ابطال تقلید کے لئے قرآنی دلیل
اب آئیے ہم یہی بات قرآن کریم کی روشنی میں پرکھتے ہیں کیا ہمارے لئے بغیر کسی دلیل کے کسی کی پیروی کرنا جائز ہے یا نہیں ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:۔
قُلْ ھَاتُوا بُرْھَانَکُمْ إنْ کُنْتُمْ صَادِقِینِ (البقرۃ۔۱۱۱) آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم ( اپنے عمل و اعتقاد میں ) سچے ہو تو دلیل لائو۔
لیکن ہر زمانے میں یہی دستور رہا کہ جب بھی مقلد سے اس کے عمل پر دلیل طلب کی جاتی ہے تو وہ بجائے دلیل لانے کے اپنے آباء و اجداد اور بڑوں کا عمل دکھاتا کہ یہ کام کرنے والے جتنے بزرگ ہیں کیا وہ سب گمراہ تھے؟ ہم تو انہی کی پیروی کریں گے۔
بالکل یہی بات قرآن کریم سے سنئیے۔
1۔قال تعالیٰ:
’’ وَإذَا قِیلَ لَھُمْ اتَّبِعُوْا مَا أنْزَلَ اللّٰہ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَاوَجَدْنَا عَلَیہِ أبَائَنَا۔‘‘ (سورۃلقمان۔۲۱)
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا۔
بالکل اسی طرح آج بھی کسی ـحنفی سے جب کہا جاتا ہے کہ بھائی اللہ تعالیٰ کا قرآن اور رسول اللہ ﷺکی حدیث تو یوں کہتی ہے تو وہ جواب میں یہ کہتا ہے کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو ھدایہ پر عمل کرتے ہوئے پایا ہے اور ہمارے لئے یہی کافی ہے۔
یہی حال قرآن کریم کی زبان سے سنیئے۔
2۔وقال تعالیٰ:
’’ وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلٰی الرَّسُوْلِ قَالُوْ حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ أبَائَ نَا ‘‘(سورۃ المائدۃ ۱۰۴ )
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکام نازل فرمائے ہیں ان کی طرف اور رسول کی طرف رجوع کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم کو وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے اب مقلدین کچھ بھی کہہ لیں لیکن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہی ہے۔
3۔قال تعالیٰ:
’’ فَلا وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِي أنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلَّمُوْا تَسْلِیمًا ‘‘ (النساء ۶۵)
قسم ہے تیرے پروردگار کی یہ ایماندار نہیںہو سکتے جب تک تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں پھرجو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں ۔
یہ آیت بتا رہی ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کے فیصلہ سے راضی نہیں ہیں وہ لوگ کبھی مومن نہیں بن سکتے۔
ان آیات کی روشنی میں آپ خود فیصلہ کریں کہ اب بھی تقلید کے ناجائز ہونے میں کوئی شک ہے۔کیا اللہ تعالیٰ بغیر دلیل کے دین پر عمل کرنے کا حکم دے رہا ہے یا دلیل کے ساتھ۔
اللہ تعالیٰ کا تو فرمان ہے۔
’’ وَلاَ تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ ‘‘(سورۃ الاسراء ۳۶) ترجمہ:پیچھے مت پڑو اس چیز کے جس کا تمہیں کوئی علم نہیں ہے۔
کیا یہ ساری آیتیں تقلید کا حکم دے رہی ہیں یا تقلید سے منع کر رہی ہیں ۔ اب شاید کوئی یہ کہہ دے کہ بھائی ہم تو اپنے علماء کی پیروی کرتے ہیں وہ تو علماء ہی جانتے ہیں
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان بھی ہے۔
