• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جماعۃ المسلمین کی کتب کی تلاش جن سے ان کے اصول واضح ہوتے ہوں

شمولیت
اپریل 17، 2014
پیغامات
92
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
83
اب چیک کریں ، اچھا ہوا کہ نہیں ؟
مطلب لنکس کھل رہے ہیں کہ نہیں ؟
محترم خضر حیات صاحب! ابھی بھی ایرر ہی ہیں، جبکہ مجھے اشد ضرورت ہے ان تھریڈز کی۔ بارک اللہ فیک
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
محترم خضر حیات صاحب! ابھی بھی ایرر ہی ہیں، جبکہ مجھے اشد ضرورت ہے ان تھریڈز کی۔ بارک اللہ فیک
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم بھائی!
دونوں ربط بغیر لاگ ان ہوئے بھی میرے پاس کھل رہے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
محترم خضر حیات صاحب! ابھی بھی ایرر ہی ہیں، جبکہ مجھے اشد ضرورت ہے ان تھریڈز کی۔ بارک اللہ فیک


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

ایک ربط:
حدیث :"تلزم جماعۃ المسلمین و امامہم" اور رجسٹرڈ فرقہ

حدیث :"تلزم جماعۃ المسلمین و امامہم" اور رجسٹرڈ فرقہ
تالیف
ابوالاسجدصدیق رضا حفظہ اللہ

مسعود صاحب اور ان کے بنائے ہوئے رجسڑڈ فرقے "جماعت المسلمین" والوں کا یہ خیال ہے کہ انھوں نے اپنے فرقے کی بنیاد صحیحین کی ایک حدیث پر رکھی ہے، حالانکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے سیدنا حذیفہ سے مروی اس حدیث کو قرآن مجید و دیگر احادیث صحیحہ کی روشنی میں سمجھنے کے بجائے اور انھیں نظر انداز کرتے ہوئے ایک تکفیری فرقہ کی بنیاد رکھ دی۔

جبکہ کسی بھی آیت یا حدیث کو سمجھنے کے لئے یہ بات انہتائی ضروری ہے کہ اس موضوع کے دیگر نصوص کو بھی سامنے رکھا جائے، اور ایسا مفہوم بیان ہو کہ اس سے دیگر نصوص کی مخالفت لازم نہ آئے،جیسا کہ مسعود صاحب نے لکھا :

"عالم کو چاہئے کہ ہر آیت کی تشریح کرتے وقت قرآن مجید اور احادیث صحیحہ پر گہری نظر رکھے اور تمام آیات اور احادیث کے مجموعی نتیجہ کو اپنا رہنما بنائے"

(الجماعۃ ص ۶۹)

اس مسلمہ اصول کے مطابق غور کرتے ہوئے "جماعت" اور "امام" سے متعلق دیگر احادیث کو سامنے رکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ رجسڑڈ فرقہ پرست لوگ حدیث "تلزم جماعۃ المسلمین و امامہم" کو سمجھ ہی نہیں پائے، پھر ان کے طرز عمل اور رویے کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کے درست مفہوم کو سمجھنے کے لئے آمادہ بھی نہیں، ضدو خود آرائی کا یہ عالم ہے کہ ان سے اس حدیث کے مفہوم پر جب بھی گفتگو کی کوشش کی جائے تو راہ فرار اختیار کرتے ہیں اور سامنے آنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔

مفہوم تو درکنار محض ترجمہ کے مطالبہ پر ہی مسعود صاحب نے تکفیری فتوؤں کی گولہ باری کر دی تھی، چنانچہ ان سے سوال ہوا کہ "آپ جماعت المسلمین کا ترجمہ" مسلمین کی جماعت "کیوں نہیں کرتے؟" تو مسعود صاحب نے کچھ اس طرح غیض و غضب کا اظہار فرمایا:"اردو میں عربی کے سیکڑوں مرکبات استعمال ہوتے ہیں لہذا ترجمہ کرتے وقت مرکب توڑنے کی ضرورت نہیں۔کفایت اللہ صاحب تو اس لئے توڑ رہے ہیں کہ مرکب جماعت المسلمین باقی نہ رہے۔۔۔۔ جو الفاظ رسول اللہ ﷺ کی زبان اقدس سے نکلے تھے آخر ان سے کیا چڑ ہے؟"

(الجماعۃ ص ۷۰،جماعت المسلمین کی دعوات اور تحریک اسلام کی آئینہ دار ہیں ص ۶۳۹)

تنبیہ : یہ دوسرا حوالہ مسعود صاحب وغیرہ کے کتابچوں کا مجموعہ ہے، جس کے پاس کتابچے نہ ہوں وہ اس سے حوالے چیک کر سکتے ہیں اختصار کی خاطر آئندہ اس کے حوالے کے لئے صرف "آئینہ دار" لکھا جائے گا۔

کیا ترجمہ الفاظ حدیث سے چڑ کی علامت ہے؟
قارئین کرام! غور کیجئے سوال صرف اتنا تھا کہ آپ اس حدیث کے الفاظ میں سے "جماعۃ المسلمین" کا ترجمہ کیوں نہیں کرتے۔ مسعود صاحب نے بے دھڑک "الفاظ رسول اللہ ﷺ سے چڑنے" کا فتویٰ ٹھوک دیا۔ گویا الفاظ رسول اللہ ﷺ کا ترجمہ کرنا ان سے چڑ کے مترادف یا چڑ کی علامت ہے ! جیسا کہ مسعود صاحب کے اس طنز سے ظاہر ہوتا ہے۔ تو مسعود صاحب کی ذہنیت کے حامل کوئی فرد ان کے اس انداز کو ان سے مستعار لے کر یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ مسعود اور ان کے بنائے ہوئے رجسڑڈ فرقے کو اللہ تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ کے ان تمام الفاظ سے "چڑ" ہے جن الفاظ کا وہ ترجمہ کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ حدیث زیر بحث کے دو الفاظ "جماعۃ المسلمین" کے علاوہ باقی تمام الفاظ سے بھی "چڑ" ہے کیونکہ ان دو لفظوں کے علاوہ یہ اس پوری حدیث کا ترجمہ لکھتے اور بیان کردیتے ہیں۔ یہ مسعود صاحب کے بے جا طنز و تشنیع کی عادت اور تکفیری سوچ کا نتیجہ ہے کہ خود سمیت اپنے پورے رجسٹرڈ فرقے کو الفاظ رسول اللہ ﷺ سے "چڑ" میں مبتلا ثابت کر دیا۔

باقی یہ بات محتاج تفصیل نہیں کہ ترجمہ تو سمجھانے کے لئے کیا جاتا ہے نہ کہ چڑ کی وجہ سے، ہاں البتہ یہ رجسٹرڈ فرقے کی اشد مجبوری ہے کہ وہ ان الفاظ کا ترجمہ نہیں کر سکتے کہ مسعود صاحب کی ایجاد کردہ حدیث کے مطابق "مسلمین کی جماعت کا نام اللہ کے رسول ﷺ نے جماعت المسلمین رکھا تھا"(جماعت المسلمین کا تعارف ص ۳، آئینہ دار ص ۱۷)

تو جو یہ حدیث گھڑ کر اسے "نام" بنا چکے ہیں، وہ ترجمہ کیوں کرتے؟ اور اگر ترجمہ کر دیا تو عامۃ الناس کو مغالطہ دینا کس طرح ممکن ہو گا، سو ایسی ہی مجبوریوں کی بنا پر مسعود صاحب نے "چڑ" کی تہمت لگائی، لیکن اس ظلم و تعدی کا نتیجہ ہے کہ اپنے ہی بنے ہوئے جال میں بری طرح پھنس گئے۔

اس ایک مشال سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جو ترجمہ کے مطالبہ پر ہی اس قدر غیض و غضب کا شکار ہو جائیں وہ مفہوم پر بحث کے لئے کس طرح آمادہ ہو سکتے ہیں، الاماشاءاللہ۔یہ لوگ تو بس اپنی ہی باتیں دہراتے چلے جاتے ہیں، حالانکہ رسول اللہﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں بس یہی ایک بات تو بیان نہیں کی، اس معاملہ میں بہت کچھ ارشاد فرمایا ہے اور مسلمہ اصول "ان الحدیث یفسر بعضہ بعضا" کے مطابق ان احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا درست مفہوم سمجھا جا سکتا ہے۔

اس مضمون میں رجسٹرڈ فرقہ کے لٹریچر میں موجود اس موضوع کی دیگر آیات و احادیث سے حدیث "تلزم جماعۃ المسلمین و امامہم" کے الفاظ "جماعۃ" اور امام کی وضاحت کی جائے گئ،دعا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی حق سمجھنے اور قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین، یا رب العالمین۔

تنبیہ : یاد رہے کہ "جماعت" کے مفہوم پر گفتگو کے دوران میں "نماز کی جماعت" اور جنت میں جانے والی "جماعت" نیز امام پر بحث کے دوران میں نماز کا امام ، انبیاء  کی امام، نیز علم کا امام اس بحث سے خارج ہے۔

۱: جماعت کا مفہوم: حدیث زیر بحث ، نیز وہ تمام احادیث جن میں "لزوم جماعت " کا ذکر ہے ان میں جماعت سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلے میں مسعود صاحب نے لکھا:

"رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :

مَنْ كَرِهَ مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا فَلْيَصْبِرْ، فَإِنَّهُ مَنْ خَرَجَ مِنَ السُّلْطَانِ شِبْرًا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً (صحيح بخاري كتاب الفتن باب قول النبى ﷺ سترون بعدي اموراتنكرونها جزء ۹ ص ۵۹ و صحيح مسلم كتاب الامارة باب الامر بلزوم الجماعة جزءٍ ۲ ص ۱۳۴ )

جس شخص کو امیر کی کوئی بات ناگوار گزرے تو صبر کرے کیونکہ جو شخص سلطان سے ایک بالشت بھی علیحدہ ہو اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی"

(امیر کی اطاعت ص ۴، اشاعت جدید ص ۲ آئینہ دار ص ۲۲۰)

چند سطور بعد مسعود صاحب نے لکھا :

"حدیث مذکور کے پہلے جزء میں امیر کا لفظ ہے اور دوسرے جزء میں سلطان کا لفظ ہے جو امیر ہی کے لئے استعمال ہوا"

(حوالہ بالا ص ۵ ، آئینہ دار ص ۲۲۱)

ان کی یہ بات درست نہیں تفصیل آگے آرہی ہے ۔ابن عباس  سے مروی اس حدیث کے دوسرے طریق کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں۔ جو مسعود صاحب نے بھی نقل کرتے ہوئے لکھا : "رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلْيَصْبِرْ عَلَيْهِ فَإِنَّهُ مَنْ فَارَقَ الجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ، إِلَّا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً

(صحيح بخاري كتاب جزء ۹ ص ۵۹ و صحيح مسلم كتاب الامارة باب الامر بلزوم الجماعة جزءٍ ۲ ص ۱۳۶ )

جو شخص اپنے امیر کی کوئی ایسی بات دیکھے جو اسے ناپسند ہو تو اس پر صبر کرے اس لئے کہ جو شخص جماعت سے بالشت بھر بھی علیحدہ ہوا اور (اسی حالت میں) مر گیا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔ نوٹ: جاہلیت سے مراد اسلام سے پہلے کا زمانہ یعنی کفر کا زمانہ ہے۔ اس حدیث کے پہلے جزء میں امیر کا لفظ ہے اور دوسرے جزء میں جماعت کا لفظ ہے گویا امیر کو چھوڑنا جماعت کو چھوڑنا ہے۔"

(امیر کی اطاعت ص ۵-۶،آئینہ دار ص ۲۲۱-۲۲۲)

اب دیکھئے کہ مسعود صاحب کی وہ بات درست کیوں نہیں؟ اس لئے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی اس حدیث کیے دونوں طرق کے پہلے حصے میں "امیر" کا لفظ موجود ہے۔

پہلے طریق کے الفاظ ہیں:" مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا يَكْرَهُهُ "

دوسرے طریق کے الفاظ ہیں:"مَنْ كَرِهَ مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا "

جبکہ حدیث کے دوسرے حصے میں:

پہلے طریق کے الفاظ ہیں: " مَنْ فَارَقَ الجَمَاعَةَ شِبْرًا "

دوسرے طریق کے الفاظ ہیں: " مَنْ خَرَجَ مِنَ السُّلْطَانِ شِبْرًا "

ظاہر ہے کہ اس حدیث کے دونوں طریق میں امیر کے مقابل امیر ہی کا لفظ ہے،البتہ "الجماعۃ" کے مقابل "السلطان" کا لفظ ہے۔ معلوم ہوا کہ اس حدیث میں"جماعت" سے مراد "السلطان" ہے، کہ ان سے علیحدگی کا ذکر ہے۔امام بخاری و امام مسلم بھی یہ دونوں حدیثیں اوپر نیچے ساتھ ساتھ لائے ہیں۔

رجسٹرڈ فرقہ کے امام ثانی محمد اشتیاق صاحب نے ۱۳ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے "جماعۃ" لفظ والی مختلف احادیث نقل کرنے کے بعد اعتراف کیا :

"صحابہ کرام جماعۃ" کا لفظ استعمال کر رہے ہیں ۔اگر کسی ایک روایت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے "سلطان " کا لفظ استعمال کیا تو ان تمام احادیث کی روشنی میں لفظ "سلطان " کو جماعت کے معنی پر منطبق کیا جائے گا۔لہذا سلطان اور جماعت ایک ہی چیز ہے"

(ایک معترض کی غلط فہمیاں ص ۳۳)

یہ کتابچہ ۱۴۱۸ھ میں شائع ہوا، جو کچھ ہم کہنا چاہتے ہیں وہ بات آج سے تقریبا سولہ سال پہلے اشتیاق اور ان کا رجسٹرڈ فرقہ بڑے صاف اور واضح لفظوں میں صرف تسلیم ہی نہیں بلکہ بیان بھی کر چکا ہے۔ظاہر ہے کہ ہمارے مابین اس حد تک تو کوئی اختلاف نہیں رہا کہ "جماعت" اور "سلطان" کے الفاظ ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر بیان ہوئے، دونوں ایک ہی چیزکے دو نام ہیں۔ دو علیحدہ علیحدہ چیزیں نہیں ہیں۔ فالله الحمد

سلطان کا معنی و مفہوم
جب یہ واضح ہو چکا کہ دونوں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں،اور حدیث میں ایک دوسرے کی جگہ واقع ہوئے ہیں تو جو معنی سلطان کا ہو گا وہی جماعت کا ہو گا۔ اب مسعود صاحب کے قلم سے اس کا معنی و مفہوم ملاحظہ کیجئے۔

۱: مسعود صاحب نے لکھا:

"سلطان کے معنی دلیل، حجت ،اختیار اور قوت کے ہیں"

(امیر کی اطاعت ص ۴ آئینہ دار ص ۲۲۰)

۲: نیز لکھا: "(سلطان / دلیل ،قوت ،بادشاہ)"

(تفسیر قرآن عزیز ج ۵ ص ۴۱۸)

۳: ایک اور مقام پر لکھا :

"اللہ تعالٰی نے رسول اللہﷺ کو ہجرت کا حکم دیا اور اس طرح دعا کرنے کی ہدایت کی (وَقُل رَّ‌بِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِ‌جْنِي مُخْرَ‌جَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرً‌ا) اور (اے رسول) اس طرح دعا کیجئے: اے میرے رب مجھے اچھی طرح ہجرت گاہ میں داخل کرنا اور اچھی طرح (اس) بستی سے نکالنا اور اپنے پاس سے قوت و غلبہ کو میرا مددگار بنانا۔رسول اللہﷺ نے جب ہجرت کی تو دعاء کے اثرات پوری طرح ظاہر ہوئے آپ دارالہجرت مدینہ میں داخل ہوئے تو بڑی شان سے داخل ہوئے اور جب مکہ سے نکلے تو بخیر و عافیت نکلے۔ مدینہ منورہ پہنچ کر اللہ تعالٰی نے آپ کو قوت و غلبہ عطا فرمایا"

(تفسیر قرآن عزیز ج ۶ ص ۱۶۴)

آیت بالا کے متعلق اشتیاق صاحب نے لکھا:

"اللہ تعالٰی رسول اللہﷺ کو ہجرت کے موقع پر ایک دعا بتا رہا ہے کہ .... جب آپ مدینہ منورہ میں داخل ہوں تو اس طرح دعا کرتے رہیے اور آپ دعاٰ کرتے رہے اور اللہ تعالٰی نے مدینہ منورہ میں آپ کی دعاء کی برکت سے حکومت قائم کر دی۔ ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ پھر صاحب اقتدار و حکومت ہو گئے۔اس سے ہمیں کب اختلاف ہے ہم بھی تو یہی کہتے ہیں"

(ایک معترض کی غلط فہمیاں ص ۳۴)

قارئین کرام! غور کیجئے ، آیت میں لفظ "سلطان" وارد ہوا، مسعود صاحب نے تفسیر میں لکھا: "مدینہ پہنچ کر اللہ تعالٰی نے آپ کو قوت و غلبہ عطا فرمایا۔" اس"قوت و غلبہ" سے کیا مراد ہے؟

اشتیاق صاحب نے عام فہم الفاظ میں بتا دیا کہ "اللہ تعالٰی نے مدینہ منورہ میں...... حکومت قائم کر دی پھر آپ صاحب اقتدار و حکومت ہو گئے" گویا قوت و غلبہ سے مراد "حکومت و اقتدار" ہے اور یہ سب لفظ "سلطان " ہی کا مفہوم بیان کیا ہے۔ رجسڑڈ فرقہ کے دونوں اماموں نے۔

۴: مسعود صاحب نے مسئلہ بیان کرتے ہوئے لکھا:

"کوئی شخص دوسرے کی جائے حکومت یا اس کے گھر میں بغیر اس کی اجازت کے امامت نہ کرے"

(صلٰوۃ المسلمین ص ۱۴۸)

پھر بطور دلیل حاشیہ نمبر : ۳ میں یہ حدیث نقل کی:

"قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَوَلَا يَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ..... إِلَّا بِإِذْنِهِ....

