محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۴۲ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ۴۳
۲؎ جماعتی زندگی ہمیشہ سے ایک ممدوح اور شان دار زندگی رہی ہے۔کوئی قوم جماعتی احساس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ قرآن حکیم نے اس طرف بالخصوص توجہ فرمائی ہے ۔ غور کرو۔ جماعتوں کو اپنے بقا وتحفظ کے لیے دوچیزوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔اتحاد کی اور سرمایہ کی۔ یعنی ایسے اسباب وعوامل پیدا ہو جائیں جس سے تمام افراد جماعت ایک مسلک میں منسلک ہوجائیں اور ساری جماعت میں ایک وحدت قومی نظرآئے۔ پھر ایسا مشترک سرمایہ ہو جس کو قومی ضروریات پر خرچ کیا جا سکے۔ تا کہ قوم بحیثیت ایک قوم کے دوسروں سے بالکل بے نیاز ہو جائے۔ سوچو کیا نماز باجماعت سے زیادہ کوئی مؤثر، بہتر اور آسان طریق تنظیم وملت کا ہوسکتا ہے؟ اسی طرح قومی فنڈ کی کیا زکوٰۃ سے اچھی، قابل عمل اور اعلیٰ صورت ہوسکتی ہے ؟ اسی طرح بنی اسرائیل کو بھی نمازباجماعت کی تلقین فرمائی ہے اور قیام زکوٰۃ کی طرف توجہ دلائی کیوں کہ ان چیزوں کے بغیر قوموں کی تعمیر ناممکن ہے۔
{لاَ تَلْبِسُوْا} نہ ملاؤ۔ نہ مختلط کرو۔ مصدر لَبْسٌ۔ ملادینا۔ مختلط کردینا۔ {زکوٰۃ} اصل معنی نشوونما کے ہیں۔ چونکہ اس نظام شرعی سے مال ودولت میں برکات نازل ہوتی ہیں اس لیے اس کا نام زکوٰۃ ہے۔
۱؎ اپنے مطالب اور اپنی خواہشات کے لیے نفس مذہب کو بدل دینا بہت بری عادت ہے ۔ یہودی اس میں مبتلا تھے۔ اسی طرح کتمان حق کسی حالت میں بھی درست نہیں لیکن یہودی اس سے بھی باز نہیں آتے تھے۔ قرآن حکیم نے انھیں اس عادت پر متنبہ کیا اورکہا۔ تم جانتے بوجھتے اس قسم کی بدقماشی کا ارتکاب کیوں کرتے ہو۔ یہ تو گوارا کیاجاسکتا ہے کہ تم مجرم بن جاؤ۔ اللہ کے حکموں کی مخالفت کرو لیکن اللہ تعالیٰ کے حکموں کو تاویل وتعمق سے بدل ڈالنا تو کسی طرح برداشت نہیں کیاجاسکتا۔اور سچ کو جھوٹ میں نہ ملاؤ اور(۱؎نہ یہ کہ) جان بوجھ کر حق کو چھپاؤ۔(۴۲) اور نماز قائم (کھڑی) کرو اور زکوٰۃ ادا کرواور جھکنے والوں کے ساتھ جھکو۔۲؎(۴۳)
۲؎ جماعتی زندگی ہمیشہ سے ایک ممدوح اور شان دار زندگی رہی ہے۔کوئی قوم جماعتی احساس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ قرآن حکیم نے اس طرف بالخصوص توجہ فرمائی ہے ۔ غور کرو۔ جماعتوں کو اپنے بقا وتحفظ کے لیے دوچیزوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔اتحاد کی اور سرمایہ کی۔ یعنی ایسے اسباب وعوامل پیدا ہو جائیں جس سے تمام افراد جماعت ایک مسلک میں منسلک ہوجائیں اور ساری جماعت میں ایک وحدت قومی نظرآئے۔ پھر ایسا مشترک سرمایہ ہو جس کو قومی ضروریات پر خرچ کیا جا سکے۔ تا کہ قوم بحیثیت ایک قوم کے دوسروں سے بالکل بے نیاز ہو جائے۔ سوچو کیا نماز باجماعت سے زیادہ کوئی مؤثر، بہتر اور آسان طریق تنظیم وملت کا ہوسکتا ہے؟ اسی طرح قومی فنڈ کی کیا زکوٰۃ سے اچھی، قابل عمل اور اعلیٰ صورت ہوسکتی ہے ؟ اسی طرح بنی اسرائیل کو بھی نمازباجماعت کی تلقین فرمائی ہے اور قیام زکوٰۃ کی طرف توجہ دلائی کیوں کہ ان چیزوں کے بغیر قوموں کی تعمیر ناممکن ہے۔
حل لغات