’’ فَاسْئَلُوْا أھْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ ‘‘ (النحل ۴۳) ترجمہ: اہل علم سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے ہو۔
اور علمائے اہل حدیث کے عوام بھی ان سے پوچھتے ہیں اور ان کی تقلید کرتے ہیں ہم پر کیا طعن؟
تو جواب اس کا یہ ہے :۔
اگر کسی سے کچھ پوچھنے کا نام تقلید ہے تو پھر آج دنیا میں کوئی بھی حنفی نہیں ہے کیونکہ اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ تو دنیا میں نہیں رہے اور ہر حنفی اپنے اپنے علاقہ کے مفتی یا مسجد کے امام صاحب سے مسئلہ پوچھتا ہے تو پھر وہ اس مفتی یا اما م مسجد کا مقلد بن گیا نہ کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا۔
اگر کوئی یہ کہے کہ بھائی ہمارا مفتی یا امام اس کو امام ابو حنیفہ ؒ کا مسئلہ ہی بتائے گا ۔ اسی لئے وہ اس مفتی یا امام مسجد کا مقلد نہیں ہو گا۔ بلکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ہی مقلد رہے گا۔
تو عرض یہ ہے کہ اسی طرح جب کوئی ہم سے مسئلہ پوچھے گا تو ہم اسے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بتائیں گے اس لئے وہ ہمارا مقلد نہیں ہو گا بلکہ رسول اللہ ﷺ کا متبع ہو گا۔
دوسری بات یہ کہ یہ آیت تو خود ہمارے لئے دلیل ہے نہ کہ مقلدین کے لئے کیونکہ اگر کسی کو علم نہ ہو تو وہ پوچھتا ہے پوچھنے کے بعد اسے علم ہو جاتا ہے کیونکہ آیت میں ہے
’’ إِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ ‘‘ اگر تم کو علم نہ ہو تو پوچھواور یہ اس لئے تا کہ عمل علم کے مطابق ہو سکے اوریہ علم اس کے عمل پر دلیل ہو۔حالانکہ تقلید نام ہے بغیر کسی دلیل اور حجت کے اس پر عمل کرنا۔جیسے پیچھے حوالہ جات کے ساتھ تعریف گزر چکی ہے۔
اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ ( فقہ الأکبر) میں تقلید کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
ومعني التقلید قبول قول من لا یدری ما قال من أین قال وذلک لا یکون علما (الفقہ الأکبر ص۷)
تقلید کا معنی یہ ہے کہ اس شخص کا قول قبول کر لینا جس کو یہ معلوم نہیں کہ اس نے کیا کہا اور کہاں سے کہا اور یہ چیز علم نہیں ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل علم سے ان کی اپنی رائے پوچھنے کو نہیں کہا بلکہ اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کا فرمان کیا ہے؟ پوچھنے کو کہا ہے
اور آج کل کوئی بھی حنفی عالم قرآن و حدیث سے فتویٰ نہیں دیتا بلکہ فتاوی شامی‘فتاوی دیوبند ‘ھدایہ وغیرہ سے فتوے دیتا ہے حالانکہ مستفتی لکھتا ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیجئے۔بھلا وہ لوگ قرآن و حدیث کی روشنی میں کیسے جواب دے سکتے ہیں جو قرآن کے علاوہ کسی اور کتاب کو قرآن کا درجہ دیتے ہوں
حنفیوں کا کہنا ہے:۔
ِإن الھدایۃ کالقرآن قد نسخت من قبلھا فی الشرع من کتب (مقدمہ الھدایۃ ج۲)
ترجمہ: بالیقین ھدایہ قرآن کریم کی مانند ہے اور اس کے سوا شریعت کی تمام کتابیں منسوخ ہو چکی ہیں ۔
یعنی حنفیوں کا یہ کہنا ہے کہ جس طرح قرآن سے پہلے تمام کتابیں منسوخ ہو چکی ہیں اور ان پر عمل کرنے والا گمراہ اور ملت اسلام سے خارج ہو گا اسی طرح ھدایہ سے پہلے جو کتب تصنیف ہوئی ہیں وہ سب کی سب منسوخ ہیں چاہے وہ بخاری شریف ہو یا مسلم شریف۔ امام مالک رحمہ اللہ کی موطا ہو یا امام شافعی رحمہ اللہ کی کتاب الأم ہو یا امام احمد رحمہ اللہ کی مسند احمد ہو۔ ان کتابوں پر عمل کرنے والا گویا کہ منسوخ شدہ کتب پر عمل کرنے والا ہے اور دین اسلام سے نکلا ہوا ہے۔