(صحیح مسلم عن ابی مسعود رضی اللہ عنہ)

۵: مسعود صاحب نے اپنی "منہاج " میں اسی حدیث کے تحت مسئلہ اس طرح لکھا:

"کسی دوسرے کی حکومت کی جگہ یا دوسرے کے گھر میں بغیر اجازت کے کوئی شخص امامت نہ کرے"

(منہاج المسلمین ص ۱۴۶)

مسعود صاحب کی ان تحریروں سے معلوم ہوا کہ سلطان کا معنی ہے "جائے حکومت" جسے سلطنت بھی کہتے ہیں۔

۶: اسی طرح اہنی منہاج میں لکھا:

"حکام سے دور رہے، جھوٹ میں ان کی تصدیق نہ کرے"

پھر حاشیہ میں یہ حدیث بھی نقل کی:

"قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَمَنْ أَتَى أَبْوَابَ السُّلْطَانِ افْتَتَنَ (رواہ الترمذی و حسنہ)"

(منہاج ص ۶۷۴)

دیکھئے مسعود صاحب نے "حکام " لکھا اور حدیث وہ نقل کی جس میں "سلطان" کا لفظ ہے ۔ تو سلطان کا معنی "حاکم" بھی ہے اور جس کے پاس اقتدار ہو حکومت ہو وہ حاکم ہی ہوتا ہے۔اقتباسات تو مزید بھی نقل کئے جا سکتے ہیں لیکن اختصار کی خاطر انھیں چند ایک پر اکتفا کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔

مسعود صاحب کی تحریرات سے "سلطان" کے مختلف معانی سامنے آتے ہیں جیسے: دلیل، حجت، قوت، اختیار، غلبہ، حکومت، جائے حکومت، بادشاہ اور حکام اور سوائے دلیل و حجت کے باقی تمام معانی یکساں ہیں۔اگرچہ "سلطان "کا معنی دلیل و حجت بھی ہے لیکن حدیث "من خرج من السلطان " میں یہ دلیل و حجت کے معنی میں نہیں۔اگر یہی معنی لئے جائیں تو حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح ہو گا " جو شخص دلیل یا حجت سے بالشت بھر بھی علیحدہ ہوا وہ جاہلیت کی ایک خصلت پر مرے گا۔"

یہ مفہوم قطعا درست نہیں، چونکہ نصوص سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تمام کے تمام اہل اسلام علماء نہیں ہو سکتے۔(دیکھئے سورۃ توبہ: ۱۲۲،النحل: ۴۳)

تو ایسی صورت میں بہت سے اہل ایمان "دلیل و حجت" سے دور ہو سکتے ہیں ۔عدم علم یا بر وقت استحضار نہ ہونے کے سبب تو کیا ایسی صورت میں اس کی موت جاہلیت کی ہوگی؟ اس کا تو کوئی بھی قائل نہیں،تو سلطان کا معنی حکومت و اقتدار ہی بنتا ہے۔ جب رجسٹرڈ فرقہ کو بھی یہ تسلیم ہے کہ "سلطان اور جماعت ایک ہی چیز ہے" اور سلطان کا معنی حکومت ہے تو جماعت کا معنی بھی حکومت و اقتدار ہی ہے۔ جیسا کہ رجسٹرڈ جماعت کے ایک کتابچہ میں صاف صاف لکھا ہے۔

""الجماعۃ" یعنی منزل من اللہ دین کو قائم کرنے والی اسلامی حکومت موجود نہیں ہے"

(جماعت المسلمین پر اعتراضات اور ان کے جوابات ص ۲ طبع ۱۴۱۶ھ)

یہ تو معلوم و معروف ہے کہ عربی اور اردو زبان میں "یعنی" کہہ کر کسی لفظ کا معنی و مفہوم بیان کیا جاتا ہے۔اور مسعود صاحب کے مرتب کردہ اس کتابچہ میں "یعنی" کہہ کر "الجماعۃ" کا مطلب و مفہوم " دین کو قائم کرنے والی اسلامی حکومت" بیان کیا گیا ہے۔ فللہ الحمد

قارئیں کرام! قرآن مجید ،احادیث صحیحہ اور خود رجسٹرڈ فرقے کی مسلمات کی روشنی میں "جماعت" کا مفہوم آپ کے سامنے ہے۔ ان دلائل کی روشنی میں علی وجہ البصیرت عرض ہے کہ لزوم جماعت والی احادیث میں "جماعت " سے مراد مسلمین کی اسلامی حکومت و اقتدار ہے۔ یہ حکومت واقتدار سے محروم و محکوم لوگوں کی کسی رجسٹرڈ یا غیر رجسٹرڈ پارٹی اور تنظیم کا نام نہیں۔

اشتیاق صاحب کے نوادرات
اس استدلال کے جواب میں رجسٹرڈ فرقے کے امام اشتیاق صاحب نے مسعود صاحب کی خود ساختہ "جماعت" کے دفاع میں جو نوادرات پیش کئے ہیں اور ان کے جوابات بھی ملاحظہ کر لیں:

۱: حدیث میں خلیفہ یا حاکم مروی نہیں۔ اشتیاق صاحب نے لکھا:

"سلطان کے معنی حاکم کرنا یا خلیفہ کرنا غلط ہے۔کیونکہ کسی حدیث میں لفظ خلیفہ یا حاکم نہیں روایت کیا گیا اور جب روایت نہیں کیا گیا تو سلطان کے معنی خلیفہ یا حاکم کیسے ہو گئے"

(ایک معترض کی غلط فہمیاں ص ۳۰)

عرض: اس مختصر سی عبارت میں دو واضح غلطیاں ہیں:

اول: اشتیاق صاحب کی اس "کیونکہ" سے معلوم ہوتا ہے کہ سلطان کے معنی حاکم یا خلیفہ بیان کرنا اس لئے غلط ہے کہ حاکم و خلیفہ کے لفظ حدیث میں مروی نہیں، جب نہیں تو یہ معنی بھی نہیں ہو سکتے۔ سبحان اللہ، کیا جواب ہے!!! اشتیاق صاحب کی ایسی عجیب و غریب باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ علم تو درکنار جناب کو صاحب عقل کی صحبت تک میسر نہیں آئی،اسی لئے ایسی جہالت سے بھر پور غلط باتوں کو بے دھڑک لکھ کر شائع کر دیتے ہیں۔

سوچئے! کیا کسی لفظ کے معنی کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ معنی والا لفظ حدیث میں مروی ہو ورنہ ہو معنی غلط ہو گا؟اگر ان کا اصرار ہو کہ ہاں تو بتائیے مسعود صاحب نے سلطان کے معنی "بادشاہ" بھی لکھے ہے۔کیا اشتیاق صاحب کو "بادشاہ" لفظ بھی حدیث میں نظر آیا؟ نہیں آیا اور نہ ہی آئے گا تو یہ غلط معنی کیوں آپ کے لڑیچر کا حصہ ہے؟ اور یہ بھی واضح کریں کہ خود جناب بھی اپنے اس خود ساختہ اصول کی پابندی کیوں نہیں کرتے کہ جناب نے اپنی "تحقیق کا فقدان " میں لکھا : "فرض کا ترجمہ...... کپڑے کا ایک ٹکٹرا یا پھٹن بھی ہے (المنجد )"

(تحقیق کا فقدان ص ۳۱)

بتائیے کپڑے کا ایک ٹکٹرا اور پھٹن کون سی حدیث میں مروی ہے؟

المختصر! اشتیاق صاحب کو چاہیے کہ اردو ترجمہ نہ کیا کریں تا کہ کم از کم خود تو اپنے اصول کے پابند رہیں۔ اگر وہ پابندی نہ کر سکیں اور ہرگز نہ کر سکیں گے تو اپنے اس باطل و فضول قاعدے کو اپنے کتابچہ سے نکال دیں۔

اشتیاق صاحب کی صریح غلط بیانی
دوم: یہ کہ اشتیاق صاحب نے اس مقام پر "صریح غلط بیانی" سے کام لیتے ہوئے کہا کہ "کسی حدیث میں لفظ خلیفہ یا حاکم نہیں روایت کیا گیا" حالانکہ نہ صرف یہ کہ روایت کیا گیا ہے بلکہ اشتیاق صاحب کی تحریرات میں نقل بھی ہو چکا ہے۔ چنانچہ اشتیاق صاحب نے فیض احمد کی کتاب "نماز مدلل" سے اقتباس نقل کرتے ہوئے لکھا:

"حضرت عبداللہ بن عمرؤ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما دونوں بزرگوں سے یہ مرفوع حدیث مروی ہے قال رسول اللہ ﷺ اذا حکم الحاکم فاجتھد.... الخ (نماز مدلل ص ۷)"

(تحقیق صلاۃ ص ۲۸)

پھر اشتیاق صاحب نے جواب دیتے ہوئے یہ بھی لکھا:

"مندرجہ بالا حدیث میں لفظ "حاکم" وارد ہوا ہے۔لفظ عالم نہیں ہے۔اس حدیث کا اطلاق حاکم یا بادشاہ وقت ہا خلیفۃ المسلمین یا قاضی پر تو ہوتا ہے"

(تحقیق صلاۃ بجواب نماز مدلل ص ۲۹، شائع شدہ ۱۹۹۵ء)

دیکھ لیجئے! اشتیاق صاحب نے "حاکم" والی روایت کی نفی کی کہ حدیث میں روایت نہیں جبکہ ان کی اپنی کتاب میں لفظ حاکم والی متفق علیہ روایت موجود ہے۔

(صحیح البخاری ، کتاب الاعتصام بالکتاب و النسۃ،باب اجرالحاکم اذا اجتھد، رقم : ۷۳۵۲،و صحیح مسلم، کتاب الاقفیہ، باب الجرالحاکم اذا اجتھد رقم ۴۴۸۷)

جس کا اطلاق اشتیاق صاحب کے خیال سے خلیفہ ، قاضی، حاکم یا بادشاہ پر ہی ہوتا ہے۔قطع نظر اس سے کہ اس کا اطلاق عالم پر ہوتا ہے یا نہیں۔حدیث میں لفظ حاکم موجود ہے۔ اشتیاق صاحب کا انکار صریح غلط بیانی ہے۔ اب انھیں کے قلم سے "خلیفہ " والی حدیث ملاحظہ کیجئے!لکھا ہے:

"حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

قال النبی ﷺ لا یزال ھذا الامر عزیزا الی اثنی عشر خلیفہ.....(صحیح مسلم ۳/۱۴۵۴) نبی ﷺ نے فرمایا: یہ دین بارہ خلفاء تک غالب ہی رہے گا"

(کیا امیر کا قریشی ہونا ضروری ہے؟ ص ۲)

غلط فہمی سے اتفاق!
۲: اس استدلال کے خلاف اشتیاق صاحب کا ایک اور جواب ملاحظہ کیجئے لکھا ہے:

"غلط فہمی: رسول اللہ ﷺ کو جب مکہ سے ہجرت کا حکم دیا گیا تب سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ۸۰ نازل ہوئی(ترمذی ابواب التفسیر ج ۲ ص ۳۸۸ عن ابن عباس و سندہ صحیح) وہ آیت اور مسعود صاحب کا ترجمہ صفحہ ۳۱ پر ملاحظہ کر لیں اور یہ بات پیش نظر رہے کہ مدینہ میں اسلامی حکومت قائم ہوئی تھی..... وہاں مسعود صاحب نے سلطان کا ترجمہ قوت و غلبہ کیا مدینہ میں آپ کو اللہ تعالٰی نے حکومت و اقتدار عطا کیا معلوم ہوا یہاں سلطان کے معنی حکومت و اقتدار کے ہیں۔

اذالہ: جناب خیراتی صاحب نے پھر استدلال کرنے میں غلطی کی۔اللہ تعالٰی رسول اللہ ﷺ کو ہجرت کے موقع پر ایک دعا بتا رہا ہے ...... آپ دعاء کرتے رہے اور اللہ تعالٰی نے مدینہ منورہ میں آپ کی دعاء کی برکت سے حکومت قائم کر دی۔ ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ پھر صاحب اقتدار و حکومت ہو گئے۔ اس سے ہمیں کب اختلاف ہے۔"

(ایک معترض کی غلط فہمیاں ص ۳۴)

عرض : قارئیں کرام ! اشتیاق صاحب کی عقل اور سوجھ بوجھ ملاحظہ کیجئے، جس بات کو "غلط فہمی" کا عنوان دے کر بزعم خود "ازالہ" کرنے چلے تھے اسی بات کو تسلیم کر گئے۔آپ مندرجہ بالا غلط فہمی و ازالہ دونوں پر غور فرما کر فیصلہ کریں کہ مفہوم و مطلب کے اعتبار سے دونوں عنونات کی عبارات میں کیا فرق ہے؟

رضوان اللہ خیراتی سابق رکن رجسٹرڈ فرقہ نے سورۃ بنی اسرائیل کی آیت : ۸۰ میں لفظ سلطان کا مفہوم "حکومت و اقتدار" قرار دے کر لکھا:

"مدینہ میں آپ کو اللہ تعالٰی نے حکومت و اقتدار عطاء کیا"

تو اشتیاق صاحب نے بھی لکھا:

"اللہ تعالٰی نے مدینہ منورہ میں......حکومت قائم کر دی..... اس سے ہمیں کب اختلاف ہے"

جب اختلاف نہیں تو اتفاق ہی ہوا، پھر اسے "غلط فہمی" قرار دینے کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں:

(۱) اشتیاق صاحب اور رجسٹرڈ فرقہ کو "غلط فہمی" اور "درست فہمی" کا مطلب تک معلوم نہیں۔

(۲) ا ن لوگوں کو بڑا شوق ہے دوسروں کی درست باتوں کو بھی "غلط قرار دینے کا"

کیا لفظ سلطان یا اس سے استدلال بے ثبوت ہے؟
۳: اس استدلال کے خلاف ایک اور جواب کچھ اس طرح لکھا:

"خیراتی صاحب نے حکومت اور اقتدار کو ثابت کرنے کے لئے جس لفظ سلطان سے استدلال کیا ہے وہ بےثبوت اور محض کھینچا تانی ہے"

(ایک معترض کی غلط فہمیاں ص ۳۰)

عرض: نہ تو لفظ سلطان بے ثبوت ہے نہ ہی استدلال، استدلال کی بحث تو آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ "غلط فہمی" قرار دینے کے باوجود جناب خود بھی تسلیم کر چکے ہیں۔

اب لفظ کے سلسلے میں اشتیاق صاحب کی تردید ان کے اپنے قلم سے ملاحظہ فرما لیجئے،لکھا ہے :"اگر کسی ایک روایت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے "سلطان" کا لفظ استعمال کیا ہے تو ان احادیث کی روشنی میں لفظ "سلطان" کو جماعت کے معنی پر منطبق کیا جائے گا۔لہذا سلطان اور جماعۃ ایک ہی چیز ہے"

(ایک معترض کی غلط فہمیاں ص ۳۳)

لیجئے ص ۳۰ پر بے ثبوت کہا ص ۳۳ پر ثبوت تسلیم کر لیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اسے روایت کیا ہے تو یہ بے ثبوت کہاں رہا؟ المختضر کے صحیحین کی متفق علیہ حدیث میں لفظ سلطان موجود ہے اور استدلال بھی اشتیاق صاحب نے تسلیم کر لیا ہے، انکا ر محض ضد ہے اور کچھ نہیں۔

امام سے کیا مراد ہے؟
جماعت کے مفہوم کی وضاحت کے بعد "امام" کے مفہوم پر غور کرتے ہیں،اس سے حدیث: تلزم جماعۃ المسلمین او امامہم" کا مفہوم بالکل واضح ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ۔

مسعود صاحب نے لکھا :"امام جماعت اور امیر جماعت ہم معنی ہیں(۱) رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: الا کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ فالامام الذی علی الناس راع و ھو مسؤل عن رعیتہ.....خبردار تم میں سے ہر شخص حکمران ہے اور تم میں سے ہر شخص سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہو گی۔امام جو لوگوں پر حکمراں ہوتا ہے اس سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہوگی(صحیح البخاری.....جزء۹ص۷۷)(امیر کی اطاعت ص ۱۴،طبع جدید ص ۸،آئینہ دار ص ۲۲۹)

مسعود صاحب کی نقل کردہ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ "امام" لوگوں کے حکمران کو کہتے ہیں۔

"راع" کا مفہوم: مسعود صاحب نے لکھا:

"اس حدیث میں لفظ راع استعمال ہوا ہے۔اس کے معنی درج ذیل ہیں:

(۱) اسم فاعل و کل من ولی امر قوم،وفی الاصطلاح ھو المتحق فی معرفۃ الامور السیاسۃ المتعلقۃ بالمدنیۃ المتمکن علی تدبیر النظامالموجب لصلاح العالم(محیط المیط قاموس مطول للغۃ العربیۃ ص ۳۴۱)

ترجمہ (یہ لفظ رعایۃ سے ) اسم فاعل(ہے،اس سے مراد ) ہر وہ شخص ہے جو کسی قوم کا امر کا والی ہو اور اصطلاح میں (اس سے مراد وہ شخص ہے جو) مدنیت کے متعلق امور سیاست کو واجب اور قائم کرنے والا (ہو یا) جو صلاح عالم کے لئے انتظامی تدابیر پر قدرت رکھنے والا (ہو)......ہر وہ شخص جو کسی قوم کے امر کا والی ہو جیسے اسقف(بادشاہ یا عالم) اور بطریرک (سردار یا رئیس)(۳) والی،امیر......الغرض مندرجہ بالا تصریحات کے لحاظ سے "راع" کا صحیح ترجمہ حکمراں ہے۔(امیر کی اطاعت ص ۱۵ طبع جدید ص ۸ آئینہ دار ص ۲۲۹)

مسعود صاحب نے "راع" سے متعلق جو لغوی بحث کتب لغت سے نقل کی ہے اس سے چند امور واضح ہوتے ہیں:

(۱) امام وہ ہے جو کسی قوم کے امر کا والی ہو۔

(۲) امام وہ ہے جو مدنیت سے متعلق امور سیاست پر قدرت و استطاعت رکھنے والا ہو۔

(۳) امام وہ ہے جو اصلاح عالم کے لئے انتظامی تدابیر پر قدرت رکھنے والا ہو۔

ایسے شخص کو لغت عرب میں "راع" کہتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ امام لوگوں پر "راع" مطلب حکمران ہوتا ہے۔کیا رجسٹرڈ فرقہ کے امام میں ایسی قدرت و استطاعت پائی جاتی ہے؟یقینا نہیں پائی جاتی تو پھر یہ کس بنیاد پر "امام" ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں؟ بہرحال حدیث بالا،لغوی بحث اور خود اپنی ہی تصریحات و توضیحات کے مطابق یہ لوگ مخالفت حدیث پر کمر بستہ اور مصر ہیں۔

اگر یہ لوگ واضح غلط بیانی کے مرتکب ہوکر یہ کہہ دیں کہ ہمارے امام امیر فرقہ رجسٹرڈ میں یہ ساری صلاحیتیں موجود ہیں تو پھر ہم ان سے پوچھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ پھر وہ اپنے ملک کم از کم اپنے شہر کراچی سے شرک و بدعات کا قلع قمع کیوں نہیں کرتے؟ اقامت صلاۃ و زکٰوۃ کیوں نہیں کرتے؟ فحاشی و عریانی کے ٹھکانے ختم کیوں نہیں کراتے؟ ظلم و جور کے غیر اسلامی نظام کا خاتمہ کیوں نہیں کرتے؟ یقینا یہ سب کچھ ان کے بس کی بات نہیں کہ فی الحال یہ اس پر اختیار نہیں رکھتے تو اس کا واضح مطلب یہی ہوا کہ رجسڑڈ فرقے کا امام بھی دیگر جماعتوں اور تنظیموں کے امام کی طرح بے بس و مجبور اور محکوم ہی ہے، راع یعنی حکمران نہیں۔جب کہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے کہ امام "راع" مطلب حکمران ہوتا ہے۔جب یہ تمام تنظیموں کے امراء حکمران نہیں تو لوگوں کے امام بھی نہیں ہیں۔

