• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پارہ 28
سورة المجادلة

(سورة المجادلة ۔ سورہ نمبر ٥۸ ۔ تعداد آیات ۲۲)​
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
قَدْ سَمِعَ اللَّـهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّـهِ وَاللَّـهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَ‌كُمَا ۚ إِنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ‌ ﴿١﴾
یقیناً اللہ تعالٰی نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالٰی تم دونوں کے سوال جواب سن رہا تھا (١) بیشک اللہ تعالٰی سننے دیکھنے والا ہے۔
۱۔۱ یہ اشارہ ہے حضرت خولہ بنت مالک بن ثعلبہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ کی طرف جن کے خاوند حضرت اوس بن صامت رضی اللہ عنہ نے ان سے ظہار کرلیا تھا ظہار کو طلاق سمجھا جاتا تھا حضرت خولہ رضی اللہ عنہا سخت پریشان ہوئیں اس وقت تک اس کی بابت کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لیے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کچھ توقف فرمایا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بحث وتکرار کرتی رہیں جس پر یہ آیات نازل ہوئیں جن میں مسئلہ ظہار اور اس کا حکم و کفارہ بیان فرمادیا گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ تعالٰی کس طرح لوگوں کی باتیں سننے والا ہے کہ یہ عورت گھر کے ایک کونے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مجادلہ کرتی اور اپنے خاوند کی شکایت کرتی رہی مگر میں اس کی باتیں نہیں سنتی تھی لیکن اللہ نے آسمانوں پر سے اس کی بات سن لی، سنن ابن ماجہ المقدمہ۔ صحیح بخاری میں بھی تعلیقا اس کا مختصر ذکر ہے۔ کتاب التوحید۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الَّذِينَ يُظَاهِرُ‌ونَ مِنكُم مِّن نِّسَائِهِم مَّا هُنَّ أُمَّهَاتِهِمْ ۖ إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ مُنكَرً‌ا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُورً‌ا ۚ وَإِنَّ اللَّـهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ‌ ﴿٢
تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں (یعنی انہیں ماں کہہ بیٹھتے ہیں) وہ دراصل ان کی مائیں نہیں بن جاتیں، ان کی مائیں تو وہی ہیں جن کے بطن سے وہ پیدا ہوئے، (۱) یقینًا یہ لوگ ایک نامعقول اور جھوٹی بات کہتے ہیں۔ (۲)
۲۔١ یہ اظہار کا حکم بیان فرمایا ہے کہ تمہارے کہہ دینے سے تمہاری بیوی تمہاری ماں نہیں بن جائے گی اگر ماں کے بجائے کوئی شخص اپنی بیٹی یا بہن وغیرہ کی پیٹھ کی طرح اپنی بیوی کو کہہ دے تو یہ ظہار ہے یا نہیں؟ امام مالک اور امام ابو حنیفہ رحمہما اللہ اسے بھی ظہار قرار دیتے ہیں جب کہ دوسرے علماء اسے ظہار تسلیم نہیں کرتے پہلا قول ہی صحیح معلوم ہوتا ہے اسی طرح اس میں بھی اختلاف ہے کہ پیٹھ کی جگہ اگر کوئی یہ کہے کہ تو میری ماں کی طرح ہے پیٹھ کا نام نہ لے تو علماء کہتے ہیں کہ اگر ظہار کی نیت سے وہ مذکورہ الفاظ کہے گا تو ظہار ہوگا بصورت دیگر نہیں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر ایسے عضو کے ساتھ تشبیہ دے گا جس کا دیکھنا جائز ہے تو یہ ظہار نہیں ہوگا امام شافعی رحمہ اللہ بھی کہتے ہیں کہ ظہار صرف پیٹھ کی طرح کہنے سے ہی ہوگا۔ فتح القدیر۔
