• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمہوریت ایک دینِ جدید

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
اس کے جواب میں پیچھے امام قرطبی کا قول گزر چکا ہے، ویسے بھی اگر یہ اتنی سیدھی بات ہوتی تو علماء ومفسرین کرام رحمہم اللہ کو اس کے متعلق اتنی لمبی بحثیں کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ جان چھڑانے کیلئے سیدھا کہہ دیتے کہ یہ پرانی شریعت کا مسئلہ ہے جو ہماری شریعت میں جائز نہیں۔


مجھے احسن البیان میں یہ بات نہیں ملی کہ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے اس بات کو راجح قرار دیا ہو کہ بادشاہ مسلمان ہوگیا تھا۔ ازراہ کرم اپنے دعوے کا ثبوت پیش کریں۔

البتہ حافظ صاحب نے ذاتی رائے کی بجائے بعض کی نسبت کرتے ہوئے ایک قول ذکر کیا ہے کہ بادشاہ مسلمان ہوگیا تھا۔ (احسن البیان ص ٦٥٨)

چونکہ آپ نے حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کا حوالہ دیا ہے تو انہوں نے بھی اسی بات کو ترجیح دی ہے کہ یہ حکم پرانی شریعت ہونے کی بناء پر منسوخ نہیں بلکہ اس پر آج بھی عمل ہوسکتا ہے۔ حافظ صاحب حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
یوسف علیہ السلام کی تبلیغ کے نتیجے میں جب بادشاہ مسلمان ہوگیا تو مزید بحث فضول ہے۔آپ نے خود ہی بیان کردیا کہ شیخ صلاح الدین یوسف نے بادشاہ کو مسلمان قرار دیا ہے۔پس ثابت ہوا کہ مسلمان حکمران کے دیئے ہوئے عہدے کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔اگر آج بھی یہ طاغوتی حکمران اللہ کی شریعت کو حاکم مان لیں اور اس کا مکمل نفاذ کردیں تو ان کی حکومت میں شامل ہونا کوئی برائی کی بات نہیں ہے۔
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
حضرت یوسف کے حوالے سے درج بالا معروضات کو پڑھنے کے بعد یہ احساس ہوتاہےکہ ایک انسان جب حقائق کی غلط توجیہ کرتاہےتو پھر اسے اپنامؤقف ثابت کرنےکے لئے کس قدر بعید تاویلات کرناپڑتی ہیں بلکہ محکم علمی مسائل میں بھی وہ ظن و تخمین پر اپنی بنائے استدلال رکھنےسے بھی نہیں چوکتا۔ سادہ سی بات ہےکہ حضرت یوسف نے وزارت خزانہ کا مانگی تھی قرآن کے الفاظ بھی یہی کہہ رہےہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بھائی آپ نے الزام تو لگا دیئے مگر اپنے موقف پر ایک بھی دلیل دینے سے قاصر رہے دوسروں پر الزام لگانا آسان اور ان کو ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے آپ کے استدال کو میں قرآن کی آیات سے ہی غلط ثابت کرونگا ان شاءاللہ
آپ نے لکھا ہے کہ
حضرت یوسف نے وزارت خزانہ کا مانگی تھی قرآن کے الفاظ بھی یہی کہہ رہےہیں
اب میں قرآن کے ہی الفاظ پیش کرنے لگا ہوں جس میں اس مانگنے کی وضاحت ہو جائے گی ان شاءاللہ
وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِهٖٓ اَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِيْ ۚ فَلَمَّا كَلَّمَهٗ قَالَ اِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ اَمِيْنٌ 54؀
بادشاہ نے کہا انہیں میرے پاس لائو ’’ تاکہ میں ان کو اپنے لیے مخصوص کر لوں۔‘‘ جب یوسف نے اس سے گفتگو کی تو اس نے کہا ’’ اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے۔‘‘ (54)
اس آیت سے بات واضح ہو رہی ہے کہ بادشاہ کا اپنا بھی ارادہ تھا کہ یوسف علیہ السلام کو اپنے لیئے خاص کرلوں، اور پھر یوسف علیہ السلام سے کہا کہ اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے۔۔۔ اب اس ساری پوزیشن کو دیکھتے ہوئے یوسف علیہ السلام نے کہا کہ
قَالَ اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ ۚ اِنِّىْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ 55؀
یوسف علیہ السلام نے کہا ، ’’ ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے ، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔‘‘ (55)
اگر آپ اس آیت سے یہ مراد لیتے ہیں کہ آپ نے صرف وزارتِ خزانہ مانگی تھی تو یہ آپ غلط سمجھ رہے ہیں آگے کی آیات بھی پڑھ لیں اور پھر خود انصاف کریں کہ اس سے مراد صرف وزارتِ خزانہ ہے؟؟؟
وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ ۚ يَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاۗءُ ۭ
اسی طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک کا قبضہ دے دیا کہ وہ جہاں کہیں چاہے رہے سہے
اور اس طرح ہم نے یوسف کو اقتدار سے نواز دیا اس سرزمین میں، اس میں آپ جہاں چاہیں رہیں سہیں
اور یوں قدرت دی ہم نے یوسف کو اس زمین میں جگہ پکڑتا تھا اس میں جہاں چاہتا
اس طرح ہم نے یوسف کو سر زمین (مصر) میں اقتدار بخشا کہ اس میں جہاں چاہے رہے سہے
اور ہم نے اس طور پر یوسف کو اس ملک میں بااختیار بنا دیا کہ اس میں جہاں چاہے رہے
اس طرح ہم نے اس سر زمین میں یوسف کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی ۔ وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے
اور یوں ہی ہم نے یوسف کو اس ملک پر قدرت بخشی اس میں جہاں چاہے رہے
اس طرح ہم نے یوسف کو اس سرزمین میں اقتدار عطا کیا، وہ جہاں چاہتے رہتے
اور اس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک (مصر) میں اقتدار بخشا (تاکہ) اس میں جہاں چاہیں رہیں
اور اسی طرح ہم نے اس سرزمین میں یوسف کو اقتدار عطا فرمایا، اس میں سے جہاں چاہتا جگہ پکڑتا تھا۔
اور اس طرح ہم نے یوسف کو زمین میں اختیار دے دیا کہ وہ جہاں چاہیں رہیں
لو بھائی یہ گیاراں علماء کے تراجم آپ کے سامنے ہیں ان میں سے ایک بھی آپ کے موقف کی تائید نہیں کر رہا کیا یہ سب غلط اور آپ ٹھیک ہیں؟؟؟ آپ اس آیت کا کیا ترجمہ کریں گے؟؟؟
اسی سورہ میں آگے چل کر اللہ کے ارشادات ہیں کہ
قَالُوْا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَنْ جَاۗءَ بِهٖ حِمْلُ بَعِيْرٍ وَّاَنَا بِهٖ زَعِيْمٌ 72؀
انہوں نے کہا ہمیں بادشاہ کا کٹورا نہیں ملتا جو اسے لا ئے گا ایک اونٹ بھر کا غلہ پائے گا اور میں اس کا ضامن ہوں
قَالُوْا يٰٓاَيُّهَا الْعَزِيْزُ اِنَّ لَهٗٓ اَبًا شَيْخًا كَبِيْرًا
انہوں نے کہا اے عزیز مصر! اس کے والد بہت بڑی عمر کے بالکل بوڑھے شخص ہیں
فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَيْهِ قَالُوْا يٰٓاَيُّهَا الْعَزِيْزُ مَسَّنَا وَاَهْلَنَا الضُّرُّ
پھر جب یہ لوگ یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو کہنے لگے کہ اے عزیز! ہم کو اور ہمارے خاندان کو دکھ پہنچا ہے 88
وَرَفَعَ اَبَوَيْهِ عَلَي الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًا ۚ
اور اپنے تخت پر اپنے ماں باپ کو اونچا بٹھایا اور سب اسکے سامنے سجدے میں گر گئے 100
رَبِّ قَدْ اٰتَيْتَنِيْ مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِيْ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ ۚ
اے میرے پروردگار! تو نے مجھے ملک عطا فرمایا اور تو نے مجھے خواب کی تعبیر سکھلائی 101

