• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِم مِّنْ أَقْطَارِ‌هَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لَآتَوْهَا وَمَا تَلَبَّثُوا بِهَا إِلَّا يَسِيرً‌ا ﴿١٤﴾
اور اگر مدینے کے اطراف سے ان پر (لشکر) داخل کئے جاتے پھر ان سے فتنہ طلب کیا جاتا تو یہ ضرور اسے برپا کر دیتے اور نہ لڑتے مگر تھوڑی مدت (١)۔
١٤۔١ یعنی مدینے یا گھروں میں چاروں طرف سے دشمن داخل ہوجائیں اور ان سے مطالبہ کریں کے تم کفر و شرک کی طرف دوبارہ واپس آجاؤ، تو یہ ذرا توقف نہ کریں گے اور اس وقت گھروں کے غیر محفوظ ہونے کا عذر بھی نہیں کریں گے بلکہ فوراً مطالبہ شرک کے سامنے جھک جائیں مطلب یہ کہ کفر و شرک ان کو مرغوب ہے اور اس کی طرف لپکتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ كَانُوا عَاهَدُوا اللَّـهَ مِن قَبْلُ لَا يُوَلُّونَ الْأَدْبَارَ‌ ۚ وَكَانَ عَهْدُ اللَّـهِ مَسْئُولًا ﴿١٥﴾
اس سے پہلے تو انہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ پیٹھ نہ پھریں گے (١) اور اللہ تعالٰی سے کئے ہوئے وعدہ کی باز پرس ہوگی (٢)
١٥۔١ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ منافقین جنگ بدر تک مسلمان نہیں ہوئے۔ لیکن جب مسلمان فاتح ہو کر اور مال غنیمت لے کر واپس آئے تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ اسلام کا اظہار کیا بلکہ یہ عہد بھی کیا کہ آئندہ جب بھی کفار سے معرکہ پیش آیا تو وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر ضرور لڑیں گے، یہاں ان کو وہی عہد یاد کرایا گیا ہے۔
١٥۔٢ یعنی اسے پورا کرنے کا ان سے مطالبہ کیا جائے گا اور عدم وفا پر سزا کے مستحق ہوں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قُل لَّن يَنفَعَكُمُ الْفِرَ‌ارُ‌ إِن فَرَ‌رْ‌تُم مِّنَ الْمَوْتِ أَوِ الْقَتْلِ وَإِذًا لَّا تُمَتَّعُونَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿١٦﴾
کہہ دیجئے کہ تم موت سے یا خوف قتل سے بھاگو تو یہ بھاگنا تمہیں کچھ بھی کام نہ آئے گا اور اسوقت تم ہی کم فائدہ آٹھاؤ گے (١)
١٦۔١ یعنی موت سے کوئی صورت مفر نہیں ہے۔ اگر میدان جنگ سے بھاگ کر آ بھی جاؤ گے تو کیا فائدہ؟ کچھ عرصے بعد موت کا پیالہ تو پھر بھی پینا پڑے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قُلْ مَن ذَا الَّذِي يَعْصِمُكُم مِّنَ اللَّـهِ إِنْ أَرَ‌ادَ بِكُمْ سُوءًا أَوْ أَرَ‌ادَ بِكُمْ رَ‌حْمَةً ۚ وَلَا يَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّـهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرً‌ا ﴿١٧﴾
پوچھئے! اگر اللہ تمہیں کوئی برائی پہنچانا چاہے یا تم پر کوئی فضل کرنا چاہے تو کون ہے جو تمہیں بچا سکے (یا تم سے روک سکے) (١) اپنے لئے بجز اللہ تعالٰی کے نہ کوئی حمائتی پائیں گے نہ مدد گار۔
١٧۔١ یعنی تمہیں ہلاک کرنا، بیمار کرنا، یا مال و جائداد میں نقصان پہنچانا یا قحط سالی میں مبتلا کرنا چاہے، تو کون ہے جو تمہیں اس سے بچا سکے؟ یا اپنا فضل و کرم کرنا چاہے تو وہ روک سکے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَدْ يَعْلَمُ اللَّـهُ الْمُعَوِّقِينَ مِنكُمْ وَالْقَائِلِينَ لِإِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ إِلَيْنَا ۖ وَلَا يَأْتُونَ الْبَأْسَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿١٨﴾
اللہ تعالٰی تم میں سے انہیں (بخوبی) جانتا ہے جو دوسروں کو روکتے ہیں اور اپنے بھائی بندوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس (١) چلے آؤ۔ اور کبھی کبھی ہی لڑائی میں آجاتے (٢)
١٨۔١ یہ کہنے والے منافقین تھے، جو اپنے دوسرے ساتھیوں کو بھی مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہونے سے روکتے تھے۔
١٨۔٢ کیونکہ وہ موت کے خوف سے پیچھے ہی رہتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ ۖ فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَ‌أَيْتَهُمْ يَنظُرُ‌ونَ إِلَيْكَ تَدُورُ‌ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَىٰ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ‌ ۚ أُولَـٰئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّـهُ أَعْمَالَهُمْ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ يَسِيرً‌ا ﴿١٩﴾
