وعلیکمالسلام بھائی، ٹھیک ہے آپ کے لئے یہی دلیل کافی ہے، لیکن کبھی آپ نے سوچا کہ امیر حجاج کو اس قدر قتل وغارتگری کرنے کی ضرورت کیوں پیشآئی؟ اور اسکی اس مبینہ سفاکی کا نشانہ کون لوگ بنے؟ اسکے لئے میں نے اپنی گزشتہ دو پوسٹوں میں کچھ نکات بھی تحریر کئے تھے، شائد محترم بھائی نے اس پر توجہ نہیں ڈالی۔ خیر میں دوبارہ سے یہاں نمبر وار تحریر کردیتا ہوں۔
1. بلا شبہ ان مظالم نے حجاج کو بدنام کیا لیکن یہ بات بھی تاریخ میں ملتی ہے کہ اگر حجاج اس وقت اٹھ کھڑا نہ ہوتا تو مسلمان شاید اسی دور میں آپس میں لڑ کر جدا ہو گئے ہوتے
2. حجاج کی تقریر جو کہ اس نے کوفہ آمد پر کی ہمیں اس وقت کے حالات کے بارے میں سمجھنے میں آسانی دیتی ہے ساتھ ہی ہمیں حجاج کے بارے میں بھی بہت کچھ بتاتی ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
3. بخدا میں شر کو اس کے کجاوہ میں لاد دیتا ہوں اور جو جیسا کرتا ہے اس کو ویسا ہی بدلہ دیتا ہوں۔(حجاج کی تقریر کا حصہ)
4. میرا تقرر بڑی دانائی سے کیا گیا ہے اور مجھے بہت اہم فرائض انجام دینے ہیں۔ (حجاج کی تقریر کا حصہ)
5. امیر المومنین نے اپنے ترکش سے تمام تیر نکالے اورسب کو اپنے دانتوں سے کاٹا اور مجھے ہی سب سے سخت اور مضبوط پایا، اسی لئے انہوں نے مجھے تمہاریطرف بھیجا ہے کیونکہ عرصہ دراز سے فتنہ و فساد تمہارا شیوہ ہو گیا ہے اور بغاوت تمہارا دستور العمل (حجاج کی تقریر کا حصہ)
6. جن کاموں میں تم نے خود کو ڈالا ہوا ہے ان سے نکلو۔یا تو تم لوگ خود کو ٹھیک کر لو ورنہ یاد رکھو مہلب کی فوج سے جو لوگ بھاگ کر آئے ہیں وہ تین دن بعد یہاں نظر آئے تو ان کو قتل کر دوں گا اور ان کی جائداد ضبط کر لوں گا (حجاج کی تقریر کا حصہ)
7. یاتو تم لوگ میرے ہاتھ سے انصاف قبول کر لو فتنہ و فساد اور جھوٹی افواہوں سے باز آجاؤ (حجاج کی تقریر کا حصہ)
السلام علیکم
بھائی اس طرح کی تقاریر تو بڑے سے بڑے شریروں نے بھی کی ہیں بخدا مختار بھی بظاہر ایک اچھے دعوی کے لئے ہی نکلا تھا اور اسی طرح کی تقاریر کرتا تھا
دوم—حجاج بن یوسف کو کم سے حرمین میں اتنا ظلم نہیں کرنا چاہئے تھا کیوں کہ مروان کی حکومت عبداللہ بن زبیر رضہ کے مقابلہ میں ٹھیک نہیں تھی ، یزید کے بعد اگر کوئی خلیفہ تھا تو عبداللہ بن زبیر رضہ تھے نوی 90 فیصد اسلامی رقبہ پر ان کی بیعت ہوچکی تھی ۔۔۔۔۔۔ میں دلائل سے ثابت کر سکتا ہون لیکن یہان یہ موضوع نہیں۔
8. اس وقت حضرت زین العابدین، حضرت محمد بن الحنفیہ اور حضرت ابن عباس رض مکہ ہی میں مقیمرہے۔ اس لئے حجاج بن یوسف پر یہ الزام کہ اس نے بنی ہاشم پرمظالم کئے، بالکل بے بنیاد ہے (کعبہ جہاں حضرت عبداللہ بن زبیر رض پناہ لئے ہوئے تھے، اس پر سنگ باری اور حملہ کے باوجود اہل مکہ جہاں بنی ہاشم اور دیگرمسلمان موجود تھے، انکو کسی بھی قسم کا نقصان نہ پہنچانا، جسکا ثبوت اوپر تینوں حضرات کا مکہ میں موجودگی کے باوجود صحیح سلامترہنا)
یاد رہے حجاج بن یوسف طائف میں بہٹھ کر مکہ میں اپریشن کروا رہا تھا ۔۔۔ تاریخ کا مطالعہ کیجئے
9. جب بنی امیہ کے خلاف مختار ثقفی نے قاتلان حسین سے انتقام لینے کا دعویٰ کیا، تو سوائے چند کوفیوں کے جنکو مختار نے قتل کیا تھا، باقی قاتلان حسین ، اسکے ساتھ مل گئے۔ اور یہی وہ کوفی تھے جنکو امیر حجاج نے قتل کروایا تھا اور ان سے انتقام لیا۔
یہاں با ت کوفہ کی نہیں بلکہ مکہ میں صحابہ و صحابیات اور تابعین سے کئے گئے ظلم کی بات جارہی ہے اور آپ کوفہ میں کیوں گھوم رہے ہں-- اور جناب انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا واقعہ تو سب کو معلوم ہے اور وہ اسی بات کو لے کر شام گئے تھے لیکن وہاں خلفاء کے حالات دیکھ روتے رہ گئے اور رو رو کر ابوبکر و عمر رضہ کو یاد کرنے لگے۔۔ )حوالہ دیا جا سکتا ہے( مانگنے پر
