• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ثبوتِ قراء ات اور اَکابرین اُمت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ثبوتِ قراء ات اور اَکابرین اُمت

حافظ محمدمصطفی راسخ​
متنوع قراء ات کا ثبوت ایسا مسئلہ ہے کہ گذشتہ چودہ صدیوں میں اس کی حجیت کے سلسلہ میں کبھی بھی اختلاف نہیں ہوا۔ امت کے سابقہ تاریخی ادوار میں متعدد اہل علم نے حجیت ِقراء ات کے اس دعوائے اجماع کو صراحتاً بیان کیا ہے اور یہ مسئلہ چونکہ ضروریات دین میں سے ہے اور امور دین میں بالکل بدیہی ہے اسی لئے کئی نامور شخصیات نے انکارِ قراءات پر فتوائے کفر صادر کیا ہے۔
گذشتہ شمارہ میں ہم نے پاکستان کے جمیع مکاتب فکر کا حجیت قراء ات کے مسئلہ میں متفقہ مؤقف رشد کے صفحات میں شائع کیا تھا۔ زیر نظر مضمون میں فاضل مؤلف نے انتہائی محنت کے ساتھ اسلاف امت میں سے تقریباً ۱۵۰نمائندہ علماء کی تحریروں کے ’انتخابات‘ پر مشتمل یہ قیمتی مضمون ہدیۂ قارئین کیا ہے، جس میں انہوں نے علیحدہ سے ان علماء کی وضاحت بھی کر دی ہے جو ثبوت قراء ات کے مسئلہ کو اجماعی قرار دیتے ہیں اور اسی طرح ان اہل علم کو بھی علیحدہ بیان کر دیا ہے جو انکارِ قراء ات کو صریح کفر شمار کرتے ہیں۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اللہ رب العزت نے اُمت کی آسانی کے لئے اپنی عظیم الشان کتاب قرآن مجید کو ’سبعہ اَحرف‘ پر نازل فرمایا ہے۔ اور پوری اُمت کا اِس اَمر پر اجماع ہے کہ موجودہ ’قراء ات عشرہ‘ انہی سبعہ اَحرف میں سے ہیں اور انہیں اُمت کی طرف سے تلقی بالقبول حاصل ہے، جو نبی کریم1 سے ہم تک تواتر کے ساتھ پہنچی ہیں، جسے بعد والوں نے پہلوں سے اَخذ کیا ہے، جو اپنی نمازوں میں ان کی تلاوت کرتے رہے۔ ان قراء اتِ متواترہ میں سے کسی ایک کا اِنکار پورے قرآن مجید کا اِنکار ہے۔ یہ سب قراء ات قطعی اور یقینی طور پر قرآن ہیں۔اور قرآن مجید کے کسی ایک حرف کا اِنکار باتفاقِ اُمت کفر ہے۔
قراء ات کی اسی اَہمیت وفضیلت کے پیش نظر اُمت نے ان کا خصوصی اِہتمام کیا ہے اور اہل علم نے انہیں اپنا موضوع سخن بنایا ہے۔محدثین کرام نے اپنی کتب اَحادیث اور مفسرین عظام نے اپنی تفاسیر میں اس موضوع پر مستقل اَبواب قائم کئے ہیں اور تفصیلی بحث کی ہے۔ اَکابرین اُمت نے قراء ات کے تواتر، ثبوت اور دفاع میں اپنے اپنے طور پر بحث کی ہے۔زِیر نظر مضمون میں ہم نے کوشش کی ہے کہ ثبوتِ قراء ات کے حوالے سے اَکابرین اُمت میں سے کم اَز کم سو کے قریب اَقوال جمع کر دئیے جائیں جو ہمارے لئے راہنمائی کا باعث ہوں۔ ہمارا یہ کام سمندر میں سے ایک قطرے کی مانند ہے اور فقط ایک نمونہ ہے۔ورنہ اگر کتبِ اَسلاف اور دیگر مراجع ومصادر کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے تو یہ اَقوال اس تعداد سے کئی گنا زیادہ سامنے آسکتے ہیں جو ثبوتِ قراء ات پر اُمت کے اجماع کی دلیل ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ اِمام بخاری﷫ صحیح بخاری میں کتاب فضائل القرآن، باب أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف اور دیگر اَبواب کے تحت تقریباً آٹھ احادیث لائے ہیں۔جو ثبوتِ قراء ات کے حوالے سے ان کے مضبوط مؤقف کی واضح دلیل ہے۔
