• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَمَن يَهْدِ اللَّـهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُمْ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِهِ ۖ وَنَحْشُرُ‌هُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَىٰ وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا ۖ مَّأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرً‌ا ﴿٩٧﴾
اللہ جس کی رہنمائی کرے وہ تو ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ راہ سے بھٹکا دے ناممکن ہے کہ تو اس کا مددگار اس کے سوا کسی اور کو پائے، (١) ایسے لوگوں کا ہم بروز قیامت اوندھے منہ حشر کریں گے (٢) دراں حالیکہ وہ اندھے گونگے اور بہرے ہونگے (٣) ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا جب کبھی وہ بجھنے لگے گی ہم ان پر اسے اور بھڑکا دیں گے۔
٩٧۔١ میری تبلیغ و دعوت سے کون ایمان لاتا ہے، کون نہیں، یہ بھی اللہ کے اختیار میں ہے، میرا کام صرف تبلیغ ہی ہے۔
٩٧۔٢ حدیث میں آتا ہے کہ صحابہ کرام نے تعجب کا اظہار کیا کہ اوندھے منہ کس طرح حشر ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس اللہ نے ان کو پیروں سے چلنے کی قوت عطا کی ہے، وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ انہیں منہ کے بل چلا دے۔
٩٧۔٣ یعنی جس طرح وہ دنیا میں حق کے معاملے میں اندھے، بہرے اور گونگے بنے رہے، قیامت والے دن بطور جزا اندھے، بہرے اور گونگے ہوں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ذَٰلِكَ جَزَاؤُهُم بِأَنَّهُمْ كَفَرُ‌وا بِآيَاتِنَا وَقَالُوا أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُ‌فَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا ﴿٩٨﴾
یہ سب ہماری آیتوں سے کفر کرنے اور اس کے کہنے کا بدلہ ہے کہ کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزے ریزے ہوجائیں گے پھر ہم نئی پیدائش میں اٹھ کھڑے کئے جائیں (١) گے؟
٩٨۔١ یعنی جہنم کی یہ سزا ان کو اس لئے دی جائیگی کہ انہوں نے ہماری نازل کردہ آیات کی تصدیق نہیں کی اور کائنات میں پھیلی ہوئی تکوینی آیات پر غور و فکر نہیں کیا، جس کی وجہ سے انہوں نے و قوع قیامت اور بعث بعد الموت کو محال خیال کیا اور کہا کہ ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جانے کے بعد ہمیں نئی پیدائش کس طرح مل سکتی ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
أَوَلَمْ يَرَ‌وْا أَنَّ اللَّـهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ قَادِرٌ‌ عَلَىٰ أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَجَعَلَ لَهُمْ أَجَلًا لَّا رَ‌يْبَ فِيهِ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُورً‌ا ﴿٩٩﴾
کیا انہوں نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ جس اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا وہ ان جیسوں کی پیدائش پر پورا قادر ہے (١) اسی نے ان کے لئے ایک ایسا وقت مقرر کر رکھا ہے جو شک و شبہ سے یکسر خالی ہے، (٢) لیکن ظالم لوگ انکار کئے بغیر رہتے ہی نہیں۔
٩٩۔١ اللہ نے ان کے جواب میں فرمایا کہ جو اللہ آسمانوں اور زمین کا خالق ہے، وہ ان جیسوں کی پیدائش یا دوبارہ انہیں زندگی دینے پر بھی قادر ہے، کیونکہ یہ تو آسمان و زمین کی تخلیق سے زیادہ آسان ہے۔ (لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ) 40۔ المؤمن:57)۔ المومن۔ آسمان اور زمین کی پیدائش انسانوں کی تخلیق سے زیادہ بڑا اور مشکل کام ہے۔ اسی مضمون کو اللہ تعالٰی نے سورۃ الاحقاف میں اور سورہ یسین میں بھی بیان فرمایا ہے۔
٩٩۔٢ اس اجل (وقت مقرر) سے مراد موت یا قیامت ہے۔ یہاں سیاق کلام کے اعتبار سے قیامت مراد لینا زیادہ صحیح ہے یعنی ہم نے انہیں دوبارہ زندہ کر کے قبروں سے اٹھانے کے لئے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ وما تؤخرہ الا لاجل معدود۔ ہود۔ ہم ان کے معاملے کو ایک وقت مقرر تک کے لیے ہی مؤخر کر رہے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائِنَ رَ‌حْمَةِ رَ‌بِّي إِذًا لَّأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْإِنفَاقِ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ قَتُورً‌ا ﴿١٠٠﴾
