• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ‌ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِ‌ي فِي الْبَحْرِ‌ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْ‌ضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِ‌يفِ الرِّ‌يَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ‌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْ‌ضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴿١٦٤﴾
آسمانوں اور زمین کی پیدائش، رات دن کا ہیر پھیر، کشتیوں کا لوگوں کو نفع دینے والی چیزیں کو لیے ہوئے سمندروں میں چلنا، آسمان سے پانی اتار کر، مردہ زمین کو زندہ کر دینا، (١) اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلا دینا، ہواؤں کے رخ بدلنا، اور بادل، جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں، ان میں عقلمندوں کے لیے قدرت الٰہی کی نشانیاں ہیں۔
١٦٤۔١ یہ آیت اس لحاظ سے بڑی جامع ہے کہ کائنات کی تخلیق اور اس کے نظم وتدبیر کے متعلق سات اہم امور کا اس میں یکجا تذکرہ ہے، جو کسی اور آیت میں نہیں۔
١- آسمان اور زمین کی پیدائش، جن کی وسعت و عظمت محتاج بیان ہی نہیں۔
٢- رات اور دن کا یکے بعد دیگرے آنا، دن کو روشنی اور رات کو اندھیرا کر دینا تاکہ کاروبار معاش بھی ہو سکے اور آرام بھی۔ پھر رات کا لمبا اور دن کا چھوٹا ہونا اور پھر اس کے برعکس دن کا لمبا اور رات کا چھوٹا ہونا۔
٣- سمندر میں کشتیوں اور جہازوں کا چلنا، جن کے ذریعے سے تجارتی سفر بھی ہوتے ہیں اور ٹنوں کے حساب سے سامان رزق و آسائش بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے۔
٤- بارش جو زمین کی شادابی و روئیدگی کے لیے نہایت ضروری ہے۔
٥- ہر قسم کے جانوروں کی پیدائش، جو نقل و حمل، کھیتی باڑی اور جنگ میں بھی کام آتے ہیں اور انسانی خوراک کی بھی ایک بڑی مقدار ان سے پوری ہوتی ہے۔
٦- ہر قسم کی ہوائیں ٹھنڈی بھی، گرم بھی، بارآور بھی اورغیربارآور بھی، شرقی غربی بھی اور شمالی جنوبی بھی۔ انسانی زندگی اور ان کی ضروریات کے مطابق۔
٧- بادل جنہیں اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے، برساتا ہے۔ یہ سارے امور کیا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیت پر دلالت نہیں کرتے؟ یقیناً کرتے ہیں۔ کیا اس تخلیق میں اور اس نظم و تدبیر میں اس کا کوئی شریک ہے؟ نہیں۔ یقیناً نہیں۔ تو پھر اس کو چھوڑ کر دوسروں کو معبود اور حاجت روا سمجھنا کہاں کی عقل مندی ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّـهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّـهِ ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّـهِ ۗ وَلَوْ يَرَ‌ى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَ‌وْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّـهِ جَمِيعًا وَأَنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ ﴿١٦٥﴾
بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے (١) اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں (٢) کاش کہ مشرک لوگ جانتے جب کہ اللہ کے عذاب کو دیکھ کر (جان لیں گے) کہ تمام طاقت اللہ ہی کو ہے اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے (تو ہرگز شرک نہ کرتے)۔
١٦٥۔١ مذکورہ دلائل واضحہ اور براہین قاطعہ کے باوجود ایسے لوگ ہیں جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اس کا شریک بنا لیتے ہیں اور ان سے اسی طرح محبت کرتے ہیں جس طرح اللہ سے کرنی چاہیے، بعثت محمدی کے وقت ہی ایسا نہیں تھا، شرک کے یہ مظاہر آج بھی عام ہیں، بلکہ اسلام کے نام لیواؤں کے اندر بھی یہ بیماری گھر کر گئی ہے، انہوں نے بھی نہ صرف غیر اللہ اور پیروں، فقیروں اور سجادہ نشینوں کو اپنا ماویٰ و ملجا اور قبلۂ حاجات بنا رکھا ہے، بلکہ ان سے ان کی محبت، اللہ سے بھی زیادہ ہے اور توحید کا وعظ ان کو بھی اسی طرح کھلتا ہے جس طرح مشرکین مکہ کو اس سے تکلیفیں ہوتی تھی، جس کا نقشہ اللہ نے اس آیت میں کھینچا ہے: ﴿وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ﴾ (سورة الزمر:45) ”اور جب تنہا اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے، ان کے دل سکڑ جاتے ہیں اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو خوش ہو جاتے ہیں۔“ ﴿اشْمَأزَّتْ﴾، دلوں کا تنگ ہونا۔
