- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
تعلیم حدیث : منہج اور وسائل
دور نبوی میں تعلیم حدیث کا منہج :
٭… عرب امی قوم تھے اور پڑھنے لکھنے سے ناآشنا۔ رسول اللہ ﷺ بحیثیت معلم، اُمت کی تربیت کے لئے چار کورسز متعارف کرائے۔
تلاوت آیات:
افراد امت پرتلاوت آیات ہو۔ کہ کلام اللہ کی تلاوت کیسے کی جائے تاکہ اس کا حق ادا ہو۔
تزکیۂ فرد:
اپنے طریقے سے ان کاتزکیۂ نفس کریں۔باطنی طہارت یعنی بغض وحسد اور نفاق سے پاک کردیں۔
تعلیم کتاب:
تعلیم کتاب بھی ان کو آپ ﷺ ہی دیں۔معلم بن کر کتاب اللہ سکھا دیں۔
تعلیم حکمت :
اور تعلیم حکمت بھی۔حکیم ودانا بن کر اپنی دانائی وحکمت کی باتیں لوگوں کو سکھا دیں۔
یوں بہترین استاد اور بہترین منہج نے اعلی اخلاق اوربہترین کردار کی علمی شخضیات معاشرے کو دینا شروع کردیں۔
٭…آغاز :
اس کورس کا آغاز غار حراء میں نزول وحی کے لفظ اقرأ سے ہوا۔آپ ﷺ نے غار حراء چھوڑدی۔ کیونکہ اس وحی کا شعار تعلیم وتعلم تھا جو غاروں، کھوہوں یا خوبصورت ہالوں کے مراقبہ میں بیٹھ کر حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس مشن کے احیاء اور اس کی تکمیل کے لئے ایسی سرگرمی چاہئے تھی جو پلٹ کر کبھی غار میں نہ جانے دیتی یا کسی قسم کی گوشہ نشینی اختیار نہ کرنے دیتی۔
٭…قصۂ ابتداء وحی میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے یہ بھی باور کرادیا کہ اب علم وجہالت کے مابین معرکہ شروع ہوگا۔ پہلی وحی میں قراء ت، تعلیم وتعلم اور قلم وقرطاس کی نصیحت تھی اس لئے آپ ﷺ نے امی قوم میں اسے پھیلانے کا بیڑہ اٹھایا اور سکھانے اور پڑھانے کا کام شروع کردیا۔امت کو جاہل رکھنا یا اپنے اردگرد جاہلوں کو اکٹھا کرنا آپﷺ کا منشور نہیں تھا۔تیئس سالہ نبوی جدوجہد نے یہ بھی ثابت کردیا کہ آپ ﷺ کا اپنایا ہوا طریقہ ومنہج دینی، دنیاوی اور سیاسی اعتبار سے انتہائی کامیاب رہا۔یہی طریقہ ٔنبوی ہی اصلاح احوال کا میزان ہے اور شریعت ِالٰہیہ کا مصدر ِاصلی بھی۔
٭…مکہ مکرمہ میں باوجود جاہلی مخالفت کے آپ ﷺ ایک چلتا پھرتا متحرک ادارہ بن گئے۔دار ارقم مثالی درس گاہ بن گیا۔ اور مجالسِ حرم، زائرین ِ حرم سے ملاقاتوں کا ذریعہ بن گئیں۔ سالانہ میلے بھی جزیرۃ العرب میں آواز حق پہنچانے میں معاون ثابت ہوئے۔موسم حج نے آپ ﷺ کاشہرہ اور سچا پیغام بھی آفاق میں پہنچا دیا۔ ہر مقام پر تعلیم وتعلم اور ابلاغ کی بات شروع ہوگئی۔ ضمیر جھنجھوڑے، سوچ بدلی اورصحیح علم کے حصول کا جذبہ روحوں میں تازہ کر دیا۔اپنے رب کی وحدانیت ویکتائی کو تسلیم کرایا اور مخلوق کی مختلف بے بس خدائی شکلوں اور بے اختیاری کو بھی منوایا۔
٭… کچھ طلبہ جب اس علم سے مالا مال ہوئے تو آپ ﷺ نے انہیں تعلیم دینے کے لئے نہ صرف مقرر کیا بلکہ انہیں دوسرے علاقوں میں بھیجا۔خباب بن الأرت رضی اللہ عنہ، سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ کو قراء ت قرآن سکھانے پر مامور ہوئے۔ مصعب بن عمیر تعلیم دین ۔۔قرآن وحدیث۔۔کے لئے بطور خاص یثرب بھیجے گئے۔ اس علمی اور تعلیمی تحریک نے چھوٹے بڑے کو شعور ِحیات بخشا ا ور مقصد ِحیات بھی۔ جس سے انتخاب اور عمل میں خود بخود نکھار آگیا۔ آپﷺ سے یہ بھی فرمایا گیا : دعاکیا کیجئے:{ رَبِّ زِدْنِی عِلْمًا}۔ میرے مولی! میرا علم بڑھا۔