کہہ دیجئے کہ اگر بالفرض تم میرے رب کی رحمتوں کے خزانوں کے مالک بن جاتے تو تم اس وقت بھی اس کے خرچ ہو جانے (١) کے خوف سے اس کو روکے رکھتے اور انسان ہے ہی تنگ دل ہے۔
١٠٠۔١ خشیۃ الانفاق کا مطلب ہے۔ خشیۃ ان ینفقوا فیفتقروا۔ اس خوف سے کہ خرچ کر کے ختم کر ڈالیں گے، اس کے بعد فقیر ہو جائیں گے۔ حالانکہ یہ خزانہ الٰہی جو ختم ہونے والا نہیں لیکن چونکہ انسان تنگ دل واقع ہوا ہے، اس لئے بخل سے کام لیتا ہے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالٰی نے فرمایا (اَمْ لَھُمْ نَصِيْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَاِذًا لَّا يُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِيْرًا)۔ 4۔ النساء:53)۔ یعنی ان کو اگر اللہ کی بادشاہی میں سے کچھ حصہ مل جائے تو یہ لوگوں کو کچھ نہ دیں۔ نقیر کھجور کی گٹھلی میں جو گڑھا ہوتا ہے اس کو کہتے ہیں یعنی تل برابر بھی کسی کو نہ دیں یہ تو اللہ کی مہربانی اور اس کا فضل وکرم ہے کہ اس نے اپنے خزانوں کے منہ لوگوں کے لیے کھولے ہوئے ہیں جس طرح حدیث میں ہے اللہ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں وہ رات دن خرچ کرتا ہے لیکن اس میں کوئی کمی نہیں آتی ذرا دیکھو تو سہی جب سے آسمان و زمین اس نے پیدا کیے ہیں کس قدر خرچ کیا ہوگا لیکن اس کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس میں کمی نہیں وہ بھرے کے بھرے ہیں۔ البخاری۔ مسلم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۖ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ إِذْ جَاءَهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْ‌عَوْنُ إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَىٰ مَسْحُورً‌ا ﴿١٠١﴾
ہم نے موسیٰ کو نو معجزے (٢) بالکل صاف صاف عطا فرمائے، تو خود ہی بنی اسرائیل سے پوچھ لے کہ جب وہ ان کے پاس پہنچے تو فرعون بولا کہ اے موسٰی! میرے خیال میں تو تجھ پر جادو کر دیا گیا ہے۔
١٠١۔١ وہ نو معجزے ہیں۔ ہاتھ، لاٹھی، قحط سالی، نقص ثمرات، طوفان، جراد (ٹڈی دل) قمل (کھٹمل، جوئیں) ضفاد (مینڈک) اور خون، امام حسن بصری کہتے ہیں، کہ قحط سالی اور نقص ثمرات ایک ہی چیز ہے اور نواں معجزہ لاٹھی کا جادو گروں کی شعبدہ بازی کو نگل جانا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کے علاوہ بھی معجزات دیئے گئے تھے مثلًا لاٹھی کا پتھر پر مارنا، جس سے بارہ چشمے ظاہر ہوگئے تھے، بادلوں کا سایہ کرنا، من و سلوی وغیرہ۔ لیکن یہاں آیات تسعہ سے صرف وہی نو معجزات مراد ہیں، جن کا مشاہدہ فرعون اور اس کی قوم نے کیا۔ اسی لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انفلاق بحر (سمندر کا پھٹ کر راستہ بن جانے) کو بھی ان نو معجزات میں شمار کیا ہے اور قحط سالی اور نقص ثمرات کو ایک معجزہ شمار کیا ہے ترمذی کی ایک روایت میں آیات تسعہ کی تفصیل اس سے مختلف بیان کی گئی ہے لیکن سنداً وہ روایت ضعیف ہے اس لیے آیات تسعہ سے مراد یہی مذکورہ معجزات ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنزَلَ هَـٰؤُلَاءِ إِلَّا رَ‌بُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ بَصَائِرَ‌ وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا فِرْ‌عَوْنُ مَثْبُورً‌ا ﴿١٠٢﴾
موسیٰ نے جواب دیا کہ یہ تو تجھے علم ہو چکا ہے کہ آسمان و زمین کے پروردگار ہی نے یہ معجزے دکھانے، سمجھانے کو نازل فرمائے ہیں، اے فرعون! میں تو سمجھ رہا ہوں کہ تو یقیناً تباہ اور ہلاک کیا گیا ہے۔
فَأَرَ‌ادَ أَن يَسْتَفِزَّهُم مِّنَ الْأَرْ‌ضِ فَأَغْرَ‌قْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ جَمِيعًا ﴿١٠٣﴾
