• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توکل کیا ہے؟ توکل الی اللہ کا کیا مطلب ہے؟

شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
توکل کیا ہے اور توکل الی اللہ سے کیا مراد ہے؟اور کیا اسباب کو اختیار کرنا توکل کے منافی ہے؟ کیا شفاء کی غرض سے ڈاکٹروں سے علاج کروانا ، شرعی دم کروانا، توکل الی اللہ کے منافی ہے؟ اوربخاری شریف کی اس حدیث کا کیا مطلب ہے
«ھُمُ الَّذِیْنَ لاَ یَسْتَرقُوْنَ ، وَلاَ یَکْتُوُونَ وَلاَ یَتَطَیَّرُوْنَ ، وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ»
’’ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ستر ۷۰ ہزار آدمی بغیر حساب و عذاب کے جنت میں جائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ دم کرواتے ہیں ، نہ علاج کی غرض سے اپنے جسم کو داغتے ہیں اور نہ فال نکالتے ہیں، بلکہ وہ صرف اپنے پروردگار پر ہی توکل کرتے ہیں۔‘‘
کیا دم کروانا بھی توکل الی اللہ کے منافی امور میں سے ہے ؟ یا اس سے مراد صرف شرکیہ دم جھاٹ پھونک ہے یا ہر قسم کا دم (چاہے شرعی ہو)؟
اس حدیث سے بعض لوگ علاج معالجے کیلئے حکماء کے پاس جانے اور شرعی دم سےعلاج کو توکل الی اللہ کے منافی قرار دیتے ہیں اس کا صحیح مفہوم کیا ہے؟ سلف نے اس حدیث کا کیا مفہوم بیان کیا ہے؟ کیا ان لوگوں کا اس حدیث سےاستدلال درست ہے یا غلط۔۔۔۔؟؟؟
ذیل میں چند سوالات اسی تناظر میں پیش کیے جا رہے ہیں اُمید ہے علماء حضرات راہنمائی فرمائیں گے
بشیر نے سن رکھا تھا کہ اگر اختتام اچھا ہو تو سب اچھا ہے۔ اسی بنا پر وہ آخری وقتوں میں امتحان کی تیاری میں مصروف تھا۔ یوں تو پورے سال اس نے بہت محنت کی تھی لیکن وہ اس محنت کے ذریعے وہ بہتر نتیجے کا متمنی تھا۔ وہ اپنے دوست مدثر کو بھی یہی سمجھاتاکہ محنت کرے لیکن مدثر ہمیشہ لاپرواہی سے کہہ دیتا کہ”بھائی اللہ مالک ہے، وہ بڑا کارساز اور غفور ہے”۔بشیر کہتا کہ ” اس دنیا میں جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ اسباب کے تحت ہو رہا ہے اگر تم محنت کر گے تو کا میاب ہو جائو گے اور نالائقی پر ناکام۔ معاملات دو اور دو چار کی طرح ہیں اللہ کی مدد کی کیا ضرورت ہے۔ ” انور بھی ان دونوں کی گفتگو میں شامل ہوجاتا ۔ وہ کہتا
” اگرسب کچھ خود ہی کرنا ہے تو خدا سے دعا کیوں مانگی جاتی ہے؟
اس پر بھروسہ کیوں کیا جاتاہے؟ اس سے مدد مانگنے کے کیا معنی ہیں؟
اور اگر کچھ نہ کرنے پر اللہ کامیابی عطا فرمادیں اور محنت کرنے والے کو ناکام کردیں تو یہ تو بظاہر زیادتی محسوس ہوتی ہے”۔
کیاآپ بھی بشیر کی طرح توکل سے متعلق کنفیوژن کا شکار ہیں؟
درج ذیل سوالات کا جواب دیں۔
سوالات
۱۔مندرجہ بالا کیس کی روشنی میں کس کا تصور توکل کے بارے میں درست ہے ؟(بشیر کا ، مدثر کا، انور کا، کسی کا بھی نہیں)
۲۔کیا کسی اجنبی شخص کا جھوٹا پانی پینا اور پھر خدا پر بھروسہ کرنا کہ بیماری نہیں ہوگی کیا درست توکل ہے؟(ہاں ، نہیں)
۳۔ اکرم کو ڈاکٹر نے بتایا کہ اسے دل کی بیماری ہے اور اسے مرغن کھانوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اکرم نے کہا کہ اللہ مالک ہے اس پرہیز نہیں کیا۔ اس توکل کے عمل میں کیا خرابی ہے۔(۱۔بے عملی ، ۲۔لاپرواہی،)
۴۔گاڑی میں ایک اضافی ٹائر کا رکھ کر چلنا توکل کے خلاف ہے(۱۔ہاں ، ۲۔نہیں)
۵۔ موجودہ حالات میں امریکہ پر حملہ کرکےوہاں اسلام نافذ کرنے کی کوشش کرنا توکل ہے۔(ہاں، نہیں)
۶۔سلمان کے سینے میں درد محسوس ہورہا ہے مختلف ڈاکٹروں نے چیک اپ کے بعد بتایا کہ یہ کچھ نہیں بلکہ اعصابی درد ہے۔ اس کے باوجود اس کی تسلی نہیں ہورہی اور اسے وہم رہتا ہے کہ کہیں اٹیک نہ ہوجائے۔اس وہم کا کیا علاج ہے(۱۔مزید چیک اپ، ۲۔اللہ پر بھروسہ)
۷۔زبیدہ کے شوہر کا جوانی میں ہی انتقال ہوگیا۔زبیدہ کو بھروسہ ہے کہ اس کی زندگی اللہ کی مدد سے اچھی گذرے گی۔یہ توکل درست ہے یا نہیں۔(ہاں، نہیں)
۸۔حضرت عیسیٰؑ سے شیطان نے ایک دن کہا کہ سنا ہے تمہارا خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ تو تم یوں کیوں نہیں کرتے کہ خود کو ایک پہاڑ سے گراکر خدا سے درواست کرو کہ وہ تمہیں بچالے۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے جواب دیا کہ خدا ہمیں آزماسکتا ہے لیکن ہمیں زیبا نہیں کہ ہم خدا کو آزمائیں۔ حضرت عیسیٰ نے اس عمل کو تصور توکل کے خلاف کیوں سمجھا ؟(۱۔اس میں اسباب کی نفی تھی ،۲۔ یہ شیطان نے کہا تھا البتہ اگر کوئی اور کہتا تو جائز تھا)
۹۔ایک شخص کی گاڑی کے نیچے کوئی آگیا۔ وہ شخص جائے حادثہ سے فرار ہوگیا اور توکل کرنے لگا کہ اللہ تعالیٰ اسے بچالیں گے۔ یہ توکل جائز ہے؟(ہاں ، نہیں)
۱۰۔انعام سےانجانے میں ایک غلطی ہوگئی جس کی بنا پر اسے ملازمت سے برخاست بھی کیا جاسکتا تھا۔ لیکن چونکہ غلطی غیر ارادی تھی لہٰذا اس نے باس کو سب کچھ سچ بتانے کا فیصلہ کیا اور ساتھ ہی اسے یہ بھروسہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ اسے بچا لیں گے۔ یہ توکل جائز ہے؟(ہاں ، نہیں)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اللہ تعالی پر توکل کرنے کی دلیل دے کر اسباب پر عمل نہ کرنا !!!