یہی بات شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ صاحب کی زبان سے سنیے۔
وتری العامۃ سیما الیوم فی کل قطر یتقیدون بمذھب من مذاھب المتقدمین یرون خروج الانسان من مذھب من قلدہ ولو فی مسألۃ کالخروج من الملۃ کأنہ نبي بعث الیہ وافترضت طاعتہ علیہ وکان أوائل الأمۃ قبل المائۃ الرابعۃ غیر متقیدین بمذھب واحد۔ (التفھیمات الالھیۃ ج۱ص ۲۰۶، حجۃ اللہ البالغۃ ج۱ص ۴۴۵)۔
ترجمہ : عام لوگ خاص طور پر آج کل ہر جگہ میں متقدمین کے کسی ایک مذہب کے پابند نظر آئیں گے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی انسان کا اپنا مذہب جس کی وہ تقلید کرتا ہے اس سے نکلنا‘چاہے کسی بھی ایک مسئلہ میں کیوں نہ ہو گویا کہ دین اسلام سے نکل جانا ہے وہ اپنے امام کو گویا ایک بھیجا ہوا نبی سمجھتے ہیں اور اس امام کی اطاعت اس پر فرض کی گئی گردانتے ہیں ۔ حالانکہ امت کے پہلے لوگ چوتھی صدی سے پہلے کسی ایک مذہب کے پابند نہیں تھے۔
اس سے بڑھ کر اور سنیے ‘حنفی حضرات ہر اس شخص پر لعنت بھیجتے ہیں جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو رد کر دے۔
فلعنۃ ربنا أعداد رمل علی من رد قول أبی حنیفۃ رحمہ اللہ (رد المحتار ج۱ص۶۳)
ترجمہ : اس شخص پر ریت کے ذروں کے برابر ہمارے رب کی طرف سے لعنت ہو جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو رد کر دے۔
آئیے اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کن کن حضرات نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو رد کیا ہے جن پر احناف رات دن لعنت بھیجنے پر تلے ہوئے ہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ (۱۷۹ھ)،امام محمد (۱۸۹ھ)، امام شافعی رحمہ اللہ (۲۰۴ھ)، اما م ابو یوسف رحمہ اللہ (۲۰۸ھ)، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (۲۴۱ھ)، امام بخاری رحمہ اللہ (۲۵۶ھ)، امام نسائی (۳۰۳ھ)، امام طحاوی رحمہ اللہ (۳۲۱ھ)، امام ابن حزم (۴۵۶ھ)، امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (۴۶۳ھ)، امام نووی رحمہ اللہ (۶۷۶ھ)، امام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ (۷۲۸ھ)۔
اور بھی بے شمار حضرات نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے کئی اقوال کو رد کیا ہے قارئین کرام سلف صالحین پر لعنت بھیجنا ہی احناف کی بزرگی اور دینداری ہے۔
جب کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ جب میری امت میں پندرہ خصلتیں پائی جائیں گی تو ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو گا اور ان میں سے ایک
(اذا لعن آخر ھذہ الأمۃ أولھا) (ترمذی رقم حدیث۲۲۱۰، ابن ماجہ) جب اس امت کے آخر میں آنے والے لوگ پہلوں پر لعنت بھیجنے لگیں گے۔
ایک دوسری جگہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
(ومن لعن مؤمنا فھو کقتلہ) (بخاری کتاب الأدب باب ۴۴ رقم الحدیث۶۰۴۷) جس نے کسی مسلمان پر لعنت بھیجی گویا کہ اس نے اس کو قتل کر دیا۔
