• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تسبیح کی شرعی حیثیت اور شیخ البانی پر اعتراضات!

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
اور اسی طرح شیخ مقبل بن ھادی الوادعی اپنی کتاب "أحاديث معلة ظاهرها الصحة ص 148" میں لکھتے ہیں۔
وأخرجه ابن حبان كما في "موارد الظمآن" ص (579) ، والحاكم (ج1ص547) .
فأنت إذا نظرت في سنده وجدتهم رجال الصحيح، ولكن إذا رجعت إلى "تهذيب التهذيب" لم تجد رواية لسعيد بن أبي هلال عن عائشة بنت سعد، فرجعنا إلى "تحفة الأشراف" فإذا يعزوه إلى أبي داود والترمذي والنسائي في "عمل اليوم والليلة" من طريق سعيد بن أبي هلال عن خزيمة عن عائشة عن أبيها، وخزيمة هذا قال الإمام الذهبي في "الميزان": لا يعرف، تفرد عنه سعيد بن أبي هلال، حديثه في التسبيح۔
عدنان بن عبد الله زُهار رقم طراز ہیں:
أن سعيدا رواه مرة بواسطة عن عائشة، ومرة بدونها والواسطة خزيمة. وهو كثير في طرق الأحاديث وأسانيدها . زيادة على أن سعيدا ثقة معروف كما مر، وأدرك عائشة لا بد. وقد كانت لها شهرة يندر من مثل سعيد أن لا يسمع منها. وهي التي قالوا إن مالكا لم يحدث عن امرأة غيرها. ويؤيد ما ذكرناه أن البزار بوب في "مسنده" على هذا الحديث بقوله :"ومما روى سعيد بن أبي هلال عن عائشة، عن أبيها "، فذكره.
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي هِلالٍ حَدَّثَهُ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهَا، أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ K عَلَى امْرَأَةٍ فِي يَدِهَا نَوًى أَوْ حَصًى تُسَبِّحُ، فَقَالَ: " أَلا أُخْبِرُكِ بِمَا هُوَ أَيْسَرُ عَلَيْكِ مِنْ هَذَا وَأَفْضَلُ؟ سُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي السَّمَاءِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي الأَرْضِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا هُوَ خَالِقٌ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ مِثْلَ ذَلِكَ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ مِثْلَ ذَلِكَ، وَلا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مِثْلَ ذَلِكَ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ مِثْلَ ذَلِكَ
اس سند میں خزیمۃ نام کا کوئی راوی موجود نہیں ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
رواه أبو داود (1334 ح1500) والترمذي (2019 ح3568) و ابن حبَّان في صحيحه (3/118 ح837) والحاكم في مستدركه (1/732) والمقدسي في المختارة (3/210) هذا الإسناد ضعيف لجهالة أحد رواته ؛ و هو خزيمة .لكن رواه البزار من طريق أَصبْغَ بن الفرج – وهو كما قال أبو حاتم؛ أجلُّ أصحاب ابن وهب، وهو ثقة ، رواه بدون خزيمة، بين سعيد بن أبي هلال وعائشة . وتابعه على ذلك هارون بن معروف وهو ثقة ، ويحيى بن حرملة صدوق ، وبهذا يكون الحديث صحيحًا كما جزم به الحاكم في المستدرك ووافقه الذهبي رحمهم الله . تهذيب الكمال (3/306) التقريب (ص569) ، (ص156)
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
رواه أبو داود (1334 ح1500) والترمذي (2019 ح3568) و ابن حبَّان في صحيحه (3/118 ح837) والحاكم في مستدركه (1/732) والمقدسي في المختارة (3/210) هذا الإسناد ضعيف لجهالة أحد رواته ؛ و هو خزيمة .لكن رواه البزار من طريق أَصبْغَ بن الفرج – وهو كما قال أبو حاتم؛ أجلُّ أصحاب ابن وهب، وهو ثقة ، رواه بدون خزيمة، بين سعيد بن أبي هلال وعائشة . وتابعه على ذلك هارون بن معروف وهو ثقة ، ويحيى بن حرملة صدوق ، وبهذا يكون الحديث صحيحًا كما جزم به الحاكم في المستدرك ووافقه الذهبي رحمهم الله . تهذيب الكمال (3/306) التقريب (ص569) ، (ص156)
یہ بات آپ نے کہا سے نقل کی۔۔۔۔؟؟؟


