفر والدہ مراد اوّل۔ گل چیچک والدہ بایزید اوّل۔ حریم والدہ سلیم دویم ۔ نوربانو والدہ مراد سوم ۔ ماہ فیروز والدہ عثمان دویم ۔ کوسم پاہ بیکر والدہ مراد چہارم ۔ کوسم ماہ پیکر والدہ ابراہیم ۔ ترخان خدیجہ والدہ محمد چہارم ۔ رابعہ گلنوس والدہ مصطفی دویم ۔ رابعہ گلنوس والدہ احمد سوم ۔ شہسوار والدہ عثمان ۔ مہرشاہ والدہ سلیم سوم ۔ بزم عالم والدہ عبد المجید اوّل ۔ سیوک افزا والدہ مراد پنجم ۔ تیز مژگاں والدہ عبد المجید دویم ۔ گلستو والدہ محمد چہارم ۔
اکبرِ اعظم کی عیسائی بیوی
پُرتگال والوں نے پندرہویں صدی میں اپنے مفتوحہ علاقے کے مسلمانوں پر جو کچھ مظالم ڈھائے اور انہیں کس طرح زبردستی بزورِ شمشیر عیسائی مذہب قبول کرنے پر مجبور کیا اور خانۂ کعبہ کو فتح کرنے کے کیسے کیسے منصوبے بنائے وہ اس موضوع سے باہر ہیں ایسے لوگ جو مذہبی عصبیت میں اتنے بڑھ گئے ہوں کہ عیسائیت کی تبلیغ کے لیے بڑے سے بڑا ظلم ذریعۂ نجات سمجھتے ہوں اور جن کا مشرق کے ممالک کو دریافت کرنے کا محرک صرف جذبۂ تبلیغ ہو یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ انہوں نے اکبرِ اعظم کو اپنے ایک شاہی خاندان کی بیٹی کس نیت سے دی ہوگی ۔ ایسی ہی عورتوں نے اکبرکو بے دین بنایا تھا۔
ملکہ وکٹوریہ Queen Victoria
انگریز جب ہندوستان میں وارد ہوئے تو یہاں کی درباری اور تہذیبی زبان فارسی تھی یہ مسلمانوں کی زبان تھی ، اس میں ان کا مذہبی سرمایہ تھا نہ صرف یہاں بلکہ ٹرکی ، ایران ، افغانستان ، بخارا، تاشقند ، سمر قند، بارقند غرضیکہ پورے وسطِ ایشیا میں فارسی رائج تھی یعنی یہ کہ فارسی نصف اسلامی دنیا کی لنگوافرنیکا تھی اس کے ذریعہ ہمارا اسلام اور اسلامی دنیا سے رابطہ قائم تھا اور پھر یہ زبان شیرینی اور وسعت میں آج کی ترقی یافتہ اردو سے بھی زیادہ تھی اور اس وقت تو اردو نے اچھی طرح جنم بھی نہ لیا تھا۔ مسلمان فارسی سے والہانہ محبت کرتے تھے ۔ ابھی کل تک غالبؔ اور اقبالؔ کے دوائین فارسی میں لکھے گئے اس پر انہیں فخر بھی تھا اور انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ بھی ان پر صرف کیا ایک ترقی یافتہ زبان کو ترک کرکے نئی زبان تشکیل کرنے کی مسلمانوں کو کیا ضرورت پڑی تھی ۔ آئیے دیکھیں کہ یہ ضرورت کس کی تھی اورکس نے کوشش کرکے نئی زبان کی بنیاد ڈالی اور ترقی دی کوئی زبان اس وقت زبان کہلانے کی مستحق ہوتی ہے جب لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسے بول چال میں استعمال کرے اور اگر یہ نہ ہوتو سنسکرت کی طرح مردہ زبان شمار ہوتی ہے ۔ بول چال کی زبان کے لیے اس زبان کی نثر کا ہونا ضروری ہے صرف نظم کا کتابوں میں تحریر ہونا کافی نہیں۔ انگریزوں کے آنے سے پہلے اردو زبان میں نظم کی کتابیں تو تھیں نثر کی نہ تھیں اور یہ اس وقت تک تعلیم یافتہ طبقے کی زبان بھی نہ تھی ۔ انگریز افسر جان گلکرسٹ نے قلعہ فورٹ ولیم کلکتہ میں پہلی اردو کی نثر کی کتاب ’’ باغ و بَہار‘‘ میرامّن سے لکھوائی اور یہ اندازہ کیا کہ اس نئی زبان میں مقبولِ عام ہونے کی کتنی صلاحیت ہے ۔نتیجہ ہمّت افزا نکلا تو فوراً انجیل مقدس کا ترجمہ اس نئی زبان میں کرایا گیا یہی ان کا مطمعِ نظر تھا ، عیسائیت کی تبلیغ کے لیے اس کی ضرورت تھی۔ کہتے ہیں ملکہ وکٹوریہ کی سلطنت میں کبھی سورج نہ چھپتا تھایعنی یہ کہ اس کی سلطنت پورے کرئہ ارض پر پھیلی ہوئی تھی اور بات بھی صحیح ہے اس وسیع مملکت میں تقریباً پانچ سو زبانیں بولی جاتی تھیں، اس میں علمی اورترقی یافتہ بھی کئی زبانیں تھیں ۔لیکن ملکہ وکٹوریہ نے ان پانچ سو زبانوں کو چھوڑ کر اس نئی ایجاد کردہ زبان کو جس کا دامن ابھی بالکل خالی تھا سیکھنے کے لیے انتخاب کیا ۔آگرہ سے مولوی عبد الکریم کو صرفِ کثیر کے بعد بلوایا گیا ۔ میں نے ایک تصویر دیکھی جس میں ملکہ معظمہ مولوی صاحب کو انجیلِ مقدس تحفہ میں دے رہی ہیں ۔یہ بات سب جانتے ہیں کہ کسی فرمانروائے ملک کا ہر فعل ذاتی شوق کے لیے نہیں سیاسی ضرورت کے لیے ہوتا ہے زبان اردو سیکھ کر انگلستان میں رہتے ہوئے اظہارِ خیال کے لیے یا مصاحبین سے تبادلۂ خیال کے لیے تو ملکہ موصوفہ کو اردو کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ یہ زبان علمی بھی نہ تھی صاف ظاہر ہے کہ مقصد سیاسی تھا ، اس کو سیکھنے کی لوگوں کو ترغیب دینی تھی ۔ آخر کیوں؟
۱۸۳۷ء میں ملکہ وکٹوریہ تختِ سلطنت پر جلوہ افروز ہوئیں اسی سن میں برّصغیر پاک وہند سے فارسی کا دیش نکالا شروع ہوا یعنی ہندوستان کی حکومت انگلشیہ کی عدالتوں سے فارسی زبان کا اخراج اور اردو کی ترویج عمل میں لائی گئی ۔ تمام دنیا کے مؤرخین بشمول ماجمدار، جواہر لعل نہرو اور سر مارٹیمبر وہیلر اس امر پر متفق ہیں کہ تیرہویں صدی سے پیشتر ہندوئو ں کی کوئی تاریخ نہیں ۔ ہندوستان کی صحیح تاریخ مسلمانوں کی آمد کے بعد کی ہے اس سے پہلے یہاں جو کچھ تھا وہ ہندوئوں کی دیو مالا تھی ۔ انسائیکلوپیڈیا آف انڈیا Encyclopedia of India کے مصنف ایڈورڈ بالفور Edward Balfour کی تحقیق کے مطابق اس دور میں غیر مسلم اقوام گھیٹو Ghetoo کہلاتی تھیں۔’’ہندو‘‘نام مسلمانوں کا آوردہ تھا اور کسی مذہب یا قوم کا نام نہ تھا۔ انگریزوں نے ہندو قوم کی تخلیق کی ، اٹھارویں صدی کے اختتام پر سر ولیم جونز Sir William Jones ہائی کورٹ کا جج تھا وہ پہلا شخص ہے جس نے ’’ آریہ قوم ‘‘ کے متعلق اپنی دریافت شائع کی ( یہ نظریہ اب سندِ قبول سے محروم ہے )اور ہندو قوم کو یورپی قوموں کا نسلاً رشتہ دار قرار دے کر انہیں ممتاز اور دنیا سے روشناس کرایا اس سر ولیم جونز کو جو ہندوئوں کی تہذیب کا دلدادہ تھا مسلم قوم اور اردو سے کیا نسبت لیکن اس کی کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے اردو کی ترویج میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ بابو لعل سکسینہ کی تصنیف ’’ اردو کے یورپین شعراء‘‘ اس امر پردلالت کررہی ہے کہ انگریزوں نے اردو کے پروان چڑھانے میں کافی جدوجہد کی ۔ ظاہر ہے کہ مسلمان دشمن انگریزوں کو اردو کی ترقی سے کافی دلچسپی تھی اور مسلمان باالفاظ غالبؔ
فارسی بیں تابینی نقش ہائے رنگارنگ
بگدازِ مجموعہ اردو کہ بے رنگ من است
اردو کو آخری وقت تک نیچی نظروں سے دیکھتے رہے اور جب وہ رائج ہوہی گئی تو بقول مصحفیؔ
مصحفیؔ فارسی کو طاق پہ رکھ
اب ہے اشعار ہندوی کا رواج
کے مصداق مجبوراً اردو کی طرف توجہ دینے پر مجبور ہوئے یہ حقائق پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ فارسی کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے ایک نئی زبان ( اردو) کی ضرورت انگریزوں اور ہندوئوں کو تھی مسلمانوں کو نہیں ۔ انگریزی حکومت کے قیام میں مدددینے والے ہندو صاحبان تھے جنہوں نے اردو زبان کے تمام ابتدائی اخبارات کا اجراء کیا اردو کی کتب سب کی سب ابتداً مطبع منشی نولکشور لکھنؤ نے چھاپیں جنہیں بعد میں انگریزوں نے رائے بَہادر کا خطاب دیا اب یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہوگیا کہ مسلمانوں کے دشمن انگریز اور ہندو کے گٹھ جوڑ سے فارسی کو مٹاکر ملکہ وکٹوریہ نے کچھ ایسی خوبی سے ڈسا تھا کہ جس کے نتیجہ میں اسلامیانِ ہند کی ثقافت اور مذہب کی موت یقینی تھی جس کے بعد ہماری حیثیت بھارت کے قدیم حکمران گونڈ اور بھیل قبائل سے بہتر نہ ہوتی کیونکہ اپنا لٹریچر نہ ہونے کے باعث وہ آج وحشی اور جنگلی ہیں جو کبھی اس پورے برّصغیر کے تاجدار تھے وہ تو کہیے کہ اللہ پاک نے اپنے کرمِ خاص سے مسلمانوں کو ہوش دیا اور انہوں نے لاشعوری طور پراپنا دینی سرمایہ اردو میں منتقل کرلیا ورنہ اسلامی دنیا سے توہم کٹ ہی گئے تھے مذہب سے بھی بیگانہ ہوجاتے اور پھر نہ مذہب ہوتا نہ ہماری علیحدہ انفرادیّت ہوتی نہ پاکستان بنتا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
میر ہمل کلماتی
