• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تین طلاق پر اجماع۔۔۔

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم رحمت الله -

حضرت عمر رضی الله کا اپنی خلافت کے تیسرے سال بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کے نفاذ کے فیصلے پر کچھ تحفظات ہیں : اہل علم سے درخواست کا جواب دیں :

١-ان روایات کی کیا حقیقت ہے جن میں یہ ہے کہ حضرت عمر رضی الله نے اپنی خلافت کے تیسرے سال بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کے نفاذ کا حکم دیا ؟؟؟
کیا یہ روایت صحیح ہے ، ضعیف ہے، موضوع یا من گھڑت ہیں - علم رجال کی روشنی میں بیان کریں؟؟
٢-اس قانون کے نفاذ کے باوجود دور فاروقی میں کوئی ایک بھی واقعہ سننے میں نہیں آیا کہ جس میں حضرت عمر رضی الله عنہ نے کسی معین شخص پر اس طرح کی حد نافذ کی ہو؟؟
٣-اگر ایسا کوئی واقعہ کسی کے ساتھ پیش آیا تھا اورکسی نے بیک وقت اپنی بیوی کو طلاق ثلاثہ دی تھی اور حضرت عمر رضی الله عنہ نے شرعی نہیں تعزیری طور پر ہی اس شخص پر اس کا نافذ کیا تھا تو اس انسان کا کیا نام تھا اور یہ واقعی واقعہ کب پیش آیا ؟؟ جیسا کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے زمانے میں کچھ صحابہ کرام کے طلاق سے متعلق کچھ واقعات بمع ان کے نام کے احادیث کی کتب میں موجود ہیں - جیسے حضرت رکانہ رضی الله عنہ کا واقعہ جس میں نبی کریم نے ان کو تنبیہ کی تھی کہ میرے ہوتے ہوے کتاب الله سے مذاق کیا جا رہا ہے-- لیکن حضرت عمر کے دور خلافت میں اس طرح کے واقعہ کی کوئی تفصیل نہیں ملتی -کے کسی معین شخص پر خلیفہ وقت نے حد لگائی ہو-؟؟
٤-کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر رضی الله عنہ بعد میں اپنے اس فیصلے پر پشیمان ہوے تھے - اگر یہ نفاذ طلاق ثلاثہ کا فیصلہ تعزیری تھا (شرعی نہیں تھا) تواس پر عمر رضی الله عنہ کو پشیمان ہونے کی کیا ضرورت تھی ؟؟ خلیفہ وقت صاحب اقتدار ہوتا ہے جب چاہے جو چاہے تعزیری سزا کا نفاذ کرلے ؟؟