ایک اشکال اور اس کا جواب
جب ان کے سامنے یہ حدیث رکھی جائے تو کہتے ہیں: اس حدیث میں آگے یہ بھی بیان ہوا ہے کہ "مرد اپنے اہل بیت پر حکمران ہے اور اس سے اس کے اہل بیت کے متعلق باز پرس ہو گی۔عورت اپنے شوہر کے اہل بیت اور اس کی اولاد پر حکمران ہے۔ان کے پاس تو حکومت نہیں ہوتی۔"

جواب: بلاشبہ حدیث میں یہ باتیں بھی ہیں،لیکن غور سے دیکھئے اس میں جن لوگوں کو جس چیز کا حکمران بتایا گیا ہے ان کا دائزہ حکومت بھی بیان فرما دیا گیا۔مرد اپنے گھر والوں پر حکمران اس گھر والوں پر معروف میں اس کی اطاعت لازم ہے۔گھر سے باہر والوں پر نہیں اس طرح دیگر مذکور لوگوں کا معاملہ ہے۔مگر امام تو تمام لوگوں پر حکمران ہوتا ہے اس کا دائزہ کار اور حکومت محدود نہیں وسیع ہے۔جو دیگر نصوص سے ثابت ہیں،ان شاءاللہ وہ عنقریب بیان کی جائیں گی۔

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور امام کا مفہوم
مسعود صاحب نے لکھا:"حضرت ابو بکر نے فرمایا"امام سے وہی لوگ مراد ہیں جو لوگوں پر حاکم ہوتے ہیں"(صحیح تاریخ الاسلام و المسلمین ص ۶۸۷ بحوالہ صحیح بخاری )

جو بات رسول اللہ ﷺ نے بیان کی بالکل وہی بات سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بیان کی کہ "امام جو لوگوں پر حاکم ہو" اور محکوم تو حاکم قطعا نہیں ہوتا۔لیکن رجسٹرڈ فرقہ پر ست ان تصریحات کے برعکس ایک محکوم محض شخص کو امام بنائے بیٹھے ہیں۔المختصر کہ ان کا مؤقف قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔جماعت سے مراد اسلامی حکومت اور امام سے مراد مسلم حکمران ہے۔مزید وضاحت کے لئے درج ذیل عنوان ملاحظہ کیجئے:

امیر کے حقوق (رعایا کے فرائض)
مسعود صاحب نے اپنی منہاج میں عنوان بالا کے تحت چند احکامات لکھے ہیں، ان سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امیر یا ا مام کسے کہتے ہیں:

۱: مسعود صاحب نے لکھا:"رعایا کو چاہئے کہ امیر کی اطاعت کرے خواہ امیر حبشی غلام ہواور بدصورت ہی کیوں نہ ہو"(منہاج ص ۶۷۲)

اس کے ثبوت میں مسعود صاحب نے حاشیہ نمبر ۳ میں سورۃ نساء :۵۹ اور صحیح بخاری کی ایک حدیث نقل کی ہے۔

۲: اسی طرح لکھا: "امیر اگر حق تلفی بھی کرے تو رعایا کو چاہئے کہ اس کا حق اسے دے۔"(منہاج ص ۶۷۴ بحوالہ صحیح بخاری)

ان دونوں مقامات پر نقل کردہ احادیث میں امیر کا اور عایا کا ذکر ہے،امیر حاکم ہوتا ہے اور رعایا محکوم ان بلکہ کسی بھی حدیث میں تیسری قسم "محکوم حاکم" یعنی وہ شخص جو خود کسی رعایا میں شامل ہوتے ہوئے بھی "حاکم" ہونے کا مدعی ہو ، اس کا ذکر نہیں۔

من ادعی فعلیہ البیان

رجسٹرڈ فرقہ پرستوں کے امام اشتیاق صاحب حاکم تو نہیں اور ان کے محکوم ہونے کی واضح دلیل یہ ہے کہ موضوف "حدود آردیننس" کے ایک کیس میں کچھ عرصہ جیل کی ہوا بھی کھا چکے ہیں،جب پاکستانی عدالت میں ان پر کیس بنا،عدالت نے ان کی گرفتاری کے احکام جاری کئے تو وہ جیل میں ڈال دئیے گئے،اگر وہ حکومت پاکستان کے محکوم نہ ہوتے تو جیل میں کبھی نہ ڈالے جاتے۔تو محکوم شخص حاکم نہیں ہو سکتا۔

۳: مسعود صاحب نے لکھا:

"حکام سے دور رہے،جھوٹ میں ان کی تصدیق نہ کرے،ظلم میں ان کی مدد نہ کرے" (منہاج ص ۶۷۲)

ثبوت کے طور پر مسعود صاحب نے حاشیہ نمبر : میں دو احادیث نقل کی ہیں، ایک میں "امراء" کا لفظ ہے اور دوسرے میں "سلطان" کا۔امراء امیر کی جمع ہے۔اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ امیر حاکم کو کہتے ہیں۔

رعایا کے حقوق (امیر کے فرائض)
یہ عنوان بھی مسعود صاحب کا قائم کردہ ہے اس کے تحت جو احکام لکھے ہیں ان سے بھی خوب وضاحت ہوتی ہے کہ امیر حاکم کو کہتے ہیں نہ کہ محکوم کو۔

۱: اقامت صلٰوۃ.......! مسعود صاحب نے لکھا:

"امیر کو چاہئے کہ رعایا میں نماز کی اقامت کا انتظام کرے،زکوۃ کی وصولیابی کا بندوبست کرے،نیکی کا حکم کرے اور برائی سے روکے۔"

(منہاج ص ۶۷۵)

اس کی دلیل جو مسعود صاحب نے نقل کی حاشیہ نمبر ۴ میں وہ بھی ملاحظہ کیجئے:

الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُ‌وا بِالْمَعْرُ‌وفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ‌.....................(منہاج ص ۶۷۵)

مسعود صاحب نے اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھا:

"یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر اللہ زمیں میں ان کو استحکام و غلبہ عطاء کرے تو یہ نماز کو قائم کریں زکوۃ ادا کریں،نیک بات کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔"

(تفسیر قرآن عزیز ۶/۸۸۶)

اور اس آیت کی تفسیر میں لکھا: "اس آیت میں اللہ تعالٰی نے واضح طور پر صحابہ کرام کے دور خلافت کی تعریف فرمائی ہے۔یہ آیت بتاتی ہے کہ صحابہ کرام کے دور خلافت میں اقامت صلٰوۃ اور ادائے زکوۃ کا معقول انتظام تھا، صحابہ کرام معروف کاموں کا حکم دیتے تھے اور برے کام سے روکتے تھے۔"(حوالہ بالا ص ۹۰۷)

بلاشبہ اس آیت کا اولین مصداق صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہی تھے،مسعود صاحب نے "امیر کے فرائض" میں یہ آیت نقل کرکے انجانے میں ہی سہی ثابت کر دیا کہ امیر وہ ہوتا ہے جس کے پاس "خلافت" ہو۔ زمین پر استحکام و غلبہ حاصل ہو،جس نے صلوۃ و زکوۃ کا،امر بالمعروف و نھی عن المنکر کا نظام قائم کر رکھا ہو۔اس حقیقت سے مسعود صاحب بھی بخوبی آگاہ تھے یہی وجہ ہے کہ اپنی منہاج میں"خلافت علی منہاج النبوت" کے تحت لکھا:

"خلافت علی منہاج النبوت کی علامت یہ ہے کہ دین مستحکم ہو ،امن وا مان قائم ہو،اللہ تعالٰی کا قانون نافذ ہو اور صرف اللہ اکیلے کی حکومت قائم ہو،اس کے قانون و اطاعت میں کسی دوسرے کی شرکت نہ ہو پوری سلطنت میں اس کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کیا جائے۔ نظام صلوۃ اور نظام زکوۃ قائم ہو نیک باتوں کا حکم دیا جائے اور بری باتوں سے روکا جائے۔"

پھر حاشیہ نمبر :۳ میں سورۃ النور:۵۵ اور الحج:۴۱ نقل کردی۔(منہاج ص ۶۷۱)

دیکھئے جو آیت (الحج:۴۱) خلیفہ و خلافت کی ذمہ داریاں ثابت کرتی ہے وہی آیت "امیر کے فرائض" بھی ثابت کرتی ہے،مسعود صاحب کے اپنے طرز عمل سے واضح ہو جاتا ہے "خلافت و امارت" یا"امیر و خلیفہ" دو مختلف و متضاد چیزوں کا نام نہیں بلکہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ان میں فرق ثابت کرنا خود ساختہ بات ہے۔

سود خوروں سے جنگ
۲: مسعود صاحب نے "امیر کے فرائض" بیان کرتے ہوئے مزید لکھا:

"امیر کو چاہئے کہ رعایا میں سے جو لوگ سود لینا شراب پینا نہ چھوڑیں ان سے جنگ کرے۔"(منہاج ص ۶۷۵)

بات تو بالکل واضح ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس کے لئے جناب نے دلیل کیا نقل کی ، تاکہ امارت و خلافت کا خود ساختہ فرق اور امارت کا مصنوعی تصور منہدم ہو۔مسعود صاحنب نے اس کی دلیل میں کہا:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَذَرُ‌وا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّ‌بَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْ‌بٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ(البقرۃ : ۲۷۸-۲۷۹) اے ایمان والو،اللہ سے ڈرو اگر تم مؤمن ہو تو سود میں سے جو کچھ باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم ایسا نہ کرو تو پھر اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کا اعلان سن لو۔(ترجمہ از مسعود احمد،تفسیر قرآن عزیز ج ۱ ص ۱۰۳۳)

اسی آیت کی تفسیر میں مسعود صاحب نے لکھا:

"تمہارے لئے اعلان جنگ ہے،تم جنگ کے لئے تیار رہو، اسلامی حکومت میں سودی کاروبار جاری رہے یہ نہیں ہو سکتا۔ اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ ایسے لوگوں کو باغی قرار دےکر ان کے خلاف سخت کارروائی کرے اور اگر فوج کشی کی ضرورت پیش آ جائے تو اس میں بھی کوتاہی نہ کرے"(حوالہ بالا ج ۱ ص ۱۰۳۵)

قارئین کرام! غور کیجئے مسعود صاحب نے اپنی منہاج میں "شراب و سود خوروں سے جنگ،امیر کے فرائض" میں لکھ کر امیر کی ذمہ داری بتلائی اور تفسیر میں "اسلامی حکومت " کا فرض قرار دیا ،کیا اس سے واضح نہیں ہو جاتا کہ "امیر" اسلامی حکومت کے سربراہ کو کہتے ہیں، جس کے پاس قوت و غلبہ ہو۔یہ سب کچھ کرنے کا اختیار ہو،تنظیم و پارٹی کے سربراہ کو نہیں کہتے جو خود محکوم ہو۔افسوس کہ اس حقیقت سے آگاہی کے باوجود مسعود صاحب خود کو امیر ،امام اور سلطان باور کراتے تھے نئے امیر کا بھی اپنے بارے میں یہی خیال ہے،لیکن اسلا می حکومت نہ ان کے پاس تھی نہ ان کے نئے امیر کے پاس،"امیر کے فرائض" نہ مسعود صاحب نے ادا کئے نہ نئے امیر صاحب ان فرائض کو ادا کرنے کے موڈ میں ہیں،چونکہ اس کی قوت ہی نہیں رکھتے۔

سوچیے! ایک معلم کا فریضہ ہے کہ وہ طلبا کو تعلم دے لیکن جو معلمی کے منصب کا مدعی ہو لیکن پڑھانے ،تعلیم دینے کی صلاحیت سے محروم ہو،کیا کوئی عقل مند آدمی اسے "معلم" کہے اور سمجھے گا؟ یقینا نہیں،تو جو اس کے مقابلے میں کئ گنا بڑھ کر "امیر" ہونے کا مدعی ہو اور "امیر کے فرائض" و ذمہ داریاں ادا کرنے سے بالکل قاصر و عاجز ہو اسے شرعی "امیر" کہنا،سمجھنا اور باور کرانے کی کوشش کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ حالانکہ ایک معلم کی ذمہ داری تو صرف گنتی کے چند طلبا تک محدود ہوتی ہے اور رجسٹرڈ فرقہ کے امام تو "امیر کل عالم" ہونے کے مدعی ہیں۔

فوج و پولیس کے محکمے
۳: "امیر کے فرائض" میں سے ایک فرض بیان کرتے ہوئے مسعود صاحب نے لکھا: "امیر کو چاہئے کہ فوج اور پولیس کے محکمے قائم کرے۔" (منہاج ص ۶۷۷)

اشتیاق صاحب اور ان کے رجسٹرڈ فرقے کے لوگ مدعی ہیں کہ اشتیاق ان کے امیر ہیں۔

بتائیے ان کی فوج کے محکمے کہاں ہیں، فوج کا G.H.Q "جنرک ہیڈکوارٹر" کہاں ہے؟ اور ان کی پولیس کے تھانے اور دفاتر کہاں ہیں؟ فوج و پولیس کے سربراہ کون ہیں؟اور جب حکومت پاکستان کی پولیس اشتیاق صاحب کو گرفتار کرکے لے گئ اور جیل میں ڈال دیا تھا تع اشتیاق صاحب کی فوج اور پولیس والے کہاں تھے؟ اگر رجسٹرڈ فرقہ پرستوں کی فوج اور پولیس کے محکمے نہیں اور یقینا نہیں تو جواب دیں کہ ان کا امیر اپنا یہ فرض کیوں ادا نہیں کرتا؟

اونچی قبریں اور امیر کا فرض
۴: مسعود صاحب نے "امیر کے فرائض" بیان کرتے ہوئے لکھا:

"امیر کو چاہیے کہ مورتوں کو توڑنے اونچی قبروں کو زمین کے برابر کرنے کا انتظام کرے۔" (منہاج ص ۶۷۷)

یہ "انتظام" کیسے ہو گا، اس کا طریقہ کیا ہے؟ مسعود صاحب نے حاشیے کے ذریعے سے اس حکم کی دلیل میں جو حدیث نقل کی اس سے واضح ہو جاتا ہے۔ملاحظہ کیجئے لکھا ہے:

"عن ابی الھیاج الاسدی عن علی قال ابعثک علی ما بعثنی علیہ رسول اللہ ﷺ لا تدع تمثالا ال طمستہ ولا قبرا مشرفا الا سویتہ(صحیح مسلم)"(منہاج ص ۶۷۷)

(ترجمہ) ابو الھیاج الاسدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایاؒ: کیا میں تجھے اس کام کے لئے نہ بھیجوں جس کام کے لئے رسول اللہﷺ نے مجھے بھیجا (جاؤ) تم کسی بت کو توڑے بغیر اور کسی اونچی قبر کو برابر کیےبغیر نہ چھوڑنا۔"

ملک بھر کے قبرستانوں کی طرح شہر کراچی میں بھی اونچی قبروں کی بھرمار ہے۔کتنے ہی شاپنگ سینٹر ہیں جن میں مورتیوں اور پتلیوں کا طومار ہے۔رجسٹرڈ فرقے کے امام جو امیر ہونے اور خلیفہ جیسے حقوق حاصل ہونے کے مدعی "امیر کل عالم" کہلاتے ہیں۔ مگر مجبور اتنے ہیں کہ اپنے شہر کی قبروں کو زمین کے برابر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے،آخر کیوں وہ دیگر فرائض کی طرح اپنا یہ فریضہ بھی ادا نہیں کررہے؟

سرکاری عہدے اور امیر
۵: اسی ضمن میں مسعود صاحب نے لکھا:"امیر کو چاہئے کہ اس شخص کو سرکاری عہدہ نہ دے جو اس کا طلب گار ہو۔(منہاج ص ۶۷۷،۶۷۸)

"سرکاری عہدہ" کیا ہے اس کو سمجھنے کے لئے پہلے "سرکار" کا مطلب دیکھئے ،علمی لغت میں لکھا ہے:"سرکار ،حکومت،سلطنت ،گورنمنٹ (۲) دربار شاہی (۳) سردار،حاکم..."

(علمی لغت ص ۹۰۶)

"سرکاری عہدہ" کا مطلب ہو گا حکومتی اور گورنمنٹ کے عہدے، جب حکومت ہی نہیں تو حکومتی عیدے کیا ہوں گے،اور کیا کسی کو دیں گے۔تنظیمی اور پارٹی عہدوں کو "حکومتی عہدے" سمجھنا دل کے بہلاوے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا....بہرحال مسعود صاحب کی اس تحریر سے بھی واضح ہو جاتا ہے کہ "امیر" کسے کہتے ہیں۔

حدودو تعزیرات
۶: " امیر کے فرائض" بیان کرتے ہوئے مسعود صاحب نے لکھا:

"حدود اللہ کے علاوہ کسی جرم میں دس کوڑے سے زیادہ نہ مارے۔"

(منہاج ص ۶۷۶)

بات واضح ہے کہ "حدود و تعزیرات " کا نفاد بھی امیر کی ذمہ داری ہے،اور اس میں قصاص دیت ،چوری،زنا وغیرہ کی سزائیں بھی شامل ہیں۔البتہ جس جرم کی سزا دین میں مقرر نہیں اس میں دس سے زیادہ کوڑے نہ مارے اور ایسی سزا کو تعزیر کہتے ہیں۔یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ رجسٹرڈ فرقے کے "امیر کل عالم" حدودوقصاص اور دیت کے احکام بھی نافذ نہیں کرتے۔

جزیہ
۷: مسعود صاحب نے لکھا:

"اگر کفار اسلام قبول کرنے سے انکار کریں تو ان سے جزیہ لیا جائے۔"(منہاج ص ۶۷۹)

دیگر تمام کاغذی جماعتوں کے کاغذی امراء کی طرح رجسٹرڈ فرقہ پرستوں کے امیر کے بھی بس میں نہیں ہے کہ وہ یہ کام کر سکیں،اگرچہ "امیر کل عالم" ہونے کا زعم ہو۔

قیمتیں مقرر کرنا
۸: مسعود صاحب نے "امیر کے فرائض" بیان کرتے ہوئے لکھا:

"رعایا کو کسی خاص نرخ پر بیچنے پر مجبور نہ کرے"(منہاج ص ۶۷۶)

"امیر" ایسا تب کرسکتا ہے جب اس کے پاس طاقت و قوت ہو اور تب ہی اسے اس کام سے روکا جا سکتا ہے،لیکن جب وہ خود ہی مجبور و محکوم ہو تو کسی کو کیا مجبور کر سکتا ہے؟!