بیان کیا جاچکا ہے کہ پندرہویں صدی کے اواخر اور سولہویں صدی کے آغاز میں یورپ کی عیسائی قوموں کو یہ خبط پیدا ہوگیا تھا کہ مشرقی ایشیا میں تاتاریوں سے رابطہ قائم کرکے مشرق سے مسلمانوں پر حملے کرائے جائیں اور بزورِ قوت عیسائیت کو فروغ دیا جائے جس زمانے میں کولمبس نے ملکہ ازابیلا کے ایما پر بحرِ اوقیانوس میں جہاز رانی اور پُر خطر سفر اختیار کیا تھا انہیں دنوں ملک پرتگال کے فرمانروا ہنری ملّقب بہ جہاز راں Henry The Navigator نے اسی نظریہ کے تحت ماہر جہازرانوں کی سرکردگی میں بر اعظم افریقہ کے ساحل کے گرد بحری مہمات شروع کرائیں ان مسیحیت کے جنون میں سرشار پرتگالیوں نے افریقہ کے جنوبی حصہ راس امید Cape of Good Hope کو دریافت کرنے کے بعد بحرِ ہند کے ساحلی مقامات اور خلیجِ فارس کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر اپنے زیادہ ترقی یافتہ سامانِ حرب کے بل بوتے پر حملے کرکے جور تشدد سے لوگوں پر مسیحی مذہب مسلط کیا۔ گوا، ڈامن اور ڈیو پر پرتگالی مقبوضات کا قیام اور یہاں کے باشندوں پر کلیسائی دین کا تسلط اسی دورِ استبداد کی یادگار ہے ۔ پرتگال والوں نے حبشہ کے عیسائی حکمران کو ملا کر مصر اور دیگر اسلامی ریاستوں کے امن کو تباہ کیا اور منصوبہ بنایا کہ ان سمندروں پر اڈے قائم کرکے اور اپنی قوت کو مجتمع کرکے خانہ کعبہ کو مسلمانوں کے قبضہ سے نکالا جائے تاکہ مرکزِ اسلام کا خاتمہ اور مسلمانوں کا نام و نشان دنیا میں باقی نہ رہے ۔ اسی زمانے میں مکران کے ساحل پر بندرگاہ کلمات واقع تھی جس پر ایک کلمہ گو میر ہمل کی حکمرانی تھی ۔ میر ہمل نہایت جری اور خوبرو نوجوان تھا ۔ وہ ایک روز اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ سمندر میں شکار کھیلنے کو گیا تھا کہ طوفان میں اس کی کشتی پھنس گئی اور کہیں سے کہیں جا نکلی ۔ جب طوفان تھما تو اس نے خود کو ساحل عمان پر پر تگالیوں کے ایک فوجی اڈے کی زد میں پایا۔ جہاں اسے پرتگالیوں کی ایک بڑی جمعیت نے گھیر لیا اور گرفتار کرکے اپنے سردار کے روبرو پیش کیا گرفتاری کے دوران سردار کی لڑکی نے ہمل سے معاشقہ کا اظہار کیا سردار کو اس کے حسب و نسب کا علم ہو اتو وہ اپنی لڑکی کو ہمل کے عقد میں دے کر اور اسے اپنا آلہ کار بنا کر ساحل مکران پر حملے کرانا چاہتا تھا میر ہمل ایک با ایمان اور قوم پرست نوجوان تھا اس نے اس یکطرفہ معاشقہ کو ٹھکرادیا اور پرتگالی عزائم میں ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ اب سردار کی بیٹی اس کے خلاف ہوگئی اور اسے مرواڈالا۔اوپر مذکور ہوچکا ہے کہ پرتگالی عیسائی اکبراعظم کو بیٹی دے چکے تھے دوسرے عیسائیوں کی مثل پرتگال والوں نے بھی اس حربے کے استعمال میں دریغ نہ کیا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