جواب کا انتظار رہے گا -جزاک الله ھوا خیر -
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ؛
ایک طالب علم کی حیثیت سے جواب عرض ہے ،(مفتی کی حیثیت سے نہیں )
آپ نے سوال کیا کہ :
١-ان روایات کی کیا حقیقت ہے جن میں یہ ہے کہ حضرت عمر رضی الله نے اپنی خلافت کے تیسرے سال بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کے نفاذ کا حکم دیا ؟؟؟ کیا یہ روایت صحیح ہے ، ضعیف ہے، موضوع یا من گھڑت ہیں - علم رجال کی روشنی میں بیان کریں؟؟
اس کا جواب یہ کہ :
صحیح مسلم میں ہے :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ، فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ، فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ "
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہيں کہ ''رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں اور حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں جب کوئی شخص اکٹھی تین طلاقیں دیتا تو وہ ایک ہی شمار کی جاتی تھیں ۔ پھر حضرت عمرؓ نے کہا کہ لوگوں نے اس کام میں جلدی کرنا شروع کردی، جس میں اُنہیں مہلت ملی تھی۔
تو اگر اس کو ہم نافذ کردیں (تو از راہ تعزیر مناسب ہے)۔ پھر اُنہوں نے اسے جاری کردیا۔اسے امام احمد نے مسند میں (۴۵۳۴ )اور ابو عوانہ نےمسند میں (۲۸۷۵ ) میں روایت کیا ہے ۔
اور اس کی سند انتہائی اعلیٰ ، اور حد درجہ صحیح ہے ،تمام راوی امام اور حافظ ہیں ، جس کی مختصراً تفصیل درج ذیل ہے ؛
  1. حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، (صحیح البخاری اور صحیح مسلم اور صحاح ستہ کے مرکزی راوی ،یمن ،صنعاء کے مشہور ثقہ حافظ اور امام ،،اور ۔۔المصنف ۔۔کے مصنف )
  2. حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، --ان کے تعارف امام الذہبی لکھتے ہیں :
    مَعْمَرُ بنُ رَاشِدٍ أَبُو عُرْوَةَ الأَزْدِيُّ مَوْلاَهُم * (ع)
    الإِمَامُ، الحَافِظُ، شَيْخُ الإِسْلاَمِ، أَبُو عُرْوَةَ بنُ أَبِي عَمْرٍو الأَزْدِيُّ مَوْلاَهُم، البَصْرِيُّ، نَزِيْلُ اليَمَنِ
  3. عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، ان کے تعارف میں امام الذہبی لکھتے ہیں:
    عَبْدُ اللهِ بنُ طَاوُوْسٍ أَبُو مُحَمَّدٍ اليَمَانِيُّ ** (ع) یعنی صحاح ستہ کے راوی ہیں ،
    الإِمَامُ، المُحَدِّثُ، الثِّقَةُ، أَبُو مُحَمَّدٍ اليَمَانِيُّ.
    سَمِعَ مِنْ: أَبِيْهِ - وَأَكْثَرَ عَنْهُ -.
    وَمِنْ: عِكْرِمَةَ، وَعَمْرِو بنِ شُعَيْبٍ، وَعِكْرِمَةَ بنِ خَالِدٍ المَخْزُوْمِيِّ، وَجَمَاعَةٍ.
    وَلَمْ يَأْخُذْ عَنْ أَحَدٍ مِنَ الصَّحَابَةِ، وَيَسوغُ أَنْ يُعدَّ فِي صِغَارِ التَّابِعِيْنَ، لِتقدُّمِ وَفَاتِهِ.
    حَدَّثَ عَنْهُ: ابْنُ جُرَيْجٍ، وَمَعْمَرٌ، وَالثَّوْرِيُّ، وَرَوْحُ بنُ القَاسِمِ، وَوُهَيْبُ بنُ خَالِدٍ، وَسُفْيَانُ بنُ عُيَيْنَةَ، وَآخَرُوْنَ.
    وثَّقُوْهُ.