لو بھائی اللہ نے تو یوسف علیہ السلام کو بادشاہ کہا عزیز مصر کہا اور یوسف علیہ السلام نے خود کہا کہ اللہ تو نے مجھے ملک عطاء کیا، اور آپ ان کو وزارتِ خزانہ کا امیر بنا رہے ہیں!!!
آپ ان آیات کی کیا تاویلات پیش کرنا چاہتے ہیں؟؟؟ جو آیات واضح نص ہیں ان کا آپ کیسے توڑ مروڑ کرتے ہیں ہمیں بھی بتائیں؟؟ مجھ پر تو الزامات کا دفتر لگا دیا اب یہ آپ پر لازم ہے کہ ان قرآنی نصوص کا رد کریں یا اپنے موقف کو قرآن کے مطابق بنائیں جزاک اللہ خیراً
آپ کی باقی باتوں کا جواب کل لکھونگا ان شاءاللہ
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
ماشااللہ آپ دوسروں کا مؤقف خوب سمجھ لیتے ہیں جس وجہ سے ان کی کلام کے اندر دلائل نظر نہیں آتے میراخیال ہے مسلےکی خرابی اسی جہ سے پیداہوئی ہےکہ آپ نے اپنی بنائے استدلال اردوتراجم کو ٹھرایاہے۔محترم بھائی جان یہ جو آپ نے لفظ مکنا کےاتنےسارےترجمے پیش کئے ہیں۔ ٹھیک ہےکہ ان میں اقتدار واختیار کےالفاظ آئے اب آپ ہی بتائیں کیاوزیر خزانہ صاحب اقتدار واختیار نہیں ہوتا؟ امام راغب فرماتے ہیں
مكن : المكان عند أهل اللغة الموضع الحاوي للشيء ، وعند بعض المتكلمين أنه عرض وهو اجتماع جسمين حاو ومحوي وذلك أن يكون سطح الجسم الحاوي محيطا بالمحوي ، فالمكان عندهم هو المناسبة بين هذين الجسمين ، قال { مكانا سوى } - { وإذا ألقوا منها مكانا ضيقا } ويقال : مكنته ومكنت له فتمكن ، قال { ولقد مكناكم في الأرض } - { ولقد مكناهم فيما إن مكناكم فيه } - { أو لم نمكن لهم } - { ونمكن لهم في الأرض } - { وليمكنن لهم دينهم الذي ارتضى لهم } وقال { في قرار مكين } وأمكنت فلانا من فلان ، ويقال : مكان ومكانة ، قال تعالى { اعملوا على مكانتكم } وقرئ / < على مكاناتكم > / وقوله { ذي قوة عند ذي العرش مكين } أي متمكن ذي قدر ومنزلة . ومكنات الطير ومكناتها مقاره ، والمكن بيض الضب وبيض مكنون . قال الخليل : المكان مفعل من الكون ولكثرته في الكلام أجري مجرى فعال فقيل : تمكن وتمسكن نحو تمنزل . اس ساری عبارت کاخلاصہ یہ ہےکہ مکان کا لفظ دو معانی کے لئے بولاجاتاہےایک جگہ کے لئے اوردوسراکسی بھی مقام مرتبہ کیلے یعنی کسی بھی انتظامی عہدے پر فائض ہونےکے بعد اپنے امور پر جب گڑفت اچہی طرح مضبوط ہوجائے تو اسے تمکین کہتے ہیں۔توحضرت یوسف بھی وزیر خزانہ بنے امام رازی اس کی تفسیر یہ فرماتے ہیں أي كما أنعمنا عليه بالسلامة من الجب مكناه بأن عطفنا عليه قلب العزيز کہ جس طرح ہم نے یوسف پر یہ احسان کیا کہ اسے کنوے سے محفوظ نکالا اسی طرح ہم نے اسے مصر میں ایک مقام ومرتبہ دیا وہاں کےبادشاہ کےدل کو اس پرنرم کرکے ۔
 
