• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حجاج بن یوسف رحمہ اللہ خدمات کا مختصر تعارف

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
وعلیکمالسلام بھائی، ٹھیک ہے آپ کے لئے یہی دلیل کافی ہے، لیکن کبھی آپ نے سوچا کہ امیر حجاج کو اس قدر قتل وغارتگری کرنے کی ضرورت کیوں پیشآئی؟ اور اسکی اس مبینہ سفاکی کا نشانہ کون لوگ بنے؟ اسکے لئے میں نے اپنی گزشتہ دو پوسٹوں میں کچھ نکات بھی تحریر کئے تھے، شائد محترم بھائی نے اس پر توجہ نہیں ڈالی۔ خیر میں دوبارہ سے یہاں نمبر وار تحریر کردیتا ہوں۔

1. بلا شبہ ان مظالم نے حجاج کو بدنام کیا لیکن یہ بات بھی تاریخ میں ملتی ہے کہ اگر حجاج اس وقت اٹھ کھڑا نہ ہوتا تو مسلمان شاید اسی دور میں آپس میں لڑ کر جدا ہو گئے ہوتے

2. حجاج کی تقریر جو کہ اس نے کوفہ آمد پر کی ہمیں اس وقت کے حالات کے بارے میں سمجھنے میں آسانی دیتی ہے ساتھ ہی ہمیں حجاج کے بارے میں بھی بہت کچھ بتاتی ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

3. بخدا میں شر کو اس کے کجاوہ میں لاد دیتا ہوں اور جو جیسا کرتا ہے اس کو ویسا ہی بدلہ دیتا ہوں۔(حجاج کی تقریر کا حصہ)

4. میرا تقرر بڑی دانائی سے کیا گیا ہے اور مجھے بہت اہم فرائض انجام دینے ہیں۔ (حجاج کی تقریر کا حصہ)

5. امیر المومنین نے اپنے ترکش سے تمام تیر نکالے اورسب کو اپنے دانتوں سے کاٹا اور مجھے ہی سب سے سخت اور مضبوط پایا، اسی لئے انہوں نے مجھے تمہاریطرف بھیجا ہے کیونکہ عرصہ دراز سے فتنہ و فساد تمہارا شیوہ ہو گیا ہے اور بغاوت تمہارا دستور العمل (حجاج کی تقریر کا حصہ)


6. جن کاموں میں تم نے خود کو ڈالا ہوا ہے ان سے نکلو۔یا تو تم لوگ خود کو ٹھیک کر لو ورنہ یاد رکھو مہلب کی فوج سے جو لوگ بھاگ کر آئے ہیں وہ تین دن بعد یہاں نظر آئے تو ان کو قتل کر دوں گا اور ان کی جائداد ضبط کر لوں گا (حجاج کی تقریر کا حصہ)

7. یاتو تم لوگ میرے ہاتھ سے انصاف قبول کر لو فتنہ و فساد اور جھوٹی افواہوں سے باز آجاؤ (حجاج کی تقریر کا حصہ)


السلام علیکم

بھائی اس طرح کی تقاریر تو بڑے سے بڑے شریروں نے بھی کی ہیں بخدا مختار بھی بظاہر ایک اچھے دعوی کے لئے ہی نکلا تھا اور اسی طرح کی تقاریر کرتا تھا

دوم—حجاج بن یوسف کو کم سے حرمین میں اتنا ظلم نہیں کرنا چاہئے تھا کیوں کہ مروان کی حکومت عبداللہ بن زبیر رضہ کے مقابلہ میں ٹھیک نہیں تھی ، یزید کے بعد اگر کوئی خلیفہ تھا تو عبداللہ بن زبیر رضہ تھے نوی 90 فیصد اسلامی رقبہ پر ان کی بیعت ہوچکی تھی ۔۔۔۔۔۔ میں دلائل سے ثابت کر سکتا ہون لیکن یہان یہ موضوع نہیں۔

