عبداللہ بن مسعودؓ اور الدرداؓ صحابیوں میں سے اور مسروق و حسن بصری و ابن زبیر وغیرہ تابعین میں سے نقل ہے کہ سنت فجر ایک کونے میں پڑھ کر جماعت میں شامل ہوئے ، جس سے سنت کا پڑھنا مسجد میں بعد اقامت صلوٰۃ کے جائز معلوم ہوتا ہے
یہ فعل حضرت عمرؓکے فعل کابھی مخالف ہے یعنی حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ ایک شخص سنت فجر ، جماعت کے دوران ہی پڑھ رہا ہے تو اس کو مارا اور تعزیر دی
عبداللہ بن عمرؓ نے دیکھا ایک شخص کو کہ وقت اقامت مؤذن کے سنت فجر کی پڑھنےلگا تو اس کو کنکر مارا جیساکہ بیہقی نے نقل کیا اور محلی شرح موطا میں مذکور ہے اور اگربالفرض عبداللہ بن مسعودؓ وغیرہ نے سنت فجر کی پڑھی ہو تو جواب اس کا یہ ہے کہ عبداللہ ابن مسعودؓ وغیرہ کو حدیث نہی کی نہیں پہنچی اور حدیث نہی کے نہ پہنچنے میں کچھ تعجب نہیں کیونکہ عبداللہ بن مسعود رکوع میں ہاتھوں کا گھٹنوں پر رکھنا مخفی رہا اور وہ ہمیشہ دونوں ہاتھ ملا کر رانو ں میں رکھتے تھے
دونوں ہاتھوں کا ملا کر رانوں میں منسوخ ہوچکا مگر عبداللہ بن مسعودؓ کو نسخ کی حدیث نہیں پہنچی۔ حالانکہ رکوع میں ہاتھ رکھنا گھٹوں پر ہر وقت کامدام معمول ہے ہر نماز میں اور یہ فعل مشہور عبداللہ بن مسعودؓ پر مخفی رہا پس اسی طرح حدیث نہی سنت فجر کے پڑھنے میں بیچ مسجد کے وقت قائم ہونے جماعت کے عبداللہ بن مسعودؓ اور ابوالدردا کو نہ پہنچی
پس بسبب لا علمی اس حدیث نہی کے عبداللہ بن مسعود اور ابوالدرداء نے سنت فجر کی کبھی مسجد میں بروقت قائم ہوجانے جماعت کے اگر پڑھی ہو تو وہ معذور رہیں گے اور ہم پر ان کا پڑھنا بمقابلہ حدیث صحیح کے کہ چھ سات صحابی سے منقول ہے حجت نہیں ہوسکتی بموجب اس آیت کریمہ کے وما اتکم الرسول فخذوہ ومانھکم عنہ فانتھوا (ترجمہ) جو چیز دی تم کو رسولﷺ نے پس لے لو اس کو اورعمل کرو اس پر اور جس چیز سے منع کیا تم کو پس باز رہو اس سے اور نہ کرو اس کو پس قول و فعل اور تقریر رسول مقبولﷺ کی واجب الاتباع ہے امت پر ۔