• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۖ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۚ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْ‌عَةً وَمِنْهَاجًا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَ‌اتِ ۚ إِلَى اللَّـهِ مَرْ‌جِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ﴿٤٨﴾
اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافظ ہے۔ (١) اس لیے آپ ان کے آپس کے معاملات میں اسی اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کے ساتھ حکم کیجئے، (٢) اس حق سے ہٹ کر ان کی خواہشوں کے پیچھے نہ جائیے (٣) تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک دستور اور راہ مقرر کر دی ہے۔ (٤) اگر منظور مولٰی ہوتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا، لیکن اس کی چاہت ہے کہ جو تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے، (٥) تم نیکیوں کی طرف جلدی کرو، تم سب کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے، پھر وہ تمہیں ہر وہ چیز بتا دے گا، جس میں تم اختلاف کرتے رہتے ہو۔
٤٨۔١ ہر آسمانی کتاب اپنے سے ماقبل کتاب کی مصدق رہی ہے جس طرح قرآن پچھلی تمام کتابوں کا مصدق ہے اور تصدیق کا مطلب ہے کہ یہ ساری کتابیں فی الواقع اللہ کی نازل کردہ ہیں۔ لیکن قرآن مصدق ہونے کے ساتھ ساتھ مُهَيْمِنٌ (محافظ، امین، شاہد اور حاکم) بھی ہے۔ یعنی پچھلی کتابوں میں چونکہ تحریف و تغییر بھی ہوئی ہے اس لیے قرآن کا فیصلہ ناطق ہو گا، جس کو یہ صحیح قرار دے گا وہی صحیح ہے۔ باقی باطل ہے۔
٤٨۔٢ اس سے پہلے آیت نمبر 42 میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دیا گیا تھا کہ آپ ان کے معاملات کے فیصلے کریں یا نہ کریں۔ آپ کی مرضی ہے۔ لیکن اب اس کی جگہ یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ ان کے آپس کے معاملات میں بھی قرآن کریم کے مطابق فیصلے فرمائیں۔
٤٨۔٣ یہ دراصل امت کو تعلیم دی جا رہی ہے کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب سے ہٹ کر لوگوں کی خواہشات اور آرا یا ان کے خود ساختہ مزعومات و افکار کے مطابق فیصلے کرنا گمراہی ہے، جس کی اجازت جب پیغمبر کو نہیں ہے تو کسی اور کو کس طرح حاصل ہو سکتی ہے؟
٤٨۔٤ اس سے مراد پچھلی شریعتیں ہیں جن کے بعض فروعی احکامات ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ ایک شریعت میں بعض چیزیں حرام تو دوسری میں حلال تھیں، بعض میں کسی مسئلے میں تشدید تھی تو دوسری میں تخفیف، لیکن دین سب کا ایک یعنی توحید پر مبنی تھا۔ اس لحاظ سے سب کی دعوت ایک ہی تھی۔ اس مضمون کو ایک حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ نَحْنُ مَعَاشِرَ الأَنْبِيَاءِ إِخْوَةٌ لِعَلاَّتٍ، دِينُنَا وَاحِدٌ (صحیح بخاری) ”ہم انبیاء کی جماعت علاتی بھائی ہیں۔ ہمارا دین ایک ہے“۔ علاتی بھائی وہ ہوتے ہیں جن کی مائیں تو مختلف ہوں باپ ایک ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ان کا دین ایک ہی تھا اور شریعتیں (دستور اور طریقے) مختلف تھیں۔ لیکن شریعت محمدیہ کے بعد اب ساری شریعتیں بھی منسوخ ہو گئیں ہیں اور اب دین بھی ایک ہے اور شریعت بھی ایک۔
٤٨۔٥ یعنی نزول قرآن کے بعد اب نجات تو اگرچہ اسی سے وابستہ ہے لیکن اس راہ نجات کو اختیار کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر جبر نہیں کیا ہے۔ ورنہ وہ چاہتا تو ایسا کر سکتا تھا، لیکن اس طرح تمہاری آزمائش ممکن نہ ہوتی، جب کہ وہ تمہیں آزمانا چاہتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْ‌هُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ إِلَيْكَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِ‌يدُ اللَّـهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ ۗ وَإِنَّ كَثِيرً‌ا مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ ﴿٤٩﴾