8. اس وقت حضرت زین العابدین، حضرت محمد بن الحنفیہ اور حضرت ابن عباس رض مکہ ہی میں مقیمرہے۔ اس لئے حجاج بن یوسف پر یہ الزام کہ اس نے بنی ہاشم پرمظالم کئے، بالکل بے بنیاد ہے (کعبہ جہاں حضرت عبداللہ بن زبیر رض پناہ لئے ہوئے تھے، اس پر سنگ باری اور حملہ کے باوجود اہل مکہ جہاں بنی ہاشم اور دیگرمسلمان موجود تھے، انکو کسی بھی قسم کا نقصان نہ پہنچانا، جسکا ثبوت اوپر تینوں حضرات کا مکہ میں موجودگی کے باوجود صحیح سلامترہنا)


یاد رہے حجاج بن یوسف طائف میں بہٹھ کر مکہ میں اپریشن کروا رہا تھا ۔۔۔ تاریخ کا مطالعہ کیجئے


9. جب بنی امیہ کے خلاف مختار ثقفی نے قاتلان حسین سے انتقام لینے کا دعویٰ کیا، تو سوائے چند کوفیوں کے جنکو مختار نے قتل کیا تھا، باقی قاتلان حسین ، اسکے ساتھ مل گئے۔ اور یہی وہ کوفی تھے جنکو امیر حجاج نے قتل کروایا تھا اور ان سے انتقام لیا۔


یہاں با ت کوفہ کی نہیں بلکہ مکہ میں صحابہ و صحابیات اور تابعین سے کئے گئے ظلم کی بات جارہی ہے اور آپ کوفہ میں کیوں گھوم رہے ہں-- اور جناب انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا واقعہ تو سب کو معلوم ہے اور وہ اسی بات کو لے کر شام گئے تھے لیکن وہاں خلفاء کے حالات دیکھ روتے رہ گئے اور رو رو کر ابوبکر و عمر رضہ کو یاد کرنے لگے۔۔ )حوالہ دیا جا سکتا ہے( مانگنے پر


10.امیر حجاج بن یوسف کے وہ قتل و غارتگری کے افسانے ، افسانے ہی ہیں جسمیں اسکو ایک ظالم درندہ ثابت کیا گیا ہے۔جس نے اہل بیت ، شیعوں اور عام مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ امیر حجاج نے صرف ان لوگوں سے انتقام لیا اور انکو قتل و غیرہ کیا جو شورش اور بغاوت میں عملی کردار ادا کررہے تھے اور بدقماش اور بدفطرت ٹائپ کےلوگ تھے۔ حکومت وقت کے لئے ایک خطرہ وپریشانی کا باعثبنے ہوئے تھے۔ اس لئے حجاج نے نہ صرف انہی لوگوں کو تہہ تیغ کیا جو حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ پرامن لوگوں اور بے گناہ لوگوں پر کبھی اس نے ہاتھ نہیں اٹھایا


بخدا حجاج بنوامیہ کا خاص تھا لیکن عبداللہ بن زبیر رضہ کے ہوتے بنو امیہ کے حکمران باغی تھے۔ اور اگر بالفرض حجاج کی قتل و غارت افسانہ ہی افسانہ ہے جیسا آپ سمجھتے ہیں تو میں برملا کہتا ہوں مختار کے لئے جو باتیں ہیں وہ بھی افسانہ ہی افسانہ ہیں----اور یہ افسانہ بنا کیسے ہے زرا اس پر بھی روشنی ڈالئے