۲۔۲ اسی لیے اس نے کفار کو اس قول منکر اور جھوٹ کی معافی کا ذریعہ بنا دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَالَّذِينَ يُظَاهِرُ‌ونَ مِن نِّسَائِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِ‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ مِّن قَبْلِ أَن يَتَمَاسَّا ۚ ذَٰلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ‌ ﴿٣﴾
جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع کرلیں (١) تو ان کے ذمے آپس میں ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے سے پہلے (٢) ایک غلام آزاد کرنا ہے، اس کے ذریعے تم نصیحت کئے جاتے ہو اور اللہ تعالٰی تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے۔
٣۔١ اب اس حکم کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ رجوع کا مطلب، بیوی سے ہم بستری کرنا چاہیں۔
٣۔٢ یعنی ہم بستری سے پہلے وہ کفارہ ادا کریں ١۔ ایک غلام آزاد کرنا ٢۔ اس کی طاقت نہ ہو تو پے درپے دو مہینے کے روزے رکھنے پڑیں گے۔ عذر شرعی سے مراد بیماری یا سفر ہے، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ بیماری وغیرہ کی وجہ سے روزے رکھنے کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے۔ بعض کہتے ہیں کہ ہر مسکین کو دو مد نصف صاع یعنی سوا کلو اور بعض کہتے ہیں ایک مد کافی ہے لیکن قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانا اس طرح کھلایا جائے کہ وہ شکم سیر ہوجائیں یا اتنی مقدار میں ان کو کھانا دیا جائے ایک مرتبہ ہی سب کو کھلانا بھی ضروری نہیں بلکہ متعدد اقساط میں یہ تعداد پوری کی جاسکتی ہے۔ فتح القدیر۔ تاہم یہ ضروری ہے جب تک یہ تعداد پوری نہ ہوجائے اس وقت تک بیوی سے ہم بستری جائز نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَ‌يْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِن قَبْلِ أَن يَتَمَاسَّا ۖ فَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ۚ ذَٰلِكَ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ ۗ وَلِلْكَافِرِ‌ينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٤﴾
ہاں جو شخص نہ پائے اس کے ذمے دو مہینوں کے لگا تار روزے ہیں اس سے پہلے کہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں اور جس شخص کو یہ طاقت بھی نہ ہو اس پر ساٹھ مسکینوں کا کھانا کھلانا ہے۔ یہ اس لئے کہ تم اللہ کی اور اس کے رسول کی حکم بردری کرو، یہ اللہ تعالٰی کی وہ حدیں ہیں اور کفار ہی کے لئے دردناک عذاب ہے
إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ كُبِتُوا كَمَا كُبِتَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ وَقَدْ أَنزَلْنَا آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۚ وَلِلْكَافِرِ‌ينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ ﴿٥﴾
بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ ذلیل کئے جائیں گے (۱) جیسے ان سے پہلے کے لوگ ذلیل کئے گئے تھے (۲) اور بیشک ہم واضح آیتیں اتار چکے ہیں اور کافروں کے لئے تو ذلت والا عذاب ہے۔
۵۔۱ کتبوا، ماضی مجہول کا صیغہ ہے مستقبل میں ہونے والے واقعے کو ماضی سے تعبیر کر کے واضح کر دیا کہ اس کا وقوع اور تحقق اسی طرح یقینی ہے جیسے کہ وہ ہو چکا ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ یہ مشرکین مکہ بدر والے دن ذلیل کیے گئے کچھ مارے گئے کچھ قیدی ہوگئے اور مسلمان ان پر غالب رہے مسلمانوں کا غلبہ بھی ان کے حق میں نہایت ذلت تھا۔