10.امیر حجاج بن یوسف کے وہ قتل و غارتگری کے افسانے ، افسانے ہی ہیں جسمیں اسکو ایک ظالم درندہ ثابت کیا گیا ہے۔جس نے اہل بیت ، شیعوں اور عام مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ امیر حجاج نے صرف ان لوگوں سے انتقام لیا اور انکو قتل و غیرہ کیا جو شورش اور بغاوت میں عملی کردار ادا کررہے تھے اور بدقماش اور بدفطرت ٹائپ کےلوگ تھے۔ حکومت وقت کے لئے ایک خطرہ وپریشانی کا باعثبنے ہوئے تھے۔ اس لئے حجاج نے نہ صرف انہی لوگوں کو تہہ تیغ کیا جو حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ پرامن لوگوں اور بے گناہ لوگوں پر کبھی اس نے ہاتھ نہیں اٹھایا
بخدا حجاج بنوامیہ کا خاص تھا لیکن عبداللہ بن زبیر رضہ کے ہوتے بنو امیہ کے حکمران باغی تھے۔ اور اگر بالفرض حجاج کی قتل و غارت افسانہ ہی افسانہ ہے جیسا آپ سمجھتے ہیں تو میں برملا کہتا ہوں مختار کے لئے جو باتیں ہیں وہ بھی افسانہ ہی افسانہ ہیں----اور یہ افسانہ بنا کیسے ہے زرا اس پر بھی روشنی ڈالئے
جی تو محترم بھائی اب آئی آپ کوکچھ سمجھ کہ امیر حجاج پر یہ جو بے انتہاء قتل غارتگری و سفاکیت (اسمیں بھی مبالغہ آمیزی زیادہ ہے) اسکی حقیقت کیا ہے؟ ایمانداری سےبتائے کہ اگر آپ امیر حجاج کی جگہ ہوتے، اور آپکو انہی حالات سے واسطہ پڑتاجس سے امیر حجاج کا پڑا تھا، تو آپکا رویہ کیا ہوتا؟ کیا آپ اپنی حکومت کے چند بدمعاشوں، چوروں، قاتلوں، بدفطرت، اوباشوں کو کیا کھلا کھیل کھیلنے دیتے؟ کیا آپکی حکومت ایک جگہ مستحکم ہو، اور اس میں کوئی رخنے ڈالنے کی کوشش کرے، آپ اسکو کیا ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کے تحت نظارے کرتا دیکھو گے یا اسکے خلاف عملی اقدامات بھی کروگے؟ بالکل ایمانداری سے اگر آپ ان مناظر کو سوچوں گے تو آپ کو یہ چیز آسانیسے سمجھ آجائے گی جو میں آپکو سمجھانا چاہ رہا ہوں۔
اگر میں حجاج کی جگہ ہوتا یقنن عبداللہ بن زبیر رضہ کی بیعت کرتا کہ وہی خلیفہ برحق تھے۔ میں اس کی جگہ نہیں ہوں اس لئے اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے اور انشاء اللہ آج شکرانے کی نوافل بھی پڑہوں گا کہ میں اس کی جگہ نہین ہون۔
بخدا عبداللہ بن زبیر رضہ ہی تھے جنہوں نے مختار کے فتنہ کو ہمیشہ کے لئے ختم کیا اور عراق میں امن قائم کیا ۔۔ لیکن لوگوں کے کہنے طعنوں پر مروان اور اس کی زریت نے بجائے بیعت کرنے کے پھر سے جنگ و جدل شروع کردی --- ورنہ عبداللہ رضہ نے تو بلکل توجہ دینا شروع کی تھی امن و امان کے لئے اگر مروان بغاوت نہ کرتا تو آپ رضہ کی حکومت مستحکم ہوتی۔
نہیںجی میں سیدہ مظلوم کی عدالت کو چیلنچ نہیں کررہا (ویسے آپکی یہ بات پڑھتے ہوئے مجھے نہ جانے کو دسویں محرم کے شیعہ ذاکر یاد آگئے، کہ وہ بھی اسی قسم کی جذباتی باتوں کا سہارا لیکر سیدنا حسین رض کے خون کی دہائی دے کر امیر یزید رحمہ اللہ کو بہت لتاڑتے ہیں) بے شک سیدہ صاحبہ کے ساتھ غلط ہی ہوا۔ اور انکے بیٹے کو شہید کیا گیا، لیکن بھائی وہ صحابیہ ہونے کے ساتھ ایک ماں بھی تھیں، جو اپنے بیٹے کی لاش کو دیکھ کر شائد اپنے جذبات کو قابو نہ رکھ سکیں اور انکی زبان سے بے ساختہ یہ کلمات ادا ہوگئے۔ صحابی بے شک انسان ہی ہوتے ہیں، اور جسطرح ہر انسان ایک بہت ہی صدمے اور تاسف والی کیفیت میں اپنے جذبات کو مشکل سے قابو رکھتا ہے، اسی طرح کا معاملہ ہم ایک صحابی کے متعلق سوچ سکتے ہیں۔ ویسے بھی اہلسنت و الجماعت کا عقیدہ صحابی کو معصوم عندالخطاء یا سپر ہیومن ماننے جیسا نہیں ہے، کہ وہ ہر قسم کی کمزوری اور بشری تقاضوں سے بالکل ہی مبراء ہوں۔