خلاف شرع کام اور امیر
۹: "امیر کے فرائض" میں مسعود صاحب نے لکھا:

"امیر کو چاہیے کہ رعایا کے دینی و دنیوی امور کی نگرانی کرے،رعایا کو خلاف شرع کام کرنے سے باز رکھے۔(منہاج ص ۶۷۶)

کون نہیں جانتا کہ معاشرے میں خلاف شرع کاموں کی کثرت ہے، مسعود صاحب کے بیان کے مطابق ان تمام کاموں سے روکنا، باز رکھنا "امیر" کا فرض ہے۔ لیکن ان کا امیر اس سلسلے میں کچھ کرنے سے قاصر ہے۔

شراب خوروں سے جنگ
۱۰: مسعود صاحب نے "امیر کے فرائض" بیان کرتے ہوئے لکھا:

"امیر کو چاہئے کہ رعایا میں سے جو لوگ..... شراب پینا نہ چھوڑیں ان سے جھنگ کرے۔"

اس کی دلیل میں مسعود صاحب نے سنن ابی داود کی حدیث (۳۶۸۳) نقل کی جس میں گندم کی شراب کے متعلق دیلم الحمیری رضی اللہ عنہ نے کہا:

"النَّاسَ غَيْرُ تَارِكِيهِ، قَالَ: «فَإِنْ لَمْ يَتْرُكُوهُ فَقَاتِلُوهُمْ»لوگ اسے نہیں چھوٹیں گے تو نبی ﷺ نے فرمایا: اگر وہ اسے نہ چھوڑیں تو ان سے قتال (جنگ) کریں۔

مسعود صاحب نے لکھا: "سندہ صحیح"

سوال پھر وہی اٹھتا ہے کہ ہمارے ملک میں ہر جگہ شراب کے اڈے ہیں،شراب عام بکتی ہے ،شراب پینے والوں کی بھی کثرت ہے۔مسعود صاحب نے خود کو "امیر کل عالم" سمجھتے ہوئے بھی شرابیوں سے جنگ نہیں کی نہ اشتیاق صاحب ہی کر رہے ہیں۔ تو یہ امیر کیسے ہوئے؟

قارئین کرام ! امیر کے فرائض و ذمہ داریوں سے متعلق یہ دس شرعی احکامات خود رجسٹرڈ فرقہ کے بانی مسعود صاحب کے قلم سے آپ کے سامنے ہیں، ان میں سے ایک آدھ استدلال پر مسعود صاحب سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے لیکن "امیر کے فرائض" پر مبنی ان احکامات کا غالب حصہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں۔ ان فرائض سے ہی یہ بات واضح ہو جاتی ہے "امیر" حاکم وقت کو کہتے ہیں، جس کے پاس امارت و حکومت ہو،قوت و غلبہ اور اقتدار ہو۔ جس کے ذریعے سے وہ اپنی تمام ذمہ داریاں اور فرائض بحسن و خوبی انجام دے سکے۔ جو ان فرائض کو ادا کرنے کی طاقت ہی نہ رکھتا ہو محکوم، مغلوب اور مجبور ہو وہ امیر نہیں ہو سکتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
دوسرا ربط:
جماعت المسلمین (رجسٹرڈ) پر ایک نظر: از عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

جماعت المسلمین پر ایک نظر

حافظ عبد اللہ بہاولپوری (رحمة اللہ علیہ)
کمپوزنگ: ابوبکرالسلفی
[LINK=[URL]http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?p=289832]حوالہ[/URL][/LINK]
پروف ریڈنگ / تصحیح اغلاط: محمد شاکر


شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔ وہ ہر طریقے سے انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نیک کو نیکی کے رنگ میں، بد کوبدی کے رنگ میں ۔ اس کا زیادہ تر وار اہل حق پر ہوتا ہے ۔ خصوصاً اہل حدیث پر ، کیوں کہ یہی اہل حق ہیں، جن کو چومکھی لڑائی لڑنی پڑتی ہے۔ کبھی اس محاذ پر کبھی اس محاذپر۔

اہل حدیث پر وار کرنے کے لیے پہلے توشیطان اغیار سے کام لیتا ہے، لیکن جب دیکھتا ہے کہ اغیار اہل حدیث کے مقابلے میں کامیاب نہیں ہوتے تو پھر قرآن و حدیث کا نام لینے والوں میں سے ہی وہ کسی کو منتخب کرکے اپنا کام لیتا ہے۔ کراچی کے مسعود بی ۔ ایس سی صاحب اب شیطان کے ہاتھ لگے ہوئے ہیں۔ وہ آج کل ان سے اپنا کام لے رہا ہے۔ اس لیے مسعود صاحب، اپنی سادہ لوحی اور علم و فہم کی کمی کی وجہ سے دین داروں کے لیے فتنہ بنے ہوئے ہیں۔ وہ نام قرآن و حدیث کا لیتے ہیں، لیکن مخالفت اہل حدیث کی کرتے ہیں۔ اگر مسعود صاحب شیطان کے ہتھے چڑھے ہوئے نہ ہوتے تو وہ اہل حدیث کی مخالفت نہ کرتے۔

آخر غربا والوں نے بھی تو اپنی جماعت بنائی۔ اپنا سلسلہ چلایا ، لیکن اہل حدیث کی مخالفت نہیں کی۔ اپنی کار کردگی کو غربا کے نام سے نمایاں کیا ، لیکن جماعت حق سے اپنا سلسلہ نہیں توڑا۔ اگر مسعود صاحب عقل والے ہوتے، ان کی قسمت سیدھی ہوتی تو وہ ضرور سوچتے کہ جب اہل حدیث بھی قرآن و حدیث کو مانتے ہیں ، میں بھی قرآن و حدیث کا نام لیتا ہوں تو میں اہل حدیث کی مخالفت کیوں کروں۔اگر کسی اہل حدیث سے کوئی اختلاف ہو تو اس سے گفتگو کروں، نہ کہ اہل حدیث جماعت کی مخالفت شروع کردوں۔ اب مسعود صاحب نے اہل حدیث کی مخالفت پر کمر باندھ رکھی ہے، وہ اس کی مخالفت میں ہی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ وہ اپنی جہالت اور تعصب کی وجہ سے اہل حدیث کو بدعتی اور گمراہ بتاتے ہیں اور خود اہل حق بنتے ہیں اور لوگوں کو اہل حدیث سے متنفر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے جو اہلحدیث سے متنفر ہوگا وہ پھر کہاں جائے گا۔ ترقی کرکے تو آدمی اہل حدیث بتاتا ہے۔ اہل حدیث سے ترقی کرکے پھر وہ کدھر جاسکتا ہے۔

مَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ[10:یونس:32]
اہل حدیث کے بعد تو پھر گمراہی ہی گمراہی ہے۔ شیطان کے گمراہ کرنے کی تکنیک بھی یہی ہے۔ پہلے وہ حق میں تشکیک پیدا کرتا ہے، پھر لوگوں کو حق سے ہٹاتا ہے۔ جب کوئی حق سے ہٹ جاتا ہے تو پھر وہ اس کو اپنا بنالیتا ہے۔


انسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ[7:الاعراف:175]

مسعود صاحب نے جماعت المسلمین نام کا ایک جال تیار کیا ہے، جو بہت غضب کا اور بڑا دلفریب ہے جس میں وہ قرآن و حدیث کا نام لے کر اہل حدیث کو پھانستے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اہل حدیث فرقہ وارانہ نام ہے۔ اس لیے یہ ناجائز ہے ۔ اہل حدیث جماعت ہندوستان میں بنی ہے اور جماعت المسلمین قدیم سے ہے۔ اس کا ذکر بخاری و مسلم میں بھی ہے۔ اور یہی اصل جماعت ہے، حال آنکہ "جماعت المسلمین" بالکل ایک نئی جماعت ہے جس کا ماضی نہ مستقل جڑ نہ بنیاد۔ ہرلحاظ سے (مَالَھَا قَرَار)۔1385ھ میں مسعود صاحب نے اس کی بنیاد رکھی ۔ یہ جماعت خاص بیسویں صدی کی پیداوار ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے بھی بعد یہ پیدا ہوئی۔ یہ اس زمانے میں پیدا ہوئی جب فتنوں کا دور اور انحاط کا زور تھا۔ ظاہر ہے کہ جس " مسلمین" کی بنیاد بیسویں صدی میں مرزا قادیانی کے بھی بعد رکھی گئی ہو وہ کیسی "مسلمین" ہوگی؟

مسعود صاحب کا حال اس عقل والے کا ہے جو ہلدی کی ایک گھٹی لے کر پنساری بن بیٹھا تھا۔ مسعود صاحب کو کہیں حدیث میں "جماعت المسلمین" کا لفظ نظر آگیا، پھرآؤ دیکھا، نہ تاؤ فوراً دکان کھول دی اور جماعت المسلمین کا بورڈ لگادیا۔ یہ نہ سوچا کہ جماعت المسلمین کا لفظ جس معنی میں لے رہا ہوں حدیث میں اس معنی میں ہے بھی یا نہیں۔ بورڈ لگانے کی کی۔ اگر جماعت المسلمین کا لفظ حدیث

(( فَیَشھدنَ جَمَاعَۃَ المُسلِمِینَ))[بخاری، کتاب العیدین باب اعتزال الحیض المصلی، ص77، رقم:981 ۔ مشکوۃ، کتاب الصلوۃ، باب صلوۃ العیدین ، فصل اول، رقم:1431]
(عورتیں جماعت المسلمین کے ساتھ عید گاہ جائیں)


میں اس معنی میں ہوتا جس معنی میں مسعود صاحب نے لے کر ایک نیا فرقہ کھڑا کردیا ہے تو کیا رسول اللہ ﷺ صرف عورتوں کو ہی حکم دیتے کہ وہ جماعت المسلمین کے ساتھ عید گاہ جائیں۔ مردوں کو حکم نہ دیتے کہ وہ بھی جماعۃ المسلمین کے ساتھ عید گاہ جائیں، کسی اور فرقے کے ساتھ نہ جائیں۔ کیا جماعت المسلمین صرف عورتوں کے لیے ہی ہے جو رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو ہی حکم دیا۔ اگر یہ لفظ اس معنی میں ہوتا جس معنی میں مسعود صاحب نے لیا ہے تو سب سے پہلے محدثین جماعت المسلمین کی بنیاد رکھتے ۔ مسعود صاحب ہی بتائیں، کیا محدثین نے ان کی طرح جماعت المسلمین نام کی کوئی جماعت بنائی؟ اگر بنائی تو اس کا حوالہ دیں۔ اگر نہیں بنائی تو کیوں؟ یا جماعت المسلمین کا لفظ جو بخاری اور مسلم میں ہے، امام بخاری، امام مسلم یا کسی اور محدث کو نظر نہ آیا ۔ اگر آیا اور یقیناً نظر آیا تو انھوں نے جماعت المسلمین نام کی کوئی جماعت کیوں نہ بنائی۔

جب مسعود صاحب جیسا ایک بے علم جماعت المسلمین کی بنیاد رکھ سکتا ہے تو محدثین نے جماعت المسلمین نام کی کسی جماعت کی بنیاد کیوں نہ رکھی، وہ کیوں اہل حدیث ہی کہلواتے رہے۔ جب انھوں نے ایسا نہیں کیا، تو صاف ظاہر ہے کہ حدیث میں جماعت المسلمین کا لفظ اس معنی میں نہیں جس معنی میں مسعود صاحب نے لے کر بیسویں صدی کے ایک نئے فرقے کی بنیاد رکھ دی۔ مسعود صاحب ایک طرف اپنی جماعت کی کڑیاں بخاری و مسلم کی حدیث سے ملا کر اس کو قدیم ترین ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف اپنے رسالے" جماعت المسلمین کا پس منظر" میں لکھتے ہیں ۔ چند درد مند حضرات نے اہل حق کی اصلاح کے لیے 1385ھ میں جماعت المسلمین کی بنیاد ڈالی، میں پوچھتا ہوں جب جماعت المسلمین کی بنیاد1385ھ میں رکھی گئی تو کیا اس سے پہلے اس نام کی کوئی جماعت نہ تھی ؟ اگر کوئی جماعت نہ تھی تو وہ اہل حق کون تھے جن کی اصلاح کے لیے اس جماعت کی بنیاد رکھی گئی؟ اور کس جماعت سے وہ تعلق رکھتے تھے؟ کیا آج بھی وہ اہل حق ہیں یا نہیں؟ اگر آج بھی اہل حق ہیں تو وہ کون ہیں اور اگر آج ان میں سے کوئی اہل حق نہیں رہا، سب گمراہ ہوگئے تو جماعت المسلمین نے اچھی اصلاح کی کہ سارے اہل حق گمراہ ہوگئے ۔ اور اگر 1385ھ سے پہلے بھی جماعت المسلمین نام کی کوئی جماعت تھی تو پھر 1385ھ میں بنیاد ڈالنے کے کیا معنی؟ اگر مسعود صاحب یہ کہیں کہ اور جگہ تو یہ جماعت اس سے پہلے بھی تھی لیکن کراچی میں اس کی بنیاد 1385ھ میں رکھی گئی تو میں پوچھتا ہوں دوسری جگہ دنیا میں کہاں کہاں یہ جماعت تھی؟ کون کون اس کے امیر تھے؟ آج تک اس جماعت کے بڑے بڑے علماء کون کون ہوئے ہیں؟ انھوں نے کون کون سی کتابیں لکھی ہیں؟ جن پر جماعت المسلمین کا مرغوب ٹھپہ ایسے ہی ہو جیسے آج کل مسعود اور مرغوب صاحبان لگاتے ہیں۔

اگر مسعود صاحب ماضی میں اس جماعت کا کوئی اتا پتانہ بتا سکیں تو انھیں تسلیم کرلینا چاہیے کہ یہ ایک نئی جماعت ہے جو بیسویں صدی کے آخر میں معرض وجود میں آئی ہے۔ جس کا بخاری و مسلم میں مذکور جماعت المسلمین سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہو جماعت المسلمین اور اس کی بنیاد بیسویں صدی میں رکھی جائے۔ کیا رسول اللہ ﷺ کی امت اتنی صدیاں بغیر جماعت المسلمین کے ہی رہی؟ رسول کریم نے اس جماعت المسلمین کےبارے میں تو فرمایا تھا

((لاَتَزَالُ طَائِفَۃ مَّن اُمَّتِی))
[بخاری ، کتاب العتصام، باب قول النبی ص609، رقم:7311)


کہ وہ ہمیشہ رہے گی۔ آپ ﷺ نے اس کے مذہب کے بارے میں فرمایا تھا:

(مَا أنَا عَلَیہِ وَ اّصحَابِی))
[مشکٰوۃ، کتاب الایمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، رقم:171)


کہ ان کا مذہب اہل سنت والجماعت والا ہوگا۔ مسعود صاحب یا تو اپنی جماعت کا اس نام کے ساتھ ہر زمانہ میں موجود ہونا ثابت کریں، ورنہ تسلیم کریں کہ "جماعت المسلمین" آپ والی جماعت نہیں بلکہ وہ جماعت المسلمین اہل حدیث ہی ہے جو شروع زمانے میں اپنے اصلی نام سے موسوم تھی۔ جب فرقے بن گئے تو وہ اہل سنت اور اہل حدیث کے نام سے مشہور ہوئی۔ مسعود صاحب جتنی اہل سنت ، اہل حدیث ناموں کی مخالفت کریں گے اتنا ہی ان کی جماعت کا جھوٹا اور بے بنیاد ہونا واضح ہوگا۔ کیوں کہ پہلے ان کی جماعت نہیں تھی اور جو جماعت حقہ اہل سنت اور اہل حدیث کے نام سے پہلے سے چلی آرہی ہے اس کو وہ مانتے نہیں۔ آخر یہ خلاکیسے پورا ہوگا۔

اگر مسعود صاحب کی قسمت سیدھی ہوتی تو وہ ضرور تسلیم کرتے کہ اہل حدیث ہی وہ جماعت المسلمین ہے جس کا ذکر بخاری و مسلم میں ہے۔ کیوں کہ اہل حدیث ہی وہ جماعت ہے جو قدیم سے ہے، جس کی ایک زبردست تاریخ ہے جس کا شاندار ماضی ہے اور درخشاں مستقبل ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی جب آئیں گے تو اسی مذہب اہل حدیث پر ہوں گے، کیوں کہ یہی اصل اسلام ہے۔

مسعود صاحب کہتے ہیں اصل جماعت المسلمین ہم ہیں جس کا خیر القرون کی جماعت المسلمین کی طرح کوئی فرقہ ورانہ نام نہیں۔ ہمارا ایک ہی نام"مسلم" ہے جو اللہ نے رکھا ہے۔ میں کہتا ہوں مسعود صاحب آپ کی جماعت المسلمین وہ نہیں جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تھی، کیوں کہ آپ کی جماعت المسلمین کی بنیاد 1385ھ میں رکھی گئی ۔ اگر یہ پہلے والی جماعت المسلمین ہوتی تو 1385ھ میں اس کی بنیاد رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ توپہلے سے ہی چلی آرہی تھی ۔ جب آپ نے 1385ھ میں بنیاد رکھی تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ جماعت المسلمین نہیں ہے۔

مسعود صاحب! آپ کی جماعت المسلمین اس لیے بھی خیر القرون والی جماعت المسلمین نہیں کہ آپ کے عقائد و مسمات وہ نہیں جو پہلے کی جماعت المسلمین کے تھے۔ اُس جماعت المسلمین کا یہ دعویٰ ہر گز نہیں تھا کہ"مسلم" کے سوا کوئی اور نام رکھنا جائز نہیں۔ جو کوئی اسلام کا مترادف لقب رکھے وہ بھی فرقہ پرست ہے۔ مسعود صاحب! اگر پہلی جماعت المسلمین کا بھی یہی دعویٰ تھا جو آپ کا ہے تو اس کا ثبوت کسی کتاب سے دیں ۔ بلکہ رسول کریمﷺ نے جہاں گمراہ فرقوں کا ذکر کرکے ایک ناجی فرقے کا ذکر کیا ہے وہاں انھوں نے جماعت المسلمین کا نام نہیں لیا۔ اگر مسعود صاحب کا مذہب صحیح ہوتا کہ اہل حق کا جماعت المسلمین کے سوا کوئی دوسرا نام ہی نہیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ضرور جماعت المسلمین کا نام لیتے۔ جب آپ ﷺ نے جماعت المسلمین کا نام نہیں بلکہ((مَااَنَا عَلَیہِ وَاَصحَابیِ)) کہا تو اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ مسعود صاحب والی جماعت المسلمین غلط ہے جو کہتی ہے کہ جماعت المسلمین کے سوا تمام نام فرقہ پرستی اور گمراہی کے نام ہیں۔ حالانکہ آج تک کوئی اہل حق ایسا نہیں گزرا جس نے کہا ہو جماعت المسلمین کے سوا کوئی اچھا لقب رکھنا بھی گمراہی ہے ۔ مسعود صاحب پہلے"مسلمینی" ہیں جنھوں نے یہ دعویٰ کیا ہے۔

