• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بچوں کو کس طرح نمازی بنایا جائے؟

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ علاوہ ازیں طریقۂ وضو کو صرف ظاہری چیزوں پر محدود نہ رکھاجائے بلکہ انسانی زندگی پر وضو کے معنوی اَثرات کی بھی وضاحت کی جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ ہم وضو اس لئے کرتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کاحکم دیاہے اور رسول کریمﷺنے ہمیں عملی طور پر کرکے دکھایا ہے اور ہر مسلمان پر ان کی پیروی لازم ہے۔
٭ بچے کے دل میں وضو کی اہمیت و فضیلت اُجاگر کی جائے تاکہ وہ اسے پسند کرے اور خود بخود اس طرف مائل ہو۔ رسولِ خداﷺنے فرمایا:
«إِذَا تَوَضَّأَ الرَّجُلُ المُسْلِم خَرَجَتْ ذُنُوْبَہُ مِنْ سَمْعِہِ وَ بَصَرِہِ وَیَدَیہِ وَرِجْلَیہِ »(مسند أحمد:۵؍۲۵۲)
’’جب ایک مسلمان وضو کرتا ہے تو اس کی آنکھوں ،کانوں، ہاتھوں اور پاؤں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔‘‘
٭ پھربچے کو قبلہ رخ ہوکر اور ستر ڈھانپ کر نماز اداکرنے کاطریقہ سکھائیں اور نماز کے دوران پڑھی جانے والی سورتیں اور ذکر و اذکار کا التزام کروایا جائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ بچے کو مسجد کے آداب کے متعلق تعلیمات سے آگاہ کیاجائے، اور اسے بتلایاجائے کہ مسجد اللہ کا گھر ہے جس میں کھیل کود اور شوروغل کرنا مناسب نہیں۔
٭ بچے کو نماز جمعہ میں خصوصی طو رپر شریک کیا جائے، اسے صاف ستھرے کپڑے پہنا کر خوشبو لگائی جائے اور جمعہ کے بعد موضوع خطبہ کے حوالے سے بات چیت کی جائے تاکہ اندازہ ہو کہ اس نے کس حد تک خطبے پر غور کیا ہے اور اگر آپ کو محسوس ہو کہ اس نے خطبے پر غور نہیں کیابلکہ کھیل کود میں مشغول رہا تو نرمی کے ساتھ اسے سمجھائیے۔
٭ بچوں کو وقت کی اہمیت اور پابندی کے متعلق آگاہ کیا جائے اور جب نماز کا وقت ہوجائے تو انہیں حکم دیا جائے کہ وہ بلاتاخیر نماز اداکریں۔
٭ صغر سنی میں بچہ فطرتی طور پر اپنی تعریف کوپسند کرتا ہے، لہٰذا والدین اس اسلوب کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کی تعریف کرنے میں بخل سے کام نہ لیں بلکہ دوسرے لوگوں کے سامنے اس کے فعل حسن کا تذکرہ کرتے ہوئے انعامات سے نوازیں۔ لیکن یاد رہے کہ اس کی اتنی بھی تعریف نہ کی جائے کہ اس کے دل میں غرور و تکبر پیدا ہونا شروع ہوجائے اور وہ ثواب حقیقی کو نظر انداز کرکے ثواب مادی کو ترجیح دینے لگے۔ جس سے اصل مقصد فوت ہوجائے گا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ اس عمر میں بچوں کو نماز کی طرف راغب کرنے کاایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بچے کو ایسی ڈائری مہیاکی جائے جس پر پانچوں نمازوں کے اَوقات ترتیب کے ساتھ درج ہوتے ہیں۔بچہ جب نماز اداکرے تو پنسل کے ساتھ اسے نشان زدہ کردے اور اگر اس نے نماز چھوڑی ہو تو نشان نہ لگائے اور اگر گھر میں اس عمر کے بچے ایک سے زائد ہوں تو اس کے ذریعے ان میں مسابقے کا رجحان پیداکیا جائے۔ایسی ڈائریاں بازار میں بآسانی دستیاب ہیں۔
٭ والدین کو چاہئے کہ وہ اس عمر میں نماز نہ پڑھنے کی صورت میں بچوں کو مارنے پیٹنے سے گریز کریں، کیونکہ سزا کا حکم دس سال کے بعد ہے۔
٭ بچے کو ترغیب دلائیں کہ وہ مسجد میں اذان اور اقامت کہے اس سے اس کے دل میں مسجد اورنماز کی رغبت پیدا ہوگی اور جب وہ نماز ، اذان یااقامت پڑھے تو اس کے دوستوں کے سامنے اس کی تعریف کی جائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(3)دس سال سے سن بلوغت تک کامرحلہ
اس مرحلے میں بچہ سن تکلیف کو پہنچ جاتاہے اور اس پر نماز فرض ہوجاتی ہے اسے درج ذیل مراحل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
٭ جب بچہ دس سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اگر وہ فرض نماز کو ترک کرے تو اسے لوٹانے کا حکم دیا جائے اور نماز کے ساتھ ساتھ دیگرنوافل بھی ادا کرنے کا کہا جائے۔