٭ حافظ ابن حجر﷫ نے بخاری کی شرح فتح الباری میں مذکورہ اَبواب کے تحت حدیث، أنزل القرآن علی سبعہ أحرف،کی شرح میں قراء ات کو ثابت کیا ہے۔ نیز حدیث ہشام بن حکیم ﷜ کی شرح میں سورۃ الفرقان کی مکمل قراء ات کو تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے۔ (فتح الباري: ۱۱؍۲۷ تا۴۶ )
٭ علامہ اَنور شاہ کشمیری﷫ نے بخاری کی شرح میں باب أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف کے تحت قراء ات کو ثابت کیا ہے۔ (فیض الباري: ۴؍۱۵۷،۲۶۴)
٭ اِمام قسطلانی﷫ نے بخاری کی شرح میں مذکورہ باب کے تحت قراء ات کو ثابت کیاہے۔(إرشاد الساري: ۷؍۴۵۰ تا۴۵۷)
٭ اِمام عینی﷫ نے بھی بخاری کی شرح میں مذکورہ باب کے تحت قراء ات کو ثابت کیا ہے۔(عمدۃ القاري: ۲۰؍۲۰،۲۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ اِمام مسلم﷫ نے صحیح مسلم میں کتاب فضائل القرآن، باب فی بیان أن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف کے تحت تقریباً پانچ اَحادیث نقل کی ہیں جو ثبوتِ قراء ات پر ان کے مؤقف کی واضح دلیل ہے۔ (۲۷۰ تا ۲۷۴، ۲۸)
٭ امام نووی﷫ نے مسلم کی شرح میں مذکورہ اَبواب کے تحت اِن اَحادیث کی شرح میں قراء ات کو ثابت کیا ہے۔ (شرح نووي: ۲؍۹۸ تا۱۰۴)
٭ اِمام ابوداؤد﷫ نے سنن ابوداؤد میں کتاب الوتر، باب أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف کے تحت چار اَحادیث نقل کی ہیں جو ثبوتِ قراء ات کے حوالے سے ان کے مؤقف کی واضح دلیل ہے۔ (۱۴۷۵تا۱۴۷۸)
نیز اُنہوں نے حدیث سبعہ اَحرف لانے کے لیے یوں باب قائم کیا ہے۔ أبواب القرائات عن رسول اﷲﷺ، معلوم ہوتا ہے کہ اِمام ابوداؤد﷫ کے نزدیک سبعہ اَحرف سے مراد قراء اتِ قرآنیہ ہیں۔
٭ علامہ ابو طیب محمد شمس الحق عظیم آبادی﷫ نے سنن ابوداؤد کی شرح عون المعبود میں مذکورہ باب کے تحت ان اَحادیث کی شرح میں قراء ات کو ثابت کیا ہے۔ (عون المعبود: ۴؍۲۴۲ تا ۲۴۶ )
٭ امام ترمذی﷫ نے جامع ترمذی میں اَبواب القراء ات کے تحت متعدد اَحادیث نقل کی ہیں جوثبوت قرائات کے حوالے سے ان کے مؤقف کی صریح دلیل ہیں۔ ( :۲۹۲۷ تا ۲۹۴۴ )
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ علامہ عبدالرحمن مبارکپوری﷫ نے جامع ترمذی کی شرح تحفۃ الأحوذی میں مذکورہ اَبواب’ ابواب القراء ات‘ کے تحت قراء ات کو ثابت کیا ہے۔ (تحفۃ الأحوذی: ۸؍۱۹۸ تا۲۱۴ )
٭ اِمام نسائی﷫ نے سنن نسائی میں کتاب الافتتاح،جامع ما جآء فی القرآن کے تحت چھ اَحادیث نقل کی ہیں جو قراء ات کے ثبوت کے حوالے سے ان کے موقف کی واضح دلیل ہے۔ (۹۳۷ تا ۹۴۲)
٭ مولانا عطاء اللہ بھوجیانی اَمرتسری﷫ نے سنن نسائی کی شرح تعلیقات سلفیہ میں مذکورہ باب کے تحت قراء ات کو ثابت کیا ہے۔ (التعلیقات السلفیۃ علی النسائي: ۱؍۱۱۴)
٭ امام بغوی﷫ فرماتے ہیں:
’’خط اور کتابت کے موافق لغات مختلفہ (یعنی قراء ات)کے ساتھ تلاوت کرنے میں وسعت اورگنجائش ہے۔ جسے معروف قراء کرام نے صحابہ کرام﷢ سے نقل صحیح کے ساتھ پڑھا ہے۔‘‘ (شرح السنۃ: ۲؍۵۱۱)
