• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ثبوتِ قراء ات اور اَکابرین اُمت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ اِمام غزالی﷫ فرماتے ہیں :
’’مصحف کے دوگتوں کے درمیان مشہور اَحرف سبعہ پر مشتمل جو چیز تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچی ہے اس کا نام کتاب اللہ ہے۔‘‘
٭ ملا علی قاری﷫ فرماتے ہیں:
’’متواتر کا اِنکار صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس پر اُمت کا اِجماع ہے۔ قراء ات کا تواتر ایسے حتمی اُمور میں سے ہے، جن کا جاننا واجب ہے۔‘‘ (الفقہ الأکبرازملا علی قاری حنفی:۱۶۷، مجموع فتاویٰ :۱۳؍۳۹۳)
٭ نیزفرماتے ہیں:
’’جس نے کتاب اللہ کی کسی آیت کا اِنکارکیا، اس میں عیب نکالا یاقراء اتِ متواترہ کا اِنکار کیا یااس نے یہ گمان کیاکہ وہ قرآن نہیں ہے تو ایسا شخص کافر ہے کیونکہ اس نے ایسی شے کا اِنکار کیا جس پر اِجماع ہوچکا ہے۔‘‘ (الفقہ الأکبر: ۱۶۷ )
٭ امام ابن حزم ﷫(المتوفی:۴۵۶ھ) فرماتے ہیں:
’’علماء کا اس بات پر اِجماع کہ جو کچھ قرآن میں ہے وہ حق اور ثابت شدہ ہے۔ اگر کوئی شخص ان قراء ات متواترہ میں سے کوئی حرف زیادہ یا کم کرتا ہے یا کسی حرف کو کسی دوسرے حرف سے بدل کر پڑھتا ہے ، حالانکہ اس پر حجت قائم ہوچکی ہو کہ وہ قرآن ہے، لیکن پھر بھی وہ شخص عمداً اس کی مخالفت کرتا ہے، تو وہ کافر ہے۔‘‘ (مراتب الإجماع: ۱۸۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ نیز فرماتے ہیں:
’’سیدنا عثمان﷜ ایسے وقت میں خلیفہ بنے کہ جب تمام جزیرۃُ العرب مسلمانوں، قرآنوں، مسجدوں اور قاریوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس طرح مصر، کوفہ اور بصرہ وغیرہ میں اتنے قراء قرآن تھے، جن کا شمار اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یہ کہنا کہ سیدنا عثمان﷜ نے لوگوں کو صرف ایک قراء ت پر جمع کیا، تو یہ باطل ہے۔ کیونکہ آپ اس کام پر قادر نہیں ہوسکتے تھے اور نہ ہی سیدنا عثمان﷜ نے ایسا کرنے کا اِرادہ کیا۔ ہاں اُنہوں نے متفق ہوکر چند قرآن لکھے اور ہر سمت ایک ایک بھیج دیا تاکہ اگر وہم کرنے والا وہم کرے اور بدلنے والا بدلنے کی کوشش کرے تو اس متفق علیہ قرآن کی طرف رجوع کرلیا جائے اور یہ کہنا کہ سیدنا عثمان﷜ نے چھ حروف مٹا دیئے تھے تو ایساکہنے والا جھوٹا ہے اور سیدنا عثمان﷜ ایک لمحہ بھی اسلام میں نہ رہتے اور اسلام سے خارج ہوجاتے۔ یہ ساتوں حروف ہمارے ہاں موجود ہیں۔ جیسے تھے ویسے ہی قائم ہیں۔ مشہور و معقول اور ماثور قراء ات میں محفوظ و ثابت ہیں۔ والحمد ﷲ رب العلمین۔‘‘ (الملل والنحل: ۲۱۸،۲۱۹)