امرتسر کے بیرسٹر کی عیسائی بیوی
ہندوستان میں دور انگلشیہ کی بات ہے کہ امرتسر کے ایک مسلمان بیرسٹر صاحب نے ایک فرنگی عیسائی عورت کو مسلمان کرکے اس سے شادی کرلی جب اس عورت کا انتقال ہوا تو مسلمانوں نے اسے اپنے طریق پر دفن کرنا چاہا ضلع کے انگریز کلکٹر نے لاش پر قبضہ کرلیا اور مسلمانوں کو ان میم صاحبہ کا خط دکھایا جسے اس نے اپنے مرنے سے پہلے لکھا تھا اور کلکٹر صاحب سے استدعا کی تھی کہ اس کی تجہیز و تکفین دینِ مسیحی کے عقاید کے مطابق کی جائے۔ چنانچہ کلکٹر صاحب بہادر نے متوفیہ کی وصیت کا احترام کیا اور وہ فرنگیہ عیسائیوں کے گورستان میں مدفون کردی گئی یوں یہ صلیب کی بیٹی زندگی بھر مسلمانوں کو دھوکے میں ڈالے رہی ۔
بنارس کے مشنری ہسپتال کا واقعہ
اسی دور انگلشیہ میں بنارس میں ایک مسلمان نے اپنی نوجوان لڑکی کو مشنری ہسپتال میں بغرضِ علاج داخل کرایا کچھ روز بعد وہ شفایاب ہوگئی تو مشنری ہسپتال کے اربابِ بست و کشاد نے اس لڑکی کو اس کے والدین کے سپرد کرنے سے انکار کیا اور حکام کو اس لڑکی کا دستخطی خط دکھایا جس میں اس نے اپنے عیسائی ہونے کا اعلان اور اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنے والدین کے پاس نہیں جانا چاہتی انگریز کے جانبدار انہ قانون نے مشنری کے مؤقف کو صحیح گردانا اور وہ مسلمان لڑکی پتہ نہیں کہاں بھیج دی گئی ۔ یہ تھی کارگزاری ان نصرانی مشنری عورتوں کی جن کے چنگل میں پھنس کر وہ کم سمجھ مسلمان لڑکی اپنے دین و ایمان اور والدین اور عزیز و اقارب سے چھین لی گئی ۔
کرنل کی مطلقہ
دہرہ دون کے ایک صاحب جو آج کل کراچی میں بہت ممتاز عہدہ پر فائز ہیں ۔ انہوں نے ایک انگریز کرنل کی مطلقہ سے شادی کرلی اس بوڑھی حسینہ نے کچھ ایسا جادو ان صاحب پر کیا کہ یہ اپنے ضعیف والدین اور کم سن بہن بھائیوں کو خیر باد کہہ کر اس فرنگن کی خدمت میں مصروف ہوگئے ، ادھر ان میم صاحبہ نے یہ کیا کہ ان صاحب کے ہوتے ہوئے ایک اور معاشقہ کر ڈالا چونکہ ان صاحب میں ابھی مشرقی غیرت کی تھوڑی سی رمق باقی تھی انہوں نے اپنے رقیب کو گولی کا نشانہ بنا ڈالا اور نتیجۃً جیل کی ہوا کھائی ، پیسہ کافی صرف ہوا قید سے چھوٹ گئے لیکن اس عیسائنی سے اتنا بڑا واقعہ ہونے کے بعد بھی لپٹے رہے ۔پتہ نہیں اس سے زیادہ شرمناک اور کیا قصہ ہوا ہوگا کہ اب آکر انہیں میم صاحبہ سے جدائی اختیار کرنی پڑی۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مشترکہ بیوی
