• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تسبیح کی شرعی حیثیت اور شیخ البانی پر اعتراضات!

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
خضر بھائی ابو زید رحمہ اللہ نے کس جگہ مروجہ تسبیح کو بدعت قرار دیا ہے؟ اور اس کی وجہ بھی بیان کر دیں ،میرے علم کے مطابق ان کا یہ موقف بہت زیادہ کم زور ہے، اس کو بدعت کہنا مبالغہ آرائی ہے
بھائی جان پوری کتاب کا دھاگہ اسی وجہ سے لٹکایا ہے کہ تاکہ شیخ کے دلائل پڑھ لیں اگر واقعتا کمزور ہیں تو پھر ان کی پیروی ضروری نہیں ۔ لیکن اس کے لیے دلائل پڑھنے کی مصیبت جھیلنا پڑے گی ۔ بہر صورت تقریبا سو صفحات کی کتاب ہے جس کے آخر میں خلاصۃ التحقیق تقریبا 15صفحات میں ہے ۔ اسی خلاصہ تحقیق سے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں :

أضيف هنا أمرين مهمين:
أولهما: أقول فيه: إن من وقف على تاريخ اتخاذ السبحة, وأنها من شعائر الكفار من البوذيين, والهندوس, والنصارى, وغيرهم وأنها تسربت إلى المسلمين من معابدهم؛ علم أنها من خصوصيات معابد الكفرة, وأن اتخاذ المسلم لها وسيلة للعبادة, بدعة ضلالة, وهذا ظاهر بحمد الله تعالى.
وهذا أهم مَدْرَكٍ لِلْحُكْم على السُّبْحَة بالبدعة, لم أر من تعرض له من المتقدمين سوى الشيخ محمد رشيد رضا - رحمه الله تعالى - فمن بعده من أصحاب دوائر المعارف فمن بعدهم, ولو تبين لهم هذا الوجه لما قرر أحد منهم الجواز, كما هو الجاري في تقريراتهم في الأحكام, التي تحقق مناط المنع فيها: التشبه.
وثانيها: قال الغلاة في اتخاذ السُّبْحَة: ((إن العقد الأنامل إنما يتيسر في الأذكار القليلة من ((المائة)) فَدُوْن, أما أهل الأوراد الكثيرة, والأذكار المتصلة, فلو عدوا بأصابعهم لدخلهم الغلط, واستولى عليهم الشغل بالأصابع, وهذه حكمة اتخاذ السُبحة)) (1).
أقول: ليس في الشرع المطهر أكثر من ((المائة)) في عدد الذكر المقيد بحال, أو زمان, أو مكان
, وما سوى المقيد فهو من الذكر المطلق, والله سبحانه وتعالى يقول: ? يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا ? [الأحزاب / 41]. إلى غيرها من الآيات, كما في: [آل عمران / 41, والأنفال / 45, والأحزاب / 35].
فتوظيف الإِنسان على نفسه ذكراً مقيداً بعدد لم يأمر الله به ولا رسوله - صلى الله عليه وسلم - هو: زيادة على المشروع, ونفس المؤمن لا تشبع من الخير, وكثرة الدعاء والذكر, وهذا الأمر المطلق من فضل الله على عباده في حدود ما شرعه الله من الأدعية والأذكار المطلقة, بلا عدد معين, كل حسب طاقته ووُسعِه, وفَرَاغه, وهذا من تيسير الله على عباده, ورحمته بهم.
وانظر: لَمَّا ألزم الطرقية أنفسهم بأعداد لا دليل على تحديدها؛ وَلَّدَ لَهُمْ هذا الإِحداث بِدَعاً من اتخاذ السُّبَح, وإلزام أنفسهم بها, واتخاذها شعاراً وتعليقها في الأعناق, واعتقادات متنوعة فيها رغباً, ورهباً, والغلو في اتخاذها, حتى ناءت بحملها الأبدان, فَعُلِّقَتْ بالسقوف, والجدران, وَوُقِّفَت الوقوف على العَادِّين بها, وانْقَسَمَ المتعبدون في اتخاذها: نوعاً وكيفيةً, وزماناً ومكاناً, وعدداً, ثم تطورت إلى آلة حديدية مصنعة, إلى آخر ما هنالك مما يأباه الله ورسوله والمؤمنون.
فعلى كل عبد ناصح لنفسه أن يتجرد من الإِحداث في الدين, وأن يقصر نفسه على التأسي بخاتم الأنبياء والمرسلين, وصحابته - رضي الله عنهم - فَدَع السُّبْحَة يا عبد الله, وتَأَسَّ بنبيك محمد - صلى الله عليه وسلم - في عدد الذكر المقيد, ووسيلة العد بالأنامل, وداوم على ذكر الله كثيراً كثيراً دون التقيد بعدد لم يدل عليه الشرع, واحرص على جوامع الذكر

