• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جعفر بن میمون التمیمی الانماطی

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
مکمل نام: جعفر بن ميمون التميمى ، أبو على ، و يقال أبو العوام ، الأنماطى ، بياع الأنماط
طبقہ: 6 - صغار تابعین کےمعاصرین میں سے ہیں۔
وفات: 141 اور 150 ھ کے درمیان (دیکھیں، تاریخ الاسلام للذہبی)
روی لہ: ( البخاري في جزء القراءة خلف الإمام - أبو داود - الترمذي - النسائي - ابن ماجه )
شیوخ و اساتذہ: أبي ذبيان خليفة بْن كعب ، ورفيع أبي العالية الرياحي، وعبد الرحمن بْن أَبي بكرة ، وعطاء بْن أَبي رباح، وأبي تميمة الهجيمي ، وأبي عثمان النهدي
تلامذہ: أزهر بْن سعد السمان، وأَبُو أسامة حماد بْن أسامة، وخالد بْن الحارث، وسَعِيد بْن أَبي عَرُوبَة، وسفيان الثوري ، وسفيان بْن عُيَيْنَة ، وعبد الجليل بْن عطية
رتبہ: صدوق، حسن الحدیث
اقوال اہل الجرح والتعدیل:
المعدلین:
1- امام یحیی بن سعید القطان (المتوفی 198) نے جعفر سے روایت لی ہے اور یحیی اپنے نزدیک صرف ثقہ ہی سے روایت لیتے تھے۔ (دیکھیں تہذیب الکمال اور عام کتبِ رجال)
امام ابو الحسن العجلی (المتوفی 261)، یحیی القطان کے متعلق فرماتے ہیں: "وكان لا يحدث إلا عن ثقة" (کتاب الثقات للعجلی: 2/353) نیز دیکھیں قول نمبر 4۔

2- امام ابو عیسی الترمذی(المتوفی 279) جعفر کی حدیث کی تصحیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه" (سنن الترمذی: 2861) اور ایک دوسری حدیث کے تحت فرماتے ہیں: "هذا حديث حسن غريب" (سنن الترمذی: 3556)۔

3- امام ابن حبان البستی (المتوفی 354) نے انہیں اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے (6/135 ت 7053) اور ابن حبان نے ان سے اپنی صحیح میں بھی کئی روایات لی ہیں۔

4- امام ابو عبد اللہ الحاکم النیسابوری (المتوفی 405) جعفر کے بارے میں کہتے ہیں کہ: "جعفر بن ميمون العبدي من ثقات البصريين، ويحيى بن سعيد لا يحدث إلا عن الثقات" یعنی جعفر بن میمون ثقہ بصریوں میں سے ہیں، اور یحیی بن سعید صرف ثقہ سے ہی روایت لیتے تھے۔ (المستدرک علی الصحیحین: 1/365 تحت ح 872 ووافقہ الذہبی)
نوٹ: امام حاکم صرف اپنی تصحیح میں متساہل ہیں لیکن صریح الفاظِ توثیق میں نہیں!

5- حافظ عبد الحق الاشبیلی (المتوفی 581) نے جعفر بن میمون کی ایک منفرد روایت کو اپنی احکام الصحیحہ میں روایت کر کے تصحیح کی ہے (دیکھیں، الاحکام الصغری الصحیحہ للاشبیلی: ص 898-899)

6- امام الجرح والتعدیل، شمس الدین الذہبی (المتوفی 748) نے جعفر بن میمون کو اپنے رسالے "من تکلم فیہ وہو موثق" میں ذکر کیا جس میں انہوں نے ان تمام لوگوں کے نام درج کیے ہیں جن پر جرح کی گئی ہے لیکن وہ کم سے کم حسن الحدیث کا درجہ رکھتے ہیں! (ص 61)۔

7- حافظ نور الدین الہیثمی (المتوفی 807) جعفر بن میمون کی ایک روایت کے متعلق فرماتے ہیں: "رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ" (مجمع الزوائد: 10/137)
نوٹ: طبرانی کی سند میں جعفر بن میمون موجود ہے بلکہ جس روایت کی ہیثمی یہاں بات کر رہے ہیں اس کی ہر سند میں جعفر موجود ہے!

