شیعہ خنزیروں کی طرف سے ایک غلط پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ جنگِ صفین میں صحابہ کرام کی بڑی تعداد موجود تھی۔ حالانکہ تمام قابلِ قدر اور صحیح روایات میں اِس بات کا رد موجود ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشہور تابعی محمد بن سیرین بیان کرتے ہیں:
عبد الرزاق عن معمر عن أيوب عن ابن سيرين: جب فتنہ کی آگ بھڑکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی تعداد 10,000 تھی۔ ان میں سے صرف 40 کے علاوہ باقی جنگ کے لیے نہ نکلے۔ معمر کہتے ہیں: یعنی حضرت علی کے ساتھ نہ نکلے۔ اس وقت اہل بدر میں سے 240 سے زائد صحابہ زندہ تھے جن میں سے صرف ابو ایوب انصاری، سہل بن حنیف اور عمار بن یاسر ہی حضرت علی (رضی اللہ عنہم)کے ساتھ تھے۔ ( عبد الرزاق۔ المصنف۔ حدیث نمبر 20735۔ ص 11/357۔ بیروت: منشورات مجلس العلمی۔
عبد الرزاق عن معمر عن أيوب عن ابن سيرين: ابن سیرین کہتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاص سے پوچھا گیا: ’’آپ جنگ کیوں نہیں کرتے کیونکہ آپ تو اہل شوری میں سے ہیں اور اس معاملے میں بقیہ سب کی نسبت زیادہ حق دار ہیں؟‘‘ فرمایا: ’’میں اس وقت تک جنگ نہیں کروں گا جب تک کہ آپ لوگ مجھے ایسی تلوار نہ لا دیں جس کی دو آنکھیں، زبان اور ہونٹ ہوں اور وہ کافر اور مومن میں فرق کر سکے۔ میں نے جہاد کیا ہے اور میں جہاد کو سمجھتا ہوں۔ اگر کوئی شخص مجھ سے بہتر ہو تو میں اپنی جان کو روکنے والا نہیں ہوں۔ ( ایضاً ۔ حدیث 20736)۔
دس ہزار صحابہ کرام میں سے صرف چالیس صحابہ کرام میدان جنگ میں موجود تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ جانبین میں تمام صحابہ کرام بشمول سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عباس و معاویہ و عمرو رضی اللہ عنہم اجمعین سب کی کوشش یہی تھی کہ ہر ممکن صلح ہو سکے۔