• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
لِّيَجْزِيَ اللَّـهُ الصَّادِقِينَ بِصِدْقِهِمْ وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ إِن شَاءَ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ غَفُورً‌ا رَّ‌حِيمًا ﴿٢٤﴾
تاکہ اللہ تعالٰی سچوں کو ان کی سچائی کا بدلہ دے اور اگر چاہے تو منافقوں کو سزا دے یا ان کی توبہ قبول فرمائے (١) اللہ تعالٰی بڑا ہی بخشنے والا بہت ہی مہربان ہے۔
٢٤۔١ یعنی انہیں قبول اسلام کی توفیق دے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَرَ‌دَّ اللَّـهُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرً‌ا ۚ وَكَفَى اللَّـهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ قَوِيًّا عَزِيزًا ﴿٢٥﴾
اور اللہ تعالٰی نے کافروں کو غصے بھرے ہوئے ہی (نامراد) لوٹا دیا انہوں نے کوئی فائدہ نہیں پایا (١) اور اس جنگ میں اللہ تعالٰی خود ہی مومنوں کو کافی ہوگیا (٢) اللہ تعالٰی بڑی قوتوں والا اور غالب ہے۔
٢٥۔١ یعنی مشرک جو مختلف طرفوں سے جمع ہو کر آئے تھے تاکہ مسلمانوں کا نشان مٹا دیں۔ اللہ نے انہیں اپنے غیظ و غضب سمیت واپس لوٹا دیا۔ نہ دنیا کا مال متاع ان کے ہاتھ لگا اور نہ آخرت میں ہی اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے، کسی بھی قسم کی خیر انہیں حاصل نہیں ہوئی۔
٢٥۔٢ یعنی مسلمانوں کو ان سے لڑنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی، بلکہ اللہ تعالٰی نے ہوا اور فرشتوں کے ذریعے سے اپنے مومن بندوں کی مدد کا سامان بہم پہنچا دیا۔ اسلئے نبی نے فرمایا (لَا اِلَہَ اَلَّا للّٰہُ وَحْدَہُ، صَدَقَ وَعْدَۃُ، نَصَرَ عَبْدَہُ، وَ اَعَزَّ جُنْدَہُ، وَحَزَمَ الاَّحْزَابَ وَحْدَہَ، فَلَا شَیْءٍ بَعْدَ ہُ) (صحیح بخاری)
' ' ایک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی، اپنے لشکر کو سرخرو کیا، اور تمام گروہوں کو اکیلے اس نے ہی شکست دے دی، اس کے بعد کوئی شئ نہیں ' یہ دعا حج عمرہ، جہاد اور سفر سے واپسی پر پڑھنی چاہئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَأَنزَلَ الَّذِينَ ظَاهَرُ‌وهُم مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن صَيَاصِيهِمْ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّ‌عْبَ فَرِ‌يقًا تَقْتُلُونَ وَتَأْسِرُ‌ونَ فَرِ‌يقًا ﴿٢٦﴾
اور جن اہل کتاب نے ان سے سازباز کر لی تھی انہیں (بھی) اللہ تعالٰی نے ان کے قلعوں سے نکال دیا اور ان کے دلوں میں (بھی) رعب بھر دیا کہ تم ان کے ایک گروہ کو قتل کر رہے ہو اور ایک گروہ کو قیدی بنا رہے ہو۔
وَأَوْرَ‌ثَكُمْ أَرْ‌ضَهُمْ وَدِيَارَ‌هُمْ وَأَمْوَالَهُمْ وَأَرْ‌ضًا لَّمْ تَطَئُوهَا ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرً‌ا ﴿٢٧﴾
اور اس نے تمہیں ان کی زمینوں کا اور ان کے گھروں کا اور ان کے مال کا وارث کر دیا (١) اور اس زمین کا بھی جس کو تمہارے قدموں نے روندا نہیں (٢) اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے۔