اور بھائی میں نے تحقیق کی ہے اسی وجہ سے بات بھی کی اس حدیث کے حوالے سے چند دن پہلے میں نے ایک بحث تیار کی تھی وہ ابھی استاد جی کے پاس چیک ہونے کیلئے گئی ہے اس لئے تفصیل سے نہیں لکھ سکتا۔۔۔۔

باقی جو بات آپ نے کی کہ بعض اسانید میں خزیمہ کا ذکر تک نہیں۔۔
تو بھائی اگر میری کی گئی پوسٹ کو آپ بغور پڑھتے تو یہ اشکال آپ کے ذہن میں نہ آتا۔۔ امام البانی رحمہ اللہ نے جو لکھا وہ بغور پڑھیں۔۔

فإن بعض الرواة الثقات عنه لم يذكروا في إسناده خزيمة فصار الإسناد منقطعا ولذلك لم يذكر الحافظ المزي عائشة بنت سعد في شيوخ ابن أبي هلال فلا يخلوهذا الإسناد من علة الجهالة أو الانقطاع فأنى للحديث الصحة أو الحسن؟
! .
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
حافظ عمران صاحب آپ نے کافی معلومات مہیا کی ہیں ۔ لیکن شیخ بکر ابو زید نے جو اعتراضات اٹھائیں ان کاجواب کسی میں بھی موجود نہیں ۔ یا یوں کہہ لیں کہ مجھے نظر نہیں آیا ۔
آپ کی بات بالکل بجا ہے مگر اس کو بدعت کہنا غلط بات ہے، جب کہ اس بارے میں حدیث بھی موجود ہے ، لہذا اسے بدعت کہنے سے اجتناب کیا جائے یہی احوط پہلو ہے واللہ اعلم بالصاب
جو لوگ اس کو بدعت کہتے ہیں ان کے نزدیک یہ حدیث درست نہیں ، پایہ ثبوت تک نہیں پہنچتی ۔ ایسی بات نہیں کہ باوجود ثبوت حدیث کے وہ اس عمل کو بدعت کہہ رہے ہیں ۔
شیخ بکر ابو زید کی کتاب سے پیش کردہ پہلے اقتباس کو ایک دفعہ پھر ملاحظہ فرمائیں ۔

انتباہ : میں یہ شراکت لکھ رہا تھا کہ عصر کی نماز کا وقت ہوگیا اور اسی جگہ چھوڑ دیا ابھی کچھ دیر پہلے مسجد نبوی سے واپسی ہوئی تو آکر ’’ جواب دیں ‘‘ کو دبادیا ، بعد میں پتہ چلا کہ وقاص بھائی نے ماشاء اللہ بہترین مواد بھیجا ہوا ہے ۔ جزاکم اللہ خیرا ۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔۔
دارالسلام سے چھپی ہوئی سنن اربعہ پر کلی اعتبار کرنا کنویں میں چھلانگ لگانے کے مترادف ہے۔۔۔
بہت سی ضعیف احادیث کو صحیح اور بہت سی صحیح احادیث کو ضعیف بنایا ہوا ہے کچھ تو کمپوزنگ کی غلطیاں ہیں اور کچھ شیخ صاحب رحمہ اللہ کے تراجعات کی وجہ سے ایسا ہے۔۔
مذکورہ حدیث 1500 کو صحیح کہنا بھی میری تحقیق کے مطابق صحیح نہیں واللہ اعلم
کیونکہ سند میں ایک راوی خزیمہ مجہول ہے کہیں سے بھی اسکی توثیق مجھے نہیں ملی بلکہ حافظ ابن حجر نے لا یعرف لکھا ہے۔