ہاہا آپ کو شیعہ تو یاد آگئے لیکن آپ نے عین وہی بات اپنے دفاع میں لکھی ہے جو میں نے لکھی تھی کہ آپ ایسا سمجھتے ہیں-میری پوری بات پھر پڑہیں یہی جذبات کی بات میں نے کہیں تھی کہ آپ ایسا سمجھتے ہیں –
جیسا آپ کو سیدہ اسماء نے شاید عالم ارواع میں بتایا کہ مجھے سے یہ کلمات بے ساختہ نکلے ۔۔ مجھے بتائے آپ کی اس من مانی تشریع کو کسی ایک نے اختیار کیا ہے؟
اور ہاں ہم صحابہ کو معصوم نہیں مانتے لیکن شیعہ مجھے بھی یاد آگئے وہ بھی یہی پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ صحابی معصوم نہیں اس لئے ان کی جذبات میں کہی باتیں قابل قبول نہیں اسی لئے تو مختار وہ رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں اور ہاں اسد الغابہ اور الاستعیاب کے مصنف نے مختار کو صحابی کہا ہے ---لیکن الحمداللہ شدید جذبات میں آکر بھی صحابی و صحابیات چاہے ماں ہی ہوں کسی پر جھوٹ نہیں بولتے تھے نہ ہی کسی پر جذبات میں آکر الزام لگاتے تھے۔۔ہمارہ یہی عقیدہ ہے۔۔۔۔ حجاج نے ظلم ہی اتنا زیادہ کیا تھا کہ صحابیہ کہنے پر مجبور ہئیں۔
جی مجھے معلوم ہے، جبآنحضرت ﷺ کسی کے حق میں کوئ مذمتی بات کہتے تھے تواللَّهُمَّ إِنِّي أَتَّخِذُ عِنْدَكَ عَهْدًالَنْ تُخْلِفَنِيهِ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ فَأَيُّ الْمُؤْمِنِينَ آذَيْتُهُ شَتَمْتُهُ لَعَنْتُهُ جَلَدْتُهُ فَاجْعَلْهَا لَهُ صَلَاةً وَزَكَاةً وَقُرْبَةً تُقَرِّبُهُ بِهَا إِلَيْكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔۔۔ صحیح مسلماے اللہ! میں آپ سے عہد لیتا ہوں کہ میں انسانہوں۔ اگر میں نے کسی مسلمان کو اذیت پہنچائی ہو کہ اس پر برا کہا ہو، لعنت کی ہو، اسے کوڑے لگائے ہوں تو اسے اس کیلئے رحمت، تزکیہ اور قربت کا ذریعہ بنا دے ۔۔۔
واضح رہے کہ یہ معاملہ صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے، اس کا کافروں سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر نبی کریمﷺ ان پر لعنت یا بد دُعا فرمادیں تو وہ انکے لئے وبال بن جاتی ہے۔
اب بتائیے کہ کہ امیر حجاج کے حق میں یہ آنحضرت ﷺ کی بات کسقدر مفید ہوئی؟ وہبنوامیہ کا سب سے کامیاب گورنر بن گیا، جسکے عہد میں اسلام کا دائرہ کار یورپ، ہندوستان اور وسطی ایشیا اور افریقہ تک پھیل گیا۔ اور ایک اہم نقطہ، جس پر شائد ہی کسی کی توجہ پڑے کہ اسی صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ کی رو سے "رحمت اللہ علیہ" کا بھی حقدار بن گیا۔ باقی رہا مختار والیبات، تو اس کو جواب میں نیچے اطیمنان سے دونگا، تب تک اس چیز کو آپ سمجھیں۔
میرہ خیال ہے کہ اس حدیث کا اور ثقیف کذاب و مبیر والی حدیث کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔۔ یہان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شاید غصہ میں آکر کسی کو کچھ کہ دیتے ہونگے تو اس کا زکر ہے لیکن ثقیف والی حدیث تو ایک پیش گوئی ہے جیسے جیش مغفور لھم کی حدیث ایک پیش گوئی ہے۔۔ جسی ہر حال میں پورہ ہونا ہے ۔ اور الحمداللہ پوری ہوچکی کہ آج تک مختار جیسا کذاب ثقیف میں نہیں ہوا اور نہ ہی آج تک حجاج جیسا ظالم بھی ثقیف مین ہوا ہے ۔۔ اگر آپ کے پاس علم ہے تو ہمیں بتائیں۔ورنہ یہ حدیث ان پر فٹ ہے۔اور اس حدیث کو پیش کر کہ آپ نے ناچہتے ہوئے بھی سیدہ اسماء رضہ کی تشریح مان لی۔۔اگر حدیث ثقیف سے حجاج مراد ہی نہیں جیسا آپ کہتے ہیں تو یہ حدیث پیش کرنے کا کیاسبب ہے اپ ایک بات پر ٹکیں۔ ۔۔۔۔
برادرلیکن میںتو آپ کو پہلے نہیں جانتاتھا، اس پوسٹ کے علاوہ مجھے یاد نہیں کہ آپ کو میں نے کچھ رپلائی دئے ہوں، نیز اس فورم پر بھی میری موجودگی زیادہ پرانی نہیںہے، ابھی پچھلے سال ہی میں اس فورم پر رجسٹر ہوا تھا، اور بہت کم یہاں میری شراکتیں ہیں