آپ ان کے معاملات میں خدا کی نازل کردہ وحی کے مطابق ہی حکم کیا کیجئے، ان کی خواہشوں کی تابعداری نہ کیجیئے اور ان سے ہوشیار رہیے کہ کہیں یہ آپ کو اللہ کے اتارے ہوئے کسی حکم سے ادھر ادھر نہ کریں، اگر یہ لوگ منہ پھیر لیں تو یقین کریں کہ اللہ کا ارادہ یہی ہے کہ انہیں ان کے بعض گناہوں کی سزا دے ہی ڈالے اور اکثر لوگ نافرمان ہی ہوتے ہیں۔

أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ ﴿٥٠﴾
کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں (١) یقین رکھنے والے لوگوں کے لیے اللہ تعالٰی سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟ (٢)
٥٠۔١ اب قرآن اور اسلام کے سوا، سب جاہلیت ہے، کیا یہ اب بھی روشنی اور ہدایت (اسلام) کو چھوڑ کر جاہلیت ہی کے متلاشی اور طالب ہیں؟ یہ استفہام، انکار اور توبیخ کے لیے ہے اور (فا) لفظ مقدر پر عطف ہے اور معنی ہیں ”يُعْرِضُونَ عَنْ حُكْمِكَ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ عَلَيْكَ وَيَتَوَلَّوْنَ عَنْهُ، يَبْتَغُونَ حُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ“ (تیرے اس فیصلے سے جو اللہ نے تجھ پر نازل کیا ہے یہ اعراض کرتے اور پیٹھ پھیرتے ہیں اور جاہلیت کے طریقوں کے متلاشی ہیں) (فتح القدیر)
٥٠۔٢ حدیث میں آتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَبْغَضُ النَّاسِ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ ثَلاثَةٌ: مُبْتَغٍ فِي الإِسْلامِ سُنَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ، وَطَالِبُ دَمِ امْرِئٍ بِغَيْرِ حَقٍّ لْيُرِيقَ دَمَهُ (صحیح بخاری- كتاب الديات) ”اللہ کو سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو اسلام میں جاہلیت کے طریقے کا متلاشی ہو اور جو ناحق کسی کا خون بہانے کا طالب ہو۔“
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَ‌ىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿٥١﴾
اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ (١) یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ (٢) تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک انہی میں سے ہے، ظالموں کو اللہ تعالٰی ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا۔ (۳)
٥١۔١ اس میں یہود و نصاریٰ سے موالات و محبت کا رشتہ قائم کرنے سے منع کیا گیا ہے جو اسلام کے اور مسلمانوں کے دشمن ہیں اور اس پر اتنی سخت وعید بیان فرمائی کہ جو ان سے دوستی رکھے گا وہ انہی میں سے سمجھا جائے گا۔ (مزید دیکھئے سورۂ آل عمران آیت 28 اور آیت 118 کا حاشیہ)
٥١۔٢ قرآن کی اس بیان کردہ حقیقت کا مشاہدہ ہر شخص کر سکتا ہے کہ یہود و نصاریٰ کا اگرچہ آپس میں عقائد کے لحاظ سے شدید اختلاف اور باہمی بغض و عناد ہے، لیکن اس کے باوجود یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک دوسرے کے معاون بازو اور محافظ ہیں۔
٥١۔۳ ان آیات کی شان نزول میں بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت انصاری رضی الله عنہ اور رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی دونوں ہی عہد جاہلیت سے یہود کے حلیف چلے آ رہے تھے۔ جب بدر میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی تو عبد اللہ بن ابی نے بھی اسلام کا اظہار کیا۔ ادھر بنو قینقاع کے یہودیوں نے تھوڑے ہی دنوں بعد فتنہ برپا کیا اور وہ کس لیے گئے، جس پر حضرت عبادہ رضی الله عنہ نے تو اپنے یہودی حلیفوں سے اعلان براءت کر دیا۔ لیکن عبد اللہ بن ابی نے اس کے برعکس یہودیوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