8- امام الجرح والتعدیل، حافظ ابن حجر العسقلانی (المتوفی 852) جعفر کے متعلق فرماتے ہیں: "صدوق يخطىء" یعنی وہ صدوق ہے اور بعض اوقات غلطیاں کرتا ہے (جو ہر انسان کرتا ہے) (تقریب التہذیب: 961)
نوٹ: ایسا راوی محدثین کے نزدیک حسن الحدیث ہوتا ہے۔ اسی لئے حافظ ابن حجر نے ایک دوسری جگہ جعفر کی ایک منفرد روایت کے متعلق فرمایا: "هذا حديث حسن" (الفتوحات الربانیہ: 4/8)

جارحین:
1- امام یحیی بن معین (المتوفی 233) نے فرمایا: "ليس بذاك" (تاریخ ابن معین روایۃ الدوری: 4/255)
ایک دوسری روایت میں فرمایا: "صالح الحديث" (تاریخ ابن معین روایۃ الدوری: 4/239)
ایک اور روایت میں فرمایا: "ليس بثقة" (تاریخ ابن معین روایۃ الدوری: 3/578)
نوٹ: یہ جرح مردود ہے کیونکہ امام ابن معین متشدد نقاد میں سے ہیں، چنانچہ امام ذہبی فرماتے ہیں: "وإن وثقه أحد فهذا الذي قالوا فيه لا يقبل تجرحه إلا مفسرا يعني لا يكفي أن يقول فيه ابن معين مثلا هو ضعيف ولم يوضح سبب ضعفه" ترجمہ: اور اگر ایک راوی کو کسی نے بھی ثقہ کہا ہو تو ایسے ہی قسم کے راوی کے متعلق محدثین نے کہا ہے کہ اس پر جرح قبول نہ کی جائے گی الا یہ کہ مفسر ہو یعنی ابن معین کا مثلا سبب ضعف بیان کئے بغیر یہ کہنا کافی نہ ہو گا کہ فلان ضعیف ہے (ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل: ص 172)۔

2- امام احمد بن حنبل (المتوفی 241) نے فرمایا: "أخشى أن يكون ضعيف الحديث" مجھے ڈر ہے کہ وہ حدیث میں ضعیف ہے۔ (العلل لعبد اللہ بن احمد: 4396)
ایک دوسری روایت میں فرمایا: "ليس بقوي في الحديث" (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 2/490، واسنادہ صحیح)۔

3- امام ابو عبد الرحمن النسائی (المتوفی 303) فرماتے ہیں: "ليس بذاك" (الکامل لابن عدی: 2/370)
اور ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں: "ليس بالقوي" یعنی وہ بہت زیادہ قوی نہ تھا۔ (الضعفاء والمتروکین: 110)۔
نوٹ: یہ جرح بھی مردود ہے کیونکہ امام نسائی بھی ایک متشدد ناقد تھے، چنانچہ امام ذہبی فرماتے ہیں: "والنسائي مع تعنته في الرجال..." (میزان الاعتدال: ج 1 ص 437)۔
اسی طرح آ پ نے فرمایا: "وهو لا يوثق أحدا إلا بعد الجهد" یعنی نسائی بڑی جد و جہد کے بعد ہی کسی شخص کو ثقہ کہتے ہیں! (ص 128)۔
اس کے علاوہ یہ جرح جو نسائی نے کی وہ بھی کوئی معتبر تضعیف نہیں ہے، کیونکہ یہ جرح صرف راوی سے اعلی درجے کی ثقاہت کی نفی کرتی ہے، چنانچہ امام ذہبی فرماتے ہیں: "ليس بالقوي ليس بجرح مفسد" (الموقظۃ: ص 82)
مزید تفصیل کے لئے دیکھیں یہ مضمون۔ اور لیس بذاک بھی اسی کے درجے اور معنی کا لفظ ہے۔