  4. عَنْ أَبِيهِ، (طَاوُسٍ )ان کے تعارف میں امام الذہبی لکھتے ہیں:
    طَاوُوْسُ بنُ كَيْسَانَ الفَارِسِيُّ ** (ع)
    الفَقِيْهُ، القُدْوَةُ، عَالِمُ اليَمَنِ، أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الفَارِسِيُّ، ثُمَّ اليَمَنِيُّ، الجَنَدِيُّ (1) ، الحَافِظُ.
  5. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ۔جلیل القدر صحابی ،نبی کریم ﷺ کے چچا زاد ،علم حدیث اور تفسیر میں صحابہ کرام میں ممتاز مقام پر فائز
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
٢-اس قانون کے نفاذ کے باوجود دور فاروقی میں کوئی ایک بھی واقعہ سننے میں نہیں آیا کہ جس میں حضرت عمر رضی الله عنہ نے کسی معین شخص پر اس طرح کی حد نافذ کی ہو؟؟
معذرت کے ساتھ : یہ سوال صحیح سمجھ نہیں آیا ۔۔۔
اگر سوال یہ ہے کہ اکٹھی تین طلاق دینے والے والے کو کیا سزا دی گئی، تو عرض ہے کہ :
فتح الباری شرح صحیح البخاری میں حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ:
’’ وَأَخْرَجَ سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ عُمَرَ كَانَ إِذَا أُتِيَ بِرَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا أَوْجَعَ ظَهْرَهُ۔۔ وَسَنَدُهُ صَحِيحٌ ‘‘
کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اگر کوئی تین طلاق دینے والا لایا جاتا ،تو آپ اس کی پیٹھ پر کوڑے مارتے ‘‘
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
٤-کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر رضی الله عنہ بعد میں اپنے اس فیصلے پر پشیمان ہوے تھے - اگر یہ نفاذ طلاق ثلاثہ کا فیصلہ تعزیری تھا (شرعی نہیں تھا) تواس پر عمر رضی الله عنہ کو پشیمان ہونے کی کیا ضرورت تھی ؟؟ خلیفہ وقت صاحب اقتدار ہوتا ہے جب چاہے جو چاہے تعزیری سزا کا نفاذ کرلے ؟؟
اس کا جواب میری سابقہ پوسٹ میں موجود ہے ؛
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ إغاثة اللھفان میں فرماتے ہیں :
''قال الحافظ أبوبکر الإسماعیلي في مسند عمر أخبرنا أبو یعلی حدثنا صالح بن مالك حدثنا خالد بن یزید بن أبي مالك عن أبیه قال قال عمر بن الخطاب: ما ندمت علی شيء ندامتي علی ثلاث أن لا أکون حرمت الطلاق وعلی أن لا أکون أنکحت الموالي وعلی أن لا أکون قتلت النوائح'' (.إغاثة اللھفان: ج1؍ ص336 )
''حضرت عمرؓ نے فرمایا جو ندامت مجھے تین کاموں پر ہوئی ہے وہ کسی او رکام پر نہیں ہوئی: ایک یہ کہ میں تین طلاقوں کو طلاقِ تحریم نہ بناتا، دوسرا یہ کہ غلاموں کو نکاح کرنے کا حکم صادر نہ کرتا، اور تیسرا یہ کہ نوحہ کرنے والیوں کو قتل کرنے کا حکم نہ دیتا۔''

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے جو تین طلاقوں کے تین ہونے کا حکم دیا تھا، وہ شرعی حکم نہ تھا بلکہ تعزیری اور وقتی آرڈیننس تھا، جو یکبار تین طلاقیں دینے والوں کے لئے سزا کے طور پر نافذ کیا تھا۔ جب دیکھا کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ لوگوں کا یکبارگی طلاقیں دینے کا فساد اوربڑھا ہے تو آپؓ نے اس ذاتی فیصلے سے رجوع فرما لیا، اور اس پر ندامت کا اظہار بھی کیا۔ تو دیکھئے جب حضرت عمرؓ ہی اپنے اس فیصلے پر ندامت کااظہار فرماچکے ہیں تو اب اسے بنیاد بنا کر اجماع کا دعویٰ کیسے کیاجاسکتا ہے؟