میں اپ کو اسلامک فورم کے دور سے جانتا ہوں۔
اب بتائیے مجھےکہ جو شخص نبوت کا جھوٹا دعوے دارہو، کیا وہ حضور اکرم ﷺ کی رحمت کا مستحق ہوسکتا ہے؟ وہتو مسلمان بھی نہیں رہا، چئےجائکہ کسی معاملے میں اسکوچھوٹ دی جائے؟ ایک کافر کے حق میں رسول اکرم ﷺ کی بددعا یقینی مہلک ہے، یہ بات تو میں اوپر ہی لکھ چکا ہوں۔
سوال یہ ہے کہ اسکے دعوی کے لئے آپ کے پاس صحیح دلیل کیا ہے کہ اس نے یہ دعوی کیا تھا ؟ اسکین میں حوالہ سمجھ ہی نہیں ایا کہ کس کا ہے۔
بھائی اگر امتسے اس قول کو قبول کرنے کی غلطیہوہی گئیتو کیا یہ قبولیت جائز ہوگئی؟ امت نے تو بہت سارے شرکیہ افعال بھی قبول کرلئے ہیں وہ بھی تواتر کے ساتھ، یہ فورم بھرا پڑا ہے ان کے حالات سے، تو کیا ان اب سارے شرکیہ افعالو اعمال کو بالکل جائز مانا جائے کہ چونکہ یہ امت کرتی چلی آئی ہے اس لئے اب انکی قبولیت میں کوئی شک نہیں ہے۔ یاد رکھئے گا، ایک صحیح چیز صحیح ہوتی ہے، اور ایک غلط چیز غلط ہوتی ہے۔ تحقیق میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔ یہ تو میں اپنی گزشتہ دو تین پوسٹوں میں بدلائل ثابت کرچکا ہوں کہ امیر حجاج کے و قتل و غارتگری کے افسانوں کی حقیقت کیا ہے۔ تو اگر امیر حجاج سے ایک غلط قول منسوب ہوچکا ہے، اور اسکو بقول آپکے"امت نے تواتر کے ساتھ قبول" بھی کرلیا ہے، تو کیا وہ بالکل اتھنٹک ہی مانا جائے؟ ذرا حقیقت سے کام لیں، اور تحقیقی اور کھلا ذہن رکھ کر سوچیں۔ اس قول کو بھی آپ ایک اہل حدیث ہونے کے ناطے اچھی طرح جانتے ہیں کہمالک رحمه الله نے فرمايا : ہم ميں سے ہر ايک کا قول قابل رد ہے سواۓ اس صاحب قبر کے ، اور اللہ کے رسول صلى الله علیہ وسلم کی قبر کی طرف اشارہ کيا
صحیح بات ہے لیکن یہ بات غلط ہے اس امت شرکیہ افعال قبول کئے ہیں ۔ میاں آپ کو امت سے مراد کیا لیتے ہیں بابا کے قبے پر موجود بابا ۔۔ نہیں یہان امت سے مراد امت کے علماء محدیثین اور اہل حل ہین ۔۔ میں پھر سے کہون گا کہ حجاج کے ظلم اس کے اچھے کاموں سے زیادہ ہیں۔ ۔۔۔ اچھے کام تو ابوجہل بھی کرتا ہوگا۔۔ بلکہ مختار نے بھی تو اچھے کام کئے ہونگے ۔۔ حسین رضہ کے قاتلین کو قتل کرنا اچھا کام ہی تھا پھر کذاب ہے۔
مختارثقفی جیسے کذاب کے متعلق تو مجھے پورا پورا یقینہے کہ وہ ہی اس قول کا پورا پورا حقدار ہے، البتہ امیر حجاج کے متعلق میں یہ قول نہیں مانتا۔ جتنا مبالغہ آرائی امیر حجاج کےلئے کی گئی ہے، اس سے تو کئی گنا زیادہ ظالم ، سفاکاور شفی المزاج لوگ اسلامی تاریخ میں گزرے ہیں، چند کے متعلق آپ میں آگاہ کردیتا ہوں، انکے بارے میںآپ تحقیق کرکے مجھے بتائیے کہ ان لوگوں نے کتنے بے گناہوں کومروایا تھا۔ تیمور لنگ، قرامطہ، صاحب الزنج، ۳۱۸ھ میں قرامطہ نے حج کے دوران حاجیوں کو قتل کیا اور خانۂ کعبہ کے اندر بھی قتل و غارتگری کی۔کعبہ کی محرابوں کو توڑنے کی کوشش کی اور پہلے توسنگ اسود کو گرز مارکر توڑ ڈالا پھر مقدس حجر اسود کو خانہ کعبہ سے اٹھا لیا اور اسے بحرین لے گئے جہاں ان کی حکومت تھی۔ بیس سال تک یہ مقدس پتھر بیت اللہ سے دور رہا۔ مزید بھی چند نام پتہ ہیں، جنکے بارے میں یہ یقینا کہا جاسکتا ہے کہ انہوں اس سے کہیں زیادہ قتل و غارتگری دکھائی تھی جتنی غالبا امیر حجاج سے منسوب کی جاتی ہے۔
مطلب یہ کہ صحابیہ کے آدہی تشریع کو آپ قبول کرتے ہیں ادہی کو آپ رد کرتے ہیں –کمال ہے-۔ مختار کذاب تھا اس کے کیا دلائل ہیں آپ کے پاس اس نے کم سے کم حجاج سے کم مسلمان قتل کئے تھے۔۔ قرامطہ کو کس نے اچھا کہا ہے ۔۔ کس نے انہیں مسلمان کہا ہے زرا ایک نام تو گنوائے ۔۔۔ اور قرامطہ کی مثال دے کر آپ خؤد قبول کر رہے ہیں کہ حجاج نے مکہ اور حرم میں ظلم کیا تھا لیکن قرامطہ سے کم۔۔ تو بھائی کم ہی صحیح کیا تو تھا۔۔۔
