• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بچوں کو کس طرح نمازی بنایا جائے؟

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پابندی نماز سے ایک مسلمان کی زندگی میں جو اَدبی اور اَخلاقی خوبیاں پیداہوتی ہیں اس حوالے سے رب تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الفَحْشَائِ وَالمُنْکَرِ﴾ (العنکبوت:۴۵)
’’بے شک نماز بُرائی اور بے حیائی کے کاموں سے روکتی ہے۔‘‘
اَدائیگی نماز سے مسلمان کی زندگی ایک نظم کے تحت آجاتی ہے اور اس کے دل میں وقت کی اہمیت کااحساس بھی جاگزیں رہتا ہے۔نماز جہاں بندے کو گناہوں سے پاک کرتی ہے وہاں اسے صحت اور جسمانی طہارت بھی عطا کرتی ہے۔
جہاں تک بچوں کا تعلق ہے تو نماز ان کی زندگی میں ایک اہم اجتماعی اَخلاقی اور تربیتی اہمیت رکھتی ہے۔ اس تناظر میں اسے معمولی اہمیت دے کر نظر انداز کرنا ایک ایسی غلطی ہوگی جس کا بعدمیں اِزالہ مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوگا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو اسے نماز کی تلقین شروع کردینی چاہئے۔ فرمان نبویﷺہے:
«مُرُوْا أوْلَادَکُمْ بِالصَّلَاۃِ وَھُمْ أَبْنَائُ سَبْع سِنِینَ وَاضْرِبُوھُمْ عَلَیہَا وَھُم أَبْنَائُ عَشْرِسِنینَ» (سنن أبي داؤد:۴۹۵)
’’جب تمہاری اولاد سات سال کی عمر کو پہنچ جائے توانہیں نماز کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو (نماز میں کوتاہی کرنے پر) انہیں سزا دو۔‘‘
اسلام نے نماز کاپابند بنانے کے لئے یہ ایک ہلکی سی ٹریننگ اور تربیت رکھی ہے، کیونکہ سات سے دس سال کا درمیانی عرصہ تربیت، پیار و شفقت اور عملی مشق کا متقاضی ہوتاہے اور انہی سالوں میں والدین اپنے بچوں کو ترغیب دلاکر نماز کا پابند بناسکتے ہیں۔یاد رہے کہ بچوں کونماز کا حکم دینا صرف باپوں ہی کی ذمہ داری نہیں،مائیں بھی اس ذمہ داری میں برابر کی شریک ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام شافعی ﷫ کا بیان ہے:
’’باپوں اور ماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولادوں کو ادب سکھلائیں۔ طہارت اور نماز کی تعلیم دیں اور باشعور ہونے کے بعد(کوتاہی کی صورت میں)ان کی پٹائی کریں۔‘‘(شرح السنۃ:۲؍۴۰۷)
بچوں کوکس طرح نماز کا پابند بنایا جائے۔
اس حوالے سے ہم تین طرح کی تقسیم کر سکتے ہیں:
1 سات سال کی عمر سے قبل کادورانیہ۔
2 سات اور دس سال کا درمیانی عرصہ ۔
3 دس سال سے سن بلوغت تک کا مرحلہ۔
قبل اس کے کہ ان مراحل کی وضاحت کی جائے، ہم بچوں کی تربیت کے حوالے سے چند ضروری باتیں والدین کے گوش گزار کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ نصیحت میں اگر حکمت نہ ہو تو فضیحت بن جاتی ہے۔ آدمی اگر ایک کام خو د کرے اور دوسرے کو اس سے منع کرے یا اس انداز سے نصیحت کرے جس سے حقارت ونفرت کا احساس پیدا ہو یا اٹھتے بیٹھتے اس کی رٹ لگائے رکھے تو پھر سننے والے کے دل میں ضد اور بغاوت کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے اور وہ اس نصیحت کو درست جانتے ہوئے بھی اسے ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔ بزرگوں کے مخلص اور بہی خواہ ہونے میں کلام نہیں لیکن ان کی خیرخواہی کونادان کی دوستی بہرحال نہیں ہونا چاہیے۔