زیر نظر بحث اور مذکورہ حدیث کی تفصیل کے لیے دیکھئے: تطلیقاتِ ثلاثة از مولانا عبد الرحمن کیلانی
شائع شدہ ماہنامہ 'محدث' لاہور، بابت اپریل ١٩٩٢ء ... ص ٥٢ تا ٧٩
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ؛
ایک طالب علم کی حیثیت سے جواب عرض ہے ،(مفتی کی حیثیت سے نہیں )
آپ نے سوال کیا کہ :
١-ان روایات کی کیا حقیقت ہے جن میں یہ ہے کہ حضرت عمر رضی الله نے اپنی خلافت کے تیسرے سال بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کے نفاذ کا حکم دیا ؟؟؟ کیا یہ روایت صحیح ہے ، ضعیف ہے، موضوع یا من گھڑت ہیں - علم رجال کی روشنی میں بیان کریں؟؟
اس کا جواب یہ کہ :
صحیح مسلم میں ہے :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ، فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ، فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ "
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہيں کہ ''رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں اور حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں جب کوئی شخص اکٹھی تین طلاقیں دیتا تو وہ ایک ہی شمار کی جاتی تھیں ۔ پھر حضرت عمرؓ نے کہا کہ لوگوں نے اس کام میں جلدی کرنا شروع کردی، جس میں اُنہیں مہلت ملی تھی۔
تو اگر اس کو ہم نافذ کردیں (تو از راہ تعزیر مناسب ہے)۔ پھر اُنہوں نے اسے جاری کردیا۔اسے امام احمد نے مسند میں (۴۵۳۴ )اور ابو عوانہ نےمسند میں (۲۸۷۵ ) میں روایت کیا ہے ۔
اور اس کی سند انتہائی اعلیٰ ، اور حد درجہ صحیح ہے ،تمام راوی امام اور حافظ ہیں ، جس کی مختصراً تفصیل درج ذیل ہے ؛
  1. حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، (صحیح البخاری اور صحیح مسلم اور صحاح ستہ کے مرکزی راوی ،یمن ،صنعاء کے مشہور ثقہ حافظ اور امام ،،اور ۔۔المصنف ۔۔کے مصنف )
  2. حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، --ان کے تعارف امام الذہبی لکھتے ہیں :
    مَعْمَرُ بنُ رَاشِدٍ أَبُو عُرْوَةَ الأَزْدِيُّ مَوْلاَهُم * (ع)
    الإِمَامُ، الحَافِظُ، شَيْخُ الإِسْلاَمِ، أَبُو عُرْوَةَ بنُ أَبِي عَمْرٍو الأَزْدِيُّ مَوْلاَهُم، البَصْرِيُّ، نَزِيْلُ اليَمَنِ
  3. عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، ان کے تعارف میں امام الذہبی لکھتے ہیں:
    عَبْدُ اللهِ بنُ طَاوُوْسٍ أَبُو مُحَمَّدٍ اليَمَانِيُّ ** (ع) یعنی صحاح ستہ کے راوی ہیں ،
    الإِمَامُ، المُحَدِّثُ، الثِّقَةُ، أَبُو مُحَمَّدٍ اليَمَانِيُّ.
    سَمِعَ مِنْ: أَبِيْهِ - وَأَكْثَرَ عَنْهُ -.
    وَمِنْ: عِكْرِمَةَ، وَعَمْرِو بنِ شُعَيْبٍ، وَعِكْرِمَةَ بنِ خَالِدٍ المَخْزُوْمِيِّ، وَجَمَاعَةٍ.
    وَلَمْ يَأْخُذْ عَنْ أَحَدٍ مِنَ الصَّحَابَةِ، وَيَسوغُ أَنْ يُعدَّ فِي صِغَارِ التَّابِعِيْنَ، لِتقدُّمِ وَفَاتِهِ.
    حَدَّثَ عَنْهُ: ابْنُ جُرَيْجٍ، وَمَعْمَرٌ، وَالثَّوْرِيُّ، وَرَوْحُ بنُ القَاسِمِ، وَوُهَيْبُ بنُ خَالِدٍ، وَسُفْيَانُ بنُ عُيَيْنَةَ، وَآخَرُوْنَ.
    وثَّقُوْهُ.