4- امام دارقطنی (المتوفی 385) جعفر کے متعلق فرماتے ہیں: "يعتبر به" (سؤالات البرقانی: ت 78)۔

5- امام ابو احمد بن عدی الجرجانی (المتوفی 365) فرماتے ہیں: "لم أر بأحاديثه نكرة وأرجو أنه لا بأس به ويكتب حديثه في الضعفاء" ترجمہ: مجھے اس کی احادیث میں کوئی نکارت نظر نہیں آئی، اور مجھے امید ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس کی حدیث ضعفاء میں لکھی جائے گی۔ (الکامل: 2/370)
اگر اس کی حدیث میں کوئی نکارت بھی نہیں ہے اور وہ لا باس بہ بھی ہے تو پھر ضعفاء میں اس کی روایت لکھنے والی بات سمجھ نہیں آئی! اور اس تعریف کے بعد ضعف کا سبب بھی بیان نہیں کیا۔

6- امام ابو جعفر العقیلی (المتوفی 322) نے جعفر کو اپنی کتاب الضعفاء میں ذکر کیا ہے (ج 1 ص 189)۔
نوٹ: کسی کو ضعفاء میں ذکر کرنا اس کے ضعیف ہونے کی دلیل نہیں ہے۔

7- حافظ ابو الفرج ابن الجوزی (المتوفی 597) نے جعفر کو اپنی کتاب الضعفاء میں ذکر کیا ہے (ج 1 ص 173)۔
لیکن ابن الجوزی اپنی کتاب الضعفاء میں سخت متشدد ہیں، چنانچہ امام ذہبی فرماتے ہیں: "وقد أورده أيضا العلامة أبو الفرج ابن الجوزي في "الضعفاء"، ولم يذكر فيه أقوال من وثقه، وهذا من عيوب كتابه، يسرد الجرح ويسكت عن التوثيق" ترجمہ: اور اسے علامہ ابو الفرج ابن الجوزی نے بھی الضعفاء میں ذکر کیا ہے لیکن اس میں انہوں نے ان میں سے کسی کا ذکر نہیں کیا جس نے اسے ثقہ کہا ہو، اور یہی ان کی اس کتاب کے عیب میں سے ہے کہ وہ صرف جرح نقل کرتے ہیں اور توثیق سے خاموش رہتے ہیں! (میزان الاعتدال: ج 1 ص 16)۔
نوٹ: امام بخاری کی جرح ثابت نہیں ہے!

خلاصۃ التحقیق:
جعفر بن میمون پر زیادہ تر جروح متشدد طبقے کے محدثین سے ہیں اور ان میں بھی زیادہ تربلا بیان السبب ہیں جو کہ صریح توثیق کے خلاف ہونے کی وجہ سے غیر مقبول ہیں۔ لہٰذا ایسا راوی کم از کم حسن الحدیث رہے گا الا یہ کہ کسی حدیث میں وہ کسی ثقہ راوی کی مخالفت کرے یا اس کی کوئی خاص حدیث منکر یا ضعیف قرار دی گئی ہو۔ لیکن عام حالات میں یہ راوی حسن الحدیث ہے خاص کر جب ذہبی اور ابن حجر جیسے حفاظ اور ائمہ الجرح والتعدیل اس کی توثیق پر متفق ہوں!
لہٰذا حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا یہ کہنا ہے کہ: "جعفر بن ميمون ضعفه الجمهور" (الانوار الصحیفہ: ص 41) صحیح نہیں لگتا جبکہ شیخ البانی نے بھی اسے حسن الحدیث ہی مانا ہے!
واللہ اعلم۔
 
Top