شمولیت
اگست 05، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
57
یوسف علیہ السلام کی تبلیغ کے نتیجے میں جب بادشاہ مسلمان ہوگیا تو مزید بحث فضول ہے۔آپ نے خود ہی بیان کردیا کہ شیخ صلاح الدین یوسف نے بادشاہ کو مسلمان قرار دیا ہے۔پس ثابت ہوا کہ مسلمان حکمران کے دیئے ہوئے عہدے کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔اگر آج بھی یہ طاغوتی حکمران اللہ کی شریعت کو حاکم مان لیں اور اس کا مکمل نفاذ کردیں تو ان کی حکومت میں شامل ہونا کوئی برائی کی بات نہیں ہے۔
آپ نے دعویٰ کیا تھا کہ حافظ صلاح الدین صاحب نے اس بات کو راجح قرار دیا ہے کہ بادشاہ مسلمان ہوگیا تھا، جس پر میں نے عرض کیا تھا کہ اسے حافظ صاحب نے راجح قرار نہیں دیا بلکہ بعض کے حوالے سے ایک قول بیان کیا ہے۔
میں نے آپ سے مطالبہ کیا تھا کہ آپ اپنے دعوے کا حوالہ پیش کریں جو افسوس کہ آپ پیش نہیں کر سکے۔

یوسف علیہ السلام کی تبلیغ کے نتیجے میں جب بادشاہ مسلمان ہوگیا تو مزید بحث فضول ہے۔آپ نے خود ہی بیان کردیا کہ شیخ صلاح الدین یوسف نے بادشاہ کو مسلمان قرار دیا ہے۔
دوسروں کی عبارت سے من مانے مفہوم نکالنے میں شائد کوئی آپ کا ثانی نہیں۔ یا شائد آپ نے میری پوسٹ پڑھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔

دوبارہ پڑھ لیجئے!
تقریباً تمام مفسرین نے لکھا ہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے کافر حکومت میں عہدہ لیا۔ جس سے درج بالا قول کا ضعف ثابت ہوجاتا ہے، ملاحظہ ہو۔ تفسیر طبری، بغوی، قرطبی، فتح القدیر وغیرہ
تفسیر طبری میں ہے:
حدثني يونس قال : أخبرنا ابن وهب قال قال ابن زيد في قوله : ( اجعلني على خزائن الأرض ) ، قال : كان لفرعون خزائن كثيرة غير الطعام قال : فأسلم سلطانه كله إليه ، وجعل القضاء إليه ، أمره وقضاؤه نافذ .
یہاں عزیز مصر کو فرعون قرار دیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کافر تھا۔

امام قرطبی نے لکھتے ہیں: في هذه الآية ما يبيح للرجل الفاضل أن يعمل للرجل الفاجر ، والسلطان الكافر ، بشرط أن يعلم أنه يفوض إليه في فعل لا يعارضه فيه ،
کہ ایک عالم فاضل شخص کیلئے جائز ہے کہ وہ فاجر شخص اور کافر بادشاہ کیلئے کام کرے بشرطیکہ اسے مکمل اختیار دے دیا جائے ۔۔۔۔

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وقد استدل بهذه الآية على أنه يجوز تولي الأعمال من جهة السلطان الجائر بل الكافر لمن وثق من نفسه بالقيام بالحق
اس آیت کریمہ سے استدلال کیا گیا ہے کہ ظالم بلکہ کافر سلطان کی حکومت میں عہدہ لینا جائز ہے اس شخص کیلئے جسے اپنے اوپر اعتماد ہو کہ وہ حق پر قائم رہے گا۔

ویسے بھی آیت کریمہ مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ۔(یوسف:۷۶) سے اشارہ ملتا ہے کہ بادشاہ مسلمان نہیں ہوا تھا وگرنہ اگر وہ مسلمان ہوا ہوتا تو پھر بادشاہ کا قانون نہ چلتا بلکہ اللہ کا قانون چلتا۔ اور اس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام بھی ان قوانین کے پابند تھے۔ واللہ اعلم!
اور اگر بادشاہ واقعی ہی مسلمان ہوگیا ہوتا تو یہ اتنی اہم بات تھی جسے سورۃ یوسف میں صراحت سے ذکر ہونا چاہیے تھا، کیونکہ معروف قاعدہ ہے: تأخير البيان عن وقت الحاجة لا يجوز جیسے اللہ رب العٰلمین نے سیدنا سلیمان علیہ السلام ملکۂ سبا کے قصہ کے آخر میں ملکۂ سبا کے اسلام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: قالت رب إني ظلمت نفسي وأسلمت مع سليمٰن لله رب العٰلمين ۔۔۔ سورة النمل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے فرعون مصر کو اسلام کی دعوت دی اور اس نے اسلام قبول کر لیا۔
اس کا جواب اوپر آچکا ہے۔
عرض یہ ہے کہ احتمالات کی بناء پر یہ فیصلہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ آیات میں تو یہ موجود ہی نہیں تو آپ نے ان آیات کریمہ سے یہ نتیجہ کیسے اخذ کر لیا؟ جیل کے ساتھیوں کو سیدنا یوسف نے دعوت الی الاسلام دی تھی، جس کا ذکر سورۃ یوسف میں صراحت سے موجود ہے۔ لیکن یہاں ایسی کوئی صراحت موجود نہیں۔مفسرین کرام رحمہم اللہ بھی ان آیات کریمہ سے یہ نہیں سمجھے بلکہ سب مفسرین نے ان آیات کی تفسیر میں اس مسئلے پر بحث کی ہے کہ کافر سلطان اور فاجر شخص کیلئے کام کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ جبکہ کچھ مفسرین اسے شرع من قبلنا سے قبیل سے قرار دیتے ہیں۔ امام قرطبی رحمہ اللہ اس کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
في هذه الآية ما يبيح للرجل الفاضل أن يعمل للرجل الفاجر ، والسلطان الكافر ، بشرط أن يعلم أنه يفوض إليه في فعل لا يعارضه فيه ، فيصلح منه ما شاء ; وأما إذا كان عمله بحسب اختيار الفاجر وشهواته وفجوره فلا يجوز ذلك . وقال قوم : إن هذا كان ليوسف خاصة ، وهذا اليوم غير جائز ; والأول أولى إذا كان على الشرط الذي ذكرناه . والله أعلم
کہ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک عالم فاضل شخص کیلئے جائز ہے کہ وہ فاجر شخص اور کافر بادشاہ کیلئے کام کرے بشرطیکہ اسے مکمل اختیار دے دیا جائے ۔۔۔۔ جبکہ بعض کا خیال یہ ہے کہ یہ سیدنا یوسف علیہ السلام کیلئے جائز تھا، ہمارے لئے نہیں (یعنی ہماری شریعت میں نہیں) پہلا قول ہی راجح ہے اگر اس میں وہ شرط پائی جائے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے۔
مزید فرماتے ہیں:
إن يوسف - عليه السلام - إنما طلب الولاية لأنه علم أنه لا أحد يقوم مقامه في العدل والإصلاح وتوصيل الفقراء إلى حقوقهم فرأى أن ذلك فرض متعين عليه فإنه لم يكن هناك غيره ، وهكذا الحكم اليوم ، لو علم إنسان من نفسه أنه يقوم بالحق في القضاء أو الحسبة ولم يكن هناك من يصلح ولا يقوم مقامه لتعين ذلك عليه ، ووجب أن يتولاها ويسأل ذلك ، ويخبر بصفاته التي يستحقها به من العلم والكفاية وغير ذلك ، كما قال يوسف - عليه السلام - : فأما لو كان هناك من يقوم بها ويصلح لها وعلم بذلك فالأولى ألا يطلب
جس کا مفہوم یہ ہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے یہ عہدہ اس لئے طلب کیا تھا کہ انہیں معلوم تھا کہ کوئی شخص ایسا موجود نہیں جو اس کام کو ان سے بہتر انداز سے کر سکے، لہٰذا انہوں نے عہدہ طلب کیا اور آج بھی اسی عمل کیا جائے گا ۔۔۔

امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وسأل العمل لعلمه بقدرته عليه ، ولما في ذلك من المصالح للناس
انہوں نے عہدہ کی طلب اس لئے کی کہ وہ اس کے اہل تھے اور اس لئے کہ اس میں لوگوں کی مصلحت تھی۔
اگر آج بھی یہ طاغوتی حکمران اللہ کی شریعت کو حاکم مان لیں اور اس کا مکمل نفاذ کردیں تو ان کی حکومت میں شامل ہونا کوئی برائی کی بات نہیں ہے۔
تو سیدنا یوسف علیہ السلام بعض مصلحتوں کی بناء پر کافر حکومت میں کیوں شامل ہوئے؟ یہی تو سوال ہے!
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بھائی جان کیا ہم ایک دوسرے پر الزامات لگائے بنا بات نہیں کرسکتے؟؟؟ آپ نے پہلے جو لکھا سو لکھا اب پھر وہی لہجا، کیا اس طرح ہم دوسرے کو لوگوں کی نظروں میں گرا کر اپنا مقام و مرتبہ بڑھانا چاتے ہیں؟؟؟
آپ لوگ عالم ہو گے مفتی ہو گے مگر میری نظروں میں آپ لوگوں کی قدر تب بنے گی جب آپ لوگ اپنے قیاس و اجتہاد کی دلیل قرآن و حدیث سے پیش نہیں کردیتے یوں دوسرے پر الزامات لگانے سے کچھ حاصل نہ ہوگا جو آپ اسی روش کو اپنائے ہوئے ہیں۔
آپ نے دوسرے مراسلے میں لکھا ہے کہ
ماشااللہ آپ دوسروں کا مؤقف خوب سمجھ لیتے ہیں جس وجہ سے ان کی کلام کے اندر دلائل نظر نہیں آتے میراخیال ہے مسلےکی خرابی اسی جہ سے پیداہوئی ہےکہ آپ نے اپنی بنائے استدلال اردوتراجم کو ٹھرایاہے۔
اور حقیقت یہ ہے کہ آپ نے مجھے اپنے مؤقف کی کوئی دلیل پیش ہی نہیں کی، میں آپ کا اعتراض مکمل متن کے ساتھ پیش کر دیتا ہوں اور آپ مجھے بتائیں کہاں دلیل دی ہے جو مجھے نظر نہیں آئی؟
حضرت یوسف کے حوالے سے درج بالا معروضات کو پڑھنے کے بعد یہ احساس ہوتاہےکہ ایک انسان جب حقائق کی غلط توجیہ کرتاہےتو پھر اسے اپنامؤقف ثابت کرنےکے لئے کس قدر بعید تاویلات کرناپڑتی ہیں بلکہ محکم علمی مسائل میں بھی وہ ظن و تخمین پر اپنی بنائے استدلال رکھنےسے بھی نہیں چوکتا۔ سادہ سی بات ہےکہ حضرت یوسف نے وزارت خزانہ کا مانگی تھی قرآن کے الفاظ بھی یہی کہہ رہےہیں رہی یہ بات کہ ایک کفریہ نظام کا وہ حصہ کیوں کر بن گئے تو یہی بات ہم کہتے ہیں کہ حالات میں جس قدر اصلاح کی گنجائش موجود ہو اس قدر ضرور کریں دین کا مقصد عبادت رب اور تزکیہ نفس ہےیہ اصلا پورا ہوناچ
ہیے اور یہ نظام یا قانون وغیرہ کی حیثیت مقصد دین کےلازمی تقاضوں میں سے ہے یہ تقاضے جس قدر پورے ہورہے ہوں اسی قدر بہتر ہےہاں اگر کسی قانون یانظام کی شکل ایسی ہےکہ اس کی وجہ سے اصل مقصد مٹ رہاہےتو پھر اسے قبول نہیں کرناچاہئے جیسے قرئش مکہ رسولﷺ کو خود اقتدار کی پیش کش کرتےتھےلیکن ساتھ ہی اصل مقصد سے منحر ف ہونےکا بھی کہتے تھے تو آپﷺنے انکار کر دیاکیونکہ اس میں وہ کہتے تھے کہ آپ اصل دین یعنی توحید کوہی چھوڑ دیں آخر میں ہم گزارش کریں گے کہ یہ نظام او رقانون کی بذات خود مستقل کوئی حیثیت نہیں بلکہ یہ تو اصل مقصد کیلئے معاون ہیں لہذا اگر اصل مقصد پر کوئ!
ی حرف نہی آرہا تو ایک کافرانہ ماحو!
میں
(نظام اورقانون)میں جس قدر اصلاح ہوسکتی ہو کرنی چاہئے۔
***************
اس ساری تحریر میں آپ کا فہم تو ہے مگر قرآن و حدیث سے دلیل نظر نہیں آ رہی پھر بھی آپ کا یہ کہنا کہ
ماشااللہ آپ دوسروں کا مؤقف خوب سمجھ لیتے ہیں جس وجہ سے ان کی کلام کے اندر دلائل نظر نہیں آتے میراخیال ہے مسلےکی خرابی اسی جہ سے پیداہوئی ہےکہ آپ نے اپنی بنائے استدلال اردوتراجم کو ٹھرایاہے۔
چلو میں ان پڑھ سہی عربی سے ناوقف سہی تو مجھے اپنے بارے بتائیں کہ آپ نے عربی زبان پڑھ سیکھ کر کونسا تیر مارا ہے؟ اور کیا عربی سیکھ لینے سے انسان صحیح العقیدہ بن جاتا ہے اگر ایسا ہی ہے تو جو عربی لوگ شیعہ ہیں ان کے کفر کی کیا وجہ بنی؟؟؟ دوسرے کو اپنے سے علم میں کمتر سمجھنے سے پہلے اس کے دلائل کا رَد تو کر دیتے بھائی جان آپ نے صرف لفظ مکنا کے کئی ایک مفاہیم سامنے لائے ہیں جو کہ بالکل ٹھیک ہیں اس میں کوئی بحث نہیں ہے مگر جو باقی آیات پیش کی ہیں جن میں بادشاہ اور عزیز مصر کا ذکر ہے مثلاً
قَالُوْا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَنْ جَاۗءَ بِهٖ حِمْلُ بَعِيْرٍ وَّاَنَا بِهٖ زَعِيْمٌ 72؀
انہوں نے کہا ہمیں بادشاہ کا کٹورا نہیں ملتا جو اسے لا ئے گا ایک اونٹ بھر کا غلہ پائے گا اور میں اس کا ضامن ہوں
قَالُوْا يٰٓاَيُّهَا الْعَزِيْزُ اِنَّ لَهٗٓ اَبًا شَيْخًا كَبِيْرًا
انہوں نے کہا اے عزیز مصر! اس کے والد بہت بڑی عمر کے بالکل بوڑھے شخص ہیں
فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَيْهِ قَالُوْا يٰٓاَيُّهَا الْعَزِيْزُ مَسَّنَا وَاَهْلَنَا الضُّرُّ
