• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بنی امیہ اہل بیت کو گالیاں دینے پر کافر کیوں نہ ہوئے؟

شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

یہ تحریر شعیہ کی ویب سائٹ سے لی گئی ہے مجھے اس میں تشویش لاحق ہوئی اس لئے اسے محدث فورم پر شئیر کر دیا علماء حضرات سے گزارش ہے کہ آیا اس میں جو حوالے اور باتیں لکھی گئی ہیں کیا وہ درست ہیں؟؟ نیچے شعیہ کی ویب سائٹ کا لنک دیا گیا ہے

http://www.wilayat.net/index.php?option=com_content&view=article&id=3249:بنی-امیہ-اہلبیت-کو-گالیاں-دینے-پر-کافر-کیوں-نہ-ہوئے؟&catid=216&lang=ur
بنی امیہ اہلبیت کو گالیاں دینے پر کافر کیوں نہ ہوئے؟
کیا شیعہ کافر؟ ناصبی دلائل کا تجزیہ
بنی امیہ کے حامی ناصبی حضرات کہتے ہیں کسی صحابی کے غلط کاموں کو بیان کرنا کفر، اور ان پر تنقید کرنا کفر ہے اور اسی لیے شیعہ کافر ۔
اگر کفر کا معیار واقعی کسی صحابی پر تنقید کرنا ہی ہے تو پھر سب سے بڑے کافر بنی امیہ ہوئے جو عرصہ دراز تک صحابی علی ابن ابی طالب اور اہلبیت علیہم السلام پر گالیوں کی بوچھاڑ کرتے رہے۔ مگر ناصبی حضرات اپنی منافقانہ روش دیکھیں کہ بجائے بنی امیہ پر کفر کے فتوے لگانے کے انہوں نے بنی امیہ کو خلفاء معاویہ و یزید و مروان بن حکم وغیرہ کو "رضی اللہ عنہ" اور "امیر المومنین" بنا رکھا ہے۔
آئیے اللہ کے نام سے شروع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں ذیل میں بنی امیہ کے کفر کے ثبوت۔

  1. ثبوت نمبر 1:
  2. ثبوت نمبر 2:
  3. ثبوت نمبر 3:
  4. ثبوت نمبر 4:
  5. ثبوت نمبر 5:
    1. تحریف کیس:
  6. ثبوت نمبر 6:
    1. تحریف کیس 2:
  7. ثبوت نمبر 7:
  8. ثبوت نمبر 8:
  9. ثبوت نمبر 9: معاویہ ابن ابی سفیان کا الحسن ابن علی کی موت پر خوش ہونا
  10. معاویہ کے گورنروں کا کھلے عام علی ابن ابی طالب پر سب و شتم کرنا
  11. ثبوت نمبر 10:
  12. ثبوت نمبر 11: مروان بن حکم کا علی ابن ابی طالب پر سب شتم کرنا
  13. ثبوت نمبر 12:
    1. سوال: مروان کافر کیوں نہیں بنا جبکہ وہ صحابی علی ابن ابی طالب اور صحابی حسن و حسین کو گالیاں دے رہا ہے؟
  14. ثبوت نمبر 13: مغیرہ بن شعبہ کا علی ابن ابنی طالب پر سب و شتم
  15. ثبوت نمبر 14: بسر بن ارطاۃ کا علی ابن ابی طالب پر سب و شتم
  16. ثبوت نمبر 15: زیاد اور کثیر ابن شہاب کا علی ابن ابی طالب پر سب و شتم
  17. شیخ ابو زہرہ مصری کی کتاب تاریخ مذاہب اسلامی سے اقتباس
  18. مصری عالم دین احمد زکی صفوت کی تحقیق سب علی پر
  19. علامہ عبد العزیز سید الاھل
  20. حصہ دوم خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا تجزیہ [ از ملک غلام علی ]
  21. مختصر تعارف:
  22. حضرت علی و اہلبیت پر سب و شتم
    1. سب علی کا ثبوت
    2. لاطائل تردید
    3. عجیب منطق
    4. کتب حدیث سے ثبوت
    5. وفات علی کے بعد
    6. رواۃ تاریخ کی بحث
    7. تنقید کا جواب
    8. ابو تراب کا مفہوم
    9. تقی عثمانی صاحب کو جواب:
    10. مسئلہ سب و شتم
    11. اُردو اور عربی والا سب و شتم
    12. سب علی کا مفہوم اور اس کی مثالیں
    13. ابو تراب کے لفظ کا تحقیر آمیز استعمال
    14. کیا حضرت علی بھی سب و شتم کرتے تھے؟
    15. مولانی عثمانی کی صداقت کے تابوت میں آخری کیل

ثبوت نمبر 1:


صحیح مسلم، کتاب الفضائل الصحابہ، باب من فضائل علی بن ابی طالب
- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، - وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ - قَالاَ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، - وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ - عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلاَثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَنْ أَسُبَّهُ لأَنْ تَكُونَ لِي ۔۔۔

ترجمہ:
معاویہ نے سعد کو حکم دیا [أَمَرَ مُعَاوِيَةُ] اور کہا کہ تمہیں کس چیز نے روکا ہے [مَا مَنَعَكَ] کہ تم ابو تراب [یعنی علی ابن ابی طالب] پر سب نہ کرو [سب: گالیاں دینا ، برا بھلا کہنا]۔ اس پر سعد نے کہا میں نے رسول ص سے علی کے متعلق تین ایسی باتیں سنی ہیں کہ جس کے بعد میں کبھی علی پر سب [گالیاں دینا، برا بھلا کہنا] نہیں کہہ سکتا ۔۔۔
ثبوت نمبر 2:

حافظ ابن حجر العسقلانی علی کی فضیلت میں یہی روایت نقل کرنے کے بعد اسکے نیچے ایک اور روایت نقل کرتے ہیں:[آنلائن لنک ]
وعند أبي يعلى عن سعد من وجه آخر لا بأس به قال لو وضع المنشار على مفرقي على أن أسب عليا ما سببته أبدا

ترجمہ:
اور ابی یعلی نے سعد سے ایک اور ایسے حوالے [سند] سے نقل کیا ہے کہ جس میں کوئی نقص نہیں کہ سعد نے [معاویہ ابن ابی سفیان سے کہا]: اگر تم میری گردن پر آرہ [لکڑی یا لوہا کاٹنے والا آرہ] بھی رکھ دو کہ میں علی [ابن ابی طالب] پر سب کروں [گالیاں دینا، برا بھلا کہنا] تو تب بھی میں کبھی علی پر سب نہیں کروں گا۔
اسی روایت کے ذیل میں لفظ سب کے متعلق شاہ عبدالعزیز کا ایک جواب فتاوی عزیزیہ، مترجم [شائع کردہ سعید کمپنی] صفحہ 413 پر موجود ہے، جس میں شاہ صاحب فرماتے ہیں:
"بہتر یہی ہے کہ اس لفظ [سب] سے اسکا ظاہری معنی سمجھا جائے۔ مطلب اسکا یہی ہو گا کہ ارتکاب اس فعل قبیح کا یعنی سب یا حکم سب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صادر ہونا لازم آئے گا۔ تو یہ کوئی اول امر قبیح نہیں ہے جو اسلام میں ہوا ہے، اس واسطے کہ درجہ سب کا قتل و قتال سے بہت کم ہے۔ چنانچہ حدیث صحیح میں وارد ہے کہ "سباب المومن فسوق و قتالہ کفر" یعنی برا کہنا مومن کو فسق ہے اور اسکے ساتھ قتال کرنا کفر ہے۔" اور جب قتال اور حکم قتال کا صادر ہونا یقینی ہے اس سے کوئی چارہ نہیں تو بہتر یہی ہے کہ انکو مرتکب کبیرہ [گناہ] کا جاننا چاہیے۔ لیکن زبان طعن و لعن بند رکھنا چاہیے۔ اسی طور سے کہنا چاہیے جیسا صحابہ رضوان اللہ علیھم سے اُن کی شان میں کہا جاتا ہے جن سے زنا اور شرب خمر سرزد ہوا رضی اللہ عنہم اجمعین۔ اور ہر جگہ خطاء اجتہادی کو دخل دینا بیباکی سے خالی نہیں۔ "
ثبوت نمبر 3:

ابن کثیر الدمشقی، کتاب البدایہ و النہایہ، حلد 7، صفحہ 341، باب فضائل علی ابن ابی طالب
وقال أبو زرعة الدمشقي‏:‏ ثنا أحمد بن خالد الذهبي أبو سعيد، ثنا محمد بن إسحاق، عن عبد الله بن أبي نجيح، عن أبيه قال‏:‏ لما حج معاوية أخذ بيد سعد بن أبي وقاص‏.‏فقال‏:‏ يا أبا إسحاق إنا قوم قد أجفانا هذا الغزو عن الحج حتى كدنا أن ننسى بعض سننه فطف نطف بطوافك‏.‏قال‏:‏ فلما فرغ أدخله دار الندوة فأجلسه معه على سريره، ثم ذكر علي بن أبي طالب فوقع فيه‏.‏فقال‏:‏ أدخلتني دارك وأجلستني على سريرك،ثم وقعت في علي تشتمه ‏؟‏والله لأن يكون في إحدى خلاله الثلاث أحب إلي من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال حين غزا تبوكاً ‏(‏‏(‏إلا ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي ‏؟‏‏)‏‏)‏أحب إلي مما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال له يوم خيبر‏:‏ ‏(‏‏(‏لأعطين الراية رجلاً يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله يفتح الله على يديه، ليس بفرار‏)‏‏)‏ ‏(‏ج/ص‏:‏ 7/377‏)‏أحب إليّ مما طلعت عليه الشمس، ولأن أكون صهره على ابنته ولي منها الولد ماله أحب إليّ من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، لا أدخل عليك داراً بعد هذا اليوم، ثم نفض رداءه ثم خرج‏.‏

ترجمہ:
ابو زرعہ الدمشقی عبداللہ بن ابی نجیح کے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب معاویہ نے حج کیا تو وہ سعد بن ابی وقاص کا ہاتھ پکڑ کر دارالندوہ میں لے گیا اور اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا۔ پھر علی ابن ابی طالب کا ذکر کرتے ہوئے انکی عیب جوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص نے جواب دیا: "آپ نے مجھے اپنے گھر میں داخل کیا، اپنے تخت پر بٹھایا،پھر آپ نے علی ابن ابی طالب کے حق میں بدگوئی اور سب و شتم شروع کر دیا۔خدا کی قسم، اگر مجھے علی کے تین خصائص و فضائل میں سے ایک بھی ہو تو وہ مجھے اس کائنات سے زیادہ عزیز ہو جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ کاش کہ نبی اللہ ص نے میرے حق میں یہ فرمایا ہوتا جب کہ آنحضور ص غزوہ تبوک پر تشریف لے جا رہے تھے تو آپ نے علی کے حق میں فرمایا:"کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون کو موسی سے تھی سوائے ایک چیز کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ یہ ارشاد میرے نزدیک دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب تر ہے۔ پھر کاش کہ میرے حق میں وہ بات ہوتی جو آنحضور ص نے خیبر کے روز علی کے حق میں فرمائی تھی کہ "میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اسکے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اسکا رسول ص اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اللہ اسکے ہاتھ پر فتح دے گا اور یہ بھاگنے والا نہیں [غیر فرار]۔ یہ ارشاد بھی مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ عزیز تر ہے۔ اور کاش کہ مجھے رسول ص کی دامادی کا شرف نصیب ہوتا اور آنحضور ص کی صاحبزادی سے میرے ہاں اولاد ہوتی جو علی کو حاصل ہے، تو یہ چیز بھی میرے لیے دنیا و مافیہا سے عزیز تر ہوتی۔ آج کے بعد میں تمہارے گھر کبھی داخل نہ ہوں گا۔ پھر سعد بن ابی وقاص نے اپنی چادر جھٹکی اور وہاں سے نکل گئے۔"
نوٹ:
یہ صحیح روایت ہے۔ مخالفین نے پھر بھی اس میں شک ڈالنے کے لیے ایک راوی احمد بن خالد پر اعتراض کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر یہ راوی احمد بن خالد انتہائی ثقہ ہیں اور ان کی ضعیف ثابت کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ انکے متعلق ائمہ رجال کے اقوال:
الذھبی: امام، محدث، ثقہ [سر اعلام النبلاء جلد 9، صفحہ 539]
امام یحیی ابن معین: ثقہ [تہذیب الکمال جلد 1، صفحہ 301]
امام ابن حبان نے ان کا اپنی کتاب "الثقات" میں شامل کیا ہے [جلد 8، صفحہ 6]
امام ابن ماجہ نے احمد بن خالد سے روایات نقل کی ہیں اور سعودیہ کے شیخ البانی نے ان احادیث کو صحیح قرار دیا ہے [سنن ابن ماجہ، جلد 2، حدیث 3188]
ثبوت نمبر 4:

سنن ابن ماجہ، جلد اول :
حدثنا علي بن محمد حدثنا أبو معاوية حدثنا موسى بن مسلم عن ابن سابط وهو عبد الرحمن عن سعد بن أبي وقاص قال قدم معاوية في بعض حجاته فدخل عليه سعد فذكروا عليا فنال منه فغضب سعدوقال تقول هذا لرجل سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول من كنت مولاه فعلي مولاه وسمعته يقول أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي وسمعته يقول لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله

ترجمہ:
یعنی حج پر جاتے ہوئے سعد بن ابی وقاص کی ملاقات معاویہ سے ہوئی اور جب کچھ لوگوں نے علی کا ذکر کیا تو اس پر معاویہ نے علی کی بدگوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص غضبناک ہو گئے اور کہا کہ تم علی کے متعلق ایسی بات کیوں کہتے ہو۔ میں نے رسول اللہ ص کو کہتے سنا ہے کہ جس جس کا میں مولا، اُس اُس کا یہ علی مولا، اور یہ کہ اے علی آپکو مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون ع کو موسی ع سے تھی سوائے ایک چیز کہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، اور میں نے [رسول اللہ ص] سے یہ بھی سنا ہے کہ کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے۔
یہ بالکل صحیح الاسناد روایت ہے اور البانی صاحب نے اسے "سلسلة الأحاديث الصحيحة" میں ذکر کیا ہے۔لنک :
ثبوت نمبر 5:

ابن عساکر نے تاریخ مدینہ الدمشق میں لکھتے ہیں:
اخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا الحسن بن علي أنا محمد بن العباس أنا احمد بن معروف نا الحسين بن محمد بن سعد أنا أبو عبيد عن مجالد عن الشعبي وعن يونس بن أبي إسحاق عن أبيه وعن أبي السفر وغيرهم ۔۔۔۔۔۔۔ ولا يسب علي وهو يسمع وان يحمل إليه خراج فسا ( 3 ) ودار ابجرد ( 4 ) من ارض فارس كل عام

ترجمہ:
یعنی حسن بن علی نے جب معاویہ سے صلح کی تھی تو اس میں جو شرائط تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ "۔۔۔۔۔ اور علی ابن ابی طالب پر سب [گالیاں دینا ، برا بھلا کہنا] نہیں کیا جائے گا جب کہ وہ سن رہے ہوں۔۔۔۔۔
ابن عساکر نے یہ اس شرط کا ذکر تین روایات میں کیا ہے، جس میں سے دوسری روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں اور یہ صحیح روایت ہے۔
1۔ أبو بكر محمد بن عبد الباقي: ابن جوزی [ثقہ]، الذھبی [عادل]
2۔ محمد بن العباس: البغدادی [ثقہ]، الذھبی [صدوق]
3۔ احمد بن معروف: بغدادی [ثقہ]، آلذھبی [ثقہ]
4۔ الحسين بن محمد: البغدادی [ثقہ]، الذھبی [حافظ]
5۔ محمد بن عبید: ابن حجر العسقلانی [ثقہ]، الذھبی [ثقہ]
6۔ يونس بن أبي إسحاق: ابن حجر العسقلانی [ثقہ]، الذھبی [ثقہ]
7۔ ابن اسحق الشعبہ: ابن حجر [ثقہ]، الذھبی [ثقہ، حجۃ]

الذھبی نے یہی شرط دو روایات میں ذکر کی ہے۔ مثلا محمد ابن عبید، مجلد، الشعبی، یونس اور پھر اس نے اپے والد سے۔
آنلائن لنک
امام جمال الدین المزی نے بھی یہ روایت تین اوپر والی اسناد سے نقل کی ہے۔
آنلائن لنک
تحریف کیس:

ان تینوں علماء ابن عساکر، الذھبی اور جمال الدین مزی اور انکی اسناد کا ذکر اس لیے ہے کہ ان تینوں نے یہ روایات اپنے سے پہلے آنے والے مشہور عالم علامہ ابن سعد کی مشہور کتاب "طبقات الکبری" سے نقل کی ہیں۔
مگر آج چھپنے والی طبقات میں ہمیں یہ تینوں اسناد والی روایات نظر نہیں آتیں اور تعصب میں مبتلا لوگوں نے ان علماء کے کتب میں من مانی تحریف شروع کر رکھی ہے اور یہ سنت بنی اسرائیل میں مبتلا ہیں کہ جب انہوں نے اپنی کتابوں سے اُن تمام چیزوں کی تحریف کر دی جو ان کی خواہشات اور خود ساختہ عقائد کے خلاف تھیں۔
ثبوت نمبر 6:

ابن کثیر اپنی کتاب البدایہ و النہایہ میں لکھتے ہیں :
فاشترط أن يأخذ من بيت مال الكوفة خمسة آلاف ألف درهم، وأن يكون خراج دار أبجرد له، وأن لا يسب علي وهو يسمع

ترجمہ:
[الحسن] نے یہ شرائط رکھیں کہ کوفہ کے بیت المال سے پچاس لاکھ درھم کا خراج انہیں [اور انکی فوج] کے حوالے رکھا جائے اور دار ابجرد کا خراج بھی انہیں کو ملے اور یہ کہ علی ابن ابی طالب پر سب [گالیاں دینا، برا بھلا کہنا] نہ کیا جائے جبکہ وہ اسے سن سکتے ہوں۔
تحریف کیس2:

یہ روایت بھی معتصب حضرات کو ہضم نہیں ہوئی اور بہت سی دیگر نیٹ ویب سائیٹ پر اس روایت کی تحریف کر دی گئِ ہے اور آپ کو اُن میں یہ روایت ملے گی ہی نہیں۔
ثبوت نمبر 7:

علامہ ابن اثیر اپنی کتاب تاریخ الکامل میں لکھتے ہیں:
وكان الذي طلب الحسن من معاوية أن يعطيه ما في بيت مال الكوفة، ومبلغه خمسة آلاف ألف، وخراج دار ابجرد من فارسن وأن لا يشتم علياً، فلم يجبه إلى الكف عن شتم علي، فطلب أن لا يشتم وهو يسمع، فأجابه إلى ذلك ثم لم يف له به أيضاً، وأما خراج دار ابجرد فإن أهل البصرة منعوه منه وقالوا: هو فيئنا لا نعطيه أحداً، وكان منعهم بأمر معاوية أيضاً.

ترجمہ:
امام حسن نے امیر معاویہ سے جو امور طلب کئے تھے وہ یہ تھے کہ کوفے کے بیت المال کی تمام رقم جسکی مقدار پچاس لاکھ تھی اور فارس کے دار ابجرد کا خراج انہیں دیا جائے [تاکہ وہ اپنی فوج کا خرچ ادا کر سکیں]اور یہ کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے۔ معاویہ نے سب و شتم سے باز رہنے کو منظور نہیں کیا۔ اسپر امام حسن نے پھر طلب کیا کہ انکو ایسے وقت میں سب و شتم نہ کیا کریں کہ وہ ا سکو سن سکتے ہوں۔ اسکو معاویہ نے قبول کیا مگر بعد میں یہ شرط بھی پوری نہ کی۔ باقی رہا دار الابجرد کا خراج تو اسے اہل بصرہ نے یہ کہہ کر روک لیا کہ وہ ہمارے مال غنیمت میں سے ہے اور وہ ہم کسی کو نہ دینگے۔ انہوں نے اس میں بھی معاویہ کے حکم سے ہی رکاوٹ ڈالی۔
امام الذھبی اپنی کتاب "العبر في خبر من غبر " میں یہی روایت نقل کرتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے۔
ثم كتب إلى معاوية على أن يسلم إليه بيت المال وأن لا يسب عليًا بحضرته وأن يحمل إليه خراج فسا ودارابجرد كل سنة‏.‏

آنلائن لنک
امام ابن جریر طبری بھی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ امام حسن نے معاویہ سے اس شرط پر صلح کی کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے گا ایسے وقت میں جبکہ وہ اسے سن رہے ہوں۔
آنلائن لنک
امام طبری نے یہ روایت عوانہ ابن حکم [متوفی 147 ہجری] سے لی ہے۔ عوانہ نے معاویہ ابن ابی سفیان اور بنی امیہ پر دو تاریخی کتابیں لکھی تھیں۔ ان عوانہ کے متعلق ائمہ رجال کی آراء:
الذھبی: عوانہ روایات بیان کرنے میں صدوق ہیں [سر العلام النبلاء جلد 7، صفحہ 201]
امام عجلی: انہوں نے عوانہ کو اپنی کتاب "معارف الثقات" جلد 2، صفحہ 196 پر شامل کیا ہے۔
یاقوت حموی: عوانہ تاریخ اور روایات کے عالم ہیں اور ثقہ ہیں
حتی کہ ابن خلدون [جن میں کہ علی کے خلاف ناصبیت تک پائی جاتی ہے اور اس لیے مخالفین کے پسندیدہ مورخ ہیں] لکھتے ہیں [تاریخ ابن خلدون، جلد 2، صفحہ 648]:
آنلائن لنک
فكتب إلى معاوية يذكر له النزول عن الأمر على أن يعطيه ما في بيت المال بالكوفة و مبلغه خمسة آلاف ألف و يعطيه خراج دار ابجرد من فارس و ألا يشتم عليا و هو يسمع

ترجمہ:
یعنی امام حسن نے شرط رکھی کہ علی ابن ابی طالب کو گالیاں نہیں دی جائیں گی جبکہ وہ اسے سن سکتے ہوں۔
علامہ اسمعیل بن ابو الفداء اپنی تاریخ ابوالفداء جلد اول، صفحہ 648 پر لکھتے ہیں:آنلائن لنک
وكان الذي طلبه الحسن أن يعطيه ما في بيت مال الكوفة وخراج دارا بجرد من فارس وأن لا يسب علياً فلم يجبه إلى الكف عن سبّ علي فطلب الحسن أن لا يشتم علياً وهو يسمع فأجابه إِلى ذلكَ ثم لم يف له به

ترجمہ:
یعنی علی ابن ابی طالب کو گالیاں نہیں دی جائیں گی جبکہ وہ اسے سن سکتے ہوں۔
ثبوت نمبر 8:

حضرت ام سلمہ سلام اللہ علیہا نے علی ابن ابی طالب کو گالیاں دینے پربھرپور احتجاج کیا۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ سلام اللہ علیہا نے معاویہ کو ایک خط لکھا:
آنلائن لنک العقد الفرید، جلد 3 :
فکتبت ام سلمۃ زوج النبی الی معاویۃ:انکم تلعنون اللہ و رسولہ علی منابرکم،و ذلک انکم تلعنون علی بن ابی طالبو من احبہ، و انا اشھد ان اللہ احبہ و رسولہ، فلم یلتفت الی کلامھا۔

ترجمہ:
"تم لوگ[معاویہ]منبر رسول سے اللہ اور اسکے رسول پر لعن کر رہے ہو، اور یہ اسطرح کہ تم علی ابن ابی طالب پر لعن کر رہے ہو اور ہر اُس پر جو علی سے محبت کرتا ہے۔ اور میں گواہ ہوں کہ اللہ اور اسکا رسول علی سے محبت رکھتے تھے۔" مگر ام سلمہ سلام اللہ علیہا نے جو کچھ کہا کسی نے اسکی پرواہ نہ کی۔
ام المومنین حضرت ام سلمہ سلام اللہ علیہا کی یہ روایت کئی طریقوں سے امام احمد نے اپنی مسند میں بھی نقل کی ہے۔ مثلا:
مسند احمد بن حنبل
25523 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ اَبِي بُكَيْرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا اِسْرَائِيلُ، عَنْ اَبِي اِسْحَاقَ، عَنْ اَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ، قَالَ دَخَلْتُ عَلَى اُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَتْ لِي اَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ قُلْتُ مَعَاذَ اللَّهِ اَوْ سُبْحَانَ اللَّهِ اَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِي‏.‏

اس روایت میں ام سلمہ سلام اللہ علیہا صحابہ کو علی ابن ابی طالب پر "سب" کرنے کو رسول اللہ ص پر "سب" کرنا قرار دے رہی ہیں۔
اور ابن کثیر الدمشقی اپنی کتاب البدایہ و النہایہ میں نقل کرتا ہے :
“امام احمد نے بیان کیا ہے کہ یحیی بن ابی بکیر نے ہم سے بیان کیا کہ اسرائیل نے ابو اسحاق سے بحوالہ ابو عبداللہ البجلی ہم سے بیان کیا کہ میں حضرت ام سلمہ کے پاس گیا تو آپ نے مجھے فرمایا، کیا تم میں رسول اللہﷺ کو سب و شتم کیا جاتا ہے؟ میں نے کہا معاذاللہ یا سبحان اللہ یا اسی قسم کا کوئی کلمہ کہا “آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی۔
نیزیہ روایت دیکھئیے
ابو لیلی نے اسے عن عبیداللہ بن موسی عن عیسی بن عبدالرحمن البجلی عن بجیلہ و عن سلیم عن السدی عن ابی عبداللہ البجلی روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا ہے کہ حضرت ام سلمہ نے مجھے فرمایا، کیا تم میں منبر رسول پر سے رسول ﷺ کو سب و شتم کیا جاتا ہے؟ راوی بیان کرتا ہے میں نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ آپ] نے فرمایا کیا حضرت علی اور ان سے محبت کرنے والوں کو سب و شتم نہیں کیا جاتا؟ میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول اللہﷺ ان سے محبت کرتے تھے [آگے ابن کثیر الدمشقی لکھتا ہے کہ اسے کئی طرق سے حضرت ام سلمہ سے روایت کیا گیا ہے]
حوالہ : البدایہ و النہایہ، جلد ہفتم، صفحہ 463 [اردو ایڈیشن، نفیس اکیڈمی، ترجمہ اختر فتح پوری صاحب ] آنلائن لنک سکین شدہ صفحہ
ثبوت نمبر 9: معاویہ ابن ابی سفیان کا الحسن ابن علی کی موت پر خوش ہونا