بعض صوفی یہ کہتے ہیں کہ اسباب پر عمل نہ کریں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالی پر توکل اس کی تقدیر اور فیصلے کو تسلیم کرنا چاہیۓ تو کیا یہ کلام صحیح ہے اور صحیح مذہب کیا ہے ؟

الحمدللہ :

یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کی آزمائش بہت سخت اور مصیبت عام ہو چکی ہے اگرچہ وہ انفرادی ہو یا قومی طور پر امت مسلمہ بہت سی سختیوں اور مشکل دوروں سے گزرتی رہی تو صحیح تصور اور دور اندیشی اور فکری روشنی کے ساتھ ان سے نکلتی رہی اور اسباب کو تلاش کیا جاتا اور ابتدا اور انجام کو دیکھا جاتا اور پھر اس کے بعد اسباب کو لے کر عمل کیا جاتا تھا تو اس طرح گھروں میں داخل ہونے کے لۓ دروازے کا استعمال کر کے امت مسلمہ اللہ تعالی کے حکم سے ان مشکلوں سے نکل جانے میں کامیاب ہوتی تو اس کی کھوئی ہوئی عزت واپس آجاتی اور اس کی گئ ہوئی بزرگی بحال ہو جاتی تو امت مسلمہ کا اپنے روشن دور میں یہ حال تھا