١٦٥۔٢ تاہم اہل ایمان کو مشرکین کے برعکس اللہ تعالیٰ ہی سے سب سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔ کیونکہ مشرکین جب سمندر وغیرہ میں پھنس جاتے ہیں تووہاں انہیں اپنے معبود بھول جاتے ہیں اور وہاں صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں۔ ﴿فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾ (العنكبوت: 65) ﴿وَإِذَا غَشِيَهُمْ مَوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾ (لقمان:32) ﴿وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾ (يونس: 22) ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین سخت مصیبت میں مدد کے لیے صرف ایک اللہ کو پکارتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
إِذْ تَبَرَّ‌أَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَ‌أَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ ﴿١٦٦﴾
جس وقت پیشوا لوگ اپنے تابعداروں سے بیزار ہو جائیں گے اور عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور کل رشتے ناتے ٹوٹ جائیں گے۔

وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّ‌ةً فَنَتَبَرَّ‌أَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّ‌ءُوا مِنَّا ۗ كَذَٰلِكَ يُرِ‌يهِمُ اللَّـهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَ‌اتٍ عَلَيْهِمْ ۖ وَمَا هُم بِخَارِ‌جِينَ مِنَ النَّارِ‌ ﴿١٦٧﴾
اور تابعدار لوگ کہنے لگیں گے، کاش ہم دنیا کی طرف دوبارہ جائیں تو ہم بھی ان سے ایسے ہی بیزار ہو جائیں جیسے یہ ہم سے ہیں، اسی طرح اللہ تعالٰی انہیں ان کے اعمال دکھائے گا ان کو حسرت دلانے کو، یہ ہرگز جہنم سے نہیں نکلیں گے۔
١٦٧۔١ آخرت میں پیروں اور گدی نشینوں کی بے بسی اور بے وفائی پر مشرکین حسرت کریں گے لیکن اس حسرت کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ کاش دنیا میں ہی وہ شرک سے توبہ کر لیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْ‌ضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿١٦٨﴾
لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ پیو اور شیطانی راہ پرنہ چلو، (١) وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔
١٦٨۔١ یعنی شیطان کے پیچھے لگ کر اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام مت کرو۔ جس طرح مشرکین نے کیا کہ اپنے بتوں کے نام وقف کردہ جانوروں وہ حرام کر لیتے تھے، جس کی تفصیل سورۃ الانعام میں آئے گی۔ حدیث میں آتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ”میں نے اپنے بندوں کو حنیف (حق کے لیے یکسو) پیدا کیا، پس شیطانوں نے ان کو ان کے دین سے گمراہ کر دیا اور جو چیزیں میں نے ان کے لیے حلال کی تھیں، وہ اس نے ان پر حرام کر دیں۔“ (صحيح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب الصفات التي يعرف بها في الدنيا أهل الجنة وأهل النار)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
إِنَّمَا يَأْمُرُ‌كُم بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿١٦٩﴾
وہ تمہیں صرف برائی اور بے حیائی کا اور اللہ تعالٰی پر ان باتوں کے کہنے کا حکم دیتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّـهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ ﴿١٧٠﴾
اور ان سے جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالٰی کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا، گو ان کے باپ دادے بے عقل اور گم کردہ راہ ہوں۔ (١)
