• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آيَاتِنَا مُعَاجِزِينَ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مِّن رِّ‌جْزٍ أَلِيمٌ ﴿٥﴾
اور ہماری آیاتوں کو نیچا دکھانے کی جنہوں نے کوشش کی ہے (١) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے بدترین قسم کا دردناک عذاب ہے۔
٥۔١ یعنی ہماری ان آیتوں کے بطلان اور تکذیب کی جو ہم نے پیغمبروں پر نازل کیں، یہ سمجھتے ہوئے کہ ہم ان کی گرفت سے عاجز ہونگے، کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ مرنے کے بعد ہم مٹی میں مل جائیں گے تو ہم کس طرح دوبارہ زندہ ہو کر کسی کے سامنے اپنے کیے دھرے کی جواب دہی کریں گے؟ ان کا یہ سمجھنا گویا اس بات کا اعلان تھا کہ اللہ تعالٰی ہمارا مواخذہ کرنے پر قادر ہی نہیں ہوگا، اس لئے قیامت کا خوف ہمیں کیوں ہو؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَيَرَ‌ى الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ الَّذِي أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّ‌بِّكَ هُوَ الْحَقَّ وَيَهْدِي إِلَىٰ صِرَ‌اطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ ﴿٦﴾
اور جنہیں علم ہے وہ دیکھ لیں گے کہ جو آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے وہ (سراسر) حق (١) ہے اور اللہ غالب خوبیوں والے کی راہ کی راہبری کرتا ہے۔ (۲)
٦۔١ یہاں رؤیت سے مراد رؤیت قلبی یعنی علم یقینی ہے، محض رؤیت بصری (آنکھ کا دیکھنا) نہیں اہل علم سے مراد صحابہ کرام یا مومنین ہیں۔ یعنی اہل ایمان اس بات کو جانتے اور اس پر یقین رکھتے ہیں۔
٦ ۔۲یہ عطف ہے حق پر، یعنی وہ بھی جانتے ہیں کہ یہ قرآن کریم اس راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو اس اللہ کا راستہ ہے جو کائنات میں سب پر غالب ہے اور اپنی مخلوق میں محمود (قابل تعریف) ہے اور وہ راستہ کیا ہے؟ توحید کا راستہ جس کی طرف تمام انبیا علیھم السلام اپنی اپنی قوموں کو دعوت دیتے رہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلَىٰ رَ‌جُلٍ يُنَبِّئُكُمْ إِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّكُمْ لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ﴿٧﴾
اور کافروں نے کہا (١) (آؤ) ہم تمہیں ایک ایسا شخص بتلائیں (٢) جو تمہیں یہ خبر پہنچا رہا ہے (٣) کہ جب تم بالکل ہی ریزہ ریزہ ہو جاؤ گے تو پھر سے ایک نئی پیدائش میں آؤ گے۔
٧۔١ یہ اہل ایمان کے مقابلے میں منکرین آخرت کا قول ہے جو آپس میں انہوں نے ایک دوسرے سے کہا۔
٧۔٢ اس سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو ان کی طرف اللہ کے نبی بن کر آئے تھے
٧۔٣ یعنی عجیب و غریب خبر، ناقابل فہم خبر۔
۷۔٤یعنی مرنے کے بعد جب تم مٹی میں مل کر ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے تمہارا ظاہری وجود ناپید ہوجائے گا تمہیں قبروں سے دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور دوبارہ وہی شکل وصورت تمہیں عطاکردی جائے گی جس میں تم پہلے تھے یہ گفتگو انہوں نے آپس میں استہزا اور مذاق کے طور پر کی
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