فَتَرَ‌ى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَ‌ضٌ يُسَارِ‌عُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰ أَن تُصِيبَنَا دَائِرَ‌ةٌ ۚ فَعَسَى اللَّـهُ أَن يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ‌ مِّنْ عِندِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا أَسَرُّ‌وا فِي أَنفُسِهِمْ نَادِمِينَ ﴿٥٢﴾
آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے (١) وہ دوڑ دوڑ کر ان میں گھس رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں خطرہ ہے، ایسا نہ ہو کہ کوئی حادثہ ہم پر پڑ جائے (٢) بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالٰی فتح دے دے۔ (٣) یا اپنے پاس سے کوئی اور چیز لائے (٤) پھر تو یہ اپنے دلوں میں چھپائی ہوئی باتوں پر (بے طرح) نادم ہونے لگیں گے۔
٥٢۔١ اس سے مراد نفاق ہے، یعنی منافقین یہودیوں سے محبت اور دوستی میں جلدی کر رہے ہیں۔
٥٢۔٢ یعنی مسلمانوں کو شکست ہو جائے اور اس کی وجہ سے ہمیں بھی کچھ نقصان اٹھانا پڑے۔ یہودیوں سے دوستی ہو گی تو ایسے موقعے پر ہمارے بڑے کام آئے گی۔
٥٢۔٣ یعنی مسلمانوں کو۔
٥٢۔٤ یہود و نصاریٰ پر جزیہ عائد کر دے یہ اشارہ ہے بنو قریظہ کے قتل اور ان کی اولاد کے قیدی بنانے اور بنو نضیر کی جلا وطنی وغیرہ کی طرف، جس کا وقوع مستقبل قریب میں ہی ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا أَهَـٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمُوا بِاللَّـهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ ۙ إِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ ۚ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَأَصْبَحُوا خَاسِرِ‌ينَ ﴿٥٣﴾
اور ایمان والے کہیں گے، کیا یہی وہ لوگ ہیں جو بڑے مبالغہ سے اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ان کے اعمال غارت ہوئے اور یہ ناکام ہو گئے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْ‌تَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّـهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِ‌ينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّـهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿٥٤﴾
اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے (١) تو اللہ تعالٰی بہت جلد ایسی قوم کو لائے گا جو اللہ کی محبوب ہو گی اور وہ بھی اللہ سے محبت رکھتی ہو گی (٢) وہ نرم دل ہوں گے مسلمانوں پر اور سخت اور تیز ہوں گے کفار پر، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ بھی نہ کریں گے، (٣) یہ ہے اللہ تعالٰی کا فضل جسے چاہے دے، اللہ تعالٰی بڑی وسعت والا اور زبردست علم والا ہے۔
٥٤۔١ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے مطابق فرمایا، جس کا وقوع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد ہوا۔ اس فتنۂ ارتداد کے خاتمے کا شرف حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ اور ان کے رفقا کو حاصل ہوا۔
٥٤۔٢ مرتدین کے مقابلے میں جس قوم کو اللہ تعالیٰ کھڑا کرے گا ان کی چار نمایاں صفات بیان کی جا رہی ہیں۔ 1۔ اللہ سے محبت کرنا اور اس کا محبوب ہونا۔ 2۔ اہل ایمان کے لیے نرم اور کفار پر سخت ہونا۔ 3۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ 4۔ اور اللہ کے بارے میں کسی کی ملامت سے نہ ڈرنا۔ صحابہ کرام رضی الله عنہم ان صفات اور خوبیوں کا مظہر اتم تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا و آخرت کی سعادتوں سے مشرف فرمایا اور دنیا میں ہی اپنی رضا مندی کی سند سے نواز دیا۔