سنن ابو داود، کتاب 32، حدیث 4119:
آنلائن لنک :
مقدام بن معدیکرب معاویہ ابن ابنی سفیان کے پاس آئے تو معاویہ بن ابی سفیان نے المقدام بن معدی کرب سے کہا: کیا تمہیں علم ہے کہ الحسن بن علی مر گئے ہیں؟ اس پر مقدام بن معدی کرب نے قرآنی آیت پڑھی انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ایک آدمی [لفظ فلاں استعمال ہوا ہے اور مراد معاویہ ابن ابی سفیان خود ہے] نے کہا:تو کیا تم اس[الحسن ابن علی]کے مرنے کو ایک مصیبت تصور کر رہے ہو ؟ اس پر مقدام نے جواب دیا: "میں اسے مصیبت کیسے نہ جانوں جبکہ رسول ص الحسن کو اپنی گود میں لیتے تھے اور کہتے تھے کہ الحسن مجھ سے ہے جبکہ الحسین علی سے ہیں۔
اس ہر بنی اسد کے آدمی نے [معاویہ کی خوشنودی کے لیے] کہا: [الحسن] ایک جلتا ہوا انگارہ تھا جسے اللہ نے بجھا دیا۔
اس روایت میں یہ جہاں "فلاں" کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاںمراد بذات خود معاویہ ہے [جیسا کہ مسند احمد بن حنبل میں معاویہ کا لفظ مروی ہے، مگر امام ابو داؤد نے اسے فلاں کے لفظ سے تبدیل کر دیا ہے]۔ یعنی یہ معاویہ ابن ابنی سفیان ہے جو امام حسن علیہ السلام کے مرنےکو مصیبت قرار دے رہا ہے۔
مولانا شمس الحق نے سنن ابو داؤد کی شرح لکھی ہے "عون المعبود" کے نام سے جو کہ تمام سلفی ویب سائٹس پر موجود ہے۔ مثلاhttp://hadith.al-islam.com جو کہ سلفی حضرات کی مستند ترین ویب سائٹس میں شمار ہوتی ہے۔
اس روایت کے ذیل میں عون المعبود میں یہ شرح دی گئی ہے [آنلائن لنک ]:
فقال له فلان ) وفي بعض النسخ وقع رجل مكان فلان والمراد بفلان هو معاوية بن أبي سفيان رضي الله تعالى عنه والمؤلف لم يصرح باسمه وهذا دأبه في مثل ذلك وقد أخرج أحمد في مسنده من طريق حيوة بن شريح حدثنا بقية حدثنا بحير بن سعد عن خالد بن معدان قال وفد المقدام بن معد يكرب وفيه فقال له معاوية أيراها مصيبة الحديث( أتعدها ) وفي بعض النسخ أتراها أي أنعد يا أيها المقدام حادثة موت الحسن رضي الله تعالى عنه مصيبة والعجب كل العجب من معاوية فإنه ما عرف قدر أهل البيت حتى قال ما قال فإن موت الحسن بن علي رضي الله عنه من أعظم المصائب وجزى الله المقدام ورضي عنه فإنه ما سكت عن تكلم الحق حتى أظهره وهكذا شأن المؤمن الكامل المخلص

ترجمہ:
۔۔۔ (فقال لہ فلان) اور کچھ جگہ لفظ فلاں کی جگہ لفظ "رجل" استعمال کیا گیا ہے، اور اس فلاں سے مراد معاویہ ابن ابی سفیان رضی اللہ تعالی ہیں۔ جیسا کہ مؤلف [امام ابو داؤد] یہ معلوم نہیں ہونے دیتے چونکہ یہ انکی عادت ہے۔ احمد [امام احمد بن حنبل] اپنی مسند میں حیوۃ بن شریح سے بیان کرتے ہیں جو بقیۃ سے اور جو بحیر بن سعد سے اور وہ خالد بن معدان سے بیان کرتے ہیں : “اور معاویہ نے ان سے کہا:تو کیا تم اس[الحسن ابن علی]کے مرنے کو ایک مصیبت تصور کر رہے ہو ؟۔۔۔۔
۔۔۔بعض جگہ پر(أتعدها)اور بعض جگہ پر(أتراها)یعنی کیا تم دیکھتے ہو ، تصور کرتے ہو الحسن ابن علی کی موت کو ایک مصیبت؟
تعجب پر تعجب(انتہائی تعجب)ہے امیر معاویہ کے اس قول پر۔ انہوں نے اہلبیت کی قدر نہ پہنچانی حتی کہ ایسی بات کہہ دی۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی موت یقینا بہت بڑی مصیبت تھی اور اللہ حضرت مقدام رضی اللہ عنہ کو جزائے خیر دے اور ان سے راضی ہو کہ انہوں نے کلمہ حق ادا کرنے میں خاموشی اختیار نہ کی اور اسے اعلانیہ کہہ دیا۔ مومن کامل و مخلص کی یہی شان ہے۔ بنو اسد کے شخص نے جو کچھ کہا وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی رضا اور تقرب حاصل کرنے کے لیے تھا۔ اُس نے یہ سخت گھٹیا بات اس وجہ سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے کہی تھی کہ(امام حسن کی موجودگی میں)امیر معاویہ کو اپنی خلافت کے زوال کا خوف تھا۔
یہی الفاظ مولانا خلیل احمد صاحب نے بذل المجہود، شرح سنن ابی داؤد میں اسی روایت کی تشریح کرتے ہوئے درج کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
“اسدی نے یہ بات معاویہ کی رضا اور تقرب حاصل کرنے کے لیے کہی تھی۔ جب حضرت مقدام نے اس شخص کی بات سنی جو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے امیر معاویہ کی خاطرداری کے لیے کہی تھی، تو حضرت مقدام امیر معاویہ سے کہنے لگے کہ میں یہان سے آج ہرگز نہ ہلوں گا جب تک آپ کو غصہ نہ دلاؤں اور آپ کو ایسی بات نہ سناؤں جو آپ کو ناپسند ہو جس طرح کہ آپ نے مجھے ایسی بات سنائی جو مجھے پسند نہیں۔
اور برصغیر کے مشہور اہلحدیث عالم دین مولانا وحید الزمان خانصاحب اس روایت کے ذیل میں حاشیہ میں لکھتے ہیں:
امام حسن علیہ السلام کے انتقال پر معاویہ کو یہ کہنا کہ یہ مصیبت نہیں ہے مبنی تھا اوپر تعصب کے علی اور اولاد علی سے۔ راضی ہو اللہ اپنے رسول کے اہل بیت سے اور ہمارا حشر ان کے ساتھ کرے۔ امین۔
روایت میں آگے بیان ہے کہ حضرت مقدام نے امیر معاویہ کو قسم دلا کر پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مردوں کو سونے کا زیور اور ریشم پہننے سے منع نہیں فرمایا اور خدا کی قسم یہ چیزیں آپ کے گھر کے لوگ استعمال کرتے ہیں۔ اس کی شرح میں صاحبِ عون المعبود فرماتے ہیں:
فَإِنَّ أَبْنَاءَك وَمَنْ تَقْدِر عَلَيْهِ لَا يَحْتَرِزُونَ عَنْ اِسْتِعْمَالهَا وَأَنْتَ لَا تُنْكِر عَلَيْهِمْ وَتَطْعَن فِي الْحَسَن بْن عَلِيّ ‏
ترجمہ:
“آپ کے لڑکے اور گھر کے مرد (یزید وغیرہ) ان اشیاء کے استعمال سے پرہیز نہیں کرتے اور آپ ان پر نکیر نہیں کرتے۔ اور ادھر آپ حضرت حسن پر طعن کرتے ہیں۔"
معاویہ کے گورنروں کا کھلے عام علی ابن ابی طالب پر سب و شتم کرنا

ثبوت نمبر 10:

تاریخ ابو الفداء، جلد 1، صفحہ 120:
آنلائن لنک :
وكان معاوية وعماله يدعون لعثمان في الخطبة يوم الجمعة ويسبون علياً ويقعون فيه

ترجمہ:
معاویہ اور اسکے گورنر جمعے کے خطبوں میں عثمان کی تعریف کرتے تھے اور علی کو گالیاں دیتے تھے۔
ابن تیمیہ اپنی کتاب منہاج السنہ، جلد 6، صفحہ 201 پر لکھتا ہے:
وقد كان من شيعة عثمان من يسب عليا ويجهر بذلك على المنابر
ترجمہ:
عثمان کے شیعہ [طرفدار] کھلے عام مسجدوں کے منبروں سے علی ابن ابی طالب کو گالیاں دیتے تھے۔
سنن ابو داؤد (لنک ) پر یہ روایت موجود ہے:
Sunnan Abu Dawud, Book 40, Number 4633:
Narrated Sa'id ibn Zayd ibn Amr ibn Nufayl:
Rabah ibn al-Harith said: I was sitting with someone in the mosque of Kufah while the people of Kufah were with him. Then Sa'id ibn Zayd ibn Amr ibn Nufayl came and he welcomed him, greeted him, and seated him near his foot on the throne. Then a man of the inhabitants of Kufah, called Qays ibn Alqamah, came. He received him and began to abuse him.
Sa'id asked: Whom is this man abusing? He replied: He is abusing Ali. He said: Don't I see that the companions of the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) are being abused, but you neither stop it nor do anything about it?​
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
ثبوت نمبر 11: مروان بن حکم کا علی ابن ابی طالب پر سب شتم کرنا
مروان بن الحکم نے معاویہ کے حکم سے عید کی نماز میں بدعت جاری کر کے خطبے میں علی کو برا کہنا شروع کر دیا
ثبوت نمبر 10:
صحیح مسلم، کتاب الایمان

186 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، كِلاَهُمَا عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، - وَهَذَا حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ - قَالَ أَوَّلُ مَنْ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ يَوْمَ الْعِيدِ قَبْلَ الصَّلاَةِ مَرْوَانُ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَقَالَ الصَّلاَةُ قَبْلَ الْخُطْبَةِ ‏.‏ فَقَالَ قَدْ تُرِكَ مَا هُنَالِكَ ‏.‏ فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ أَمَّا هَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏"‏ مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإِيمَانِ ‏"‏ ‏.‏

ترجمہ:
طارق بن شہاب کہتے ہیں: یہ مروان بن الحکم تھا جس نے سب سے پہلے خطبے کو عید کی نماز پر مقدم کرنے کی بدعت جاری کی۔ ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: "نماز خطبے سے پہلے ہونی چاہیے۔" اس پر مروان نے کہا: "یہ چیز ترک ہو چکی ہے۔ اس پر ابو سعید نے فرمایا" "اس شخص [مروان] نے وہ کچھ کیا ہے جو [ڈیوٹی] اسکے ذمے لگائی گئی تھی۔۔۔۔
[نوٹ: اس وقت معاویہ ابن ابی سفیان خلیفہ تھا اور اُس نے مروان بن الحکم کو مدینہ کا حاکم مقرر کیا تھا اور یہ مکروہ بدعت و ضلالت معاویہ ابن ابی سفیان کے حکم سے مروان نے شروع کی تھی]
صحیح بخاری، کتاب
15، حدیث 76 :
ابو سعید خدری کہتے ہیں:
۔۔۔۔ جب عید کی نماز کا وقت ہوا تو مروان نے چاہا کہ وہ منبور پر چڑھ کر نماز سے قبل خطبے دے۔ اس پر میں نے اُسے کپڑوں سے پکڑ لیا، مگر اُس نے اپنے کپڑے جھٹکے سے چھڑا لیے اور منبر پر چڑھ کر اس نے خطبہ پڑھا۔ میں نے مروان سے کہا: “اللہ کی قسم تم نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت تبدیل کر دی ہے۔ " اس پر مروان نے جواب دیا: “وہ دن گئے جن کا تم ذکر کر رہے ہو"۔ اس پر میں نے کہا کہ میں جو کچھ جانتا ہوں وہ اس سے بہتر ہے جو میں نہیں جانتا۔ اس پر مروان نے جواب دیا: “لوگ عید کی نماز کے بعد خطبہ سننے کے لیے نہیں بیٹھتے ہیں لہذا میں خطبہ عید کی نماز سے پہلے ادا کر لیتا ہوں۔"
سوال
:کیا وجہ تھی کہ صحابہ و تابعین عید کی نماز کے بعد خطبے کے لیے نہیں بیٹھتے تھے؟ کیا وہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت بھول گئے تھے؟
تو اسکا جواب یہ ہے کہ صحابہ و تابعین اس لیے مروان کے خطبے میں نہیں بیٹھتے تھے کیونکہ خطبے میں علی ابن ابی طالب اور اہلبیت علیہم السلام پر سب و شتم کیا جاتا تھا۔
علامہ کاشمیری فیض الباری شرح صحیح بخاری میں لکھتے ہیں:
"سنت نبوی یہ ہے کہ نماز کو خطبے سے پہلے ادا کیا جائے، مگر مروان بن الحکم نے خطبے کو نماز پر پہلے جاری کر دیا کیونکہ وہ خطبے میں علی ابن ابی طالب کو برا بھلا کہتا تھا۔
آنلائن لنک، فیض الباری شرح صحیح بخاری، جلد
1، صفھہ 722، روایت : 954، کتاب العیدین
ثبوت نمبر 12:
ابن کثیر کتاب البدایہ و النہایہ میں لکھتے ہیں [آنلائن لنک ]:
ومروان كان أكبر الأسباب في حصار عثمان لأنه زور على لسانه كتاباً إلى مصر بقتل أولئك الوفد، ولما كان متولياً على المدينة لمعاوية كان يسب علياً كل جمعة على المنبر‏.‏وقال له الحسن بن علي‏:‏ لقد لعن الله أباك الحكم وأنت في صلبه على لسان نبيه فقال‏:‏ لعن الله الحكم وما ولد والله أعلم‏.‏ ‏(‏ج/ص‏:‏ 8/285‏)

ترجمہ:
جب مروان مدینے کا گورنر تھا تو وہ علی ابن ابی طالب پر ہر جمعے کی نماز کے بعد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے منبر مبارک پر چڑھ کر سب [برا کہنا، گالیاں دینا] کیا کرتا تھا۔
حافظ سیوطی نے تاریخ الخلفاء، صفحہ 199 پر اسی چیز کا ذکر عمیر ابن اسحق سے کیا ہے کہ:
"عمیر ابن اسحق سے مروی ہے: مروان ہم پر امیر تھا اور وہ علی ابن ابی طالب پر ہر جمعہ کی نماز کے بعد منبر رسول ص سے سب کرتا تھا، جبکہ حسن اسے سن رہے ہوتے تھے مگر کوئی جواب نہ دیتے تھے۔"
اور امام الذھبی تاریخ الاسلام، جلد دوم، صفحہ 288 پر یہی بات لکھ رہے ہیں:
"مروان بن الحکم ہر جمعے کے خطبے کے بعد علی ابن ابنی طالب پر سب کیا کرتا تھا"
اور مروان کی اس سنت کو اسکے خاندان والوں نے جاری رکھا:
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ
6382 - حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، - يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ - عَنْ أَبِي، حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ - قَالَ - فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا - قَالَ - فَأَبَى سَهْلٌ فَقَالَ لَهُ أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ فَقُلْ لَعَنَ اللَّهُ أَبَا التُّرَابِ ‏.‏ فَقَالَ سَهْلٌ مَا كَانَ لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِهَا ‏.‏ فَقَالَ لَهُ أَخْبِرْنَا عَنْ قِصَّتِهِ لِمَ سُمِّيَ أَبَا تُرَابٍ قَالَ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَيْتَ فَاطِمَةَ فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ فَقَالَ ‏"‏ أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ ‏"‏ ‏.‏ فَقَالَتْ كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَىْءٌ فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لإِنْسَانٍ ‏"‏ انْظُرْ أَيْنَ هُوَ ‏"‏ ‏.‏ فَجَاءَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ ‏.‏ فَجَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهُوَ مُضْطَجِعٌ قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ شِقِّهِ فَأَصَابَهُ تُرَابٌ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَيَقُولُ ‏"‏ قُمْ أَبَا التُّرَابِ قُمْ أَبَا التُّرَابِ ‏"‏ ‏

ترجمہ:
سہل روایت کرتے ہیں کہ مدینہ میں مروان کے خاندان میں سے ایک شخص حاکم ہوا اور اس نے سہل کو بلایا اورحکم دیا
[فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا]کہ وہ علی ابن ابی طالب کو گالی دے۔ سہل نے انکار کیا۔ اس پر آوہ حاکم بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ لعنت ہو اللہ کی ابو تراب پر۔ ۔۔۔۔۔
امام ابن حجر مکی یہ صحیح روایت نقل کرتے ہیں:
عربی عبارت کے لیے آنلائن لنک
:
ترجمہ:
بزاز کی روایت میں ہے کہ اللہ نے حکم [والد مروان] اور اسکے بیٹے پر لعنت کی لسان نبوی کے ذریعے سے۔اور ثقہ راویوں کی سند کے ساتھ مروی ہےکہ جب مروان کو مدینے کا گورنر بنایا گیا تو وہ منبر پر ہر جمعے میں علی ابن ابی طالب پر سب و شتم کرتا تھا۔پھر اسکے بعد حضرت سعید بن عاص گورنر بنے تو وہ علی پر سب نہیں کرتے تھے۔ پھر مروان کو دوبارہ گورنر بنایا گیا تو اس نے پھر سب و شتم شروع کر دیا۔ امام حسن کو اس بات کا علم تھا مگر آپ خاموش رہتے تھے اور مسجد نبوی میں عین اقامت کے وقت داخل ہوتے تھے
[تاکہ اپنے والد ماجد کی بدگوئی نہ سن سکیں]مگر مروان اس پر بھی راضی نہ ہوا یہاں تک کہ اس نے حضرت حسن کے گھر میں ایلچی کے ذریعے ان کو اور حضرت علی کو گالیاں دلوا بھیجیں۔ ان ہفوات میں سے ایک یہ بات بھی تھی کہ"تیری مثال میرے نزدیک خچر کی سی ہے کہ جب اس سے پوچھا جائے کہ تیر باپ کون ہے تو وہ کہے کہ میری ماں گھوڑی ہے۔" حضرت حسن نے یہ سن کر قاصد سے کہا کہ تو اسکے پاس جا اور اُس سے کہہ دے کہ خدا کی قسم میں تجھے گالی دے کر تیرا گناہ ہلکا نہیں کرنا چاہتا۔ میری اور تیری ملاقات اللہ کے ہاں ہو گی۔ اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔ اللہ نے میرے نانا جان [صل اللہ علیہ و آلہ وسلم] کو جو شرف بخشا ہے وہ اس سے بلند و برتر ہے کہ میری مثال خچر کی سی ہو۔" ایلچی نکلا تو امام حسین سے اسکی ملاقات ہو گئی اور انہیں بِ اس نے گالیوں کے متعلق بتایا۔ حضرت حسین نے اسے پہلے تو دھمکی دی کہ خبردار جو تم نے میری بات بھی مروان تک نہ پہنچائی اور پھر فرمایا کہ:"اے مروان تو ذرا اپنے باپ اور اسکی قوم کی حیثیت پر بھی غور کر۔ تیرا مجھ سے کیا شروکار تو اپنے کندھوں پر اپنے اس لڑکے کو اٹھاتا ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لعنت کی ہے۔۔۔۔۔۔ اور عمدہ سند کے ساتھ یہ بھی مروی ہے کہ مروان نے عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تو وہ ہے جس کے بارے میں قرآن میں یہ آیت اتری:"جس نے کہا اپنے والدین سے کہ تم پر اُف ہے۔"۔۔۔۔ عبدالرحمن کہنے لگے: "تو نے جھوٹ کہا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تیرے والد پر لعنت کی تھی۔"
نوٹ: مروان کی بدزبانی کا یہ پورا واقعہ علاوہ دیگر مورخین کے امام جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں بھی نقل کیا ہے اور متعدد دوسرے علماء نے اس کو بیان کا ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
سوال:مروان کافر کیوں نہیں بنا جبکہ وہ صحابی علی ابن ابی طالب اور صحابی حسن و حسین کو گالیاں دے رہا ہے؟
معاویہ و بنی امیہ کے حامی نواصب اب یہ بتائیں کہ کیا علی ابن ابی طالب صحابی نہ تھے؟ کیا حسن و حسین علیہم السلام صحابی رسول نہ تھے؟ کیا دختر رسول، سیدۃ نساء العالمین، بتول و زہراء ، جگر گوشہ رسول صحابیہ نہ تھیں کہ انہیں معاذ اللہ معاذ اللہ یہ مروان بن حکم ایسے گالیاں دے؟
آپ کو ان نواصب کا مکروہ اصلی چہرہ دیکھنا ہے تو دیکھئے سپاہ صحابہ کہ ویب سائیٹ پر "براۃ عثمان "
نامی کتاب جہاں یہ مروان بن حکم کو کافر کہنے کی بجائے "رضی اللہ عنہ" اور "فقیہ مدینہ" کہہ رہے ہیں اور اس سے مروی روایات انکی کتابوں میں بھری ہوئی ہیں۔
تو بجائے مروان کو کافر بنانے کے انہوں نے اسے نہ صرف "رضی اللہ عنہ" بنا لیا بلکہ اپنا خلیفہ راشد اور "امیر المومنین" بنا دیا۔
نوٹ:
کیا آپ کو کو علم ہے کہ صحابی طلحہ کو کس نے مارا تھا؟ آپ کو حیرت ہو گی کہ طلحہ کو تیر مار کر ہلاک کرنے والا کوئی اور شخص نہیں بلکہ یہی مروان بن حکم ہے ۔ یقین نہیں آتا ہے کہ پھر بھی یہ لوگ اسے "امیر المومنین" بنائے بیٹھے ہیں۔ یہ اللہ کی ان پر لعنت ہے جو یہ اپنے ہی کبار صحابہ کے قاتلوں کو "رضی اللہ عنہ" اور اپنا خلیفہ و امیر المومنین بنائے بیٹھے ہیں۔
اہل سنت کی معتبر کتب میں یحیی ابن سعید سے روایت ہے:
" ۔ جب طلحہ نے میدان جنگ سے پسپا ہونا شروع کیا تو اس وقت طلحہ کے لشکر کی صفوں میں مروان بن حکم بھی موجود تھا۔ مروان بن حکم اور بنی امیہ، طلحہ کو عثمان کا قاتل سمجھتے تھے۔ مروان نے طلحہ پر ایک تیر کھینچ کر چلایا، جس سے وہ بری طرح زخمی ہو گیا۔ پھر اس نے ابان سے کہا (جو عثمان کا بیٹا تھا)، "میں نے تمہیں تمہارے باپ کے ایک قاتل سے نجات دلا دی ہے۔" طلحہ کو بصرہ میں ایک اجڑے ہو
ۓ گھر میں منتقل کر دیا گیا جہاں اس کا انتقال ہوا۔"
سنی حوالے:
1. طبقات ابن سعد، ج 3، ص 159
2. ابن حجر عسقلانی، الاصابہ، ج3، ص 532
3. تاریخ ابن اثیر، ج3، ص244
4. اسد الغابہ، ج3، ص87
5. ابن عبد البر، الاستیعاب، ج2،ص766
طلحہ کے قتل کے متعلق تفصیل سے یہاں پڑھیے
]
ثبوت نمبر 13: مغیرہ بن شعبہ کا علی ابن ابنی طالب پر سب و شتم
مغیرہ بن شعبہ، جو معاویہ ابن ابی سفیان کا ایک اور گورنر تھا، وہ بھی علی ابن ابی طالب کو معاویہ ابن ابی سفیان کے حکم سے گالیاں دیا کرتا تھا اور لعنت بھیجتا تھا۔
تاریخ کامل، جلد 3، صفحہ 234:
"معاویہ ابن ابی سفیان نے مغیرہ کو بطور گورنر نامزد کیا اور کہا: "میں نے تمہاری نامزدگی اپنی عقل کے مطابق کی ہے، تو اب تم مجھے ان شرائط پر بیعت دو کہ تم اس روایت کو جاری رکھو گے کہ تم علی کی بے عزتی کرنا اور لعن کرو گے مگر حضرت عثمان کی تعریف کرو گے۔ مغیرہ کچھ عرصے کوفہ کا گورنر رہا اور اس دوران وہ علی ابن ابی طالب کی بدگوئی کرتا تھا اور ان پر لعنت کرتا تھا۔
اورابن کثیر البدایہ و النہایہ جلد
8، صفحہ 50 پر لکھتے ہیں:
قال‏:‏ قال سلمان لحجر‏:‏ يا ابن أم حجر لو تقطعت أعضاؤك ما بلغت الإيمان، وكان إذ كان المغيرة بن شعبة على الكوفة إذا ذكر علياً في خطبته يتنقصه بعد مدح عثمان وشيعته فيغضب حجر هذا ويظهر الإنكار عليه‏.‏