نیز(قراء ات کے متعلق) نحویوں کے مؤقف پرتعجب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اس سے عجیب تر بات کوئی نہیں ہوسکتی کہ اگر اُمراء القیس، زہیر، جریر، حطیئہ، طرماح یا عرب قبائل میں سے اَسد، تمیم یا پورے عرب میں سے کسی کا لفظ شعر یا نثر کی صورت میں مل جائے تو اُسے حتمی لغت بنا لیتے ہیں۔اس پر کوئی اِعتراض نہیں ہوتا اور اگر زبانوں کے خالق اور ان کے اصل اللہ تعالیٰ کاکلام مل جائے تو اس کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے، نہ اسے دلیل بناتے ہیں، اس سے پھر جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس کی جو حیثیت بنائی ہے، اسے بدل دیتے ہیں‘‘۔ (الملل والنحل: ۲۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ اِمام طبری﷫ فرماتے ہیں :
’’آپﷺنے اللہ کی اجازت کے ساتھ جو قراء ات بھی اَحرف سبعہ میں سے اُمت کو پڑھائیں ہمارے نزدیک صحیح ہیں۔ صحابہ کرام﷢ نے ان قراء ات کو پڑھا۔ جب کسی قاری کی قراء ات رسم مصحف کے موافق ہو تو ہمارے لیے جائز نہیں کہ اسے غلط کہیں۔ ‘‘ (الإبانۃ:۶۰)
٭ امام ابوعمرو دانی﷫ ( المتوفی:۴۴۴ھ) فرماتے ہیں:
’’قراء ات سنت متبعہ ہیں ان کو قبول کرنا ہم پر واجب ہے۔‘‘ (منجد المقرئین:۲۴۳)
٭ نیزفرماتے ہیں:
’’ اَئمہ قراء ات قرآن مجید میں مشہور لغت اور عربی میں قیاس کے مطابق عمل نہیں کرتے، بلکہ جواثر ثابت ہو، نقل میں صحیح ہو اور روایت سے ثابت ہو تو اسے اختیار کرتے ہیں اور اسے کبھی عربی قیاس یامشہور لغت کی بنیاد پر ردّ نہیں کرتے، کیونکہ قراء ات سنت متبعہ ہے اسے اِختیار کرنا اور اُصول کرنا لازم ہے۔‘‘ (منجد المقرئین: ۲۴۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ نیز فرماتے ہیں:
’’بلاشبہ قرائِ سبعہ اور ان کے ہم پلہ دیگر اَئمہ کی جملہ قراء ات ثابت شدہ ہیں اور ان میں کسی قسم کا شذوذ نہیں ہے۔‘‘(النشر في القراء ات العشر: ۱؍۳۷)
٭ ابواسحاق زجاج﷫ (المتوفی:۳۲۴ھ) فرماتے ہیں:
’’قراء ات سنت متبعہ ہیں ۔کسی قاری کے لیے جائز نہیں کہ وہ کوئی ایسی قراء ات پڑھے، جسے صحابہ﷢، تابعین﷭ اور ان قراء کرام نے جو مختلف شہروں میں قراء ات کے حوالے سے معروف ہیں، نے نہ پڑھا ہو۔ ‘‘ (معاني القرآن وإعرابہ: ۱؍۴۸۲)
٭ امام ابن مجاہد﷫ (متوفی:۳۲۴ھ) فرماتے ہیں:
’’وہ قراء ات جو آج کل مکہ، مدینہ، کوفہ، بصرہ اور شام میں رائج ہیں۔ یہ وہ قراء ات ہیں جو انہوں نے پہلوں سے حاصل کی ہیں۔ انہی قراء ات کی اِشاعت کے لیے ہر شہر میں ایسے لوگ کھڑے ہوئے جنہوں نے تابعین سے وہ قراء ات حاصل کیں جن پر تمام کا اِجماع ہے۔‘‘ (الاعلام:۱؍۲۶۱، کتاب السبعہ:۴۹،۵۲)
٭ ابن خالویہ﷫ (المتوفی:۳۷۰ھ) فرماتے ہیں:
’’میں نے پانچ معروف شہروں کے اَئمہ اَربعہ کی قراء ات پر ان کی نقل اور پختگی حفظ کے حوالے سے غور وفکر کیا تو ان اَئمہ کو الفاظ روایت کی اَدائیگی میں امین پایا۔ ‘‘(کتاب الحجۃ:ص۶۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ امام خطابی﷫ (المتوفی:۳۸۸ھ) فرماتے ہیں :
’’حجاز، شام اور عراق کے قراء میں سے ہرایک کی مختارہ قراء ت کسی نہ کسی ایسے صحابی کی طرف منسوب ہے جس نے یہ قراء ت رسول اللہﷺسے حاصل کی ہو، پورے قرآن مجید میں ایک بھی قراء ت اس اصول سے مستثنیٰ نہیں ہے۔‘‘(الاعلام:۲؍۲۷۳)
٭ قاضی ابوالطیب﷫ (المتوفی:۴۰۳ھ) فرماتے ہیں :
’’سیدنا عثمان﷜ کاجمع قران کا مقصد محض ابوبکر﷜ کی طرح قرآن مجید کو دو گتوں میں جمع کرنا نہیں تھا۔ بلکہ ان کا مقصد نبی کریمﷺ سے منقول متواترہ معروفہ اور ثابتہ قراء ات کو جمع کرنا تھا اور جو قراء ات متواترہ نہ تھیں ان سے قرآن کو خالی کرنا تھا۔ ‘‘ (أبحاث في قراء ات القرآن الکریم: ۲۵)
٭ مکی بن اَبی طالب قیسی﷫ (المتوفی:۴۳۷ھ) فرماتے ہیں:
’’جو قراء ات ہمارے ہاں ثابت ہیں وہ ساری کی ساری ایسی سنت سے ثابت ہیں جس کا ردّ کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘ (کتاب التبصرۃ:۶۰)
٭ امام قشیری﷫(المتوفی:۴۷۵ھ) فرماتے ہیں:
’’جو قراء ات اَئمہ قراء ات نے نقل کی ہیں اور نبی کریمﷺسے بطریقِ تواتر ثابت ہیں۔ان کا اِنکار کرنا نبی کریمﷺ کی تردید کے مترادف ہے۔جس چیز کی آپﷺنے تلاوت کی اس کو ردّ کرنا بھی اس قبیل سے ہے۔‘‘(ابراز المعانی:۲۷۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ امام ابن عطیہ﷫ (المتوفی:۵۴۳ھ) فرماتے ہیں:
’’قراء ات سبعہ بلکہ عشرہ پر متعدد اَعصار و اَمصار گذر چکے ہیں۔ان کی نمازوں میں تلاوت کی جاتی تھی کیونکہ یہ اِجماع سے ثابت ہیں۔‘‘ (أبحاث قرائات القرآن الکریم:۲۵، المحرر الوجیز لابن عطیہ:۱؍۹)
٭ علامہ عبدالوھاب سبکی﷫ (المتوفی:۷۷۱ھ) فرماتے ہیں:
’’قراء ات سبعہ جنہیں اِمام شاطبی﷫ نے نقل کیا ہے اور ان کے علاوہ قراء اتِ ثلاثہ، جو ابوجعفر، یعقوب اور خلف العاشر کی قراء ات ہیں، یہ متواتر اور دین میں اَٹل حقیقت ہیں۔ اگر اَئمہ عشرہ میں سے کوئی بھی کسی حرف کونقل کرنے میں منفرد ہوا ہے تو وہ حرف بھی دین کی اَٹل حقیقت اور لازمی حصہ ہے کیونکہ وہ حرف بھی آپ پر نازل کردہ حروف میں سے ایک ہے۔ ‘‘ (أبحاث في قراء ات القرآن الکریم: ۲۶)
٭ اِمام ابوشامہ﷫ فرماتے ہیں:
’’نبی کریمﷺ نے منزل من اللہ حروف سبعہ کا انکارکرنے والے پرکفر کاحکم لگایا ہے۔‘‘ (المرشدالوجیز:۱۴۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ علامہ ابن عبدالشکور مسلم الثبوت میں فرماتے ہیں:
’’اسانید قراء ات بالاجماع صحیح ہیں اور علماء بلکہ اُمت کے ہاں انہیں تلقی بالقبول حاصل ہے۔مزید فرماتے ہیں کہ اگر ان اَسانید کے معارض کوئی سند آجائے تو وہ ناقابل التفات ہے۔ قراء عشرہ کی اَسانید صحیح ترین ہونے کے ساتھ ساتھ انہیں اُمت کی طرف سے شرف قبولیت بھی حاصل ہے۔ ‘‘ (فواتح الرحموت:۲؍۱)
٭ امام سرخسی﷫ فرماتے ہیں:
’’جان لو!کتاب اللہ سے مراد وہ قرآن ہے جو اللہ کے رسولﷺ پرنازل کیا گیا ہے، مصاحف کے دوگتوں کے درمیان لکھا گیا ہے اور ہم تک معروف اَحرف سبعہ کے ساتھ پہنچا ہے۔‘‘ (اصول السرخسی:۲۷۹)
٭ امام قرطبی﷫ فرماتے ہیں:
’’اس دور میں ان معروف اَئمہ قراء ات سے صحیح ثابت قراء ات پر مسلمانوں کا اِجماع ہوچکا ہے۔ان اَئمہ کرام نے علم قراء ات پر متعدد کتب لکھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے حفاظت قرآن کا وعدہ پورا ہوگیا ہے۔ قاضی ابوبکر الطیب﷫ اور امام طبری﷫ جیسے اَئمہ متقدمین اور فضلا محققین کااس قول پر اتفاق ہے۔‘‘ (المحرر الوجیز:۱؍۴۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ شیخ عبدالخالق عضیمۃ فرماتے ہیں:
’’قرآن مجید خواہ متواتر ہو یا غیر متواتر عربیت میں ویسے ہی حجت ہے جیسے قراء اتِ شاذہ، جن میں تواتر کی شرائط اگرچہ مفقود ہیں، لیکن چونکہ ثقہ کے واسطے سے ہم تک پہنچی ہیں لہٰذا لغت اور اسلوب لغت کے معاملہ میں اس کی شان یا حیثیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ کیونکہ علماء کا اِتفاق ہے کہ لغت میں خبر واحد بھی کافی ہے۔ ‘‘ (دراسات لاسلوب القرآن:۱؍۲)
٭ اِمام قسطلانی﷫ فرماتے ہیں:
’’ہمیشہ سے اہل علم کا یہ معمول رہا ہے کہ ، ایسا حرف جسے کوئی قاری پڑھاتا ہے، سے ایسے مسائل اَخذ کرتے رہے ہیں جو دوسری قراء ت میں نہیں پائے جاتے۔ سو قراء ات فقہاء کے نزدیک اِستنباط مسائل کے لیے حجت ہیں، علماء کرام ان قراء ات سے حصول صراط مستقیم کے لیے راہنمائی حاصل کرتے تھے۔‘‘ (لطائف الارشادات: ۱؍۱۷۱)
٭ شیخ زکریا انصاری﷫ فرماتے ہیں:
’’قراء سبعہ سے منقول قراء اتِ سبعہ، نبی کریمﷺ سے ہم تک بطریق تواتر پہنچی ہیں۔‘‘(غایۃ الوصول شرح لب الأصول: ۳۴)
٭ ابن ساعاتی﷫ فرماتے ہیں:
’’قراء ات سبعہ متواترہ ہیں، جیسا کہ مٰلِکِ اور مَلِکِ۔‘‘ہاں قرآن کا بعض حصہ غیر متواتر ہے (بدیع النظام از ابن ساعاتی: ۵۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ قراء ات محکمہ پر مبرد کے تعاقب میں اِمام حریری﷫ (المتوفی:۵۱۶) فرماتے ہیں:
’’یہ بات بالکل مبرد کا تساہل اور فضول اَمر ہے، کیونکہ یہ قراء ات تو سبعہ متواترہ میں سے ہے۔اسی طرح بعض نحوی اس غلطی فہمی کا شکار ہوتے ہیں، جن کے ہاں قراء ات غیر متواترہ ہیں کہ جیسے چاہو اپنی مرضی سے پڑھ لو، تو یہ مذہب اور نظریہ باطل اورناقابل التفات ہے۔‘‘ (درۃ الغواص: ۹۵ )