١٧٠۔١ آج بھی اہل بدعت کو سمجھایا جائے کہ ان بدعات کی دین میں کوئی اصل نہیں تو وہ یہی جواب دیتے ہیں کہ یہ رسمیں تو ہمارے آبا و اجداد سے چلی آ رہی ہیں۔ حالانکہ آبا و اجداد بھی دینی بصیرت سے بے بہرہ اور ہدایت سے محروم رہ سکتے ہیں، اس لیے دلائل شریعت کے مقابلے میں آبا پرستی یا اپنے ائمہ و علماء کی اتباع غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس دلدل سے نکالے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً ۚ صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ ﴿١٧١﴾
کفار کی مثال ان جانوروں کی طرح ہے جو اپنے چرواہے کی صرف پکار اور آواز ہی سنتے ہیں (سمجھتے نہیں) وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں، انہیں عقل نہیں۔ (١)
١٧١۔١ ان کافروں کی مثال جنہوں نے تقلید آبا میں اپنی عقل و فہم کو معطل کر رکھا ہے، ان جانوروں کی طرح ہے جن کو چرواہا بلاتا اور پکارتا ہے وہ جانور آواز تو سنتے ہیں، لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ انہیں کیوں بلایا اور پکارا جا رہا ہے؟ اسی طرح یہ مقلدین بھی بہرے ہیں کہ حق کی آواز نہیں سنتے، گونگے ہیں کہ حق ان کی زبان سے نہیں نکلتا، اندھے ہیں کہ حق کے دیکھنے سے عاجز ہیں اور بے عقل ہیں کہ دعوت حق اور دعوت توحید و سنت کے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یہاں دعا سے قریب کی آواز اور ندا سے دور کی آواز مراد ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَ‌زَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُ‌وا لِلَّـهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ﴿١٧٢﴾
اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ، پیو اور اللہ تعالٰی کا شکر کرو، اگر تم خاص اسی کی عبادت کرتے رہو۔ (١)
١٧٢۔١ اس میں اہل ایمان کو ان تمام پاکیزہ چیزوں کے کھانے کا حکم ہے جو اللہ نے حلال کی ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی تاکید ہے۔ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ اللہ کی حلال کردہ چیزیں ہی پاک اور طیب ہیں، حرام کردہ اشیاء پاک نہیں، چاہے وہ نفس کو کتنی ہی مرغوب ہوں (جیسے اہل یورپ کو سور کا گوشت بڑا مرغوب ہے) دوسرا یہ کہ بتوں کے نام پر منسوب جانوروں اور اشیا کو مشرکین اپنے اوپر جو حرام کر لیتے تھے (جس کی تفصیل سورۃ الانعام میں ہے) مشرکین کا یہ عمل غلط ہے اور اس طرح ایک حلال چیز حرام نہیں ہوتی، تم ان کی طرح ان کو حرام مت کرو (حرام صرف وہی ہیں جس کی تفصیل اس کے بعد والی آیت میں ہے)، تیسرا یہ کہ اگر تم صرف ایک اللہ کے عبادت گزار ہو تو ادائے شکر کا اہتمام کرو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
إِنَّمَا حَرَّ‌مَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ‌ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ‌ اللَّـهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ‌ غَيْرَ‌ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١٧٣﴾
تم پر مردہ اور (بہا ہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے (١) پھر جو مجبور ہو جائے اور وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو، اس پر ان کے کھانے میں کوئی گناہ نہیں، اللہ تعالٰی بخشش والا مہربان ہے۔
١٧٣۔١ اس آیت میں چار حرام کردہ چیزوں کا ذکر ہے، لیکن اسے کلمہ حصر (انما) کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، جس سے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ حرام صرف یہی چار چیزیں ہیں، جب کہ ان کے علاوہ بھی کئی چیزیں حرام ہیں، اس لیے اول تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ حصر ایک خاص سیاق میں آیا ہے، یعنی مشرکین کے اس فعل کے ضمن میں کہ وہ حلال جانوروں کو بھی، حرام قرار دے لیتے تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ حرام نہیں، حرام تو صرف یہ یہ ہیں۔ اس لیے حصر اضافی ہے، یعنی اس کے علاوہ بھی دیگر محرمات ہیں جو یہاں مذکور نہیں۔ دوسرے، حدیث میں دو اصول، جانوروں کی حلت و حرمت کے لیے، بیان کر دیئے گئے ہیں، وہ آیت کی صحیح تفسیر کے طور پر سامنے رہنے چاہئیں درندوں میں ذو ناب (وہ درندہ جو کچلیوں سے شکار کرے) اور پرندوں میں ذو مخلب (جو پنجے سے شکار کرے) حرام ہیں، تیسرے، جن جانوروں کی حرمت حدیث سے ثابت ہے، مثلاً گدھا، کتا وغیرہ وہ بھی حرام ہیں، جس سے اس بات کی طرف اشارہ نکلتا ہے کہ حدیث بھی قرآن کریم کی طرح دین کا ماخذ اور دین میں حجت ہے اور دین دونوں کے ماننے سے مکمل ہوتا ہے، نہ کہ حدیث کو نظرانداز کر کے، صرف قرآن سے۔ مردہ سے مراد ہر وہ حلال جانور ہے، جو بغیر ذبح کئے طبعی طور پر یا کسی حادثے سے (جس کی تفصیل سورۂ المائدہ میں ہے) مر گیا ہو۔ یا شرعی طریقے کے خلاف اسے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً گلا گھونٹ دیا جائے، یا پتھر اور لکڑی وغیرہ سے مارا جائے، یا جس طرح آج کل مشینی ذبح کا طریقہ ہے جس میں جھٹکے سے مارا جاتا ہے۔ البتہ حدیث میں دو مردار جانور حلال قرار دیئے گئے ہیں۔ ایک مچھلی، دوسری ٹڈی، وہ اس حکم میتہ سے مستثنیٰ ہیں۔ خون سے مراد دم مسفوح ہے۔ یعنی ذبح کے وقت جو خون نکلتا اور بہتا ہے۔ گوشت کے ساتھ جو خون لگا رہ جاتا ہے وہ حلال ہے۔ یہاں بھی دو خون حدیث کی رو سے حلال ہیں: کلیجی اور تلی۔ خنزیر یعنی سور کا گوشت، یہ بے غیرتی میں بد ترین جانور ہے، اللہ نے اسے حرام قرار دیا ہے ﴿وَمَا أُهِلَّ﴾ وہ جانور یا کوئی اور چیز جسے غیر اللہ کے نام پر پکارا جائے۔ اس سے مراد وہ جانور ہیں جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کئے جائیں۔ جیسے مشرکین عرب لات و عزیٰ وغیرہ کے ناموں پر ذبح کرتے تھے، یا آگ کے نام پر، جیسے مجوسی کرتے تھے۔ اور اسی میں وہ جانور بھی آ جاتے ہیں جو جاہل مسلمان فوت شدہ بزرگوں کی عقیدت و محبت، ان کی خوشنودی و تقرب حاصل کرنے کے لیے یا ان سے ڈرتے اور امید رکھتے ہوئے، قبروں اور آستانوں پر ذبح کرتے ہیں، یا مجاورین کو بزرگوں کی نیاز کے نام پر دے آتے ہیں (جیسے بہت سے بزرگوں کی قبروں پر بورڈ لگے ہوئے ہیں مثلاً داتا صاحب کی نیاز کے لیے بکرے یہاں جمع کرائے جائیں)، ان جانوروں کو، چاہے ذبح کے وقت اللہ ہی کا نام لے کر ذبح کیا جائے، یہ حرام ہی ہوں گے۔ کیوں کہ اس سے مقصود، رضائے الہیٰ نہیں، رضائے اہل قبور اور تعظیم لغیر اللہ، یا خوف یا رجاء من غیر اللہ (غیر اللہ سے مافوق الاسباب طریقے سے ڈر یا امید) ہے، جو شرک ہے۔ اسی طریقے سے جانوروں کے علاوہ جو اشیا بھی غیر اللہ کے نام پر نذر نیاز اور چڑھاوے کی ہوں گی، حرام ہوں گی، جیسے قبروں پر لے جا کر یا وہاں سے خرید کر، قبور کے ارد گرد فقرا، و مساکین پر دیگوں اور لنگروں کی، یا مٹھائی اور پیسوں وغیرہ کی تقسیم، یا وہاں صندوقچی میں نذر نیاز کے پیسے ڈالنا، یا عرس کے موقع پر وہاں دودھ پہنچانا، یہ سب کام حرام اور ناجائز ہیں، کیوں کہ یہ سب غیر اللہ کی نذر و نیاز کی صورت ہیں اور نذر بھی نماز، روزہ وغیرہ عبادات کی طرح، ایک عبادت ہے، اور عبادت کی ہر قسم صرف ایک اللہ کے لیے مخصوص ہے۔ اسی لیے حدیث میں ہے: مَلْعُونٌ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللهِ (صحيح الجامع الصغير وزيادته ألبانی۔ ج2 ص1024) ”جس نے غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کیا، وہ ملعون ہے۔“ تفسیر عزیزی میں بحوالہ تفسیر نیشا پوری ہے: ”أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ لَوْ أَنَّ مُسْلِمًا ذَبَحَ ذَبِيحَةً، يُرِيدُ بِذَبْحِهَا التَّقَرُّبَ إِلَى غَيْرِ اللهِ، صَارَ مُرْتَدًّا وَذَبِيحَتُهُ ذَبِيحَةُ مُرْتَدٍّ۔“ (تفسیر عزیزی ص 611 بحوالہ اشرف الحواشی) ”علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کوئی جانور غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کیا تو وہ مرتد ہو جائے گا اور اس کا ذبیحہ ایک مرتد کا ذبیحہ ہو گا۔“