1. بلا شبہ ان مظالم نے حجاج کو بدنام کیا لیکن یہ بات بھی تاریخ میں ملتی ہے کہ اگر حجاج اس وقت اٹھ کھڑا نہ ہوتا تو مسلمان شاید اسی دور میں آپس میں لڑ کر جدا ہو گئے ہوتے
2. حجاج کی تقریر جو کہ اس نے کوفہ آمد پر کی ہمیں اس وقت کے حالات کے بارے میں سمجھنے میں آسانی دیتی ہے ساتھ ہی ہمیں حجاج کے بارے میں بھی بہت کچھ بتاتی ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
3. بخدا میں شر کو اس کے کجاوہ میں لاد دیتا ہوں اور جو جیسا کرتا ہے اس کو ویسا ہی بدلہ دیتا ہوں۔(حجاج کی تقریر کا حصہ)
4. میرا تقرر بڑی دانائی سے کیا گیا ہے اور مجھے بہت اہم فرائض انجام دینے ہیں۔ (حجاج کی تقریر کا حصہ)
5. امیر المومنین نے اپنے ترکش سے تمام تیر نکالے اورسب کو اپنے دانتوں سے کاٹا اور مجھے ہی سب سے سخت اور مضبوط پایا، اسی لئے انہوں نے مجھے تمہاریطرف بھیجا ہے کیونکہ عرصہ دراز سے فتنہ و فساد تمہارا شیوہ ہو گیا ہے اور بغاوت تمہارا دستور العمل (حجاج کی تقریر کا حصہ)
6. جن کاموں میں تم نے خود کو ڈالا ہوا ہے ان سے نکلو۔یا تو تم لوگ خود کو ٹھیک کر لو ورنہ یاد رکھو مہلب کی فوج سے جو لوگ بھاگ کر آئے ہیں وہ تین دن بعد یہاں نظر آئے تو ان کو قتل کر دوں گا اور ان کی جائداد ضبط کر لوں گا (حجاج کی تقریر کا حصہ)
7. یاتو تم لوگ میرے ہاتھ سے انصاف قبول کر لو فتنہ و فساد اور جھوٹی افواہوں سے باز آجاؤ (حجاج کی تقریر کا حصہ)
السلام علیکم
بھائی اس طرح کی تقاریر تو بڑے سے بڑے شریروں نے بھی کی ہیں بخدا مختار بھی بظاہر ایک اچھے دعوی کے لئے ہی نکلا تھا اور اسی طرح کی تقاریر کرتا تھا
دوم—حجاج بن یوسف کو کم سے حرمین میں اتنا ظلم نہیں کرنا چاہئے تھا کیوں کہ مروان کی حکومت عبداللہ بن زبیر رضہ کے مقابلہ میں ٹھیک نہیں تھی ، یزید کے بعد اگر کوئی خلیفہ تھا تو عبداللہ بن زبیر رضہ تھے نوی 90 فیصد اسلامی رقبہ پر ان کی بیعت ہوچکی تھی ۔۔۔۔۔۔ میں دلائل سے ثابت کر سکتا ہون لیکن یہان یہ موضوع نہیں۔
8. اس وقت حضرت زین العابدین، حضرت محمد بن الحنفیہ اور حضرت ابن عباس رض مکہ ہی میں مقیمرہے۔ اس لئے حجاج بن یوسف پر یہ الزام کہ اس نے بنی ہاشم پرمظالم کئے، بالکل بے بنیاد ہے (کعبہ جہاں حضرت عبداللہ بن زبیر رض پناہ لئے ہوئے تھے، اس پر سنگ باری اور حملہ کے باوجود اہل مکہ جہاں بنی ہاشم اور دیگرمسلمان موجود تھے، انکو کسی بھی قسم کا نقصان نہ پہنچانا، جسکا ثبوت اوپر تینوں حضرات کا مکہ میں موجودگی کے باوجود صحیح سلامترہنا)
یاد رہے حجاج بن یوسف طائف میں بہٹھ کر مکہ میں اپریشن کروا رہا تھا ۔۔۔ تاریخ کا مطالعہ کیجئے
9. جب بنی امیہ کے خلاف مختار ثقفی نے قاتلان حسین سے انتقام لینے کا دعویٰ کیا، تو سوائے چند کوفیوں کے جنکو مختار نے قتل کیا تھا، باقی قاتلان حسین ، اسکے ساتھ مل گئے۔ اور یہی وہ کوفی تھے جنکو امیر حجاج نے قتل کروایا تھا اور ان سے انتقام لیا۔
یہاں با ت کوفہ کی نہیں بلکہ مکہ میں صحابہ و صحابیات اور تابعین سے کئے گئے ظلم کی بات جارہی ہے اور آپ کوفہ میں کیوں گھوم رہے ہں-- اور جناب انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا واقعہ تو سب کو معلوم ہے اور وہ اسی بات کو لے کر شام گئے تھے لیکن وہاں خلفاء کے حالات دیکھ روتے رہ گئے اور رو رو کر ابوبکر و عمر رضہ کو یاد کرنے لگے۔۔ )حوالہ دیا جا سکتا ہے( مانگنے پر
