• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
أَمْ يَقُولُونَ بِهِ جِنَّةٌ ۚ بَلْ جَاءَهُم بِالْحَقِّ وَأَكْثَرُ‌هُمْ لِلْحَقِّ كَارِ‌هُونَ ﴿٧٠﴾
یا یہ کہتے ہیں کہ اسے جنون ہے (١) بلکہ وہ تو ان کے پاس حق لایا ہے۔ ہاں ان میں اکثر حق سے چڑنے والے ہیں (٢)۔
٧٠۔١ یہ بھی زجر و توبیخ کے طور پر ہی ہے یعنی اس پیغمبر نے ایسا قرآن پیش کیا جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔ اسی طرح اس کی تعلیمات نوع انسانی کے لئے رحمت اور امن و سکون کا باعث ہیں۔ کیا ایسا قرآن اور ایسی تعلیمات ایسا شخص بھی پیش کر سکتا ہے جو دیوانہ اور مجنون ہو۔
٧٠۔٢ یعنی ان کے اعراض اور استکبار کی اصل وجہ حق سے ان کی کراہت (ناپسدیدگی) ہے جو عرصہ دراز سے باطل کو اختیار کئے رکھنے کی وجہ سے ان کے اندر پیدا ہوگئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْ‌ضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ بَلْ أَتَيْنَاهُم بِذِكْرِ‌هِمْ فَهُمْ عَن ذِكْرِ‌هِم مُّعْرِ‌ضُونَ ﴿٧١﴾
اگر حق ہی ان کی خواہشوں کا پیرو ہو جائے تو زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہرچیز درہم برہم ہو جائے (١) حق تو یہ ہے کہ ہم نے انہیں ان کی نصیحت پہنچا دی ہے لیکن وہ اپنی نصیحت سے منہ موڑنے والے ہیں۔
٧١۔١ حق سے مراد دین اور شریعت ہے۔ یعنی اگر دین ان کی خواہشات کے مطابق اترے تو ظاہر بات ہے کہ زمین و آسمان کا سارا نظام ہی درہم برہم ہو جائے۔ مثلاً وہ چاہتے ہیں کہ ایک معبود کے بجائے متعدد معبود ہوں، اگر فی الواقع ایسا ہو، تو کیا نظام کائنات ٹھیک رہ سکتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْ‌جًا فَخَرَ‌اجُ رَ‌بِّكَ خَيْرٌ‌ ۖ وَهُوَ خَيْرُ‌ الرَّ‌ازِقِينَ ﴿٧٢﴾
کیا آپ ان سے کوئی اجرت چاہتے ہیں؟ یاد رکھئے کہ آپ کے رب کی اجرت بہت ہی بہتر ہے اور وہ سب سے بہتر روزی رساں ہے۔
وَإِنَّكَ لَتَدْعُوهُمْ إِلَىٰ صِرَ‌اطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٧٣﴾
یقیناً آپ انہیں راہ راست کی طرف بلا رہے ہیں۔
وَإِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَ‌ةِ عَنِ الصِّرَ‌اطِ لَنَاكِبُونَ ﴿٧٤﴾
بیشک جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ سیدھے راستے سے مڑ جانے والے ہیں (١)۔
٧٤۔١ یعنی صراط مستقیم سے انحراف کی وجہ آخرت پر عدم ایمان ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَوْ رَ‌حِمْنَاهُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِهِم مِّن ضُرٍّ‌ لَّلَجُّوا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ ﴿٧٥﴾
اور اگر ہم ان پر رحم فرمائیں اور ان کی تکلیفیں دور کر دیں تو یہ تو اپنی اپنی سرکشی میں جم کر اور بہکنے لگیں (١)
٧٥۔١ اسلام کے خلاف ان کے دلوں میں جو بغض و عناد تھا اور کفر و شرک کی دلدل میں جس طرح وہ پھنسے ہوئے تھے، اس میں ان کا بیان ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُم بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَ‌بِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّ‌عُونَ ﴿٧٦﴾
اور ہم نے انہیں عذاب میں پکڑا تاہم یہ لوگ نہ تو اپنے پروردگار کے سامنے جھکے اور نہ ہی عاجزی اختیار کی (١)۔
٧٦۔١ عذاب سے مراد یہاں وہ شکست ہے جو جنگ بدر میں کفار مکہ کو ہوئی، جس میں ان کے ستر آدمی مارے گئے تھے یا وہ قحط سالی کا عذاب ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا کے نتیجے میں ان پر آیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی تھی ' اے اللہ، جس طرح حضرت یوسف کے زمانے میں سات سال قحط رہا، اسی طرح قحط سالی میں انہیں مبتلا کر کے ان کے مقابلے میں میری مدد فرما ' چنانچہ کفار مکہ اس قحط سالی میں مبتلا ہوگئے جس پر حضرت سفیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہیں اللہ کا اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر کہا کہ اب تو ہم جانوروں کی کھالیں اور خون تک کھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ جس پر آیت نازل ہوئی (ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