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُ‌ونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۙ أُولَـٰئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ‌ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّـهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿١٧٤﴾
بے شک جو لوگ اللہ تعالٰی کی اتاری ہوئی کتاب چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی تھوڑی سی قیمت پر بیچتے ہیں، یقین مانو کہ یہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں، قیامت کے دن اللہ تعلیٰ ان سے بات بھی نہ کرے گا، اور نہ انہیں پاک کرے گا، بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَ‌وُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَ‌ةِ ۚ فَمَا أَصْبَرَ‌هُمْ عَلَى النَّارِ‌ ﴿١٧٥﴾
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے اور عذاب کو مغفرت کے بدلے خرید لیا ہے، یہ لوگ آگ کا عذاب کتنا برداشت کرنے والے ہیں۔

ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّـهَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ ﴿١٧٦﴾
ان عذابوں کا باعث یہی ہے کہ اللہ تعالٰی نے سچی کتاب اتاری اور اس کتاب میں اختلاف کرنے والے یقینًا دور کے خلاف میں ہیں۔

لَّيْسَ الْبِرَّ‌ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِ‌قِ وَالْمَغْرِ‌بِ وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ‌ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْ‌بَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّ‌قَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِ‌ينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّ‌اءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ﴿١٧٧﴾
ساری اچھائی مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں (١) بلکہ حقیقتًا اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالٰی پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو، جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دے، غلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی اور زکوۃ کی ادائیگی کرے، جب وعدہ کرے تب اسے پورا کرے، تنگدستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔
١٧٧۔١ یہ آیت قبلے کے ضمن میں ہی نازل ہوئی۔ ایک تو یہودی اپنے قبلے کو (جو بیت المقدس کا مغربی حصہ ہے) اور نصاریٰ اپنے قبلے کو (جو بیت المقدس کا مشرقی حصہ ہے) بڑی اہمیت دے رہے تھے اور اس پر فخر کر رہے تھے۔ دوسری طرف مسلمانوں کے تحویل قبلہ پر چہ میگوئیاں کر رہے تھے، جس سے بعض مسلمان بھی بعض دفعہ کبیدہ خاطر ہو جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، مشرق یا مغرب کی طرف رخ کر لینا بذات خود کوئی نیکی نہیں ہے بلکہ یہ تو صرف مرکزیت اور اجتماعیت کے حصول کا ایک طریقہ ہے، اصل نیکی تو ان عقائد پر ایمان رکھنا ہے جو اللہ نے بیان فرمائے اور ان اعمال و اخلاق کو اپنانا ہے جس کی تاکید اس نے فرمائی ہے۔ پھر آگے ان عقائد و اعمال کا بیان ہے۔ اللہ پر ایمان یہ ہے کہ اسے اپنی ذات و صفات میں یکتا، تمام عیوب سے پاک و منزہ اور قرآن و حدیث میں بیان کردہ تمام صفات باری کو بغیر کسی تاویل یا تعطیل یا تکییف کے تسلیم کیا جائے۔ آخرت کے روز جزا ہونے، حشر نشر اور جنت و دوزخ پر یقین رکھا جائے۔ الْكِتَابِ، سے مراد تمام آسمانی کتابوں کی صداقت پر ایمان ہے۔ اور فرشتوں کے وجود پر اور تمام پیغمبروں پر یقین رکھا جائے۔ ان ایمانیات کے ساتھ ان اعمال کو اپنایا جائے جس کی تفصیل اس آیت میں ہے۔ عَلَى حُبّهِ میں (ہ) ضمیر مال کی طرف راجع ہے، یعنی مال کی محبت کے باوجود مال خرچ کرے۔ الْبَأْسَاءِ سے تنگ دستی اور شدت فقرالضَّرَّاء سے نقصان یا بیماری اور الْبَأْسِ سے لڑائی اور اس کی شدت مراد ہے۔ ان تینوں حالتوں میں صبر کرنا، یعنی احکامات الٰہیہ سے سرمو انحراف نہ کرنا نہایت کٹھن ہوتا ہے اس لیے ان حالتوں کو خاص طور پر بیان فرمایا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ‌ بِالْحُرِّ‌ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُ‌وفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ذَٰلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّ‌بِّكُمْ وَرَ‌حْمَةٌ ۗ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿١٧٨﴾
اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے، آزاد آزاد کے بدلے، غلام غلام کے بدلے، عورت عورت کے بدلے۔ (١) ہاں جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے اسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہیے اور آسانی کے ساتھ دیت ادا کرنی چاہیے۔ (٢) تمہارے رب کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے (٣) اس کے بعد بھی جو سرکشی کرے اسے دردناک عذاب ہو گا۔ (٤)
١٧٨۔١ زمانہء جاہلیت میں کوئی نظم اور قانون تو تھا نہیں، اس لیے زور آور قبیلے کمزور قبیلوں پر جس طرح چاہتے، ظلم و جور کا ارتکاب کر لیتے۔ ایک ظلم کی شکل یہ تھی کہ کسی طاقت ور قبیلے کا کوئی مرد قتل ہو جاتا تو وہ صرف قاتل کو قتل کرنے کے بجائے قاتل کے قبیلے کے کئی مردوں کو، بلکہ بسا اوقات پورے قبیلے ہی کو تہس نہس کرنے کی کوشش کرتے اور عورت کے بدلے مرد کو اور غلام کے بدلے آزاد کو قتل کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فرق و امتیاز کو ختم کرتے ہوئے فرمایا کہ جو قاتل ہو گا، قصاص (بدلے) میں اسی کو قتل کیا جائے گا۔ قاتل آزاد ہے تو بدلے میں وہی آزاد، غلام ہے تو بدلے میں وہی غلام اور عورت ہے تو بدلے میں وہی عورت ہی قتل کی جائے گی، نہ کہ غلام کی جگہ آزاد اور عورت کی جگہ مرد، یا ایک مرد کے بدلے میں متعدد مرد۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مرد اگر عورت کو قتل کر دے تو قصاص میں کوئی عورت قتل کی جائے گی، یا عورت مرد کو قتل کر دے تو کسی مرد کو قتل کیا جائے گا (جیسا کہ ظاہری الفاظ سے مفہوم نکلتا ہے) بلکہ یہ الفاظ شان نزول کے اعتبار سے ہیں جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ قصاص میں قاتل ہی کو قتل کیا جائے گا، چاہے مرد ہو یا عورت، طاقتور ہو یا کمزور۔ الْمُسْلِمُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ (سنن أبي داود، كتاب الجهاد، باب في السرية ترد على أهل العسكر) "تمام مسلمانوں کے خون (مرد ہو یا عورت) برابر ہیں"۔ گویا آیت کا وہی مفہوم ہے جو قرآن کریم کی دوسری آیت النَّفْسَ بِالنَّفْسِ (المائدۂ: 45) کا ہے۔ احناف نے اس سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان کو کافر کے قصاص میں قتل کیا جائے گا لیکن جمہور علماء اس کے قائل نہیں، کیوں کہ حدیث میں وضاحت ہے: لا يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ (صحيح بخاري، كتاب الديات، باب لا يقتل المسلم بالكافر) "مسلمان، کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا" (فتح القدیر) مزید دیکھیے آیت 45، سورۃ المائدہ۔
١٧٨۔٢ معافی کی دو صورتیں ہیں: ایک بغیر معاوضہ مالی یعنی دیت لیے بغیر ہی محض رضائے الٰہی کے لیے معاف کر دینا، دوسری صورت، قصاص کی بجائے دیت قبول کر لینا، اگر یہ دوسری صورت اختیار کی جائے تو کہا جا رہا ہے کہ طالب دیت بھلائی کا اتباع کرے۔ ﴿وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ﴾ میں قاتل کو کہا جا رہا ہے کہ بغیر تنگ کیے اچھے طریقے سے دیت کی ادائیگی کرے۔ اولیائے مقتول نے اس کی جان بخشی کر کے اس پر جو احسان کیا ہے، اس کا بدلہ احسان ہی کے ساتھ دے۔ هَلْ جَزَاءُ الإِحْسَانِ إِلا الإِحْسَانُ (سورۃ الرحمٰن)
١٧٨۔٣ یہ تخفیف اور رحمت (یعنی قصاص، معافی یا دیت تین صورتیں) اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص تم پر ہوئی ہے ورنہ اس سے قبل اہل تورات کے لیے قصاص یا معافی تھی، دیت نہیں تھی اور اہل انجیل (عیسائیوں) میں صرف معافی ہی تھی، قصاص تھا نہ دیت۔ (ابن کثیر)
١٧٨۔٤ قبول دیت یا اخذ دیت کے بعد قتل بھی کر دے تو یہ سرکشی اور زیادتی ہے جس کی سزا اسے دنیا و آخرت میں بھگتنی ہو گی۔
 
Top