مسعود صاحب! اگر آپ یہ کہیں کہ نام تو ہمارا وہی "جماعت المسلمین" ہے جو بخاری و مسلم میں ہے تو میں کہتا ہوں فقط نام سے کیا ہوتا ہے، نام تو جعلی چیزوں کا بھی وہی ہوتا ہے جو اصلی چیزوں کا ہوتا ہے۔ نام سے ہی تو لوگوں کو دھوکا دیا جاتا ہے۔ اس لیے فقط نام نہیں دیکھا جاتا، خصوصیات بھی دیکھی جاتی ہیں۔ جن سے پتا چل جاتا ہے کہ یہ چیز جعلی ہے یا اصلی، احادیث کو دیکھ کر ہی تو مرزا قادیانی نے مسیح موعود نام رکھا تھا۔ مہدی نام کو دیکھ کر ہی تو جھوٹے اور نقلی مہدی بنے۔ مسعود صاحب! بے شک نام آپ کا وہی ہے جو بخاری و مسلم میں ہے،لیکن آپ کی جماعت وہ نہیں کیوں کہ یہ تو پیدا ہی 1385ھ میں ہوئی ہے ۔ اگر وہ ہوتی تو مسلسل چلی آتی۔ 1385ھ میں بنیاد رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟

مسعود صاحب! آپ کہتے ہیں ہمارا نام جماعت المسلمین ہے۔ میں کہتا ہوں جماعت المسلمین تو یہود نصاریٰ بھی تھے۔ کیا اللہ نے آپ کی طرح ان کا نام مسلمین نہیں رکھا تھا۔ جب یہود و نصاریٰ بھی جماعت المسلمین ، امت محمدیہ ساری مسلمین ، حتیٰ کہ ہمارے ملک کے بنگالی اور میراثی بھی مسلمین ، آپ بھی مسلمین، بلکہ شیعہ تو مومنین۔۔۔ تو فرق کیا رہا؟ مسعود صاحب فقط جماعت المسلمین نام رکھنے سے کچھ نہیں بنتا۔ جب تک آپ کا سلسلہ اس جماعت حق سے نہ جڑ جائے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا

((لَا تَزَال طَائِفَۃ اُمَّتِی))
[بخاری، کتاب الاعتصام، بابا قول النبیﷺ ص:609،رقم:7311]


اور
((مَااَنَا عَلَیہِ وَاَصحَابیِ))
[مشکٰوۃ، کتاب الایمان بابا الاعتصام بالکتاب والسنۃ رقم:171] ۔
آپ "جماعت المسلمین"نام کو اچھالتے ہیں حال آنکہ ایسے رسمی ناموں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
(لَایَبقٰی الاِسلاَمِ اِلاَّ اِسمُہُ))
[مشکوۃ:کتاب العلم، رقم:276]


ایک زمانہ ایسا بھی آجائے گا کہ اسلام کا صرف نام رہ جائے گا۔ مسعود صاحب! آپ بھی صرف نام کو پیٹتے ہیں، یہ نہیں دیکھتے کہ اصل اسلام کیا ہے اور وہ کہاں ہے؟ اہل حدیث جو اصل اسلام کے علمبردار ہیں۔ ان کی آپ مخالفت کرتے ہیں اور جماعت المسلمین جو بالکل ایک نیا فرقہ ہے اس کو آپ اہل حق بتاتے ہیں۔ مسعود صاحب آخر آپ کو نظر کیوں نہیں آتاکہ تیرہ چودہ سو سال سے کونسی جماعت اہل باطل کا مقابلہ کر رہی ہے ۔ کیا وہ آپ کی جماعت المسلمین ہےجو 1385ھ میں بنی ہے۔؟ آپ قدیم سے باطل کا مقابلہ کرنے والوں کو بدعتی بتاتے ہیں اور خود جو کل پیدا ہوئے ہیں ، اہل حق بنتے ہیں۔ مسعود صاحب یاد رکھیے جو اہل حق کو گمراہ بتاتا ہے وہ خود گمراہ ہوتا ہے۔ آخر اس کے ذہن میں کوئی کجی ہوتی ہے تو اس کا سیدھا الٹا نطر آتا ہے۔ اور الٹا سیدھا۔

مسعود صاحب! آپ نے 1385ھ میں جماعت المسلمین کی بنیاد رکھی تو کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جماعت المسلمین کی بنیاد نہیں رکھی جاتی۔ جب لوگ مسلمان بنتے جاتے ہیں تو جماعت المسلمین خود بخود بن جاتی ہے۔ جماعت المسلمین کی بنیاد رکھناتو ایسے ہی ہےجیسے اسلام کی بنیاد رکھنا۔ اس لیے احیاء اسلام یا تجدید اسلام کی تحریکیں تو دنیا میں بہت اٹھیں۔ یہ تو مسعود صاحب ! ماشاء اللہ آپ ہی ہیں جنھوں نے جماعت المسلمین کی بنیاد رکھی ہے۔ بعید نہیں کہ آپ کا کوئی بھائی اسلام کی بنیاد رکھنے والا بھی اٹھ کھڑا ہو۔

مسعود صاحب! یقین جانیں، جب آپ نے جماعت المسلمین کی بنیاد رکھی تھی تو اہل نظر تو اسی وقت کہتے تھے کہ مسعود بے چارہ مخلص ہو تو ہو لیکن بے عقل ضرور ہے کیوں کہ مسلمانوں میں جماعت المسلمین نام کی کوئی جماعت بنانا کسی عقل مند کا کام نہیں۔ اگر اس کو مسلم نام ہی کی کوئی جماعت بنانا منظور تھی تو تنظیم المسلمین یا اصلاح المسلمین نام کی کوئی جماعت بنا کر اپنا شوق پورا کر لیتا، مسلمانوں میں جماعت المسلمین نام کی جماعت بنانا مسلمانوںمیں ایک نئے فرقے کے اضافے کے سوا اور کچھ نہیں۔ غیر مسلمانوں کے مقابلے میں تو اس نام کا کوئی فائدہ ہو بھی سکتا ہے اور کچھ نہیں تو مسلمان اس نام پر اکھٹے ہی ہو جاتے ہیں جیسا کہ مسلم لیگ میں ہوئے اور یہ حقیقت ہے کہ کانگریس کے مقابلے میں مسلم لیگ کی کامیابی کی بڑی وجہ مسلم لیگ کا یہ نام تھا، لیکن اب پاکستان مین اس نام کا کچھ اثر نہیں کیوں کہ پاکستان مین سارے مسلمان ہیں اور مسلمانوں کے مقابلے میں مسلم لیگ کا نام کوئی کشش نہیں رکھتا، بلکہ مسلمانوں میں جماعت المسلمین نام کی کوئی جماعت بنانا لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنا ے کیوں کہ اس سے دوسرے مسلمان کی تحقیر بلکہ تکفیر کا پہلو نکلتا ہے۔ اس سے اپنے فخر اور تعلیٰ کا اظہار ہوتا ہے۔ عام مسلمانوں سے علیحدگی کا تصور پیدا ہوتا ہے جو بھی جماعت المسلمین کا نام سنتا ہے وہ طنزاً پوچھتا ہے آپ جماعت المسلمین ہیں تو کیا ہم جماعت الکافرین ہیں۔ جماعت اسلامی پر بھی یہی اعتراض تھا کہ یہ جماعت اسلامی ہے ، تو باقی کیا غیر اسلامی ہیں۔ مسعود صاحب! آپ نے کچھ نہ سوچا سمجھا مسلم لیگ کا ریڈی میڈ نام لے کر جماعت المسلمین کی بنیاد رکھ دی۔

جماعت المسلمین کا نام رکھا تو آپ نے نادانی میں ہے، لیکن اب قرآن و حدیث کا سہارا لے کر اس کو (Justify) کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں وہ وہ تاویلیں کرتے ہیں کہ مرزا قادیان کو بھی باوجود اس کی کمال تاویل بازی کے مات کردیتے ہیں اور آیات و احادیث کے غلط ترجمے کرتے ہیں۔ عبارتوں کا مطلب بگاڑتے ہیں۔ غرض یہ کہ اپنی جماعت المسلمین کو بچانے کے لئے الٹے سیدھے استدلال کو دیکھ کر بسوں اور گاڑیوں مین فولاد کا کشتہ بیچنے والوں کا طرز استدلال یاد آجاتا ہے کہ بیچنا تو ہوتا ہے ان کو اپنا کشتہ فولاد، لیکن پڑھتے ہیں آیت:
وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ[57:الحدید:25]
تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ ان کا کشتہ فولاد اللہ تعالیٰ کا تیار کیا ہوا ہے۔ اور اس کا نسخہ قرآن مجید میں موجود ہے اور اس کشتے میں ان کی تمام بیماریوں کا علاج ہے۔ مسعود صاحب! آپ بھی اپنی جماعت المسلمین کا تاثر کچھ اسی قسم کا دیتے ہیں کہ جیسے یہ جماعت خود اللہ نے بنائی ہے، اللہ نے ہی اس کا نام رکھا ہے اور اللہ نے ی مسعود بی ۔ ایس سی صاحب کو اس کا امیر مبعوث کیا ہے۔ کیوں کہ ایک مسعود صاحب کی ذات ہی دنیا میں ایسی رہ گئی تھی جو ذہن پرستی سے محفوظ تھی، باقی ساری دنیا ذہن پرست ہوگئی تھی۔ اس لیے اب جماعت المسلمین ہی دنیا میں ایک ایسی جماعت ہے جو ضلالت کے سمندر میں سفینہ نجات ہے جو اس میں سوار ہوگا گمراہی سے بچ جائے گا ورنہ گمراہی کے سمندر میں غرق ہوجائے گا۔

مسعود صاحب! اپنی جماعت المسلمین کے دفاع کے لیے جو کچھ جائز، ناجائز آپ کرسکتے تھے آپ نے کیا، لیکن بات وہی رہی کہ باطل خواہ کتنی بھی ملمع سازی کر لے باطل ہی رہتا ہے ۔ جھوٹ کتنا بھی سچا بنے جھوٹ ہی رہتا ہے۔ آپ کی جماعت المسلمین 1385ھ میں بنی ہے، پہلے نہیں تھی حالانکہ اسلام اور مسلمین پہلے سے چلے آرہے ہیں۔ اگر آپ کی جماعت المسلمین اصلی ہوتی، نقلی نہ ہوتی تو آپ کو 1385ھ میں اس کی بنیاد رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ جس جماعت المسلمین کی بنیاد آپ نے 1385ھ میں رکھی ہے وہ ایک نیا فرقہ ہے اور نیا فرقہ سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔


مسعود صاحب سب کو معلوم ہے کہ آپ نے جماعت المسلمین اب بنائی ہے اور یہ بالکل جعلی ہے۔ یہ وہ نہیں جو"خیر القرون" میں تھی لیکن آپ کہتے ہیں یہ جماعت المسلمین وہی ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں مسعود صاحب! آپ کی یہ جماعت المسلمین وہ کیسے ہوسکتی ہے۔یہ تو ہمارے سامنے بنی ہے۔ آپ کہتے ہیں نام تو وہی ہے 'مسعود صاحب! آپ کا اور آپ کی جماعت المسلمین کا حال اس سید کا ہے جو بیسویں صدی میں لوگوں کے سامنے سید بنا تھا۔ کسی نے اس پر دھوکا دہی کا مقدمہ دائر کر دیا جس میں وہ ماخوذ ہوگیا۔ اس نے اپنی صفائی میں گواہ پیش کیا۔ گواہ نے گواہی دی کہ یہ سید ہے کیوں کہ ہمارے سامنے بنا ہے۔ عدالت نے کہا جواب سید بنا ہو سید کیسے ہوسکتاہے۔ سید تو وہ ہوتا ہے جو سیدوں کی اولاد ہو اور نسلاً بعد نسلاً چلا آرہا ہو۔ یہ سید کیسا؟ سو یہی حال آپ کا ہے اور آپ کی جماعت کا۔ جماعت المسلمین کی بنیاد رکھی تو آپ نے سمند ر کے کنارے کراچی میں، اور حوالے دیتے ہیں بخاری و مسلم کے کہ یہ وہی جماعت ہے جو خیر القرون میں تھی۔ مسعود صاحب! یہ جماعت وہ تو تب ہوتی جب یہ نسلاً بعد نسلٖ مسلسل چلی آرہی ہوتی ۔ جب اس کی بنیاد ہی 1385ھ میں رکھی گئی ہے تو یہ وہ کیسے ہوسکتی ہے؟

مسعود صاحب! آپ نے" جماعت المسلمین" کی بنیاد رکھ کر "مسلم" نام کا پمفلٹ نکال کر یہ ثابت کیا ہے کہ آج تک (ھُوَ سَمَّا کُم المُسلِمِینَ) کا مطلب سمجھنے والا کوئی نہیں ہوا۔ سلف سے خلف تک سب فرقہ پرست ہی تھے جنھوں نے فرقہ وارانہ نام رکھے۔ جماعت المسلمین کی بنیاد نہ رکھی۔کچھ مقلدبن گئے، کچھ اہل حدیث۔۔ وہ تقلید کرکے گمراہ ہوگئے، یہ اہل حدیث نام رکھ کر تباہ ہوگئے۔ جب مسلم کوئی نہ رہا تو مسعود بے چارے کو از سر نو 1385ھ میں جماعت المسلمین کی بنیاد رکھنا پڑی۔

مسعود صاحب! مسعود عثمانی کا حال بھی آ پ جیسا ہی ہے۔ وہ بھی آپ کا بھائی ہے ۔ وہ کہتا ہے توحید آج تک میرے سوا کسی کی سمجھ میں نہیں آئی۔ توحیدخالص کا نسخہ اب بیسویں صدی میں مجھے ہی ملا ہے۔پہلے سب مشرک ہوگئے۔ آپ کو "مسلمینی" ڈس گئی، اس کو "توحید" لڑگئی۔ آپ دونوں نے سلف و خلف کو مشرک ، گمراہ اور فرقہ پرست قرار دیا ۔ اس طرح آپ دونوں مسعود ین شقیقین بن گئے۔ یہ ساری مار آپ پر اس لیے پڑی کہ آپ سلف کی راہ سے ہٹ گئے اور نئی راہ نکال لی۔ اگر آپ دونوں سلف کی لائن میں رہتے تو یوں شیطان کے ہتھے نہ چڑھتے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((اِنَّ الشَّیطٰنَ ذِئب الاِنسَان کَذِئبُ الغَنَم یَأ خُذُ الشاذَّۃَ وَالقَاصیِۃَ وَالنَّاحیَۃَ وَاِیَّاکُم وَالشعَابَ وَعَلیِکُم بِالجَمَاعَۃِ وَالعَامَّۃِ))
[مشکوۃ، کتاب الایمان باب العتصام بالکتب والسنۃ، الفصل الثالث ، رقم:184۔۔ مسند أحمد ،5/243 رقم:21602 ایضاً 5/233، رقم:21524)


شیطان انسان کا بھیڑیا ہے جیسے بکریوں کے لیے بھیڑیا ہوتا ہے جو علیحدہ رہنے والی بکری کا شکار کرلیتا ہے، اسی طرح شیطان ان لوگوں کا شکار کرلیتا ہے جو سلف کی لائن سے نکل جاتے ہیں اور بالآ خر
((مَن شَذَّ شُذَّ فِی النَّارِ))
[مشکوۃ، کتاب الایمان ، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ ، رقم:173۔ ۔ ۔جامع ترمذی ابواب الفتن،باب ماجاء فی لزوم الجماعۃ، ص1869، رقم:2167]


کے تحت دوذخ میں چلے جاتے ہیں۔
مسعود صاحب! سلف کی لائن میں رہنا بہت ضروری ہے۔ اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو بھی یہی تاکید کی ہے اور ہمیں بھی ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے:


أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّـهُ، فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ[6:النعام:90]
اے نبیﷺ! پہلے نبیوں کی لائن میں رہیے۔۔۔۔ صحابہ کو حکم ہے:


(فَاتَّبِعُونِی)
میرے نبی ﷺ کی لائن میں رہو۔ پھر فرمایا:


وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ[31:لقمان:15]
میری راہ پر چلنے والے پیشروؤں کی لائن میں رہو۔ نئی لائن نہ بناؤ۔ گارنٹی دی ہے کہ میری راہ پر چلنے والے اہل حق لازماًہمیشہ رہیں گے تاکہ لائن نہ ٹوٹے ۔ اسی لیے اللہ نے حکم دیا ہے کہ تم اہل حق کی لائن میں رہو۔ ان کی لائن سے باہر نہ نکلو۔ اگر تم اہل حق کی لائن سے باہر نکلو گے تو شیطان فوراً تمھارا شکار کرلےگا۔ شیطان شکار کرتا ہی اس وقت ہے جب آدمی سلف کی لائن سے نکل کر نئی راہ نکالتا ہے۔


مسعود صاحب! دل آپ کا مانتا ہے کہ اہل حدیث ہی اہل حق ہیں ۔ ان کے سوا کوئی اہل حق نہیں، لیکن اب جماعت المسلمین آپ کے لیے فتنہ بن گئی ہے۔ اب آپ اہل حدیث کی مخالفت میں ہی اپنی جماعت کی خیر سمجھتے ہیں۔ آپ ہی بتائیں کہ اگر اہل حدیث" اہل حق" نہیں تو کیا مقلدین اہل حق ہیں یا مرزائی اور اہل قرآن اہل حق ہیں، یا شیعہ مومنین اہل حق ہیں؟ آخر آپ کی جماعت المسلمین کے وجود میں آنے سے پہلے کون اہل حق تھے۔ اگر وہ اہل حدیث ہی تھے تو وہ آپ کی جماعت المسلمین کے وجود میں آنے کے بعد فرقہ پرست اور گمراہ کیسے ہوگئے ۔ اگر وہ اہل حدیث نہیں تھے تو وہ کون تھے؟ اگر آپ کہیں کہ میں نے جماعت المسلمین کی بنیاد ہی اس وقت رکھی تھی جب کہ کوئی اہل حق نہ تھا۔ چاروں طرف گمراہی ہی گمراہی تھی، گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا تو میں کہوں گا کہ یہ جھوٹ ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا' کیوں کہ امت محمدیہﷺ پر ایسا دور کبھی آیا ہے نہ آئے گا کہ اہل حق معدوم ہوں۔ آپ کی جماعت المسلمین کے باطل ہونے کی بڑی دلیل ہی یہ ہے کہ اس کا پچھلی صدیوں میں کوئی نام ونشان نہیں تھا۔
یہ کیسے ہوسکتا کہ اتنی صدیاں امت محمدیہ اندھیرے میں رہے اور اب بیسویں صدی میں آپ روشنی کا میناربن کر نمودار ہوں۔ قرآن پکار پکار کر کہہ رہاہے اور قرآن ہر زمانے کے لیے ہے:


مَن شَاءَ اتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِيلًا[73:المزمل:19]
وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ[31:لقمان:15]


میری راہ بھی موجود ہے' مٹی نہیں۔ اس کے راہی بھی موجود ہیں۔ ان کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا۔جو کوئی چاہے اللہ کی راہ اختیار کرلے ۔ اگر اہل حق کوئی نہ ہو تو اللہ کی راہ اختیار ہی نہیں کی جا سکتی ۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(( لاَتَذَالُ طَائِفَۃَ مَن اُمَّتِی۔۔۔ الخ))
[بخاری، کتاب الاعتصام باب قول النبی ص609، رقم:7311]


اہل حق ہمیشہ رہیں گے۔ مسعود صاحب! آپ کیسے کہ سکتے ہیں کہ جماعت المسلمین سے پہلے اہل حق نہیں تھے؟ جب آپ مانتے ہیں کہ دین قرآن و حدیث کا نام ہے تو پھر آپ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ آپ کے وجود میں آنے سے پہلے حاملین قرآن و حدیث کون تھے۔ قرآن و حدیث کن کا مذہب تھا۔ کیا موجودہ فرقوں میں سوائے اہل حدیث کے آپ کو کوئی ایسا فرق نظر آتا ہے جس کا مذہب صرف قرآن و حدیث ہو۔ جب نہیں اور یقیناً نہیں تو آپ کیسے کہتے ہیں کہ اہل حدیث"اہل حق" نہیں؟

مسعود صاحب! یہ آپ کو کتنا مغالطہ ہے کہ مسلم کے سوا کوئی اور نام نہیں ہوسکتا ۔ نام صرف ایک یعنی"مسلم" ہی ہے۔ اس مغالطے کی وجہ سے ہی آپ نے جماعت المسلمین بنائی ہے اور اس مغالطے کی وجہ سے ہی آپ اہل حدیث کو گمراہ بتاتے ہیں۔ آپ کا یہ مغالطہ صرف لا علمی کی وجہ سے ہے، ورنہ قرآن و حدیث کی رو سے کوئی دوسرا وصفی اور امتیازی نام رکھنا منع نہیں۔ قرآن وحدیث سے آپ ایک دلیل ایسی پیش نہیں کرسکتے جو آپ کے اس مذہب کو ثابت کرے۔ آپ نے اپنے رسالے"مسلم" میں بہت سی قرآنی آیات لکھی ہیں جن میں "مسلم" کا لفظ ہے۔ آپ اس سے استدلال یہ کرتے ہیں کہ نام صرف ایک یعنی مسلم ہی ہے اور کوئی دوسرا نام نہیں، حال آنکہ ان آیات سے ہر گز آپ کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا۔ گفتگو اس میں نہیں کہ مسلم نام ہے یا نہیں۔ گفتگو اس میں ہے کہ مسلم کے علاوہ کوئی اور نام جائز ہے یا نہیں؟ آپ کوئی ایسی دلیل پیش کریں جس سے یہ ثابت ہو کہ مسلم کے علاوہ کوئی اور نام جائز نہیں اور وہ آپ قطعاً نہیں کرسکتے۔

اگر آپ کہیں کہ قرآن کہتا ہے: (وَلَا تَفَرَّقُوا) فرقے فرے نہ بنو۔۔ مختلف ناموں سے فرقے بنتے ہیں۔ میں کہتا ہوں مسعود صاحب! یہ استدلال بھی آپ کا غلط ہے۔ فرقے ناموں سے نہیں بنتے، فرقے مذہب کی تبدیلی سے بنتے ہیں۔ اگر مذہب ایک ہو اور تعارفی نام مختلف بھی ہوں تو کوئی فرقہ پرستی نہیں۔ وہ ایک ہی فرقہ ہے۔ ایک چیز کے کئی نام ہوسکتے ہیں۔ اگر مذہب صحیح ہو تو مذہب کی مناسبت سے کئی نام ہوسکتے ہیں۔ ناموں کو اتنی اہمیت نہیں۔ اصل اہمیت مذہب اور دین کو ہے۔ اگر مذہب غلط ہو تو نام خواہ کتنا اچھا ہو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ آ پ اپنا نام مسلم رکھتے ہیں، مسلم کتنا اچھا نام ہے' لیکن چونکہ آپ کا مذہب غلط ہے اس لیے آپ کو اس نام کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس طرح شیعہ مؤمنین کہلاتے ہیں' مومنین کتنا پیارا نام ہے' لیکن جب مذہب صحیح نہیں تو مومن نام کا ان کو کوئی فائدہ نہیں۔
نام پر اصرار کرنا اور مذہب کو نہ دیکھنا یہ یہود و نصاریٰ کا شیوہ ہے۔ یہود ونصاریٰ کہتے تھے۔


كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا[2:البقرہ:135]
یہود و نصاریٰ بن جاؤ ہدایت والے ہو جاؤ گے۔ وہ یہودی و نصاریٰ نام رکھنے کو ہی ہدایت سمجھتےتھے۔ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا:


بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا[2:البقرہ:135]
دین ابراہیم کو اپناؤ،ناموں پر نہ مرو۔


یہود نصاریٰ کہتے تھے:

لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ[2:البقرہ:111]
جنت میں صرف یہود و نصاریٰ ہی جائیں گے اور کوئی نہیں جائے گا۔


اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا:

بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّـهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ۔۔۔۔الخ[2:البقرہ:112]
کیوں نہ جائے گا جو بھی اخلاص کے ساتھ اپنے آپ کو اللہ کے آگے جھکادے وہی جنت میں جائے گا۔۔۔۔


دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
انَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَىٰ وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ[2:البقرہ:62]


جس کا مطلب یہ ہے کہ جنت کسی خاص نام کے گروہ کے ساتھ خاص نہیں۔ جنت میں ہر وہ شخص اور گروہ جائے گا جس کا ایمان اور عمل درست ہوگا، خواہ وہ امت محمدیہ کے مومنین ہوں یا پہلی امتوں مثلاً یہود ونصاریٰ اور صائبین کے نیک لوگ ہوں۔

مسعود صاحب! قرآن پاک کی آیت واضح طور پر آپ کے مذہب کو جھوٹا ثابت کرتی ہے۔ اس آیت میں واضح ہے کہ نام بے شک مختلف بھی ہوں لیکن مذہب ایک ہونا چاہیے۔ دین اسلام ۔ مسعود صاحب ! آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اللہ ﷺ تک کتنے نیک لوگ گزرے ہیں۔ وہ مسلمین بھی تھے، لیکن اپنی امتوں کے لحاظ سے انکے نام اور بھی تھے۔ ہر نبی کی امت مسلمین ہوتے ہوئے مختلف امتیازی ناموں سے مشہور رہی ہے۔ جیسے یہود ونصاریٰ، اہل کتاب، صابی، قوم تبع وغیرہ ۔ لہٰذا آپ کا یہ کہنا کہ نام صرف ایک یعنی مسلم ہے اور کوئی نہیں ایجاد بندہ ہے اور یہ عقیدہ گندہ ہے۔ اس میں یہود یا نہ رنگ ہے، اسلامی رنگ نہیں۔ قرآن و حدیث میں اس کی کوئی دلیل نہیں۔ صرف یہی نہیں کہ یہ نظر یہ قرآن و حدیث کے خلاف ہے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ یہ بات آج تک کسی عالم نے بھی نہیں کہی کہ مسلم کے سوا کوئی و صفی نام جائز نہیں۔ خواہ وہ اسلام کا معروف وممیز ہی کیوں نہ ہو۔یہ صرف آپ کے ذہن کی پیداوار ہے۔


مسعود صاحب! یہ آپ کی کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ لاعلمی کی وجہ سے قلابازیاں خود کھاتے ہیں، غلط فتوے اوروں پر لگاتے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ کا حال غلام محمد پرویز والا نہ ہو۔ وہ بھی آپ کی طرح سے دفتری آدمی تھا۔ ساری عمر تو کی کلرکی۔ جب ریٹائر ہوگیا اسلام کو طلوع کرنے لگا ۔ تھا بے علم۔ فَضَلُّوا وَاَضَلُّوا کا مصداق ہو گیا۔ آپ بھی ساری عمر تو رہے بی ۔ ایس سی اور اب بنا لی جماعت المسلمین اور کرنے لگے تفسیر قرآن ۔ اب اللہ ہی خیر کرے۔

آپ کا رسالہ" مسلم" بتاتا ہے کہ آپ کومغالطہ یہ ہے کہ مسلم نام"علم" ہے۔ اس لیے یہ بد لانہیں جاسکتا ہے۔ میں کہتا ہوں مسلم علم نہیں، یہ ایک خطاب ہے ، جو اللہ کی طرف سے اپنے فرمان برداروں کو دیا جاتا ہے۔ لیکن مسعود صاحب ! اگر آپ کو سمجھانے کے لیے تھوڑی دیر کے لیے یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ مسلم"علم" ہے تو پھر کیا علم کے بعد کوئی وصفی نام رکھا نہیں جاسکتا۔؟ آخر یہ کس دین کا مسئلہ ہے؟ مسعود صاحب! جو بھی کوئی علم کے بعد وصفی نام رکھتا ہے وہ اپنے علم کو نہیں بدلتا ، علم وہی رہتا ہے۔ القاب وغیرہ اور رکھ لیتا ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ جو اہل حدیث ہوتا ہے وہ مسلم بھی ہوتا ہے اور اہل حدیث بھی۔ بقول آپ کے مسلم اس کا اصل نام ہے، یعنی علم ہے، اہل حدیث اس کا وصفی نام ہے یعنی لقب ہے اور ایک ذات کے مختلف اوصاف کے لحاظ سے کئی کئی نام ہوسکتے ہیں۔اللہ کے کتنے نام ہیں؟ رسول اللہ ﷺ کے کتنے نام ہیں؟ قرآن مجید کے کتنے نام ہیں؟ اسلام کے کتنے نام ہیں؟ ہر شخص کے علم کے علاوہ کئی کئی نام ہوتے ہیں،بلکہ بعض دفعہ تو غیر علمی نام اتنا مشہور ہو جاتا کہ علم کا پتا ہی نہیں رہتا۔ حضرت ابوہریرہؓ کا کیا نام تھا؟ یقین کے ساتھ کسی کو معلوم نہیں، وہ اپنی کنیت سے ہی مشہور ہیں۔

مسعود صاحب! حقیقت یہ ہے کہ مسلم کوئی علم نہیں۔ یہ بھی مومن کی طرح ایک وصفی نام ہے جس کے معنی ہیں فرماں برداری کرنے والا مطیع ومنقاد۔ قرآن مجید اور وصفی ناموں کی طرح مسلم کو بھی ایک وصفی نام قرار دیتا ہے۔ یہ کوئی علم نہیں۔ چنانچہ ملاحظہ ہو:

اِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ۔۔۔۔ الخ[33:الاحزاب:35]

اگر مسلم علم ہوتا تو اندازبیاں یہ نہ ہوتا کہ مسلم معطوف علیہ اور مومن اور صادق وغیرہ معطوف ۔ اللہ نےجب مسلمین پر باقی وصفی ناموں کا عطف کیا ہے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسلم علم نہیں۔ بلکہ ایک وصفی نام ہے۔ جیسا کہ مؤمن وصادق نام ہیں۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ جیسے اپنے آپ کو مومن وصادق کہنا اور جماعت المومنین اور جماعت الصادقین بنانا جائز نہیں اسی طرح اپنے آپ کو مسلم کہنا اور جماعت المسلمین بنانا جائز نہیں کیوں کہ یہ اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی بات ہے اور شریعت ایسے نام رکھنے سے منع کرتی ہے جس میں اپنی مدح کا پہلو نکلتا ہو، یا اپنی پاک بازی اور بڑائی کا اظہار ہو یا اپنے کسی عمل کا سراہنا پایا جاتا ہو۔ اس لیے اپنے آپ کو "المصلی" (نمازی)، "الصائم"(روزے دار) ، "الحاج"(حاجی) کہلوانا جائز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ مسلم یا مومن نہیں کہلواتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جماعت المسلمین نام کی کسی جماعت کی بنیاد نہیں رکھی۔ چونکہ وہ مسلم تھے اس لیے خود بخود جماعت المسلمین تھے۔ ان کو جماعت المسلمین نام رکھنے کی ضرورت نہ تھی۔ یہ بیماری پہلے معتزلہ کو تھی کہ وہ اپنے آپ کو اہل التوحید واہل العدل کہتے تھے۔ یا شیعہ کو تھی کہ وہ مومنین بنتےتھے۔ اب یہ بیماری آپ کو لگ گئی ہے کہ آپ مسلمین کہلاتے ہیں، حالانکہ جس طرح جماعت المؤمنین واہل حق کہلانا جائز نہیں۔ اس طرح جماعت المسلمین کہلانا بھی جائز نہیں۔

1-مسعود صاحب! اگر آپ کہیں کہ جب ہم مسلم ہیں تو مسلم کیوں نہ کہلائیں، میں پوچھتا ہوں کہ آپ مومن ہیں یا نہیں؟ اگر آپ مومن نہیں تو پھر آپ مسلم بھی نہیں اور اگر آپ مومن ہیں تو پھر آپ مومن کیوں نہیں کہلاتے ؟ اس طرح آپ صادق ہیں تو صادق کیوں نہیں کہلاتے۔؟ جماعت المسلمین کی بجائے جماعت الصادقین کی بنیاد کیوں نہیں رکھتے۔؟ مسعود صاحب! یہ ضروری نہیں کہ آدمی جو ہو وہ کہلائے بھی۔ صحابہؓ جن کو رسول اللہ ﷺ نے جنتی کہا تھا، وہ جنتی ہونے کے باوجود جنتی نہ کہلاتے تھے۔

2- اگر آ پ کہیں کہ مسلمین نام اللہ نے رکھا ہے، ہم مسلمین کیوں نہ کہلائیں، میں کہتا ہوں کہ اللہ کے مسلم نام رکھنے کے یہ معنی نہیں۔ کہ مسلم ہمارا ذاتی نام ہے، اس لیے ہم مسلمین کہلاتے پھریں۔ مسلم نام رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اپنے فرمانبرداروں کا نام مسلمین رکھا ہے، جو اللہ کے فرمانبردار بن جائیں گے اللہ کے نزدیک ان کا یہ نام ہوگا۔ اللہ نے یہ نام اس وقت رکھا تھا جب ہم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ ہم نے کوئی عمل بھی نہیں کیا تھا۔ اگر یہ نام ہمارے کہلانے کے لیے ہوتا تو اللہ ہماری پیدائش سے پہلے یہ نام نہ رکھتا۔ جب تک عملاً فرمان برداری نہ ہو تو مسلم کیسا اور جب مسلم نہ ہو تو مسلم نام کیسا؟ مسعود صاحب! آ پ ہی بتائیں کہ فرماں برداری سے پہلے آدمی مسلم کہلاسکتا ہے؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کا ہماری پیدائش سے پہلے کا رکھا ہوا نام ہمارے مسلم کہلانے کی دلیل کیسے ہو سکتا ہے؟ ذاتی نام تو ذات کے وجود میں آنے سے پہلے بھی رکھا جاسکتا ہے۔ لیکن کسی وصف سے متصف تو کوئی ذات اس وقت ہو سکتی ہے جب وہ وصف اس ذات میں موجود ہو۔ مسلم ایک وصفی نام ہے جس کے معنی ہیں فرمانبردار۔ جب کوئی انسان فرماں برداری کے وصف سے موصوف ہوگا تو وہ مسلم نام کا مستحق ہوگا۔ پہلے کیسے مسلم کہلاسکتا ہے۔؟

3- اگر آپ کہیں ہم مسلمین اس لیے کہلاتے ہیں کہ اللہ نے ہمارا نام مسلمین رکھا ہے ، میں پوچھتا ہوں اللہ نے سب کا نام مسلمین رکھا ہے، یا خاص خاص کا؟ اگر سب کا نام مسلمین رکھا ہے تو پھر دنیا میں سب مسلمین کیوں نہیں؟ اتنے کافرکیوں ہیں؟ کیا اللہ نے کافروں کے نام بھی مسلمین کھا ہے؟ اگر اللہ نے سب کا نام مسلمین نہیں رکھا، خاص خاص کا نام مسلمین رکھا ہے تو پھر وہ خاص کون ہیں؟ کیا وہ آپ کی جماعت المسلمین ہے یا اور بھی ہیں؟ اگر اور بھی ہیں تو کیا وہ اہل حق نہیں؟ اگر اور نہیں بلکہ صرف آپ کی جماعت المسلمین ہے تو پھر اللہ کی تیار کردہ مسلمین کی وہ لسٹ دکھائیں تاکہ ہم بھی دیکھیں کہ اس میں آپ کا نام بھی ہے یا نہیں؟ اگر آپ مسلمین کی وہ لسٹ نہ دکھا سکے اور آپ کبھی بھی نہیں دکھا سکتے تو آپ تسلیم کریں کہ اللہ نے مسلم نام ضرور رکھا ہے لیکن یہ پتا نہیں کس کس کا؟ ۔۔۔۔ مسعود صاحب! جب آپ کو پتا ہی نہیں کہ اللہ نے کس کس کا نام مسلم رکھا ہے تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں اللہ نے ہمارا نام مسلمین رکھا ہے۔ اس لیے ہم مسلمین کہلاتے ہیں۔

4- مسعود صاحب! آ پ جو کہتے ہیں اللہ نے(سَمَّا کُمُ المُسلِمِینَ) [22:الحج:78) کہا ہے، اس لیے ہم مسلمین کہلاتے ہیں ۔ میں کہتا ہوں اس( سَمَّاکُمُ) میں ضمیر مخاطب"کُمُ" سے کون لوگ مراد ہیں؟ کیا صرف صحابہؓ یا بعد والے بھی؟ اگر بعد والےبھی ہیں تو پھر کیا آپ اس "کُمُ" میں شامل ہیں یا نہیں؟ مسعود صاحب! جب تک آپ یہ ثابت نہ کرسکیں کہ اس"کُمُ" میں آپ بھی شامل ہیں، آپ (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) سے استدلال کیسے کر سکتے ہیں؟