10.امیر حجاج بن یوسف کے وہ قتل و غارتگری کے افسانے ، افسانے ہی ہیں جسمیں اسکو ایک ظالم درندہ ثابت کیا گیا ہے۔جس نے اہل بیت ، شیعوں اور عام مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ امیر حجاج نے صرف ان لوگوں سے انتقام لیا اور انکو قتل و غیرہ کیا جو شورش اور بغاوت میں عملی کردار ادا کررہے تھے اور بدقماش اور بدفطرت ٹائپ کےلوگ تھے۔ حکومت وقت کے لئے ایک خطرہ وپریشانی کا باعثبنے ہوئے تھے۔ اس لئے حجاج نے نہ صرف انہی لوگوں کو تہہ تیغ کیا جو حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ پرامن لوگوں اور بے گناہ لوگوں پر کبھی اس نے ہاتھ نہیں اٹھایا
بخدا حجاج بنوامیہ کا خاص تھا لیکن عبداللہ بن زبیر رضہ کے ہوتے بنو امیہ کے حکمران باغی تھے۔ اور اگر بالفرض حجاج کی قتل و غارت افسانہ ہی افسانہ ہے جیسا آپ سمجھتے ہیں تو میں برملا کہتا ہوں مختار کے لئے جو باتیں ہیں وہ بھی افسانہ ہی افسانہ ہیں----اور یہ افسانہ بنا کیسے ہے زرا اس پر بھی روشنی ڈالئے
جی تو محترم بھائی اب آئی آپ کوکچھ سمجھ کہ امیر حجاج پر یہ جو بے انتہاء قتل غارتگری و سفاکیت (اسمیں بھی مبالغہ آمیزی زیادہ ہے) اسکی حقیقت کیا ہے؟ ایمانداری سےبتائے کہ اگر آپ امیر حجاج کی جگہ ہوتے، اور آپکو انہی حالات سے واسطہ پڑتاجس سے امیر حجاج کا پڑا تھا، تو آپکا رویہ کیا ہوتا؟ کیا آپ اپنی حکومت کے چند بدمعاشوں، چوروں، قاتلوں، بدفطرت، اوباشوں کو کیا کھلا کھیل کھیلنے دیتے؟ کیا آپکی حکومت ایک جگہ مستحکم ہو، اور اس میں کوئی رخنے ڈالنے کی کوشش کرے، آپ اسکو کیا ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کے تحت نظارے کرتا دیکھو گے یا اسکے خلاف عملی اقدامات بھی کروگے؟ بالکل ایمانداری سے اگر آپ ان مناظر کو سوچوں گے تو آپ کو یہ چیز آسانیسے سمجھ آجائے گی جو میں آپکو سمجھانا چاہ رہا ہوں۔
اگر میں حجاج کی جگہ ہوتا یقنن عبداللہ بن زبیر رضہ کی بیعت کرتا کہ وہی خلیفہ برحق تھے۔ میں اس کی جگہ نہیں ہوں اس لئے اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے اور انشاء اللہ آج شکرانے کی نوافل بھی پڑہوں گا کہ میں اس کی جگہ نہین ہون۔
بخدا عبداللہ بن زبیر رضہ ہی تھے جنہوں نے مختار کے فتنہ کو ہمیشہ کے لئے ختم کیا اور عراق میں امن قائم کیا ۔۔ لیکن لوگوں کے کہنے طعنوں پر مروان اور اس کی زریت نے بجائے بیعت کرنے کے پھر سے جنگ و جدل شروع کردی --- ورنہ عبداللہ رضہ نے تو بلکل توجہ دینا شروع کی تھی امن و امان کے لئے اگر مروان بغاوت نہ کرتا تو آپ رضہ کی حکومت مستحکم ہوتی۔
نہیںجی میں سیدہ مظلوم کی عدالت کو چیلنچ نہیں کررہا (ویسے آپکی یہ بات پڑھتے ہوئے مجھے نہ جانے کو دسویں محرم کے شیعہ ذاکر یاد آگئے، کہ وہ بھی اسی قسم کی جذباتی باتوں کا سہارا لیکر سیدنا حسین رض کے خون کی دہائی دے کر امیر یزید رحمہ اللہ کو بہت لتاڑتے ہیں) بے شک سیدہ صاحبہ کے ساتھ غلط ہی ہوا۔ اور انکے بیٹے کو شہید کیا گیا، لیکن بھائی وہ صحابیہ ہونے کے ساتھ ایک ماں بھی تھیں، جو اپنے بیٹے کی لاش کو دیکھ کر شائد اپنے جذبات کو قابو نہ رکھ سکیں اور انکی زبان سے بے ساختہ یہ کلمات ادا ہوگئے۔ صحابی بے شک انسان ہی ہوتے ہیں، اور جسطرح ہر انسان ایک بہت ہی صدمے اور تاسف والی کیفیت میں اپنے جذبات کو مشکل سے قابو رکھتا ہے، اسی طرح کا معاملہ ہم ایک صحابی کے متعلق سوچ سکتے ہیں۔ ویسے بھی اہلسنت و الجماعت کا عقیدہ صحابی کو معصوم عندالخطاء یا سپر ہیومن ماننے جیسا نہیں ہے، کہ وہ ہر قسم کی کمزوری اور بشری تقاضوں سے بالکل ہی مبراء ہوں۔
ہاہا آپ کو شیعہ تو یاد آگئے لیکن آپ نے عین وہی بات اپنے دفاع میں لکھی ہے جو میں نے لکھی تھی کہ آپ ایسا سمجھتے ہیں-میری پوری بات پھر پڑہیں یہی جذبات کی بات میں نے کہیں تھی کہ آپ ایسا سمجھتے ہیں –