, ۔۔ ( السبحة ص 101 و ما بعدہا )
عربی جاننے والے حضرات عربی پڑھ لیں اور جو نہیں سمجھ سکتے ہیں وہ اس عبارت کا خلاصہ میرے الفاظ میں سن لیں :
پہلی بات :
مروجہ تسبیح کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ یہود و نصاری اور بدھ مت جیسے مذاہب سے آئی ہوئی بدعت ہے جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام ، حتی کہ ایام جاہلیت میں دیگر عرب کے ہاں بھی ذکر نہیں ملتا ۔ لہذا اس کی ممانعت کی یہ بنیادی وجہ ہے کہ اس میں تشبہ بالکفار ہے ۔
دوسری بات :
آلہ تسبیح کے جواز کے قائلین کہتے ہیں کہ انگلیوں کے ذریعے کام اس وقت تک چل سکتا ہے جب عدد تھوڑا ہے مثلا 100 یا اس سے کم ۔ جب زیادہ تعداد میں ذکر شمار کرنا ہو تو لا محالہ تسبیح کی ضرورت پڑھتی ہے ۔
شیخ کہتے ہیں قرآن و سنت میں 100 سے زیادہ عدد اذکار کے لیے مروی ہی نہیں ۔ لہذا خود کو ایسے بڑے عدد کا پابند کرنا جو قرآن و سنت میں مروی ہی نہیں ، پھر اس کے لیے یہودیوں و نصاری کے شعار کو عاریتا لینا یہ کہاں کی عقلمندی ہے ۔۔؟ اللہ کا ذکر کرنے سے کون روکتا ہے ؟ زیادہ سے زیاد اللہ کا ذکر کریں ، ضرور کریں ، لیکن گننے کا اہتمام اسی حد تک کرنا چاہیے جہاں تعداد مسنون ہے ۔
آلہ تسبیح کے بارے میں اس سے پہلے ایک جگہ فرماتے ہیں :

وليس هناك حديث واحد يفيد الإِقرار على عد التسبيح بغير الأنامل, فإن غاية المرفوع أربعة أحاديث:
1 - حديث أبي هريرة أن النبي - صلى الله عليه وسلم - كان يسبح بالحصى وهو موضوع, -2 - وحديث ((نعم المذكر السبحة)) وهو في حكم الموضوع,
3 - وحديث صفية, وقد استنكر النبي - صلى الله عليه وسلم - عملها فقال: ((ما هذا؟)) , ثم دلها على الذكر الجامع،
4 - وحديث سعد بن أبي وقاص، وهو دال على عدم المشروعية, وأن قوله - صلى الله عليه وسلم -: ((ألا أخبرك بما هو أيسر وأفضل؟)) جاءت فيه ((أفعل)) على غير بابها, هذا مع ما في سند الحديثين من مقال.
ولهذا انقرض زمن النبي - صلى الله عليه وسلم - ولا وجود للتسبيح بالحصى أو النوى, فضلاً عن وجود التسبيح بها منظومة في خيط. ( السبحة ص 96 ۔ 97 )

کہتے ہیں آلہ تسبیح کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چار احادیث مروی ہیں جن میں سے دو تو موضوع ( جھوٹی ) ہیں جبکہ دوسری دو کی اسانید میں کلام بھی ہے اور دوسرا آلہ تسبیح کےجواز پر ان کی دلالت بھی واضح نہیں ہے ۔
تھوڑا آگے پھر لکھتے ہیں :

