- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ ۗ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا ۗ قُلِ انتَظِرُوا إِنَّا مُنتَظِرُونَ ﴿١٥٨﴾
کیا یہ لوگ اس امر کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا ان کے پاس آپ کا رب آئے یا آپ کے رب کی کوئی (بڑی) نشانی آئے؟ (١) جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آ پہنچے گی، کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہیں آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا۔ (٢) یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو۔ (٣) آپ فرما دیجئے کہ تم منتظر رہو، ہم بھی منتظر ہیں۔ (٤)
١٥٨۔١ قرآن مجید کے نزول اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے ذریعے سے ہم نے حجت قائم کر دی ہے۔ اب بھی اگر یہ اپنی گمراہی سے باز نہیں آتے تو کیا یہ اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یعنی ان کی روحیں قبض کرنے کے لیے، اس وقت یہ ایمان لائیں گے؟ یا آپ کا رب ان کے پاس آئے، یعنی قیامت برپا ہو جائے اور وہ اللہ کے روبرو پیش کیے جائیں۔ اس وقت یہ ایمان لائیں گے؟ یا آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آئے۔ جیسے قیامت کے قریب سورﺝ مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو گا۔ تو اس قسم کی بڑی نشانی دیکھ کر یہ ایمان لائیں گے؟ اگلے جملے میں وضاحت کی جا رہی ہے کہ اگر یہ اس انتظار میں ہیں تو بہت ہی نادانی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کیونکہ بڑی نشانی کے ظہور کے بعد کافر کا ایمان اور فاسق و فاجر شخص کی توبہ قبول نہیں ہو گی۔ صحیح حدیث ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ سورﺝ (مشرق کے بجائے) مغرب سے طلوع ہو پس جب ایسا ہو گا اور لوگ اسے مغرب سے طلوع ہوتے دیکھیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ﴿لا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ﴾ یعنی اس وقت ایمان لانا کسی کو نفع نہیں دے گا جو اس سے قبل ایمان نہ لایا ہو گا۔ (صحیح بخاری۔ تفسیر سورۃ الانعام )
١٥٨۔٢ یعنی کافر کا ایمان فائدہ مند، یعنی قبول نہیں ہو گا۔
١٥٨۔٣ اس کا مطلب ہے کہ کوئی گناہ گار مومن گناہوں سے توبہ کرے گا تو اس وقت اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی اور اس کے بعد عمل صالح غیرمقبول ہو گا۔ جیسا کہ احادیث بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔
١٥٨۔٤ یہ ایمان نہ لانے والوں اور توبہ نہ کرنے والوں کے لیے تہدید و وعید ہے۔ قرآن کریم میں یہی مضمون سورۂ محمد:18 اور سورۂ مومن:84، 85 میں بھی بیان کیا گیا ہے۔
کیا یہ لوگ اس امر کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا ان کے پاس آپ کا رب آئے یا آپ کے رب کی کوئی (بڑی) نشانی آئے؟ (١) جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آ پہنچے گی، کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہیں آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا۔ (٢) یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو۔ (٣) آپ فرما دیجئے کہ تم منتظر رہو، ہم بھی منتظر ہیں۔ (٤)
١٥٨۔١ قرآن مجید کے نزول اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے ذریعے سے ہم نے حجت قائم کر دی ہے۔ اب بھی اگر یہ اپنی گمراہی سے باز نہیں آتے تو کیا یہ اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یعنی ان کی روحیں قبض کرنے کے لیے، اس وقت یہ ایمان لائیں گے؟ یا آپ کا رب ان کے پاس آئے، یعنی قیامت برپا ہو جائے اور وہ اللہ کے روبرو پیش کیے جائیں۔ اس وقت یہ ایمان لائیں گے؟ یا آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آئے۔ جیسے قیامت کے قریب سورﺝ مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو گا۔ تو اس قسم کی بڑی نشانی دیکھ کر یہ ایمان لائیں گے؟ اگلے جملے میں وضاحت کی جا رہی ہے کہ اگر یہ اس انتظار میں ہیں تو بہت ہی نادانی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کیونکہ بڑی نشانی کے ظہور کے بعد کافر کا ایمان اور فاسق و فاجر شخص کی توبہ قبول نہیں ہو گی۔ صحیح حدیث ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ سورﺝ (مشرق کے بجائے) مغرب سے طلوع ہو پس جب ایسا ہو گا اور لوگ اسے مغرب سے طلوع ہوتے دیکھیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ﴿لا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ﴾ یعنی اس وقت ایمان لانا کسی کو نفع نہیں دے گا جو اس سے قبل ایمان نہ لایا ہو گا۔ (صحیح بخاری۔ تفسیر سورۃ الانعام )
١٥٨۔٢ یعنی کافر کا ایمان فائدہ مند، یعنی قبول نہیں ہو گا۔
١٥٨۔٣ اس کا مطلب ہے کہ کوئی گناہ گار مومن گناہوں سے توبہ کرے گا تو اس وقت اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی اور اس کے بعد عمل صالح غیرمقبول ہو گا۔ جیسا کہ احادیث بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔
١٥٨۔٤ یہ ایمان نہ لانے والوں اور توبہ نہ کرنے والوں کے لیے تہدید و وعید ہے۔ قرآن کریم میں یہی مضمون سورۂ محمد:18 اور سورۂ مومن:84، 85 میں بھی بیان کیا گیا ہے۔