لیکن اس آخری دور میں جو کہ جہالت سے بھرا ہوا ہے اور اس میں الحاد وغربت کی آندھیاں اور جھکڑ چل رہے اور ضلالت وگمراہی پھیلی ہوئی ہے تو یہ معاملہ بہت سے مسلمانوں پر خلط ملط ہو چکا ہے اور انہوں نے تقدیر اور قضاء پر ایمان کو زمین میں مستقل رہنے کا سہارا بنا لیا اور اسے دور اندیشی اور کوشش کو چھوڑنے کا جواز بنا لیا اور معاملات کی بلندی اور اہمیت اور عزت وکامیابی کے راستوں کے متعلق سوچ کو ختم کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے ۔

تو انہوں نے آسانی سے سوار ہونے کو مشکل پر ترجیح دی ہے تو ان کے لۓ مخرج یہ تھا کہ وہ آدمی تقدیر پر توکل کرے اور بیشک اللہ تعالی جو چاہے کرتا ہے اور وہ جو چاہے ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا تو اسی کا ارادہ چلتا اور اسی کی مشیت ہوتی ہے اور اس کی تقدیر اور فیصلہ جاری ہوتا ہے تو ہماری کوئی طاقت نہیں اور نہ ہی ان سب چیزوں میں ہمارا ہاتھ ہے ۔

تو اس طرح ہر آسانی اور سہولت کے ساتھ اختلاف کے بغیر اس کی تقدیر کو تسلیم کرنا چاہیے اور مشروع اور مباح اسباب پر عمل کرنا چاہے-

نہ تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور نہ ہی اللہ تعالی کے دشمنوں سے جہاد اور نہ ہی علم کے نشر کرنے اور جہالت ختم کرنے کی حرص اور نہ ہی غلط افکار اور گمراہی کی مبادیات سے ٹکراؤ ہے تو یہ سب اس دلیل کی بنا پر کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالی نے اسے چاہا ہے ۔

اور حقیقت میں یہی بڑی مصیبت اور عظیم گمراہی ہے جس نے امت مسلمہ کو ترقی نہیں کرنے دی اور اسے گہرائیوں میں پھینک دیا اور دشمنوں کو ان پر مسلط کرنے کا سبب بنی ہے اور اس ہلاکت کے بعد ہلاکت چلتی جا رہی ہے ۔

اور اسباب پر عمل کرنا تقدیر پر ایمان کے منافی نہیں بلکہ یہ تو اسے مکمل کرتا ہے تو اللہ تعالی نے ہمارے لۓ کچھ چیزوں کا ارادہ کیا ہے اور ہم سے بھی کچھ چیزوں کا ارادہ کیا ہے تو جو ارادہ اس نے ہمارے ساتھ کیا ہے اسے ہم سے لپیٹ لیا (چھپا ) ہے اور جو ہم سے چاہا ہمیں اسے کرنے کا حکم دیا ہے ۔

تو اس نے ہم سے یہ چاہا کہ ہم کافروں کو دعوت دین دیں اگرچہ وہ یہ جانتا تھا کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے اور ہم سے اس نے یہ چاہا کہ ہم کفار کے ساتھ لڑائی کریں اگرچہ وہ یہ جانتا ہے کہ ہم ان کے سامنے شکست سے دو چار ہوں گے اور اس نے ہم سے یہ چاہا کہ ہم ایک امت بن کر رہیں اگرچہ وہ یہ جانتا ہے کہ ہم جدا جدا ہو جائیں گے اور اختلاف کریں گے اور اس نے ہم سے یہ چاہا کہ ہم کفار پر سخت اور آپس میں نرم دل ہوں اگرچہ وہ یہ جانتا ہے کہ ہم آپس میں بہت سخت ہوں گے اور اسی طرح اور بھی ۔

تو اس کے درمیان خلط ملط کرنے کا اس نے ہمارے ساتھ جو ارادہ کیا اور ہم سے جو چاہا ہے یہی چیز معاملے کو خلط ملط کرتی اور جس سے منع کیا گیا ہے اس میں وقوع کا سبب بنتی ہے ۔

یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالی جو چاہتا ہے کرتا اور ہر چیز کا خالق ہے اسی کے ہاتھ میں ہر چيز کی بادشاہی ہے اور وہی ہے جس کے پاس آسمان وزمین کی کنجیاں ہیں، لیکن اللہ تبارک وتعالی نے اس جہان کے لۓ کچھ ضوابط تیار کۓ ہیں جن پر یہ چل رہا اور قوانین بناۓ ہیں جن کے ساتھ یہ منظم ہے اگرچہ اللہ تعالی اس پر قادر ہے کہ وہ یہ نظام اور قوانین ختم اور توڑ ڈالے اور نہ بھی توڑے۔

اور یہ ایمان رکھنا کہ اللہ تعالی کافروں کے مقابلہ میں مومنوں کی مدد پر قادر ہے اس کا یہ معنی نہیں کہ وہ گھروں میں بیٹھے رہیں اور اسباب پر عمل نہ کریں تو اللہ تعالی مومنوں کی مدد کرے گا کیونکہ اسباب کے بغیر مدد ملنا محال ہے اور اللہ تعالی کی قدرت مستحیل سے متعلق نہیں کیونکہ یہ اللہ تعالی کی حکمت کے خلاف ہے اور اللہ تعالی کی قدرت کا تعلق حکمت کے ساتھ ہے ۔

تو اللہ تعالی کا ہر چیز پر قادر ہونے کا یہ معنی نہیں ہے کہ ایک فرد یا جماعت اور یا کوئی امت اس پر قادر ہے تو اللہ تعالی کی قدرت اور اس کا اس طرح کرنا جیسا کہ اللہ تعالی نے حکم دیا ہے ان دونوں کے درمیان خلط ملط کرنا ہی انسان کو بیٹھنے پر ابھارتا ہے اور وہی امتوں اور لوگوں کو مد ہوش کر دیتا ہے ۔

اور ایک جرمن مستشرق نے مسلمانوں کے آخری دور کی تاریخ لکھتے ہوئے اسی کا ملاحظہ کیا ہے ( مسلمان کی طبیعت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کے ارادہ کو تسلیم اور اس کی تقدیر اور فیصلے پر راضی ہوتا اور وہ ہر چیز کے ساتھ جس کا وہ مالک ہے اللہ واحد اور قہار کے لۓ عاجزی کرتا ہے ۔

تو اس اطاعت کے دو مختلف اثر تھے تو اسلامی دور کے پہلے حصہ میں لڑائیوں کا بہت دور تھا اور ان میں مسلسل مدد ملتی رہی اور کامیابی ہوتی رہی کیونکہ یہ اطاعت فوجی کو اپنی روح قربان کرنے کا جذبہ پیدا کرتی تھی ۔

اور اسلام کے آخری دور میں عالم اسلامی پر جمود طاری ہو چکا تھا جو ان کی حکومت گرانے کا سبب بنا اور اسے عالمی احداث سے لپیٹ کر رکھ دیا۔

دیکھیں کتاب : العلمانیہ للشیخ سفر الحوالی نے پاول شمٹز کی کتاب الاسلام قوۃ الغد العالمیۃ ص 87 ( اسلام کل کی عالمی طاقت ہے ) .

کتاب الایمان بالقضاء والقدر
تالیف : محمد بن ابراہیم الحمد ص 144

http://islamqa.info/ur/11749
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کیا ہم مریض کو بچائیں یا کہ اسے قضاء اور تقدیر کے لئے چھوڑ دیں !!!

اللہ تعالی ہر چیز کا علم رکھتا ہے حتی کہ اس کا بھی جو ابھی تک وقوع پذیز نہیں ہوئی۔ تقدیر اور قضاء کے متعلق اسلام کی کیا رائے ہے؟

یا کیا یہ ممکن ہے کہ آدمی اپنی رائے اور خواہش سے نصیب اور قسمت کا فیصلہ کرے یا یہ کہ یہ لکھی جا چکی ہے۔ مثلا اگر ایک شخص مررہا ہے تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس کی موت اللہ تعالی کے ہاتھ میں اور اس کی مشیت سے ہے اور بعض اسے بچانے اور اس کا علاج کرانے کی کوشش کرتے ہیں تو کیا وہ لکھی جاچکی ہے یا کہ آدمی کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنی تقدیر خود لکھ سکے؟

الحمدللہ :

ہر چیز لکھی ہوئی اور مقدر کی جاچکی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے۔

"ہم نے دفتر میں کوئی چیز نہیں چھوڑی"

اور فرمان ربانی ہے۔

"جو کچھ انہوں نے (اعمال) کۓ ہیں سب اعمال نامہ میں لکھے ہوئے ہیں، (اسی طرح) ہر چھوٹی بڑی بات بھی لکھی ہوئی ہے"