ترجمہ:
"جب مغیرہ بن شعبہ کوفہ کا والی تھا تو وہ خطبے میں عثمان اور انکے ساتھیوں کی مدح کے بعد علی ابن ابی طالب کی تنقیض کرتا تھا۔ اس پر حضرت حجر غضبناک ہو کر احتجاج کرتے تھے۔"
مسند احمد بن حنبل، جلد 4، حدیث 18485، اول مسند الکوفین، حدیث زید بن ارقم:
آن لائن لنک
:
حدثنا ‏ ‏محمد بن بشر ‏ ‏حدثنا ‏ ‏مسعر ‏ ‏عن ‏ ‏الحجاج ‏ ‏مولى ‏ ‏بني ثعلبة ‏ ‏عن ‏ ‏قطبة بن مالك ‏ ‏عم ‏ ‏زياد بن علاقة ‏ ‏قال ‏ ‏نال ‏ ‏المغيرة بن شعبة ‏ ‏من ‏ ‏علي ‏ ‏فقال ‏ ‏زيد بن أرقم ‏ ‏قد علمت أن رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏كان ‏ ‏ينهى عن سب الموتى فلم تسب ‏ ‏عليا ‏ ‏وقد مات ‏

ترجمہ:
زید بن علاقہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں: مغیرہ بن الشعبہ نے علی ابن ابی طالب کو گالیاں دی، تو اس پر زید بن ارقم کھڑے ہو گئے اور کہا: "تمہیں علم ہے کہ رسول ص نے مردہ لوگوں کو گالیاں دینے سے منع کیا ہے، تو پھر تم علی ابن ابی طالب پر کیوں سب کر رہے ہو جب کہ وہ وفات پا چکے ہیں؟
یہ صحیح روایت ہے اور اسے حاکم، اور پھر الذھبی نے صحیح قرار دیا ہے۔
اور شیخ الارنؤوط نے مسند احمد کے حاشیے میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اور حتی کہ شیخ البانی نے بھی اسے سلسلہ احادیث صحیحیہ میں اسے صحیح قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ یہ امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح روایت ہے:
2397 - " نهى عن سب الأموات " .
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 5 / 520 :
أخرجه الحاكم ( 1 / 385 ) عن شعبة عن مسعر عن زياد بن علاقة عن عمه : " أن المغيرة بن شعبة سب علي بن أبي طالب ، فقام إليه زيد بن أرقم فقال : يا مغيرة ! ألم تعلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن سب الأموات ؟ فلم تسب عليا و قد مات ؟ ! " ، و قال : " صحيح على شرط مسلم "

ثبوت نمبر 14: بسر بن ارطاۃ کا علی ابن ابی طالب پر سب و شتم
امام ابن جریر طبری علی ابن محمد سے نقل کرتے ہیں:
آن لائن لنک
:
بسر بن ارطاۃ نے بصرے کے ممبر پر کھڑے ہو کر علی ابن ابی طالب کو برا بھلا کہا۔ پھر اُس نے کہا: میں خدا کے نام پر پوچھتا ہوں کہ جو جانتا ہے کہ میں سچا ہوں وہ اسکی گواہی دے اور اسی طرح اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں جھوٹا ہوں تو وہ بھی اسکی گواہی دے۔ اس پر ابو بکرہ نے کہا بخدا ہم سب جانتے ہیں کہ تم جھوٹے ہو۔ اس پر بسر بن ارطاۃ نے حکم دیا کہ ابو بکرہ کو قتل کر دیا جائے۔
اور یہی واقعہ امام ابن اثیر اپنی مشہور کتاب تاریخ ابن اثیر میں نقل کرتے ہیں:
آن لائن لنک
:
وكان السبب في ذلك أن الحسن لما صالح معاوية أول سنة إحدى وأربعين وثب حمران بن أبان على البصرة فأخذها وغلب عليها، فبعث إليه معاوية بسر ابن أبي أرطأة وأمره بقتل بني زياد بن أبيه، وكان زياد على فارس قد أرسله إليها علي بن أبي طالب، فلما قدم بسر البصرة خطب على منبرها وشتم عليا ثم قال: نشدت الله رجلا يعلم أني صادق إلا صدقني أو كاذب إلا كذبني. فقال أبو بكرة: اللهم إنا لا نعلمك إلا كاذبا. قال: فأمر به فخنق.

ترجمہ:
جب امام حسن نے سن 41 میں معاویہ ابن ابی سفیان سے صلح کی تو حمران ابن ابان نے بصرہ پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔ اس پر معاویہ ابن ابی سفیان نے بسر بن ارطاۃ کو وہاں روانہ کیا اور حکم دیا کہ زید بن ابیہ اور اسکی اولاد کو قتل کر دے اور زیاد اس وقت فارس میں تھا کیونکہ علی ابن ابی طالب نے انکو وہاں روانہ کیا تھا۔بسر بن ارطاۃ نے بصرے کے ممبر پر کھڑے ہو کر علی ابن ابی طالب کو برا بھلا کہا۔ پھر اُس نے کہا: میں خدا کے نام پر پوچھتا ہوں کہ جو جانتا ہے کہ میں سچا ہوں وہ اسکی گواہی دے اور اسی طرح اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں جھوٹا ہوں تو وہ بھی اسکی گواہی دے۔ اس پر ابو بکرہ نے کہا بخدا ہم سب جانتے ہیں کہ تم جھوٹے ہو۔ اس پر بسر بن ارطاۃ نے حکم دیا کہ ابو بکرہ کو قتل کر دیا جائے۔

ثبوت نمبر 15: زیاد اور کثیر ابن شہاب کا علی ابن ابی طالب پر سب و شتم
امام ابن جریر طبری اپنی تاریخ میں نقل کرتے ہیں:
آنلائن لنک
:
"پھر معاویہ کا قاصد زیاد کے پاس یہ حکم لے کر پہنچا کہ ان میں سے چھ افراد کو چھوڑ دیا جائے اور آٹھ کو یہ بتاتے ہوئے قتل کر دیا جائے کہ: "
ہمیں حکم ہے کہ تمہارے سامنے علی سے بیزاری اختیار کرنے اور اُن پر لعن کرنے کی شرط رکھی جائے۔ اگر تم اسے قبول کر لو تو ہم تمہیں رہا کر دیں گے۔ اور اگر تم انکار کرتے ہو تو پھر ہم تمہیں قتل کر دیں گے۔
اور کثیر ابن شہاب بھی شہر الری میں منبر سے علی ابن ابی طالب کو گالیاں دیتا تھا
علامہ ابن اثیر اپنی کتاب تاریخ کامل میں نقل کرتے ہیں:
آن لائن لنک
:
ولما ولی المغیرۃ الکوفۃ استعمل کثیر بن شھاب علی الری، و کان بکثر سب علی علی منبر الری و بقی علیھا الی ان ولی زیاد الکوفہ فاقرہ علیہا۔۔۔۔۔

ترجمہ:
یعنی جب مغیرہ بن شعبہ کو کوفہ کا گورنر بنایا گیا تو کثیر بن شہاب کو شہر الری کا ولی مقرر کیا گیا۔اور یہ کثیر ابن شہاب علی ابن ابی طالب کو شہر الری کے مسجد کے مببر سے گالیاں دیتا تھا ۔۔۔ اور زیاد جب بصرہ آیا تو وہ منبر پر کھڑا ہوا اور اس نے خطبہ دیا جس میں علی ابن ابی طالب کو برا بھلا کہا۔
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
شیخ ابو زہرہ مصری کی کتاب تاریخ مذاہب اسلامی سے اقتباس
“تاریخ مذاہب اسلامی" بہت مشہور کتاب ہے۔ اسکا اردو ترجمہ ہو چکا ہے۔ اس کتاب سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے:
آن لائن لنک:
“اموی دور حکومت میں حضرت علی کے اعزاز و احترام میں مزید اضافہ کا موجب ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ حضرت معاویہ نے اپنے عہد خلافت میں ایک بدترین سنت کو ایجاد کیا جو ان کے بیٹے اور ان کے بعد آنے والے خلفاء میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمت اللہ علیہ کے زمانہ تک جاری رہی۔ وہ سنت قبیحہ یہ تھی کہ خطبہ پڑھنے کے بعد حضرت علی پر لعنت بھیجی جاتی تھی جو صحابہ اُس وقت بقید حیات تھے انہوں نے اسے نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور حضرت معاویہ اور اموی خلفاء کو اس سے منع کیا۔ ام المومنین حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت معاویہ کو اس مضمون پر مشتمل ایک خط لکھا:
“جب تم منبر پر کھڑے ہو کر حضرت علی اور ان کے احباب پر لعنت بھیجتے ہو تو اسکا مطلب یہ ہے کہ تم اللہ و رسول کو ملعون قرار دیتے ہو۔ میں گواہی دیتی ہوں کہ نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت علی کو چاہتے تھے۔"

مصری عالم دین احمد زکی صفوت کی تحقیق سب علی پر
احمد زکی صفوت مصر کے مشہور عالم دین ہیں جنہوں نے ایک کتاب لکھی ہے "عمر ابن عبدالعزیز"۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ کیا ہے "عبدالصمد صارم الازھری" صاحب نے۔
سکین شدہ صفحے کا آن لائن لنک
:
"حضرت علی پر تبرا بازی
جناب عمر [ابن عبدالعزیز] نے منبروں پر حضرت علی پر تبرا کہنا ممنوع قرار دیا، امیر معاویہ کی خلافت کے بعد سے تبرا ہوتا چلا آ رہا تھا۔
مورخین نے بیان کیا ہے کہ امیر معاویہ نے سن 41 ہجری میں اپنے گورنروں کو لکھا کہ میں اس شخص سے بری الذمہ ہوں جس نے علی یا ان کے گھرانے کے بارے میں کسی قسم کے فضائل بیان کیے۔ لہذا ہر گاوں اور ہر منبر پر خطیب حضرت علی کو لعن طعن کرنے لگے، ان سے برات کا اظہار کرنے لگے اور انکے اور انکے گھرانے کے بارے میں زبان درازی کرنے لگے۔
امیر معاویہ نے تمام اطراف مملکت میں لکھ بھیجا تھا کہ شیعان علی میں سے اور انکے خاندانوں میں سے کسی شخص کی گواہی کو نہ مانا جائے۔ پھر اسکے بعد ایک اور چٹھی میں لکھا:"دیکھو جس کسی کے بارے میں یہ معلوم ہو جائے کہ وہ علی اور انکے اہلبیت سے محبت کرتا ہے اسکا نام دفتر سے خارج کر دو اور اسکا وظیفہ بند کر دو، ایک دوسری چٹھی میں لکھا جس کسی کو ان لوگوں کا دوست پاو اسکو سخت سزائیں دو اور اسکا گھر ڈھا دو۔
حضرت امیر معاویہ حج کے لیے گئے تو مدینہ بھی گئے۔ انہوں نے چاہا کہ رسول اللہ کے منبر پر کھڑے ہو کر حضرت علی کے بارے میں اپنی اختلافی رائے بیان کریں تو اُن سے لوگوں نے کہا، یہاں سعدب بن ابی وقاص ہیں، وہ اس بات کو گوارا نہیں کر سکیں گے، پہلے انکے پاس کسی کو بھیج کر انکی رائے دریافت کیجئے۔ معاویہ نے انکے پاس قاصد بھیجا اور اس امر کا تذکرہ کیا۔ تو انہوں نے فرمایا، اگر آپ نے ایسا کیا تو میں مسجد سے نکل جاون گا اور دوبارہ مسجد میں قدم نہیں رکھوں گا۔ لہذا معاویہ اس سے باز رہے حتی کہ سن 55 ہجری میں سعد بن ابی وقاص کا انتقال ہو گیا۔ جن انکا انتقال ہو گیا تو معاویہ نے حضرت علی کی منبر [رسول] پر چھڑ کی مذمت کی اور اپنے تمام عمال کو لکھا کہ وہ مبروں پر انکی مذمت کریں۔ چنانچہ انہوں نے حکم کی تعمیل کی۔ حضرت ام سلمہ نے حضرت معاویہ کو لکھا کہ تم اللہ اور رسول کو مبروں پر لعن طعن کرتے ہو کیونکہ تم علی ابن ابی طالب اور انکے دوستوں پر طعن کرتے ہو۔ میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کا رسول ان سے محبت کرتا تھا۔ امیر معاویہ نے انکی بات کی طرف کچھ بھی دھیان نہ دیا۔

علامہ عبد العزیز سید الاھل
انہوں نے بھی حضرت عمر بن عبدالعزیز پر ایک کتاب "خلیفہ الزاہد" کے نام سے لکھی ہے۔
اس کتاب کا اردو ترجمہ مولانا راغب رحمانی نے کیا ہے اور نفیس اکیڈمی کراچی نے اس کو شائع کیا ہے؛
سکین شدہ صفحے کا آن لائن عکس
:
"بدعت معاویہ:
اسلامی شہروں میں قابل افسوس و رسوا کن اور حیا سوز ایک بدعت سرایت کر رہی تھی۔ جس نے شہروں کی ناک کاٹ کر رکھ دی تھی۔ پھر یہ بدعت بڑھتے بڑھتے تمام منبروں پر چھا گئی تھی۔ اور تمام کانوں میں بھِی گونجنے لگی تھی۔ اور مسجد نبوی میں بھی گھس گئی تھی۔ اور آپ [صل اللہ علیہ و آلہ وسلم] کے منبر پر بھی چڑھ گئی تھی۔ اورانکا اپنے حکام کو حکم تھا کہ اس بدعت کو جمہ کے خطبوں میں منبروں پر دہرایا جائے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کا خیا ل تھا کہ جب یہ بات لگاتار لوگوں کے کان کھٹکاتی رہے گی اور ان لوگوں کے دلوں میں ٹھونسی جاتی رہے گی تو لوگ ضرور اس سے متاثر ہوں گے اور ان کے دل ہماری طرف جھک جائیں گے۔


حصہ دوم خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا تجزیہ [ از ملک غلام علی ]




مختصر تعارف:
مولانا مودودی نے ایک کتاب " خلافت و ملوکیت " تحریر کی اور اس میں خلافت عثمان میں اٹھنے والی برائیوں کا ذکر کیا، اور پھر جمل و صفین وغیرہ کی وجوہات اور چند صحابہ کی غلطیوں کا ذکر کیا اور پھر معاویہ ابن ابی سفیان اور اسکے گورنروں کا علی ابن ابی طالب کو منبروں سے گالیاں دینے کا ذکر تاریخی حوالوں کے ساتھ کیا۔ اس پر انتہا پسند طبقات میں مخالفت کی لہر دوڑ گئی اور انہیں گوارا نہ تھا کہ کبھی تاریخی حقائق قوم کے سامنے پیش ہوں۔

خلافت و ملوکیت کے جواب میں ان طبقات کی طرف سے بہت سے کتب جواب میں لکھی گئیں۔ ان میں تقی عثمانی صاحب کی کتاب سب سے زیادہ مشہور ہوئی کیونکہ انہوں نے بہت چالاکی سے مواد کو یوں پیش کیا کہ جس سے تاریخی حقائق مٹنے لگے۔

اس لیے جماعت اسلامی کے ریٹائرڈ جسٹس " ملک غلام علی " صاحب کو جواب دے کر تاریخی حقائق پھر سے واضح کرنے پڑے اور انہی جوابات کو بعد میں کتابی شکل میں پیش کیا گیا اور اسکا نام تھا " خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا تجزیہ " رکھا گیا۔

یہ حصہ دوم اسی کتاب کے ان اقتباسات پر مشتمل ہے جس میں علی و اولاد علی پر سب و شتم کے متعلق بحث کی گئی ہے۔

حضرت علی و اہلبیت پر سب و شتم
سب علی کا ثبوت

مال غنیمت کے مسئلے کے بعد حضرت علی پر سب و شتم کا مسئلہ آتا ہے۔ اس موضوع پر مولانا مودودی نے خلافت و ملوکیت صفحہ 174 پر دس سطروں میں جو کچھ لکھا ہے اسکا اقتباس دے کر عثمانی صاحب لکھتے ہیں

عبارت

" مولانا نے اس عبارت میں تین دعوے کیے ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت معاویہ حضرت علی پر خود سب و شتم کی بوچھاڑ کرتے تھے۔ دوسرے یہ کہ ان کے تمام گورنر یہ حرکت کرتے تھے۔ تیسرے یہ کہ یہ گورنر حضرت معاویہ کے حکم سے ایسا کرتے تھے۔ جہاں تک پہلے دعوے کا تعلق ہے، سو حضرت معاویہ کی طرف اس مکروہ بدعت کو منسوب کرنے کے لیے تین کتابوں کے پانچ حوالے پیش کیے گئے ہیں۔ ہم نے ان میں سے ایک ایک حوالہ کو صرف مذکورہ صفحات ہی پر نہیں، بلکہ آس پاس بھی بنظر غائر دیکھا۔ چونکہ مولانا نے تصریح کے ساتھ لکھا ہے کہ وہ خود [ معاذ اللہ] اس " انسانی اخلاق کے خلاف" فعل کا ارتکاب کرتے تھے اس لیے ہم نے سوچا کہ شاید مولانا نے ایسی کوئی روایت کسی اور مقام پر دیکھ لی ہو اور اسکا حوالہ دینا بھول گئے ہوں۔ چنانچہ ہم نے مذکورہ تمام کتابوں کے متوقع مقامات پر دیر تک جستجو کی کہ شاید کوئی گری پڑی روایت ایسی مل جائے لیکن یقین فرمائیے کہ ایسی کوئی بات ہمیں کسی کتاب میں نہیں ملی۔ ۔ پھر بعض ان تواریخ کی طرف بھی رجوع کیا جن کے مصنف شیعہ تھے، مثلا مروج الذہب، لیکن اس میں بھی ایسی کوئی بات نہیں ملی۔" عثمانی صاحب نے یہاں اور آگے چل کر جس طرح سب علی کے معاملے میں حضرت معاویہ کی برات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، میں اس کے جواب میں پوری ذمہ داری کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ امیر معاویہ نے خلیفہ بننے سے پہلے بھی اور اسکے بعد بھی حضرت علی و اہل بیت النبی پر سب و شتم کی مہم خود اپنی سرپرستی میں باقاعدہ جاری کی تھی اور یہ بنو امیہ کے دور میں منبروں پر مسلسل جاری رہی۔ تا آنکہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے آ کر اسے مٹایا۔ یہ بات جس طرح تاریخ و حدیث کی کتابوں میں مذکور ہے، وہ اسے قطعیت و تواتر کا درجہ دے رہی ہے۔ مولانا مودودی کے حوالوں میں کوئی خلا یا تشنہ پہلو تلاش کر کے اسے زور آزمائی کے لیے منتخب کر لینے سے حقیقی مسئلہ کالعدم نہیں ہو سکتا۔ مھے عثمانی صاحب کی شکایات اس حد تک تسلیم ہے کہ جن مقامات کے حوالے مولانا مودودی نے دیے ہیں، وہاں یہ بات صراحتا مذکور نہیں کہ امیر معاویہ خود سب و شتم کرتے تھے۔

[ حاشیہ از ملک غلام علی صاحب:
ہو سکتا ہے کہ مولانا مودودی سے کوئی حوالہ رہ گیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ مطالعہ کب سے ایک مجموعی اور مشترک مضمون انہوں نے اخذ کر کے اپنے الفاظ میں بیان کر دیا ہو اور کچھ حوالے دے کر بقیہ کو قصدا نظر انداز کر دیا ہو۔ بہر کیف " البدایہ و النہایہ" جن کے دو مقامات کا حوالہ مولانا مودودی نے درج کیا ہے، اسی کتاب کے دیگر مقامات پر وہ بات مذکور ہے جسے میں نقل کر رہا ہوں اور جس سے محمد تقی صاحب نے انکار کیا ہے۔"]
بلکہ اتنی بات بیان کی گئی ہے کہ گورنروں کو اسکی ہدایت کی گئی تھی، لیکن انہی کتابوں کے بعض دوسرے مقامات پر امیر معاویہ کا اپنا یہی فعل منقول ہے، اس لیے مدیر موصوف اپنے الفاظ کی منظر کشی سے جو تاثر دینا چاہتے ہیں کہ امیر معاویہ نے خود نہ کبھی ایسا کیا، نہ کسی سے کرنے کو کہا یہ تاثر بالکل غلط اور خلاف واقعہ ہے۔ موصوف کا بیان یہ ہے کہ انہوں نے مولانا کی ذکر کردہ کتابوں، بلکہ دوسری تاریخوں کے سارے مقامات پر جستجو کی لیکن ایسی کوئی بات کسی کتاب میں نہ ملی۔ میں سردست دوسری کتابوں سے نہیں، البدایہ و النہایہ ہی سے دو حوالے پیش کرتا ہوں، جسے کھنگالنے کا انہوں نے دعوی کیا ہے

عبارت

وقال أبو زرعة الدمشقي‏:‏ ثنا أحمد بن خالد الذهبي أبو سعيد، ثنا محمد بن إسحاق، عن عبد الله بن أبي نجيح، عن أبيه قال‏:‏ لما حج معاوية أخذ بيد سعد بن أبي وقاص‏.‏ فقال‏:‏ يا أبا إسحاق إنا قوم قد أجفانا هذا الغزو عن الحج حتى كدنا أن ننسى بعض سننه فطف نطف بطوافك‏.‏ قال‏:‏ فلما فرغ أدخله دار الندوة فأجلسه معه على سريره، ثم ذكر علي بن أبي طالب فوقع فيه‏.‏ فقال‏:‏ أدخلتني دارك وأجلستني على سريرك، ثم وقعت في علي تشتمه ‏؟‏والله لأن يكون في إحدى خلاله الثلاث أحب إلي من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال حين غزا تبوكاً ‏(‏‏(‏ إلا ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي ‏؟‏‏)‏‏)‏ أحب إلي مما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال له يوم خيبر‏:‏ ‏(‏‏(‏ لأعطين الراية رجلاً يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله يفتح الله على يديه، ليس بفرار‏)‏‏)‏ ‏(‏ ج/ ص‏:‏ 7/377‏)‏ أحب إليّ مما طلعت عليه الشمس، ولأن أكون صهره على ابنته ولي منها الولد ماله أحب إليّ من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، لا أدخل عليك داراً بعد هذا اليوم، ثم نفض رداءه ثم خرج‏.‏ [ البدایہ و النہایہ جلد 7 ، صفحہ 341]
ترجمہ

" ابو زرعہ الدمشقی عبداللہ بن ابی نجیح کے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب معاویہ نے حج کیا تو وہ سعد بن ابی وقاص کا ہاتھ پکڑ کر دارالندوہ میں لے گیا اور اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا۔ پھر علی ابن ابی طالب کا ذکر کرتے ہوئے انکی عیب جوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص نے جواب دیا: " آپ نے مجھے اپنے گھر میں داخل کیا، اپنے تخت پر بٹھایا، پھر آپ نے علی ابن ابی طالب کے حق میں بدگوئی اور سب و شتم شروع کر دیا۔ خدا کی قسم، اگر مجھے علی کے تین خصائص و فضائل میں سے ایک بھی ہو تو وہ مجھے اس کائنات سے زیادہ عزیز ہو جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ کاش کہ نبی اللہ ص نے میرے حق میں یہ فرمایا ہوتا جب کہ آنحضور ص غزوہ تبوک پر تشریف لے جا رہے تھے تو آپ نے علی کے حق میں فرمایا:" کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون کو موسی سے تھی سوائے ایک چیز کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ یہ ارشاد میرے نزدیک دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب تر ہے۔ پھر کاش کہ میرے حق میں وہ بات ہوتی جو آنحضور ص نے خیبر کے روز علی کے حق میں فرمائی تھی کہ " میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اسکے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اسکا رسول ص اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اللہ اسکے ہاتھ پر فتح دے گا اور یہ بھاگنے والا نہیں [ غیر فرار] ہے۔ یہ ارشاد بھی مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ عزیز تر ہے۔ اور کاش کہ مجھے رسول ص کی دامادی کا شرف نصیب ہوتا اور آنحضور ص کی صاحبزادی سے میرے ہاں اولاد ہوتی جو علی کو حاصل ہے، تو یہ چیز بھی میرے لیے دنیا و مافیہا سے عزیز تر ہوتی۔آج کے بعد میں تمہارے گھر کبھی داخل نہ ہوں گا۔ پھر سعد بن ابی وقاص نے اپنی چادر جھٹکی اور وہاں سے نکل گئے۔
"
آگے البدایہ جلد 8 ، صفحہ 50 پر ابن کثیر لکھتے ہیں

عبارت

" کان مغیرۃ بن شعبۃ علی الکوفہ اذا ذکر علیا فی خطبتہ ینتقصہ بعد مدح عثمان و شیعتہ فیغضب حجر ھذا و یظھر الانکار علیہ"
ترجمہ

" جب مغیرہ بن شعبہ کوفہ کے والی تھے تو وہ خطبے میں حضرت عثمان اور انکے ساتھیوں کی مدح کے بعد حضرت علی کی تنقیص کرتے تھے۔ اس پر حضرت حجر غضبناک ہو کر احتجاج کرتے تھے۔"
ممکن ہے کہ مدیر " البلاغ " ان روایات کو بھی " گری پڑی " کہنے کی جرات کریں اور کتب رجال کی ورق گردانی شروع کر دیں۔ مگر میں انہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ انکے شواہد و متابعات مسلم اور ترمذی، مقدمہ ابن ماجہ، فضل علی اور دیگر کتب حدیث میں بھی موجود ہیں۔

