• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
كَذَٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَ‌بِّكَ عَلَى الَّذِينَ فَسَقُوا أَنَّهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿٣٣﴾
اسی طرح آپ کے رب کی یہ بات کہ ایمان نہ لائیں گے، تمام فاسق لوگوں کے حق میں ثابت ہو چکی ہے۔ (١)
٣٣۔١ یعنی جس طرح مشرکین تمام تر اعتراف کے باوجود اپنے شرک پر قائم ہیں اور اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ اسی طرح تیرے رب کی بات ثابت ہو گئی کہ ایمان والے نہیں ہیں، کیونکہ یہ غلط راستہ چھوڑ کر صحیح راستہ اختیار کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں تو ہدایت اور ایمان انہیں کس طرح نصیب ہو سکتا ہے؟ یہ وہی بات ہے جسے دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے ﴿وَلٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ﴾ (الزمر:71) ”لیکن عذاب کی بات کافروں پر ثابت ہو گئی“۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قُلْ هَلْ مِن شُرَ‌كَائِكُم مَّن يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۚ قُلِ اللَّـهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ ﴿٣٤﴾
آپ یوں کہیے کہ کیا تمہارے شرکا میں کوئی ہے جو پہلی بار بھی پیدا کرے، پھر دوبارہ بھی پیدا کرے؟ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی پہلی بار پیدا کرتا ہے پھر وہی دوبارہ بھی پیدا کرے گا۔ پھر تم کہاں پھرے جاتے ہو؟ (١)
٣٤۔١ مشرکین کے شرک کے کھوکھلے پن کو واضح کرنے کے لیے ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ بتلاؤ جنہیں تم اللہ کا شریک گردانتے ہو، کیا انہوں نے اس کائنات کو پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے؟ یا دوبارہ اسے پیدا کرنے پر قادر ہیں؟ نہیں یقینا نہیں پہلی مرتبہ بھی پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے اور روز قیامت دوبارہ وہی سب کو زندہ کرے گا۔ تو پھر ہدایت کا راستہ چھوڑ کر، کہاں پھرے جا رہے ہو؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قُلْ هَلْ مِن شُرَ‌كَائِكُم مَّن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ ۚ قُلِ اللَّـهُ يَهْدِي لِلْحَقِّ ۗ أَفَمَن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لَّا يَهِدِّي إِلَّا أَن يُهْدَىٰ ۖ فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ ﴿٣٥﴾
آپ کہئے کہ تمہارے شرکا میں کوئی ایسا ہے کہ حق کا راستہ بتاتا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی حق کا راستہ بتاتا ہے۔ (١) تو پھر آیا جو شخص حق کا راستہ بتاتا ہو وہ زیادہ اتباع کے لائق ہے یا وہ شخص جس کو بغیر بتائے خود ہی راستہ نہ سوجھے؟ (٢) پس تم کو کیا ہو گیا ہے کہ تم کیسے فیصلے کرتے ہو۔ (٣)
٣٥۔١ یعنی بھٹکے ہوئے مسافرین راہ کو راستہ بتانے والا اور دلوں کو گمراہی سے ہدایت کی طرف پھیرنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ ان کے شرکاء میں کوئی ایسا نہیں جو یہ کام کر سکے۔
٣٥۔٢ یعنی پیروی کے لائق کون ہے؟ وہ شخص جو دیکھتا سنتا اور لوگوں کی حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے؟ یا وہ جو اندھے اور بہرے ہونے کی وجہ سے خود راستے پر چل بھی نہیں سکتا، جب تک دوسرے لوگ اسے راستے پر نہ ڈالدیں یا ہاتھ پکڑ کر لے نہ جائیں؟
٣٥۔٣ یعنی تمہاری عقلوں کو کیا ہو گیا ہے؟ تم کس طرح اللہ کو اور اس کی مخلوق کو برابر ٹھہرائے جا رہے ہو؟ اللہ کے ساتھ تم دوسروں کو بھی شریک عبادت بنا رہے ہو؟ جب کہ ان دلائل کا تقاضا یہ ہے کہ صرف اسی ایک اللہ کو معبود مانا جائے اور عبادت کی تمام قسمیں صرف اسی کے لیے خاص مانی جائیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُ‌هُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ ﴿٣٦﴾