اور صحیح حدیث میں فرمان نبوی ہے۔

(اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا اور اسے کہا کہ لکھ تو وہ کہنا لگا اے رب کیا لکھوں؟ تو اللہ تعالی نے فرمایا جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے وہ لکھو)

اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ۔

(اللہ تعالی نے مخلوقات کی تقدیر کا اندازہ آسمان وزمین بنانے سے پچاس ہزار سال پہلے ہی کرلیا تھا)

اور یہ تقدیر ہم سے غائب ہے جسے ہم نہیں جانتے تو یہ جائز نہیں کہ اس پر بھروسہ کرکے عمل کرنا اور اسباب کو اپنانا چھوڑ دیا جائے تو دونوں ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(اللہ کے بندو علاج کرایا کرو اور حرام دوائی استعمال نہ کرو بیشک اللہ تعالی نے جو بھی بیماری اتاری ہے اس کی دواء اور شفاء بھی نازل فرمائی ہے )

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشاد مبارک ہے:

(عمل کرو جو بھی پیدا کیا گیا ہے اس کے لئے آسانی ہے)

تو ہمیں لکھی گئی چیز کا علم تو اس وقت ہوتا بے جب اس کا وقوع ہوتا ہے تو اللہ تعالی نے ہمارے لئے ارادہ وقدرت اور اختیار بنایا ہے ہم اللہ تعالی کی قدرت اور مشیت سے باہر نہیں نکل سکتے۔

اور خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو موت سے بچانا اور اللہ تعالی کی لکھی ہوئی تقدیر جس کا علم ہمیں واقع ہونے کے بعد ہوتا ہے اس کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے۔

واللہ تعالی اعلم۔

اور اللہ تعالی کے پاس ہی زیادہ علم ہے۔ .

کتبہ: د سلیمان الغصن۔

http://islamqa.info/ur/6011
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا
نتیجہ اس کی تیزی کا تو قدرت کے حوالے کر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذی شان ہے :
لو أنكم توكلتم على الله حق توكله لرزقكم كما يرزق الطير ، تغدو خماصا و تروح بطانا - (او کما قال علیہ السلام)
اگر تم اللہ کی ذات پر کما حقہ توکل کرلو تو اللہ تعالی پرندوں کی مانند تمہیں رزق عطا کرے ، جو صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور رات کو سیر ہوکر واپس لوٹتے ہیں ۔
اس حدیث میں توکل کی حقیقت کو بیان کیاگیا ہے ، لیکن یہاں اسباب اختیار کرنے کی بھی نفی نہیں ہے ۔