٭ امام بیہقی﷫ نے اپنی کتاب ’السنن الکبریٰ ‘ میں سبعہ اَحرف پرمتعدد اَحادیث نقل کی ہیں۔(السنن الکبریٰ للبیہقي: ۲؍۳۸۴)
٭ اِمام خطیب بغدادی﷫ نے مشکوۃ شریف میں کتاب فضائل القرآن، باب اِختلاف القراء ات کے تحت حدیث أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف کو نقل کیاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ اِمام احمد بن حنبل﷫ نے اپنی کتاب مسند احمد میں مختلف مقامات پر تقریباً پینتیس(۳۵) اَحادیث نقل کی ہیں جو ثبوت قراء ات کے حوالے سے ان کے مؤقف پر واضح دلیل ہے۔ (مسنداحمد:۵؍۱۱۴،۵؍۱۶ )
٭ اِمام حاکم﷫ نے مستدرک حاکم میں حدیث أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف کو متعدد مقامات پر ذکر کیا ہے، جو ثبوتِ قراء ات کے حوالے سے ان کے مؤقف کی واضح دلیل ہے۔ (مستدرک حاکم:۱؍۵۵۳، ۲؍۲۸۹ )
٭ امام مالک﷫ نے اپنی کتاب ’مؤطا‘ میں باب ماجاء فی القرآن کے تحت مذکورہ حدیث کو نقل کیاہے جو ثبوتِ قراء ات کے حوالے سے ان کے مؤقف کی واضح دلیل ہے۔ (مؤطا:۱؍۲۰۱)
٭ امام قرطبی﷫ فرماتے ہیں:
’’یہ بات متشابہ میں سے نہیں ہے کہ کوئی آیت دو قراء توں سے پڑھی گئی ہو اور اسم اِحتمال یا اجمال کی وجہ سے تفسیر کا محتاج ہو، کیونکہ ثابت تو اس سے اسی قدر ہوگا جس کو اسم شامل ہوگا یا تمام ثابت ہوگا اور دو قراء تیں دو آیات کی مانند ہیں دونوں کے موجب پرعمل کرنا ضروری ہے۔ ‘‘(الجامع لأحکام القرآن للقرطبي: ۴؍۱۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ نیز فرماتے ہیں:
’’پوری ملت اِسلامیہ کااس پر اِجماع ہے کہ جو قراء ات ان اَئمہ نے رِوایت کی ہیں یا اُنہیں کتابوں میں جمع کیا گیا ہے، تمام قابلِ اعتماد ہیں اور ان کے صحیح ہونے پر ہر زمانہ میں اِجماع چلتاآیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کا جو ذمہ اُٹھایا تھاوہ پورا ہوا، تمام محققین، فضلاء اور اَئمہ سلف مثلاً قاضی ابوبکر بن ابوالطیب﷫ اور امام ابن جریرطبری﷫ وغیرہما اس بات کے حامل ہیں۔‘‘ (الجامع لأحکام القرآن: ۱؍۴۷)
٭ امام آلوسی﷫ فرماتے ہیں:
’’اُصول قواعد میں سے ایک یہ ہے کہ دو متواتر قراء تیں جب کسی آیت میں متعارض ہو جائیں تو ان کا حکم دو آیتوں کی طرح ہے۔‘‘ (روح المعانی از آلوسی:۶؍۶۶)
٭ امام ابوحاتم السجستانی﷫ فرماتے ہیں :
’’احادیث میں وارد سبعہ اَحرف سے مراد لغات عرب کی سات وجوہ ہیں۔‘‘ ( کتاب المعانی:۲۲۱)
٭ اِمام رازی﷫ (المتوفی:۶۰۶ھ) فرماتے ہیں:
’’جب ہم شعر مجہول سے لغت کے اِثبات کو جواز فراہم کرتے ہیں تو قرآن اس کا زیادہ حق رکھتا ہے۔ ہم اکثر نحاۃ کو قرآن مجید میں موجود الفاظ کے بارے میں حیران و ششدرپھرتے دیکھتے ہیں، حالانکہ جب وہ کسی غیر معروف شعر کو بطورِ استشہاد پیش کرتے ہیں تو بڑے خوش ہوتے ہیں۔مجھے ان پر اِنتہائی تعجب ہوتا ہے حالانکہ مناسب یہ تھا کہ اس شعر کے اِستدلال کے لیے اَلفاظ قرآن (یعنی قراء ات)سے اِستشہاد لیتے۔‘‘ (تفسیر رازی:۳؍۱۹۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ محی السنۃ، ابومحمد الحسین بن سعود البغوی﷫ نے اپنی تفسیر ’معالم التنزیل‘ میں سورۃ الضحیٰ کی تفسیر کے تحت معروف قاری قرآن امام بزی﷫ کی تکبیرات کو نقل کیا ہے،جو ثبوتِ قراء ات کے حوالے سے ان کے مؤقف کی واضح دلیل ہے۔ (تفسیر معالم التنزیل: سورۃ الضحیٰ)