5- مسعود صاحب! آپ جو کہتے ہیں کہ اللہ نے (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کہا ہے اس لیے ہم مسلمین کہلاتے ہیں، اسی لیے ہم نے جماعت المسلمین بنائی ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ فقط اللہ کے (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کہہ دینے سے کوئی مسلم کہلا سکتا ہے یا اللہ کے (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کہہ دینے کے بعد بھی مسلم کہلانے کے لیے مسلم بننے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ کہہ کہ فقط اللہ کے (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کہہ دینے سے ہر آدمی مسلم کہلاسکتا ہے، میں کہتا ہوں پھر عمل کرنے کی کیا ضرورت ؟مسلم تو پھر ہر آدمی اس وقت سے ہی ہے جب سے اللہ نے یہ نام رکھا ہے۔ اگر آپ کہیں کہ فقط اللہ کے (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کہہ دینے سے کوئی آدمی مسلم نہیں کہلاسکتا، مسلم کہلانے کے لیے تو مسلم بننے کی ضرورت ہے ، میں کہتا ہوں پھر آپ مسلمین کہلانے کے لیے (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) سے استدلال کیوں کرتے ہیں؟ پھر مسلم کہلانے کی دلیل مسلم ہونا ہے، نہ کہ اللہ کا (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کہنا۔ اس لیے آپ پہلے اپنا مسلم ہونا ثابت کریں، پھر مسلمین کہلائیں اور اپنا مسلم ہونا آپ ثابت نہیں کرسکتے ۔ اس لیے آپ کا مسلم کہلانا اور جماعت المسلمین بنانا غلط ہے۔

6- مسعود صاحب آپ جو مسلمین کہلاتے ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کہا ہے، میں پوچھتا ہوں اللہ کے (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کہہ دینے سے کیا ہر ایک کو مسلم کہلانے کا حق مل جاتا ہے؟ اگر آپ کہیں کہ (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کے تحت ہر ایک کو مسلم کہلانےکا حق ہے پھر تو ہر کوئی مسلم کہلاسکتا ہے، خواہ مرزائی ہو یا مشرک۔ اگرآپ کہیں کہ ہر کوئی مسلم نہیں کہلا سکتا، مسلم صرف وہی کہلا سکتا ہے جو مسلم ہو۔ میں کہتا ہوں پھر (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) سے مسلم کہلانے پر آپ کا استدلال کرنا بے کار ہے۔ (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کے تحت پھر یا تو ہر مشرک اور مرزائی بھی مسلم کہلا سکتا ہے ا پھر اس کے تحت کوئی بھی مسلم نہیں کہلا سکتا؟ مسلم صرف وہی کہلا سکتا ہے جو مسلم ہو اور یہ پتا نہیں کہ مسلم کون ہے؟ اللہ ہی سب کو بہتر جانتا ہے اس لیے آپ کا (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کے تحت مسلم کہلانا اور جماعت المسلمین بنانا باطل ہے۔

7- مسعود صاحب! جب یہ طے ہے کہ اللہ کی فرماں برداری کے بغیر کوئی بھی مسلم نہیں ہو سکتا کیوں کہ مسلم کا معنی ہی فرماں برداری کرنے والا ہے، جو فرماں برداری نہ کرے وہ مسلم نہیں تو آدمی زندگی میں مسلم کیسے کہلاسکتا ہے؟ کیوں کہ فرماں برداری کا عمل موت تک جاری رہتا ہے اور جب تک فرماں برداری مکمل نہ ہو اللہ کے نزدیک مسلم نہیں بن سکتا، لہٰذا آپ کا مسلمین کہلانا اور جماعت المسلمین بنانا غلط ہے۔

8- مسعود صاحب! اگر آپ کہیں اللہ نے ہمارا نام مسلمین رکھا ہے ، اس لیے ہم مسلمین کہلاتے ہیں، میں کہتا ہوں مسلمین نام اللہ نے ہر ایک کا نہیں رکھا۔ مسلمین نام اللہ نے ہی رکھا ہے جو اللہ کے نزدیک مسلمین بننے والے ہیں اور اللہ کے نزدیک مسلم وہی بنتا ہے جس کا خاتمہ اسلام پر ہو۔کیوں کہ اپنے خاتمے کا کسی کو پتا نہیں۔ اس لیے زندگی میں مسلم ہونے کا دعویٰ کرنا یا جماعت المسلمین نام کی جماعت بنانا ایک چھچھوری حرکت ہے۔ اپنے انجام ے ڈرنے والا کوئی دانا بینا ایسی حرکت نہیں کرسکتا۔ مسعود صاحب! آپ نے جماعت المسلمین تو بنالی اس وجہ سے کہ اللہ نے ہمارا نام مسلمین رکھا ہے۔ لیکن یہ کبھی غور نہیں کیا کہ جب اللہ نے ہمارا یہ نام رکھا ہے تو اس نام سے اللہ ہم سے خطاب کیوں نہیں کرتا؟ سارےقرآ ن مجید میں اللہ نے ایک دفعہ بھی ہمیں اس نام سے نہیں پکارا۔ بلکہ جہاں بھی پکارا ہے (یٰایُّھَاالمُومِنُونَ) ۔۔۔ (یٰاَیُّھَاالَّذِیِنَ أمَنُوا)۔۔۔(یٰاعِبَادِی) سے پکارا ہے تو ثابت ہوا کہ مسلم نام ضررور ہے ، لیکن زندگی میں زندہ رہتے ہوئے کوئی اس نام کا مستحق نہیں، کیوں کہ فرماں برداری مکمل ہونے سے پہلے یہ نام رکھا ہی نہیں جاسکتا، کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں یٰایُّھَاالمُسلِمُونَ سے خطاب نہیں کرتا۔

10- مسعود صاحب! اگر آپ کہیں کہ جب ہم زندگی میں مسلم نہیں کہلاسکتے تو اللہ نے (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کیوں کہا ہے؟ میں کہتا ہوں (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ)ہمیں مسلمان بنانے کے لیے کہا ہے۔ مسلمان کہلانے کے لیے نہیں کہا۔ اللہ نے (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) اس لیے کہا ہے کہ ہمیں مسلم بننے کی ترغیب ہوتاکہ ہمیں معلوم ہو کہ مسلمین ایک خطاب ہے جو اللہ اپنے فرمانبرداروں کو دیتا ہے۔ اگر ہم فرمانبردار بنیں گے تو یہ ہمیں ملے گا۔ اللہ نے (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) اس لیے نہیں کہا کہ ہم فرماں برداری کا کورس پورا کرنے سے پہلے مسلم کہلانے لگ جائیں۔ مسعود صاحب! آپ نے (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کا منشا و مطلب تو سمجھا نہیں، جماعت المسلمین کی بنیاد رکھ دی۔ مسلم دنیا میں فرداً فرداً ہمارا نام نہیں کہ ہم مسلم کہلاتے پھریں۔ مسلمین تو در اصل فرمان برداروں کی اس کلاس کا نام ہے جس میں مسلم بننے کے لیے کلمہ پڑھ کر داخلہ لیا جاتا ہے۔ اس کلاس کا نام تو اللہ نے پہلے سے ہی مسلمین رکھ دیا ہے، لیکن کلمہ پڑھ کر کوئی داخلہ لینے والا اس وقت تک مسلم نہیں کہلاسکتا جب تک وہ اسلام کا امتحان پاس کرکے اللہ سے مسلم ہونے کی سند نہ حاصل کرلے۔

ایم ۔ اے کی کلاس کو تو ایم ۔ اے پہلے ہی کہہ دیتے ہیں، لیکن ایم اے کہلانے اور اپنے نام کے ساتھ ایم اے لکھنے کا مجاز کوئی اسی وقت ہوسکتا ہے جب وہ ایم اے پاس کر کے ایم اے کی ڈگری لے لے۔ جب تک وہ ایم اے کی ڈگری نہ لے لے، ایم اے نہیں کہلاسکتا۔ اسی طرح جب تک وہ مسلم ہونے کی ڈگری نہ لےلے، مسلم نہیں کہلاسکتا۔ جو ایسا کرے وہ احمق ہے۔ فرعون نے یہی حماقت توکی تھی کہ اپنی موت کے وقت کلمہ پڑھ کر(وَاَنَامِنَ المُسلمِینَ)[10:یونس:90] کہہ دیا۔ ڈگری نہیں لی، فرماں برداری کا کورس پورا نہ کیا۔ اللہ نے (آلاٰن) کہہ کر ڈانٹ دیا کہ داخلے کا اب وقت نہیں۔ زندگی میں تو مسلم بنا نہیں۔ اب تیرے (وَاَنَامنَ المُسلِمِینَ) کہنے کا کیا تک؟

مسعود صاحب! مسلم ہونے کی ڈگری زندگی رہتے ہوئے نہیں ملتی، کیوں کہ زندہ رہتے ہوئے فرماں برداری کا کورس ختم نہیں ہوتا۔ فرماں برداری کا کورس تو موت تک جاری رہتا ہے اس لیے آدمی موت تک مسلم بنتا ہی رہتا ہے۔ موت سے پہلے اسلام کی تکمیل نہیں ہوتی۔ حتیٰ کہ موت کے وقت بھی مسلم بننے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا ہے:

(وَلاَ تَمُوتُنَّ اِلاَّ وَاَنتتُم مُسلِمُونَ)[3:آل عمران:102]
یعنی تم پر موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔۔۔۔


یوسف علیہ السلام نے بھی موت کے وقت مسلم ہونے کی دعاء کی۔

( تَوَفَّنِی مُسلِما) [12:یوسف:101]
اللہ مجھے مسلم ہونے کی حالت میں موت دینا، یعنی مسلم بنا کر مارنا، عام مسلمانوں کے لیے بھی یہ دعا ہے۔


(رَبَّنَا اَفرغ عَلَینَا صَبراً وَّ تَوفَّنَا مُسلِمِینَ)[7:الاعراف:126]
چوں کہ موت سے پہلے کوئی آدمی مکمل مسلم نہیں ہوتا اس لیے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں یٰاَیُّھَاالمُسلم سے خطاب بھی نہیں کرتا۔



ابراہیم علیہ السلام نبی ہیں، اس کے باوجود اللہ حکم دیتا ہے۔(اَسلِم) مسلم بن۔ یعنی فرماں برداری کرتا رہ۔
ابراہیم علیہ السلام نے کہا: (اَسلَمتُ لِرَبَّ العَالَمِینَ) [2:البقرہ:131] میں نے اپنے آپ کو رب العالمین کے سپرد کردیا ہے، میں فرماں برداری کرتا رہوں گا۔۔۔
نوح علیہ السلام کہتے ہیں: ( اُمِرتُ اَن اَکُونَ منَ المُسلِمِینَ)[27:النمل:90]اگرچہ میں نبی ہوں، لیکن مجھے یہی حکم ملا ہے کہ میں فرماں برداری کرتا رہوں۔۔۔۔
رسول اللہ ﷺ کو بھی یہی حکم ہے: (اُمِرتُ اَن اَکُونَ مِنَ المُسلِمینَ) (اُمِرتُ لِاَن اَکُونَ اَوَّلَ المُسلِمِینَ)[39:الزمر:12] (اِنَّی اُمِرتُ اَن اَکُونَ اّوَّلَ مَن اَسلَمَ)[6:انعام:14] جوں ہی اللہ کا حکم آئے سب سے پہلے فرماں برداری تو کر۔



مسعود صاحب اگر آپ کہیں کہ رسول اللہﷺ تو فرماتے ہیں (وَاَنَا اَوَّلُ المُسلمِینَ) میں سب سے پہلے مسلم ہوں، میں کہتا ہوں یہاں مسلم لغوی معنوں میں ہے کہ حکم آنے پر سب سے پہلے"فرماں برداری کرنے والا" میں ہوں۔ اگر اول السلمین کے معنی پہلا مسلم ہو تو پھر(اُمِرتُ اَن اَسلَمَ لِرَبَّ العَالَمِینَ) کہنے کی کیا ضرورت ؟ مسلم تو وہ پہلے ہی تھے۔ اول المسلمین سے مکمل اور اول مسلم ہونا مراد نہیں بلکہ سب سے پہلے فرماں برداری کرنے والا مراد ہے۔ یہی وضاحت ان آیات میں ہے: (اُمِرتُ لِاَن اَکُونَ اَوَلَ المُسلِمِینَ)۔۔۔۔ (اِنَّی اُمِرتُ ان اَکُونَ اَوَّلَ مَن اَسلَمَ) اگر رسول اللہ ﷺ اول المسلمین تھے تو پھر(اَوَّل المُسلِمینَ) اور( اَوَّلَ مَن اَسلَمَ) بننے کے کیا معنی؟

مسعود صاحب! جب انبیاء موت تک مسلم ہونے کی دعا کرتے رہے تو آپ کازندگی میں مسلم ہونے کا دعویٰ کرنا، مسلم کہلانا اور جماعت المسلمین نام کی جماعت بنانا بچکانہ حرکت نہیں تو اور کیا ہے؟ ہم جب میراثیوں کے بارے میں سنتے تھے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمین کہتے ہیں تو ہم ہنستے تھے ۔آپ بی ایس سی ہو کر بھی ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ آخر آ پ بی۔ ایس سی ہی نکلے، عالم تو نہ نکلے۔مسعود صاحب! اگر آپ عالم ہوتے تو کبھی جماعت المسلمین بنانے کی غلطی نہ کرتے۔ آپ کو اس سے بھی خیال نہ آیا کہ آج تک کسی نے سلف سے لے کر خلف تک مسلم کہلانے اور جماعت المسلمین بنانے کا شوق نہیں کیا، اس بے عقلی کا شوق میں کیوں کروں؟
11۔ مسعود صاحب! اگر آپ کہیں کہ جب ہم زندگی میں مسلم نہیں کہلاسکتے تو پھر ہم ایک دوسرے کو مسلمان کیوں کہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں دوسرے کو مسلم کہنا اور بات ہے اور خود مسلم کہلانا یا جماعت المسلمین نام کی جماعت بنانا اور بات ہے۔ ایم اے کے طالب علموں کا تعارف تو ایم اے کے نام سے ہی کرایا جاتا ہے، لیکن ایم اے کا کوئی طالب علم خود کو ایم اے کہہ یا لکھ نہیں سکتا۔ دوسرا جو مسلم کہتا ہے وہ عرف کے اعتبار سے کہتا ہے، مسلمانوں والے نام اور کام دیکھ کر اپنے خیال کی بنا پر کہتا ہے۔ ا س لیے دوسرے کو مسلمان کہنے والا گناہ گار نہیں، کیوں کہ وہ کسی کے باطن اور اس کے خاتمے سے باخبر ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا۔ اس کا دوسرے کو مسلم کہنا اپنے حسن ظن کی بنا پر اور مجازاً ہوتا ہے اور مجاز حقیقت نہیں ہوتا۔ برعکس اس کے جو مسلم کہلاتا ہے یا جماعت المسلمین نام کی جماعت بناتا ہے وہ مسلم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ گناہ گار ہے کیوں کہ مسلم ہونے کا دعویٰ کرنا گویا اپنےا نجام سے باخبر ہونے کا دعویٰ کرنا ہے کہ میرا خاتمہ اسلام پر ہوگا۔ حالانکہ کسی کو اپنے خاتمے کا پتا نہیں۔ اس لیے قرآن مجید(فَلَاتُزکُّوا اَنفُسَکُم ھُوَ اَعلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی) (53:نجم:32) کے تحت ایسے ناموں اور دعاوی سے منع کرتا ہے۔


12- مسعود صاحب! اگر آپ کہیں کہ اپنے آپ کو مسلم کہنا تو قرآن مجید سے ثابت ہے، میں کہتا ہوں وہ بطور دعویٰ اور نام کے نہیں، وہ بطور ا اعتراف و تعارف اور اقرارو اظہار کے ہے۔ جیسے ہم اشھد کہہ کر کلمہ پڑھتے ہیں۔۔۔ یہ مستقل طور پر مسلم کہلانے اورجماعت المسلمین بنانے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ کبھی کبھار تحدیث نعمت کے طور پر یا اظہار عبودیت یا کفار سے امتیاز کے لیے اپنےآپ کو مسلم ومومن کہنا اور ظاہر کرنا جائز ہے۔ قرآن مجید میں جہاں کہیں: (رَبَّنَا أمَنَّا) ۔۔( وَنَحنُ لہُ مُسلِمُونَ) ۔۔۔ (اِشھَدُوا باَنَّا مُسلِمُونَ) [3:آل عمران:64]۔۔۔ (اِنَّیِ مِنَ المُسلِمِینَ) [41:فصلت:333] کی قسم کے الفاظ آتے ہیں۔ سب اسی طور پر ہیں۔ ان سے مسلم کہلانے اور جماعت المسلمین بنانے پر استدلال کرنا صحیح نہیں۔

مسعود صاحب! آپ بڑے دعوے سے اپنےآپ کو مسلم کہتے ہیں، اسی لیے آپ نے جماعت المسلمین بنائی۔ میں پوچھتا ہوں آپ کے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ آپ مسلم ہیں۔ آپ اپنے مسلم کہلانے کی سند تو دکھائیں۔ اگر آپ کہیں کہ (ھُو سَمَّا کُمُ المُسلِمِینَ) ہمارے مسلم کہلانے کی سند ہے ۔ میں کہتا ہوں (سَمَّا کُمَ المُسلِمِینَ) تو مسلم نام کی سند ہے کہ اللہ کے نزدیک اس کے فرماں بردار کا نام مسلم ہے۔(سَمَّا کُمَ المُسلِمِینَ) کسی کے مسلم کہلانے کی سند نہیں ہوسکتا اگر کسی کے مسلم کہلانے کی یہی سند ہو تو اس کو پیش کر کے تو ہر کوئی مشرک اور مرزائی مسلم ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔آپ کی سند تو وہ ہوسکتی ہے جو آپ کے نام کی ہو۔ جب آپ اپنے نام کی "مسلم ہونےکی" سند نہیں دکھا سکتے تو آپ کو مسلم کہلانے کا کیا حق ہے؟

مسعود صاحب! آپ کا یہ استدلال مرزائیوں جیسا ہے کہ دعویٰ خاص دلیل عام، مرزائی دعویٰ تو مرزا قادیان کی نبوت کا کرتے ہیں، دلائل اجرائے نبوت کے دیتے ہیں، اس طرح آپ دعویٰ تو اپنے مسلم ہونے کا کرتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں(سَمَّا کُمَ المُسلِمِینَ) جب کہ(سَمَّا کُمَ المُسلِمِینَ) سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ اللہ کے ہاں آپ کا نام بھی مسلم ہے۔ ایسا بھی تو ہوا ہے کہ بڑے بڑے نعت خواں اور امام مسجد ہندو جاسوس نکلے۔