مسلم کی ایک حدیث یہ ہے

َدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، - وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ - قَالاَ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، - وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ - عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلاَثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَنْ أَسُبَّهُ لأَنْ تَكُونَ لِي ۔۔۔
ترجمہ

" حضرت سعد بن ابی وقاص کے صاحبزادے عام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ نے حضرت سعد کو حکم دیا ( امر) اور پھر کہا کہ آپ کو کس چیز نے روکا ہے کہ آپ ابو تراب [ حضرت علی] پر سب و شتم نہ کریں؟ انہوں نے جواب دیا کہ جب میں اُن تین ارشادات نبوی کو یاد کرتا ہوں جو رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کے متعلق فرمائے تھے تو میں ہرگز ان پر سب و شتم نہیں کر سکتا۔ ان تین مناقب میں سے اگر ایک منقبت بھی میرے حق میں ہوتی تو مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب ہوتی۔"
اسکے بعد حضرت سعد نے وہ تینوں مناقب بیان کیے جو اوپر البدایہ کی روایت میں مذکور ہو چکے ہیں۔ بس اتنا فرق ہے کہ تیسرا ارشاد مسلم [ اور ترمذی ] میں یوں نقل ہے کہ جب یہ آیت مباہلہ اتری کہ " فقل تعالو ندع ابناءنا " ۔۔۔۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور فرمایا اللھم ھولاء اھلی۔ " اے میرے اللہ، یہ میرے اہل و عیال ہیں " ۔

معنوی اعتبار سے دونوں باتوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ بعض شارحین نے مسلم اور ترمذی کی حدیث کے لفظ سب کی توجیہ یہ کی ہے کہ اس سے مراد بدگوئی نہیں، بلکہ امیر معاویہ کی مراد یہ تھی کہ آپ حضرت علی کے اجتہادات و آراء کو غلط اور میرے اجتہاد کو صحیح کیوں نہیں کہتے۔ لیکن یہ توجیہ بالکل بے محل ہے اور لغت یا سیاق کلام میں اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ اگر سوال محض اجتہاد کے صواب و خطا کا تھا، تو اسکے جواب میں حضرت علی کے فضائل و مناقب کے بیان کا کیا موقع تھا؟ غلطی یا اجتہادی غلطی تو حضرت علی سے ان فضائل کے باوجود صادر ہو سکتی تھی۔پھر ابن کثیر کی روایت میں جو نقشہ بیان ہوا ہے کہ امیر معاویہ کی بات سن کر حضرت سعد ایسے برافروختہ ہو گئے کہ دامن جھاڑ کر یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ میں آئندہ آپ کے گھر میں کبھی قدم نہیں رکھوں گا، یہ فعل صاف طور پر صورت حال کی سنگینی کو واضح کر رہا ہے۔فتح الباری [ از ابن حجر العسقلانی ] باب مناقب علی کی شرح میں مسند ابی یعلی کے حوالے سے حضرت سعد کے یہ الفاظ منقول ہیں

عبارت

" لو وضع المنشار علی مفرقی علی ان اسب علیا سببتہ ابدا"
ترجمہ

" اگر [ لکڑی کاٹنے والا] آرہ میرے سر پر رکھ کر مجھے علی کی بدگوئی کا حکم دیا جائے تو بھی میں ہرگز انکی بدگوئی نہ کروں گا" ۔
style="background: rgb(125, 166, 71) none repeat scroll 0%; margin-bottom: 0cm; -moz-background-clip: initial; -moz-background-origin: initial; -moz-background-inline-policy: initial;" align="left" dir="rtl"> [ نوٹ از مصنف آرٹیکل ھذا یہ روایتآنلائن یہاں
پڑھیں جہاں علامہ ابن حجر العسقلانی نے اس روایت کی سند کے متعلق لکھا ہے کہ اسکی سند میں کوئی نقص نہیں ]

[ حاشیہ از ملک غلام علی صاحب:
اسی روایت کے ذیل میں لفظ سب کے متعلق شاہ عبدالعزیز کا ایک جواب فتاوی عزیزیہ، مترجم [ شائع کردہ سعید کمپنی] صفحہ 413 پر موجود ہے، جس میں شاہ صاحب فرماتے ہیں: " بہتر یہی ہے کہ اس لفظ [ سِب] سے اسکا ظاہری معنی سمجھا جائے( یعنی برا بھل کہنا) ۔ مطلب اسکا یہی ہو گا کہ ارتکاب اس فعل قبیح کا یعنی" سِب" یا" حکم سِب" حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صادر ہونا لازم آئے گا۔ تو یہ کوئی اول امر قبیح نہیں ہے جو اسلام میں ہوا ہے، اس واسطے کہ درجہ " سِب" کا قتل و قتال سے بہت کم ہے۔ چنانچہ حدیث صحیح میں وارد ہے کہ " سباب المومن فسوق و قتالہ کفر" یعنی برا کہنا مومن کو فسق ہے اور اسکے ساتھ قتال کرنا کفر ہے۔" اور جب( معاویہ ابن ابی سفیان سے) قتال اور حکم قتال کا صادر ہونا یقینی ہے اس سے کوئی چارہ نہیں تو بہتر یہی ہے کہ انکو مرتکب کبیرہ [ گناہ] کا جاننا چاہیے۔ لیکن زبان طعن و لعن بند رکھنا چاہیے۔ اسی طور سے کہنا چاہیے جیسا صحابہ رضوان اللہ علیھم سے اُن کی شان میں کہا جاتا ہے جن سے زنا اور شراب خمر سرزد ہوا رضی اللہ عنہم اجمعین۔ اور ہر جگہ خطاء اجتہادی کو دخل دینا بیباکی سے خالی نہیں۔ "]
ان روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ امیر معاویہ نے سِب علی کا ایک عام طریقہ رائج کر رکھا تھا، حتی کہ انہوں نے حضرت سعد جیسے جلیل القدر صحابی کو بھی اسی کا حکم دیا حالانکہ وہ عشرہ مبشرہ میں سے تھے اور دور فتن میں بالکل گوشہ نشین ہو گئے تھے۔ جب انہوں نے اس فرمائش کی تعمیل نہ کی تو امیر معاویہ نے اس پر گرفت کرتے ہوئے جواب طلبی کی اور حضرت سعد کو صاف بیانی سے کام لینا پڑا۔ ممکن ہے کہ عثمانی صاحب یہاں نکتہ اٹھائیں کہ اس میں منبر کا ذکر نہیں ہے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ ایسا فعل جس کا دوسروں کو حکم [ امر ] کیا جائے اور جس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں باز پرس کی جائے کوئی معقول وجہ نہیں کہ اس کا ارتکاب علانیہ نہ ہو۔ پھر بالفرض اگر یہ فعل منبر پر کھڑے ہو کر نہیں بلکہ سریر [ تخت ] پر بیٹھ کر کیا جائے تو کیا قباحت میں کوئی کمی واقع ہو جاتی ہے؟ بلکہ اس طرح سے پرائیویٹ مجلس میں سب و شتم اپنے ساتھ اغتیاب [ غیبت ] کو بھی جمع کر لیتا ہے۔

لاطائل تردید
سِب علی کو بالکل ایک غیر واقعی مفروضہ ثابت کرنے کے لیے عثمانی صاحب نے جو دور از کار دلائل دیے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت علی کے قتل پر حضرت معاویہ رونے لگے اور انکی اہلیہ نے کہا کہ آپ روتے کیوں ہیں جب کہ زندگی میں آپ ان سے لڑتے رہے۔ اس سے عثمانی صاحب نے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ دیکھو، آپ کی اہلیہ نے کہا کہ آپ لڑتے رہے، یہ نہیں کہا کہ سب و شتم کی بوچھاڑ کرتے رہے، اس سے ثابت ہوا کہ آپ سبِ علی نہیں کرتے تھے۔

سبحان اللہ، کیا نرالا استدلال ہے۔ اسکا جواب تو وہی ہے جو شاہ عبدالعزیز صاحب نے دیا ہے کہ خلیفہ راشد و برحق کے خلاف بغاوت و قتال تو سباب [ سب کی جمع ] سے بڑھ کر اور شدید تر ہے۔ایسی صورت میں امیر معاویہ کی اہلیہ محترمہ قتال کو چھوڑ کر سب و شتم کا ذکر کیا کرتیں۔باقی مجھے اس رونے پر بھی ایک شعر یاد آ گیا جو حضرت ابو الطفیل عامر بن واثلہ نے حضرت معاویہ اور حضرت علی ہی کے معاملے کی مثال دیتے ہوئے پڑھا تھا اور وہ یہ ہے کہ

لا الفینک بعد الموت تندبنی و فی حیاتی مازوتنی زادی
ترجمہ

" میں تمہیں اس حال میں نہ پاوں کہ تم میرے مرنے پر تو میرا ماتم کرو۔ مگر میری زندگی میں میرے لیے کوئی سرو سامان فراہم نہ کرو۔"
[ حاشیہ از غلام علی صاحب یہ واقعہ اور شعر اُسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد 5 میں حضرت ابو الطفیل کے حالات میں درج ہے ]

واقعہ یہ ہے کہ حضرت معاویہ کے رونے سے تو دراصل یہ ثابت ہوتا ہے کہ اُن کا ضمیر خود جانتا تھا کہ خلیفہ وقت سے لڑ کر انہوں نے کس خطائے عظیم کا ارتکاب کیا تھا اور انکا دل خوب جانتا تھا کہ بغاوت کے جُرم سے قطع نظر، علی جیسے شخص کے مقابلہ میں بجائے خود انکا دعوائے خلافت کس قدر بے جا تھا۔ اس رونے سے یہ دلیل نہیں لائی جا سکتی کہ وہ ان کی مخالفت میں سرگرم نہ تھے، بلکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جس انسان سے وہ لڑتے رہے، اس کے فضل و کمال کا انہیں خود اعتراف تھا۔

پھر عثمانی صاحب نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ بُسر بن ارطاۃ نے حضرت معاویہ اور حضرت زید بن عمر بن خطاب کی موجودگی میں حضرت علی پر سب و شتم کیا تو حضرت معاویہ نے فرمایا " تم علی کو گالی دیتے ہو حالانکہ وہ ان [ حضرت زید ] کے دادا ہیں " ؟ عجیب بات ہے اس واقعہ سے بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ امیر معاویہ اور آپ کے گورنر سِب علی کے الزام سے بری الذمہ ہیں، حالانکہ اس واقعہ سے تو یہ ثبوت مل رہا ہے کہ گورنروں میں اتنی جرات اور بیباکی پیدا ہو گئی تھی کہ وہ امیر معاویہ کے سامنے اور علی کے عزیزوں کی موجودگی میں بھی حضرت علی کو گالیاں دینے سے نہیں چوکتے تھے۔ بُسر بن ارطاۃ مدینے میں امیر معاویہ کا گورنر تھا۔ اس نے جب یہ حرکت کی تو بلاشبہ پہلے آپ نے اسے ٹوکا، لیکن پھر کیا ہوا؟ اسے البلاغ میں نقل نہیں کیا گیا۔ امام طبری فرماتے ہیں

ثم ارضا ھما جمیعا
ترجمہ

" پھر امیر معاویہ نے دونوں کو راضی کر دیا" ۔
حالانکہ حضرت زید کا راضی ہونا کیا ہو گا سوائے اس کے کہ وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے ہوں گے۔ ایک شخص آپ کے سامنے ایک وفات یافتہ صحابی کی شان میں گستاخی کرے اور آپ اس کے فعل پر تو ناراض نہ ہوں، محض اس بات پر گرفت کریں کہ اس شخص وفات یافتہ بزرگ کی اولاد کی موجودگی میں یہ حرکت کی تھی۔ پھر اس دوہری بیہودگی پر سزا کوئی نہیں، بلکہ دونوں میں راضی نامہ کرا دیا۔ یہ ہے صفائی کا وہ بیان جسے عثمانی صاحب بڑے اطمنان کے ساتھ حضرت معاویہ کی طرف سے پیش فرما رہے ہیں۔ شاید آج بھی اگر کوئی شخص کسی سید کے سامنے حضرت علی کو گالی دے تو عثمانی صاحب صرف دونوں کے درمیان راضہ نامہ کرا دینے کو کافی سمجھیں گے۔ بُسر کا مختلف مواقع پر حضرت علی پر سِب و شتم کرنا ایک مسلمہ حقیقت ہے جسے متعدد تاریخوں میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلا تاریخ طبری جلد 4 ، صفحہ 128 ، تاریخ کامل جلد 3 ، صفحہ 307 پر مذکور ہے کہ بُسر نے بصرے میں منبر پر خطبے کے دوران میں حضرت علی پر سِب و شتم کیا۔

[ نوٹ از مصنف آرٹیکل ھذا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صاف صاف فرما دیا ہے کہ جو علی سے بغض رکھے وہ منافق ہے۔
صحیح مسلم
( آن لائن لنک )
قال ‏ ‏علي ‏ ‏والذي فلق الحبة وبرأ النسمة إنه لعهد النبي الأمي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏إلي ‏ ‏أن لا يحبني إلا مؤمن ولا يبغضني إلا منافق ‏
ترجمہ:
color="#ff0000">
زر کہتے ہیں کہ علی ( ابن ابی طالب ) نے فرمایا: اُس ذات کی قسم جو ایک بیچ سے زندگی پیدا کرتا ہے کہ رسول اللہ ص نے مجھے سے وعدہ فرمایا کہ اے علی نہیں کرے گا تجھ سے کوئی محبت سوائے مومن کے، اور نہیں رکھے گا کوئی تجھ سےکوئی بغض سوائے منافق کے۔
بسر بن ارطاۃ اب لسان نبوی ص کے مطابق پکا منافق ہے۔ اور امیر معاویہ اس منافق کو گلے سے لگائے بیٹھا رہا۔
پھر عثمانی صاحب کے حامیوں کا ٹولہ تو ایسے لوگوں پر بھی مشتمل ہے جو صحابہ پر سِب کرنے پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ جب حضرت علی ابن ابی طالب، حضرت فاطمہ اور جناب حسنین پر بنی امیہ کے یہ لاڈلے90 سالوں تک منبروں سے برا بھلا کہتے رہے مگر پھر بھی بنی امیہ کے یہ خلفاء و گورنر انکے نزدیک " امیر المومنین" اور یزید اور مروان جیسے لوگ " رضی اللہ عنہ" ٹہرے۔]

عجیب منطق
پھر مولانا محمد تقی صاحب لکھتے ہیں کہ مولانا مودودی کا دعوی اس وقت ثابت ہو سکتا ہے جب وہ حضرت معاویہ کے تمام گورنروں کی ایک فہرست جمع کر کے ہر ایک کے بارے میں ثابت فرمائیں کہ اس نے انفرادی یا اجتماعی طور پر حضرت علی کو گالیاں دی تھیں اور امیر معاویہ نے ایسا کرنے کا حکم دیا تھا۔ میری طرف سے اس منطق کا جواب یہ ہے ہ جب مختلف و متنوع روایات یہ بات بیان کر رہی ہوں کہ امیر معاویہ خود بھی ایسا کرتے تھے، ان کے بعض گورنر بھی ایسا کرتے تھے اور بعض گورنروں کو ایسا کرنے کا حکم امیر معاویہ نے دیا تھا، تو یہ ساری تاریخی روایتیں مل جُل کر اس امر کا کافی و وافر ثبوت بہم پہنچا دیتی ہیں کہ یہ سلسلہ واقعات ایک طے شدہ پالیسی کی مختلف کڑیاں تھیں، کسی ایک یا دو عاملوں کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اپنی اطرف سے اس امر عظیم کا ارتکاب کرتے اور عامۃ المسلمین یا خود امیر معاویہ اس سے اغماض برتتے۔

پھر امیر معاویہ کا حضرت سعد سے ان الفاظ میں باز پرس کرنا کہ آپ کو کس بات نے سِب علی سے روک رکھا ہے " صاف بتا رہا ہے کہ خلوت و جلوت میں اس رسم کا چلن عام ہو چکا تھا اور حضرت سعد کا اس ڈگر پر نہ چلنا معمول کے خلاف ہونے کی وجہ سے کھٹک رہا تھا۔ مولانا مودودی نے جو روایات نقل کی ہیں انکے متعلق مدیر البلاغ لکھتے ہیں کہ ان کو تھوڑی دیر کے لیے درست مان لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ دو گورنروں پر یہ الزام لگایا جا سکتا ہے کہ وہ حضرت علی کو برا بھلا کہتے تھے۔ اس سے یہ کیسے لازم آ گیا کہ حضرت معاویہ کے تمام گورنر خود آپ کے حکم سے ایسا کرتے تھے۔ حالانکہ ایک آدھ گورنر تک اگر یہ فعل محدود ہوتا تو دو صورتوں سے خالی نہ ہوتا۔ اگر خود امیر معاویہ یا دوسرے گورنر اس فعل کو نہ کرتے اور صرف ایک یا دو گورنروں کو حکم ہوتا تو وہ جواب میں ضرور کہتے کہ آخر آپ خود جب یہ کام نہیں کرتے اور کسی دوسرے سے بھی اسکا مطالبہ نہیں ہے تو ہم سے اس کی توقع کیوں کی جاتی ہے؟ اور اگر امیر معاویہ کی مرضی کے خلاف کوئی گورنر ذاتی کُد یا پرخاش کی بنا پر ایسا کرتا تو اس کو ضرور سرزنش کی جاتی۔ لیکن جن گورنروں کا واقعہ مذکور ہے، انکے بارے میں ایسی کوئی تصریح منقول نہیں کہ انہوں نے کوئی ایسی معذرت پیش کی ہو یا کسی بدگوئی کرنے والے گورنر سے کوئی احتساب کیا گیا ہو۔

کتب حدیث سے ثبوت
امیر معاویہ کے عہد میں سِب علی کو رواج دینے کا ثبوت تاریخ کے علاوہ مزید حدیث کی کتابوں سے بھی ملتا ہے۔ مثال کے طور پر مُسند احمد میں ام المومنین حضرت ام سلمہ کی متعدد روایات موجود ہیں کہ آپ نے بعض اصحاب سے کہا

عبارت

ایسبت رسول اللہ فیکم علی المنابر
" کیا تم لوگوں کے ہاں مبروں پر کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسم پر سِب و شتم کا ارتکاب کیا جاتا ہے؟"
لوگوں نے پوچھا:
انی ذالک۔
" وہ کیسے" ۔
حضرت ام سلمہ ر نے فرمایا:
" الیس یُسب علی و من احبہ؟ اشھد ان رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کان یحبہ"
کیا علی پر سب و شتم نہیں کیا جاتا اور کیا اس طرح اُن پر [ یعنی رسول اللہ ص پر] جو علی سے محبت رکھتے تھے سب و شتم نہیں ہوتا؟ میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی سے محبت رکھتے تھے" ۔

ان احادیث میں منبروں پر جس سب و شتم کا ذکر ہے وہ بالیقین عہد معاویہ ہی سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ حضرت ام سلمہ ر کی وفات امیر معاویہ کی وفات سے ایک سال پہلے سن59ہجری میں ہو چکی تھی۔ابو داود، کتاب السنہ، باب الخلفاء میں ایک حدیث حضرت سعید بن زید سے مروی ہے کہ وہ کوفہ کی مسجد میں بیٹھے تھے کہ ایک شخص نے آ کر حضرت علی پر لگاتار سِب شتم شروع کر دیا [ سب و سب ] مُسند احمد، مرویات سعید بن زید میں تصریح ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کوفہ کے گورنر وہاں موجود تھے اور انکے سامنے یہ سِب ہو رہا تھا۔ حضرت سعید اُن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ " میں کیا دیکھ نہیں رہا کہ اصحاب رسول پر آپ کے رُوبُرو سِب و شتم ہو رہا ہے اور آپ اس پر کوئی نکیر و انسداد نہیں کرتے؟ میں نے رسول ص سے سنا ہے [ اور میں رسول ص کی جانب ایسا قول منسوب نہیں کر سکتا جس پر آپ کل کو مجھ سے باز پُرس کریں ] کہ آپ فرماتے تھے کہ ابو بکر، عمر، عثمان، علی۔۔۔۔ جنت میں ہوں گے " ۔ پھر حضرت سعید نے عشرہ مبشرہ کے اسماء گرامی گنوائے جن میں سے ایک آپ خود بھی تھے۔ یہ حدیث مُسند احمد کے علاوہ تاریخ بخاری، اور ابن ماجہ کے ابواب، فضائل اصحاب میں بھی موجود ہے جیسا کہ علامہ احمد محمد شاکر نے اپنے محشی نسخے کی جلد 3 ، صفحہ 108 پر واضح کیا ہے۔ پھر مسند احمد کے اسی نسخے کے صفحہ 110 اور 112 پر مزید تین احادیث درج ہیں جن میں ہے کہ

عبارت

خطب المغیرہ بن شعبۃ فنال من علی
" مغیرہ بن شعبہ نے خطبے میں حضرت علی کی بدگوئی کی"
تو حضرت سعید بن زید نے انہیں وہیں ٹوکا اور فرمایا کہ دس اصحاب عشرہ مبشرہ میں سے ایک علی ہیں اور حیرت ہے کہ ان پر سِب و شتم ہو رہا ہے " ۔استاذ شاکر جو محدثانہ طریق کے مطابق ہر حدیث کی سند پر بحث و تنقید کرتے ہیں، انہوں نے ان سب احادیث کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔

حضرت سعد ابن ابی وقاص اور حضرت سعید ابن زید تو خیر نہایت جلیل القدر صحابی تھے اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، اس لیے انکے منصب و مرتبہ کا یہ ناگزیر تقاضا تھا کہ وہ اس مکروہ رسم کے خلاف صدائے احتجاج بلند فرماتے۔ لیکن یہ خیال کرنا بالکل غلط اور تاریخی تصریحات کے قطعی خلاف ہے کہ دوسرے سب لوگوں نے اس چیز کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا تھا۔ مگر میں بوجوہ مزید تفصیلات ترک کر رہا ہوں۔ اہل عقل و درایت کے لیے اتنی بحث بھی کفایت کرتی ہے۔

وفات علی کے بعد
حضرت علی پر سِب و شتم کا یہ سلسلہ اگر حضرت علی کی زندگی تک محدود رہتا اور آپ کی شہادت کے بعد ختم ہو جاتا تب بھی یہ کہا جا سکتا تھا کہ چلیے، جب آپ اپنے رب کے حضور میں پہنچ گئے تو ساری تلخیاں بھلا دی گئیں۔ مگر افسوس کہ یہ بُری رسم امیر معاویہ کے عہد خلافت اور اسکے بعد تک جاری رہی۔ چنانچہ حضرت سعد کا جو واقعہ حدیث و تاریخ سے اوپر نقل ہوا ہے وہ بھی حضرت علی کی وفات کے بعد کا ہے، کیونکہ جنگ و جدال کے زمانے میں حضرت سعد سب سے الگ تھلگ عقیق میں رہائش پذیر ہو گئے تھے اور اس زمانے میں حضرت معاویہ کو بھی حرمین میں آنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ البتہ حضرت حسن سے صلح ہو جانے کے بعد امیر معاویہ حج کے لیے آئے اور مدینہ بھی تشریف لے گئے۔ اسی وقت حضرت سعد سے بھی ملاقات ہوئی اور باہم سوال و جواب کی نوبت آئی۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ جب علی دنیا سے اٹھ گئے اور تلواریں نیام میں آ گئیں، اس وقت بھی جراحات اللساتن کا انسداد نہ ہو سکا۔ یہی وجہ ے کہ جب امیر معاویہ اور حضرت حسن کے مابین مصالحت ہوئی ہے اور صلح نامہ لکھا جا رہا تھا تو حضرت حسن نے ایک شرط یہ بھی لکھوائی کہ ہمارے سامنے برسر عام ہمارے والد محترم پر سب و شتم نہ ہو۔ چنانچہ امام ابن جریر اپنی تاریخ [ جلد 4 ، صفحہ 122] میں فرماتے ہیں

عبارت

صالح الحسن معاویۃ۔۔۔۔ علی ان لا یشتم علی و ھو یسمع۔
" حسن نے معاویہ سے [ علاوہ دیگر شرائط کے] اس شرط پر مصالحت کی کہ علی پر سب و شتم نہ کیا جائے درآں حالیکہ میں اُسے سُن رہا ہوں" ۔
امام ذہبی العبر، جلد اول صفحہ 48 پر درج کرتے ہیں کہ حضرت حسن نے امیر معاویہ کو لکھا

ان لا یسب علیا بحضرتہ
" وہ حضرت علی پر حسن کی موجودگی میں سب و شتم نہ کریں" ۔
ابن کثیر نے البدایہ جلد 8 ، صفحہ 14 پر شرائط صلح میں سے ایک شرط یہ بیان کی ہے

و ان لایسب علی و ھو یسمع فاذا فعل ذالک نزل من الامر۔
" اور یہ کہ حضرت علی پر سب و شتم نہ کیا جائے جب کہ وہ [ حضرت حسن] اسے سن رہے ہوں۔ جب امیر معاویہ نے یہ شرط مان لی تو حضرت حسن امارت سے دست بردار ہو گئے" ۔
ابن اثیر نے الکامل میں جلد 3 ، صفحہ 202 پر جو مزید تفصیل درج کی ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت حسن نے امیر معاویہ سے مطالبہ کیا کہ