جیسا آپ کو سیدہ اسماء نے شاید عالم ارواع میں بتایا کہ مجھے سے یہ کلمات بے ساختہ نکلے ۔۔ مجھے بتائے آپ کی اس من مانی تشریع کو کسی ایک نے اختیار کیا ہے؟
اور ہاں ہم صحابہ کو معصوم نہیں مانتے لیکن شیعہ مجھے بھی یاد آگئے وہ بھی یہی پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ صحابی معصوم نہیں اس لئے ان کی جذبات میں کہی باتیں قابل قبول نہیں اسی لئے تو مختار وہ رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں اور ہاں اسد الغابہ اور الاستعیاب کے مصنف نے مختار کو صحابی کہا ہے ---لیکن الحمداللہ شدید جذبات میں آکر بھی صحابی و صحابیات چاہے ماں ہی ہوں کسی پر جھوٹ نہیں بولتے تھے نہ ہی کسی پر جذبات میں آکر الزام لگاتے تھے۔۔ہمارہ یہی عقیدہ ہے۔۔۔۔ حجاج نے ظلم ہی اتنا زیادہ کیا تھا کہ صحابیہ کہنے پر مجبور ہئیں۔
جی مجھے معلوم ہے، جبآنحضرت ﷺ کسی کے حق میں کوئ مذمتی بات کہتے تھے تواللَّهُمَّ إِنِّي أَتَّخِذُ عِنْدَكَ عَهْدًالَنْ تُخْلِفَنِيهِ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ فَأَيُّ الْمُؤْمِنِينَ آذَيْتُهُ شَتَمْتُهُ لَعَنْتُهُ جَلَدْتُهُ فَاجْعَلْهَا لَهُ صَلَاةً وَزَكَاةً وَقُرْبَةً تُقَرِّبُهُ بِهَا إِلَيْكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔۔۔ صحیح مسلماے اللہ! میں آپ سے عہد لیتا ہوں کہ میں انسانہوں۔ اگر میں نے کسی مسلمان کو اذیت پہنچائی ہو کہ اس پر برا کہا ہو، لعنت کی ہو، اسے کوڑے لگائے ہوں تو اسے اس کیلئے رحمت، تزکیہ اور قربت کا ذریعہ بنا دے ۔۔۔
واضح رہے کہ یہ معاملہ صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے، اس کا کافروں سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر نبی کریمﷺ ان پر لعنت یا بد دُعا فرمادیں تو وہ انکے لئے وبال بن جاتی ہے۔
اب بتائیے کہ کہ امیر حجاج کے حق میں یہ آنحضرت ﷺ کی بات کسقدر مفید ہوئی؟ وہبنوامیہ کا سب سے کامیاب گورنر بن گیا، جسکے عہد میں اسلام کا دائرہ کار یورپ، ہندوستان اور وسطی ایشیا اور افریقہ تک پھیل گیا۔ اور ایک اہم نقطہ، جس پر شائد ہی کسی کی توجہ پڑے کہ اسی صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ کی رو سے "رحمت اللہ علیہ" کا بھی حقدار بن گیا۔ باقی رہا مختار والیبات، تو اس کو جواب میں نیچے اطیمنان سے دونگا، تب تک اس چیز کو آپ سمجھیں۔
میرہ خیال ہے کہ اس حدیث کا اور ثقیف کذاب و مبیر والی حدیث کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔۔ یہان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شاید غصہ میں آکر کسی کو کچھ کہ دیتے ہونگے تو اس کا زکر ہے لیکن ثقیف والی حدیث تو ایک پیش گوئی ہے جیسے جیش مغفور لھم کی حدیث ایک پیش گوئی ہے۔۔ جسی ہر حال میں پورہ ہونا ہے ۔ اور الحمداللہ پوری ہوچکی کہ آج تک مختار جیسا کذاب ثقیف میں نہیں ہوا اور نہ ہی آج تک حجاج جیسا ظالم بھی ثقیف مین ہوا ہے ۔۔ اگر آپ کے پاس علم ہے تو ہمیں بتائیں۔ورنہ یہ حدیث ان پر فٹ ہے۔اور اس حدیث کو پیش کر کہ آپ نے ناچہتے ہوئے بھی سیدہ اسماء رضہ کی تشریح مان لی۔۔اگر حدیث ثقیف سے حجاج مراد ہی نہیں جیسا آپ کہتے ہیں تو یہ حدیث پیش کرنے کا کیاسبب ہے اپ ایک بات پر ٹکیں۔ ۔۔۔۔
برادرلیکن میںتو آپ کو پہلے نہیں جانتاتھا، اس پوسٹ کے علاوہ مجھے یاد نہیں کہ آپ کو میں نے کچھ رپلائی دئے ہوں، نیز اس فورم پر بھی میری موجودگی زیادہ پرانی نہیںہے، ابھی پچھلے سال ہی میں اس فورم پر رجسٹر ہوا تھا، اور بہت کم یہاں میری شراکتیں ہیں
میں اپ کو اسلامک فورم کے دور سے جانتا ہوں۔