وعلى هذا الهدي العام مضى عصر الصحابة - رضي الله عنهم - ولا يؤثر عن أَحَدٍ منهم حرف واحد يصح عنه بأنه خالف هدي النبي - صلى الله عليه وسلم - فَعَدَّ التسبيح والذكر بالحصى, أو النوى, فضلاً عن اتخاذه في خيط معقود, والمرويات في هذا لا تخلو من مقال كما تقدم.
وفي عصر التابعين, وأخريات عصر الصحابة - رضي الله عنهم - لَمَّا بَدَت في التابعين ظاهرة العد للأذكار بالحصى, أو النوى, منثوراً, أو منظوماً في خيط, ابتدرها الهداة من الصحابة والتابعين بالاستنكار, والإِنكار, فهذا ابن مسعود - رضي الله عنه - يقول لإِخوانه من التابعين: ((لقد أحدثتم بدعة ظلما, أَوْ قَدْ فَضَلْتُم أصحاب محمد - صلى الله عليه وسلم - عِلْماً)) , وابن مسعود - رضي الله عنه - يقطع خيط آخر, وابن مسعود - رضي الله عنه - يضرب آخر برجله لما رآه يَعُدُّ التسبيح بالحصى, ويعلن في الناس كراهيته للعد بالحصى, أ النوى, ويقول: ((أَيُمَنُّ على الله حسناته؟)).
وهكذا دفع - رضي الله عنه - في وجه الغلو, ونَهْى الغلاة؛ ولهذا قال عمرو بن سلمة - رحمه الله تعالى -: ((رأينا عامة أولئك الخلق - أي الذين نهاهم ابن مسعود عن التسبيح بالحصى - يطاعنونا يوم النهروان مع الخوارج)).
وهذا سيد التابعين في زمانه: إبراهيم بن يزيد النخعي المتوفى سنة 96 - رحمه الله تعالى - ينهى بناته عن فتْلِ الخيوط للتسابيح؛ لأَنها وسيلة إلى غير المشروع, وهذا نظير النهي عن بيع العنب لمن يتخذه خمراً, ونظائره كثيرة في تحريم الوسائل المفضية إلى محرم كالبدعة. ( السبحة ص 98۔ 99 )

صحابہ میں سے کسی سے صحیح سند سے ثابت نہیں کہ اس نے آلہ تسبیح کا استعمال کیا ہو ۔
صحابہ کے زمانہ کے اخیر میں اور تابعین کے ابتدائی دور میں بعض لوگوں نےجب اس بدعت کی ابتداء کی تو صحابہ کرام نے ان کو ڈانٹ ڈپٹ جیساکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سےمروی ہے انہوں نے کہا:
تم نے اس بدعت کو ایجاد کرتے ہوئے ظلم کیا ۔ یا تتم سمجھتے ہو کہ تم اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ علم رکھتے ہو ۔
اسی طرح ابراہیم نخعی جلیل القدر تابعین میں سے ہے وہ اپنی بیٹیوں کو تسبیحوں کے لیے دھاگے بنانے سے منع کیا کرتے تھے ۔ تاکہ یہ ایک غیر مشروع کام میں تعاون نہ ہو ۔

اتنا وقت اور فرصت نہیں ورنہ شیخ بکر کی پوری کتاب اس لائق ہے کہ اسے اردو کے قالب میں ڈھالا جائے ۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
عمران / 41, والأنفال / 45, والأحزاب / 35].


مروجہ تسبیح کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ یہود و نصاری اور بدھ مت جیسے مذاہب سے آئی ہوئی بدعت ہے جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام ، حتی کہ ایام جاہلیت میں دیگر عرب کے ہاں بھی ذکر نہیں ملتا ۔ لہذا اس کی ممانعت کی یہ بنیادی وجہ ہے کہ اس میں تشبہ بالکفار ہے ۔

آلہ تسبیح کے بارے میں اس سے پہلے ایک جگہ فرماتے ہیں :

وليس هناك حديث واحد يفيد الإِقرار على عد التسبيح بغير الأنامل, فإن غاية المرفوع أربعة أحاديث:
1 - حديث أبي هريرة أن النبي - صلى الله عليه وسلم - كان يسبح بالحصى وهو موضوع, -2 - وحديث ((نعم المذكر السبحة)) وهو في حكم الموضوع,
3 - وحديث صفية, وقد استنكر النبي - صلى الله عليه وسلم - عملها فقال: ((ما هذا؟)) , ثم دلها على الذكر الجامع،
4 - وحديث سعد بن أبي وقاص، وهو دال على عدم المشروعية, وأن قوله - صلى الله عليه وسلم -: ((ألا أخبرك بما هو أيسر وأفضل؟)) جاءت فيه ((أفعل)) على غير بابها, هذا مع ما في سند الحديثين من مقال.
ولهذا انقرض زمن النبي - صلى الله عليه وسلم - ولا وجود للتسبيح بالحصى أو النوى, فضلاً عن وجود التسبيح بها منظومة في خيط. ( السبحة ص 96 ۔ 97 )