باقی شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں تفصیل لکھنے کے بعد خلاصہ لکھا ۔۔۔

وقال الحاكم: صحيح الإسناد، ووافقه الذهبي فأخطأ، لأن خزيمة هذا مجهول،
قال الذهبي نفسه في " الميزان ": خزيمة، لا يعرف، تفرد عنه سعيد بن أبي هلال وكذا قال الحافظ في " التقريب ": إنه لا يعرف، وسعيد بن أبي هلال مع ثقته حكى الساجي عن أحمد أنه اختلط، وكذلك وصفه بالاختلاط يحيى كما في " الفصل " لابن حزم (2 / 95) ،
ولعله مما يؤيد ذلك روايته لهذا الحديث، فإن بعض الرواة الثقات عنه لم يذكروا في إسناده خزيمة فصار الإسناد منقطعا ولذلك لم يذكر الحافظ المزي عائشة بنت سعد في شيوخ ابن أبي هلال فلا يخلوهذا الإسناد من علة الجهالة أو الانقطاع فأنى للحديث الصحة أو الحسن؟ ! .
[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة حدیث 83]
اور اسی طرح شیخ مقبل بن ھادی الوادعی اپنی کتاب "أحاديث معلة ظاهرها الصحة ص 148" میں لکھتے ہیں۔
وأخرجه ابن حبان كما في "موارد الظمآن" ص (579) ، والحاكم (ج1ص547) .
فأنت إذا نظرت في سنده وجدتهم رجال الصحيح، ولكن إذا رجعت إلى "تهذيب التهذيب" لم تجد رواية لسعيد بن أبي هلال عن عائشة بنت سعد، فرجعنا إلى "تحفة الأشراف" فإذا يعزوه إلى أبي داود والترمذي والنسائي في "عمل اليوم والليلة" من طريق سعيد بن أبي هلال عن خزيمة عن عائشة عن أبيها، وخزيمة هذا قال الإمام الذهبي في "الميزان": لا يعرف، تفرد عنه سعيد بن أبي هلال، حديثه في التسبيح۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
برائے مہربانی ان کا ترجمہ اردو میں کر دیں۔اللہ آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔
 

محمد شاہد

سینئر رکن
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
2,510
ری ایکشن اسکور
6,023
پوائنٹ
447

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
جب نبی کریمﷺ نے بھی بہتر چیز کی طرف راہنمائی فرمائی، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی اس قدر شدت سے کنکریوں پر تسبیح کا ردّ کر رہے ہیں تو کنکریوں اور گٹھلیوں پر تسبیح کا اگر کسی حد تک جواز بھی ہو تب بھی ہمیں مفضول شے کی طرف جانے کی کیا ضرورت ہے؟ جبکہ وہ یہ چیز بہت ساری بدعت کی طرف جانے کا باعث بھی بن رہی ہو۔ کم از کم سد ذریعہ کے طور پر اس سے بچا کیوں نہ جائے؟؟؟
جس بہتر چیز کی طرف نبی کریم نے رہنمائی کی ہے، وہ کلمات ہیں نہ کہ تسبیح مروج
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
یہ بات آپ نے کہا سے نقل کی۔۔۔۔؟؟؟


اور بھائی میں نے تحقیق کی ہے اسی وجہ سے بات بھی کی اس حدیث کے حوالے سے چند دن پہلے میں نے ایک بحث تیار کی تھی وہ ابھی استاد جی کے پاس چیک ہونے کیلئے گئی ہے اس لئے تفصیل سے نہیں لکھ سکتا۔۔۔۔