اب بتائیے مجھےکہ جو شخص نبوت کا جھوٹا دعوے دارہو، کیا وہ حضور اکرم ﷺ کی رحمت کا مستحق ہوسکتا ہے؟ وہتو مسلمان بھی نہیں رہا، چئےجائکہ کسی معاملے میں اسکوچھوٹ دی جائے؟ ایک کافر کے حق میں رسول اکرم ﷺ کی بددعا یقینی مہلک ہے، یہ بات تو میں اوپر ہی لکھ چکا ہوں۔
سوال یہ ہے کہ اسکے دعوی کے لئے آپ کے پاس صحیح دلیل کیا ہے کہ اس نے یہ دعوی کیا تھا ؟ اسکین میں حوالہ سمجھ ہی نہیں ایا کہ کس کا ہے۔
بھائی اگر امتسے اس قول کو قبول کرنے کی غلطیہوہی گئیتو کیا یہ قبولیت جائز ہوگئی؟ امت نے تو بہت سارے شرکیہ افعال بھی قبول کرلئے ہیں وہ بھی تواتر کے ساتھ، یہ فورم بھرا پڑا ہے ان کے حالات سے، تو کیا ان اب سارے شرکیہ افعالو اعمال کو بالکل جائز مانا جائے کہ چونکہ یہ امت کرتی چلی آئی ہے اس لئے اب انکی قبولیت میں کوئی شک نہیں ہے۔ یاد رکھئے گا، ایک صحیح چیز صحیح ہوتی ہے، اور ایک غلط چیز غلط ہوتی ہے۔ تحقیق میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔ یہ تو میں اپنی گزشتہ دو تین پوسٹوں میں بدلائل ثابت کرچکا ہوں کہ امیر حجاج کے و قتل و غارتگری کے افسانوں کی حقیقت کیا ہے۔ تو اگر امیر حجاج سے ایک غلط قول منسوب ہوچکا ہے، اور اسکو بقول آپکے"امت نے تواتر کے ساتھ قبول" بھی کرلیا ہے، تو کیا وہ بالکل اتھنٹک ہی مانا جائے؟ ذرا حقیقت سے کام لیں، اور تحقیقی اور کھلا ذہن رکھ کر سوچیں۔ اس قول کو بھی آپ ایک اہل حدیث ہونے کے ناطے اچھی طرح جانتے ہیں کہمالک رحمه الله نے فرمايا : ہم ميں سے ہر ايک کا قول قابل رد ہے سواۓ اس صاحب قبر کے ، اور اللہ کے رسول صلى الله علیہ وسلم کی قبر کی طرف اشارہ کيا
صحیح بات ہے لیکن یہ بات غلط ہے اس امت شرکیہ افعال قبول کئے ہیں ۔ میاں آپ کو امت سے مراد کیا لیتے ہیں بابا کے قبے پر موجود بابا ۔۔ نہیں یہان امت سے مراد امت کے علماء محدیثین اور اہل حل ہین ۔۔ میں پھر سے کہون گا کہ حجاج کے ظلم اس کے اچھے کاموں سے زیادہ ہیں۔ ۔۔۔ اچھے کام تو ابوجہل بھی کرتا ہوگا۔۔ بلکہ مختار نے بھی تو اچھے کام کئے ہونگے ۔۔ حسین رضہ کے قاتلین کو قتل کرنا اچھا کام ہی تھا پھر کذاب ہے۔
مختارثقفی جیسے کذاب کے متعلق تو مجھے پورا پورا یقینہے کہ وہ ہی اس قول کا پورا پورا حقدار ہے، البتہ امیر حجاج کے متعلق میں یہ قول نہیں مانتا۔ جتنا مبالغہ آرائی امیر حجاج کےلئے کی گئی ہے، اس سے تو کئی گنا زیادہ ظالم ، سفاکاور شفی المزاج لوگ اسلامی تاریخ میں گزرے ہیں، چند کے متعلق آپ میں آگاہ کردیتا ہوں، انکے بارے میںآپ تحقیق کرکے مجھے بتائیے کہ ان لوگوں نے کتنے بے گناہوں کومروایا تھا۔ تیمور لنگ، قرامطہ، صاحب الزنج، ۳۱۸ھ میں قرامطہ نے حج کے دوران حاجیوں کو قتل کیا اور خانۂ کعبہ کے اندر بھی قتل و غارتگری کی۔کعبہ کی محرابوں کو توڑنے کی کوشش کی اور پہلے توسنگ اسود کو گرز مارکر توڑ ڈالا پھر مقدس حجر اسود کو خانہ کعبہ سے اٹھا لیا اور اسے بحرین لے گئے جہاں ان کی حکومت تھی۔ بیس سال تک یہ مقدس پتھر بیت اللہ سے دور رہا۔ مزید بھی چند نام پتہ ہیں، جنکے بارے میں یہ یقینا کہا جاسکتا ہے کہ انہوں اس سے کہیں زیادہ قتل و غارتگری دکھائی تھی جتنی غالبا امیر حجاج سے منسوب کی جاتی ہے۔
مطلب یہ کہ صحابیہ کے آدہی تشریع کو آپ قبول کرتے ہیں ادہی کو آپ رد کرتے ہیں –کمال ہے-۔ مختار کذاب تھا اس کے کیا دلائل ہیں آپ کے پاس اس نے کم سے کم حجاج سے کم مسلمان قتل کئے تھے۔۔ قرامطہ کو کس نے اچھا کہا ہے ۔۔ کس نے انہیں مسلمان کہا ہے زرا ایک نام تو گنوائے ۔۔۔ اور قرامطہ کی مثال دے کر آپ خؤد قبول کر رہے ہیں کہ حجاج نے مکہ اور حرم میں ظلم کیا تھا لیکن قرامطہ سے کم۔۔ تو بھائی کم ہی صحیح کیا تو تھا۔۔۔