کہتے ہیں آلہ تسبیح کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چار احادیث مروی ہیں جن میں سے دو تو موضوع ( جھوٹی ) ہیں جبکہ دوسری دو کی اسانید میں کلام بھی ہے اور دوسرا آلہ تسبیح کےجواز پر ان کی دلالت بھی واضح نہیں ہے ۔
۔
علامہ ابن تیمیہ نے تسبیح کے سلسلہ میں فرمایا: انگلیوں سے تسبیح شمار کرنا یہ سنت ہے، نیز کھجور کی گٹھلیوں سے اور کنکریوں سے شمار کرنا بہتر ہے، صحابہ کرام اس طرح کرتے تھے، خود آپ صلى الله عليه وسلم نے ام الموٴمنین کو اس طرح کرتے دیکھا اور اس کی تصویب بھی کی ، نیز ابوہریرة سے بھی اسی طرح کا عمل مروی ہے، نیزہ وہ تسبیح جو لڑی میں پروئی جاتی ہے، اس کے سلسلہ میں فرمایا یہ بہتر ہے ، ناپسندیدہ نہیں۔ (مجموع الفتاوی)
علامہ ابن قیم نے فرمایا: انگلیوں سے شمار کرنا تسبیح مشہور سے افضل ہے۔ (الوابل الصیب 143/1) انہوں نے تسبیح کو بدعت نہیں قرار دیا، نیز علامہ شوکانی فرماتے ہیں: حضرت سعد وصفیہ کی احادیث سے گٹھلیوں اور کنکریوں سے شمار کرنا جائز ثابت ہورہا ہے، اسی طرح تسبیح مشہور کے ذریعہ بھی، چوں کہ اس کا کوئی مقابل نہیں ہے اور آپ صلى الله عليه وسلم نے حضرت صفیہ کے عمل پر نکیر بھی نہیں کی۔ (نیل الاوطار366/2)
مشہور عالم عبد الرحمن مبارک پوری نے علامہ شوکانی کی عبارات سے استدلال کرتے ہوئے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ تسبیح مشہور ذکر کرنے کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ، نیز اس سلسلہ میں انہوں نے علامہ سیوطی کے رسالہ المنحة فی السبحة کے حوالے سے کئی نقول پیش کیے، تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں۔ (تحفة الاحوذی 286/8)
ماضی قریب کے مشہور عرب عالم دین علامہ فوزان نے بھی تسبیح کے جواز پر فتوی دیا ہے، وہ رقم طراز ہیں: ویباح استعمال السبحة لیعد بہ الأذکار والتسبیحات من غیر اعتقاد أن فیہا فضیلة خاصة․ (مولفات الفوزان 40/25) تسبیح کا استعمال اذکار وغیرہ کے لیے درست ہے، البتہ اس میں کسی خاص فضیلت کا اعتقاد نہ رکھے۔
تسبیح کے سلسلہ میں مشہور فقیہ علامہ ابن نجیم مصری اور ابن عابدین شامی (متوفی 1252ھ) فرماتے ہیں:
آپ صلى الله عليه وسلم نے کنکریوں اور کھجور کی گٹھلیوں کو دیکھ کر انکار نہیں فرمایا، بلکہ اس سے آپ نے اور افضل کی طرف راہ نمائی کی، اگر یہ چیز نا پسند ہوتی تو آپ صلى الله عليه وسلم ضرور اس کو بیان کردیتے، پھر یہ اور اس جیسی احادیث تسبیح مشہور کے استعمال کو جائز قرار دیتی ہیں اذکار کے شمار کرنے کے لیے۔(البحر الرائق154/4) (رد المحتار54/5) شاملہ
فقہاء ومحدثین کی ان تصریحات اور اکابر امت کے اس عمل کے پیش نظر ہی علامہ جلال الدین سیوطی (متوفی 911ھ) نے لکھا ہے کہ سلف اور خلف میں سے کسی سے بھی تسبیح پر نکیر منقول نہیں ہے، بلکہ اکثر لوگ اسے استعمال کرتے تھے اور کوئی اسے نا پسند نہیں کرتا تھا (الحاوی فی الفتاوی 5/3) باب المنحة) ، اس لیے طحطاوی نے ابن حجر کے حوالے سے لکھا ہے کہ تسبیح کی روایت کھجور کی گٹھلیوں اور کنکریوں سے بہت سے صحابہ سے مروی ہے حتی کہ بعض امہات الموٴمنین سے بھی، بلکہ آپ صلى الله عليه وسلم نے اس کو دیکھ کر اس کی تقریر کی ، کوئی نکیر نہ کی، ذکر کے لیے انگلیوں کا استعمال بہر صورت مستحسن ہے، اگر غلطی سے بچنے کا اندیشہ نہ ہو تو تسبیح کا استعمال اولی ہے۔ (مسوسوعہ فقہیہ 284/11) اس لیے علامہ مناوی نے لکھا ہے کہ جس شخص کا مطلوب ذکر میں حضوری قلب ہو اور زبان کی بھی معیت رہے تو ایسے شخص کے لیے تسبیح کا استعمال مستحب ہے، اگر تسبیح کی رنگت میں اور اس کی دیگر چیزوں میں مشغول رہنے کا اندیشہ ہو تو اس کے لیے تسبیح کا استعمال نا مناسب ہے۔(فیض القدیر 468/4)
ابوداود والی روایت حسن کے درجے کو پہنچتی ہے اور جتنے بھی محدیثین اس حدیث کو اپنی کتاب میں لے کر آئے ہیں تمام کے تمام تسبیح کو جائز خیال کرتے ہیں اور اس روایت کو کم و بیش دس محدیثین نے بیان کیا ہے اور تسبیح کے جائز ہونے کا باب قائم کیا ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
