• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ‌ اللَّـهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ‌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ ﴿١٦﴾
کیا اب تک ایمان والوں کے لئے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الٰہی سے اور جو حق اتر چکا ہے اس سے نرم ہوجائیں (۱) اور ان کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی (۲) پھر جب زمانہ دراز گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے (۳) اور ان میں بہت سے فاسق ہیں۔ (٤)
۱ ٦ ۔۱ خطاب اہل ایمان کو ہے اور مطلب ان کو اللہ کی یاد کی طرف مذید متوجہ اور قرآن کریم سے کسب ہدایت کی تلقین کرنا ہے خشوع کے معنی ہیں دلوں کا نرم ہو کر اللہ کی طرف جھک جانا حق سے مراد قرآن کریم ہے۔
١٦۔۲ جیسے یہود و نصاریٰ ہیں، یعنی تم ان کی طرح نہ ہو جانا۔
۱ ٦ ۔۳ چنانچہ انہوں نے اللہ کی کتاب میں تحریف اور تبدیلی کردی اس کے عوض دنیا کا ثمن قلیل حاصل کرنے کو انہوں نے شعار بنا لیا، اس کے احکام کو پس پشت ڈال دیا اللہ کے دین میں لوگوں کی تقلید اختیار کرلی۔
۱ ٦ ۔٤ یعنی ان کے دل فاسد اور اعمال باطل ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ يُحْيِي الْأَرْ‌ضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿١٧﴾
یقین مانو کہ اللہ ہی زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیتا ہے، ہم نے تو تمہارے لئے اپنی آیتیں بیان کر دیں تاکہ تم سمجھو۔
إِنَّ الْمُصَّدِّقِينَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ وَأَقْرَ‌ضُوا اللَّـهَ قَرْ‌ضًا حَسَنًا يُضَاعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ أَجْرٌ‌ كَرِ‌يمٌ ﴿١٨﴾
بیشک صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جو اللہ کو خلوص کے ساتھ قرض دے رہے ہیں۔ ان کے لئے یہ بڑھایا جائے گا (۱) اور ان کے لئے پسندیدہ اجر و ثواب ہے۔ (۲)
۱۸۔۱ یعنی ایک کے بدلے میں کم ازکم دس گنا اور اس سے زیادہ سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ تک۔ اور یہ زیادتی اخلاص نیت، حاجت وضرورت اور مکان کی بنیاد پر ہو سکتی ہے۔
۱۸۔۲ یعنی جنت اور اس کی نعمتیں، جنکو کبھی زوال اور فنا نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرُ‌سُلِهِ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ۖ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَ‌بِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُ‌هُمْ وَنُورُ‌هُمْ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُ‌وا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ ﴿١٩﴾
اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں وہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں ان کے لئے ان کا اجر اور ان کا نور ہے، اور جو لوگ کفر کرتے ہیں اور ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں وہ جہنمی ہیں۔
اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ‌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ‌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ‌ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَ‌اهُ مُصْفَرًّ‌ا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ وَفِي الْآخِرَ‌ةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَ‌ةٌ مِّنَ اللَّـهِ وَرِ‌ضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُ‌ورِ‌ ﴿٢٠﴾
خوب جان رکھو کہ دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشہ زینت اور آپس میں فخر (و غرور) اور مال اولاد میں ایک دوسرے سے اپنے آپ کو زیادہ بتلانا ہے، جیسے بارش اور اس کی پیداوار کسانوں کو اچھی معلوم ہوتی ہے پھر جب وہ خشک ہو جاتی ہے تو زرد رنگ میں اس کو تم دیکھتے ہو پھر وہ باکل چورا چورا ہوجاتی ہے اور آخرت میں سخت عذاب (۱) اور اللہ کی مغفرت اور رضامندی ہے (۲) اور دنیا کی زندگی بجز دھوکے کے سامان کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔
٢٠۔١ یعنی اہل کفر کے لئے جو دنیا کے کھیل کود میں ہی مصروف رہے اور اسی کو انہوں نے حاصل زندگی سمجھا۔
٢٠۔٢ یعنی اہل ایمان و طاعت کے لئے، جنہوں نے دنیا کو ہی سب کچھ نہیں سمجھا، بلکہ اسے عارضی، فانی اور دارالا متحان سمجھتے ہوئے اللہ کی ہدایات کے مطابق اس میں زندگی گزاری۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
سَابِقُوا إِلَىٰ مَغْفِرَ‌ةٍ مِّن رَّ‌بِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْ‌ضُهَا كَعَرْ‌ضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْ‌ضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرُ‌سُلِهِ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّـهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّـهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ﴿٢١﴾
(آؤ) دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف (۱) اور اس کی جنت کی طرف جس کی وسعت آسماں و زمین کی وسعت کے برابر ہے (۲) یہ ان کے لئے بنائی گئی ہے جو اللہ پر اور اس کے رسولوں ایمان رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے جس چاہے دے (۳) اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ (٤)
۲۱۔۱یعنی اعمال صالحہ اور توبۃ النصوح کی طرف کیونکہ یہی چیزیں مغفرت رب کا ذریعہ ہیں۔
٢١۔۲ اور جس کا عرض اتنا ہو، اس کا طول کتنا ہوگا؟ کیونکہ طول عرض سے زیادہ ہی ہوتا ہے
۲۱۔۳ ظاہر ہے اس کی چاہت اسی کے لیے ہوتی ہے جو کفر و معصیت سے توبہ کر کے ایمان وعمل صالح کی زندگی اختیار کر لیتا ہے اسی لیے وہ ایسے لوگوں کو ایمان صالحہ کی توفیق سے بھی نوازتا دیتا ہے۔
۲۱۔٤ وہ جس پر چاہتا ہے اپنا فضل فرماتا ہے جس کو وہ کچھ دے کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے روک لے اسے کوئی نہیں دے سکتا۔ تمام خیر اسی کے ہاتھ میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْ‌ضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَ‌أَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ يَسِيرٌ‌ ﴿٢٢﴾
نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے (١) نہ (خاص) تمہاری جانوں میں (٢) مگر اس سے پہلے کہ ہم پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے یہ کام اللہ تعالٰی پر بالکل آسان ہے۔ (۳)
٢٢۔١ مثلاً قحط، سیلاب اور دیگر آفات زمینی اور آسمانی۔
٢٢۔٢ مثلاً بیماریاں، تعب و تکان اور تنگ دستی وغیرہ۔
۲۲۔۳ یعنی اللہ نے اپنے علم کے مطابق تمام مخلوقات کی پیدائش سے پہلے ہی باتیں لکھ دی ہیں جیسے حدیث میں آتا ہے کہ اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار پہلے ہی ساری تقدیریں لکھ دی تھیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
لِّكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَ‌حُوا بِمَا آتَاكُمْ ۗ وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ‌ ﴿٢٣﴾
تاکہ تم اپنے فوت شدہ کسی چیز پر رنجیدہ نہ ہو جایا کرو اور نہ عطا کردہ چیز پر گھمنڈ میں آجاؤ (۱) اور گھمنڈ اور شیخی خوروں کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔
۲۳۔۱ یہاں جس حزن اور فرح سے روکا گیا ہے وہ غم اور خوشی ہے جو انسان کو ناجائز کاموں تک پہنچا دیتی ہے ورنہ تکلیف پر رنجیدہ اور راحت پر خوش ہونا یہ ایک فطری عمل ہے لیکن مومن تکلیف پر صبر کرتا ہے کہ اللہ کی مشیت اور تقدیر ہے جزع فزع کرنے سے کوئی اس میں تبدیلی نہیں آسکتی اور راحت پر اتراتا نہیں اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُ‌ونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ ۗ وَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّـهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ ﴿٢٤﴾
جو (خود بھی) بخل کریں اور دوسروں کو بھی بخل کی تعلیم دیں، سنو! جو بھی منہ پھیرے (١) اللہ بےنیاز اور سزاوار حمد و ثنا ہے۔