٭ امام ابن کثیر﷫ نے اپنی تفسیر میں سورۃ الضحٰی کی تفسیر کے تحت معروف قاری قرآن امام ابن کثیر مکی﷫ کے شاگرد امام بزی﷫ کی تکبیرات کو نقل کیاہے۔ جو ثبوت ِ قراء ات کے حوالے سے ان کے مؤقف کی واضح دلیل ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: سورۃ الضحٰی)
٭ امام ابن تیمیہ﷫ (المتوفی:۷۲۸ھ) فرماتے ہیں:
’’ ان قراء ات کو اہل علم نے کتابوں میں جمع کیا ہے، نماز اور خارج نمازمیں ان کی تلاوت کرتے ہیں۔ علماء کے مابین یہ اَمر متفق علیہ ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی ان قراء ات (قراء اتِ عشرہ) کا اِنکار نہیں کیا۔‘‘ (فتاویٰ ابن تیمیہ مقدمۃ التفسیر:۱۳؍۳۹۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ نیزفرماتے ہیں:
’’ اہل علم میں سے کسی نے بھی قراء ات کا اِنکار نہیں کیا، ہاں جس کو قراء ات کا علم نہیں یا وہ قراء ات اس کے نزدیک ثابت نہیں جیسے بلادِ مغرب کی قراء ات،تو ایسے آدمی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس کی تلاوت کرے۔کیونکہ قراء ات سنتِ متبعہ ہیں ، جسے پچھلے، اگلوں سے نقل کرتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ جس قراء ات کاعلم نہیں، اس کاانکار کردیا جائے۔‘‘ (منجد المقرئین:۱۲۹،۱۳۰)
٭ نیز فرماتے ہیں:
’’اور دوسری قراء ت جو کہ ’’وَأَرْجُلِکُمْ‘‘ زیر کے ساتھ ہے، وہ سنتِ متواترہ کے مخالف نہیں ہے۔ کیونکہ دو قراء تیں دو آیتوں کی مانند ہوتی ہیں۔‘‘ (مجموع فتاویٰ، کتاب الفقہ:۲۱؍۱۳۱)
٭ علامہ ابن جزری﷫ (المتوفی:۸۳۳ھ) فرماتے ہیں:
’’ہمارے اس زمانے میں، جن قراء ات میں اِتصال سند، رسم عثمانی سے موافقت اور نحوی وجہ سے مطابقت کی یہ تینوں شرائط پائی جاتی ہیں، وہ قراء اتِ عشرہ ہیں، جن کو پوری اُمت سے تلقی بالقبول حاصل ہے، اور ان قراء اتِ عشرہ کو رِوایت کرنے والے دس امام ابوجعفر،نافع، ابن کثیر، ابوعمرو، یعقوب، ابن عامر، عاصم، حمزہ، کسائی اور خلف العاشر﷭ ہیں۔‘‘ (منجد المقرئین:۱۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ نیزفرماتے ہیں:
’’ہروہ قراء ات جو عربی کی کسی صورت کے موافق ہو اور مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک کے مطابق ہو، خواہ احتمالاً ہی ہو اور اس کی سند صحیح ہو تو وہ قراء ۃِ صحیحہ ہے اس کو ردّ کرنایااس کا اِنکار کرنا صحیح نہیں ہے۔‘‘ (النشر: ۱؍۹)
٭ اِمام زرکشی﷫(المتوفی:۷۹۴ھ) فرماتے ہیں:
’’یقینا قراء ات توقیفی ہیں اختیاری نہیں، یعنی قراء نے اپنی طرف سے گھڑی نہیں ہیں۔ قراء سبعہ کی قراء ات کی صحت پر، نیز اس بات پر کہ قراء اتِ سنت متبوعہ ہیں، جن میں اجتہاد کی گنجائش نہیں، اِجماع اُمت منعقد ہوچکاہے، قراء ات سنت ہیں اور نبی کریمﷺ سے مروی ہیں اور غیر مقبول وجوہ کی تلاوت کرناجائزنہیں ہے۔‘‘ (البرھان فی علوم القرآن :۱؍۳۲۱)
٭ نیز فرمایا:
’’یہ قراء ات، جن کوقراء سبعہ نے رِوایت کیاہے، رسول اللہﷺسے صحیح طور پر ثابت ہیں اور اسی پرسیدناعثمان﷜ نے اپنا مصحف تحریر کروایا تھا۔‘‘(البرھان فی علوم القرآن: ۱؍۲۲۷)
 
Top