عالَمِ عرب کے مشہور عالِمِ دین ، علامہ ، فقیہ ، فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ آلہ تسبیح کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
السبحۃ یرید بہا السائل الخرز التی تنظّم فی سلک بعدد معیّن یحسب بہ الإنسان ما یقولہ من ذکر وتسبیح واستغفار وغیر ذلک ، وہذہ جائزۃ لا بأس بہا لکن بشروط : أوّلاً : ألّا تحمل الفاعل علی الریاء أی علی مراء اۃ الناس کما یفعلہ بعض الناس الذین یجعلون لہم مسابح تبلغ ألف خرزۃ ، ثمّ یضعونہا قلادۃ فی أعناقہم کأنّما یقولوا للناس : انظروا إلینا نسبّح بمقدار ہذۃ السبحۃ ، أو ما أشبہ ذلک ، الشرط الثانی : ألّا یتّخذہا علی وجہ مماثل لأہل البدع الذین ابتدعوا فی دین اللّٰہ مالم یشرعہ من الأذکار القولیّۃ ، أو الاہتزازات الفعلیّۃ لأنّ (( من تشبّہ بقوم فہو منہم )) ، ومع ذلک فإنّنا نقول : إنّ التسبیح بالأصابع أفضل لأنّ النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أرشد إلی ذلک ، فقال : ((اعقدنّ بالأنامل ، فإنّہن مستنطقات )) ، أی سوف یشہدن یوم القیامۃ بما حصل ، فالأفضل للإنسان أن یسبّح بالأصابع لوجوہ ثلاث : الأوّل أنّ ہذا ہو الذی أرشد إلیہ النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، الثانی أنّہ أقرب إلی حضور القلب لأنّ الإنسان لابدّ أن یستحضر العدد الذی یعقدہ بأصابعہ بخلاف من کان یسبّح بالسبحۃ ، فإنّہ قد یمرّر یدہ علی ہذہ الخرزات وقلبہ ساہ غافل ، الثالث أنّہ أبعد عن الریاء کما أشرنا إلیہ آنفا ۔
''سائل کی مراد اگر وہ موتی ہیں جو ایک لڑی میں معین مقدار میں پروئے جاتے ہیں اور اس لڑی کے ذریعے انسان اپنے ذکر ، تسبیح ، استغفار وغیرہ کو شمار کرتا رہتا ہے تو یہ جائز ہے لیکن درج ذیل شرطوں کے ساتھ : پہلی شرط تو یہ ہے کہ آلہ تسبیح اپنے استعمال کرنے والے کو ریاکاری پر آمادہ نہ کرے جیسا کہ بعض ان لوگوں کا طریقہ ہے جو ہزار ہزار موتیوں والی لڑیاں لے کر ان کو اپنی گردنوں میں ڈال لیتے ہیں ، گویا کہ وہ لوگوں کو یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہماری طرف دیکھو ، ہم اتنی مقدار میں تسبیح کرتے ہیں۔۔۔دوسری شرط یہ ہے کہ آلہ تسبیح استعمال کرنے والا اسے ان اہل بدعت کی مشابہت میں استعمال نہ کرے جنہوں نے اللہ کے دین میں وہ قولی اذکار یا جھومنے والے افعال ایجاد کر لیے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مشروع نہیں کیے کیونکہ نبی اکرمeکا فرمان ہے : (( من تشبّہ بقوم فہو منہم )) کہ جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی ، وہ انہی میں سے ہے۔ (سنن ابی داؤدا: ٤٠٣١،و سندہ، حسنٌ)
اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ انگلیوں کے ساتھ تسبیح کرنا افضل ہے کیونکہ نبی اکرمeنے اسی کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اعقدنّ بالأنامل ، فإنّہنّ مستنطقات )) کہ تم اپنی انگلیوں کے ساتھ تسبیح شمار کیا کرو کیونکہ یہ انگلیاں بلوائی جائیں گی (سنن ابی داؤد : ١٥٠١، وسندہ، حسنٌ)، یعنی روز ِ قیامت یہ ان اذکار کی گواہی دیں گی جو ان کے ذریعے شمار کیے گئے ہوں گے۔چنانچہ انگلیوں کے ساتھ تسبیح کرنا تین وجوہ سے افضل ہوا : ایک تو اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف رہنمائی فرمائی ہے، دوسرے اس لیے کہ یہ حضور ِ قلب کے لیے زیادہ موزوں ہے کیونکہ جس چیز کو انسان اپنی انگلیوں کے ساتھ شمار کرتا ہے ، اس پر اس کا استحضار رہتا ہے جبکہ آلہ تسبیح کے ساتھ اذکار کرنے والا بسا اوقات موتیوں پر اپنے ہاتھ پھیرتا رہتا ہے لیکن اس کا دل غافل ہوتا ہے۔ تیسرے اس لیے کہ اس میں ریاکاری کا خدشہ نہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کر دیا ہے۔''
(فتاوی نور علی الدرب لابن العثیمین ، الاذکار، )
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