٥٤۔٣ یہ ان اہل ایمان کی چوتھی صفت ہے۔ یعنی اللہ کی اطاعت و فرماں برداری میں انہیں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ ہو گی۔ یہ بھی بڑی اہم صفت ہے۔ معاشرے میں جن برائیوں کا چلن عام ہو جائے، ان کے خلاف نیکی پر استقامت اور اللہ کے حکموں کی اطاعت اس صفت کے بغیر ممکن نہیں۔ ورنہ کتنے ہی لوگ ہیں جو برائی، معصیت الٰہی اور معاشرتی خرابیوں سے اپنا دامن بچانا چاہتے ہیں لیکن ملامت گروں کا مقابلہ کرنے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتے۔ نتیجتاً وہ ان برائیوں کی دلدل سے نکل نہیں پاتے اور حق و باطل سے بچنے کی توفیق سے محروم ہی رہتے ہیں۔ اسی لیے آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن کو مذکورہ صفات حاصل ہو جائیں تو یہ اللہ کا ان پر خاص فضل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّـهُ وَرَ‌سُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَ‌اكِعُونَ ﴿٥٥﴾
(مسلمانو)! تمہارا دوست خود اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور ایمان والے ہیں (١) جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں اور وہ رکوع (خشوع و خضوع) کرنے والے ہیں۔
٥٥۔١ جب یہود و نصاریٰ کی دوستی سے منع فرمایا گیا تو اب اس سوال کا جواب دیا جا رہا ہے کہ پھر وہ دوستی کن سے کریں؟ فرمایا کہ اہل ایمان کے دوست سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول ہیں اور پھر ان کے ماننے والے اہل ایمان ہیں۔ آگے ان کی مزید صفات بیان کی جا رہی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَمَن يَتَوَلَّ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّـهِ هُمُ الْغَالِبُونَ ﴿٥٦﴾
اور جو شخص اللہ تعالٰی سے اور اس کے رسول سے اور مسلمانوں سے دوستی کرے، وہ یقین مانے کہ اللہ تعالٰی کی جماعت ہی غالب رہے گی۔ (۱)
٥٦۔١ یہ ”حِزْبُ اللهِ“ (اللہ کی جماعت) کی نشاندہی اور اس کے غلبے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ حزب اللہ وہی ہے جس کا تعلق صرف اللہ، رسول اور مومنین سے ہو اور کافروں، مشرکوں اور یہود و نصاریٰ سے چاہے وہ ان کے قریبی رشتے دار ہوں، وہ محبت و موالات کا تعلق نہ رکھیں، جیسا کہ سورۂ مجادلہ کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ ”تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والوں کو ایسا نہیں پاؤ گے کہ وہ ایسے لوگوں سے محبت رکھیں جو اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہوں، چاہے وہ ان کے باپ ہوں، ان کے بیٹے ہوں، ان کے بھائی ہوں یا ان کے خاندان اور قبیلے کے لوگ ہوں پھر خوشخبری دی گئی کہ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے دلوں میں ایمان ہے اور جنہیں اللہ کی مدد حاصل ہے، انہیں ہی اللہ تعالیٰ جنت میں داخل فرمائے گا۔۔ اور یہی حزب اللہ ہے، کامیابی جس کا مقدر ہے“۔ (سورۂ مجادلہ آخری آیت)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ‌ أَوْلِيَاءَ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٥٧﴾
مسلمانو! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جو تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنائے ہوئے ہیں (خواہ) وہ ان میں سے ہوں جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے یا کفار ہوں (١) اگر تم مومن ہو تو اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو۔
٥٧۔١ اہل کتاب سے یہود و نصاریٰ اور کفار سے مشرکین مراد ہیں۔ یہاں پھر یہی تاکید کی گئی ہے کہ دین کو کھیل مذاق بنانے والے چونکہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں، اس لیے ان کے ساتھ اہل ایمان کی دوستی نہیں ہونی چاہیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ ﴿٥٨﴾
اور جب تم نماز کے لیے پکارتے ہو تو وہ اسے ہنسی کھیل ٹھہرا لیتے ہیں (١) یہ اس واسطے کہ بےعقل ہیں۔