" ان لا یشتم علیا فلم یحبہ الکف عن شتم علی فطلب ان لا یشتم و ھو یسمع فاجابہ الی ذالک ثم لم یف بہ ایضا۔
" امیر معاویہ حضرت علی پر سب و شتم نہ کریں۔ لیکن امیر معاویہ نے شتم علی سے رکنے کا مطالبہ تسلیم نہ کیا۔ پھر حضرت حسن نے یہ مطالبہ کیا کہ کم از کم امیر معاویہ ایسی حالت ہی میں سب و شتم نہ کریں جب کہ وہ [ حسن] سُن رہے ہوں، امیر معاویہ نے یہ بات مان لی لیکن انہوں نے یہ شرط بھی پوری نہ کی" ۔
ابن اثیر کی روایت زیادہ جامع اور مفصل بھی ہے اور اس سے ابن کثیر اور طبری کی روایت سمجھنے میں مدد بھی ملتی ہے۔ طبری اور ابن کثیر مجملا یہ بیان کرتے ہیں کہ صلحنامہ کی شرط یہ تھی کہ امام حسن کو سنا کر حضرت علی پر سب و شتم نہ ہو۔ اور ابن اثیر نے پوری تفصیل یہ بیان کی ہے کہ پہلے تو امام حسن نے یہ مطالبہ کیا کہ شتم علی کا کلیۃ انسداد کیا جائے، لیکن امیر معاویہ نے اسے تسلیم نہ کیا تو امام حسن نے اتنی بات منوانے پر اکتفا کیا کہ انکے سامنے ہی کم سے کم انکے والد ماجد کی بُرائی نہ ہو۔ امیر معاویہ نے اس شرط کو صلحنامے میں شامل کر لیا مگر اسکی پابندی نہ کی۔

محمد تقی صاحب جس طرح سِب علی کو ایک غیر واقعی مفروضہ بنا کر پیش کر رہے ہیں، اگر فی الحقیقت اسی طرح یہ ایک خیالی داستان تھی یا ایک آدھ فرد سے احیانا انفرادی طور پر سب و شتم کا صدور ہوا تھا تو صلحنامے کی دستاویز لکھتے وقت حضرت حسن کی طرف سے اس مطالبہ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور اگر یہ بات خلاف واقعہ تھی تو کیوں نہ امیر معاویہ نے پلٹ کر فرمایا کہ ہم میں سے کون ہے جو اس فعل کا ارتکاب کرتا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ اکثر مورخین و محدثیں نے سِب علی کا ذکر اسی انداز سے کیا ہے گویا کہ یہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے جس میں اختلاف نہیں۔ مثال کے طور پر ابن حجر العسقلانی فتح الباری، کتاب المناقب میں حضرت علی کے مناقب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں

ثم کان من امر علی ما کان جنجمت طائفۃ اُخری حاربوہ ثم اشتد الخطب فتنقصوہ و اتخذ و العنہ ولی المنابر سنۃ وواقفحم الخوارج علی بغضہ۔۔۔
" پھر حضرت علی کے معاملے میں پیش آیا جو کچھ کہ پیش آیا۔ پھر ایک دوسرا گروہ اٹھا جس نے آپ سے لڑائی کی۔ پحر ہنگامہ شدت اختیار کر گیا اور ان محاربین نے حضرت علی کی عیب جوئی کی اور منبروں ہر آپ کو لعن طعن کرنا اپنا طریقہ و قاعدہ بنا لیا اور خوارج نے بغض علی کے باعث انکی ہمنوائی کی" ۔
محاربین کے اس گروہ سے مراد صاف طور پر امیر معاویہ اور آپ کے ساتھی اور عاملین ہیں جو اس مہم میں سرگرم تھے۔ اب ان تمام حقائق و شواہد سے آنکھیں بند کر کے سِب علی کا سرے سے انکار کر دینا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ ایک مرتبہ حیرت دہلوی نے حادثہ کربلا کا انکار اس دلیل کی بنا پر کر دیا تھا کہ امت محمدیہ کا کوئی فرد اپنے نبی کے نواسے کو قتل نہیں کر سکتا۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس مسئلے پر ضروری بحث ہو چکی اور سِب علی کے خلاف واقعہ اور غیر ممکن الوقوع ہونے کے حق میں جو نقلی و عقلی استدلال عثمانی صاحب نے کیا ہے، اسکا جواب دیا جا چکا ہے۔ تاہم یہ مناسب ہے کہ مولانا مودودی کی پیش کردہ روایات پر جو تنقید کی گئی ہے، اس پر بھی کچھ کلام کیا جائے۔ ابن جریر اور ابن اثیر کی جو روایت مولانا نے نقل کی ہے، اس میں صراحت کے ساتھ یہ بات مذکور ہے کہ امیر معاویہ نے حضرت مغیرہ کو کوفے کا گورنر بناتے وقت ہدایت کی کہ علی کی مذمت کرنے اور انہیں گالی دینے سے پرہیز نہ کرنا " ۔ عثمانی صاحب جواب میں فرماتے ہیں کہ " اس روایت سے آگے یہ الفاظ بھی ہیں کہ حضرت مغیرہ صرف حضرت عثمان کے قاتلوں کے لیے بدعا کرتے تھے " ۔ لیکن غور کیا جائے تو یہ بات صاف ہے کہ امیر معاویہ نے واضح الفاظ میں شتم علی کا حکم دیا۔ اب اگر مغیرہ بن شعبہ نے اس کی تعمیل نہیں کی تو قابل ستائش انکا فعل ہے نہ کہ امیر معاویہ کا۔ میں سمجھتا ہوں کہ سنن ابی داؤد اور مُسند احمد وغیرہ کی روایات کے بعد اس امر میں کوئی شک نہیں رہتا کہ حضرت مغیرہ خطبوں میں شب و شتم کرتے تھے۔ حضرت مغیرہ نے اگر کبھی نام لے کر حضرت علی پر لعن طعن نہیں کی تو اس کی وجہ محض یہ ہے کہ آپ ایک مدبر انسان تھے۔ آپ ہر مرتبہ نام لے کر برائی نہیں کرتے ہوں گے، بلکہ بعض اوقات گول مول انداز میں امر معاویہ کے حکم کے تعمیل کرتے ہوں گے تاکہ وہ بھی راضی رہیں اور کوفہ، جو شیعان علی کا گڑھ تھا، وہاں کی گورنری میں عزت و آبرو بھی خطرے میں نہ پڑے۔ امیر معاویہ اور آپ کے طرفدار برملا حضرت علی کو قاتل عثمان کہتے تھے اس کے اس پس منظر میں جب قاتلین عثمان پر بعدعا کی جائے گی تو آپ سے آپ حضرت علی پر بھی چوٹ مقصود ہو گی اور بسا اوقات تعریض تصریح سے زیادہ کارگر اور مفید مطلب ہوتی ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
رواۃ تاریخ کی بحث
اسکے بعد محمد تقی صاحب نے دوسری اہم ترین بات کے نام سے راویوں کا ذکر چھیڑ دیا ہے کہ اس روایت کے راوی شیعہ، کذاب اور مجہول ہیں۔ عجیب بات ہے کہ جب سے خلافت و ملوکیت لکھی گئی ہے ہر شخص کتب رجال کے دفتر لے کر بیٹھ گیا ہے اور ایک ایک روایت کے راویوں کے حالات سنا رہا ہے کہ وہ ایسا تھا اور ایسا تھا حتی کہ یہ لے اتنی بڑھ گئی ہے کہ جن واقعات و روایات کو بعض حضرات خود اپنی کتابوں میں بلا تنقید نقل کر چکے ہیں، اب خلافت و ملوکیت میں انہی روایات کو دیکھ کر وہی حضرات ان میں کیڑے نکال رہے ہیں۔ یہ مسئلہ اور یہ صورت حال متعدد پہلووں سے محتاج غور و فکر ہے۔ اس پر مفصل بحث تو مستقل مضمون ہی میں جا سکتی ہے ، تاہم یہاں چند اشارات پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اولین سوال جو اس سلسلے میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ راوی اگر ایسے ہی جھوٹے، لپاٹیے اور جلے بُھنے شیعہ تھے کہ ان کی تاریخی روایات بھی غلط اور ناقابل اعتماد تھیں تو ان جھوٹی روایات کو ہمارے اُن مورخین نے کیوں اخذ کیا جو اہل سنت کے ائمہ مورخن شمار ہوتے ہیں؟ اس کے جواب میں مدیر " البلاغ " اور دوسرے حضرات کہتے ہیں کہ ان مورخین نے ہر روایت کو سند بیان کر کے یہ ذمہ داری ہم پر ڈال دی ہے کہ ہم جھوٹ سچ کا فیصلہ خود کرتے رہیں۔ یہ جواب متعدد وجوہ سے غلط اور ناقابل قبول ہے۔

پہلی وجہ یہ کہ یہ مورخین خود اعلی پائے کے محدث اور فن رجال کے ماہر تھے۔ وہ ان راویوں کے حالات ہم سے ہزار درجہ بہتر جانتے تھے، بلکہ انہی میں سے بعض کی کتابیں ہمیں بتاتی ہیں کہ فلاں راوی شیعہ تھا یا سُنی تھا، ثقہ تھا یا ضعیف تھا۔ ان مورخِین سے یہ ارشاد نبوی بھی مخفی نہ تھا کہ

کفی بلمرء کذبا ان یحدث بکل ماسمع
" ایک آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ جو بات بھی سنے اُسے آگے بیان کر دے۔"
اب اگر ان راویوں کے بیان کردہ تاریخی واقعات سب کے سب جھوٹ کے پلندے تھے تو محض سند بیان کر کے یہ محدثین و مورخین جھوٹ کی اشاعت کے گناہ سے بری الذمہ کیسے ہو جائیں گے؟ انہوں نے تو ان جھوٹی خبروں کے سلسلہ اسناد میں خود اپنے آپ کو بھی شامل کر لیا۔ اگر معاملہ پانچ، دس یا سو پچاس روایات کا ہوتا تو بات دوسری تھی، لیکن ان راویوں کے بیانات سے تو ہماری تاریخیں لبریز ہیں۔ ان روایات کو جھوٹا قرار دینے کے بعد آخر ہم اپنے مورخین کی ثقاہت و دیانت کو کیسے بچا سکتے ہیں؟ ان مورخیں کو چاہیے تھا کہ اول تو وہ تاریخ لکھنے ہی نہ بیٹھتے اور اس کارِ بے خیر میں اپنی عمریں نہ کھپاتے۔ اور بالفرض اگر انہیں یہ کام کرنا ہی تھا، تو پھر چاہیے تھا کہ جس طرح حدیث کے صحاح اور موضوعات کے مجموعے الگ الگ تیار کیے گئے تھے، اسی طرح صحیح اور مکذوب تاریخی روایات کے مجموعے بھی وہ الگ الگ مرتب کر دیتے۔ ایسا ممکن نہیں تھا تو ہر روایت کے آخر میں اس کے صحیح یا سقیم ہونے کی وضاحت کر دی جاتی یا کم از کم کتاب کے شروع یا آخر ہی میں یہ تصریح کر دی جاتی کہ اس میں فلاں فلاں راویوں کی روایتیں ساقط الاعتبار ہیں۔ اگر ابتدائی مورخین نے یہ کام نہیں کیا تھا تو اس کے بعد جب یہ تاریخیں پوری امت میں شائع ہوئیں اور دوسرے اہل علم تک پہنچیں، تو ان سے یہ توقع ہو سکتی تھی کہ اگر ان کے نزدیک ہی یہ سب جھوٹ کے طومار تھے تو وہی ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے اور مسلمانوں کی ایک نسل سے دوسری نسل تک انہیں منتقل نہ ہونے دیتے۔ ابن جریر کے خلاف تشیع کا الزام عائد کیا جاتا ہے، اگرچہ کہ بالکل بے جا ہی ہے۔ تاہم اگر وہ شیعہ تھے تو کیا ابو حنیفہ دینوری، ابن اثیر، ابن کثیر، ذھبی، ابن عبد البر، ابن حجر کیا یہ سبھی شیعہ تھے کہ وہ سب کم و بیش وہی روایات نقل کرتے چلے آئے جن کے خلافت و ملوکیت میں درج ہونے پر اتنی ہنگامہ آرائی ہو رہی ہے؟ یہ بات بالکل مضحکہ خیز ہے کہ ایک طرف انہوں نے جھوٹی روایات سے اپنی کتابوں کا پیٹ بھر دیا اور دوسری طرف سند ساتھ لگا کر یہ کام دوسروں کے سپرد کر دیا کہ وہ جھوٹ اور سچ کے درمیان خود ہی امتیاز کرتے رہیں۔

دوسرے لفظوں میں اسکا مطلب یہ ہے کہ جو شخص کتب تواریخ کا مطالعہ کرنا چاہے، وہ پہلے اپنے پاس لسان المیزان، تہزیب التہذیب، کتاب الجرح و التعدیل وغیرہ کی ضخیم مجلدات رکھے اور پھر ہر روایت کے رجال کی چھن بین ان کتابوں میں کرتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتب رجال تحقیقِ حدیث کے لیے مدون کی گئی ہیں اور ان تجربات کو تاریخی روایات اور ان کے راویوں پر چسپاں کرنا اصولا صحیح نہیں۔

پھر یہ دعوی بھی خلاف واقعہ ہے کہ ان میں سے ہر مورخ نے اپنی تاریخ میں سند بیان کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ ایک طرف ابن جریر ہیں جو ہر روایت کی سند دیتے ہیں اور دوسری طرف ابو حنیفہ دینوری ہیں جو ابن جریر کے ہم عصر بلکہ ان سے متقدم ہیں، وہ اپنی تاریخ " الاخبار الطوال " میں سند کا شاذ و نادر ہی ذکر کرتے ہیں بلکہ قال یا قالوا کہہ کر واقعہ بیان کرتے ہیں اور انکی تاریخ نہایت مستند اور اہم ترین ماخذ تاریخ شمار کی جاتی ہے۔ پھر مورخین متاخریں میں سے بہت سے ایسے ہیں مثلا ابن اثیر الجزری اور ابن خلدون وغیرہ جو سند کو بالعموم حذف کر دیتے ہیں۔ اب انکی روایات کی سند کس طرح جانچی جائے گی؟ یا ان کتابوں کو دریا برد کر دیا جائے گا؟ میں یہاں ایک مثال پیش کر کے وضاحتِ مدعا کرتا ہوں۔ مولانا مودودی کی نقل کردہ زیر بحث روایت کا ایک راوی ابو مخنف ہے جسے ابن عدی کے حوالے سے محمد تقی صاحب نے " جلا بھنا شیعہ " قرار دیا ہے۔ مولانا مودودی کے دوسرے بہت سے ناقدین نے بھی اس راوی کو بے تحاشا گالیاں دی ہیں۔ اب حال یہ ہے کہ ابن جریر کے دور فتن کی تاریخ کا تقریبا اسی نوے فیصد حصہ اسی راوی کی روایات پر مشتمل ہے اور اگر یہ سب کذب و افترا ہے تو پھر تاریخ طبری کو ہاتھ لگانا بھی عظیم گناہ ہونا چاہیے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ابن حجر، ابن اثیر، ابن خلدون، سب نے اپنی تواریخ کا ماخذ تاریخ طبری ہی کو قرار دیا ہے۔ ابن کثیر جو شیعوں کے جانی دشمن تھے، وہی کہتے ہیں کہ میں نے شیعی روایات سے بچتے ہوئے ابن جریر سے روایات لی ہیں۔ وہ اپنی تاریخ جلد 7 ، صفحہ 310 پر فرماتے ہیں۔ " ذکر ابن جریر عن ابی مخنف لوط بن یحیی۔و ھو احد ائمۃ ھذا الشان" آگے چل کر اسی کتاب کی جلد 8 ، صفحہ ۱ 72 پر جہاں وہ حضرت حسین کی شہادت کے حالات بیان کرتے ہیں تو پہلے یہ عنوان قائم کرتے ہیں

وھذہ صفۃ مقتلہ ماخوذۃ من الائمۃ ھذا الشان۔ لا کما یزھمہ اھل التشیع من الکذ ب۔
" یہ شہادت حسین کے حالات ہیں جو ائمہ تاریخ کے کلام سے ماخوذ ہیں، یہ وہ اکاذیب نہیں ہیں جو اہل تشیع بیان کیا کرتے ہیں" ۔
اس عنوان کے فورا بعد ابن کثیر لکھتے ہیں " قال ابو مخنف " ۔ بعض مقامات پر ابو مخنف رحمہ اللہ بھی لکھا ہے۔ کیا اسکا صاف مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ابو مخنف کو جھوٹا اور محرق شیعی سمجھنے کے بجائے اُسے فن تاریخ کا ایک امام قرار دے رہے ہیں؟ اسی طرح واقدی کی بعض روایات کے " خلافت و ملوکیت " میں آ جانے پر واقدی کو صلواتیں سنائی جا رہی ہیں، حالانکہ شاہ عبد الحق محدث دہلوی مدارج النوۃ، جلد دوم صفھہ 56 پر فرماتے ہیں " موسی بن عقبہ، ابن اسحاق، الواقدی از اکابر علمائے سیر اند " ۔ مولانا انور شاہ صاحب کی رائے مولانا مودودی نقل کر ہی چکے ہیں۔ ابن ماجہ میں بھی واقدی کی روایت موجود ہے۔ امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں واقدی کی توثیق و تضعیف میں متعدد اقوال نقل کیے ہیں۔ ایک مقام پر وہ مجاہد بن موسی کا قول نقل کرتے ہیں کہ " میں نے کسی سے روایت نہیں لکھی جو واقدی سے زیادہ حافظ ہو " ۔ اس پر امام ذہبی اپنی رائے کا اضافہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں

صدق، کان الی حفظہ االمنتھی فی الاخبار و السیر و المغازی و الحوادث و ایام الناس و الفقہ و غیر ذلک۔
" امام مجاہد نے سچ کہا۔تاریخ، سیر، مغازی، حوادث و سوانح میں واقدی کا حافظہ ہمارے لیے مرجع و منتہی ہے" ۔
میں محمد تقی صاحب اور دوسرے ناقدین کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ مولانا مودودی کی ضد میں تاریخ اور اس کے راویوں کے معاملے میں وہ انداز اختیار نہ کریں جو پرویز صاحب نے حدیث اور رواۃ حدیث کے بارے میں اختیار کیا ہے اور منکرین حدیث کی طرح منکرین تاریخ اسلام کے گروہ کی داغ بیل نہ ڈالیں۔ محمد تقی صاحب ذرا اپنے والد ماجد کی کتاب " شہید کربلا " کا مطالعہ کر کے دیکھیں کہ اس میں ابو مخنف اور دوسرے مجروح راویوں کی روایات درج ہیں یا نہیں جن کے متعلق محمود عباسی نے اپنی کتاب " تحقیق مزید " صفحہ 238 پر لکھا ہے کہ " مفتی صاحب نے اس میں دیو مالائی طرز کی باتیں لکھ دی ہیں۔ وہی چلتی ہوئی باتیں جو ابو مخنف جیسے کذابین نے امت کی گمراہی کے لیے وضع کی ہیں کتاب میں درج فرما دی ہیں " ۔ کیا مفتی صاحب کے فرزند ارجمند اس سے کچھ عبرت و نصیحت حاصل کریں گے؟ [ مصرعہ ]

style="margin-bottom: 0cm;" align="center"> ترے نشتر کی زد شریان قیس ناتواں تک ہے

تنقید کا جواب
آخر یہ کیا بات ہے کہ ایک راوی کی روایت اگر مولانا محمد شفیع صاحب بیان فرمائیں تو سر آنکھوں پر اور اگر مولانا مودودی بیان کریں تو انہیں رجوع اور توبہ کے مشورے دیے جائیں؟ اس کے جواب میں محمد تقی صاحب شاید یہی کہیں گے کہ مولانا مودودی کی روایت سے امیر معاویہ پر سب و شتم کا الزام آتا ہے۔ مگر یہ عجیب لطیفہ ہے کہ اسی روایت کے آخری حصے سے آپ خود حضرت معاویہ کی اس الزام سے برات ثابت کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ امیر معاویہ نے صرف قاتلین عثمان پر لعنت کی ہدایت کی تھی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس روایت کے راوی بغضِ معاویہ میں جل بھن کر خاکستر ہو چکے تھے تو انہوں نے روایت کے آخری حصے میں وہ بات کیسے بیان کر دی جو آپ کے خیال میں پہلے حصے کی تردید کر رہی ہے اور الزام کو کمزور بنا رہی ہے؟ چاہیے تو یہ تھا کہ یہ راوی از اول تا آخر ایسی روایت گھڑتے جس سے آپ برات معاویہ کا کوئی پہلو نہ نکال سکتے۔

[ حاشیہ از ملک غلام علی:
مولانا مودودی کے تمام ناقدین کا یہی حال ہے کہ وہ تردید میں جو روایات پیش کرتے ہیں، وہ بھی بالعموم انہی مجروح راویوں کی ہوتی ہیں۔ اس وقت یہ حضرات یا تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں مورخ یا راوی شیعہ ہے مگر نسبتا معتبر ہے۔ اس لیے اسکی روایت قابل قبول ہے۔ یا راوی کے ذکر کو حذف کر دیتے ہیں۔ اگر یہ راوی جھوٹے ہیں تو ان کی ہر روایت مکذوب اور ناقابل استناء ہونی چاہیے۔]
ان راویوں نے تو بڑا کرم کیا کہ حضرت مغیرہ کے فعل سِب کو اس واشگاف انداز میں بیان نہ کیا جس طرح ابو داود اور مُسند احمد کے ثقہ اور سُنی راویوں نے بیان کیا ہے۔

اب میں مولانا مودودی کی نقل کردہ دوسری روایت کو لیتا ہوں جس میں مذکور ہے کہ مروان جب امیر معاویہ کی طرف سے مدینے کا گورنر تھا تو وہ ہر جمعہ کو حضرت حسن کے سامنے منبر پر سِب علی کا ارتکاب کرتا تھا۔ محمد تقی صاحب لکھتے ہیں کہ " یہ روایت البدایہ و النہایہ کے اصل مصرے نسخے میں موجود نہیں ہے۔ مزید یہ کہ اس میں لکھا ہے کہ مروان کا انتقال طائف میں ہوا اور وہ وہیں مرا۔ اسکی وفات مدینہ یا دمشق میں ہوئی اور اس روایت کے آخر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جو الفاظ منسوب ہیں وہ بہت مشکوک ہیں " ۔

[ حاشیہ از ملک غلام علی صاحب:
[ تقی صاحب کو غلط فہمی ہوئی ہے، روایت میں مروان کا نہیں بلکہ اسکے باپ الحکم کا طائف میں مرنا مذکور ہے۔ عبارت یہ ہے" وقد کان ابوہ الحکم من الکبر اعداء النبی و انما اسلم یوم الفتح و قدم المدینۃ ثم طردہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم الی الطائف و مات بہا۔"
" مروان کا باپ حُکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے دشمنوں میں سے تھا۔وہ فتح مکہ کے روز اسلام لایا اور مدینے پہنچا۔ پھر نبی صل اللہ علیہ وسلم نے اُسے طائف کی طرف جلا وطن کر دیا اور وہ وہیں مرا۔"]
البدایہ کا مطبوعہ ایڈیشن جو 1966 میں مکتبہ المعارف بیروت اور مکتبہ النصر الریاض نے باہمی اشتراک سے چھاپا ہے، اس وقت میرے سامنے ہے۔ اس کے آغاز میں تصریح ہے کہ یہ مدرسہ احمدیہ، حلب شہر میں موجود قلمی نسخے کے مطابق طبع ہوا ہے اور بہت سے محققین نے اسکا مقابلہ دوسرے نسخوں سے کر لیا ہے۔ اس نسخے میں مولانا مودودی کی نقل کردہ روایت موجود ہے۔ مطبعہ " السعادہ " ، مصر میں جو نسخہ چھپا تھا اس میں بھی یہ روایت مطبوعہ موجود ہے، البتہ حاشیے میں درج ہے کہ ایک مصری مخطوطے میں یہ روایت چھوٹ گئی ہے۔ لیکن کسی ایک قلمی نسخے میں کسی عبارت کا ساقط ہو جانا اسے مشکوک نہیں بنا دیتا جب کہ دوسرے مخطوطہ و مطبوعہ نسخوں میں وہ موجود ہو۔ پھر ان دونوں نسخوں میں یہ روایت بھی درج ہے کہ " مات مروان بدمشق " ۔ ویسے یہ بات سمجھ میں نہ آئی کہ مروان دمشق یا طائف یا مدینے میں مرا ہو تو اسکا اثر حضرت علی کو گالیاں دینے کے الزام پر کیا پڑ سکتا ہے؟

تیسری وجہ جو مدیر البلاغ نے بقول مولانا مودودی کی منقولہ روایت کو مشکوک بناتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس میں مروان اور مروان کے والد حُکم کا ملعون علی لسان النبوی ہونا درج ہے۔ جی ہاں، آج کل چونکہ بعض لوگوں نے مروان کو حضرت مروان رضی اللہ عنہ بنا دیا ہے، اس وجہ سے شاید ایسی روایت مشتبہ معلوم ہوتی ہو گی جس میں مروان پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کا ذکر ہو۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ایسی متعدد روایات حدیث و تاریخ میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر مستدرک حاکم جلد 4 ، صفحہ 401 پر حضرت عبداللہ بن زبیر سے روایت مروی ہے کہ
"ان رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم لعن الحکم وولدہ"۔ امام حاکم نے اس مضمون کی اور بھی روایات بیان کی ہیں، مگر یہ روایت جو حضرت ابن زبیر کی ہے اسکے متعلق امام ذہبی نے بھی فرمایا ہے کہ یہ صحیح حدیث ہے۔

ابو تراب کا مفہوم
[ نوٹ از مصنف آرٹیکل ھذا:
تقی عثمانی صاحب نے بخاری کی ایک روایت نقل کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مروان کے سب و شتم کی حقیقت بس اتنی تھی کہ وہ حضرت علی کو ابو تراب کہتا تھا جس سے توہین کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔
ادھر ہم ملک غلام علی صاحب کا جواب نقل کرنے کی بجائے براہ راست تقی عثمانی صاحب کا جواب دیں گے۔ انشاء اللہ]
style="background: rgb(0, 255, 0) none repeat scroll 0%; -moz-background-clip: initial; -moz-background-origin: initial; -moz-background-inline-policy: initial;" dir="rtl">مصنف آرٹیکل ھذا کا جواب تقی عثمانی صاحب کو جواب شروع ہوتا ہے:

سب سے پہلےہم وہ نقل کرتے ہیں جو کچھ تقی عثمانی صاحب نے لکھا ہے۔ اپنی کتاب " حضرت معاویہ " کے صفحہ 45 پر مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں

" لیکن اتنی بات کچھ اور روایتوں سے بھی مجموعی طور پر معلوم ہوتی ہے کہ مروان بن الحکم مدینہ منورہ کی گورنری کے دوران حضرت علی کی شان میں کچھ ایسے الفاظ استعمال کرتا تھا جو حضرت علی کی محبوب رکھنے والوں کو ناگوار گذرتے تھے۔ لیکن یہ نازیبا الفاظ کیا تھے؟ ان تاریخی روایتوں میں سے کسی میں انکا ذکر نہیں البتہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ایک واقعی اس طرح ذکر کیا گیا ہے کہ:
" ایک شخص حضرت سہل کے پاس آیا اور بولا کہ امیر مدینہ منبر پر کھڑے ہو کر حضرت علی کو سب و شتم کرتا ہے۔ حضرت سہل نے پوچھا وہ کیا کہتا ہے؟ اس نے کہا کہ انہیں " ابو تراب" کہتا ہے۔ حضرت سہل ہنس پڑے اور فرمایا خدا کی قسم اس نام سے تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پکارا ہے اور آپ کے نزدیک انکا اس سے پیارا نام کوئی نہ تھا۔ [ صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب مناقب علی]
اگر یہاں " امیر مدینہ" سے مراد مروان ہی ہے، جیسا کہ ظاہر یہی ہے تو اس " سب و شتم" کی حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے۔ ابو تراب کے معنی ہیں " مٹی کا باپ" ۔ آنحضرت ص حضرت علی کو محبت میں اس نام سے پکارا کرتے تھے، مروان زیادہ سے زیادہ اسے اس کے حقیقی معنوں میں استعمال کرتا ہو گا۔
پھر تقی عثمانی صاحب اسی بحث کو اپنی کتاب " حضرت معاویہ " کے صفحہ 195 پر آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں

" رہی دوسری روایت سو اسکے بارے میں میں نے صحیح بخاری کی ایک حدیث سے ثابت کیا تھا کہ مروان بن حُکم کا " سِب" کیا تھا؟ ایک شخص نے حضرت سہل سے آ کر شکایت کی کہ مدینہ کا گورنر حضرت علی پر " سب" کرتا ہے۔ حجرت سہل نے پوچھا " کیا کہتا ہے؟" اس نے جواب دیا: " حضرت علی کو ابو تراب کہتا ہے۔" اس پر حضرت سہل نے جواب میں اسے بتایا کہ یہ لقب تو حضرت علی کو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت میں دیا تھا۔"
میں نے عرض کیا تھا کہ مروان کے سب و شتم کی حقیقت بس اتنی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی کو محبت میں اس نام سے پکارتے تھے۔ مروان زیادہ سے زیادہ اسے اسکے حقیقی معنی میں استعمال کرتا ہو گا۔ اسکے جواب میں ملک صاحب لکھتے ہیں:" امام بخاری نے حدیث کا صرف وہ حصہ روایت کیا ہے جس سے حضرت علی منقبت ثابت ہوتی ہے۔"
غالبا ملک صاحب کا منشاء یہ ہے کہ یہاں مروان کی کچھ اور گالیاں بھی مذکور ہوں گی جنہیں امام بخاری چھوڑ گئے۔ میری گذارش یہ ہے کہ روایت کا جو حصہ امام بخاری چھوڑ گئے ہیں، اگر جناب غلام علی صاحب کسی معتبر روایت سے وہ حصہ نقل کر کے دکھا دیتے اور اس میں واقعتا حضرت علی کو گالیاں دی گئی ہوتیں، تب تو انکا یہ کہنا بجا ہو سکتا تھا، لیکن وہ باقی ماندہ حصہ پیش بھی نہیں کرتے تو محض انکے قیاس بلکہ واہمہ کی بنیاد پر یہ کیسے کہہ دیا جائے کہ اس روایت کا کچھ حصہ امام بخاری چھوڑ گئے ہیں۔ اس طرح تو ہر باطل سے باطل مسلک کی دلیل یہ لائی جا سکتی ہے کہ بخاری کی فلاں حدیث امام بخاری نے مختصر نقل کی ہے۔ اس کا باقی ماندہ حصہ سے فلاں بات ثابت ہوتی ہے۔ ۔۔۔۔۔ لیکن جس ماحول میں " ابو تراب" کو بھی " سب" سے تعبیر کر دیا جاتا ہو، وہاں ہر شخص یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس سے مراد " گالی دینا" نہیں بلکہ تغلیط و تعریض ہے۔۔۔۔ حیرت ہے کہ مولانا مودودی اور غلام علی صاحب ایک طرف تو صرف لفظ " ابو تراب" کو " سب و شتم کی بوچھاڑ" کہنے پر مصر ہیں اور دوسری طرح حضرت معاویہ کو بغاوت کا مجرم قرار دیتے ہیں۔۔۔

تقی عثمانی صاحب کو جواب:
افسوسناک بات ہے کہ تقی عثمانی صاحب خود تو غلطیوں میں مبتلا ہوئے ہی مگر اپنے ہزاروں لاکھوں حمایتیوں کو بھی گمراہی میں اپنے ساتھ لے گئے۔ مفتی صاحب نے قیاسات کی جو عمارت کھڑی کی ہے، وہ یوں ہے

1.
بخاری کی روایت میں جو گورنر مراد ہے وہ بذات خود مروان ہے۔

2.
اور بنی امیہ جو " سِب " کرتے تھے اُسکا مطلب گالی دینا نہیں بلکہ صرف " ابو تراب " کہنا تھا۔

3.
اسی بنیاد پر انہوں نے " سِب " کا مطلب تمام تر روایات میں تبدیل کر دیا ہے [ اس پر مفصل بحث آگے آئے گی۔ انشاء اللہ ]

مفتی عثمانی صاحب کی یہ غلط فہمیاں [ کہ جس پر وہ اپنی پوری عمارت تعمیر کرتے ہوئے " سب و شتم " کا مفہوم ہی تبدیل کر دینا چاہتے ہیں، دور ہو سکتی تھی اگر وہ فقط صحیح مسلم کی اس روایت کا مطالعہ کر لیتے جو بخاری کی حدیث کی طرح مجمل نہیں بلکہ تفصیل سے واقعہ کا ذکر کر رہی ہے۔

صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ

6382 - حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، - يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ - عَنْ أَبِي، حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ - قَالَ - فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا - قَالَ - فَأَبَى سَهْلٌ فَقَالَ لَهُ أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ فَقُلْ لَعَنَ اللَّهُ أَبَا التُّرَابِ ‏۔۔۔‏ ‏
ترجمہ

سہل بن سعد [ صحابی] روایت کرتے ہیں کہ مدینہ میں مروان کے خاندان میں سے ایک شخص حاکم ہوا اور اس نے سہل کو بلایا اور حکم دیا [ فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا] کہ وہ علی ابن ابی طالب کو گالی دے۔ سہل نے انکار کیا۔ اس پر وہ حاکم بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ لعنت ہو اللہ کی ابو تراب پر [ فَقُلْ لَعَنَ اللَّهُ أَبَا التُّرَابِ] ۔ ۔۔۔
چنانچہ مفتی تقی عثمانی صاحب کی پوری قیاسی عمارت کے برعکس صحیح مسلم کی اس تفصیلی روایت سے معلوم ہوا کہ

1.
تقی عثمانی صاحب کے قیاس کے برعکس مدینے کا یہ گورنر مروان بن حکم بذات خود نہیں تھا، بلکہ اسکے خاندان کو کوئی فرد تھا جو سہل بن سعد [ صحابی ] کے زمانہ حیات میں ہی گورنر بن چکا تھا۔

2.
بنی امیہ کے اس شخص نے بالکل ایسے ہی سہل کو علی کو برا بھلا کہنے کا حکم دیا [ فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا ] جیسا کہ مسلم و ابن کثیر کی روایت کے مطابق معاویہ نے سعد بن ابی وقاص کو حج کے موقع پر دیا تھا [ فقال‏ ‏ أدخلتني دارك وأجلستني على سريرك، ثم وقعت في علي تشتمه‏؟‏ ]

3.
اور جب [ صحابی ] سہل نے انکار کیا تو بنی امیہ کے اُس گورنر نے دوسرا حکم دیا کہ وہ کہیں کہ اللہ کی لعنت ہو ابو تراب پر۔
(یعنی یہ لعنت کرنے کا فعل اس سب و شتم سے کم درجے کا ہے)

چنانچہ مفتی تقی عثمانی کی پوری قیاسی عمارت کے برخلاف

1.
ابو تراب پر کھل کر لعنت کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔

2.
اور یہ لعنت اُس سب و شتم سے چھوٹے درجے کی چیز ہے جو کہ معاویہ اور اسکے گورنر بذات خود منبروں پر کھڑے ہو کر علی ابن ابی طالب پر کیا کرتے تھے۔

چنانچہ لعنت سے بڑے درجے کی چیز صرف گالیاں اور برا بھلا کہنا ہی ہے۔ اب ارباب انصاف خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ انسان اپنے تعصب میں اور شخصیت پرستش میں پڑ کر چیزوں کو کیسے تڑوڑ مڑوڑ کر حقائق کو تبدیل کر سکتا ہے۔ مفتی تقی عثمانی صاحب کا اقتباس پھر سے آپکے پیش خدمت ہے۔

“ میں [ تقی عثمانی] نے عرض کیا تھا کہ مروان کے سب و شتم کی حقیقت بس اتنی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی کو محبت میں اس نام سے پکارتے تھے۔ مروان زیادہ سے زیادہ اسے اسکے حقیقی معنی میں استعمال کرتا ہو گا۔”
حیرت ہے کہ مفتی تقی عثمانی صاحب کو نہ علی ابن ابی طالب پر لعنت کرنا نظر آئی، اور نہ ہی لعنت سے بڑی چیز " سب و شتم " نظر آیا، بلکہ انہوں نے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے ان دونوں چیزوں کا مطلب گھما پھرا کر بس " ابو تراب " کہنا نکال دیا۔

افسوس کہ مفتی تقی عثمانی خود تو اس معاملے میں گمراہ ہوئے ہی، مگر آج انکے لاکھوں پیروکار بھی اس گمراہی کا شکار ہیں اور وہ آج بھی علی ابنی ابی طالب پر بنی امیہ کے کیے گئے اس سب و شتم اور لعنت کو فقط " ابو تراب " کہنا سمجھتے ہیں۔

style="background: rgb(0, 255, 0) none repeat scroll 0%; margin-bottom: 0cm; -moz-background-clip: initial; -moz-background-origin: initial; -moz-background-inline-policy: initial;" align="left"> ( نوٹ یہاں پر مصنف آرٹیکل ھذا کا جواب ختم ہوتا ہےاور پھر سے ملک غلام علی صاحب کی کتاب سے اقتباس شروع ہوتا ہے )

مسئلہ سب و شتم
میں نے ضروری آثار و شواہد کے ساتھ اس امر کا پورا ثبوت فراہم کر دیا تھا کہ سب علی کی مہم کا آغاز امیر معاویہ نے کیا تھا اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کے عہد تک یہ پورے زور شور سے جاری رہی تھی۔ مگر مجھے سخت حیرت ہے کہ مدیر البلاغ نے پھر میری باتوں کو غلط قرار دینے کی کوشش کی ہے اور میں بڑے دکھ اور افسوس کے ساتھ دوبارہ مجبورا اس تکلیف دہ موضوع پر کلام کر رہا ہوں۔ انہوں نے میری تردید کرتے ہوئے پہلے اس روایت کا حوالہ دیا ہے جو میں نے البدایہ سے نقل کی تھی اور جس میں یہ مذکور ہے کہ امیر معاویہ نے حضرت سعد ابن ابی وقاص کے سامنے حضرت علی کے حق میں بدگوئی اور سب و شتم کا آغاز کر دیا۔ اس کے بعد مسلم کی جو روایت میں نے درج کی ہے، اسے دوبارہ نقل کیا ہے جو یوں ہے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، - وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ - قَالاَ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، - وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ - عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلاَثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَنْ أَسُبَّهُ لأَنْ تَكُونَ لِي ۔۔۔
اس روایت کا ترجمہ بھی میرے الفاظ میں مولانا محمد تقی صاحب نے دے دیا ہے اور وہ یہ ہے

“ حضرت معاویہ نے حضرت سعد کو حکم دیا، پھر کہا کہ آپ کو کس چیز نے روکا ہے کہ آپ ابو تراب [ حضرت علی] پر سب و شتم کریں؟ انہوں نے جواب دیا کہ جب میں ان تین ارشادات کو یاد کرتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی کے متعلق فرمائے تھے تو میں ہرگز ان پر سب و شتم نہیں کر سکتا۔”
اس روایت کا انگلش ترجمہ پیش خدمت ہے جس میں عبدالحمید صدیقی صاحب نے " سِب" کا ترجمہ ABUSING ہی کیاگیا ہے۔
Sahih Muslim,
Book 031, Number 5915 :
abusingAbu Turab (Hadrat 'Ali), whereupon be said: It is because of three things which I remember Allah's Messenger (may peace be upon him) having said about him that I would notabusehim....
عبدالحمید صدیقی صاحب کا یہ ترجمہ حصہ ہےUSC-MSA Compendium of Muslim Texts
کا اور انتہائی معتبر مانے جانے والا ترجمہ ہے۔
صحیح مسلم میں اس ایک جگہ نہیں، بلکہ بے تحاشہ جگہ " سِب" کا لفظ استعمال ہوا ہے، اور ہر ہر جگہ اسکا ترجمہ Abusing کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر:
Sahih Muslim, Kitab-ul-Iman:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ ‏"‏

abusing(‏ سِبَابُ)a Muslim is an outrage and fighting against him is unbelief.

Sahih Muslim, Kitab-ul-Iman
:
شَتْمُالرَّجُلِ وَالِدَيْهِ ‏"‏ ‏.‏ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْيَشْتِمُالرَّجُلُ وَالِدَيْهِ قَالَ ‏"‏ نَعَمْيَسُبُّأَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ أَبَاهُ وَيَسُبُّ أُمَّهُ فَيَسُبُّ أُمَّهُ ‏
مختصرا صحیح مسلم میں بے تحاشہ اور جگہ پر سِب و شتم کے الفاظ آئے ہیں اور ہر جگہ انکا ترجمہ Abusing ہی کیا گیا ہے۔ اب اگر مفتی تقی عثمانی صاحب بنی امیہ کی محبت میں ان سب کو ہضم کر جانا چاہیں تو ان کو اس میں فقط بدہضمی کا ہی شکار ہونا پڑے گا۔

صحیح بخاری انگریزی ترجمہ جو سعودیہ میں مکہ و مدینہ کےمترجمین نے کیا ہے( ڈاکٹر محسن خان اور انکے رفقاء ):

اور صحیح بخاری میں بھی بے تحاشہ جگہ " سِب" کا لفظ آیا ہے اور اسکا انگریزی ترجمہ کرتے ہوئے ان سعودی مترجمین نے ہر ایک جگہ پر لفظ Abusing ہی کیا ہے۔مثلا:
Sahih Bukhari, Volume 3, Book 47, Number 755
:
They then sent Zainab bint Jahsh who went to him and used harsh words saying, "Your wives request you to treat them and the daughter of Ibn Abu Quhafa on equal terms." On that she raised her voice and abused 'Aisha to her face so much so that Allah's Apostle looked at 'Aisha to see whether she would retort. 'Aisha started replying to Zainab till she silenced her. The Prophet then looked at 'Aisha and said, "She is really the daughter of Abu Bakr."
صحیح بخاری کے اس انگلش ترجمہ میں ہر جگہ آپ کو " سب" کے لیے Abusing کا استعمال ہی ملے گا۔
اس پر مولانا عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ “سب سے پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس ترجمہ کو درست مان لیا جائے تب بھی اس کی روشنی میں اس قول کی دلیل کیسے مل گئی کہ حضرت معاویہ خطبوںمیں برسر منبر حضرت علی پر سب و شتم کی بوچھاڑ کرتے تھے؟”

بہتر ہوتا کہ عثمانی صاحب میرے غلط ترجمے کے ساتھ اپنا درست ترجمہ بھی درج فرما دیتے، اس کے بغیر آخر میری غلطی کی اصلاح کیسے ہو سکتی ہے؟ پھر میری اس ایک پیش کردہ روایت پر یہ سوال کتنا عجیب و غریب ہے کہ اس میں خطبوں میں برسرِ منبر سب و شتم کا ثبوت کیسے ملتا ہے؟ کیا میں نے سب و شتم کے ثبوت میں بس یہی ایک یا دو روایتیں نقل کی تھیں؟ میں نے تو فتح الباری، مسند احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ، تاریخ طبری، البدایہ، الکامل اور دیگر کتب کے متعدد حوالوں سے یہ بات نہایت صراحت و وضاحت سے ثابت کر دی تھی کہ حضرت معاویہ اور آپ کے گورنر برسر منبر سب و شتم کرتے تھے۔ اس کے بعد بھی اگر دلائل و شواہد کا مطالبہ بدستور قائم ہے تو میں اس موضوع پر ایک پوری کتاب لکھ سکتا ہوں۔ مگر میں یہاں دوبارہ عرض کرتا ہوں کہ اس سب و شتم کے نقوش اوراق تاریخ پر اتنے جلی اور نمایاں عنوان کے ساتھ ثبت ہیں کہ ان کے لیے کسی حوالے کا اندراج تکلف سے کم نہیں ہے۔ مورخین اسے ایک مسلمہ واقعہ کے طور پر بیان کرتے ہیں اور مولانا مودودی یا میرے لیے یہ ضروری ہی نہ تھا کہ اس کے لیے کوئی حوالہ دیتے۔ جو پہلے دیے گئے یا اب دیے جائیں گے وہ تبرعا دیے جائیں گے۔ متعدد اہل علم نے اس سب و شتم کی رسم کو بطور ایک بدیہی واقعہ کے بیان کیا ہے اور بعض نے اس کے لیے کسی حوالے کی سرے سے ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ میں یہاں اس کی چند مثالیں پیش کیے دیتا ہوں۔ مولانا شاہ معین الدین احمد صاحب ندوی اپنی کتاب “تاریخ اسلام” جلد دوم طبع پنجم، صفحہ 13 پر لکھتے ہیں

“ امیر معاویہ نے اپنے زمانے میں برسر منبر حضرت علی پر سب و شتم کی مذموم رسم جاری کی تھی اور ان کے تمام عمال اس رسم کو ادا کرتے تھے۔ مغیرہ بن شعبہ بڑی خوبیوں کے بزرگ تھے، لیکن امیر معاویہ کی تقلید میں یہ بھی اس مذموم بدعت سے نہ بچ سکے۔ حجر بن عدی اور ان کی جماعت کو قدرتا اس سے تکلیف پہنچتی تھی۔۔۔ مغیرہ بن شعبہ کے بعد زیاد کے زمانہ میں بھی یہ رسم جاری رہی۔”
مشہور مصری عالم و مورخ استاذ محمد ابو زہرہ اپنی تصنیف “تاریخ المذاہب الاسلامیہ” الجز الاول صفحہ 38 پر لکھتے ہیں

“ اور بنو امیہ کا عہد حضرت علی کی قدر و منزلت اور تعظیم و تکریم میں مزید اضافہ کا موجب ثابت ہوا کیونکہ امیر معاویہ نے اپنے زمانے میں ایک بُری سُنت قائم کی جو ان کے بعد کے جاننشینوں نے بھی حضرت عمر بن عبدالعزیز کے عہد تک جاری رکھی۔ یہ سنت یہ تھی کہ امام ہدی علی ابن ابی طالب پر خطبہ جمعہ کے آخر میں لعنت کی جاتی تھی۔ دوسرے صحابہ کرام نے اس پر نکیر کی اور امیر معاویہ اور آپکے گورنروں کو اس سے منع کیا۔ حتی کہ ام المومنین حضرت ام سلمہ نے امیر معاویہ کی طرف خط لکھا جس میں اس فعل سے باز رہنے کو کہا اور اس میں لکھا کہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر برسر منبر لعن طعن کرتے ہو اور یہ اس طرح کہ علی ابن ابی طالب پر اور جنہوں نے ان سے محبت کی ان پر لعنت بھیجتے ہو۔ اور میں اس کی گواہی دیتی ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کو حضرت علی محبوب تھے۔”
[ حاشیہ از ملک غلام علی صاحب:
یہاں محمد ابو زہرہ نے بھی سنت کا لفظ استعمال کیا ہے اور سب علی کے ضمن میں جو اقوال میں نے حافظ ابن حجر عسقلانی اور ابن حجر مکی کے نقل کیے ہیں انہوں نے بھی اس طریقے کو سنت لکھا ہے۔ اب یہ کیسی اور کس کی سنت ہے، اس کو ہر شخص بآسانی خود سمجھ سکتا ہے۔]
مشہور مورخ ابو الفداء عماد الدین اسماعیل شافعی ( وفات 733) جو حماۃ شام کے والی تھے اور الملک الموید کے لقب سے معروف تھے، وہ اپنی تاریخ المختصر فی اخبار البشر میں امیر معاویہ کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں

“ معاویہ اور ان کے گورنر جمعہ کے خطبے میں حضرت عثمان کے حق میں دعا کرتے تھے اور حضرت علی پر سب و شتم اور ان کی بدگوئی کرتے تھے۔” [ المختصر فی اخبار البشر جلد 2 طبع بیروت]
آگے چل کر ابو الفداء عمر بن عبدالعزیز کے سوانھ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں

“ خلفائے بنی امیہ نے 41 ؁ سے حضرت علی پر سب و شتم کا آغاز کیا اور یہ وہ سال ہے جب حضرت حسن خلافت سے دست بردار ہوئے۔ یہ سلسلہ 99 ؁ ہجری کے اوائل تک جاری رہا۔ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اسکا خاتمہ کیا۔ [ المختصر، الجز الثانی صفحہ 120]
امام ابن حزم اندلسی اپنی تصنیف “جوامع السیرۃ” کے ساتھ ملحقہ رسالہ “اسماء الخللفاء والولاۃ” میں بنو عباس کا ذکر کرتے ہوئے پہلے تو انکی مذمت کرتے ہیں، پھر فرماتے ہیں

“ مگر بنو عباس نے صحابہ کرام ؓ میں سے کسی پر علانیہ سب و شتم نہیں کیا۔ اس کے برعکس بنو امیہ نے ایسے گورنر مقرر کیے جو علی بن ابی طالب اور آپ کے صاحبزادگان بنی فاطمۃ الزہراء پر لعنت کرتے تھے۔ ان سب کا یہی حال تھا سوائے حضرت عمر بن عبدالعزیز اور یزید بن ولید کے کہ ان دونوں نے اس لعن طعن کی اجازت نہیں دی۔” [ جوامع السیرۃ لابن حزم، تحقیق و مراجعۃ احمد محمد شاکر، دار المعارف مصر صفحہ 266]
ڈاکٹر عمر فروخ ایک مشہور اور کثیر التصنیف عالم ہیں۔ مجمع اللغتۃ العربیہ، قاہرہ، الجمع العلمی العربی دمشق، جمیعت بحوث الاسلامیہ ہند وگیرہ کے رکن ہیں۔ انہوں نےحضرت عمر بن عبدالعزیز کی سیرت “الخلیفۃ الزاہد” کے نام سے لکھی ہے۔ اس میں ایک مستقل فصل “بدعت معاویہ” کے زیر عنوان ہے۔ اس بدعت کو وہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں

“ عہد بنی امیہ میں ایک بدعت رائج ہوئی۔ یہ ایک شرمناک بدعت تھی جس نے سر اٹھایا اور چہار سُو پھیل گئی۔ حتی کہ اس نے ہر منبر کو پامال کیا اور ہر شخص کی سمع خراشی کی۔ یہ بدعت مسجد نبوی، منبر رسول اور اہل بیت پر حملہ آور ہونے سے بھی باز نہ رہ سکی۔ اس کا آغاز امیر معاویہ نے کیا تھا اور اپنے گورنروں کے نام فرمان جاری کیا تھا کہ وہ اسے جمعہ کے خطبوں میں مستقل طور پر اختیار کریں۔”
مصنف موصوف نے تین صفحات میں سب و شتم کی اس مہم کو تفصیلا بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ حضرت معاویہ کا گمان یہ تھا کہ اس طرح ان کی سلطنت مستحکم ہو گی اور اہلبیت کی عظمت و عقیدت ختم ہو گی۔ پھر لکھتے ہیں

“ امیر معاویہ کا یہ خیال غلط ثابت ہوا اور انہوں نے اس بردباری سے تجاوز کیا جس کی وہ شہرت رکھتے تھے۔ اس بدعت کا نتیجہ ان کے گمان اور رائے کے خلاف برآمد ہوا۔”
شیخ محمد بن احمد السفارینی الحنبلی اپنی کتاب لوامع الانوار البہیہ و سواطع الاسرار الاثریہ کے صفحہ 239 پر فرماتے ہیں کہ حضرت علی کے مناقب و فضائل احادیث میں اس وجہ سے بکثرت مروی ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کو اس عظیم اختلاف و ابتلاء پر مطلع فرما دیا تھا جس سے حضرت علیؓ آگے چل کر دوچار ہونے والے تھے، اس لیے نھضور ﷺ نے امت کی نصح و خیر خواہی کے پیش نظر فضائل علی کو بیان فرما دیا کہ امت ان سے تمسک کر کے نجات ھاصل کرے۔ چنانچہ جب بنو امیہ نے منابر پر حضرت علیؓ کی سب و تنقیص کی مہم چلائی اور خوارج نے بھی ان کی ہمنوائی کی، اس وقت محدثین کرام نے آنحضور ﷺ کے ارشاد فرمودہ مناقب علی کو کھول کھول کر بیان کیا اور حمایتِ حق کا سامان فراہم کیا۔