آپ صلى الله عليه وسلم نے کنکریوں اور کھجور کی گٹھلیوں کو دیکھ کر انکار نہیں فرمایا، بلکہ اس سے آپ نے اور افضل کی طرف راہ نمائی کی، اگر یہ چیز نا پسند ہوتی تو آپ صلى الله عليه وسلم ضرور اس کو بیان کردیتے، پھر یہ اور اس جیسی احادیث تسبیح مشہور کے استعمال کو جائز قرار دیتی ہیں اذکار کے شمار کرنے کے لیے۔(البحر الرائق154/4) (رد المحتار54/5)
جب نبی کریمﷺ نے بھی بہتر چیز کی طرف راہنمائی فرمائی، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی اس قدر شدت سے کنکریوں پر تسبیح کا ردّ کر رہے ہیں تو کنکریوں اور گٹھلیوں پر تسبیح کا اگر کسی حد تک جواز بھی ہو تب بھی ہمیں مفضول شے کی طرف جانے کی کیا ضرورت ہے؟ جبکہ وہ یہ چیز بہت ساری بدعت کی طرف جانے کا باعث بھی بن رہی ہو۔ کم از کم سد ذریعہ کے طور پر اس سے بچا کیوں نہ جائے؟؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
خضر حیات
بھائی! میں تسبیح صرف دائیں ہاتھ کی انگلیوں پر پڑھتا ہوں، استنجا کرنے کی وجہ سے تسبیح بائیں ہاتھ پر نہیں کرتا۔ کیا میرا یہ فہم درست ہے؟
نیز
میں بائیں ہاتھ پر تسبیح نہ کرنے کی وجہ سے دائیں ہاتھ پر کی گئی تسبیح کی گنتی بائیں ہاتھ پر شمار کرتا ہوں۔ کیا تسبیح کی تعداد گننا بھی یوں درست ہے
؟
عن عبد الله بن عمرو، قال: «رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يعقد التسبيح بيده» ( سنن الترمذي رقم 3486 ) ( صححه الألباني )
عبد الله بن عمرو فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھوں پر تسبیح کر رہے تھے ۔
حدیث میں مطلقا ہاتھوں کا ذکر ہے اس میں دائیں اور بایاں دونوں ہی شامل ہیں ۔ لہذا دونوں ہاتھوں سے تسبیح کرنا جائز ہے ۔
البتہ یہی روایت بعض جگہ پر ’’ بيمينه ‘‘ یعنی صرف دائیں ہاتھ کا ذکر کے ساتھ ہے ۔ ( سنن أبی داؤد رقم 1502، سنن الکبری للبیہقی رقم 3027 ) شیخ البانی نے اس روایت کو بھی صحیح قرار دیا ہے ۔
اس بنیاد پر شیخ البانی رحمہ اللہ اور دیگر علماء کا موقف ہے کہ تسبیح صرف دائیں ہاتھ پر کرنا چاہیے ۔ کیونکہ ترمذی کی روایت عام ( یعنی اس میں مطلقا ’’ ید ‘‘ کا ذکر ) ہے اور ابوداؤد کی روایت اس کو دائیں کے ساتھ خاص کردیتی ہے ۔ شیخ ابن عثیمین ، ابن باز وغیرہ بھی اسی بات کو ترجیح دیتے ہیں ۔
البتہ شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ نے ’’ لا جدید فی أحکام الصلاۃ ( ص 52) ‘‘ کے اندر یہ بات راجح قرار دی ہے کہ دونوں ہاتھوں کے ساتھ تسبیح کرناجائز ہے ۔ اور جس روایت میں ’’ دائیں ہاتھ ‘‘ کی تخصیص ہے وہ روایت شاذ ہے ۔ واللہ اعلم ۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
جب نبی کریمﷺ نے بھی بہتر چیز کی طرف راہنمائی فرمائی، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی اس قدر شدت سے کنکریوں پر تسبیح کا ردّ کر رہے ہیں تو کنکریوں اور گٹھلیوں پر تسبیح کا اگر کسی حد تک جواز بھی ہو تب بھی ہمیں مفضول شے کی طرف جانے کی کیا ضرورت ہے؟ جبکہ وہ یہ چیز بہت ساری بدعت کی طرف جانے کا باعث بھی بن رہی ہو۔ کم از کم سد ذریعہ کے طور پر اس سے بچا کیوں نہ جائے؟؟؟
آپ کی بات بالکل بجا ہے مگر اس کو بدعت کہنا غلط بات ہے، جب کہ اس بارے میں حدیث بھی موجود ہے ، لہذا اسے بدعت کہنے سے اجتناب کیا جائے یہی احوط پہلو ہے واللہ اعلم بالصاب
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔۔
دارالسلام سے چھپی ہوئی سنن اربعہ پر کلی اعتبار کرنا کنویں میں چھلانگ لگانے کے مترادف ہے۔۔۔
بہت سی ضعیف احادیث کو صحیح اور بہت سی صحیح احادیث کو ضعیف بنایا ہوا ہے کچھ تو کمپوزنگ کی غلطیاں ہیں اور کچھ شیخ صاحب رحمہ اللہ کے تراجعات کی وجہ سے ایسا ہے۔۔
مذکورہ حدیث 1500 کو صحیح کہنا بھی میری تحقیق کے مطابق صحیح نہیں واللہ اعلم
کیونکہ سند میں ایک راوی خزیمہ مجہول ہے کہیں سے بھی اسکی توثیق مجھے نہیں ملی بلکہ حافظ ابن حجر نے لا یعرف لکھا ہے۔