پھر جب یہ لوگ یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو کہنے لگے کہ اے عزیز! ہم کو اور ہمارے خاندان کو دکھ پہنچا ہے 88
وَرَفَعَ اَبَوَيْهِ عَلَي الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًا ۚ
اور اپنے تخت پر اپنے ماں باپ کو اونچا بٹھایا اور سب اسکے سامنے سجدے میں گر گئے 100
رَبِّ قَدْ اٰتَيْتَنِيْ مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِيْ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ ۚ
اے میرے پروردگار! تو نے مجھے ملک عطا فرمایا اور تو نے مجھے خواب کی تعبیر سکھلائی 101
ان کا کوئی جواب نہیں دیا آپ نے ایسا کیوں؟؟؟
اور آپ کو بتاتا چلوں کہ میں ابو عمر الکویتی حفظہ اللہ کے ساتھ کافی وقت گزار چکا ہوں انہوں نے ایک کتاب میراث الانبیاء کے نام سے بھی لکھی ہے میں نے طاغوت اور جمہوریت کا رَد، اور توحید کے مسائل ان عربوں سے ہی سیکھے ہیں الحمدللہ۔
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بھائی جان آپ نے کچھ ایسی باتیں کی ہیں جو مجھ نا سمجھ کی سمجھ میں نہیں آ رہی ہیں اور جو میں ان کو سمجھ سکا ہوں اس کے مطابق آپ کی باتیں یہ ثابت کرتیں ہیں کہ آپ اسلام کے اہم پہلو یعنی اسلام بطورِ نظام حیات کےبارے غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں آپ کی نظر میں نظام کوئی بھی ہو اس میں شمولیت اختیار کی جاسکتی ہے اسلام کے نظام حیات کو پس پشت ڈال کر، جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ اسلام صرف نماز روزہ حج زکوۃ کا ہی نام نہیں ہے بلکہ ان عبادات کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام کو اپنانا بھی اتنا ہی ضروری اور فرض ہے جتنا کہ یہ سب عبادات جس طرح ان عبادات سے صرفِ نظر سے اللہ کی ناراضگی ملتی ہے اسی طرح اسلامی نظام سے روگردانی پر اللہ کی ناراضگی ملتی ہے کیونکہ صرف اور صرف اسلامی نظام حیات ہی ایسا نظام ہے جو ہر معاملے میں رہنمائی فراہم کرئے معیشت، معاشرت کو چلائے، عدل و مساوات فراہم کرئے، ایسا ہر گز نہیں ہے کہ ہم نماز تو اللہ کے لیئے پڑھیں مگر اپنے تنازعات میں حاکم کسی غیراللہ کے آئین کو بنائیں، ہم حج تو اللہ کے لیئے ادا کریں مگر حقِ وفاداری کسی طاغوتی آئین کے لیئے ٹھہرائیں، ہم روزہ تو اللہ کے لیئے رکھیں مگر نظامِ حیات کافروں کا بنایا اپنائیں بھائی ایسا ہرگز ہر گز جائز نہیں ہے اسلام مکمل ہی اس وقت ہوتا ہے جب ہم اس کے نظام حیات کے ساتھ اس کو اپنائیں۔
جب جنات ، انسان ، زمین اور سب کائناتیں اللہ نے تخلیق کی ہیں تو یہ حق بھی اللہ کا ہی ہے کہ اس کا نازل کردہ نظام اس دنیا میں رائج ہو۔
روس اپنا نظام اشتراکیت طاقت کے زور پر قائم کر نا چاہتا ہےاور امریکہ اپنا نظام جمہوریت طاقت کے زور پر قائم کرنا چاہتا ہے اور وہ عراق، افغانستان، مصر، تیونس اور لیبیا میں طاقت کے زریعے جمہوریت کو قائم بھی کر چکا ہے اب مزید آگے نظر رکھے ہوئے ہے، تو سمجھ نہیں آتی کہ مسلمان کیوں کافروں کے نظام کو نافذ کرنا چاہتے ہیں؟؟؟ اسلامی نظام کو آخر کیوں نافذ نہیں کرنا چاہتے؟؟؟ اگر اسلامی نظام کی مخالفت اور کافرانہ نظام کو مصلحتاً اپنانے والے جاہل لوگ ہوتے تو دکھ کی بات نہیں تھی مگر بھائی جان یہاں تو قرآن و حدیث کا دعویٰ کرنے والے بھی کافروں کے نظام کو اپنانے کے لیئے تاویلوں مصلحتوں کا سہارا لے رہے ہیں ان کے کرنے کا کام تو یہ تھا کہ یہ لوگ مسلمانوں میں خلافت کے احیاء کی جدوجہد کرتے مگر افسوس کہ انہوں نے کافروں کے نظام کو ہی اسلامی بنانے کی فکر کی اور اسی کی دعوت و تبلیغ میں ابھی تک مگن ہیں،
ہم کو اللہ سے ڈر جانا چاہیے ایک تو ہم اللہ کے نازل کردہ نظام کو قائم نہیں کر رہے دوسرا جرم یہ کہ ہم کافروں کے نظام کو نافذ کرنے والوں میں شامل ہیں تیسرا جرم کافروں کے نظام کو اسلام کا ہی نظام کہنے لگے ہیں چوتھا جرم خود تو اس گناہ میں مبتلا ہیں ہی ساتھ لوگوں کو بھی اس میں مبتلا کر رہے ہیں، کل قیامت کے دن ہم اللہ کو کیا جواب دیں گے؟؟؟ اگر ایک مسلم خلافت کے احیاء کی اپنی سی کوشش کرتا ہے مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوتا کل قیامت کے دن وہ کہہ سکتا ہے کہ یا اللہ میں نے اپنی استطاعت بھر کوشش کی، مگر جو کافروں کے نظام کو ہی اسلامی کہنے والا ہوگا وہ کیا جواب دے گا؟؟؟
هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ ۭ وَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًا 28؀ۭ الفتح آیت نمبر 28
هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ ۙ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ Ḍ۝ۧ الصف آیت 9
ان دو آیات میں حکم دیا گیا کہ اس دین کو باقی تمام ادیان پر نافذ، غالب کرنے کے لیئے نازل کیا گیا ہے