اور ان میں سے اکثر لوگ صرف گمان پر چل رہے ہیں۔ یقیناً گمان، حق (کی معرفت) میں کچھ بھی کام نہیں دے سکتا (١) یہ جو کچھ کر رہے ہیں یقیناً اللہ کو سب خبر ہے۔ (٢)
٣٦۔١ لیکن بات یہ ہے کہ لوگ محض اٹکل پچو باتوں پر چلنے والے ہیں حالانکہ جانتے ہیں کہ دلائل کے مقابلے میں اوہام و خیالات اور ظن و گمان کی کوئی حیثیت نہیں۔ قرآن میں ظن، یقین اور گمان دونوں معنی میں استعمال ہوا ہے، یہاں دوسرا معنی مراد ہے۔
٣٦۔٢ یعنی اس ہٹ دھرمی کی وہ سزا دے گا، کہ دلائل نہ رکھنے کے باوجود، یہ محض غلط وہم اور دیوانہ پن کے پیچھے لگے رہے اور عقل فہم سے ذرا کام نہ لیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَمَا كَانَ هَـٰذَا الْقُرْ‌آنُ أَن يُفْتَرَ‌ىٰ مِن دُونِ اللَّـهِ وَلَـٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لَا رَ‌يْبَ فِيهِ مِن رَّ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿٣٧﴾
اور یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اللہ (کی وحی) کے بغیر (اپنے ہی سے) گھڑ لیا گیا ہو۔ بلکہ یہ تو (ان کتابوں کی) تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے قبل نازل ہو چکی ہیں (١) اور کتاب (احکام ضروریہ) کی تفصیل بیان کرنے والا ہے (٢) اس میں کوئی بات شک کی نہیں (٣) کہ رب العالمین کی طرف سے ہے۔ (٤)
٣٧۔١ جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قرآن گھڑا ہوا نہیں ہے، بلکہ اسی ذات کا نازل کردہ ہے جس نے پچھلی کتابیں نازل فرمائیں تھیں۔
٣٧۔٢ یعنی حلال و حرام اور جائز ناجائز کی تفصیل بیان کرنے والا۔
٣٧۔٣ اس کی تعلیمات میں، اس کے بیان کردہ قصص و واقعات میں اور مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں۔
٣٧۔٤ یہ سب باتیں واضح کرتی ہیں کہ یہ رب العالمین ہی کی طرف سے نازل ہوا ہے، جو ماضی اور مستقبل کو جاننے والا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَ‌اهُ ۖ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَ‌ةٍ مِّثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللَّـهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿٣٨﴾
کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ آپ نے اس کو گھڑ لیا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ تو پھر تم اس کے مثل ایک ہی سورت لاؤ اور جن جن غیر اللہ کو بلا سکو، بلا لو اگر تم سچے ہو۔ (١)
٣٨۔١ ان تمام حقائق اور دلائل کے بعد بھی، اگر تمہارا دعوٰی یہ ہے کہ یہ قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا گھڑا ہوا ہے تو بھی تمہاری طرح ایک انسان ہے، تمہاری زبان بھی اسی طرح عربی ہے وہ تو ایک ہے، تم اگر اپنے دعوے میں سچے ہو تو تم دنیا بھر کے ادیبوں، فصحا و بلغا کو اور اہل علم و اہل قلم کو جمع کر لو اور اس قرآن کی ایک چھوٹی سے چھوٹی سورت کے مثل بنا کر پیش کر دو۔ قرآن مجید کا یہ چلینج آج تک باقی ہے، اس کا جواب نہیں ملا۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ قرآن۔ کسی انسانی کاوش کا نتیجہ نہیں، بلکہ فی الواقع کلام الٰہی ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَانظُرْ‌ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ ﴿٣٩﴾
بلکہ ایسی چیز کی تکذیب کرنے لگے جس کو اپنے احاطہء علمی میں نہیں لائے (١) اور ہنوز ان کو اس کا اخیر نتیجہ ملا۔ (٢) جو لوگ ان سے پہلے ہوئے ہیں اسی طرح انہوں نے بھی جھٹلایا تھا، سو دیکھ لیجئے ان ظالموں کا انجام کیا ہوا؟ (٣)
٣٩۔١ یعنی قرآن میں تدبر اور اس کے معنی پر غور کیے بغیر، اس کو جھٹلانے پر تل گئے۔