٥۔۲ اس سے مراد گزشتہ امتیں ہیں جو اسی مخالفت کی وجہ سے ہلاک ہوئیں
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّـهُ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا ۚ أَحْصَاهُ اللَّـهُ وَنَسُوهُ ۚ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ﴿٦﴾
جس دن اللہ تعالٰی ان سب کو اٹھائے گا پھر انہیں ان کے کئے ہوئے عمل سے آگاہ کرے گا جسے اللہ نے شمار کر رکھا ہے جسے یہ بھول گئے تھے (۱) اور اللہ تعالٰی ہرچیز سے واقف ہے (۲)۔
٦ ۔۱ یہ ذہنوں میں پیدا ہونے والے اشکال کا جواب ہے کہ گناہوں کی اتنی کثرت اور ان کا اتنا تنوع ہے کہ ان کا احصار بظاہر ناممکن ہے اللہ تعالٰی نے فرمایا تمہارے لیے یقینا ناممکن ہے بلکہ تمہیں تو خود اپنے کیے ہوئے سارے کام بھی یاد نہیں ہوں گے لیکن اللہ کے لیے یہ کوئی مشکل نہیں اس نے ایک ایک کا عمل محفوظ کیا ہوا ہے۔
٦۔۲ اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں آگے اس کی مزید تاکید ہے کہ وہ ہرچیز کو جانتا ہے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
أَلَمْ تَرَ‌ أَنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ ۖ مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَ‌ابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ‌ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ۖ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴿٧﴾
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمانوں کی اور زمین کی ہرچیز سے واقف ہے۔ تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ کی مگر ان کا چھٹا وہ ہوتا ہے اور اس سے کم اور نہ زیادہ کی مگر وہ ساتھ ہی ہوتا ہے (١) جہاں بھی وہ ہوں (٢) پھر قیامت کے دن انہیں اعمال سے آگاہ کرے گا (٣) بیشک اللہ تعالٰی ہرچیز سے واقف ہے۔
٧۔١ یعنی مذکورہ تعداد کا خصوصی طور پر ذکر اس لئے نہیں ہے کہ اس میں کم یا اس سے زیادہ تعداد کے درمیان ہونے والی گفتگو سے بےخبر رہتا ہے بلکہ یہ تعداد بطور مثال ہے، مقصد یہ بتلانا ہے کہ تعداد تھوڑی ہو یا زیادہ وہ ہر ایک کے ساتھ ہے اور ہر ظاہر اور پوشیدہ بات کو جانتا ہے۔
٧۔٢ خلوت میں ہوں یا جلوت میں، شہروں میں ہوں یا جنگلوں صحراؤں میں، آبادیوں میں ہوں یا بےآباد پہاڑوں بیابانوں میں، جہاں بھی ہوں، اس سے چھپے نہیں رہ سکتے۔
۷۔۳ یعنی اس کے مطابق ہر ایک کو جزا دے گا نیک کو اس کی نیکیوں کی جزا اور بد کو اس کی بدیوں کی سزا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
أَلَمْ تَرَ‌ إِلَى الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَىٰ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَيَتَنَاجَوْنَ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّ‌سُولِ وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّـهُ وَيَقُولُونَ فِي أَنفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللَّـهُ بِمَا نَقُولُ ۚ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ يَصْلَوْنَهَا ۖ فَبِئْسَ الْمَصِيرُ‌ ﴿٨﴾
کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا؟ جنہیں کانا پھوسی سے روک دیا گیا تھا وہ پھر بھی اس روکے ہوئے کام کو دوبارہ کرتے ہیں (١) اور آپس میں گناہ کی اور ظلم کی زیادتی کی نافرمانی، پیغمبر کی سرگوشیاں کرتے ہیں (۲) اور جب تیرے پاس آتے ہیں تو تجھے ان لفظوں میں سلام کرتے ہیں جن لفظوں میں اللہ تعالٰی نے نہیں کہا (۳) اور اپنے دل میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی ہمیں اس پر جو ہم کہتے ہیں سزا کیوں نہیں (٤) دیتا ان کے لئے جہنم کافی سزا ہے جس میں یہ جائیں گے (۵) سو وہ برا ٹھکانا ہے۔