تمہاری مدد میں (پورے) بخیل ہیں (١) پھر جب خوف و دہشت کا موقعہ آجائے تو آپ انہیں دیکھیں گے کہ آپ کی طرف نظریں جما دیتے ہیں اور ان کی آنکھیں اس طرح گھومتی ہیں جیسے اس شخص کی جس پر موت کی غشی طاری ہو (٢) پھر جب خوف جاتا رہتا ہے تو تم پر اپنی تیز زبانوں سے بڑی باتیں بناتے ہیں مال کے بڑے ہی حریص ہیں (٣) یہ ایمان لائے ہی نہیں (٤) اللہ تعالٰی نے ان کے تمام اعمال نابود کر دئیے اور اللہ تعالٰی پر یہ بہت ہی آسان ہے (٥)۔
١٩۔١ یعنی تمہارے ساتھ خندق کھود کر تم سے تعاون کرنے میں یا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں یا تمہارے ساتھ مل کر لڑنے میں بخیل ہیں۔
١٩۔٢ یہ ان کی بزدلی اور پست ہمتی کی کیفیت کا بیان ہے۔
١٩۔۳یعنی اپنی شجاعت ومردانگی کی ڈینگیں مارتے ہیں، جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں، یاغنیمت کی تقسیم کے وقت اپنی زبان کی تیزی وطراری سے لوگوں کو مثاثر کرکے زیادہ سے زیادہ مال حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، غنیمت کی تقسیم کے وقت یہ سب سے زیادہ بخیل اور سب سے زیادہ بڑا حصہ لینے والے اور لڑائی کے وقت سب سے زیادہ بزدل اور ساتھیوں کو بےیارو مددگار چھوڑنے والے ہیں۔
١٩۔۳ یا دوسرا مفہوم ہے کہ خیر کا جذبہ بھی ان کے اندر نہیں ہے۔ یعنی مذکورہ خرابیوں اور کوتاہیوں کے ساتھ خیر اور بھلائی سے بھی وہ محروم ہیں۔
١٩۔٤ یعنی دل سے بلکہ یہ منافق ہیں، کیونکہ ان کے دل کفر و عناد سے بھرے ہوئے ہیں۔
١٩۔۵ ان کے اعمال کا برباد کر دینا، یا ان کا نفاق۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
يَحْسَبُونَ الْأَحْزَابَ لَمْ يَذْهَبُوا ۖ وَإِن يَأْتِ الْأَحْزَابُ يَوَدُّوا لَوْ أَنَّهُم بَادُونَ فِي الْأَعْرَ‌ابِ يَسْأَلُونَ عَنْ أَنبَائِكُمْ ۖ وَلَوْ كَانُوا فِيكُم مَّا قَاتَلُوا إِلَّا قَلِيلًا ﴿٢٠﴾
سمجھتے ہیں کہ اب تک لشکر چلے نہیں گئے (١) اور اگر فوجیں آجائیں تو تمنائیں کرتے ہیں کہ کاش! وہ صحرا میں بادیہ نشینوں کے ساتھ ہوتے کہ تمہاری خبریں دریافت کیا کرتے، اگر وہ تم میں موجود ہوتے (تو بھی کیا؟) نہ لڑتے مگر برائے نام (٢)
٢٠۔١ یعنی ان منافقین کی بزدلی، کم ہمتی اور خوف و دہشت کا یہ حال ہے کہ کافروں کے گروہ اگرچہ ناکام و نامراد واپس جا چکے ہیں۔ لیکن یہ اب تک یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ابھی تک اپنے مورچوں اور خیموں میں موجود ہیں۔
٢٠۔۲یعنی بالفرض اگر کفار کی ٹولیاں دوبارہ لڑائی کی نیت سے واپس آجائیں تو منافقین کی خواہش یہ ہوگی کہ وہ مدینہ شہر کے اندر رہنے کے بجائے باہر صحرا میں بادیہ نشینوں کے ساتھ ہوں اور وہاں لوگوں سے تمہاری بابت پوچھتے رہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھی ہلاک ہوئے یا نہیں؟ یا لشکر کفار کامیاب رہا یا ناکام؟
٢٠۔۳ محض عار کے ڈر سے یا ہم وطنی کی حمیت کی وجہ سے۔ اس میں ان لوگوں کے لئے سخت وعید ہے جو جہاد سے گریز کرتے یا اس سے پیچھے رہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَ‌سُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْ‌جُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ‌ وَذَكَرَ‌ اللَّـهَ كَثِيرً‌ا ﴿٢١﴾
یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے (۱)، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالٰی کی قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالٰی کی یاد کرتا ہے (۲)