  4. عَنْ أَبِيهِ، (طَاوُسٍ )ان کے تعارف میں امام الذہبی لکھتے ہیں:
    طَاوُوْسُ بنُ كَيْسَانَ الفَارِسِيُّ ** (ع)
    الفَقِيْهُ، القُدْوَةُ، عَالِمُ اليَمَنِ، أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الفَارِسِيُّ، ثُمَّ اليَمَنِيُّ، الجَنَدِيُّ (1) ، الحَافِظُ.
  5. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ۔جلیل القدر صحابی ،نبی کریم ﷺ کے چچا زاد ،علم حدیث اور تفسیر میں صحابہ کرام میں ممتاز مقام پر فائز
جزاک الله -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
معذرت کے ساتھ : یہ سوال صحیح سمجھ نہیں آیا ۔۔۔
اگر سوال یہ ہے کہ اکٹھی تین طلاق دینے والے والے کو کیا سزا دی گئی، تو عرض ہے کہ :
فتح الباری شرح صحیح البخاری میں حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ:
’’ وَأَخْرَجَ سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ عُمَرَ كَانَ إِذَا أُتِيَ بِرَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا أَوْجَعَ ظَهْرَهُ۔۔ وَسَنَدُهُ صَحِيحٌ ‘‘
کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اگر کوئی تین طلاق دینے والا لایا جاتا ،تو آپ اس کی پیٹھ پر کوڑے مارتے ‘‘
میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ کیا حضرت عمر رضی الله عنہ کا کوئی واقعہ اس زمن میں موجود ہے جو طلاق ثلاثہ کے نفاذ کے سلسلے میں تقویت کا باعث ہو ؟؟؟ صرف یہ کہنا کہ انہوں نے ایک تعزیری سزا کا نفاذ کیا تھا یکبارگی طلاق ثلاثہ دینے والوں پر تو اس سے حضرت عباس رضی الله عنہ کے قول کو زیادہ تقویت نہیں ملتی -؟؟؟ کہ جس میں انہوں نے کہا کہ " حضرت عمرؓ نے کہا کہ لوگوں نے اس کام میں جلدی کرنا شروع کردی، جس میں اُنہیں مہلت ملی تھی۔ تو اگر اس کو ہم نافذ کردیں"

مثال کے طور پر نبی کریم صل الله علیہ و وسلم کے دور میں طلاق سے متعلق واقعیات احدیث کی کتب میں تفصیل سے ملتے ہیں- جیسے حضرت رکانہ رضی الله عنہ کا واقعہ جس میں نبی کریم نے ان کو تنبیہ کی تھی کہ میرے ہوتے ہوے کتاب الله سے مذاق کیا جا رہا ہے وغیرہ؟؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اس کا جواب میری سابقہ پوسٹ میں موجود ہے ؛
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ إغاثة اللھفان میں فرماتے ہیں :
''قال الحافظ أبوبکر الإسماعیلي في مسند عمر أخبرنا أبو یعلی حدثنا صالح بن مالك حدثنا خالد بن یزید بن أبي مالك عن أبیه قال قال عمر بن الخطاب: ما ندمت علی شيء ندامتي علی ثلاث أن لا أکون حرمت الطلاق وعلی أن لا أکون أنکحت الموالي وعلی أن لا أکون قتلت النوائح'' (.إغاثة اللھفان: ج1؍ ص336 )
''حضرت عمرؓ نے فرمایا جو ندامت مجھے تین کاموں پر ہوئی ہے وہ کسی او رکام پر نہیں ہوئی: ایک یہ کہ میں تین طلاقوں کو طلاقِ تحریم نہ بناتا، دوسرا یہ کہ غلاموں کو نکاح کرنے کا حکم صادر نہ کرتا، اور تیسرا یہ کہ نوحہ کرنے والیوں کو قتل کرنے کا حکم نہ دیتا۔''

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے جو تین طلاقوں کے تین ہونے کا حکم دیا تھا، وہ شرعی حکم نہ تھا بلکہ تعزیری اور وقتی آرڈیننس تھا، جو یکبار تین طلاقیں دینے والوں کے لئے سزا کے طور پر نافذ کیا تھا۔ جب دیکھا کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ لوگوں کا یکبارگی طلاقیں دینے کا فساد اوربڑھا ہے تو آپؓ نے اس ذاتی فیصلے سے رجوع فرما لیا، اور اس پر ندامت کا اظہار بھی کیا۔ تو دیکھئے جب حضرت عمرؓ ہی اپنے اس فیصلے پر ندامت کااظہار فرماچکے ہیں تو اب اسے بنیاد بنا کر اجماع کا دعویٰ کیسے کیاجاسکتا ہے؟