جی تو محترم بھائی اب آئی آپ کوکچھ سمجھ کہ امیر حجاج پر یہ جو بے انتہاء قتل غارتگری و سفاکیت (اسمیں بھی مبالغہ آمیزی زیادہ ہے) اسکی حقیقت کیا ہے؟ ایمانداری سےبتائے کہ اگر آپ امیر حجاج کی جگہ ہوتے، اور آپکو انہی حالات سے واسطہ پڑتاجس سے امیر حجاج کا پڑا تھا، تو آپکا رویہ کیا ہوتا؟ کیا آپ اپنی حکومت کے چند بدمعاشوں، چوروں، قاتلوں، بدفطرت، اوباشوں کو کیا کھلا کھیل کھیلنے دیتے؟ کیا آپکی حکومت ایک جگہ مستحکم ہو، اور اس میں کوئی رخنے ڈالنے کی کوشش کرے، آپ اسکو کیا ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کے تحت نظارے کرتا دیکھو گے یا اسکے خلاف عملی اقدامات بھی کروگے؟ بالکل ایمانداری سے اگر آپ ان مناظر کو سوچوں گے تو آپ کو یہ چیز آسانیسے سمجھ آجائے گی جو میں آپکو سمجھانا چاہ رہا ہوں۔

اگر میں حجاج کی جگہ ہوتا یقنن عبداللہ بن زبیر رضہ کی بیعت کرتا کہ وہی خلیفہ برحق تھے۔ میں اس کی جگہ نہیں ہوں اس لئے اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے اور انشاء اللہ آج شکرانے کی نوافل بھی پڑہوں گا کہ میں اس کی جگہ نہین ہون۔
بخدا عبداللہ بن زبیر رضہ ہی تھے جنہوں نے مختار کے فتنہ کو ہمیشہ کے لئے ختم کیا اور عراق میں امن قائم کیا ۔۔ لیکن لوگوں کے کہنے طعنوں پر مروان اور اس کی زریت نے بجائے بیعت کرنے کے پھر سے جنگ و جدل شروع کردی --- ورنہ عبداللہ رضہ نے تو بلکل توجہ دینا شروع کی تھی امن و امان کے لئے اگر مروان بغاوت نہ کرتا تو آپ رضہ کی حکومت مستحکم ہوتی۔


نہیںجی میں سیدہ مظلوم کی عدالت کو چیلنچ نہیں کررہا (ویسے آپکی یہ بات پڑھتے ہوئے مجھے نہ جانے کو دسویں محرم کے شیعہ ذاکر یاد آگئے، کہ وہ بھی اسی قسم کی جذباتی باتوں کا سہارا لیکر سیدنا حسین رض کے خون کی دہائی دے کر امیر یزید رحمہ اللہ کو بہت لتاڑتے ہیں) بے شک سیدہ صاحبہ کے ساتھ غلط ہی ہوا۔ اور انکے بیٹے کو شہید کیا گیا، لیکن بھائی وہ صحابیہ ہونے کے ساتھ ایک ماں بھی تھیں، جو اپنے بیٹے کی لاش کو دیکھ کر شائد اپنے جذبات کو قابو نہ رکھ سکیں اور انکی زبان سے بے ساختہ یہ کلمات ادا ہوگئے۔ صحابی بے شک انسان ہی ہوتے ہیں، اور جسطرح ہر انسان ایک بہت ہی صدمے اور تاسف والی کیفیت میں اپنے جذبات کو مشکل سے قابو رکھتا ہے، اسی طرح کا معاملہ ہم ایک صحابی کے متعلق سوچ سکتے ہیں۔ ویسے بھی اہلسنت و الجماعت کا عقیدہ صحابی کو معصوم عندالخطاء یا سپر ہیومن ماننے جیسا نہیں ہے، کہ وہ ہر قسم کی کمزوری اور بشری تقاضوں سے بالکل ہی مبراء ہوں۔