حَتَّىٰ إِذَا فَتَحْنَا عَلَيْهِم بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِيدٍ إِذَا هُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ ﴿٧٧﴾
یہاں تک کہ جب ہم نے ان پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیا تو اسی وقت فوراً مایوس ہوگئے (١)
٧٧۔١ اس سے دنیا کا عذاب بھی مراد ہو سکتا ہے اور آخرت کا بھی، جہاں وہ تمام راحت اور خیر سے مایوس اور محروم ہوں گے اور تمام امیدیں منقطع ہو جائیں گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ‌ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُ‌ونَ ﴿٧٨﴾
وہ اللہ ہے جس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل پیدا کئے، مگر تم بہت (ہی) کم شکر کرتے ہو (١)
٧٨۔١ یعنی عقل و فہم اور سننے کی صلاحتیں عطا کیں تاکہ ان کے ذریعے سے وہ حق کو پہچانیں، سنیں اور اسے قبول کریں۔ یہی ان نعمتوں کا شکر ہے۔ مگر یہ شکر کرنے والے یعنی حق کو اپنانے والے کم ہی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَهُوَ الَّذِي ذَرَ‌أَكُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ وَإِلَيْهِ تُحْشَرُ‌ونَ ﴿٧٩﴾
اور وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کرکے زمین میں پھیلا دیا اور اسی کی طرف جمع کئے جاؤ گے (١)۔
٧٩۔١ اس میں اللہ کی قدرت عظیمہ کا بیان ہے کہ جس طرح اس نے تمہیں پیدا کر کے مختلف اطراف میں پھیلا دیا ہے۔ تمہارے رنگ بھی ایک دوسرے سے مختلف، زبانیں بھی مختلف اور عادات و رسومات بھی مختلف۔ پھر ایک وقت آئے گا کہ تم سب کو زندہ کر کے وہ اپنی بارگاہ میں جمع فرمائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَهُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ وَلَهُ اخْتِلَافُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ‌ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿٨٠﴾
اور وہی ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے اور رات دن کے ردو بدل (١) کا مختار بھی وہی ہے۔ کیا تم کو سمجھ بوجھ نہیں (٢)
٨٠۔١ یعنی رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات کا آنا، پھر رات اور دن کا چھوٹا بڑا ہونا۔
٨٠۔٢ جس سے تم یہ سمجھ سکو کہ یہ سب کچھ اس ایک اللہ کی طرف سے ہے جو ہرچیز پر غالب ہے اور اس کے سامنے ہرچیز جھکی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
بَلْ قَالُوا مِثْلَ مَا قَالَ الْأَوَّلُونَ ﴿٨١﴾
بلکہ ان لوگوں نے بھی ویسی ہی بات کہی جو اگلے کہتے چلے آئے
قَالُوا أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَ‌ابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ ﴿٨٢﴾
کہ کیا جب ہم مر کر مٹی اور ہڈی ہوجائیں گے کیا پھر بھی ہم ضرور اٹھائے جائیں گے۔
لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا هَـٰذَا مِن قَبْلُ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ‌ الْأَوَّلِينَ ﴿٨٣﴾
ہم سے ہمارے باپ دادوں سے پہلے ہی سے یہ وعدہ ہوتا چلا آیا ہے کچھ نہیں یہ صرف اگلے لوگوں کے افسانے ہیں۔
٨٣۔١ یہ سب لکھی ہوئی حکایتیں، کہانیاں۔ یعنی دوبارہ جی اٹھنے کا وعدہ کب سے ہوتا چلا آ رہا ہے، ہمارے آباؤ اجداد سے، لیکن ابھی تک روبہ عمل نہیں ہوا، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ کہانیاں ہیں جو پہلے لوگوں نے اپنی کتابوں میں لکھ دی ہیں جو نقل در نقل ہوتی چلی آ رہی ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔
 
Top