زیر نظر بحث اور مذکورہ حدیث کی تفصیل کے لیے دیکھئے: تطلیقاتِ ثلاثة از مولانا عبد الرحمن کیلانی
شائع شدہ ماہنامہ 'محدث' لاہور، بابت اپریل ١٩٩٢ء ... ص ٥٢ تا ٧٩
"جب دیکھا کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ لوگوں کا یکبارگی طلاقیں دینے کا فساد اوربڑھا ہے تو آپؓ نے اس ذاتی فیصلے سے رجوع فرما لیا"

اس کا کوئی ثبوت ؟؟؟
کیا واقعی ایسا ہوا تھا - کہ طلاق ثلاثہ کا فساد بڑھا تھا؟؟

إغاثة اللھفان میں صرف حضرت عمر رضی الله عنہ کی ندامت کا ذکر ہے اس کی وجہ بیان نہیں ہوئی -
قال عمر بن الخطاب: ما ندمت علی شيء ندامتي علی ثلاث أن لا أکون حرمت الطلاق-
 
شمولیت
مارچ 04، 2015
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
42
پوائنٹ
56
معذرت کے ساتھ، ایک اور سوال کہ اگر حضرت عمر (رضہ) سے پہلے اس چیز پر اجماع تھا، تو حضرت عمر (رضہ) کے اس فیصلے کے بارے میں کیا کہ سکتے ہیں؟

یہ اجماع کے خلاف فیصلا نہیں؟

@اسحاق سلفی
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ!
محترم بھائی آپ کے سوالوں کے جواب تو اہلِ علم ہی دیں گے، لیکن آپ سے ایک سوال پوچھنا تھا کہ
کیا آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہُ کی زندگی کے سبھی شب و روز کا مطالعہ کرلیا ہے؟
یا کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہُ کی زندگی کے تمام واقعات قلمبند ہوگئے ہیں؟

کیونکہ (ہوسکتا ہے میں غلط ہوں لیکن) میرے خیال میں "دین کی تعلیمات" تو "دستیاب علم" سے ہی اخذ کی جاتی ہیں، اور یہ سوال میرے ذہن میں اس لیے پیدا ہوا کہ اکثر آپ کی پوسٹس میں یہ اعتراض بڑی شدومد کے ساتھ اٹھایا جاتا ہے کہ
"فلاں واقعہ کی صداقت میں اس لیے شک ہے کہ یہ فلاں، فلاں نے بیان نہیں کیا یا فلاں، فلاں جگہ بیان نہیں ہوا"۔
مجھے اپنی کم علمی کا احساس ہے اور سوال پوچھنے کامقصد بھی یہی ہے تاکہ سیکھ سکوں کہ"تحقیق" کی یہ کونسی قسم ہے جس سے بندہ اسلام کی تعلیمات صحیح طور پر سیکھ کر اللہ کا قرب حاصل کرسکے اور یہ بھی کہ آپ نے یہ "طریقہ تحقیق" کہاں سے سیکھا ہے؟

جزاک اللہ۔
محترم -

بات یہ ہے کہ احادیث کی کتب میں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی ذات اقدس سے لیکر مشہور صحابہ کرام رضوان الله اجمعین تک کے اکثر و بیشتر واقعیات تفصیل سے بیان ہوے ہیں- میرا منشاء صرف یہ ہے کہ اتنی تفصیل کے باوجود ان کتب میں حضرت عمر رضی الله عنہ کے اس تعزیری حکم سے متعلق کوئی واقعہ موجود نہیں جو حضرت عمر رضی الله عنہ کے اس اقدام کو تقویت دے سکے - اور میں نے اہل علم سے یہی درخواست کی تھی کہ مجھے بتائیں کہ کیا کوئی واقعہ اس زمن میں موجود ہے جس میں عمر رضی الله عنہ نے اپنی خلافت کے دور میں کسی معین شخص پر بیک وقت طلاق ثلاثہ کی سزا نافذ کی گئی تھی؟؟؟