باقی شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں تفصیل لکھنے کے بعد خلاصہ لکھا ۔۔۔

وقال الحاكم: صحيح الإسناد، ووافقه الذهبي فأخطأ، لأن خزيمة هذا مجهول،
قال الذهبي نفسه في " الميزان ": خزيمة، لا يعرف، تفرد عنه سعيد بن أبي هلال وكذا قال الحافظ في " التقريب ": إنه لا يعرف، وسعيد بن أبي هلال مع ثقته حكى الساجي عن أحمد أنه اختلط، وكذلك وصفه بالاختلاط يحيى كما في " الفصل " لابن حزم (2 / 95) ،
ولعله مما يؤيد ذلك روايته لهذا الحديث، فإن بعض الرواة الثقات عنه لم يذكروا في إسناده خزيمة فصار الإسناد منقطعا ولذلك لم يذكر الحافظ المزي عائشة بنت سعد في شيوخ ابن أبي هلال فلا يخلوهذا الإسناد من علة الجهالة أو الانقطاع فأنى للحديث الصحة أو الحسن؟ ! .
[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة حدیث 83]
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
اور اسی طرح شیخ مقبل بن ھادی الوادعی اپنی کتاب "أحاديث معلة ظاهرها الصحة ص 148" میں لکھتے ہیں۔
وأخرجه ابن حبان كما في "موارد الظمآن" ص (579) ، والحاكم (ج1ص547) .
فأنت إذا نظرت في سنده وجدتهم رجال الصحيح، ولكن إذا رجعت إلى "تهذيب التهذيب" لم تجد رواية لسعيد بن أبي هلال عن عائشة بنت سعد، فرجعنا إلى "تحفة الأشراف" فإذا يعزوه إلى أبي داود والترمذي والنسائي في "عمل اليوم والليلة" من طريق سعيد بن أبي هلال عن خزيمة عن عائشة عن أبيها، وخزيمة هذا قال الإمام الذهبي في "الميزان": لا يعرف، تفرد عنه سعيد بن أبي هلال، حديثه في التسبيح۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔۔
دارالسلام سے چھپی ہوئی سنن اربعہ پر کلی اعتبار کرنا کنویں میں چھلانگ لگانے کے مترادف ہے۔۔۔
بہت سی ضعیف احادیث کو صحیح اور بہت سی صحیح احادیث کو ضعیف بنایا ہوا ہے کچھ تو کمپوزنگ کی غلطیاں ہیں اور کچھ شیخ صاحب رحمہ اللہ کے تراجعات کی وجہ سے ایسا ہے۔۔
مذکورہ حدیث 1500 کو صحیح کہنا بھی میری تحقیق کے مطابق صحیح نہیں واللہ اعلم
کیونکہ سند میں ایک راوی خزیمہ مجہول ہے کہیں سے بھی اسکی توثیق مجھے نہیں ملی بلکہ حافظ ابن حجر نے لا یعرف لکھا ہے۔

