• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَإِنَّا لَجَمِيعٌ حَاذِرُ‌ونَ ﴿٥٦﴾
اور یقیناً ہم بڑی جماعت ہیں ان سے چوکنا رہنے والے۔ (١)
٥٦۔۱ اس لیے ان کی اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے ہمیں مستعد ہونے کی ضرورت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
فَأَخْرَ‌جْنَاهُم مِّن جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ﴿٥٧﴾
بالآخر ہم نے انہیں باغات سے اور چشموں سے۔

وَكُنُوزٍ وَمَقَامٍ كَرِ‌يمٍ ﴿٥٨﴾
اور خزانوں سے۔ اور اچھے اچھے مقامات سے نکال باہر کیا۔ (١)
٥٨۔١ یعنی فرعون اور اس کا لشکر بنی اسرائیل کے تعاقب میں کیا نکلا، کہ پھرپلٹ کر اپنے گھروں اور باغات میں آنا نصیب ہی نہیں ہوا۔ یوں اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت و مشیت سے انہیں تمام نعمتوں سے محروم کرکے ان کا وارث دوسروں کو بنا دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
كَذَٰلِكَ وَأَوْرَ‌ثْنَاهَا بَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ ﴿٥٩﴾
اسی طرح ہوا اور ہم نے ان (تمام) چیزوں کا وارث بنی اسرائیل کو بنا دیا۔ (١)
٥٩۔١ یعنی جو اقتدار اوربادشاہت فرعون کو حاصل تھی، وہ اس سے چھین کر ہم نے بنی اسرائیل کو عطا کر دی۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد مصر جیسا اقتدار اور دنیوی جاہ و جلال ہم نے بنی اسرائیل کو بھی عطا کیا۔ کیوں کہ بنی اسرائیل، مصر سے نکل جانے کے بعد مصر واپس نہیں آئے۔ نیز سورۂ دخان میں فرمایا گیا ہے ﴿وَأَوْرَثْنَاهَا قَوْمًا آخَرِينَ﴾ کہ ”ہم نے اس کا وارث کسی دوسری قوم کو بنایا“ (ایسر التفاسیر) اول الذکر اہل علم کہتے ہیں کہ قوما آخرين میں قوم کا لفظ اگرچہ عام ہے لیکن یہاں سورۂ شعراء میں جب بنی اسرائیل کو وارث بنانے کی صراحت آگئی ہے، تو اس سے مراد بھی قوم بنی اسرائیل ہی ہو گی۔ مگر خود قرآن کی صراحت کے مطابق مصر سے نکلنے کے بعد بنو اسرائیل کو ارض مقدس میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا۔ اور ان کے انکار پر چالیس سال کے لیے یہ داخلہ موخر کرکے میدان تیہ میں بھٹکایا گیا۔ پھر وہ ارض مقدس میں داخل ہوئے چنانچہ حضرت موسیٰ عليہ السلام کی قبر، حدیث اسراء کے مطابق بیت المقدس کے قریب ہی ہے۔ اس لیے صحیح معنی یہی ہے کہ جیسی نعمتیں آل فرعون کو مصر میں حاصل تھیں، ویسی ہی نعمتیں اب بنو اسرائیل کو عطا کی گئیں۔ لیکن مصر میں نہیں بلکہ فلسطین میں، وَاللهُ أَعْلَمُ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
فَأَتْبَعُوهُم مُّشْرِ‌قِينَ ﴿٦٠﴾
پس فرعونی سورج نکلتے ہی ان کے تعاقب میں نکلے۔ (١)
٦٠۔١ یعنی جب صبح ہوئی اور فرعون کو پتہ چلا کہ بنی اسرائیل راتوں رات یہاں سے نکل گئے ہیں، تو اس کے پندار اقتدار کو بڑی ٹھیس پہنچی۔ اور سورج نکلتے ہی ان کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
فَلَمَّا تَرَ‌اءَى الْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَابُ مُوسَىٰ إِنَّا لَمُدْرَ‌كُونَ ﴿٦١﴾
پس جب دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا، تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا، ہم یقیناً پکڑ لیے گئے۔ (١)