۸۔۱ اس سے مدینے کے یہودی اور منافقین مراد ہیں جب مسلمان ان کے پاس سے گزرتے تو یہ باہم سر جوڑ کر اس طرح سرگوشیاں اور کانا پھوسی کرتے کہ مسلمان یہ سمجھتے کہ شاید ان کے خلاف یہ کوئی سازش کر رہے ہیں یا مسلمانوں کے کسی لشکر پر دشمن نے حملہ کر کے انہیں نقصان پہنچایا ہے جس کی خبر ان کے پاس پہنچ گئی ہے مسلمان ان چیزوں سے خوف زدہ ہو جاتے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح سرگوشیاں کرنے سے منع فرما دیا لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد انہوں نے پھر یہ مذموم سلسلہ شروع کردیا آیت میں ان کے اسی کردار کو بیان کیا جارہا ہے۔
٨۔۲ یعنی ان کی سرگوشیاں نیکی اور تقویٰ کی باتوں میں نہیں ہوتیں، بلکہ گناہ، زیادتی اور معصیت رسول پر مبنی ہوتی ہیں مثلاً کسی کی غیبت، الزام تراشی، بےہودہ گوئی ایک دوسرے کو رسول اللہ کی نافرمانی پر اکسانا وغیرہ۔
٨۔۳ یعنی اللہ نے سلام کا طریقہ یہ بتلایا ہے کہ تم السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہو، لیکن یہودی نبی کی خدمت میں حاضر ہوتے تو اس کی بجائے کہتے السام علیکم یا علیکَ(تم پر موت وارد ہو) اس لئے رسول اللہ ان کے جواب میں صرف یہ فرمایا کرتے تھے، و علیکم یا و علیکَ(اور تم پر ہی ہو) اور مسلمانوں کو بھی آپ نے تاکید فرمائی کہ جب کوئی اہل کتاب تمہیں سلام کرے تو جواب میں و علیکَ کہا کرو یعنی علیکَ ما قلتَ(تو نے جو کہا ہے وہ تجھ پر ہی وارد ہو (صحیح بخاری)
۸۔٤ یعنی وہ آپس میں یا اپنے دلوں میں کہتے کہ اگر یہ سچا نبی ہوتا تو اللہ تعالٰی یقینا ہماری اس قبیح حرکت پر ہماری گرفت ضرور فرماتا۔
۸۔۵ اللہ نے فرمایا کہ اگر اللہ نے اپنی مشیت اور حکمت بالغہ کے تحت دنیا میں ان کی فوری گرفت نہیں فرمائی تو کیا وہ آخرت میں جہنم کے عذاب سے بھی بچ جائیں گے؟ نہیں یقینا نہیں جہنم ان کی منتظر ہے جس میں وہ داخل ہوں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّ‌سُولِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ‌ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُ‌ونَ ﴿٩﴾
اے ایمان والو! تم جب سرگوشیاں کرو تو یہ سرگوشیاں گناہ اور ظلم (زیادتی) اور نافرمانی پیغمبر کی نہ ہو (۱) بلکہ نیکی اور پرہیزگاری کی باتوں پر سرگوشی کرو (۲) اور اس اللہ سے ڈرتے رہو، جس کے پاس تم سب جمع کئے جاؤ گے۔
۹۔۱ جس طرح یہود اور منفقین کا شیوہ ہے یہ گویا اہل ایمان کو تربیت اور کردار سازی کے لیے کہا جارہا ہے کہ اگر تم اپنے دعوائے ایمان میں سچے ہو تو تمہاری سرگوشیاں یہود اور اہل نفاق کی طرح اثم وعدوان پر نہیں ہونی چاہئیں۔
٩۔۲ یعنی جس میں خیر ہی خیر ہو اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر مبنی ہو، کیونکہ یہی نیکی اور تقویٰ ہے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
إِنَّمَا النَّجْوَىٰ مِنَ الشَّيْطَانِ لِيَحْزُنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيْسَ بِضَارِّ‌هِمْ شَيْئًا إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١٠﴾
سرگوشیاں (بری)، پس شیطانی کام ہے جس سے ایمانداروں کو رنج پہنچے (١) گو اللہ تعالٰی کی اجازت کے بغیر وہ انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور ایمان والوں کو چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ (۲)