٭ علامہ ابن منیر﷫ (المتوفی:۶۳۳ھ) فرماتے ہیں:
’’ہمارا مقصود یہ نہیں ہے کہ قواعد عربیہ کو سامنے رکھتے ہوئے قراء ات کو صحیح کریں بلکہ ہمارا مطلوب تو یہ ہے کہ قراء ات کو سامنے رکھتے ہوئے قواعد عربیہ کی تصحیح کی جائے۔‘‘ (الانتصاف علی الکشاف: ۱؍۴۷۱)
٭ اِمام دمامینی﷫ (المتوفی:۸۲۷) نحاۃ کاردّ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ناقلین قراء ات کی تعداد، اَقوال و اَشعار عربی نقل کرنے والوں سے کم نہیں ہے۔ یہ غیر معروف ناقلین سے تو منقول شئ کو قبول کرلیتے ہیں، تو جسے ثقہ لوگ نقل کریں اس کو بالاولی قبول کرنا چاہئے۔‘‘ (المواہب الفتحیۃ: ۱؍۵۴)
٭ ابوالولید الباجی مالکی﷫ فرماتے ہیں:
’’ اگر یہ کہا جائے کہ کیاآپ کاقول یہ ہے کہ سبعہ اَحرف مصحف میں آج بھی موجود ہیں؟ کیونکہ آپ کے نزدیک ان کی قراء ات جائز ہے؟ تو ہم کہیں گے کہ جی ہاں! ہماراقول یہی ہے اور اس کی صحت کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ’’اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ‘‘ (الحجر:۹) اور قرآن کو اس کی قراء ات سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے کہ قرآن تو محفوظ رہے اور اس کی قراء ات ختم ہوجائیں۔‘‘ (المنتقی: ۱؍۳۴۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ علامہ سعدی ابوحبیب﷫ فرماتے ہیں:
’’جس شخص نے قراء ات مرویہ متواترہ محفوظہ کے علاوہ قرآن میں ایک حرف زیادہ یا کم کیا یا ایک حرف کو دوسرے حرف سے بدل دیا، حالانکہ اس پر حجت قائم ہوچکی ہوکہ وہ قرآن ہے، تو وہ بالاجماع کافر ہے۔‘‘ (موسوعۃ الإجماع في الفقہ الاسلامي: ۳؍۹۰۳)
٭ مزید فرماتے ہیں:
’’اہل اِسلام میں سے دو بندوں کا بھی اختلاف نہیں ہے کہ یہ قراء تیں صحیح و حق ہیں، سب کی سب قطعی و یقینی ہیں، اُمت مسلمہ کی نقل کے ساتھ رسول اللہﷺ تک پہنچی ہوئی ہیں اور رسول اللہﷺنے جبریل﷤ اور اُنہوں نے اللہ تعالیٰ سے بیان کی ہیں۔ ‘‘ (موسوعۃ الإجماع في الفقہ الإسلامي: ۳؍۹۰۵)
٭ علامہ دمیاطی علم قراء ات کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’علم قراء ات وہ علم ہے جس میں کتاب اللہ کے ناقلین کا اِتفاق و اِختلاف جانا جاتاہے جوکہ حذف، تحریک، اِسکان، فصل و صل کے قبیل سے ہو اور نطق کی کیفیت و اِبدال وغیرہ بھی جو کہ سماع پر موقوف ہو۔‘‘ (اتحاف فضلاء البشر: ۵)
٭ علامہ عبدالفتاح القاضی﷫ علم قراء ات کی تعریف میں فرماتے ہیں:
’’قراء ات کاعلم وہ ہے جس میں کلماتِ قرآنیہ کے نطق کی کیفیت معلوم ہوتی ہے اورکلمات قرآنیہ کی اِتفاقی و اِختلافی اَدا کاطریقہ کار معلوم کیاجاتاہے، لیکن ہر وجہ کی نسبت اس کے قائل (محمدﷺ) کی طرف ہوتی ہے۔‘‘ (البدور الزاھرۃ: ۷)
 
Top