اب کوئی بھائی بتائے گا کہ اس دین کو کیسے باطل ادیان پر غالب کیا جائے گا؟؟؟
نمبر1۔ دینا میں جتنے بھی ادیان ہیں ان کو ماننے والے سبھی لوگوں کو زبردستی مسلمان بنا کر؟
نمبر 2۔ سب انسانوں کو نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کا پابند بناکر؟؟؟
نمبر 3۔ دنیا میں بسنے والے سبھی مذاہب کے لوگوں کو حق دے کر کہ وہ اپنے دین کے مطابق عمل کریں مگر نظام حیات جو اللہ نے دیا ہے کے تحت رہیں، مغلوب ہو کر، جزیہ دے کر ؟؟؟
جو ہمیں سلف صالحین سے ملتا ہے وہ یہی طریقہ ہے کہ کسی کو بھی زبردستی مسلمان نہیں کیا گیا سب مذاہب والوں کو آزادی تھی اپنے دین پر عمل کرنے کی مگر مغلوب بن کر نہ کہ حاکم بن کر۔
آج معاملہ الٹ ہے مسلمان مغلوب ہیں اور کافر غالب وجہ یہی ہے کہ اسلام کا نظام نہیں رہا امت کو متحد رکھنے والا خلیفہ ہی نہیں رہا، کہاں لاکھوں کلومیٹر میں پھیلی خلافت کا ایک ہی نظام اور کہاں اب اسی خلافت کے رقبہ میں درجنوں چھوٹی چھوٹی ریاستیں جن پر مفاد پرست، اسلام دشمن نامنہاد مسلمان حکمرانی کر رہے ہیں، اتحاد نام کی کوئی چیز بھی ان میں نہیں ہے ہاں اتحادی ہیں تو کافروں کے مسلمانوں کی جان کے دشمن، حال ہی میں مالی میں اسلام پسندوں نے چھوٹے سے علاقے میں اسلامی قوانین نافذ کیے تو انہی نامنہاد مسلمان حکمرانوں نے کافروں کے ساتھ مل کر اسلامی قوانین نافذ کرنے والوں کا قتل عام کیا اور دوبارہ وہاں کافروں کے قوانین نافذ کر دیئے گے ان سب واقعات کو دیکھ کر بھی مسلمان علماء جمہوری کفریہ نظام کو سپوٹ کریں تو بتائیں عام آدمی کا کیا حال ہوگا؟؟؟
آج کافر قومیں مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہیں ہر روز سینکڑوں مسلمان قتل ہو رہے ہیں کسی کو کوئی درد محسوس نہیں ہوتا سبھی اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہیں مگر ایک وقت تھا جب خلافت قائم تھی امت مسلمہ کا سر خلیفہ موجود تھا اس نے ایک مظلوم مسلمان عورت کی پکار پر ہندوستان پر حملہ کر دیا تھا اور آج ایک دردِ دل رکھنے والا مسلمان صرف خون کے آنسو رو سکتا ہے مگر مظلوم مسلمانوں کی مدد نہیں کرسکتا کیونکہ جس اتھارٹی نے مظلوموں کی مدد کرنے کا بندوبست کرنا تھا وہ اتھارٹی کافروں نے ختم کردی ہوئی ہے اور اس اتھارٹی پر اپنے ایجنٹ بٹھا دیئے ہیں جو کافروں کے ہمدرد ہیں اور مسلمانوں کے جانی دشمن مثالیں لکھنے لگوں تو کئی صفحات لکھے جاسکتے ہیں یہ ظلم کی داستانیں ہیں ان کو لکھنے اور پڑھنے کے لیئے بھی پتھر کا دل چاہیئے، آجکل کی تازہ قتل گاہیں برما، بنگلادیش، بھارت، پاکستان، افغانستان، شام، فلسطین، عراق، افریقہ کے ممالک، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر مسلمانوں کے پاس آج بھی خلافت کا نظام ہوتا تو کافروں کی کیا مجال کہ کسی ایک بھی مسلمان کو ناحق قتل کرسکتے کیونکہ امتِ مسلمہ کا سر خلیفہ موجود ہوتا جس نے مظلوموں کا ساتھ دینا تھا، کافروں کو قتل کرنا تھا، مگر آج کے حکمران !!!اللہ ہم کو ان ایجنٹوں سے نجات دے یہ کافروں کے محافظ اور مسلمانوں کے قاتل ہیں۔
کیلانی بھائی آپ نے لکھا ہے کہ
آخر میں ہم گزارش کریں گے کہ یہ نظام او رقانون کی بذات خود مستقل کوئی حیثیت نہیں بلکہ یہ تو اصل مقصد کیلئے معاون ہیں لہذا اگر اصل مقصد پر کوئ!
ی حرف نہی آرہا تو ایک کافرانہ ماحو!
میں
(نظام اورقانون)میں جس قدر اصلاح ہوسکتی ہو کرنی چاہئے۔
اگر یہ ایسا ہی ہے تو ان آیات کا کیا مقصد؟؟؟
ۭوَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ 44؀
ۭ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ 45؀
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ 47؀المائدہ
بقول آپ کے کہ نظام اور قانون کی بذات خود کوئی حیثیت نہیں،
تو اللہ ایسے لوگوں کو کافر، ظالم اور فاسق کیوں کہہ رہا ہے جو اللہ کے قوانین کے مطابق فیصلے نہیں کرتے؟؟؟
آپ نے لکھا ہے کہ
دین کا مقصد عبادت رب اور تزکیہ نفس ہےیہ اصلا پورا ہوناچاہیئے
اگر یہی دین کا اصل مقصد ہے تو یہ مقصد تو یہود و نصاریٰ بھی پورا کر رہے ہیں اللہ کا ارشاد ہے کہ
وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذْكَرُ فِيْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِيْرًا
اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو (راہبوں کے) صومعہ اور (عیسائیوں کے) گرجے اور یہودیوں کے عبادت خانے اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں اللہ کا بہت سا ذکر کیا جاتا ہے ویران ہو چکی ہوتیں ۔۔۔۔الحج آیت 40
اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ اللہ کی عبادت تو دوسرے مذاہب والے بھی کرتے ہیں تو اصل مقصد صرف نماز، روزہ، حج اور زکوۃ ہی نہیں ہے بلکہ ان کے ساتھ اللہ کا دیا نظام بھی قائم کرنا ہے تبھی دین مکمل ہوگا کیونکہ جب اللہ کے نبی ﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی
اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۭ
آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔ المائدہ آیت 3
اس آیت میں اسلام کو بطورِ دین کہا گیا ہے بطور مذہب نہیں،مذہب چند عبادات کے طریقوں کو کہتے ہیں اور دین مکمل نظام حیات ہوتا ہے اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت اسلام بطورِ نظام حیات نافذ تھا، نماز روزہ حج اور زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ نظام خلافت بھی قائم تھا اگر آج ہم نظام حیات اسلام کا نہ اپنائیں اور صرف عبادات ہی کرتے رہیں تو کیا ایسا دین اللہ ہم سے قبول فرمائے گا؟؟؟ بلکہ اسلام کے نظام حیات کے مقابل ہم کافروں کے نظام حیات کو اپنائیں تو بتائیں اللہ کیسے ہمارا دین قبول فرمائے گا جبکہ اللہ نے صاف فرما دیا ہے کہ
وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَھُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ 85؀
اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہوگا وہ اس سے ہرگر قبول نہیں کیا جائیگا اور ایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانیوالوں میں ہوگا۔ آلِ عمران آیت 85
یہاں ایک اور چھوٹا سا مسئلہ بھی بیان کردوں کہ زکوٰۃ صرف بیت المال میں جمع کروائی جاتی تھی یہ کام خلیفہ کا تھا کہ اس کو اللہ کی مقرر کی ہوئی جگہوں پر خرچ کرئے اگر خلافت کا نظام نہیں تو زکوۃ شرعی طریقے کے مطابق ادا کی ہی نہیں جاسکتی، عبادات کا جو سنت طریقہ ہے صرف اسی طریقہ سے عبادات کی جائے تو قبول ہوتی ہے جیسے ہم لوگ نماز، روزہ اور حج میں سنت کو مقدم رکھتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ زکوٰۃ کے معاملے میں ہم لوگ سنت کو پسِ پشت ڈال رہے ہیں اور وہ بھی ایک لمبے عرصہ سے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ تو بھائی جان اس سے بھی یہ بات واضح ہوئی کہ دین پر مکمل عمل تب ہی ممکن ہوگا جب ہم خلافت کو قائم کرلیں گے، ایک خطرناک پہلو اور بھی ہے خلیفہ نہ ہو تو۔
نبی ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ
وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً
اور جو اس حال میں مرا کہ اسکی گردن میں (خلیفہ کی) بیعت نہ تھی وہ جاہلیت کی موت مرا۔ صحیح مسلم
یعنی جس کسی نے خلیفہ کی بیعت نہ کی اور اسی حالت میں مر جائے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔
اب میں اہل علم سے یہ پوچھتا ہوں کہ کیا یہ حدیث اور اس سے ملتی جلتی درجنوں احادیث موضوع ہیں جو ان پر عمل نہیں کیا جاتا چاہیئے تو یہ تھا کہ اہل علم لوگ اس مسئلے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے خلیفہ کے تقرر کی کوشش کرتے مگر اس کے خلاف عمل کیا گیا کہ عوام کو کافروں کے ہی نظام پر تاویلات پیش کرکے مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی کیا یہ اہل علم لوگ کل قیامت کے دن اللہ کے حضور سر خرو ہوسکیں گے؟ ہمیں کم علم، نااہل کہہ کر جان چھڑا لیں گے اللہ کو کیا جواب دیں گے؟؟؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت سب سے اہم اور بنیادی کام خلافت کے نظام کو قائم کرنا ہے اس کام کو پس پشت ڈالنا اللہ کی ناراضگی مول لینا ہے، اس وقت جو مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے یہ اللہ کی طرف سے ایک عذاب کی صورت بھی ہوسکتا ہے اس لیے اگر اللہ کے عذاب سے بچنا چاہتے ہیں تو متحد ہو جائیں اختلافی مسائل میں قرآن و صحیح حدیث کو حاکم بنائیں جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہو وہ لے لیں باقی کو چھوڑ دیں،کافروں کو جو یہ ہمت ملی ہے ہمیں قتل کرنے کی اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم متحد نہیں ہیں علاقوں، قوموں اور مسلکی گروہوں میں بٹے ہیں مگر آج کا کافر متحد ہے، ہندو، سکھ، عیسائی اور یہودی یہ مختلف مذاہب کے ماننے والے مگر اس کے باوجود سب مل جل کر مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ ایک اللہ کو مانتے ہیں، ایک ہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والے، ایک ہی کتاب کے پیروکار آپس میں متحد نہیں ہیں تو ایسی صورت میں اللہ کی مدد و نصرت کیسے آئے گی؟؟؟
اگر ہم آج بھی ایسے شخص کے ہاتھ پر بیعت کرلیں جو اس کا اہل ہو اور پھر اس خلیفہ کے ہاتھ مضبوط کریں پھر سے مقبوضہ علاقے خلافت میں داخل کرکے وہی نقشہ بنالیں جو کبھی اسلام کی شان ہوا کرتا تھا