١٠۔١ یعنی اثم و عدوان اور معصیت رسول پر مبنی سرگوشیاں یہ شیطانی کام ہیں، کیونکہ شیطان ہی ان پر آمادہ کرتا ہے، تاکہ وہ اس کے ذریعے سے مومنوں کو غم میں مبتلا کرے۔
۱۰۔۲ لیکن یہ سرگوشیاں اور شیطانی حرکتیں مومنوں کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتیں الا یہ کہ اللہ کی مشیت ہو اس لیے تم اپنے دشمنوں کی ان اوچھی حرکتوں سے پریشان نہ ہوا کرو بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھو اس لیے کہ تمام معاملات کا اختیار اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہی ہرچیز پر قادر ہے نہ کہ یہود اور منافقین جو تمہیں تباہ وبرباد کرنا چاہتے ہیں سرگوشی کے سلسلے میں ہی مسلمانوں کو ایک اخلاقی ہدایت یہ دی گئی ہے کہ جب تم تین آدمی اکٹھے ہو تو اپنے میں سے ایک کو چھوڑ کر دو آدمی آپس میں سرگوشی نہ کریں کیونکہ یہ طریقہ اس ایک آدمی کو غم ڈال دے گا۔ صحیح بخاری۔ البتہ اس کی رضامندی اور اجازت سے ایسا کرنا جا‏ئز ہے کیونکہ اس صورت میں دو آدمیوں کا سرگوشی کرنا کسی کے لیے تشویش کا باعث نہیں ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّـهُ لَكُمْ ۖ وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا يَرْ‌فَعِ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَ‌جَاتٍ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ‌ ﴿١١﴾
اے مسلمانو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلسوں میں ذرا کشادگی پیدا کرو تو تم جگہ کشادہ کردو (۱) اللہ تمہیں کشادگی دے گا (۲) اور جب کہا جائے اٹھ کھڑے ہو جاؤ تو تم اٹھ کھڑے ہو جاؤ (۳) اللہ تعالٰی تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دے گا (٤) اور اللہ تعالیٰ(ہر اس کام سے) جو تم کر رہے ہو (خوب) خبردار ہے۔
۱۱۔۱ اس میں مسلمانوں کو مجلس کے آداب بتلائے جا رہے ہیں مجلس کا لفظ عام ہے جو ہر اس مجلس کو شامل ہے جس میں مسلمان خیر اور اجر کے حصول کے لیے جمع ہوں وعظ ونصیحت کی مجلس ہو یا جمعہ کی مجلس ہو تفسیر القرطبی کھل کر بیٹھو کا مطلب ہے کہ مجلس کا دائرہ وسیع رکھو تاکہ بعد میں آنے والوں کے لے بیٹھنے کی جگہ رہے دائرہ تنگ مت رکھو کہ بعد میں آنے والے کو کھڑا رہنا پڑھے یا کسی بیٹھے ہو‏ئے کو اٹھا کر اس کی جگہ وہ بیٹھے کہ یہ دونوں باتیں ناشائستہ ہیں چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود نہ بیٹھے اس لیے مجلس کے دائرے کو فراخ اور وسیع کر لو۔ صحیح بخاری۔
١١۔۲ یعنی اس کے صلے میں اللہ تعالٰی تمہیں جنت میں وسعت عطا فرمائے گا یا جہاں بھی تم وسعت و فراخی کے طالب ہوگے، مثلاً مکان میں، رزق میں، قبر میں، ہرجگہ تمہیں فراخی عطا فرمائے گا۔
١١۔۳ یعنی جہاد کے لئے، نماز کے لئے یا کسی بھی عمل خیر کے لئے۔ یا مطلب ہے کہ جب مجلس سے اٹھ کر جانے کو کہا جائے تو فوراً چلے جاؤ۔ مسلمانوں کو یہ حکم اس لئے دیا گیا کہ صحابہ کرام نبی کی مجلس سے اٹھ کر جانا پسند نہیں کرتے تھے لیکن اس طرح بعض دفعہ ان لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی جو نبی سے خلوت میں کوئی گفتگو کرنا چاہتے تھے۔
۱۱۔٤ یعنی اہل ایمان کے درجے غیر اہل ایمان پر اور اہل علم کے درجے اہل ایمان پر بلند فرمائے گا جس کا مطلب یہ ہوا کہ ایمان کے ساتھ علوم دین سے واقفیت مزید رفع درجات کا باعث ہے۔
 
Top