بلکہ دنیا میں سب سے بدبخت لوگ وہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کی زبانی لعنت کی ۔ جیسا کہ بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ نے دائود و عیسیٰ علیہما السلام کی زبانی لعنت کی ہے جس کو قرآن کریم میں ذکر کیا ہے:
’’ لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوُدَ وَعِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ ‘‘
اور یہ شرف صرف اور صرف احناف کو حاصل ہے کیوں کہ چاروں مذہبوں میں سے صرف احناف ہی حلالہ کے قائل ہیں جس کے کرنے اور کروانے والے پر نبی کریم ﷺ نے لعنت بھیجی ہے۔
عن ابن مسعود رضی اﷲ عنہ قال ( لعن رسول اﷲ ﷺ المحلل والمحلل لہ (رواہ الترمذی وقال حدیث حسن صحیح رقم الحدیث۱۱۲۰، وأبوداود حدیث ۲۰۷۶ وابن ماجہ والدارمي) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حلالہ کرنے اور کروانے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے۔
احناف کی بددعا تو یقینا آج تک کسی کو نہیں لگی ہو گی لیکن نبی ﷺ کی بدعا رد نہیں ہوتی ہے تا قیامت تک لگتی رہے گی۔
قارئین کرام! یہ ہے مقلدین کا اماموں کو ماننے کا طریقہ اور احترام کا طریقہ۔ چلیں آگے چلتے ہیں ۔
اگر تھوڑی دیر کے لئے مان بھی لیا جائے کہ:
’’ فَاسْئَلُوا أھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ ‘‘
سے تقلید ثابت ہوتی ہے تو آئیے دیکھیں اس آیت کے بارے میں حضرات احناف کا کیا خیال ہے۔
’’ فَاِنْ کُنْت فِیْ شَکِّ مِّمَّا أنْزَلْنَا اِلَیْکَ فَاسْئَلِ الَّذِیْنَ یَقُرَأوْنَ الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکَ‘‘ (یونس۔۹۴)
ترجمہ: اے محمد ﷺ جو کچھ ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے اس میں اگر آپ کو کسی قسم کا شک ہو تو آپ پوچھ لیجئے ان لوگوں سے جو کتاب ( تورات اور انجیل ) پڑھتے ہیں۔
کیا یہاں پر بھی احناف یہی کہیں گے کہ نبی کریم ﷺ کو (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ نے یہود و نصریٰ کی تقلید کا حکم کیا ہے اگر ایسا نہیں بلکہ یقینا ایسا نہیں تو
(فاسئل) کا معنی احناف (تقلید) نہیں لے سکتے اور ہر گز نہیں لے سکیں گے۔ القرآن یفسر بعضہ بعضا قرآن کی آیت ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہے تو پتہ چلا کہ یہاں پر (فَاسْئَلُوْا) کا معنی تحقیق ہے نہ کہ تقلید جس کا دعویٰ احناف اور دیگر مقلدین بھی کرتے ہیں ۔
اور یہ معنی ہم نے اپنی طرف سے نہیں گھڑا۔آیت کا ماقبل بتا رہا ہے۔
’’ وَمَا أرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ ِالاَّ رِجَالاً نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ فَاسْئَلُوْا أھْلَ الذِّکْرِ اِنْ ُکُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ‘‘ (النحل ۴۳)
ترجمہ: آپ سے پہلے ہم نے مردوں کے علاوہ کسی کو نبی بنا کر نہیںبھیجا جن کی طرف ہم وحی بھیجتے رہیں پس اس چیز کا اگر تم کو علم نہ ہو تو اہل علم سے پوچھ لو یعنی تحقیق کر لو۔
اور اگر یہاں پر
(فاسئلوا) سے مراد تقلید لیں گے تو پھر معنی یہ بنے گا کہ اگر محمد ﷺ کے نبی ہونے میں تمہیں کوئی شک ہو تو اہل علم یعنی اہل کتاب یہود و نصاریٰ کی تقلیدکرو۔حالانکہ آیت کا یہ مطلب کسی بھی مفسر نے نہیں لیا ۔ جبکہ موسیٰ علیہ السلام کو بھی قرآن کریم کی موجودگی میں تورات پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
اللھم اھد قومي فانھم لا یعلمون۔