[ حاشیہ از ملک غلام علی صاحب:
یہ تقریبان وہی مضمون ہے جو حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں درج کیا ہے اور جسے پہلے نقل کیا جا چکا ہے۔ حضرت علیؓ پر سب و شتم کے ثبوت میں متعدد دیگر اقوال آگے “عدالت صحابہ” اور “مروان اور اس کا باپ “کے زیر عنوان مضامین میں بھی ملیں گے۔ بعض حوالے آگے باب ہفتم میں درج ہیں جن میں سے ایک خود محمد تقی صاحب کے بھائی کی مطبوعہ کتاب کا ہے۔]
میں نے البدایہ کی روایت نقل کی تھی جس میں یہ ذکر تھا کہ امیر معاویہ نے حضرت سعد ابن ابی وقاص کے سامنے نجی مجلس میں حضرت علی کو بُرا بھلا کہا تھا اور لکھا تھا کہ ایک طرح سے پرائیویٹ مجلس میں سب و شتم اپنے ساتھ اغتیاب ( غیبت ) کو بھی جمع کر لیتا ہے۔ اس سے بھی مدیر البلاغ نے دو نکتے پیدا کر لیے ہیں۔ ایک یہ کہ ممبر پر سب و شتم اغتیاب کیوں نہیں، دوسرا نکتہ یہ ہے کہ تم نے گویا پرائیویث مجلس میں برائی کرنے کو زیادہ مذموم سمجھا، حالانکہ مولانا مودودی تو یہ کہتے ہیں کہ جمعہ کے خطبے میں یہ فعل زیادہ گھناؤنا ہے۔ اگر اس طرح کے لاطائل معارضات کا جواب بھی ضروری ہے، تو میرا جواب یہ ہے کہ حضرت علی جب کوفے میں تھے تو شام کے منبروں پر انہیں کوسنا اور حضرت علی کی وفات کے بعد ان پر سب و شتم کرنا یہ بلاشبہ غیبت تھا اور اس حد تک مجھے عثمانی صاحب کے نکتہ اولی سے پورا اتفاق ہے۔ لیکن جیسا کہ میں ابن حجر مکی کے حوالے سے آئندہ نقل کروں گا اور مولانا مودودی البدایہ وغیرہ کے حوالے سے لکھ چکے ہیں کہ امیر معاویہ کا گورنر مروان حضرات حسنین کو اور ان کے والد ماجد کو خطبہ جمعہ میں گالیاں دیتا تھا، اسے غیبت کہنا تو مشکل ہے البتہ اس میں غیبت کا قبیح پہلو اگر مفقود ہے تو اس کے بجائے یہ مذموم پہلو موجود ہے کہ خطبہ جمعہ کو ایسی آلودگی سے ملوث کیا جائے۔ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ان دونوں میں سے زیادہ برا کام کونسا ہے۔ میرے نزدیک دونون ہی اپنی شناخت میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہیں۔ اگر آپ کے خیال میں میری بات اور مولانا مودودی کی بات میں تفاوت و اختلاف ہے تو چلیے یوں ہی سہی۔ میں نے یہ کب کہا ہے کہ مجھے مولانا کی ہر بات سے کلی اتفاق ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
اُردو اور عربی والا سب و شتم
میں نے کتب حدیث میں سے سِب علی کا جو قطعی ثبوت پیش کیا تھا، ا س سے صریح انکار کی گنجائش چونکہ نہیں ہے، اس لیے مدیر البلاغ نے اس کے بالواسطہ انکار کے لیے استدلال کا ایک دوسرا پہلو اختیار کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اردو میں لفظ سب و شتم جس مفہوم میں استعمال ہوتا ہے عربی میں نہیں ہوتا۔ عربی میں معمولی سے اعتراض یا تغلیط کو بھی لفظ سب سے تعبیر کر دیتے ہیں۔ اپنے اس دعوے کی دلیل میں انہوں نے صحیح مسلم کی ایک حدیث پیش کی ہے جس میں دو صاحبان کے متعلق ذکر ہے کہ انہیں آنحضرت ﷺ نے “سِب” فرمایا۔ مدیر البلاغ کا کہنا یہ ہے کہ یہاں مطلب معاذ اللہ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ آپ ﷺ نے گالیاں دیں۔ یہاں سب کا لفظ غلطی پر ٹوکنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس لیے امیر معاویہ کے متعلق جو سب کا لفظ آیا ہے اسکا حاصل حضرت علی کے طرز عمل پر اعتراض کرنا یا اسے غلط ٹہرانا ہے۔ اس سے زائد کچھ نہیں۔

لیکن مدیر البلاغ کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ اردو میں لفظ سب و شتم جن معنوں میں آتا ہے، عربی میں نہیں آتا۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں الفاظ عربی، فارسی اور اردو میں ایک ہی مفہوم کے حامل ہیں۔ البتہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان الفاظ کا مطلب ہر حال میں گالی دینا ہی ہو، لیکن یہ بات بھی بالکل غلط ہے کہ عربی میں معمولی سے اعتراض یا غلطی کی نشان دہی کو بھی سب کے لفظ سے تعبیر کر دیا جاتا ہے۔ عربی میں بھی یہ لفظ یا تو بدگوئی اور گالم گلوچ کے لیے آتا ہے، یا پھر طعن و تشنیع اور ڈانٹ ڈپٹ کے لیے آتا ہے۔

نہایہ ابن اثیر، قاموس، الصحاح وغیرہ میں اس کے یہی معنی بیان کیے گئے ہیں۔ لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ سب و شتم کا انداز اور اس کے اسلوب و الفاظ ہرحال میں ایک نہیں ہو سکتے۔ اس میں فریقین کی ذات اور حیثیت جس مرتبہ و منزلت کی حامل ہو گی، سب و شتم کے الفاظ بھی اسی کے موافق ہوں گے اور بسا اوقات ایک ہی قسم کے الفاظ ایک موقع و محل میں سب و شتم سمجھے جائیں گے اور دوسرے مقام پر نہیں سمجھے جائیں گے۔ اب نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس تو بہت اعلی و ارفع ہے، ہم تو حضرت امیر معاویہ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ کے بارے میں بھی یہ گمان نہیں کر سکتے کہ وہ خدانخواستہ کسی کو ماں بہن کی گالیاں دیتے ہوں گے جیسی کہ اجڈ قسم کے لوگ دیتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ “فسبھما النبی ﷺ” سے مراد یہ ہے کہ رسول ﷺ نے بس غلطی پر ٹوک دیا۔ یہ غزوہ تبوک کا واقعہ ہے جس میں نبی ﷺ نے واضح حکم دیا تھا کہ کل تم لوگ انشاء اللہ ایک چشمے پر اترو گے تو جو شخص ہم سے پہلے وہاں جا پہنچے وہ پانی کو بالکل نہ چھوئے۔ اس کے باوجود ایسا ہوا کہ دو صاحبوں نے جا کر پانی استعمال کر لیا۔ ظاہر ہے کہ اس صریح حکم کی خلاف ورزی رسول ﷺ کے لیے سخت موجب کوفت ہوئی ہو گی اور آپ نے خلاف معمول ہی سخت الفاظ میں ڈانٹا ہو گا جنہیں حضرت مغاذ نے اس طرح روایت کیا کہ

“ فسبھما و قال لھما ماشائ اللہ ان یقول”
“ آنحضور ﷺ نے بُرا بھلا کہا اور جو کچھ اللہ کو منظور تھا وہ کچھ فرمایا۔”
یہاں اس بات کو واضح کر دینا بھی مناسب ہے کہ دوسرے لوگوں کے سب و شتم اور نبی ﷺ کے فعل سب میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ اس فعل کا صدور اگر آنحضرت کیﷺ کی ذات مبارک سے بتقاضائے بشریت ہو تو اسے اس شخص کے حق میں اللہ نے موجب رحمت و برکت بنا دیا ہے۔ جو خطا اس کا مورد بن گیا ہو، یہ خاصیت کسی دوسرے شخص کو حاصل نہیں ہے چنانچہ صحیح مسلم ہی کا ایک باب ہے جس کا عنوان ہے

“ نبی ﷺ جس پر لعنت یا سب یا بددعا کریں اور وہ اس کا سزاوار نہ ہو تو یہ چیز اس کے حق میں اجر و برکت اور رحمت بن جائے گی۔”

اس کے بعد حدیث ہے کہ دو آدمیو ں نے آنحضور ﷺ سے کوئی ایسی بات کہی کہ آپ سخت نارا ض ہوئے اور آپ نے ان پر لعنت اور سب کا اظہار فرمایا[فلعنہما و سبھما]اور باہر نکال دیا۔حضرت عاشہ نہ اس پر کہا “یا رسول اللہ، کسی اور کو خیر سے حصہ ملے تو ملے، مگر یہ دونوں تو بالکل اس سے محرو م ہو گئے۔” آنحضور ﷺ نے فرمایا” کس طرح”؟ وہ بولیں”آپ نے ان پر سب اور لعنت بھیجی”۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا” کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں نے اپنے رب سے یہ بات ٹہرا لی ہے کہ اے اللہ، میں ایک بشر ہوں، میں جس مسلمان پر بھی لعنت کروں، بددعا کروں وہ اس کے لیے باعث اجر و تذکیہ ہو”۔ دوسری حدیث میں ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا“اے اللہ، میں بشر ہوں، اگر کسی مومن کو ایذا دوں، اس پر شتم کروں، لعنت کروں یا کوڑے ماروں،تو اس کے لیے قیامت کے روز اس فعل کو رحمت و تقرب کا ذریعہ بنا۔” معلوم ہوا کہ جو شخص سب و شتم یا لعنت کا مستحق ہو، اس پر لعنت و نفرین کرنے میں مضائقہ نہیں، لیکن لعنت یا سب و شتم کے عربی یا اردو مفہوم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ نبی ﷺ سے حضرت عائشہ ؓ جو روایت کر رہی ہیں کہ آنحضور ﷺ نے دو اشخاص پر لعنت کی اور انہیں نکال دیا [ اخرجھما ] تو اس میں لعنت کا مفہوم وہی ہے جو ایک اُردو دان سمجھتا ہے، بلکہ اس کے لیے لفظ بھی لعنت ہی کا استعمال فرمایا ہو گا۔

[ حاشیہ از ملک غلام علی:
یہی معاملہ ان روایات کا ہے جن میں حضرت علی پر سب و شتم کا ذکر ہے۔ بعض میں سب کے علاوہ لعنت، شتم اور اس جیسے بعض دوسرے الفاظ آئے ہیں جن کی وہ توجیہ بالکل نہیں کی جا سکتی اور نہ وہ معانی مراد لیے جا سکتے ہیں جو عثمانی صاحب لینے کی سعی کر رہے ہیں۔]
جہاں تک سب یا بُرا کہنے کا تعلق ہے ، اس کی تشریح ہمیں بہت سی احادیث میں مل جاتی ہے،، مثال کے طور پر آنحصور ﷺ جب کسی پر ناراض ہوتے تھے تو فرماتے تھے
“تیری ماں تجھے روئے، تجھے رونے والیاں روئیں، تجھ میں جاہلیت ہے، تیری تباہی ہو، تیری ناک یا چہرہ خاک آلود ہو”۔ بعض اوقات اس سے زیادہ سخت الفاظ فرماتے تھے، مگر اللہ تعالی نے آنھصور ﷺ کی لعنت اور بددعا کو [ اگر وہ مسلمان کے خلاف صادر ہو جو اس کا مستحق نہ ہو ] اس شخص کے حق میں رحمت بنا دیا۔ اس سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ لعنت اور بد دعا بالخصوص اسے عام طریقہ و وطیرہ بنا لینا جائز ہے یا عربی زبان میں سب و لعنت کے معنی اردو کے معانی سے مختلف ہیں۔ قران مجید میں ہے

[ سورۃ الانعام، آیت 108] وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ فَيَسُبُّواْ اللّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ
[ اشرف علی تھانوی ] اور دشنام مت دو ان کو جن کی یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیونکہ وہ برائے جہل حد سے گذر کر اللہ کی شان میں گستاخی کریں گے۔”
اب اس آیت میں بھی سب کا مطلب بتوں یا معبودوں کو غلط روش پر محض ٹوک دینا یا ان پر معمولی سا اعتراض کرنا نہیں ہو سکتا اورمترجمین نے سب کا جو ترجمہ دشنام یا گالی سے کیا ہے اسکا مطلب بھی مغلظات نہیں ہو سکتا بلکہ مراد لعن طعن اور بدگوئی ہے جس سے مقصود محض دل آزاری ہو۔ پھر جیسا کہ پہلے اشارتاً ذکر ہو چکا ہے بسا اوقات ایک ہی قوم کے الفاظ اگر کوئی بڑا چھوٹے کے لیے یا آقا اپنے ماتحت کے لیے کہہ دے تو سب و شتم تصور نہیں ہوں گے لیکن وہی الفاظ اگر کم مرتبے کا انسان بڑے مرتبے والے کے حق میں استعمال کرے تو وہ سِب اور گالی کی تعریف میں آ سکیں گے۔ مثال کے طور پر باپ بیٹے کو یا بڑا بھائی چھوٹے بھائی کو پاجی کہہ دے تو مضائقہ نہیں، لیکن چھوٹا اگر یہی الفاظ پلٹ کر بڑے کو کہہ دے تو یہ بلاشبہ سب و شتم کے زمرے میں داخل ہوں گے۔ اب مدیر البلاغ خود تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ ( اور انکے گورنر ) اپنے ذاتی خصائل و اوصاف میں حضرت علی کے ہم پلہ نہ تھے تو پھر حضرت معاویہ کے لیے یہ کیسے مناسب تھا کہ آپ خفیہ یا علانیہ نہ صرف حضرت علی کو مطعون و مجروح کرتے، بلکہ دوسروں کو بھی اس پر آمادہ کرتے ، اور جو ایسا نہ کرتا اس سے باز پُرس فرماتے۔ اور وہ بھی ان کی وفات کے بعد ! اپنی کتاب کے صفحہ 26 پر عثمانی صاحب نے خود یہ لکھا ہے کہ بسر بن ارطاۃ نے حضرت علی کو کچھ بُرا بھلا کہا تو حضرت معاویہ نے کہا “ تم علی کو گالی دیتے ہو۔” گویا کہ یہاں عثمانی صاحب نے خود تسلیم کر لیا کہ بدگوئی گالی کے مترادف تھی۔

پھر یہ بات بھی عجیب ہے کہ ایک طرف مولانا محمد تقی صاحب یہ فرماتے ہیں کہ “یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ حضرت معاویہ نے حضرت سعد کے سامنے حضرت علی پر جو سِب کیا یا کرنے کی ہدایت کی، تو وہ اردو والا سب و شتم نہیں تھا، بلکہ اس سے مراد حضرت علی پر اعتراض کرنا اور ان کی غلطی سے اپنی براءت کا اظہار تھا، اس سے زائد کچھ نہیں۔ اور دوسری طرف صاحب موصوف اس بات کو ثابت کرنے پر بڑا زور لگا چکے ہیں کہ جن راویوں نے حضرت علی پر سب و شتم والی روایات بیان کی ہیں، وہ سب امیر معاویہ کے جانی دشمن، کٹے اور جلے بھنے رافضی و ہیں۔ اگر سارے سِب و شتم کا حاصل اور مفاد و مال بس یہ ہے کہ امیر معاویہ حضرت علی پر اعتراض فرما دیتے تھے تو اس کے لیے راویوں کو لتاڑنے اور انکے لتے لینے کی کیا ضرورت ہے؟ بالخصوص جب کہ ان واقعات کو اکثر اور بالتصریح بیان کرنے والے نہایت عادل، ثقہ اور سنی راوی ہیں۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضرت علی پر جس سب و شتم کا ذکر بار بار حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں آیا ہے، اگر اس کا مفہوم صرف یہ ہے کہ ایک آدھ غیر محتاط لفظ امیر معاویہ کی زبان سے نکل گیا ہو، جیسا کہ عثمانی صاحب ہمیں باور کرانا چاہتے ہیں، تو اس شدید احتجاج کی کیا توجیہ کی جا سکتی ہے اور اُسے کس طرح حق بجانب کہا جا سکتا ہے جو بعض جلیل القدر اصحاب کی طرف سے اس کے خلاف صادر ہوا؟ مثال کے طور پر حضرت سعد ہی کے واقعے کو لیجئیے۔ میں نے البدیہ سے جو روایت نقل کی تھی، اس میں یہ الفاظ ہیں کہ حضرت امیر معاویہ نے حضرت سعد کو اپنے پاس بٹھایا، پھر حضرت علی کی برائی اور عیب چینی شروع کر دی [ فوقع فیہ ] اس پر حضرت سعد نے فرمایا کہ آپ نے مجھے گھر پر بلایا اور پھر علی کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا [ فی علی تشتمہ ] ۔ پھر حضرت سعد نے حضرت علی کے فضائل و مناقب بیاان کیے جو نبی ﷺ سے مروی تھے۔اس کے بعد حضرت سعد وہاں سے دامن جھاڑتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے اٹھ کر چل دیے کہ میں آئندہ کبھی بھی آپ کے ہاں نہیں آؤں گا۔ اب کیا کوئی شخص اس بات پر یقین کر سکتا ہے کہ حضرت سعد امیر معاویہ کے محض ایک آدھ غیر محتاط لفظ یا معمولی اعتراض پر اس حد تک غضبناک ہوئے ہوں گے؟پھر فتح الباری، مناقب علی کی شرح میں حضرت سعد کا قول مسند ابی یعلی سے یوں مروی ہے کہ اگر میرے سر پر [ لکڑی کاٹنے والا ] آرہ رکھ کر مجھے سب علی کے لیے کہا جائے تو میں ابد تک یہ کام نہیں کروں گا۔ کیا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت علی پر سب و شتم بس ذرا سا اظہار اختلاف و اعتراض ہے؟

سب علی کا مفہوم اور اس کی مثالیں
ام المومنین حضرت ام سلمہؓ نے اس بری رسم پر متعدد مرتبہ نفرت و ملامت کا اظہار فرمایا۔ ایک حوالہ ابو زہرہ صاحب کی کتاب سے اوپر نقل ہو چکا ہے۔ ایک دوسرا حوالہ میں پہلی بحث میں مسند احمد کا دے چکا ہوں کہ حضرت ام سلمہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ پر برسر منبر سب و شتم کیوں ہو رہا ہے؟ سننے والوں نے حیرت سے پوچھا کہ کہاں اور کیسے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ کیا حضرت علی پر سب و شتم نہیں ہو رہا جو آنحضور ﷺﷺ پر سب و شتم کے مترادف ہے کیونکہ آنحضور ﷺ علی سے محبت کرتے تھے اور میں اس کی گواہ ہوں؟ پھر میں نے سنن ابی داؤد اور مسند احمد کی روایات نقل کی تھیں جن میں مذکور ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ جب وہ کوفہ میں امیر معاویہ کے عامل تھے تو انکی موجودگی میں مسجد کے اندر سب علی کا ارتکاب ہوتا تھا اور حضرت مغیرہ بھی اس میں شریک تھے جس پر حضرت سعید بن زید نے سخت صدائے احتجاج بلند کی کی یہ کیا ہو رہا ہے اور اس رسم بد کو بند کیوں نہیں کیا جاتا؟ اب ان ساری تصریحات سے مدیر البلاغ اگر آنکھیں میچ کر بس یہ کہتے رہیں کہ عربی والا سب اور ہے اور اردو والا اور ہے اور یہ محض ذرا سا اختلاف تھا تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ ام المومنین ؓ اور عشرہ مبشرہ میں شامل ان دونوں اصحابِ رسول نے خواہ مخواہ اور بیجا بات کا بتنگڑ بنایا، ورنہ امیر معاویہ اور ان کے گورنروں کا تو سرے سے کوئی قصور ہی نہ تھا۔ اور وہ بس اتنی بات کہتے تھے کہ حضورت علی قاتلین عثمان سے قصاص لینے میں سستی برت رہے ہیں اور اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا۔

[ حاشیہ از ملک غلام علی:
صحیح احادیث میں وارد ہوا ہے : سباب المسلم فسوق۔۔ ۔ من اکبر الکبائر یسب الرجل والدیہ۔۔۔۔ ان احادیث میں وہ مفہوم کسی طرح کھپ نہیں سکتا جو عثمانی صاحب لینا چاہتے ہیں اور نہ معمولی اظہار اختلاف کو اکبر الکبائر کہا جا سکتا ہے۔
پوری روایت یوں ہے:
Sahih Muslim, Kitab-ul-Iman
:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ مِنَ الْكَبَائِرِ شَتْمُ الرَّجُلِ وَالِدَيْهِ ‏"‏ ‏.‏ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ يَشْتِمُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ قَالَ ‏"‏ نَعَمْ يَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ أَبَاهُ وَيَسُبُّ أُمَّهُ فَيَسُبُّ أُمَّهُ ‏
It is narrated on the authority of 'Abdullah b. Amr b. al-'As that the Messenger of Allaah (sallAllaahu alayhi wa sallam) observed:
abusingone's parents is one of the major sins. They (the hearers) said: Messenger of Allaah, does a man abuse his parents too? He (the Prophet) replied: Yes, oneabusesthe father of another man, who in turn abuses his father. One abuses his mother and he in turn abuses his (the former's) mother.
]
اب اگر عثمانی صاحب سے ہم یہ پوچھیں کہ حضرت کیا آپ کی نگاہ میں صحابیت کا شرف صرف حضرت معاویہ ہی کو حاصل تھا اور ام المومنینؓ اور اکابر صحابہ کی ان کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہ تھی تو وہ اس کا کیا جواب دیں گے؟ دوسروں پر توہین صحابہ کا الزام رکھنے والے کبھی خود بھی سوچ لیں کہ وہ صحابہ کا کیا احترام فرماتے ہیں۔

جہاں تک امیر معاویہ کے گورنروں کے فعل سب کا تعلق ہے، اُسے مدیر البلاغ نے یہ کہہ کر صاف کر دینے کی کوشش کی ہے کہ “مولانا نے صرف دو روایتوں کا حوالہ دیا تھا جن میں سے ایک میں گورنر کوفہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کا ذکر ہے لیکن اس کے راوی اول تا آخر شیعہ ہیں اور دوسری روایت جو مروان کے متعلق تھی، اس کو یوں اڑا دیا ہے کہ بخاری میں تو صرف یہ ذکر ہے کہ مروان حضرت علی کو ابوتراب کہتا تھا۔ یہ احمقانہ تعریض ہو سکتی ہے ، مگر اسے گالی نہیں کہا جا سکتا۔” میں کہتا ہوں کہ طبری والی روایت کے راوی اگر شیعہ ہیں تو کیا ابن ماجہ، سنن ابی داؤد اور مُسند احمد والی روایات کے راوی بھی شیعہ ہیں یا جھوٹے ہیں جو شیعوں کی نسبت زیادہ صراحت کے ساتھ فعل شب و شتم اور اس کے خلاف شدید ردعمل کو بیان کر رہے ہیں؟ باقی رہا مروان کا قصہ تو اس کے متعلق البدایہ کی جس روایت کا حوالہ “خلافت و ملوکیت” میں دیا گیا تھا، اس میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ “جب مروان مدینے میں حضرت معاویہ کا گورنر تھا تو وہ ہر جمعہ کو منبر پر کھڑے ہو کر حضرت علی پر سب و شتم کیا کرتا تھا۔” اس پر البلاغ میں لکھا گیا تھا کہ مروان حضرت علی کی شان میں کچھ نازیبا الفاظ استعمال کرتا تھا مگر تاریخی روایتوں میں سے کسی میں ان کا ذکر نہیں۔ یہ دعوی غلط ہے۔ تاریخ الخلفاء امام سیوطی اور تطہیر الجنان [ ابن حجر المکی ] صفحہ 152 پر یہ روایت مذکور ہے کہ مروان جمعہ میں حضرت علی اور اہلبیت کو جس طرح گالیاں دیتا تھا، اس سے تنگ آ کر حضرت حسن عین اقامت جمعہ کے وقت مسجد میں آتے تھے، پہلے تشریف نہ لاتے تھے، آخر مروان نے ایک قاصد بھیج کر گالی دی جس میں دیگر سب و شتم کے علاوہ حضرت حسن کو یہ بھی کہا گیا کہ
“تیری مثال خچر کی سی ہے جس سے پوچھا جائے کہ تیرا باپ کون ہے تو وہ کہے کہ میری ماں گھوڑی ہے۔۔۔۔” ظاہر ہے کہ اس بدزبان نے جسے نبی ﷺ نے ملعون کہا اور جسے شاہ عبدالعزیز صاحب نے طرید ابن طرید لکھا اور اس نے حضرت حسن کو خچر سے اور سیدۃ النساء حضرت فاطمہ کو گھوڑی سے اور حضرت علی کو گدھے سے تشبیہ دی[نعوذ باللہ من ذلک]۔ اس روایت کے رجال کو ابن حجر نے ثقات قرار دیا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ معلوم نہیں مروان نے کیا نازیبا الفاظ استعمال کیے تو اس پر حیف صد ہزار حیف ہے۔ میں پھر بھی یہ مانتا ہوں کہ امیر معاویہ تو ایسی غلیظ گالیاں ہرگز نہ دیتے ہوں گے لیکن مروان جیسے لعنت زدہ اور زیاد جیسے مجہول النسب گورنر بھی کیا کسی حد پر جا کر رکتے ہوں گے؟ زیاد ہی کی گندی گالیوں کے خلاف حضرت حضر بن عدی نے احتجاج کیا تھا جس پر ان کے خلاف بغاوت کا بناوٹی مقدمہ بنا کر انہیں سزائے موت دی گئی۔