ہاہا آپ کو شیعہ تو یاد آگئے لیکن آپ نے عین وہی بات اپنے دفاع میں لکھی ہے جو میں نے لکھی تھی کہ آپ ایسا سمجھتے ہیں-میری پوری بات پھر پڑہیں یہی جذبات کی بات میں نے کہیں تھی کہ آپ ایسا سمجھتے ہیں –
جیسا آپ کو سیدہ اسماء نے شاید عالم ارواع میں بتایا کہ مجھے سے یہ کلمات بے ساختہ نکلے ۔۔ مجھے بتائے آپ کی اس من مانی تشریع کو کسی ایک نے اختیار کیا ہے؟
اور ہاں ہم صحابہ کو معصوم نہیں مانتے لیکن شیعہ مجھے بھی یاد آگئے وہ بھی یہی پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ صحابی معصوم نہیں اس لئے ان کی جذبات میں کہی باتیں قابل قبول نہیں اسی لئے تو مختار وہ رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں اور ہاں اسد الغابہ اور الاستعیاب کے مصنف نے مختار کو صحابی کہا ہے ---لیکن الحمداللہ شدید جذبات میں آکر بھی صحابی و صحابیات چاہے ماں ہی ہوں کسی پر جھوٹ نہیں بولتے تھے نہ ہی کسی پر جذبات میں آکر الزام لگاتے تھے۔۔ہمارہ یہی عقیدہ ہے۔۔۔۔ حجاج نے ظلم ہی اتنا زیادہ کیا تھا کہ صحابیہ کہنے پر مجبور ہئیں۔

جی مجھے معلوم ہے، جبآنحضرت ﷺ کسی کے حق میں کوئ مذمتی بات کہتے تھے تواللَّهُمَّ إِنِّي أَتَّخِذُ عِنْدَكَ عَهْدًالَنْ تُخْلِفَنِيهِ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ فَأَيُّ الْمُؤْمِنِينَ آذَيْتُهُ شَتَمْتُهُ لَعَنْتُهُ جَلَدْتُهُ فَاجْعَلْهَا لَهُ صَلَاةً وَزَكَاةً وَقُرْبَةً تُقَرِّبُهُ بِهَا إِلَيْكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔۔۔ صحیح مسلماے اللہ! میں آپ سے عہد لیتا ہوں کہ میں انسانہوں۔ اگر میں نے کسی مسلمان کو اذیت پہنچائی ہو کہ اس پر برا کہا ہو، لعنت کی ہو، اسے کوڑے لگائے ہوں تو اسے اس کیلئے رحمت، تزکیہ اور قربت کا ذریعہ بنا دے ۔۔۔
واضح رہے کہ یہ معاملہ صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے، اس کا کافروں سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر نبی کریمﷺ ان پر لعنت یا بد دُعا فرمادیں تو وہ انکے لئے وبال بن جاتی ہے۔
اب بتائیے کہ کہ امیر حجاج کے حق میں یہ آنحضرت ﷺ کی بات کسقدر مفید ہوئی؟ وہبنوامیہ کا سب سے کامیاب گورنر بن گیا، جسکے عہد میں اسلام کا دائرہ کار یورپ، ہندوستان اور وسطی ایشیا اور افریقہ تک پھیل گیا۔ اور ایک اہم نقطہ، جس پر شائد ہی کسی کی توجہ پڑے کہ اسی صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ کی رو سے "رحمت اللہ علیہ" کا بھی حقدار بن گیا۔ باقی رہا مختار والیبات، تو اس کو جواب میں نیچے اطیمنان سے دونگا، تب تک اس چیز کو آپ سمجھیں۔


میرہ خیال ہے کہ اس حدیث کا اور ثقیف کذاب و مبیر والی حدیث کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔۔ یہان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شاید غصہ میں آکر کسی کو کچھ کہ دیتے ہونگے تو اس کا زکر ہے لیکن ثقیف والی حدیث تو ایک پیش گوئی ہے جیسے جیش مغفور لھم کی حدیث ایک پیش گوئی ہے۔۔ جسی ہر حال میں پورہ ہونا ہے ۔ اور الحمداللہ پوری ہوچکی کہ آج تک مختار جیسا کذاب ثقیف میں نہیں ہوا اور نہ ہی آج تک حجاج جیسا ظالم بھی ثقیف مین ہوا ہے ۔۔ اگر آپ کے پاس علم ہے تو ہمیں بتائیں۔ورنہ یہ حدیث ان پر فٹ ہے۔اور اس حدیث کو پیش کر کہ آپ نے ناچہتے ہوئے بھی سیدہ اسماء رضہ کی تشریح مان لی۔۔اگر حدیث ثقیف سے حجاج مراد ہی نہیں جیسا آپ کہتے ہیں تو یہ حدیث پیش کرنے کا کیاسبب ہے اپ ایک بات پر ٹکیں۔ ۔۔۔۔