٣٩۔٢ یعنی قرآن نے جو پچھلے واقعات اور مستقبل کے امکانات بیان کیے ہیں، اس کی پوری سچائی اور حقیقت بھی ان پر واضح نہیں ہوئی، اس کے بغیر ہی تکذیب شروع کر دی، یا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ انہوں نے قرآن پر کما حقہ تدبر کیے بغیر ہی اس کو جھٹلایا حالانکہ اگر وہ صحیح معنوں میں اس پر تدبر کرتے اور ان امور پر غور کرتے، جو اس کے کلام الٰہی ہونے پر دلالت کرتے ہیں تو یقینا اس کے فہم اور معانی کے دروازے ان پر کھل جاتے۔ اس صورت میں تاویل کے معنی۔ قرآن کریم کے اسرار و معارف اور لطائف و معانی کے واضح ہو جانے کے ہوں گے۔
٣٩۔٣ یہ ان کفار و مشرکین کو تنبیہ و سرزنش ہے، کہ تمہاری طرح پچھلی قوموں نے بھی آیات الٰہی کو جھٹلایا تو دیکھ لو ان کا کیا انجام ہوا؟ اگر تم اس کو جھٹلانے سے باز نہ آئے تو تمہارا انجام بھی اس سے مختلف نہیں ہو گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَمِنْهُم مَّن يُؤْمِنُ بِهِ وَمِنْهُم مَّن لَّا يُؤْمِنُ بِهِ ۚ وَرَ‌بُّكَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِينَ ﴿٤٠﴾
اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو اس پر ایمان لے آئیں گے اور بعض ایسے ہیں کہ اس پر ایمان نہ لائیں گے۔ اور آپ کا رب مفسدوں کو خوب جانتا ہے۔ (١)
٤٠۔١ وہ خوب جانتا ہے کہ ہدایت کا مستحق کون ہے؟ اسے ہدایت سے نواز دیتا ہے اور گمراہی کا مستحق کون ہے اس کے لیے گمراہی کا راستہ چوپٹ کھول دیتا ہے۔ وہ عادل ہے، اس کے کسی کام میں شک نہیں۔ جو جس بات کا مستحق ہوتا ہے، اس کے مطابق وہ چیز اس کو عطا کر دیتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل لِّي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ ۖ أَنتُم بَرِ‌يئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِ‌يءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ ﴿٤١﴾
اور اگر آپ کو جھٹلاتے رہیں تو یہ کہہ دیجئے کہ میرے لیے میرا عمل اور تمہارے لیے تمہارا عمل، تم میرے عمل سے بری ہو اور میں تمہارے عمل سے بری ہوں۔ (١)
٤١۔١ یعنی تمام تر سمجھانے اور دلائل پیش کرنے کے بعد بھی اگر وہ جھٹلانے سے باز نہ آئیں تو پھر آپ یہ کہہ دیں، مطلب یہ ہے کہ میرا کام صرف دعوت و تبلیغ ہے، سو وہ میں کر چکا ہوں، نہ تم میرے عمل کے ذمہ دار ہو اور نہ میں تمہارے عمل کا سب کو اللہ کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے، وہاں ہر شخص سے اس کے اچھے یا برے عمل کی باز پرس ہو گی۔ یہ وہی بات ہے جو «قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ، لا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ» میں ہے اور حضرت ابراہیم عليہ السلام نے ان الفاظ میں کہی تھی ﴿إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ﴾ الآية (الممتحنة:4) ”بیشک ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں، ہم تمہارے عقائد سے منکر ہیں“۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ ۚ أَفَأَنتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ كَانُوا لَا يَعْقِلُونَ ﴿٤٢﴾
اور ان میں بعض ایسے ہیں جو آپ کی طرف کان لگائے بیٹھے ہیں۔ کیا آپ بہروں کو سناتے ہیں گو ان کو سمجھ بھی نہ ہو؟ (١)
٤٢۔١ یعنی ظاہری طور پر وہ قرآن سنتے ہیں، لیکن سننے کا مقصد طلب ہدایت نہیں، اس لیے انہیں، اسی طرح کوئی فائدہ نہیں ہوتا، جس طرح ایک بہرے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ بالخصوص جب بہرا غیرعاقل بھی ہو، کیونکہ عقلمند بہرہ پھر بھی اشاروں سے کچھ سمجھ لیتا ہے۔ لیکن ان کی مثال تو غیر عاقل بہرے کی طرح ہے بالکل ہی بے بہرہ رہتا ہے۔
 
Top