أَفْتَرَ‌ىٰ عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا أَم بِهِ جِنَّةٌ ۗ بَلِ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَ‌ةِ فِي الْعَذَابِ وَالضَّلَالِ الْبَعِيدِ ﴿٨﴾
(ہم نہیں کہہ سکتے) کہ خود اس نے (ہی) اللہ پر جھوٹ باندھ لیا ہے یا اسے دیوانگی ہے (١) بلکہ (حقیقت یہ ہے) کہ آخرت پر یقین نہ رکھنے والے ہی عذاب میں اور دور کی گمراہی میں ہیں۔ (۲)
٨۔١ یعنی دو باتوں میں سے ایک بات تو ضرور ہے، کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اور اللہ کی طرف سے وحی و رسالت کا دعویٰ، یہ اس کا اللہ پر افترا ہے۔ یا پھر اس کا دماغ چل گیا ہے اور دیوانگی میں ایسی باتیں کر رہا ہے جو غیر معقول ہیں۔
٨۔٢ اللہ تعالٰی نے فرمایا، بات اس طرح نہیں ہے، جس طرح یہ گمان کر رہے ہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ عقل و فہم اور ادراک حقائق سے یہی لوگ قاصر ہیں، جس کی وجہ سے یہ آخرت پر ایمان لانے کی بجائے اس کا انکار کر رہے ہیں، جس کا نتیجہ آخرت کا دائمی عذاب ہے اور یہ آج ایسی گمراہی میں مبتلا ہیں جو حق سے غایت درجہ دور ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
أَفَلَمْ يَرَ‌وْا إِلَىٰ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْ‌ضِ ۚ إِن نَّشَأْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْأَرْ‌ضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ ﴿٩﴾
کیا پس وہ اپنے آگے پیچھے آسمان و زمین کو دیکھ نہیں رہے ہیں؟ (١) اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں (۲) یقیناً اس میں پوری دلیل ہے ہر اس بندے کے لئے جو (دل سے) متوجہ ہو۔
٩۔١ یعنی اس پر غور نہیں کرتے؟ اللہ تعالٰی ان کی زجر و توبیخ کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ آخرت کا یہ انکار، آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر نہ کرنے کا نتیجہ ہے، ورنہ جو ذات آسمان جیسی چیز، جس کی بلندی اور وسعت ناقابل بیان ہے اور زمین جیسی چیز، جس کا طول و عرض بھی ناقابل فہم ہے، پیدا کر سکتا ہے، اس کے لئے اپنی ہی پیدا کردہ چیز کا دوبارہ پیدا کر دینا اور اسے دوبارہ اسی حالت میں لے آنا، جس میں وہ پہلے تھی، کیوں کر ناممکن ہے۔
۹۔۱یعنی یہ آیت دو باتوں پر مشتمل ہے ایک اللہ کے کمال قدرت کا بیان جو ابھی مذکور ہوا دوسری کفار کے لیے تنبیہ و تہدید کہ جو اللہ آسمان و زمین کی تخلیق پر اس طرح قادر ہے کہ ان پر اور ان کے مابین ہرچیز پر اس کا تصرف اور غلبہ ہے وہ جب چاہے ان پر اپنا عذاب بھیج کر ان کو تباہ کر سکتا ہے زمین میں دھنسا کر بھی، جس طرح قارون کو دھنسایا یا آسمان کے ٹکڑے گرا کر جس طرح اصحاب الایکہ کو ہلاک کیا گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلًا ۖ يَا جِبَالُ أَوِّبِي مَعَهُ وَالطَّيْرَ‌ ۖ وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَ ﴿١٠﴾
اور ہم نے داؤد پر اپنا فضل کیا (١) اے پہاڑو! اس کے ساتھ رغبت سے تسبیح پڑھا کرو اور پرندوں کو بھی (٢) (یہی حکم ہے) اور ہم نے اسی لئے لوہا نرم کر دیا (٣)
١٠۔١ یعنی نبوت کے ساتھ بادشاہت اور کئی امتیازی خوبیوں سے نوازا۔