٢٧۔١ اس میں غزہ بنی قریظہ کا ذکر ہے جیسے کہ پہلے گزرا کہ اس قبیلے نے نقص عہد کر کے جنگ احزاب میں مشرکوں اور دوسرے یہودیوں کا ساتھ دیا۔ چنانچہ جنگ احزاب سے واپس آکر رسول اللہ ابھی غسل ہی فرما سکے تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آگئے اور کہا کہ آپ نے ہتھیار رکھ دیئے؟ ہم فرشتوں نے تو نہیں رکھے ہیں چلئے، اب بنو قریظہ کے ساتھ نمٹنا ہے، مجھے اللہ نے اس لئے آپ کی طرف بھیجا ہے۔ چنانچہ آپ نے مسلمانوں میں اعلان فرما دیا بلکہ ان کو تاکید کردی کہ عصر کی نماز وہاں جاکر پڑھنی ہے۔ ان کی آبادی مدینے سے چند میل کے فاصلے پر تھی۔ یہ اپنے قلعوں میں بند ہوگئے، باہر سے مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کرلیا جو کم و بیش پچیس روز جاری رہا۔ بالآخر انہوں نے سعد بن معاذ کو اپنا (ثالث) تسلیم کر لیا کہ وہ فیصلہ ہماری بات پر دیں گے، ہمیں منظور ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ ان میں سے لڑنے والے لوگوں کو قتل کردو اور بچوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کا مال مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے، نبی نے یہ فیصلہ سن کر فرمایا کہ یہی فیصلہ آسمانوں کے اوپر اللہ تعالٰی کا بھی ہے، اس کے مطابق ان کے جنگجو افراد کی گردنیں اڑا دی گئیں اور مدینے کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کر دیا گیا (صحیح بخاری) دیکھئے صحیح بخاری باب غزوہ خندق انزل قلعوں سے نیچے اتار دیا، ظاہروھم کافروں کی انہوں نے مدد کی
٢٧۔۲بعض نے اس سے خیبر کی زمین مراد لی ہے کیونکہ اس کے بعد ہی ٦ ہجری میں صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں نے خیبر فتح کیا ہے بعض نے کہا کہ مکہ ہے اور بعض نے ارض فارس و روم کو اس کا مصداق قرار دیا ہے اور بعض کے نزدیک تمام وہ زمینیں ہیں جو قیامت تک مسلمان فتح کریں گے۔(فتح القدیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِ‌دْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّ‌حْكُنَّ سَرَ‌احًا جَمِيلًا ﴿٢٨﴾
اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگانی دنیا اور زینت دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں۔
وَإِن كُنتُنَّ تُرِ‌دْنَ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ وَالدَّارَ‌ الْآخِرَ‌ةَ فَإِنَّ اللَّـهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنكُنَّ أَجْرً‌ا عَظِيمًا ﴿٢٩﴾
اور اگر تمہاری مراد اللہ اور اس کا رسول اور آخرت کا گھر ہے تو (یقین مانو کہ) تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کے لئے اللہ تعالٰی نے بہت زبردست اجر رکھ چھوڑے ہیں (١)
٢٩۔١ فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی حالت پہلے کی نسبت کچھ بہتر ہوگئی تو انصار اور مہاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر ازواج مطہرات نے بھی نان نَفَقَہ میں اضافے کا مطالبہ کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ نہایت سادگی پسند تھے، اس لئے ازواج مطہرات کے اس مطالبے پر سخت کبیدہ خاطر ہوئے اور بیویوں سے علیحدگی اختیار کرلی جو ایک مہینہ جاری رہی بالآخر اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرما دی۔ اس کے بعد سب سے پہلے آپ نے حضرت عائشہ کو یہ آیت سنا کر انہیں اختیار دیا تاہم انہیں کہا کہ اپنے طور پر فیصلہ کرنے کی بجائے اپنے والدین سے مشورے کے بعد کوئی اقدام کرنا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں آپ کے بارے میں مشورہ کروں؟ بلکہ میں اللہ اور رسول کو پسند کرتی ہوں یہی بات دیگر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے بھی کہی اور کسی نے بھی آپ کو چھوڑ کر دنیا کے عیش وآرام کو ترجیح نہیں دی۔ اس وقت رسول اللہ کے حبالہ عقد میں ٩ بیویاں تھیں، پانچ قریش میں سے تھیں۔ حضرت عائشہ، حفصہ، ام حبیبہ، سودہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہن اور چار ان کے علاوہ، یعنی حضرت صفیہ، زینب اور جویریہ تھیں۔ بعض لوگ مرد کی طرف سے اختیار علیحدگی کو طلاق قرار دیتے ہیں، لیکن یہ بات صحیح نہیں، صحیح بات یہ ہے کہ اختیار علیحدگی کے بعد اگر عورت علیحدگی کو پسند کر لے، پھر تو یقینا طلاق ہو جائے گی (اور یہ طلاق بھی رجعی ہوگی نہ کہ بائنہ، جیسا کہ بعض علماء کا مسلک ہے) تاہم اگر عورت علیحدگی نہیں کرتی تو پھر طلاق نہیں ہوگی، جیسے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے علیحدگی کی بجائے حرم رسول میں ہی رہنا پسند کیا تو اس اختیار کو طلاق شمار نہیں کیا گیا (صحیح بخاری)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَن يَأْتِ مِنكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ يَسِيرً‌ا ﴿٣٠﴾
اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو بھی کھلی بےحیائی (کا ارتکاب) کرے گی اسے دوہرا دوہرا عذاب دیا جائے گا (١) اور اللہ تعالٰی کے نزدیک یہ بہت ہی سہل (سی بات) ہے۔
٣٠۔١ قرآن میں الفَاحِشَۃُ(مُعَرَّف بلام) کو زنا کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے لیکن فَاحِشَۃ (نکرہ) کو برائی کے لئے، جیسے یہاں ہے۔ یہاں اس کے معنی بد اخلاقی اور نامناسب رویے کے ہیں۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بد اخلاقی اور نامناسب رویہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء پہنچانا ہے جس کا ارتکاب کفر ہے۔ علاوہ ازیں ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن خود بھی مقام بلند کی حامل تھیں اور بلند مرتبہ لوگوں کی معمولی غلطیاں بڑی شمار ہوتی ہیں، اس لئے انہیں دوگنے عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پارہ 22
وَمَن يَقْنُتْ مِنكُنَّ لِلَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَا أَجْرَ‌هَا مَرَّ‌تَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِ‌زْقًا كَرِ‌يمًا ﴿٣١﴾
اور تم میں سے جو کوئی اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گی اور نیک کام کرے گی ہم اسے اجر (بھی) دوہرا دیں گے (١) اور اس کے لئے ہم نے بہترین روزی تیار کر رکھی ہے۔
٣١۔١ یعنی جس طرح گناہ کا وبال دگنا ہوگا، نیکیوں کا اجر بھی دوہرا ہوگا جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالٰی نے فرمایا (اِذًا لَّاَذَقْنٰكَ ضِعْفَ الْحَيٰوةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ) 17۔ الاسراء:75) ' پھر تو ہم بھی آپ کو دوہرا عذاب دنیا کا کرتے اور دوہرا ہی موت کا '
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَ‌ضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُ‌وفًا ﴿٣٢﴾
اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو (١) اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے (٢) اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو۔
٣٢۔١ یعنی تمہاری حیثیت اور مرتبہ عام عورتوں کا سا نہیں ہے۔ بلکہ اللہ نے تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت کا جو شرف عطا فرمایا ہے، اس کی وجہ سے تمہیں ایک امتیازی مقام حاصل ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تمہیں بھی امت کے لئے ایک نمونہ بننا چاہیے چنانچہ انہیں ان کے مقام و مرتبے سے آگاہ کرکے انہیں کچھ ہدایت دی جا رہی ہے۔ اس کی مخاطب اگرچہ ازواج مطہرات ہیں جنہیں امہات المومنین قرار دیا گیا ہے لیکن انداز بیان سے صاف واضح ہے کہ مقصد پوری امت مسلمہ کی عورتوں کو سمجھانا اور متنبہ کرنا ہے اس لیے یہ ہدایات تمام مسلمان عورتوں کے لیے ہیں۔