٭ بچوں کو نماز کاپابند بنانے کے لئے شوہر اور بیوی کی باہمی ذہنی ہم آہنگی انتہائی ضروری ہے۔ ایسانہ ہو کہ اس حوالے سے دونوں کی رائے آپس میں مختلط ہو۔ایک بچے کو نمازکا حکم دے رہاہو جب کہ دوسرے کا خیال ہو کہ جب بڑا ہوگا تب دیکھا جائے گا۔ اس سے بچہ تذبذب کاشکار ہوکر کوئی فیصلہ نہیں کرپاتا حالانکہ یہ عمر ایسی ہوتی ہے جس میں وہ دوسروں کی تقلید اور اطاعت پسند کرتاہے، لہٰذا ضروری ہے کہ گھر میں تمام اہل خانہ بچے کونماز کی ترغیب دلائیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ والدین کو چاہئے کہ وہ بچے کو بتائیں کہ مسلمان کی زندگی میں نماز خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ اور بچے کی عمر کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب اُسلوب میں وعظ و تذکیر کی جائے۔
٭ بچوںکو نماز کا طریقہ سکھایا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ مؤمن نماز اس لئے ادا کرتاہے تاکہ رضائے الٰہی کے حصول میں کامیاب ہوا جائے، نماز پڑھنے والے کو روز قیامت جنت میں داخلہ ملے گا، نمازاہل ایمان کاشعار اور اَرکان اسلام میں سے ہے۔
٭ والدین کو چاہئے کہ وہ بچوں کے لئے بہترین نمونہ بنیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ نماز کے آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کی پابندی کو لازم پکڑیں۔
٭ والدین اپنے بچوں کے ساتھ گھل مل کر رہیں، ان کو مناسب وقت دیں، ان کے ساتھ کھیل میں شریک ہوں اور ان کی باتوں کو توجہ سے سنیں۔ اس سے بچوں کے لئے انہیں سمجھنا آسان ہوگا اور والدین کے لئے بھی ان سے اپنی بات منوانا چنداںمشکل نہ رہے گا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ کوشش کی جائے کہ بچوں کی صحبت نیک بچوں کے ساتھ ہو، کیونکہ لاشعوری طور پر انسان کے اندر اپنے دوستوں کے خیالات ونظریات تشکیل پاتے ہیں۔
حدیث میں ہے: «الرَّجُلُ عَلَی دِینِ خَلِیلِہِ» (سنن أبي داؤد:۴۸۳۳)
’’انسان اپنے دوست کے دین پرہوتاہے۔‘‘
٭ بچوں کو کسی کام کی ترغیب دلانے کے لئے محبت و شفقت کا مظاہرہ کیاجائے اور اگربچے کوئی اچھا کام کریں تو اس پر ان کی حوصلہ افزائی اور تعریف کرنے میں بخل سے کام نہ لیا جائے اور وقتاً فوقتاً کسی فعل حسن پر ان کو انعامات سے نوازا جائے۔
٭ والدین کو چاہئے کہ بچوں کے لئے کثرت کے ساتھ دعائیں کریں، کیونکہ ان کی دعائیں بچوں کی اصلاح کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ والدین کی اپنے بچوں کے لئے مانگی گئی دعاؤں کوردّ نہیں فرماتے۔
فرمان نبویﷺ: «ثَلَاثُ دَعْوَاتٍ یُسْتَجَابُ لَھُنَّ،لَا شَکَّ فِیھِنَّ:دَعْوَۃُ المَظْلُومِ، وَدَعْوَۃُ المُسَافِرِ،وَدَعْوَۃُ الوَالِدِ لِوَلَدِہِ» (سنن ابن ماجہ:۳۸۶۲)
’’اللہ تعالیٰ تین طرح کی دعا ضرور قبول کرتے ہیں، مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور والدین کی اپنے بچوں کے لئے کی گئی دعا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
لہٰذا والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کی اصلاح کے لئے صراطِ مستقیم اور حفظ و اَمان کی دعائیں کریں۔
فرمان الٰہی ہے:
﴿رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِینَ اِمَامًا﴾ (الفرقان:۷۴)
’’اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بیویوں اوراپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا۔‘‘
والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کے لئے بددعانہ کریں، ایسانہ ہو کہ ان کی بدعا بچوں کے لئے مستقل تباہی و بربادی کاسبب بن جائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(1) پیدائش سے سات سال تک کا دورانیہ
پیدائش سے لے کر سات سال کی عمر تک کے دوران بچہ اپنے والدین اور دیگراہل خانہ کی تقلید کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لہٰذا والدین بچے کو چھوٹا سمجھ کر نظر انداز کرنے کے بجائے اس کے سامنے سنتیں اورنفل نوافل اداکرتے رہیں تاکہ وہ بھی اس طرح کے اعمال سرانجام دینے کی طرف مائل ہو۔
فرمان نبویﷺ ہے:
«اِجْعَلُوا فِی بُیُوتِکُم مِنْ صَلَاتِکُمْ وَلَا تَتِّخُذُوہَا قُبُورَا» (صحیح البخاري:۴۳۲)
’’گھروں میں نمازیں ادا کرو اوراسے قبرستان نہ بناؤ۔‘‘
مزید فرمایا:
«أَفْضَلُ الصَّلَاۃِ صَلَاۃُ المَرْئِ فِی بَیتِہِ إِلَّا المَکْتُوبَةَ» (صحیح البخاري:۷۳۱)
’’آدمی کی افضل نماز گھر میں ہے الاکہ فرض نماز ہو۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ بچوں کی تربیت کو مثبت رخ دینے میں یہ ایک اہم سیڑھی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے والدین خشوع و خضوع کے ساتھ باربار اپنی پیشانی کو جھکا رہے ہیں اور عبادت میں اس قدر مگن ہیں کہ اپنے گردوپیش سے بے نیاز ہوچکے ہیں تووہ خود بخود ایسے اعمال کی طرف راغب ہونے لگتا ہے اور پھر جب وہ سن تمیز کو پہنچتا ہے تو اس کے لئے نماز اداکرناچنداں مشکل نہیں رہ جاتا۔
٭ سن تمیز تک پہنچنے سے پہلے بچے پر وضو کرنے یا مکمل جسم ڈھانپنے کے حوالے سے سختی کامظاہرہ نہ کیا جائے، اسی طرح اپنے ساتھ رکوع و سجود نہ کرنے کی صورت میں اسے زجر و توبیخ کانشانہ نہ بنائیں، کیونکہ ابھی تک وہ غیر مکلف ہے اور اس پربے جا سختی اسے نماز سے متنفر کرنے کا سبب بنے گی۔
٭ جب بچہ کچھ سیکھنے کے قابل ہوجائے تو اسے سورۃالفاتحہ اور اس طرح کی دیگر چھوٹی چھوٹی اور آسان سورتیں یاد کروائیں۔ ساتھ ساتھ رکوع و سجود اور تشہد کی دعائیں بھی سکھانا شروع کردیں اور ناظرہ قرآن اور دیگر ذکر و اذکار یاد کروانے کے لئے مسجد میں بھیجیں۔
٭ جب بچہ سات سال کی عمر کے قریب پہنچے تو پیار و شفقت کے ساتھ اسے نماز کی تلقین کرنا شروع کی جائے اور اس میں نماز کا شوق بیدار کرنے کے لئے ایسی تصاویر کے ذریعے اس کی راہنمائی کی جائے جن میں وضو اورنمازاداکرنے کا طریقہ بتلایا گیاہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(2)سات سے دس سال کا درمیانی عرصہ
٭ جب بچہ سات سال کا ہوجاتا ہے تو اس میں اس قدر استعداد پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ وضو اور نماز جیسے فرائض سرانجام دے سکے۔لہٰذا اسے ظاہری و باطنی طہارت کاطریقہ سکھایا جائے ، پانی کے ساتھ استنجاء کرنے کا حکم دیا جائے اور وضو کا مکمل طریقہ اسے ذہن نشین کرانے کے لئے کئی بار اس کے سامنے وضو کیا جائے اور پھر اسی طرح دہرانے کا حکم دیا جائے۔ غلطی کی صورت میں سختی اور سرزنش نہ کریں بلکہ پیار کے ساتھ اس کی اصلاح کریں اور اگر وہ صحیح وضو کرے تو اسے شاباش دیں اور تعریف کریں۔
علامہ ابن قدامہ﷫ نے نقل کیا ہے کہ
’’بچے کے ولی پر واجب ہے کہ سات سال کی عمر میں اس کو طہارت اور نمازکے مسائل کی تعلیم دے اور نماز ادا کرنے کا حکم دے اور دس سال کی عمر میں( نماز سے کوتاہی پر )اس کی پٹائی کرے۔‘‘ (المغنی: ۲؍۳۵۰)
 
Top