١٠۔٢ ان میں سے ایک حسن صوت کی نعمت تھی، جب وہ اللہ کی تسبیح پڑھتے تو پتھر کے ٹھوس پہاڑ بھی تسبیح خوانی میں مصروف ہو جاتے، اڑتے پرندے ٹھہر جاتے اور زمزمہ خواں ہو جاتے، یعنی پہاڑوں اور پرندوں کو ہم نے کہا، چنانچہ یہ بھی داؤد علیہ السلام کے ساتھ مصروف تسبیح ہو جاتے۔ والطیر کا عطف یا جبال کے محل پر ہے اس لیے کہ جبال تقدیرا منصوب ہے اصل عبارت اس طرح ہے نادینا الجبال والطیر (ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو پکارا) یا پھر اس کا عطف فضلا پر ہے اور معنی ہوں گے وسخرنا لہ الطیر (اور ہم نے پرندے ان کے تابع کردیئے (فتح القدیر)
١٠۔٣ یعنی لوہے کو آگ میں تپائے اور ہتھوڑی سے کوٹے بغیر، اسے موم، گوندھے ہوئے آٹے اور گیلی مٹی کی طرح جس طرح چاہتے موڑ لیتے، بٹ لیتے اور جو چاہے بنا لیتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
أَنِ اعْمَلْ سَابِغَاتٍ وَقَدِّرْ‌ فِي السَّرْ‌دِ ۖ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ‌ ﴿١١﴾
کہ تو پوری پوری زرہیں بنا (١) اور جوڑوں میں اندازہ رکھ تم سب نیک کام کرو (٢) یقین مانو کہ میں تمہارے اعمال دیکھ رہا ہوں۔
١١۔١ سابغات محزوف موصوف کی صفت ہے دروعا سابغات یعنی پوری لمبیں زرہیں، جو لڑنے والے کے پورے جسم کو صحیح طریقے سے ڈھانک لیں اور اسے دشمن کے وار سے محفوظ رکھیں۔
۱۱۔۲تاکہ چھوٹی بڑی نہ ہوں یا سخت یا نرم نہ ہوں یعنی کڑیوں کے جوڑنے میں کیل اتنے باریک نہ ہوں کہ جوڑ حرکت کرتے رہیں اور ان میں قرار وثبات نہ آئے اور نہ اتنے موٹے ہوں کہ اسے توڑ ہی ڈالیں یا جس سے حلقہ تنگ ہو جائے اور اسے پہنا نہ جاسکے یہ زرہ بافی کی صنعت کے بارے میں حضرت داؤدعلیہ السلام کو ہدایات دی گئیں۔
١١۔۳ یعنی ان نعمتوں کے بدلے میں عمل صالح کا اہتمام کرو تاکہ میرا عملی شکر بھی ہوتا رہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس کو اللہ تعالٰی نعمتوں سے سرفراز فرمائے، اسے اسی حساب سے اللہ کا شکر بھی ادا کرنا چاہیے اور شکر میں بنیادی چیز یہی ہے نعمت دینے والے کو راضی رکھنے کی بھرپور سعی کی جائے یعنی اس کی اطاعت کی جائے اور نافرمانی سے بچا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلِسُلَيْمَانَ الرِّ‌يحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ‌ وَرَ‌وَاحُهَا شَهْرٌ‌ ۖ وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ‌ ۖ وَمِنَ الْجِنِّ مَن يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَ‌بِّهِ ۖ وَمَن يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِ‌نَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ‌ ﴿١٢﴾
اور ہم نے سلیمان کے کے لئے ہوا کو مسخر کر دیا کہ صبح کی منزل اس کی مہینہ بھر کی ہوتی تھی اور شام کی منزل بھی (١) اور ہم نے ان کے لئے تانبے کا چشمہ بہا دیا (٢) اور اس کے رب کے حکم سے بعض جنات اس کی ماتحتی میں اس کے سامنے کام کرتے تھے اور ان میں سے جو بھی ہمارے حکم سے سرتابی کرے ہم اسے بھڑکتی ہوئی آگ کا مزہ چکھائیں گے۔
۱۲۔۱یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام مع اعیان سلطنت اور لشکر تخت پر بیٹھ جاتے اور جدھر آپ کا حکم ہوتا کہ ہوائیں اسے اتنی رفتار سے لے جاتیں کہ ایک مہینے جتنی مسافت صبح سے دوپہر تک کی ایک منزل میں طے ہوجاتی اور پھر اسی طرح دوپہر سے رات تک ایک مہینے جتنی مسافت طے ہوجاتی اس طرح ایک دن میں دو مہینوں کی مسافت طے ہوجاتی۔