ابو تراب کے لفظ کا تحقیر آمیز استعمال
[ نوٹ از مصنف ھذا:
اوپر ہم صحیح مسلم کی روایت پیش کر چکے ہیں جو کہ تفصیل سے بتا رہی ہے کہ یہ مروان نہیں بلکہ آل مروان [ مروان کے خاندان کا ایک شخص] ہے جو کہ گورنر ہوا تھا اور جس نے حضرت سہلؓ کو پہلے تو علی کو سب و شتم کرنے کا حکم دیا، اور جب وہ اس پر راضی نہ ہوئے تو ان سے مطالبہ کیا کہ وہ پھر یہ ہی کہہ دیں کہ “ابو تراب پر اللہ کی لعنت ہو”۔ چنانچہ مفتی تقی عثمانی صاحب کو صرف بخاری کی روایت پیش کر کے یہ قیاسی عذر پیش کرنا کہ یہ مروان صرف ابو تراب کہتا تھا، بالکل نامعقول عذر و بہانہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ [ ملک غلام علی صاحب کا کچھ متن ہم نےچھوڑ دیا ہے کیونکہ صحیح مسلم کی اس واضح روایت کے بعد اس ضمن میں کوئی اور بحث کی گنجائش نہیں رہ جاتی]
ملک غلام علی صاحب آگے لکھتے ہیں کہ لنڈا بازار لاہور میں ایک شخص ابو یزید بٹ نے “محبین صحابہ” کے نام سے ایک جمیعت بنا رکھی ہے۔ اس نے ایک کتابچہ “بنو ہاشم اور بنو امیہ کی قرابت داریاں” کے نام سے چھاپا ہے۔ اس کے صفحہ پندرہ کی درج ذیل عبارت پڑھیے

“ ذرا نگاہ تقدس سے پردہ ہٹا کر نگاہ تدبر سے غور فرمائیں کہ حضور کی صاحبزادی کو تکالیف کس نے پہنچائیں۔ آخر سیدنا علی سارا دن کیا کرتے تھے؟ جو خاوند گھر میں کچھ کما کر نہ لائے، اپنی بیوی کے کام کاج میں ہاتھ نہ بٹائے، بیوی اور اولاد کی کفالت نہ کر سکے اور بقول حضرت امام محمد باقر رسول اللہ سے کیے ہوئے وعدے کے خلاف لکڑیاں لانا، پانی بھرنا اور بیرون خانہ کا کام بھی جناب سیدہ فاطمہ بنت محمد رسول اللہ کے ذمے ڈال دے تو اندازہ لگائیں جناب سیدہ اور خود رسول مقبول کو ان ہاشمی داماد سے کیا سکھ ملا ہوگا؟۔۔۔۔۔ جب رسول خدا نے فاطمہ کو اس حال میں دیکھا آنسو چشم ہائے مبارک سے رواں ہوئے اور فرمایا اے دختر گرامی، تلخی ہائے دنیا کی حلاوت چکھو [ یعنی سیدنا علی جو تمہیں دکھ دے رہے ہیں، انہیں برداشت کرو] ۔۔۔۔۔۔۔ سبائی مفسرین کی روایات سے معلوم ہوتا ہے چونکہ سیدنا علی کوئی کام کاج نہیں کرتے تھے اسی لیے حضور انہیں ابو تراب بار بار کہہ کر خطاب کرتے تھے۔۔۔۔ بار بار ابو تراب اس لیے فرماتے تھے کہ یہ کوئی کام کاج نہ کرتے تھے اور گھر میں پڑے رہتے تھے۔”
یہ پورا رسالہ اسی طرح کے ہفوات سے لبریز ہے اور اس میں جگہ جگہ مروان کو رضی اللہ عنہ اور یزید کو سیدنا یزید رضی اللہ عنہ لکھا گیا ہے۔ اس ابو یزید نے اس طرح کی خرافات پر مشتمل متعدد کتابیں شائع کی ہیں۔ مدیر البلاغ صرف اسی ایک اقتباس کو پڑھ کر مجھے بتائیں کہ کیا اب بھی انہیں اس پر اصرار ہے کہ ابو تراب کے لفظ سے کوئی شخص سب و شتم کا کام نہیں لے سکتا اور اسے کسی بھی قاعدے سے سب و شتم کی بوچھار یا گالی نہیں کہا جا سکتا؟

کیا حضرت علی بھی سب و شتم کرتے تھے؟
حضرت علی پر سب و شتم کے ثبوت میں جو روایات اور جو دلائل میں نے پیش کیے تھے ان کے جواب میں عثمانی صاحب نے بعض ایسے اقتباسات نقل کیے ہیں جن میں یہ بیان ہے کہ حضرت علی کے ساتھی بھی حضرت عثمان اور امیر معاویہ کی بدگوئی کرتے تھے اور حضرت علی نے حضرت معاویہ اور حضرت عمر بن عاص کو بدترین مرد بلکہ ان کے ایمان تک کو مشکوک بتایا۔ آخر میں سب کچھ نقل کر دینے کے بعد “البلاغ” میں یہ کہہ دیا گیا ہے کہ ہم تو ایسی بیشتر روایتوں کو ان کی سند کے ضعف کی بنا پر صحیح نہیں سمجھتے لیکن مولانا مودودی اور غلام علی صاحب جو تاریخی روایات کو بے چون و چرا مان لینے کے قائل ہیں وہ بتائیں کہ ان روایات کی بنا پر کوئی شخص اگر حضرت علی پر بھی سب و شتم کا الزام قطعیت کے ساتھ لگا دے تو اس کا کیا جواب ہو گا۔

اسکا جواب دینے کو تو بڑا مفصل و مدلل دیا جا سکتا ہے، مگر میں اب قطع بحث کے لے صرف یہ کہوں گا کہ ہم ہر قسم کی تاریخی روایات کو بے چون و چرا مان لینے کے ہرگز قائل نہیں ہیں، لیکن ہم اس بات کے قائل بھی نہیں ہیں کہ کسی صحابی کی کوئی غلطی اگر صحت نقل کے ساتھ احادیث و آثار یا تاریخ میں مروی ہو تو اُسے بھی محض اس دلیل کی بنا پر رد کر دیا جائے کہ اس سے صحابہ کرام اور ان کے احترام پر حرف آتا ہے یا پھر ان روایات صحیحہ کے انکار کی راہ اس طرح سے ہموار کی جائے کہ ایک صحابی کی خطا کو کالعدم قرار دینے کے لیے بعض ضعیف و مکذوب روایات کے ذریعے سے دوسرے صحابی کو بھی اُسی طرح کی خطا کا مورد ٹہراتے ہوٗے آخر میں یہ کہہ دیا جائے کہ صحیح اور غلط روایات سب پھینک دینے کے قابل ہیں۔ میری پوری بحث کو سامنے رکھ کر ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ سب علی کو ثابت کرنے میں میرا اصل انحصار صحیح مسلم، سنن ترمذی، سنن ابی داؤد، ابن ماجہ اور مسند احمد پر ہے جو بالاجماع حدیث کی صحیح ترین کتابیں ہیں۔ علماء و مورخین جن کے اقوال میں نے نقل کیے ہیں وہ بھی بالاتفاق اٗمہ اہل سنت ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ امیر معاویہ کے عہد میں حضرت علی اور اہلبیت پر سب و شتم کا آغاز ہوا جو حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور تک منبروں پر جاری رہا۔ اس کے بالمقابل جناب محمد تقی صاحب پلڑا برابر کرنے کے کے لیے یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ حضرت علی بھی اسی طرح سب و شتم کرتے تھے مگر اس کے ثبوت میں پیش کر رہے ہیں ابن حبیب کی ایک عبارت کو جس میں یہ ذکر ہے کہ حضرت علی کے ساتھی حضرت عثمان کی بدگوئی کرتے تھے۔ تاہم میں اس روایت کی تردید ضروری نہیں سمجھتا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بعض حضرات صحابہ نے حضرت علی سے عدم تعاون یا مزاحمت کا رویہ اختیار کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت علی قاتلین عثمان یا حضرت عثمان کو بُرا بھلا کہنے والوں کی سرکوبی نہ کر سکے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ حضرت علی اس مذموم روش کی حوصلہ افزائی یا اُسے گوارا کرتے تھے۔ ویسے تو کوفہ کی مسجد میں خارجی خود انہیں گالیاں اور قتل کی دھمکیاں دیتے رہتے تھے اور آپ اسے نظر انداز کرتے تھے، مگر جس کسی نے آپ کے سامنے حضرت عثمان یا حضرت معاویہ کی بدگوئی کی، آپ نے سختی سے اس پر ٹوکا۔

دوسری روایات عثمانی صاحب نے ابن جریر طبری کی نقل کی ہیں، ان میں بلاشبہ حضرت علی کے نامناسب الفاظ مذکور ہیں جو انہوں نے حضرت معاویہ یا بعض دوسرے اصحاب کے لیے استعمال کیے ہیں۔ میں معصوم عن الخطاء نہ حضرت علی کو سمجھتا ہوں نہ امیر معاویہ کو۔ حضرت علی بھی بہرحال انسان تھے، ان کے مقابلے میں مخالفت و محاربت کی جو روش اختیار کی گئی اس کے نتیجے میں حضرت علی کے دل کا ملول و مکدر ہو جانا قدرتی بات ہے اور ان کا یہ کہہ دینا کہ “معاویہ کا کوئی اسلامی کارنامہ نہیں اور وہ اسلام میں بادل ناخواستہ داخل ہونے سے پہلے اللہ اور اس کے رسول کے دشمن تھے اور طلقاء میں سے تھے”، یہ ایک ناخوشگوار جوابی ردعمل ہے۔ اگر اسے سب و شتم سمجھا جائے تو اس کے ساتھ نبی ﷺ کا وہ ارشاد گرامی بھی سامنےرکھا جائے جو صحیح مسلم اور دوسری کتب حدیث میں مروی ہے کہ

“ دو آدمی ایک دوسرے کی بدگوئی کرتے ہوئے جو کچھ بھی کہیں، اس کا بوجھ ابتدا کرنے والے پر ہے جب تک کہ مظلوم حد سے نہ بڑھے۔”
اب بر بنائے انصاف ہرشخص خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ اس قضیے میں ابتدا کن کی طرف سے ہوئی اور فریق ثانی نے جوابا جو کچھ کیا وہ فریق اول سے زائد تھا یا اس سے کمتر تھا۔ اس سلسلے میں مدیر البلاغ نے البدایہ کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت حجر بن عدی اور ان کے ساتھی حضرت عثمان کی بدگوئی کرتے تھے۔ حضرت حجر کا موقف جو کچھ بھی تھا، اس پر تو تفصیلا آگے چل کر بحث ہو گی۔ یہاں میں صرف یہ واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ حضرت حجر نے جو کچھ حضرت علی کی شہادت کے بعد کیا اور جو کچھ حضرت حجر کے ساتھ کیا گیا اس کی ذمہ داری سے تو حضرت علی بری ہیں۔ تاہم حضرت علی کی زندگی میں اگر ان کے علم میں کوئی ایسی بات آئی ہے تو آپ نے فورا اس پر ٹوکا ہے۔ چنانچہ ابو حنیفہ دینوری اپنی تاریخ الاخبار الطوال کے صفحہ 165 پر بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی کو معلوم ہوا کہ حضرت حجر اہل شام کی بدگوئی کر رہے ہیں۔ حضرت علی نے انہیں پیغام بھیج کر اس فعل سے منع کیا اور باز رہنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے کہا کہ “امیر المومنین، کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا، ہاں، مگر میں تمہارے لیے ناپسند کرتا ہوں کہ تم لعن طعن کرو۔

اس کے بعد مولانا محمد تقی صاحب نے البدایہ جلد 7 ، صٖحہ 258 کے ایسے اقوال کا ذکر بھی ضروری سمجھا ہے کہ حضرت علی نے امیر معاویہ کے ایمان تک کو مشکوک بتایا حالانکہ ابن کثیر نے خود ان اقوال کی تردید کی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جن اقوال کی ناقل نے خود تکذیب کر دی ہے ان کے بیان کی کیا حاجت تھی؟ ابن کثیر نے تو انہیں نقل کرنے کے بعد یہ لکھ دیا ہے کہ

“ میرے نزدیک ان کی نسبت حضرت علی سے صحیح نہیں۔”
لیکن محمد تقی صاحب نے ان روایات کے ساتھ دوسری بہت سی روایات کو بھی لپیٹ میں لیتے ہوئے یہ فرما دیا کہ ہم تو ان جیسی بیشتر روایتوں کو صحیح نہیں سمجھتے۔ گویا کہ یہ تاثر دلانا مقصود ہے کہ جو روایتیں ہم نے دی ہیں اور ( دوسری وہ ) جن کی ابن کثیر نے تکذیب کی ہے، سب ایک درجے میں ہیں۔ ہم گویا سب کو بے چون و چرا مان لینے کے قائل ہیں اور آپ سب کو یا اکثر کو ناقابل اعتبار، قطعی جھوٹ اور افترا سمجھتے ہیں۔ یہ خلط مبحث کا جو انداز مدیر البلاغ اختیار کر رہے ہیں، بعینہ یہی انداز منکرین حدیث اور ناصبیت کے علمبردار ااختیار کرتے ہیں۔ وہ چند جھوٹی روایتوں کو لیتے ہیں اور ان کی آڑ میں جس صحیح واضح حدیث کا چاہتے ہیں انکار کر دیتے ہیں۔

مدیر البلاغ چونکہ بڑے شدومد کے ساتھ اس بات کے مدعی ہیں کہ جن احادیث و روایات میں سب علی کا ذکر ہے، اس سے مراد بس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں کچھ غیر محتاط الفاظ کا استعمال ہے، اس لیے میں یہاں سنن ابن ماجہ کی وہ حدیث پیش کیے دیتا ہوں جو اس کے ابواب فضائل اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ان الفاظ میں مروی ہے اور جس کی طرف پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے۔

عن سعد ابن ابی وقاص قال قدم معاویۃ فی بعض حجاتہ فدخل علیہ سعد فذکروا علیافنال منہفغضب سعد۔
حضرت سعد ابن ابی وقاص سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ امیر معاویہ ایک حج کے موقع پر آئے تو حضرت علی کا ذکرہوا تو امیر معاویہ نے انکی بدگوئی کی۔اس پر حضرتسعد غضبناک ہو گئے۔۔۔( اسکے بعد حضرت سعد نے حضرت علی کے وہی فضائل بیان کیے جو دوسری روایات میں مذکور ہیں) ۔
میں نے یہاں " نال منہ " کا ترجمہ بدگوئی کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مولانا عثمانی صاحب فرمائیں کہ بدگوئی کا لفظ سخت ہے، لیکن وہ خود ملاحظہ فرما لیں کہ اپنی کتاب میں صفحہ 63 پر انہوں نے بھی حضرت حجر اور ان کے ساتھیوں کے متعلق " بدگوئی " کا لفظ لکھا ہے جو " ینالون منہ " کا ترجمہ ہے۔اب ناپ تول کے پیمانے دو دو تو نہیں ہونے چاہیے ہیں کہ ایک حضرت معاویہ کے لیے ہو اور ایک حضرت حجر کے لیے ہو۔

[ نوٹ از مصنف ھذا:
عثمانی صاحب کی کتاب کے نئے ایڈیشن میں یہ روایت صفحہ 76 پر نقل ہوئی ہے۔ مولانا عثمانی لکھتے ہیں:
بقول ابن جریر و ابن کثیر:
انھم کانوا ینالون من عثمان ۔۔۔۔
ترجمہ: " یہ لوگ حضرت عثمان کی بدگوئی کرتے تھے۔۔۔۔۔
مولانا عثمانی کےاس اپنے ترجمہ کا، انکی اپنی کتاب سےسیکن شدہ صفحہ
یہاں ملاحظہ فرمائیں]
مشہور مؤرخ احمد بن یحیی البلاذری اپنی کتاب انساب الاشراف میں لکھتے ہیں

“ جب بُسر بن ابی ارطاۃ بصرہ میں پہنچا اور معاویہ نے بُسر کو اس لیے بھیجا تھا کہ وہ اُن کے مخالفین کو قتل کرے اور ان کی بیعت کرنے والوں کو زندہ رہنے دے تو بُسر نے منبر پر چڑھ کر علی کا ذکر بُرے الفاظ میں کیا، ان کی بدگوئی اور تنقیص کی اور پھر کہنے لگا " اے لوگو تمہیں خدا کی قسم کیا میں نے سچ کہا؟" حضرت ابو بکرہ نے جواب دیا: تم بہت بڑی ذات کی قسم دلا رہے ہو، خدا کی قسم تم نے نہ سچ کہا اور نہ نیکی کا کام کیا۔ بُسر نے حضرت ابو بکرہ کو مارنے کا حکم دیا حتی کہ وہ مار سے بیہوش ہو گئے۔ ( انساب الاشراف ، صفحہ 492 ، جلد اول، دارالمعارف، مصر)
بُسر بھی امیر معاویہ کا عامل تھا اور اس کے ظلم و ستم کے واقعات سارے مؤرخین نے بیان کیے ہیں۔ اب یہاں بلاذری صاف بیان کر رہے ہیں کہ ا س نے منبر پر چڑھ کر حضرت علی کا ذکر قبیح طریقے سے کیا، آپ پر سب و شتم کیا، آپ کی توہین و تحقیر کی اور ٹوکنے والے صحابی کو مار مار کر بیہوش کر دیا۔ اتنی تصریحات کے بعد اس بات کی گنجائش کیسے نکل سکتی ہے کہ ساری سب و شتم والی روایات کو کالعدم یا بالکل معمولی اظہار اختلاف پر محمول کر دیا جائے؟



[ نوٹ یہاں آ کر ملک غلام علی کی تحریر ختم ہوتی ہے ]



مولانی عثمانی کی صداقت کے تابوت میں آخری کیل
( از مصنف آرٹیکل ھذا )

یاد رکھئیے،لنگڑےلولے عذر اور بہانے ہر کوئی لے آتا ہے۔ شیطان ابلیس بھی اللہ کے مقابلے میں لنگڑا لولا عذر لے کر آ گیا تھا کہ وہ آدم کو سجدہ کیوں کرے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے۔

بنی امیہ جہاں جہاں حضرت علی ابن ابی طالب کے لیے سَب، اور شتم اور " ینالون منہ " وغیرہ استعمال کرتے رہے، اُن تمام جگہوں پر مولانا عثمانی کوئی نہ کوئی عذر لے کر آ گئے۔

مگر انکا یہ دوغلا پن سب سے بُرے طریقے سے اُس وقت پکڑا جاتا ہے جب اسی " سِب " کے لفظ کا استعمال حضرت حجر بن عدی خود انکے ممدوح بنی امیہ کے خلاف کرتے ہیں تو یہی مولانا عثمانی صاحب اس " سِب " کا ترجمہ بذات خود " بُرا بھلا " کہنا کر رہے ہیں۔

اپنی کتاب " حضرت معاویہ اور تاریخی حقائق " کے صفحہ 72 پر مولانا عثمانی لکھتے ہیں

حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:
" و قد التف علی حجر جماعات من شیعۃ علی یتولون امرہ و یشدون علی یدہو یسبون معاویۃو یتبراون منہ"
" حضرت حجر کو شیعان علی کی کچھ جماعتیں لپٹ گئی تھیں جو ان کے تمام امور کی دیکھ بھال کرتی تھیں اورحضرت معاویہ کو بُرا بھلاکہتی تھیں۔"
عثمانی صاحب کی کتاب کاسکین امیج یہاں
ملاحظہ فرمائیے۔

چنانچہ جب تک معاویہ ابن ابی سفیان اور اسکے بنی امیہ کے گورنراہلبیت علیھم السلام پر " سِب و شتم " کرتے رہے اُس وقت تک عثمانی صاحب کے مطابق یہ صرف ہلکی سی تنقید تھی، مگر جب یہی الفاظ حضرت حجر ( اللہ ان سے راضی ہو ) اور انکے ساتھیوں کے منہ سے نکلتے ہیں تو انکا مطلب " بُرا بھلا " کہنا بن جاتا ہے۔

آج انٹرنیٹ پر عربی کی کئی لغات موجود ہیں۔ ان سب میں آپ کو سب و شتم کا مطلب برا بھلا کہناہی ملے گا۔ مثال کے طور پرAjeeb
انتہائی معتبر مانے جانے والی لغت ہے۔ اس میں ان الفاظ کے یہ مطلب آپکو نظر آئیں گے

سِب / شتم[
آن لائن لنک
]:

, cursing , vituperation , row , tarnishing , revilement , libel , swearing , vilification , abuse

آپ کوئی لغت اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو سب اور شتم کے یہی معنی نظر آئیں گے۔

ایک اور لفظ " تبرأ " ہے جس کا مخالفین ہمیشہ غلط اور جھوٹا ترجمہ کر کے ہمیں بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ " تبرأ " کا مطلب صرف اور صرف " بیزاری و براءت " اختیار کرنا ہے مگر مخالفین اس لفظ کو " گالی دینا " بنا دیتے ہیں۔

تبرأ[
آن لائن لنک
]:

أُعْلِنَتْ بَرَاءَتُهُ

, be cleared , be declared innocent (guiltless)

اللھم صلی علی محمد و آل محمد۔
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
عبداللہ بن آدم جناب آپ ایک ایک روایت کو یہاں درج کریں بجائے اتنے لمبے مضمون چاھپنے کے ایک ایک نکتے پر بات کر لیتے ہیں معاملہ کھل جائے گا
امید ہے فیس بکیوں کی طرح آپ بدکلامی اور فرار کی بجائے شریفانہ علمی گفتگو فرمائیں گے
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
مسلم کی جو روایت پیش کی ہے اس میں یہ کہاں ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کو گالی دینے کا حکم دیا تھا؟؟؟صرف اتنا ہے کہ حکم دیا کس چیز کا ؟؟؟
ما منعک ان تسب ۔۔۔ تمھیں سب کرنے سے کس چیز نے روکا ۔۔ اس میں صرف سوال ہے کہ تم سب کیوں نہیں کرتے یقینا لوگ علی رضی اللہ عنہ کو سب کرتے تھے کون تھے وہ ؟؟؟معاویہ پوچھتے ہیں جب وہ کرتے ہیں تم نہیں کرتے آخر وجہ کیا ہے ؟؟؟صرف وجہ پوچھی کوئی زجر و توبیخ نہیں ہے تو اس سے کیسا استدلال کیا جا رہا ہے جسے ثبوت نمبر دو کہا اس میں تو اسی روایت میں اضافہ ہے بس اور کچھ بھی نہیں وہ دوسرا ثبوت کیسے ہو گیا اور کیا شاہ عبدالعزیز سے پہلے آپ کو کوئی نہیں ملا تھا اس حدیث کی شرح کیلئے ؟؟؟ علی کل حال کہنے والا جو بھی ہو جب حدیث میں اس کی صراحت نہیں کنایہ بھی نہیں تو اس کا فھم مردود ہے
امید ہے آپ پہلے صرف اسی پر بات کریں گے اگر مناسب یہ لگے کہ پہلے سب کا تعین کر لیا جائے تو تب بھی اچھا ہے
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
محترم قاھر الارجاء و الخوارج میں نہ ہی شعیہ ہوں اور نا ہی ان کی وکالت کرنے کا مجھے شوق ہے بلکہ شعیہ کو تو میں مسلمان ہی نہیں مانتا میں انکے دلائل کی حقیقت جاننا چاہتا ہوں اور کچھ نہیں، یہ سارا مضمون دراصل ان کی ویب سائٹ سے لیا ہے جس کی وضاحت میں نے اُوپر کر بھی دی ہے اوررہی دوسری بات مسلم کی روایت والی بات جس میں آپ نے پوچھا
اس میں یہ کہاں ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کو گالی دینے کا حکم دیا تھا؟؟؟ تو اس کا جواب خود اُسی روایت میں موجود ہے
یعنی جب سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تم علی رضی اللہ عنہ پر سب کیوں نہیں کرتے تو اسکے جواب میں صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں کہا کہ وہ فلاں فلاں لوگ تھے جو سب کرتے ہیں میں ان میں سے نہیں ہوں بلکہ یوں کہا "اگر تم میری گردن پر آرہ [لکڑی یا لوہا کاٹنے والا آرہ] بھی رکھ دو کہ میں علی [ابن ابی طالب] پر سب کروں [گالیاں دینا، برا بھلا کہنا] تو تب بھی میں کبھی علی پر سب نہیں کروں گا"۔یعنی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم علی رضی اللہ عنہ کو سب کیوں نہیں کرتے سبھی کر رہے ہیں تو اُسکے جواب میں سعد رصی اللہ عنہ نے اُنھیں یہ جواب دیا اُوپر جو آپ نے تاویل کی ہے وہ تو بظاہر درست نہیں معلوم ہو رہی۔۔۔واللہ اعلم
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
امید ہے آپ پہلے صرف اسی پر بات کریں گے اگر مناسب یہ لگے کہ پہلےسب کا تعین کر لیا جائے تو تب بھی اچھا ہے
اُردو اور عربی والا سب و شتم جو اوپر لکھا ہے اس کا مطالعہ کریں
 
Top