مسعود صاحب! اگر آپ کہیں رسول اللہ ﷺ نے بھی تو جماعت المسلمین نام رکھا ہے، میں کہتا ہوں رسول اللہ ﷺ نے کسی خاص کا نام جماعت المسلمین نہیں رکھا۔ آپ نےعام مسلمانوں کو ہی جماعت المسلمین کہا ہے۔ آپ نے اس نام کی کوئی خاص جماعت نہیں بنائی جیسے آپ نے بنالی ہے۔ جماعت المسلمین سےآپ کی مراد عام مسلمان ہی تھے جیسا کہ دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا:
((عَلَیکُمُ بِالجَمَاعَۃِ وَالعَامَّۃَ)) جسے سواد اعظم بھی کہتے ہیں۔ اس سے کوئی علیحدہ مخصوص جماعت مراد نہیں۔ وہی اہل حق مراد ہیں جن کی رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اکثریت تھی جو بعد میں اہل السنۃ والجماعۃ اور اہل حدیث کے نام سے مشہور ہوئے۔ مسعود صاحب رسول اللہﷺ نے تو عام مسلمانوں کو جماعت المسلمین کہا ہے جس میں عبد اللہ بن ابی اور اس کی پارٹی بھی شامل تھی آپ نے اس کو اپنی بیسوی صدی کی جماعت المسلمین کی دلیل بنا لیا۔مسعود صاحب حقیقت یہ ہے کہ آپ نے جماعت المسلمین کی بنیاد رکھ کر بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ اب بجائے اس کے کہ آپ توبہ کرکے اصلاح کر لیں آپ اپنی غلطی کو ثابت کرنے کے لے ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارتے ہیں۔ کبھی (سَمَّا کُمُ المُسلمینَ) سے استدلال کرتے ہیں،کبھی ایک دو جگہ جو حدیث میں جماعۃ المسلمین کا لفظ آگیا ہے اس کو سہارا بناتے ہیں، لیکن بات پھر بھی نہیں بنتی۔ بنے بھی کیسے ۔ ایک تو بات غلط ، دوسرے مسعود صاحب آپ نے ساری عمر تو کی دفتروں میں غلامی، اب ریٹائر منٹ پر سوچ لیا امامت و خلافت کی۔ سمجھ تھی نہیں، مشورہ کسی سے لیا نہیں۔ جماعت المسلمین کا لفظ حدیث میں کہیں نظر آگیا۔ میدان بھی خالی پایا کہ اس نام کی دنیا میں جماعت بھی کوئی نہیں۔ جماعت المسلمین نام بھی بہت اچھا ہے، خوب چمکدار رہے گا۔ سب کے لیے قابل قبول ہے۔ اس نام سے کوئی انکار بھی نہیں کرے گا۔ دھڑا دھڑ لوگ جماعت المسلمین کے جال میں پھنسیں گے۔ اس لیے ریٹائرمنٹ کے بعد جماعت المسلمین بنا کر امام المسلمین بن کر خلیفۃ المسلمین بننے کا اچھا چانس ہے۔ اب دن رات آپکا (( تَلزَم جَمَاعَۃَ المُسلِمِینَ وَ اِمَا مَھُم))[بخاری: کتاب الفتن' باب کیف الامر اذا لم تکن جماعۃ، ص591 ، رقم:7084۔۔ مسلم: کتاب الامارۃ' باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین عند ظھور الفتن'ص1009 رقم:51] پر زور ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: جماعت المسلمین میں شامل ہوجانا اور اس کے امام(مسعود بی۔ ایس سی) سے چمٹ جانا، اسے نہ چھوڑنا ورنہ دوزخ میں جاؤ گے۔


مسعود صاحب! آپ نے دیوانے ہوکر جماعت المسلمین توبنالی، یہ نہ سوچا کہ اتنے فرقے ہوئے، اتنے بڑے بڑے عالم ہوئے اگر جماعت المسلمین نام رکھنے کا ہوتا تو ایسا پیارا اور جاذب نظر نام تویوں فارغ پڑارہتا ۔ کسی کی تو نظر پڑتی ۔ کوئی تواپنی جماعت کا یہ نام رکھتا، کوئی تو اس نام کی جماعت بناتا جو فرقہ پرستی کو ختم کرنے والی ہوتی۔ جب آج تک کسی نے اس نام کی جماعت نہیں بنائی تو ظاہر ہے، یہ نام رکھنے کا نہیں ، لیکن آپ نے ایک نہ سوچی، جماعت المسلمین کی بنیاد رکھنے کی کی۔ مسعود صاحب! آپ نےا پنی حیثیت کو نہ دیکھا کہ میں انجان آدمی نا سمجھ، نا تجربہ کار، صرف بی۔ ایس سی، ساری عمر تو گزاری دفتروں میں نوکری کرنے میں اب خلیفۃ المسلمین بننے کا خواب دیکھ رہا ہوں۔ کہاں ایک بی۔ ایس سی بابو اور کہاں سارے جہان کا خلیفۃ المسلمین ۔ پھر بدقسمتی یہ کہ آپ سے ضبط بھی نہ ہوسکا کہ چپکے چپکے اپنا کام چلاتے رہتے، شیطان کے اکسانے پر شور مچانا شروع کردیا کہ سب فرقوں کے نام غلط ہیں، نام صرف ایک میرا ہی ٹھیک ہے جو میں نے رکھا ہے، یعنی جماعت المسلمین ۔ باقی سب فرقہ پرستی اور گمراہی کے نام ہیں۔

مسعود صاحب ! خلیفۃ المسلمین بننے کے شوق میں آپ نے جماعت المسلمین بھی بنا ڈالی اور امام المسلمین بھی بن گئے، لیکن آپ یہ نہیں دیکھتے کہ آپ کام کیا کرتے ہیں؟ کیا امام المسلمین والے ایسے کام کرتے ہیں، یا مولویوں والی حرکتیں ۔ کسی کو کافر بنا دیا، کسی کو مشرک کہہ دیا، کسی کو فرقہ پرست اور گمراہ قرار دے دیا۔ کچھ فتوے بازی کرلی، کچھ پمفلٹ بازی کرلی۔ کیا امام المسلمین کا یہ کام ہوتا ہے؟ مسعود صاحب! اگر آپ اپنا امام المسلمین والا ایک کام بھی دکھا دیں تو ہم آپ کو فوراً امام مان لیں۔ حرکتیں کرتے ہیں مولویوں والی اور خواب دیکھتے ہیں خلیفۃ المسلمین کے، فٹ کرتے ہیں اپنے اوپر حدیث۔(( تَلزَم جَمَاعَۃَ المُسلِمِینَ وَ اِمَا مَھُم))کو اور رہتے ہیں جنرل ضیاء کے ڈنڈے کے نیچے۔ کبھی امام المسلمین بھی کسی کا تابع اور محکوم ہوتا ہے؟

مسعود صاحب! جب آپ اقامت دین نہیں کرسکتے، باطل کے خلاف سینہ سپر نہیں ہوسکتے تو آپ امام المسلمین کیسے ؟ اگر آپ (( تَلزَم جَمَاعَۃَ المُسلِمِینَ وَ اِمَا مَھُم)) کا مصداق ہیں بتایئے آپ کے پلے ہے کیا؟ طاقت آپ کے پاس نہیں، اختیار آپ کو کوئی حاصل نہیں، ایسے خصی اور ناکارہ امام سے چمٹے رہنے کا حکم رسول اللہﷺ کیسے دے سکتے ہیں۔ مسعود صاحب(( تَلزَم جَمَاعَۃَ المُسلِمِینَ وَ اِمَا مَھُم)) آپ سے زیادہ صدر ضیاء پر فٹ آتی ہے۔ وہ صاحب اقتدار اور بااختیار بھی ہے۔ اس کے ساتھ مسلمان بھی ہیں۔ اسلام کا بھی کچھ نہ کچھ کر ہی رہا ہے اور نہیں تو آپ سے تو زیادہ ہی کر رہا ہے۔ ((فَاعتزِلُتلکَ الفِرَقَ کُلَّھَا)) کا مطلب اصل میں یہی ہے کہ جو پارٹیاں اقتدار کی بھوکی ہیں، دین کو ان سے کوئی سروکار نہ ہو، جیسا کہ ہمارے ملک کی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ ان سے علیحدہ رہو۔ مسعود صاحب! کر تو آپ کچھ سکتے نہیں اور دعوے آپ امام المسلمین بننے کے کرتے ہیں، یقین جانیں جیسے مرزا قادیان کی نبوت، ویسی آپ کی امامت۔ اس کی نبوت نقلی اور آپ کی امامت اور مسلمینی نقلی۔ اس نے آیات و احادیث کو توڑ مروڑ کر اپنی نبوت پرسیٹ کیا۔ آپ نے غلط طور پر اپنی امامت پر فٹ کیا۔

مسعودصاحب! اگر آپ کی قسمت سیدھی ہے تو اب بھی واپس اپنے ٹھکانے پر آجایئے۔ اگر آپ اسی طرح خلیفۃ المسلمین بننے کے خواب دیکھتے رہے تو مزید گمراہ ہو ں گے۔ آپ کے پیچھے کوئی زبردست شیطان لگا ہوا ہے جو آپ کو دھکیل رہا ہے۔ اگر آپ نے رجوع نہ کیا تو وہ آپ کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ آپ کا حال اب
كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرَانَ لَهُ أَصْحَابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ائْتِنَا[6:الانعام:71] والا ہوگیا ہے۔ اہل حدیث آپ کو دعوت دے رہے ہیں۔ ادھر آجائیں، شیطان کے ہتھے نہ چڑھیں، لیکن آپ کوئی نہیں سن رہے۔



مسعود صاحب، ہم تو پتا نہیں کہ اللہ کے نزدیک مسلم ہیں بھی یا نہیں۔ صحابہ جو یقیناً مسلم، مومن، متقی وغیرہ سب کچھ تھے وہ بھی آپ کی طرح جماعت المسلمین نہیں کہلواتے تھے، جماعت المسلمین والمؤمین نہیں بناتے تھے۔ صرف اس وجہ سے کہ وہ اس مسئلہ سے واقف تھے۔ ان کے پیش نظر قرآن تھا۔ وہ جانتے تھے کہ قرآن(فَلاَ تُزَکُّوا اَنفُسَکُم وَھُوَاَ علَمُ بِمَنِ اتَّقٰی) [53:النجم:322] کے تحت مسلم اور مومن کہلانے سے منع کرتا ہے۔ یہودیوں کا کردار بھی ان کے سامنے تھا جو بڑے ادعائی نام رکھتے تھے۔ خود ہی ابناء اللہ احباء اللہ بنے پھرتے تھے۔ اللہ نے یہ کہہ کر ان کی مذمت فرمائی:
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُّونَ أَنفُسَهُم بَلِ اللَّـهُ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ[4:النساء:49]
کیا تو ان یہودیوں کو نہیں دیکھتا(جو اپنے ناموں کے ذریعے) اپنی پاکبازی کا اظہار کرتے ہیں۔ حالانکہ پاک تووہ ہوتا ہے جسے اللہ پاک کرے یا پھر اللہ پاک کہے۔ یہ حدیث رسول بھی ان کے سامنے تھی۔ ایک عورت کا نام برہ تھا۔ آپ نے بدل کر زینب رکھ دیا، صرف اسی وجہ سے کہ اس نام میں اپنی نیکی کا ادعا پایا جاتا ہے، کیوں کہ برہ کا مطلب ہے نیک۔ اس لیے مسعود صاحب آپ کا مسلم کہلانا اور جماعت المسلمنی بنانا ایک ناجائز حرکت ہے۔


اس کے علاوہ جماعت المسلمین نام رکھنے سے اپنی تعلیٰ اور فخر کا اظہار ہوتا ہے۔ جس سے لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے اور یہ نفرت افتراق کا موجب بنتی ہے۔(سَمَّا کُمُ المُسلمینَ) کو دلیل بنا کر ہر مشرک و بدعتی کو مسلمان کہلانے کا جواب ملتا ہے۔اگر اسی اصول پر ہر ایک مسلمان کہلانے لگ جائے، تو مسلمانوں کے کفر وشرک پر پردہ پڑتا ہے ۔ اس طرح اہل حق اور اہل باطل میں امتیاز نہیں رہتا۔ سب مسلم ٹھہرتے ہیں۔ مسعود صاحب! جماعت المسلمین بنا کر آپ نے بہت غلطی کی ہے۔ کسی جماعت کی قیادت کے آپ بالکل لائق نہ تھے۔ نہ علم، نہ تجربہ۔ امام المسلمین بن کر آپ اس حدیث کا مصداق ہوگئے۔
اِتَّخَذَ النَّاسُ رُؤُوساً جُھَّالاً۔۔ فَضَلُّوا وَاَضلُّوا[بخاری: کتاب العلم' باب کیف یقبض العلم ص11، رقم:100۔۔ مشکوۃ : کتاب العلم 'فصل اول'رقم:206]
آپ بھی گمراہ ہوئے ۔ لوگوں کو بھی گمراہ کیا۔ کاش آپ کسی سے مشورہ کرلیتے ۔ اب آپ کو جماعۃ المسلمین کا ایسا خبط ہوگیا ہے کہ آپ اپنی جماعت اور امامت کی خاطر قرآن و حدیث کی تحریف کرنے لگ گئے ہیں۔ جہاں قرآن مجید میں آپ کو مسلم کا لفظ نظر آجاتا ہے، آپ اس کو جماعت المسلمین بنالیتے ہیں۔ آپ نے حضرت حذیفۃؓ والی حدیث (( تَلزَم جَمَاعَۃَ المُسلِمِینَ وَ اِمَا مَھُم)) کو توڑ مروڑ کر اپنے اوپر فٹ کیا حالانکہ اس کا مصداق آپ کسی صورت بھی نہیں۔ ترمذی کی حدیث:
((فَادعُوا یدَعوَی اللہِ الَّذِی سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ المُومِنِینَ عِبادَاللہِ)) [صحیح ابن خزیمۃ' کتاب الصیام' باب ذکر تمثیل الصائم فی طیب ریح المسک اذ ھواطیب الطیب 3/196 رقم:1895۔۔۔ جامع ترمذی ' کتاب الادب ' ابواب الامثال' باب جاء فی مثل الصلوۃ والصٰام الصدقہ ص1939، رقم:2863]


کا ترجمہ اور مطلب آپ نے بگاڑ ا۔ بہت سی قرآنی آیات کا جن میں مسلم کا لفظ ہے آپ نے مطلب غلط لیا۔ سلیمان علیہ السلام اس عورت کو جو ابھی مسلمان بھی نہیں ہوئی تھی خط لکھتے ہیں۔
( اَلاَّ تَعلُوا عَلَی وَاتُونی مُسلِمینَ)[ 27:النمل:31]
یعنی سرکشی نہ کرو۔ مطیع و فرمان بردار ہوکر میرے پاس حاضر ہو جاؤ۔


آپ نے اپنے مطلب کے لیے اس کا ترجمہ یوں کیا کہ" میرے ساتھ سرکشی نہ کرو اور مسلم بن کر میرے پاس آجاؤ"۔ مسلمین کا لفظ یہاں بالکل اپنے لغوی معنوں میں تھا۔ یعنی مطیع و فرمان بردار ، لیکن آپ نے ترجمہ میں مسلم لکھ کر صرف اپنا پوائنٹ بنایا ۔ اسی طرح (اِشھَدُوا بِاَنَّا مُسِلمُونَ) [3:آل عمران:644] کا ترجمہ بھی آپ نے غلط کیا کہ ہم تو صرف مسلم ہیں، حالانکہ قرآن کے الفاظ اس معنی کے بالکل متحمل نہیںَ سورۃ ھود کی آیت (فَھَل اَنتُم مُسلِمُونَ)[11:ھود:14] کا ترجمہ کرنے میں تو آپ نے غضب ہی کردیا۔ ترجمہ کرتے وقت آپ کو ذرا خوف خدا نہ رہا۔ آپ ترجمہ کرتے ہیں کہ کیا آپ اپنے آپ کو صرف مسلم کہنے کے لیے تیار ہیں؟ مسعود صاحب اگر آپ میں رتی بھر بھی ایمان ہے تو آپ ہی یہ بتائیں کہ کیا آیت اس ترجمہ یا اس معنی اور مطلب کی متحمل ہے۔ کیا یہ آیت کا ترجمہ پکار پکار کر نہیں کہہ رہا کہ یہ کسی خبطی اور ذہن پرست کا ترجمہ ہے، کیا یہ قرآن میں تحریف نہیں۔ ایسی حرکت سے تو مرزا بھی شرماجاتا۔ یہودی جو (کُونُوا ھُوداً او نَصَارٰی تَھتَدُوا)[2:البقرہ:135] کہتے تھے۔ یہ تحریف ہی کیا کرتے تھے۔ آپ بھی امام المسلمین ہوکر یہ تحریف کرتے ہیں۔

مسعود صاحب حقیقت یہ ہے کہ آپ جماعت المسلمین کی بنیاد رکھ کر بہت گناہ گار ہوئے۔ پہلا گناہ آپ نے یہ کیا کہ جماعت المسلمین نام کی جماعت بنائی، حالانکہ اس نام کی جماعت بنانا شرعاً بالکل ناجائز ہے۔ دوسرا گناہ یہ کیا کہ جماعت المسلمین کے دفاع میں اہل حدیث کی مخالفت شروع کر دی ۔ اس کی شامت آپ پر یہ پڑی کہ آپ قرآن و حدیث میں تحریف کرنے لگ گئے۔ جب آدمی ایک گناہ کر کے اللہ سے توبہ نہیں کرتا تو شیطان اس کو اس سے بڑے گناہ میں الجھاد یتا ہے۔ اس طرح ایک گناہ دوسرے گناہ کا موجب بن جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے(اِنَّمَا استَزَلَّھُم الشَّیطٰنُ ببَعضِ مَا کَسَبُوا)[3:آل عمران:155]مسعود صاحب! اگر آپ نے توبہ نہ کی تو بعید نہیں کہ اللہ آپ کو مزید کسی گناہ میں دھکیل دے۔ اس لیے جتنی جلدی ممکن ہو توبہ کر لیں۔ سب سے پہلے اپنی جماعت کا نام بدلیں۔ یہ نام رکھنا آپ کی گمراہی کی اصل بنیاد ہے اس کے علاوہ اہل الحدیث کی مخالفت بند کردیں، یہ بھی اللہ کے غضب کا سبب ہے۔ اگر آپ اہل حدیث کی مخالفت نہ کرتے تو شاید اللہ آپ کو یوں دکھا نہ دیتا کہ آپ قرآن و حدیث میں تحریف کرنے لگ جاتے۔ مسعود صاحب جو نئی راہ نکالتا ہے اس کو تاویل بازی اور تحریف کرنی ہی پڑتی ہے۔ جب آپ اہل حدیث کی راہ سے ہٹ گئے۔ جماعت المسلمین بنالی تو آپ کو یہ تاویلیں کرنی پڑیں۔ آپ کے رسائل خاص کر آپ کا رسالہ"مسلم" تو اس بات کی پوری نشان دہی کرتا ہے کہ آپ کے ذہن میں بہت کجی ہے۔ مسعود صاحب! خدا سے ڈریئے ایسا نہ ہو کہ( فَلَمَّا زَاغُوا اَزَاغَ اللہُ قُلُوبَھم وَاللہُ لاَیَھدِی القَومَ الفَاسِقِینَ)[61:الصف:5] والا معاملہ ہو۔
 
شمولیت
اپریل 17، 2014
پیغامات
92
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
83
و علیکم السلام ورحمة اللہ و برکاتہ
بارک اللہ فی اھلک و مالک۔۔۔
 
Top