٣٢۔٢ اللہ تعالٰی نے جس طرح عورت کے وجود کے اندر مرد کے لئے جنسی کشش رکھی ہے (جس کی حفاظت کے لئے بھی خصو سی ہدایت دی گئی ہے تاکہ عورت مرد کے لئے فتنے کا باعث نہ بنے اسی طرح اللہ تعالٰی نے عورتوں کی آواز میں بھی فطری طور پر دلکشی، نرمی اور نزاکت رکھی ہے جو مرد کو اپنی طرف کھینچتی ہے، بنا بریں اس آواز کے لئے بھی یہ ہدایت دی گئی ہے کہ مردوں سے گفتگو کرتے وقت قصداً ایسا لب و لہجہ اختیار کرو کہ نرمی اور لطافت کی جگہ قدرے سختی اور روکھا پن ہو، تاکہ کوئی بد ظن لہجے کی نرمی سے تمہاری طرف مائل نہ ہو اور اس کے دل میں برا خیال پیدا نہ ہو۔
٣٢۔٣ یعنی روکھا پن، صرف لہجے کی حد ہی ہو، زبان سے ایسا لفظ نہ نکالنا جو معروف قائدے اور اخلاق کے منافی ہو۔ اِنِ اتقیتن کہہ کر اشارہ کر دیا کہ یہ بات اور دیگر ہدایات جو آگے آرہی ہیں متقی عورتوں کے لئے ہیں، کیونکہ انہیں ہی یہ فکر ہوتی ہے کہ ان کی آخرت برباد نہ ہو جائے۔ جن کے دل خوف الٰہی سے عاری ہیں، انہیں ان ہدایات سے کیا تعلق؟ اور وہ کب ان ہدایات کی پروا کرتی ہیں؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَقَرْ‌نَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّ‌جْنَ تَبَرُّ‌جَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِ‌يدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّ‌جْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَ‌كُمْ تَطْهِيرً‌ا ﴿٣٣﴾
اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو (١) اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکٰوۃ دیتی رہو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو (٢) اللہ تعالٰی یہ چاہتا ہے کہ اپنے نبی کی گھر والیو! (٣) تم سے وہ (ہر قسم کی) گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے۔
٣٣۔١ یعنی ٹک کر رہو اور بغیر ضروری حاجت کے گھر سے باہر نہ نکلو۔ اس کی وضاحت کر دی گئی کہ عورت کا دائرہ عمل امور سیاست اور جہان بانی نہیں، معاشی جھمیلے بھی نہیں، بلکہ گھر کی چار دیواری کے اندر رہ کر امور خانہ داری سرانجام دینا ہے۔
۳۳۔۲ اس میں گھر سے باہر نکلنے کے آداب بتلادیئے کہ اگر باہر جانے کی ضرورت پیش آئے تو بناؤ سنگھار کر کے یا ایسے انداز سے جس سے تمہارا بناؤ سنگھار ظاہر ہو مت نکلو۔ جیسے بےپردہ ہو کر جس سے تمہارا سر چہرہ بازو اور چھاتی وغیرہ لوگوں کو دعوت نظارہ دے بلکہ بغیر خوشبو لگائے سادہ لباس میں ملبوس اور باپردہ باہر نکلو تبرج بےپردگی اور زیب و زینت کے اظہار کو کہتے ہیں قرآن نے واضح کردیا ہے کہ یہ تبرج جاہلیت ہے جو اسلام سے پہلے تھے اور آئندہ بھی جب کبھی اسے اختیار کیا جائے گے یہ جاہلیت ہی ہوگی اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے چاہے اس کا نام کتناہی خوش نما دل فریب رکھ لیا جائے۔
٣٣۔۳ پچھلی ہدایت، برائی سے اجتناب سے متعلق تھیں، یہ ہدایت نیکی اختیار کرنے سے متعلق ہیں۔
٣٣۔٤ اہل بیت سے کون مراد ہیں؟ اس کی تعیین میں کچھ اختلاف ہے، بعض نے ازواج مطہرات کو مراد لیا ہے، جیسا کہ یہاں قرآن کریم کے سیاق سے واضح ہے قرآن نے یہاں ازواج مطہرات ہی کو اہل بیت کہا۔ قرآن کے دوسرے مقامات پر بھی بیوی کو اہل بیت کہا گیا ہے، بعض روایات کی روح سے اہل بیت کا مصداق صرف حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہم کو مانتے ہیں اور ازواج مطہرات کو اس سے خارج سمجھتے ہیں۔ جبکہ اول الذکر ان اصحاب اربعہ کو اس سے خارج سمجھتے ہیں تاہم اعتدال کی راہ اور نقطہ متوسطہ یہ ہے دونوں ہی اہل بیت ہیں۔ ازواج مطہرات تو اس نص قرآنی کی وجہ سے اور داماد اور اولاد ان روایات کی رو سے جو صحیح سند سے ثابت ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی چادر میں لے کر فرمایا کہ اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں جس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ بھی میرے اہل بیت سے ہیں یا یہ دعا ہے کہ یا اللہ ان کو بھی ازواج مطہرات کی طرح میرے اہل بیت میں شامل فرمادے اس طرح تمام دلائل میں بھی تطبیق ہوجاتی ہے (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے فتح القدیر، للشوکانی)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَاذْكُرْ‌نَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّـهِ وَالْحِكْمَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرً‌ا ﴿٣٤﴾
اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول کی جو احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو (١) یقیناً اللہ تعالٰی لطف کرنے والا خبردار ہے۔
٣٤۔١ یعنی ان پر عمل کرو حکمت سے مراد احادیث ہیں۔ اس سے استدلال کرتے ہوئے۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ حدیث بھی قرآن کی طرح ثواب کی نیت سے پڑھی جاسکتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ آیت بھی ازواج مطہرات کے اہل بیت ہونے پر دلالت کرتی ہے، اس لئے کہ وحی کا نزول، جس کا ذکر اس آیت میں ہے، ازواج مطہرات کے گھروں میں ہی ہوتا تھا، بالخصوص حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی کے گھر میں۔ جیسا کہ احادیث میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِ‌ينَ وَالصَّابِرَ‌اتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُ‌وجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِ‌ينَ اللَّـهَ كَثِيرً‌ا وَالذَّاكِرَ‌اتِ أَعَدَّ اللَّـهُ لَهُم مَّغْفِرَ‌ةً وَأَجْرً‌ا عَظِيمًا ﴿٣٥﴾
بیشک مسلمان مرد اور عورتیں مومن مرد اور مومن عورتیں فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرماں بردار عورتیں اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنی والی عورتیں، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والیاں، بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں (ان سب کے) لئے اللہ تعالٰی نے (وسیع مغفرت) اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔
۳۵۔۱حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور بعض دیگر صحابیات نے کہا کہ کیا بات ہے اللہ تعالٰی ہر جگہ مردوں سے ہی خطاب فرماتا ہے عورتوں سے نہیں جس پر یہ آیت نازل ہوئی (مسندا٦ /۳۰۱ترمذی نمبر ۳۲۱۱) اس میں عورتوں کی دل داری کا اہتمام کردیا گیا ہے ورنہ تمام احکام میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل ہیں سوائے ان مخصوص احکام کے جو صرف عورتوں کے لیے ہیں۔ اس آیت اور دیگر آیات سے واضح ہے کہ عبادت واطاعت الہٰی اور اخروی درجات وفضائل میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے دونوں کے لیے یکساں طور پر یہ میدان کھلا ہے اور دونوں زیادہ سے زیادہ نیکیاں اور اجر و ثواب کماسکتے ہیں جنس کی بنیاد پر اس میں کمی پیشی نہیں کی جائے گے علاوہ ازیں مسلمان اور مومن کا الگ الگ ذکر کرنے سے واضح ہے کہ ان دونوں میں فرق ہے ایمان کا درجہ اسلام سے بڑھ کر ہے جیسا کہ قرآن وحدیث کے دیگر دلائل بھی اس پر دلالت کرتے ہیں۔
 
Top