ابھی چند سال پہلے کا مشہور واقعہ ہے جو ہمارے ملک کے ایک ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت رہا اور چونکہ عدالت میں کیس چل چکا ہے اسے قانوناً یہاں زیرِ بحث لانے کی اجازت نہیں ایک جرمن نصرانیہ نے پاکستان کے ایک افسر کے نکاح میں رہتے ہوئے ایک مسلمان فوجی کرنل سے شادی کرلی اور بقول خود مسلمان بھی ہوگئی ۔ بھر عدالت میں اس نے کھلم کھلا بیان دیتے ہوئے کرنل صاحب سے اپنے معاشقہ کا اعلان کیا اوراس معاشقہ کو پہلی شادی ہوتے ہوئے دوسری شادی کے لیے بطورِ وجہ جواز پیش کیا۔ کیا کوئی مومنہ ایسی بے حیائی کا رتکاب کرسکتی ہے ۔
سقّہ کی میم
یہ بھی دہرہ دون کا انگریزی دور کا واقعہ ہے کہ ایک نصرانیہ نے اپنے انگریز خاوند اور جوان لڑکے کے ہوتے ہوئے اپنے گھر میں پانی بھرنے والے مسلمان سقّہ کے یہاں آن بیٹھی اور جب وہ سقّہ بوڑھا ہوگیا تو اسے چھوڑ کر علیحدہ ہٹ گئی ۔ ان عورتوں کے لیے بس مادّی لذّت اندوزی ہی اصل زندگی ہے زندگی کی اعلیٰ اقدار سے کوئی سروکار نہیں ۔شرم اور غیرت مشرقی عورتوں کی فرسودہ چیزیں ہیں نئی تہذیب میں ان کی گنجائش نہیں۔
شہشاہ کی مطلقہ
ہمارے قریبی زمانے میں ایران کی ایک ملکہ جسے شاہ نے ولی عہد نہ ہونے کے سلسلے میں طلاق دے دی تھی وہ ایک جرمن عیسائی عورت کے بطن سے تھی اب اس نے ایکٹریس کا پیشہ اختیار کیا ہے ۔
عاقبت گرگ زادہ گرگ شود
اگرچہ با آدمی بزرگ شود
عربوں کی عیسائی اور یہودی بیویاں
یہ چیز کسی سے پوشیدہ نہیں کہ باوجود اسرائیل سے کئی گنا زیادہ سامانِ جنگ ، ذرائع ، آبادی ، وسعتِ ملک ہونے کے عربوں نے جو جون ۱۹۶۷ء میں شرمناک شکست کھائی اس کا بڑا سبب وہ غیر مسلمان یہودی اور عیسائی عورتیں تھیں جو مصری فوجی افسران سے گھلی ملی رہتی تھیں اور ان کے دل میں گھس کر مصری حکومت اور فوج کے سربستہ راز اسرائیل کو بہم پہنچایا کرتی تھیں انہوں نے اپنے ملک و قوم کی اس خدمت کی انجام دہی میں گوہرِ عصمت جیسی گرانمایہ متاع کو لٹانے میں بھی گریز نہ کیا لیکن ہمارے بھائیوں کی آنکھیں ہنوز نہ کھلیں وہ بشمول چند سربراہانِ مملکت ابھی تک ان سفید جاسوسوں کو اپنے مہمانخانۂ دل میں جگہ دیئے آستین میں سانپ پالے ہوئے ہیں باہر بھی دشمن اور اندر بھی دشمن خود کردہ را عِلاجے نیست ۔ یہ اندرونی دشمن زیادہ خطرناک ہیں۔ اگر چشمِ بینا ہوتو دیکھیے کہ یہ بالکل اندلس کا نقشہ ہے۔
کتنی باریک ہیں تثلیث کے علمبرداروں کی چالیں۔ کاش کہ مسلمان اب بھی عیسیٰ ( علیہ السلام) کی بھیڑوں کی زدباہ بازیوں سے آگاہ ہوجائیں۔ قرآن کا حکم صاف ہے کہ یہودی اور نصرانی کبھی تمہارے دوست نہیں ہوسکتے ۔ تاریخ پکار پکار کر اس حقیقت کا اعلان کررہی ہے ۔ اللہ مسلمانوں کو ہوش دے ۔(آمین)
 
Top