٥٨۔١ حدیث میں آتا ہے کہ جب شیطان اذان کی آواز سنتا ہے تو گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے، جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو پھر آ جاتا ہے، تکبیر کے وقت پھر پیٹھ پھیر کر چل دیتا ہے، جب تکبیر ختم ہو جاتی ہے تو پھر آ کر نمازیوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کرتا ہے۔ الحدیث (صحیح بخاری- كتاب الأذان، صحيح مسلم، كتاب الصلاة) شیطان ہی کی طرح شیطان کے پیروکاروں کو اذان کی آواز اچھی نہیں لگتی، اس لیے وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی قرآن کی طرح دین کا ماخذ اور اسی طرح حجت ہے۔ کیونکہ قرآن نے نماز کے لیے ”ندا“ کا تو ذکر کیا ہے لیکن یہ ”ندا“ کس طرح دی جائے گی؟ اس کے الفاظ کیا ہوں گے؟ یہ قرآن کریم میں کہیں نہیں ہے۔ یہ چیزیں حدیث سے ثابت ہیں، جو اس کی حجیت اور ماخذ دین ہونے پر دلیل ہیں۔
حجیت حدیث کا مطلب: حدیث کے ماخذ دین اور حجت شرعیہ ہونے کا مطلب ہے، کہ جس طرح قرآن کریم کی نص سے ثابت ہونے والے احکام و فرائض پر عمل کرنا ضروری اور ان کا انکار کفر ہے۔ اسی طرح حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونے والے احکام کا ماننا بھی فرض، ان پر عمل کرنا ضروری اور ان کا انکار کفر ہے۔ تاہم حدیث کا صحیح مرفوع اور متصل ہونا ضروری ہے۔ صحیح حدیث چاہے متواتر ہو یا آحاد، قولی ہو، فعلی ہو یا تقریری۔ یہ سب قابل عمل ہیں۔ حدیث کا خبر واحد کی بنیاد پر، یا قرآن سے زائد ہونے کی بنیاد پر یا ائمہ کے قیاس و اجتہادات کی بنیاد پر یا راوی کی عدم فقاہت کے دعویٰ کی بنیاد پر یا عقلی استحالے کی بنیاد پر یا اسی قسم کے دیگر دعوؤں کی بنیاد پر، رد کرنا صحیح نہیں ہے۔ یہ سب حدیث سے اعراض کی مختلف صورتیں ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ هَلْ تَنقِمُونَ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِاللَّـهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلُ وَأَنَّ أَكْثَرَ‌كُمْ فَاسِقُونَ ﴿٥٩﴾
آپ کہہ دیجئے اے یہودیو اور نصرانیو! تم ہم سے صرف اس لیے دشمنیاں کر رہے ہو کہ ہم اللہ تعالٰی پر اور جو کچھ ہماری جانب نازل کیا گیا ہے جو کچھ اس سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر ایمان لائے ہیں اور اس لیے بھی کہ تم میں اکثر فاسق ہیں۔

قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ‌ مِّن ذَٰلِكَ مَثُوبَةً عِندَ اللَّـهِ ۚ مَن لَّعَنَهُ اللَّـهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَ‌دَةَ وَالْخَنَازِيرَ‌ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ ۚ أُولَـٰئِكَ شَرٌّ‌ مَّكَانًا وَأَضَلُّ عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ ﴿٦٠﴾
کہہ دیجئے کہ کیا میں تمہیں بتاؤں؟ کہ اس سے بھی زیادہ اجر پانے والا اللہ تعالٰی کے نزدیک کون ہے؟ وہ جس پر اللہ تعالٰی نے لعنت کی اور اس پر وہ غصے ہوا اور ان میں سے بعض کو بندر اور سور بنا دیا اور جنہوں نے معبودان باطل کی پرستش کی، یہی لوگ بدتر درجے والے ہیں اور یہی راہ راست سے بہت زیادہ بھٹکنے والے ہیں۔ (١)
٦٠۔١ یعنی تم تو (اے اہل کتاب!) ہم سے یوں ہی ناراض ہو جب کہ ہمارا قصور اس کے سوا کوئی نہیں کہ ہم اللہ پر اور قرآن کریم اور اس سے قبل اتاری گئی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ کیا یہ بھی کوئی قصور یا عیب ہے؟ یعنی یہ عیب اور مذمت والی بات نہیں، جیسا کہ تم نے سمجھ لیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ استثنا منقطع ہے۔ البتہ ہم تمہیں بتلاتے ہیں کہ بدترین لوگ اور گمراہ ترین لوگ، جو نفرت اور مذمت کے قابل ہیں، کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہوا اور جن میں سے بعض کو اللہ نے بندر اور سور بنا دیا اور جنہوں نے طاغوت کی پوجا کی۔ اور اس آئینے میں تم اپنا چہرہ اور کردار دیکھ لو! کہ یہ کن کی تاریخ ہے اور کون لوگ ہیں؟ کیا یہ تم ہی نہیں ہو؟
 
Top