باقی جو بات آپ نے کی کہ بعض اسانید میں خزیمہ کا ذکر تک نہیں۔۔
تو بھائی اگر میری کی گئی پوسٹ کو آپ بغور پڑھتے تو یہ اشکال آپ کے ذہن میں نہ آتا۔۔ امام البانی رحمہ اللہ نے جو لکھا وہ بغور پڑھیں۔۔
میرا خیال ہے آپ جناب نے اس امام بزار کی اس صراحت پر غور ہی نہیں کیا کہ جس میں انھوں یہ بات واضح کر دی ہے،عدنان بن عبد الله زُهار رقم طراز ہیں:
أن سعيدا رواه مرة بواسطة عن عائشة، ومرة بدونها والواسطة خزيمة. وهو كثير في طرق الأحاديث وأسانيدها . زيادة على أن سعيدا ثقة معروف كما مر، وأدرك عائشة لا بد. وقد كانت لها شهرة يندر من مثل سعيد أن لا يسمع منها. وهي التي قالوا إن مالكا لم يحدث عن امرأة غيرها. ويؤيد ما ذكرناه أن البزار بوب في "مسنده" على هذا الحديث بقوله :"ومما روى سعيد بن أبي هلال عن عائشة، عن أبيها "، فذكره.
آپ نے عائشۃ بنت سعد اور سعید کے سماع کی تردید کی ہے ،حالاں کہ دونوں مدینے کے باسی ہیں اور دونوں کا زمانہ بھی ایک ہی ہے ،آپ نے مزی اور علامہ البانی کی بات پیش کی ہے ،لیکن میں نے امام بزار کی بات کو سامنے رکھا ہے جو کہ ایک بہت بڑے محدث ہیں اور انھوں نے اس پر باقاعدہ باب قائم کیا ہے:بوب في "مسنده" على هذا الحديث بقوله :"ومما روى سعيد بن أبي هلال عن عائشة،
! .
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
یہ بات آپ نے کہا سے نقل کی۔۔۔۔؟؟؟


اور بھائی میں نے تحقیق کی ہے اسی وجہ سے بات بھی کی اس حدیث کے حوالے سے چند دن پہلے میں نے ایک بحث تیار کی تھی وہ ابھی استاد جی کے پاس چیک ہونے کیلئے گئی ہے اس لئے تفصیل سے نہیں لکھ سکتا۔۔۔۔باقی جو بات آپ نے کی کہ بعض اسانید میں خزیمہ کا ذکر تک نہیں۔۔
تو بھائی اگر میری کی گئی پوسٹ کو آپ بغور پڑھتے تو یہ اشکال آپ کے ذہن میں نہ آتا۔۔ امام البانی رحمہ اللہ نے جو لکھا وہ بغور پڑھیں! .
وصول التهاني بإثبات سنية السبحة والرد على الالباني اس کتاب میں محمودسعيد ممدوح علامہ البانی کے موقف کی کمزوری کو واضح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
اعترض معترض لا علم له بالحديث على طريق سعيد بن أبي هلال عنعائشة بنت سعد الذي لا يوجد فيه خزيمة ، بأن خزيمة سقط منه ، وأنسعيد بن أبي هلال لا يروي عن عائشة بدليل أن الحافظ في التهذيب لميذكره في الرواة عن عائشة . وجواب الاعتراض الاول : أن هذه دعوى كبيرة بدون دليل ، فعليه بالدليل وهيهات . وأن السنة فيها الكثيرمن أمثال هذه الرواية بنزول ثم بعلو ، فيكون سعيد بن أبي هلال كانيرويه عن خزيمة عن عائشة مرة ، ومرة أخرى عن عائشة بدون واسطة ،وما دام الراوي ثقة ، وأدرك عائشة إدراكا واضحا بينا ، وكانت مشهورة بالرواية ، بحيث إنهم ذكروا في ترجمتها أن مالكا رضي اللهتعالى عنه لم يرو عن امرأة غيرها ، تبين لك شهرتها واتساع روايتهافرواية سعيد الثقة المكثر عنها واردة لا يردها إلا مكابر . ولهذاصحح هذا الطريق جماعة من الحفاظ منهم الذهبي ، وقبله ابن حبان
والحاكم في صحيحيهما . فالسند متصل إن شاء الله تعالى على مذهب منيشترط اللقاء ومن لم يشترطه .

کتنے ہی علما نے البانی صاحب کی اس بارے میں تردید کی ہے،اور امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم جیسے اجل علما نے دانوں والی تسبیح کے بدعت ہونے کی تردید کی ہے
 
Top