٦١۔١ یعنی فرعون کے لشکر کو دیکھتے ہی وہ گھبرا اٹھے کہ آگے سمندر ہے اور پیچھے فرعون کا لشکر، اب بچاؤ کس طرح ممکن ہے؟ اب پھر دوبارہ وہی فرعون اور اس کی غلامی ہو گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
قَالَ كَلَّا ۖ إِنَّ مَعِيَ رَ‌بِّي سَيَهْدِينِ ﴿٦٢﴾
موسٰی نے کہا، ہرگز نہیں۔ یقین مانو، میرا رب میرے ساتھ ہے جو ضرور مجھے راہ دکھائے گا۔ (١)
٦٢۔١ حضرت موسیٰ عليہ السلام نے تسلی دی کہ تمہارا اندیشہ صحیح نہیں، اب دوبارہ تم فرعون کی گرفت میں نہیں جاؤ گے۔ میرا رب یقیناً نجات کے راستے کی نشاندہی فرمائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
فَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنِ اضْرِ‌ب بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ‌ ۖ فَانفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْ‌قٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ ﴿٦٣﴾
ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ دریا پر اپنی لاٹھی مارو، (١) پس اسی وقت دریا پھٹ گیا اور ہر ایک حصہ پانی کا مثل بڑے پہاڑ کے ہو گیا۔ (٢)
٦٣۔١ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ رہنمائی اور نشاندہی فرمائی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مارو، جس سے دائیں طرف کا پانی دائیں اور بائیں طرف کا بائیں طرف رک گیا اور دونوں کے بیچ میں راستہ بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ بارہ قبیلوں کے حساب سے بارہ راستے بن گئے تھے، واللہ اعلم۔
٦٣۔۲ فِرْقٍ : قطعہ بحر، سمندر کا حصہ، طَوْدٌ، پہاڑ۔ یعنی پانی کا ہر حصہ بڑے پہاڑ کی طرح کھڑا ہو گیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزے کا صدور ہوا تاکہ موسیٰ عليہ السلام اور ان کی قوم فرعون سے نجات پا لے، اس تائید الٰہی کے بغیر فرعون سے نجات ممکن نہیں تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَأَزْلَفْنَا ثَمَّ الْآخَرِ‌ينَ ﴿٦٤﴾
اور ہم نے اسی جگہ دوسروں کو نزدیک لا کھڑا کر دیا۔ (١)
٦٤۔١ اس سے مراد فرعون اور اس کا لشکر ہے یعنی ہم نے دوسروں کو سمندر کے قریب کر دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَأَنجَيْنَا مُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ أَجْمَعِينَ ﴿٦٥﴾
اور موسیٰ (علیہ السلام) کو اور اس کے تمام ساتھیوں کو نجات دی۔

ثُمَّ أَغْرَ‌قْنَا الْآخَرِ‌ينَ ﴿٦٦﴾
پھر اور سب دوسروں کو ڈبو دیا۔ (١)
٦٦۔٢ موسیٰ عليہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں کو ہم نے نجات دی اور فرعون اور اس کا لشکر جب انہی راستوں سے گزرنے لگا تو ہم نے سمندر کو دوبارہ حسب دستور رواں کر دیا، جس سے فرعون اپنے لشکر سمیت غرق ہو گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُ‌هُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٦٧﴾
یقیناً اس میں بڑی عبرت ہے اور ان میں کے اکثر لوگ ایمان والے نہیں۔ (١)
٦٧۔١ یعنی اگرچہ اس واقعے میں، جو اللہ کی نصرت و معونت کا واضح مظہر ہے، بڑی نشانی ہے لیکن اس کے باوجود اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں۔
 
Top