١٢۔۲ یعنی جس طرح حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے لوہا نرم کر دیا تھا، حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے تانبے کا چشمہ ہم نے جاری کر دیا تاکہ تانبے کی دھات سے وہ جو چاہیں بنائیں۔
١٢۔۳ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ سزا قیامت والے دن دی جائے گی۔ لیکن بعض کے نزدیک یہ دنیاوی سزا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے فرشتہ مقرر فرما دیا تھا جس کے ہاتھ میں آگ کی لاٹھی تھی۔ جو جن حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم سے سرتابی کرتا، فرشتہ وہ لاٹھی اسے مارتا، جس سے وہ جل کر بھسم ہو جاتا (فتح القدیر
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِن مَّحَارِ‌يبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ‌ رَّ‌اسِيَاتٍ ۚ اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرً‌ا ۚ وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ‌ ﴿١٣﴾
جو کچھ سلیمان چاہتے وہ جنات تیار کر دیتے مثلا قلعے اور اور مجسمے اور حوضوں کے برابر لگن اور چولہوں پر جمی ہوئی مضبوط دیگیں (٢) اے داؤد اس کے شکریہ میں نیک عمل کرو، میرے بندوں میں سے شکر گزار بندے کم ہی ہوتے ہیں۔
١٣۔١محاریب محراب کی جمع ہے مطلب ہے بلند محلات، عالی شان عمارتیں یا مساجد و تصویریں۔ یہ تصویریں غیر حیوان چیزوں کی ہوتی تھیں، بعض کہتے ہیں کہ انبیاء علیہ السلام کی تصاویر مسجدوں میں بنائی جاتی تھیں تاکہ انہیں دیکھ کر لوگ بھی عبادت کریں۔ یہ معنی اس صورت میں صحیح ہے جب تسلیم کیا جائے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی شریعت میں تصویر سازی کی اجازت تھی جو صحیح نہیں۔ تاہم اسلام میں تو نہایت سختی کے ساتھ اس کی ممانعت ہے۔ جفان، جفنۃ کی جمع ہے لگن جواب، جابیۃ کی جمع ہے حوض جس میں پانی جمع کیا جاتا ہے یعنی حوض جتنے بڑے بڑے لگن قدور دیگیں، راسیات جمی ہوئیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دیگیں پہاڑوں کو تراش کر بنائی جاتی تھیں جنہیں ظاہر ہے اٹھا کر ادھر ادھر نہیں لے جایا جاسکتا تھا اس میں بیک وقت ہزاروں افراد کا کھانا پک جاتا تھا یہ سارے کام جنات کرتے تھے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْ‌ضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ‌ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ ﴿١٤﴾
پھر جب ہم نے ان پر موت کا حکم بھیج دیا تو ان کی خبر جنات کو کسی نے نہ دی سوائے گھن کے کیڑے کے جو ان کے عصا کو کھا رہا تھا۔ پس جب (سلیمان) گر پڑے اس وقت جنوں نے جان لیا کہ اگر وہ غیب دان ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔ (۱)
١٤۔١ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں جنات کے بارے میں مشہور ہوگیا تھا کہ یہ غائب کی باتیں جانتے ہیں، اللہ تعالٰی نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت کے ذریعے سے اس عقیدے کے فساد کو واضح کر دیا۔
 
Top