٢٤۔١ یعنی انفاق فی سبیل اللہ سے، کیونکہ اصل بخل یہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
لَقَدْ أَرْ‌سَلْنَا رُ‌سُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَنصُرُ‌هُ وَرُ‌سُلَهُ بِالْغَيْبِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ ﴿٢٥﴾
یقیناً ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (ترازو) نازل فرمایا (١) تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں اور ہم نے لوہے کو اتارا (٢) جس میں سخت ہیبت اور قوت ہے (۳) اور لوگوں کے لئے اور بھی بہت سے فائدے ہیں (٤) اور اس لئے بھی کہ اللہ جان لے کہ اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد بےدیکھے کون کرتا ہے (۵) بیشک اللہ قوت والا زبردست ہے۔
٢٥۔١ میزان سے مراد انصاف ہے اور مطلب ہے کہ ہم نے لوگوں کو انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ ترازو کیا ہے ترازو کے اتارنے کا مطلب ہے کہ ہم نے ترازو کی طرف لوگوں کی رہنمائی کی کہ اس کے ذریعے سے لوگوں کو تول کر پورا پورا حق دو۔
٢٥۔٢ یہاں بھی اتارا، پیدا کرنے اور اس کی صنعت سکھانے کے معنی میں ہے۔ لوہے سے بیشمار چیزیں بنتی ہیں یہ سب اللہ کے الہام وارشاد کا نتیجہ ہے جو اس نے انسان کو کیا ہے۔
۲۵۔۳ یعنی لوہے سے جنگی ہتھیار بنتے ہیں جیسے تلوار، نیزہ، بندوق وغیرہ جن سے دشمن پر وار کیا جا سکتا ہے اور اپنا دفاع بھی۔
۲۵۔٤ یعنی جنگی ہتھیاروں کے علاوہ بھی لوہے سے اور بھی بہت سی چیزیں بنتی ہیں جو گھروں میں اور مختلف صنعتوں میں کام آتی ہیں جیسے چھریاں، چاقو، قینچی، سوئی اور عمارت وغیرہ کا سامان اور چھوٹی بڑی مشینیں اور سازو سامان۔
۲۵۔۵ یعنی رسولوں کو اس لیے بھیجا ہے تاکہ وہ جان لے کہ کون اس کے رسولوں پر اللہ کو دیکھے بغیر ایمان لاتا اور ان کی مدد کرتا ہے۔
۲۵۔ ٦ اس کو اس بات کی حاجت نہیں کہ لوگ اس کے دین کی اور اس کے رسول کی مدد کریں بلکہ وہ چاہے تو اس کے بغیر ہی ان کو غالب فرما دے لوگوں کو تو ان کی مدد کرنے کا حکم ان کی اپنی بھلائی کے لیے دیا گیا ہے تاکہ وہ اس طرح اپنے اللہ کو راضی کرکے اس کی مغفرت کے مستحق بن جائیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ أَرْ‌سَلْنَا نُوحًا وَإِبْرَ‌اهِيمَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّ‌يَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ ۖ فَمِنْهُم مُّهْتَدٍ ۖ وَكَثِيرٌ‌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ ﴿٢٦﴾
بیشک ہم نے نوح اور ابراہیم (علیہما السلام) کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا اور ہم نے دونوں کو اولاد پیغمبری اور کتاب جاری رکھی تو ان میں کچھ تو راہ یافتہ ہوئے اور ان میں سے اکثر نافرمان رہے۔
ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِ‌هِم بِرُ‌سُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْ‌يَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَ‌أْفَةً وَرَ‌حْمَةً وَرَ‌هْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِ‌ضْوَانِ اللَّـهِ فَمَا رَ‌عَوْهَا حَقَّ رِ‌عَايَتِهَا ۖ فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَ‌هُمْ ۖ وَكَثِيرٌ‌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ ﴿٢٧﴾
ان کے بعد پھر بھی ہم اپنے رسولوں کو پے درپے بھیجتے رہے اور ان کے بعد عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا فرمائی اور ان کے ماننے والوں کے دلوں میں شفقت اور رحم پیدا کر دیا (۱) ہاں رہبانیت (ترک دنیا) تو ان لوگوں نے از خود ایجاد کر لی تھی (۲) ہم نے ان پر اسے واجب نہ (۳) کیا تھا سو اللہ کی رضا جوئی کے۔(٤) سوا انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی (٥) پھر بھی ہم نے ان میں سے جو ایمان لائے انہیں اس کا اجر دیا تھا (٦) اور ان میں زیادہ تر نافرمان لوگ ہیں۔