آپ بھی جانتے ہیں کہ حضرت عمر رضی الله عنہ کے اس اقدام کی بنا پر صدیوں سے مسلمانوں میں طلاق ثلاثہ کے مسلہ گھمبیر ہوتا چلا آ رہا ہے لیکن ابھی تک امّت مسلمہ اس پر متفق نہیں ہو سکی- بلکہ اکثر تو علماء میں اس مسلے میں اختلاف اس حد تک بڑھا کہ بات ہاتھا پائی اور گالی گلوچ تک پہنچ گئی- بالفرض اگر حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنے دور خلافت کے تیسرے سال وقتی طور طلاق ثلاثہ کا قانون بنایا تھا تو یقیناً انہوں نے اس کے زیر اثر کئی لوگوں کو سزا بھی دی ہو گی؟؟- اور یہ سوال اسی بنا پر ہے کہ حضرت عمر کے اس اقدام (اگرصحیح) تواس کو تقویت سکے-

آپ نے سوال کیا ہے کہ اکثر آپ کی پوسٹس میں یہ اعتراض بڑی شدومد کے ساتھ اٹھایا جاتا ہے کہ "فلاں واقعہ کی صداقت میں اس لیے شک ہے کہ یہ فلاں، فلاں نے بیان نہیں کیا یا فلاں، فلاں جگہ بیان نہیں ہوا"۔

تو محترم اس کا جواب یہ ہے کہ وہ روایت کے جن کی بنا پر کوئی عقیدہ قائم ہونا ہوتا ہے یا شریعت کا کوئی حکم نافذ ہونا ہوتا ہے اس کو قبول کرنے کا یہ مسلمہ طریقہ یہ ہے کہ یا تو وہ حکم یا عقیدہ قرآن کریم میں موجود ہو یا کم ازکم اس حکم کو مشہور اور مستند محققین یا محدثین نے اپنی کتب میں قلمبند کیا ہو- اور اس میں کسی طرح کا اختلاف نہ پایا جائے- ورنہ وہ قانون شریعت یا عقیدہ قرار نہیں پا سکتا- لہذا اگر وہ قران کریم یا کسی کتب روایات میں وضاحت کے ساتھ نہ پایا جائے تو وہ عقیدہ یا شرعی حکم مشکوک ہو جاتا ہے- (واللہ اعلم)-
 
شمولیت
مارچ 04، 2015
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
42
پوائنٹ
56
''قال الحافظ أبوبکر الإسماعیلي في مسند عمر أخبرنا أبو یعلی حدثنا صالح بن مالك حدثنا خالد بن یزید بن أبي مالك عن أبیه قال قال عمر بن الخطاب: ما ندمت علی شيء ندامتي علی ثلاث أن لا أکون حرمت الطلاق وعلی أن لا أکون أنکحت الموالي وعلی أن لا أکون قتلت النوائح'' (.إغاثة اللھفان: ج1؍ ص336 )
''حضرت عمرؓ نے فرمایا جو ندامت مجھے تین کاموں پر ہوئی ہے وہ کسی او رکام پر نہیں ہوئی: ایک یہ کہ میں تین طلاقوں کو طلاقِ تحریم نہ بناتا، دوسرا یہ کہ غلاموں کو نکاح کرنے کا حکم صادر نہ کرتا، اور تیسرا یہ کہ نوحہ کرنے والیوں کو قتل کرنے کا حکم نہ دیتا۔''

السلام علیکم، @اسحاق سلفی بھائی اس قول کی سند کیسی ہے؟
میں ویسے سند کے بارے میں علم تو نہیں رکہتے پر ایک جگہ میں نہ دیکھا، کسی دیوبندی نے اس پر کہا کہ یہ یہ قول صحیح نہیں ہے، اور دو راویوں(جن کے نام تو مجھے یاد نہیں) میں سے ایک پر جرح کی ہے اور دوسرے کے بارے میں بھی کچھ لکھا ہوئا تھا۔
برائے مھربانی اس بارے میں وضاحت کردین۔۔۔
جزاک اللہ خیر،،،،
 
Top