یہ میری رائے ہے جو غلط بھی ہو سکتی ہے۔
محترم بھائی آپ کی ٹھیک باتوں کے علاوہ کچھ سے اختلاف ہے اسی لئے آپ کی نیت پر شک کیے بغیر آپ سے اپنا اختلاف بیان کرنا چاہتا ہوں
لیکن ایک بات مزید جاننی چاہیے کہ جس چیز سے آپ جتنا روکیں گے انسانی فطرت اتنا ہی اس کی طرف راغب ہوگی۔
محترم بھائی آپ کی اوپر مطلق بات "جس چیز سے آپ جتنا روکیں گے انساننی فطرت اتنا ہی اس کی طرف راغب ہو گی" شرعی منکرات (بشمول منکر کی طرف وسیلہ) پر کسی صورت اطلاق نہیں ہو سکتا بلکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح احادیث اس پر موجود ہیں اور اوپر بات غالبا اسی پس منظر میں ہو رہی ہے
دوسرا انسان اسی چیز کی طرف راغب ہوتا ہے جس کی اس کے پاس کمی ہو۔
یہ بھی اس بات کی مطلقا دلیل نہیں بن سکتی راغب ہونے سے روکنے کے لئیے اس چیز کی فراوانی کر دی جائے بلکہ احادیث میں منکرات کے قریب جانے سے بھی منع کیا گیا ہے اور چراگاہ والی مشہور مثال تو ہر کسی کو پتا ہو گی اسی طرح جب بٹھی والی حدیث کی علت کو دیکھیں تو اوپر بات پر قیاس کیا جا سکتا ہے کہ جیسے بٹھی والے میں زیادہ نقصان کے چانس کے ساتھ تھوڑی بہت لازمی خرابی کا ذکر ہے
ان دو باتوں کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ:۔
اپنے بچوں کو اپنی بساط کے مطابق تمام سہولیات دو۔
ان کو اعتماد کا احساس دو۔ وہ یہ سمجھیں کہ ان کے والدین ان پر مکمل اعتماد کرتے ہیں۔ ان کی اچھی تربیت کرو اور اس سب کے بعد ان کی خاموش نگرانی کرو۔
میں نے جتنا عرصہ تبلیغی جماعت کے ساتھ لگایا ہے اس میں سب سے زیادہ زور ماحول پر دیا جاتا ہے شاید آپ کو اسکا تجربہ نہیں
محترم بھائی سہولیات کے وسیع معنی ہو سکتے ہیں کیا بچہ ماں سے چھری مانگے تو ماں کو اسکو یہ سہولت فورا پہنچا دینی چاہئے
خالی نگرانی پر چرواہا بھی اعتماد نہیں کر سکتا بلکہ دوسروں کی چراگاہ سے دور رکھ کر نگرانی کرتا ہے
روکو صرف اس وقت جب وہ کسی اہم فیصلے کی طرف بڑھیں۔
محترم بھائی انتہائی معذرت کے ساتھ یہاں لاشعوری طور پر شاید آپ اپنی ساری باتوں کی ہی نفی کر گئے کیونکہ اب جب آپ اسکو روکیں گے تو وہ اس منکر کو قریب سے دیکھ چکا ہو گا اور اس کی لذت اس میں رچ گئی ہو گی جس سے بے رغبتی پیدا کرنا زیادہ مشکل ہو گا
پس کیوں نہ پہلے ہی روک لیا جائے
اسکو سمجھانے کے لئے میں اپنی سچی مثال بیان کرتا ہوں کہ میں اپنے بچے کے ساتھ کہیں جا رہا ہوتا ہوں اور کوئی چیز والا بچوں کو متوجہ کرنے کے لئے قریب آتا ہے اور اس چیز کو میں بچے کو نہیں دینا چاہتا تو میں کوشش کرتا ہوں کہ بچہ کو دوسری باتوں میں لگا کر ادھر متوجہ نہ ہونے دوں کیونکہ جانتا ہوں کہ جب وہ متوجہ ہو گیا تو اس غلط چیز سے روکنا میرے لئے ناممکن نہیں تو زیادہ مشکل ہو گا
البتہ جہاں تک خواتین سے بات کرنے کا تعلق ہے تو اس میں بچوں کو ہی نہیں بلکہ بڑوں کو بھی محطاط اور ٹو دی پوائنٹ بات کرنی چاہئے ورنہ شیطان جب شرک کی طرف سیاہ رات کو سیاہ پتھر پر سیاہ چیونٹی سے بھی کم نظر آنے والے فریبوں سے مائل کر سکتا ہے تو وہ ہمیں انی لکما لمن الناصحین کا دھوکہ دے کر کچھ بھی کر سکتا ہے
والدین انٹر نیٹ پر اولاد کی چیٹنگ پر کنٹرول کو چھوڑ کر کالج اور گھروں میں تو ڈائریکٹ یا موبائل پر خواتین سے بات کرنے پر کنٹرول کر سکتے ہیں
میری بھی اپنی ایک سوچ ہے جس سے کوئی بھائی غیر متفق بھی ہو سکتا ہے