٢٧۔١ رَأْفَةً، کے معنی نرمی اور رحمت کے معنی شفقت کے ہیں ۔ پیروکاروں سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری ہیں، یعنی ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے پیار اور محبت کے جذبات پیدا کر دئیے۔ جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ایک دوسرے کے لیے رحیم و شفیق تھے۔ رحماء بینہم۔ یہود، آپس میں اس طرح ایک دوسرے کی ہمدر اور غم خوار نہیں، جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار تھے۔
٢٧۔٢ رَهْبَانِيَّةً رھب (خوف) سے ہے یا رھبان (درویش) کی طرف منسوب ہے اس صورت میں رے پر پیش رہے گا، یا اسے رہبنہ کی طرف منسوب مانا جائے تو اس صورت میں رے پر زبر ہوگا۔ رہبانیت کا مفہوم ترک دنیا ہے یعنی دنیا اور علائق دنیا سے منقطع ہو کر کسی جنگل، صحرا میں جاکر اللہ کی عبادت کرنا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ایسے بادشاہ ہوئے جنہوں نے تورات اور انجیل میں تبدیلی کردی، جسے ایک جماعت نے قبول نہیں کیا۔ انہوں نے بادشاہوں کے ڈر سے پہاڑوں اور غاروں میں پناہ حاصل کرلی۔ یہ اس کا آغاز تھا، جسکی بنیاد اضطرار پر تھی۔ لیکن انکے بعد آنے والے بہت سے لوگوں نے اپنے بزرگوں کی اندھی تقلید میں اس شہر بدری کو عبادت کا ایک طریقہ بنا لیا اور اپنے آپ کو گرجاؤں اور معبودوں میں محبوس کر لیا اور اسکے لیے علائق دنیا سے انقطاع کو ضروری قرار دے لیا۔ اسی کو اللہ نے ابتداع (خود گھڑنے) سے تعبیر فرمایا ہے۔
(۳) یہ پچھلی بات کی تاکید ہے کہ یہ رہبانیت ان کی اپنی ایجاد تھی، اللہ نے اس کا حکم نہیں دیا تھا۔
٢٧۔٤ یعنی ہم نے تو ان پر صرف اپنی رضا جوئی فرض کی تھی۔ دوسرا ترجمہ اس کا ہے کہ انہوں نے یہ کام اللہ کی رضا تلاش کرنے کے لئے کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالٰی نے وضاحت فرمادی کہ اللہ کی رضا، دین میں اپنی طرف سے بدعات ایجاد کرنے سے حاصل نہیں ہوسکتی، چاہے وہ کتنی ہی خوش نما ہو۔ اللہ کی رضا تو اس کی اطاعت سے ہی حاصل ہوگی۔
(٥) یعنی گو انہوں نے مقصد اللہ کی رضا جوئی بتلایا، لیکن اس کی انہوں نے پوری رعایت نہیں کی، ورنہ وہ ابتداع (بدعت ایجاد کرنے) کے بجائے اتباع کا راستہ اختیار کرتے۔
(٦) یہ وہ لوگ ہیں جو دین عیسیٰ پر قائم رہے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَآمِنُوا بِرَ‌سُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّ‌حْمَتِهِ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورً‌ا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ‌ لَكُمْ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٢٨﴾
اے لوگوں جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرتے رہا کرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دوہرا حصہ دے گا (١) اور تمہیں نور دے گا جس کی روشنی میں تم چلو پھرو گے اور تمہارے گناہ بھی معاف فرما دے گا، اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
٢٨۔١ یہ دگنا اجر اہل ایمان کو ملے گا جو نبی سے قبل پہلے کسی رسول پر ایمان رکھتے تھے پھر نبی پر بھی ایمان لے آئے جیسا کہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے (صحیح بخاری) ایک دوسری تفسیر کے مطابق جب اہل کتاب نے اس بات پر فخر کا اظہار کیا کہ انہیں دوگنا اجر ملے گا، تو اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کے حق میں یہ آیت نازل فرمائی۔(تفصیل کیلئے دیکھئے، تفسیر ابن کثیر)
لِّئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَلَّا يَقْدِرُ‌ونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّن فَضْلِ اللَّـهِ ۙ وَأَنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّـهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّـهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ﴿٢٩﴾
یہ اس لئے کہ اہل کتاب جان لیں کہ اللہ کے فضل کے حصے پر بھی انہیں اختیار نہیں اور یہ کہ (سارا) فضل اللہ ہی کے ہاتھ ہے وہ جسے چاہے دے، اور اللہ ہے ہی بڑے فضل والا۔
 
Top