پھر میں دیکھونگا کیسے کافر مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہیں؟؟؟
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
اور یہ بھی دیکھیں بنگلادیش میں جمہوریت پسند نامنہاد مسلمان حکمران کس طرح اسلام کا نام لینے والوں کو قتل کر رہے ہیں [video]http://www.facebook.com/photo.php?v=434459969977743&set=vb.131796530244090&type=2&theater[/video] جمہوری نظام ایک شیطانی نظام ہے، ایک درندہ صفت اور سفاک نظام ہے مگر اس کو اسلامی بناکر پیش کیا جارہا ہے!!!!

اور ہمارے مصلحت پسند اہل علم لوگ اللہ جانے کب اس کفریہ نظام کے خلاف ہوں گے اور اسلامی نظام حیات کو قائم کرنے کی کوشش کرئیں گے؟؟؟
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437

یوسف علیہ السلام پر کون سی آسمانی کتاب نازل ہوئی تھی؟؟؟۔۔۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
اور ہمارے مصلحت پسند اہل علم لوگ اللہ جانے کب اس کفریہ نظام کے خلاف ہوں گے اور اسلامی نظام حیات کو قائم کرنے کی کوشش کرئیں گے؟؟؟
پہلے ہم اس بات کا تعین تو کرلیں کے ہم کس نظام کے متحمل ہیں۔۔۔
اگر اسلام نے مسلمانوں کو خلافت کا نظام دیا ہے تو پھر آپ کو اور ہمیں ہر اُس نظام کے خلاف زبان دراز کرنی ہوگی۔۔۔
جو مختلف اسلامی ممالک میں رائج ہیں۔۔۔ اب یہاں سب سے پیچیدہ مسئلہ جو ہمارے سامنے ہے وہ ہے خلافت کا مرکز۔۔۔
اور وہ ہے سرزمین حرمین۔۔۔ تو پھر ایک کام کرتے ہیں ٹیم تیار کرتے ہیں۔۔۔ اُن تمام افراد کی اور عمرہ ویزہ لگوا کر چلتے ہیں۔۔۔
وہاں جاکر جو موجودہ نظام رائج ہے اس نظام کا خلاف اسلام ہونا وہاں کے حکمرانوں سے ملاقات کرتے ہیں۔۔۔ پھر بتاتے ہیں۔۔۔
انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔کے تم نے ڈالر کو تین پچھتر پر روک رکھا ہے اور ہمارا دیوالیہ نکل گیا ہے۔۔۔
سو سے اوپر جارہا ہے۔۔۔ مان گئے تو خلافت کے لئے خلیفہ کا تعین اس پر ہمیں ایک لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔۔۔
اور وہ ہوجانے کے بعد ہر وہ علاقہ جہاں پر مسلمان آباد ہیں وہاں پر گورنر کے تعین کا طریقہ کار۔۔۔ وہ بھی سوچنا ہے۔۔۔
ایک کوشش کرلیتے ہیں۔۔۔ بچ گئے تو غازی ورنہ غازی کی ضد تو ہمیں پتہ ہی ہے۔۔۔
اور تدفین کھلا سمندر۔۔۔ اس کے بعد کچھ دن ذکر ہوگا۔۔۔ پھر الیکشن کی گھما گھمی اور سب بھول جائیں گے۔۔۔
لوگ روٹی کپڑا اور مکان بجلی، گیس، نوکری، علاج کی سہولت اس کے حصول میں پڑ جائیں اور ہماری اولادیں چھپتی پھریں گی۔۔۔
 
شمولیت
مارچ 25، 2013
پیغامات
94
ری ایکشن اسکور
232
پوائنٹ
32
کنعان صاحب اور حرب بن شداد صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسلامی مسائل کا حل مینیجمنٹ اور فنانس کے اصولوں سے کرنا چاہتے ہیں
اللہ کے بندو اسلامی مسائل کا حل قران و سنت میں ہے نہ کہ مینیجمنٹ اور فنانس کے اصولوں میں
 
Top