باقی شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں تفصیل لکھنے کے بعد خلاصہ لکھا ۔۔۔

وقال الحاكم: صحيح الإسناد، ووافقه الذهبي فأخطأ، لأن خزيمة هذا مجهول،
قال الذهبي نفسه في " الميزان ": خزيمة، لا يعرف، تفرد عنه سعيد بن أبي هلال وكذا قال الحافظ في " التقريب ": إنه لا يعرف، وسعيد بن أبي هلال مع ثقته حكى الساجي عن أحمد أنه اختلط، وكذلك وصفه بالاختلاط يحيى كما في " الفصل " لابن حزم (2 / 95) ،
ولعله مما يؤيد ذلك روايته لهذا الحديث، فإن بعض الرواة الثقات عنه لم يذكروا في إسناده خزيمة فصار الإسناد منقطعا ولذلك لم يذكر الحافظ المزي عائشة بنت سعد في شيوخ ابن أبي هلال فلا يخلوهذا الإسناد من علة الجهالة أو الانقطاع فأنى للحديث الصحة أو الحسن؟ ! .
[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة حدیث 83]
عالی جناب بہت ساری اسناد اس حدیث کی ایسی بھی ہیں جن میں اس راوی کا نام و نشان نہیں ہے اور علامہ البانی کے علاوہ اس حدیث کو کسی بھی محقق نے ضعیف نہیں کہا اگر یقین نہیں تو تحقیق کر کے دیکھ لو باقی اسناد بھی آپ کو ارسال کرتا ہوں
 
Top