آخر فرعون نے پختہ ارادہ کر لیا کہ انہیں زمین سے ہی اکھیڑ دے تو ہم نے خود اسے اور اس کے تمام ساتھیوں کو غرق کر دیا۔
وَقُلْنَا مِن بَعْدِهِ لِبَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ اسْكُنُوا الْأَرْ‌ضَ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَ‌ةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا ﴿١٠٤﴾
اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے فرما دیا کہ اس سرزمین (١) پر رہو سہو۔ ہاں جب آخرت کا وقت آئے گا ہم سب کو سمیٹ لپیٹ کر لے آئیں گے
١٠٤۔١ بظاہر اس سرزمین جس سے فرعون نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نکالنے کا ارادہ کیا تھا۔ مگر تاریخ بنی اسرائیل کی شہادت یہ ہے کہ مصر سے نکلنے کے بعد دوبارہ مصر نہیں گئے، بلکہ چالیس سال میدان تیہ میں گزار کر فلسطین میں داخل ہوئے۔ اس کی شہادت سورہ اعراف وغیرہ میں قرآن کے بیان سے ملتی ہے۔ اس لئے صحیح یہی ہے کہ اس سے مراد فلسطین کی سرزمین ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَبِالْحَقِّ أَنزَلْنَاهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ ۗ وَمَا أَرْ‌سَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرً‌ا وَنَذِيرً‌ا ﴿١٠٥﴾
اور ہم نے اس قرآن کو حق کے ساتھ اتارا اور یہ بھی حق کے ساتھ اترا (١) ہم نے آپ کو صرف خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا (٢) بنا کر بھیجا ہے۔
١٠٥۔١ یعنی با حفاظت آپ تک پہنچ گیا، اس میں راستے میں کوئی کمی بیشی اور کوئی تبدیلی اور آمیزش نہیں کی گئی اس لئے کہ اس کو لانے والا فرشتہ۔ شدید القوی، الامین، المکین اور المطاع فی الملاء الاعلی ہے۔ یہ وہ صفات ہیں جو حضرت جبرائیل علیہ السلام کے متعلق قرآن میں بیان کی گئی ہیں۔
١٠٥۔٢ بَشِیْر اطاعت گزار مومن کے لئے اور نَذِیْر نافرمان کے لئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَقُرْ‌آنًا فَرَ‌قْنَاهُ لِتَقْرَ‌أَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَىٰ مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنزِيلًا ﴿١٠٦﴾
قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے اس لئے اتارا (١) ہے کہ آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائیں اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا۔
١٠٦۔١ فَرَقْنَاہُ کے ایک دوسرے معنی بَیَّنَّاہ وَ اَوْضَحْنَاہ (ہم نے اسے کھول کر وضاحت سے بیان کر دیا) بھی کئے گئے ہیں
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا ۚ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّ‌ونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا ﴿١٠٧﴾
کہہ دیجئے! تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان کے پاس تو جب بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں (١)۔
١٠٧۔١ یعنی وہ علماء جنہوں نے نزول قرآن سے قبل کتب سابقہ پڑھی ہیں اور وہ وحی کی حقیقت اور رسالت کی علامات سے واقف ہیں، وہ سجدہ ریز ہوتے ہیں، اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہ انہیں آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان کی توفیق دی اور قرآن و رسالت پر ایمان لانے کی سعادت نصیب فرمائی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَ‌بِّنَا إِن كَانَ وَعْدُ رَ‌بِّنَا لَمَفْعُولًا ﴿١٠٨﴾
اور کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے، ہمارے رب کا وعدہ بلا شک و شبہ پورا ہو کر رہنے (١) والا ہی ہے۔
۱۰۸۔۱ مطلب یہ ہے کہ یہ کفار مکہ جو ہرچیز سے ناواقف ہیں اگر یہ ایمان نہیں لاتے تو آپ پروانہ کریں اس لیے کہ جو اہل علم ہیں اور وحی ورسالت کی حقیقت سے آشنا ہیں وہ اس پر ایمان لے آئے ہیں بلکہ قرآن سن کر وہ بارگاہ الہی میں سجدہ ریز ہوگئے ہیں اور اس کی پاکیزگی بیان کرتے اور رب کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں۔
 
Top