٢١۔١ یعنی اے مسلمانو! اور منافقو! تم سب کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے اندر بہترین نمونہ ہے، پس تم جہاد میں اور صبر ثبات میں اسی کی پیروی کرو۔ ہمارا یہ پیغمبر جہاد میں بھوکا رہا حتی کہ اسے پیٹ پر پتھر باندھنے پڑے، اس کا چہرہ زخمی ہوگیا اس کا رباعی دانت ٹوٹ گیا، خندق اپنے ہاتھوں سے کھودی اور تقریبا ایک مہینہ دشمن کے سامنے سینہ سپر رہا۔ یہ آیت اگرچہ جنگ احزاب کے ضمن میں نازل ہوئی ہے جس میں جنگ کے موقعے پر بطور خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو سامنے رکھنے اور اس کی اقتدا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن یہ حکم عام ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اقوال افعال اور احوال میں مسلمانوں کے لیے آپ کی اقتدا ضروری ہے چاہے ان کا تعلق عبادات سے یا معاشرت سے، معیشت سے یا سیاست سے، زندگی کے ہر شعبے میں آپ کی ہدایات واجب الاتباع ہیں۔ ( ۭ وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا) 59۔ الحشر:7) (اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 3۔ آل عمران:31)، کا بھی یہی مفاد ہے۔
٢١۔۲اس سے یہ واضح ہوگیا کہ اسوہ رسول کو وہی اپنائے گا جو آخرت میں اللہ کی ملاقات پر یقین رکھتا اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ آجکل مسلمان بھی بالعموم ان دونوں وصفوں سے محروم ہیں، اس لئے اسوہ رسول کی بھی کوئی اہمیت ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ ان میں جو اہل دین ہیں ان کے پیشوا پیر اور مشائخ ہیں اور جو اہل دنیا و سیاست ہیں ان کے مرشد و رہنما آقایان مغرب ہیں۔ رسول اللہ سے عقیدت کے زبانی دعوے بڑے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرشد اور پیشوا ماننے کے لیے ان میں سے کوئی بھی آمادہ نہیں ہے۔ فالی اللہ المشتکی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَمَّا رَ‌أَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَـٰذَا مَا وَعَدَنَا اللَّـهُ وَرَ‌سُولُهُ وَصَدَقَ اللَّـهُ وَرَ‌سُولُهُ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا ﴿٢٢﴾
اور ایمانداروں نے جب (کفار کے) لشکروں کو دیکھا (بے ساختہ) کہہ اٹھے! کہ انہیں کا وعدہ ہمیں اللہ تعالٰی نے اور اس کے رسول نے دیا تھا اور اللہ تعالٰی اور اس کے رسول نے سچ فرمایا (١) اور اس (چیز) نے ان کے ایمان میں اور شیوہ فرماں برداری میں اور اضافہ کر دیا (٢)
٢٢۔١ یعنی منافقین نے دشمن کی کثرت تعداد اور حالات کی سنگینی دیکھ کر کہا تھا کہ اللہ اور رسول کے وعدے فریب تھے، ان کے برعکس اہل ایمان نے کہا کہ اللہ اور رسول نے جو وعدہ کیا ہے کہ امتحان سے گزارنے کے بعد تمہیں فتح و نصرت سے ہمکنار کیا جائے گا، وہ سچا ہے۔
٢٢۔٢ یعنی حالات کی شدت اور ہولناکی نے ان کے ایمان کو متزلزل نہیں کیا، بلکہ ان کے ایمان میں جذبہ اطاعت اور تسلیم و رضا میں مذید اضافہ کر دیا۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں اور ان کے مختلف احوال کے اعتبار سے ایمان اور اس کی قوت میں کمی بیشی ہوتی ہے جیسا کہ محدثین کا مسلک ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِ‌جَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّـهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ‌ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ﴿٢٣﴾
مومنوں میں (ایسے) لوگ بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالٰی سے کیا تھا انہیں سچا کر دکھایا (۱) بعض نے تو اپنا عہد پورا کر (۲) دیا اور بعض (موقعہ کے) منتظر ہیں اور انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی۔ (۳)
٢٣۔١ یہ آیت ان بعض صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جنہوں نے اس موقع پر جاں نثاری کے عجیب وغریب جوہر دکھائے تھے اور انہیں میں وہ صحابہ بھی شامل ہیں جو جنگ بدر میں شریک نہ ہوسکے تھے لیکن انہوں نے یہ عہد کر رکھا تھا کہ اب آئندہ کوئی معرکہ پیش آیا تو جہاد میں بھرپور حصہ لیں گے۔ جیسے نضر بن انس وغیرہ جو بالآخر لڑتے ہوئے جنگ احد میں شہید ہوئے ان کے جسم پر تلوار نیزے اور تیروں کے اسی سے کچھ اوپر زخم تھے، شہادت کے بعد ان کی ہمشیرہ نے انہیں ان کی انگلی کے پور سے پہچانا۔
٢٣۔۲نَحْبہ، نحب کے معنی ہیں عہد، نذر اور موت کے کئے گئے ہیں۔ مطلب ہے کہ ان صادقین میں کچھ نے اپنا وعدہ اور نذر پوری کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرلیا ہے۔
٢٣۔۳اور دوسرے وہ ہیں جو ابھی تک عروس شہادت سے ہمکنار نہیں ہوئے ہیں تاہم اس کے شوق میں شریک جہاد ہوتے ہیں اور شہادت کی سعادت کے آرزو مند ہیں اپنی اس نذر یا عہد میں انہوں نے تبدیلی نہیں کی۔
 
Top