برادرلیکن میںتو آپ کو پہلے نہیں جانتاتھا، اس پوسٹ کے علاوہ مجھے یاد نہیں کہ آپ کو میں نے کچھ رپلائی دئے ہوں، نیز اس فورم پر بھی میری موجودگی زیادہ پرانی نہیںہے، ابھی پچھلے سال ہی میں اس فورم پر رجسٹر ہوا تھا، اور بہت کم یہاں میری شراکتیں ہیں

میں اپ کو اسلامک فورم کے دور سے جانتا ہوں۔

اب بتائیے مجھےکہ جو شخص نبوت کا جھوٹا دعوے دارہو، کیا وہ حضور اکرم ﷺ کی رحمت کا مستحق ہوسکتا ہے؟ وہتو مسلمان بھی نہیں رہا، چئےجائکہ کسی معاملے میں اسکوچھوٹ دی جائے؟ ایک کافر کے حق میں رسول اکرم ﷺ کی بددعا یقینی مہلک ہے، یہ بات تو میں اوپر ہی لکھ چکا ہوں۔


سوال یہ ہے کہ اسکے دعوی کے لئے آپ کے پاس صحیح دلیل کیا ہے کہ اس نے یہ دعوی کیا تھا ؟ اسکین میں حوالہ سمجھ ہی نہیں ایا کہ کس کا ہے۔


بھائی اگر امتسے اس قول کو قبول کرنے کی غلطیہوہی گئیتو کیا یہ قبولیت جائز ہوگئی؟ امت نے تو بہت سارے شرکیہ افعال بھی قبول کرلئے ہیں وہ بھی تواتر کے ساتھ، یہ فورم بھرا پڑا ہے ان کے حالات سے، تو کیا ان اب سارے شرکیہ افعالو اعمال کو بالکل جائز مانا جائے کہ چونکہ یہ امت کرتی چلی آئی ہے اس لئے اب انکی قبولیت میں کوئی شک نہیں ہے۔ یاد رکھئے گا، ایک صحیح چیز صحیح ہوتی ہے، اور ایک غلط چیز غلط ہوتی ہے۔ تحقیق میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔ یہ تو میں اپنی گزشتہ دو تین پوسٹوں میں بدلائل ثابت کرچکا ہوں کہ امیر حجاج کے و قتل و غارتگری کے افسانوں کی حقیقت کیا ہے۔ تو اگر امیر حجاج سے ایک غلط قول منسوب ہوچکا ہے، اور اسکو بقول آپکے"امت نے تواتر کے ساتھ قبول" بھی کرلیا ہے، تو کیا وہ بالکل اتھنٹک ہی مانا جائے؟ ذرا حقیقت سے کام لیں، اور تحقیقی اور کھلا ذہن رکھ کر سوچیں۔ اس قول کو بھی آپ ایک اہل حدیث ہونے کے ناطے اچھی طرح جانتے ہیں کہمالک رحمه الله نے فرمايا : ہم ميں سے ہر ايک کا قول قابل رد ہے سواۓ اس صاحب قبر کے ، اور اللہ کے رسول صلى الله علیہ وسلم کی قبر کی طرف اشارہ کيا


صحیح بات ہے لیکن یہ بات غلط ہے اس امت شرکیہ افعال قبول کئے ہیں ۔ میاں آپ کو امت سے مراد کیا لیتے ہیں بابا کے قبے پر موجود بابا ۔۔ نہیں یہان امت سے مراد امت کے علماء محدیثین اور اہل حل ہین ۔۔ میں پھر سے کہون گا کہ حجاج کے ظلم اس کے اچھے کاموں سے زیادہ ہیں۔ ۔۔۔ اچھے کام تو ابوجہل بھی کرتا ہوگا۔۔ بلکہ مختار نے بھی تو اچھے کام کئے ہونگے ۔۔ حسین رضہ کے قاتلین کو قتل کرنا اچھا کام ہی تھا پھر کذاب ہے۔