٭ بچے کو باجماعت نماز اداکرنے کا حکم دیا جائے اور والد اسے ایسے دروس اور پروگراموں میں لے کر جائے جوذہنی تربیت پرمشتمل ہوں اور علمائے کرام کا تعارف کروائے۔اس عمر میں بچہ تعبدی شعائر کی ادائیگی میں بڑوں کی مرافقت پسند کرتاہے،لہٰذا والد کو چاہئے کہ وہ بچے کی مثبت تعمیر میں اس امر کو خصوصی اہمیت دے۔امام نووی﷫ رقمطراز ہیں:
’’ہمارے علماء نے بیان کیا ہے کہ ولی اس عمر میں بچے کو باجماعت نماز ادا کرنے، مسواک کرنے اور دیگر دینی اعمال بجا لانے کا حکم دے اور زنا، لواطت، شراب، جھوٹ اور غیبت کی حرمت سے آگاہ کرے۔‘‘(کتاب المجموع: ۳؍۱۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ بچے کو ایسی کتب مہیا کی جائیں جن میں نماز کی اہمیت کو اُجاگر کیا گیاہو اس حوالے سے بچے کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا جائے اور بچے کو نماز کی اہمیت بیان کرنے کا موقع دیا جائے۔
٭ اس عمر میں اگر بچہ فرض نماز ترک کردے تو والد کو چاہیے کہ اسے وعظ وتذکیر کرے اور اس حوالے سے اللہ اور اس کے رسول1 کے فرامین سے آگاہ کرے، لیکن اگر وہ بدستور نماز نہ پڑھے تو اسے سرزنش کرے اور اس سے ترک تعلق کرلے۔ اس طرح کی سزائیں بدنی سزاؤں سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پٹائی میں اِعتدال
بچوں کو دس سال کی عمر میں نمازچھوڑنے پرمارنے کامطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ان کی چمڑی اتار دی جائے اور انہیں مار مار کراَدھ موا کردیاجائے بلکہ مار تو مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے اور وہ مقصد ہے نماز۔ اگر یہ بغیر مار کے حاصل ہوجائے تو زیادہ بہتر ہے۔
٭ والدین کو چاہئے کہ جب وہ بچے کو سزا دینا چاہیں تو کسی کے سامنے مارنے سے گریز کریں اور اسے بُرے القابات سے نہ نوازیں۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿یٰاَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوا لَایَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسٰی اَنْ یَّکُونُوْاخَیْرًا مِّنْھُمْ وَلَانِسَائٌ مِنْ نِّسَائٍ عَسٰی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِنْھُنَّ وَلَا تَلْمِزُوْا اَنْفُسَکُمْ وَلَاتَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الفُسُوقُ بَعْدَ الِایْمَانِ وَمَنْ لَمْ یَتُبْ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُونَ﴾ (الحجرات :۱۱)
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو نہ مرد دو سرے مردوں کا مذاق اڑائیں اورنہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القابات سے یاد کرو۔ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری بات ہے ۔جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ بڑے ہی ظالم ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ بچوں کو سزا دیتے وقت ان حدود و قیود کا خیال رہے جوشرع نے مقرر فرمائی ہیں۔ لہٰذا بچے کو مارتے ہوئے چہرے پرنہ مارا جائے۔ فرمان نبویﷺ ہے:
«إِذَا ضَرَبَ أَحَدُکُمْ فَلْیَتَّقِ الوَجْہ» (سنن أبيداؤد:۴۴۹۰)
’’جب تم میں سے کوئی مارے تو چہرے پرمارنے سے گریز کرے۔‘‘
٭ بچے کو ایسی چھڑی سے نہ مارا جائے جو ہڈیاں توڑ دے اور نہ اس قدرنرم و نازک ہو کہ بچوں کو اِحساس بھی نہ ہو، بلکہ چھڑی درمیانی قسم کی ہو، کوہلوں، رانوں اور پاؤں کے نچلے حصے میں مارا جائے، کیونکہ ان جگہوں میں بیماری ، زخم کااندیشہ نہیں ہوتا اور یہ خیال بھی رہے کہ کسی ایک عضو کو مار کا نشانہ نہ بنایا جائے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے بچوں کو نماز کے ساتھ ساتھ دیگر اعمال بھی صحیح طریقے سے بجالانے کی توفیق عطا فرمائے ،تاکہ وہ دنیوی واخروی فوز وفلاح پانے میں کامیاب ہوجائیں۔
٭…٭…٭
 
Top