٭…مدینہ منورہ آپ ﷺ کی آمد کے بعد مرکز علمی کی حیثیت اختیار کرگیا۔انصار نے مہاجرین کے دوش بدوش اپنے علمی سفر کو طے کرنا شروع کیا۔مدینہ آتے ہی زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا: یہود کی زبان سیکھو۔مسجد ِ نبوی تعلیم حدیث کا ایک ممتاز مرکز بن گئی۔ آپ ﷺ کے وقتاً فوقتاً دئے گئے لیکچرز وخطبات، قرآنی آیات کی وضاحت، سوالوں کے جواب، معاشی، معاشرتی اور سیاسی صورت حال کی اصلاح پر آپ ﷺ کے ارشادات انہی محافل کی رونق تھے۔وفود آتے، دیہاتی وشہری ملتے، مسافر و قیدی آتے اور علم کے موتی سمیٹ جاتے۔بدویوں کا اکھڑ انداز ِ سوال اور جواباً آپ ﷺ کی حلیم وبردبار طبیعت ان کے دلوں کو موہ لیتی جس سے وہ مطمئن ہوکر آپ ﷺ کی اطاعت کی ٹھان لیتے۔
٭…اپنی نگرانی میں صفہ ہوسٹل بھی بنایا جس میں نئے طلبہ کا قیام ہوتا اور طعام کا انتظام بھی۔ان کی اخلاقی ودینی تربیت میں جناب رسالت مآب ﷺ جہاں بنیادی کام کررہے تھے وہاں آپ ﷺ کے تربیت یافتہ سینئر طلبہ بھی نئے آنے والوں کو مرحبا کہتے، ان کی بہتر تربیت میں رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ بٹاتے، ان سے مذاکرہ کرتے اور چھوٹے بڑے عمل کی نگرانی کرتے اور اصلاح بھی کرتے جاتے۔
٭… اس عرصہ میں آپ ﷺ نے وحی وخطوط کی کتابت کے لئے چالیس سے زائد کاتب بھی منتخب کر لئے۔
٭… علم سیکھنے اور سکھانے پر آپ ﷺ نے صحابہ کرام کوابھارا۔ اس کاوش میں نکھار کے لئے جبریلؑ امین بھی انسانی صورت میں تشریف لائے اورآدابِ مجلس ِعلم، اس کاانعقاد، صحیح علم اور اس کا صحیح استاد سے حصول جیسے طریقے سکھاگئے۔اس طرح تیئس سال کے عرصہ میں سرزمین حجاز میں جہالت کی جگہ روشنی نے لے لی ۔آپ ﷺ نے علم وعلماء کے شرف اور بلند مرتبے سے آگاہ فرمایا۔طلبہ کے اجر ِ عظیم پر ابھارا اور ان کا خیال رکھنے اوران سے بھلائی کرنے کی تاکید فرمائی۔
٭…آپ ﷺ کے طریقۂ تعلیم میں تدریجی پہلو بھی غالب رہا تاکہ اکتا ہٹ ہو نہ جلد از جلدسیکھنے کی ہوس ۔اثنائے تعلیم عموماً ہمدردی وشفقت کے جذبات ، ناگزیر حالات میں بھی آپ ﷺ پر حاوی رہے۔
٭… آپ ﷺ نے علم سکھانے کے متنوع انداز اپنائے ۔ اسلوب بدلا، نت نئے موضوعات چھیڑے ۔ عمل کیا اور کرکے دکھایا۔ طلابِ علم کے مختلف رجحانات اور ذوق کا بھرپور اندازہ لگایا اور ان کا پورا خیال کیا۔ تعلیم وتعلم میں تیسیر وتحقیق کا میدان بھی کھلا چھوڑا اور شدت وسختی سے گریز کیا۔طلبہ کی سرپرستی کی۔ تعلیمِ سنت کوہر ایک کے لئے لازمی کردیا۔
٭… قرآن کریم میں بنیادی تعلیم ، عقیدہ ٔتوحید اپنانے اور اسوہ ٔرسول کی اطاعت کرنے کی ہے۔شرک اور خرافات کی نفی اورآباء واکابرکی اندھی عقیدت ومحبت کا ا نکارہے۔ اخلاقِ فاضلہ سے مزین باعمل اورباکردار شخصیت کا احیاء ہے۔ جس کا بہترین نمونہ رسول معظم ﷺ کی ذات ہے۔صحابہ کرام نے صدق دل سے ایمان بالرسالہ کا اقرار کرکے مدرسۂ رسول میں آکر اور قیام کرکے دنیا وآخرت کی سعادتیں سمیٹیں اور خود کو اس رنگ میں رنگنے کی بھر پور کوشش کی جو شاید ہی ان کے بعد کسی کو نصیب ہوئی ہو۔علم سیکھنے کی نصیحت اور اس کے ابلاغ پر ان الفاظ میں مزید زور…ولَوْ آیَۃٌ اور… فَلْیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ نیز نَضَّرَ اللّٰہُ امْرَأً سَمِعَ، جیسی دعائیں ، یہ سب اسی منہج کو پختہ تر کرنے کی فکر وتلقین ہے۔