کیونکہ پرندے اپنے گھونسلوں سے نکل کر ادھر ادھر رزق کی تلاش کرتے ہیں تو انہیں رزق ملتا ہے ، گھونسلوں میں نازل نہیں ہوتا ۔
ایک ہے اسباب ’’ اختیار کرنا ‘‘ اور دوسرا ہے ، اسباب پر ’’ اعتماد کرنا ‘‘ پہلی چیز دین کے اندر مطلوب جبکہ دوسری چیز عقیدے کی کمزوری کی علامت ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
’’ توکل الی اللہ ‘‘ کی بجائے ’’ توکل علی اللہ ‘‘ جملہ زیادہ مناسب محسوس ہوتا ہے ۔
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
’’ توکل الی اللہ ‘‘ کی بجائے ’’ توکل علی اللہ ‘‘ جملہ زیادہ مناسب محسوس ہوتا ہے ۔
آپ کی بات تو ٹھیک ہے لیکن اُوپر جو حدیث بیان ہوئی ہے اُس کی بھی تھوڑی وضاحت فر ما دیں ہمارے ایک صاحب ہیں وہ اس بات پر بضدہیں کہ حکماء وغیرہ سے علاج کروانا ، دم کرنا کرواناتوکل علی اللہ کے خلاف ہےاور دلیل کے طور پر یہ حدیث پیش کرتے ہیں
«ھُمُ الَّذِیْنَ لاَ یَسْتَرقُوْنَ ، وَلاَ یَکْتُوُونَ وَلاَ یَتَطَیَّرُوْنَ ، وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ»
’’ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ستر ۷۰ ہزار آدمی بغیر حساب و عذاب کے جنت میں جائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ دم کرواتے ہیں ، نہ علاج کی غرض سے اپنے جسم کو داغتے ہیں اور نہ فال نکالتے ہیں، بلکہ وہ صرف اپنے پروردگار پر ہی توکل کرتے ہیں۔‘‘
کیا دم کروانا بھی توکل علی اللہ کے منافی امور میں سے ہے ؟ یا اس سے مراد صرف شرکیہ دم جھاٹ پھونک ہے یا ہر قسم کا دم (چاہے شرعی ہو)؟
اس حدیث سے بعض لوگ علاج معالجے کیلئے حکماء کے پاس جانے اور شرعی دم سےعلاج کو توکل علی اللہ کے منافی قرار دیتے ہیں اس کا صحیح مفہوم کیا ہے؟ سلف نے اس حدیث کا کیا مفہوم بیان کیا ہے؟ کیا ان لوگوں کا اس حدیث سےاستدلال درست ہے یا غلط۔۔۔۔؟؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
آپ کی بات تو ٹھیک ہے لیکن اُوپر جو حدیث بیان ہوئی ہے اُس کی بھی تھوڑی وضاحت فر ما دیں ہمارے ایک صاحب ہیں وہ اس بات پر بضدہیں کہ حکماء وغیرہ سے علاج کروانا ، دم کرنا کرواناتوکل علی اللہ کے خلاف ہےاور دلیل کے طور پر یہ حدیث پیش کرتے ہیں
«ھُمُ الَّذِیْنَ لاَ یَسْتَرقُوْنَ ، وَلاَ یَکْتُوُونَ وَلاَ یَتَطَیَّرُوْنَ ، وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ»
’’ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ستر ۷۰ ہزار آدمی بغیر حساب و عذاب کے جنت میں جائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ دم کرواتے ہیں ، نہ علاج کی غرض سے اپنے جسم کو داغتے ہیں اور نہ فال نکالتے ہیں، بلکہ وہ صرف اپنے پروردگار پر ہی توکل کرتے ہیں۔‘‘
کیا دم کروانا بھی توکل علی اللہ کے منافی امور میں سے ہے ؟ یا اس سے مراد صرف شرکیہ دم جھاٹ پھونک ہے یا ہر قسم کا دم (چاہے شرعی ہو)؟
اس حدیث سے بعض لوگ علاج معالجے کیلئے حکماء کے پاس جانے اور شرعی دم سےعلاج کو توکل علی اللہ کے منافی قرار دیتے ہیں اس کا صحیح مفہوم کیا ہے؟ سلف نے اس حدیث کا کیا مفہوم بیان کیا ہے؟ کیا ان لوگوں کا اس حدیث سےاستدلال درست ہے یا غلط۔۔۔۔؟؟؟
علاج معالجہ توکل علی اللہ کے منافی نہیں ہے ، کیونکہ یہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔
غیر شرعی دم درود تو ہر حال میں ممنوع ہے ۔
البتہ جائز دم ، علاج وغیرہ ’’ توکل ‘‘ کے نہیں بلکہ ’’ کمال توکل ‘‘ کے منافی ہے ۔ لہذا جو لوگ اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے علاج معالجہ ترک کرتے ہیں یقینا ان کے لیے اس کے بدلے میں اللہ کی طرف سے خصوصی انعام ہے کہ وہ جنت کے اندر نمایاں لوگوں میں شامل ہوں گے ۔
واللہ اعلم۔
 

ابوحذیفہ

مبتدی
شمولیت
مارچ 20، 2014
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
9
اسباب بذات خود موثر نہیں بلکہ موثر حقیقی صرف اللہ تعالی ہے یہ ہمارا عقہدہ ہے ہا ں اسباب اختیار کرنا یہ توکل کے منافی نہیں کیونکہ خو د اللہ رب العزت نے اسباب پیدا فرمائے اور اسے اختیار کرنے کا حکم دیا اگر کو ئی اسباب ہی کو مو ثر حقیقی مان کر اسی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے تو یہ تو کل کے منافی ہی نہیں بلکہ عقیدہ کا فساد بھی ہے
 

123456789

رکن
شمولیت
اپریل 17، 2014
پیغامات
215
ری ایکشن اسکور
88
پوائنٹ
43
توکل یہ ہے کہ اسباب اختیار کرکے نظر اسباب کی بجائے مسبب الاسباب پر ہو۔
 
Top