مختارثقفی جیسے کذاب کے متعلق تو مجھے پورا پورا یقینہے کہ وہ ہی اس قول کا پورا پورا حقدار ہے، البتہ امیر حجاج کے متعلق میں یہ قول نہیں مانتا۔ جتنا مبالغہ آرائی امیر حجاج کےلئے کی گئی ہے، اس سے تو کئی گنا زیادہ ظالم ، سفاکاور شفی المزاج لوگ اسلامی تاریخ میں گزرے ہیں، چند کے متعلق آپ میں آگاہ کردیتا ہوں، انکے بارے میںآپ تحقیق کرکے مجھے بتائیے کہ ان لوگوں نے کتنے بے گناہوں کومروایا تھا۔ تیمور لنگ، قرامطہ، صاحب الزنج، ۳۱۸ھ میں قرامطہ نے حج کے دوران حاجیوں کو قتل کیا اور خانۂ کعبہ کے اندر بھی قتل و غارتگری کی۔کعبہ کی محرابوں کو توڑنے کی کوشش کی اور پہلے توسنگ اسود کو گرز مارکر توڑ ڈالا پھر مقدس حجر اسود کو خانہ کعبہ سے اٹھا لیا اور اسے بحرین لے گئے جہاں ان کی حکومت تھی۔ بیس سال تک یہ مقدس پتھر بیت اللہ سے دور رہا۔ مزید بھی چند نام پتہ ہیں، جنکے بارے میں یہ یقینا کہا جاسکتا ہے کہ انہوں اس سے کہیں زیادہ قتل و غارتگری دکھائی تھی جتنی غالبا امیر حجاج سے منسوب کی جاتی ہے۔


مطلب یہ کہ صحابیہ کے آدہی تشریع کو آپ قبول کرتے ہیں ادہی کو آپ رد کرتے ہیں –کمال ہے-۔ مختار کذاب تھا اس کے کیا دلائل ہیں آپ کے پاس اس نے کم سے کم حجاج سے کم مسلمان قتل کئے تھے۔۔ قرامطہ کو کس نے اچھا کہا ہے ۔۔ کس نے انہیں مسلمان کہا ہے زرا ایک نام تو گنوائے ۔۔۔ اور قرامطہ کی مثال دے کر آپ خؤد قبول کر رہے ہیں کہ حجاج نے مکہ اور حرم میں ظلم کیا تھا لیکن قرامطہ سے کم۔۔ تو بھائی کم ہی صحیح کیا تو تھا۔۔۔
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
بھائی اس طرح کی تقاریر تو بڑے سے بڑے شریروں نے بھی کی ہیں بخدا مختار بھی بظاہر ایک اچھے دعوی کے لئے ہی نکلا تھا اور اسی طرح کی تقاریر کرتا تھا
وعلیکم السلام برادر
بھائ اصل میں آپ نے دل میں جب ایک چیز کی ٹھان ہی لی ہے نا کہ امیر حجاج کی برائی ہی کرنا ہے تو اب انکی ہر ہر بات میں لامحالہ کوئی نہ کوئی عیب ہی نظر آئے گا، چاہے وہ کتنی ہی مستحسن کیوں نہ ہو۔ محبوب اگر بھینگا اور کالا بھی ہو تو شہزادہ گلفام نظر آتا ہے اور اپنے گھر کی مرغی دال برابر ہوتی ہے۔ امید ہے مثال سے آپ وہ بات سمجھ گئے ہونگے جو میں سمجھانا چاہتا ہوں۔ حجاج کی تقریر یہاں بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ آپ ان حالات سے واقف ہوں جنکو رفع کرنے کے لئے امیر المومنین عبدالملک بن مروان نے انکی تقرری کی تھی۔ مختار کذاب ہر گز اچھے ارادے کے لئے نہیں نکلا تھا، بلکہ اسکے ارادے کچھ اور ہی تھے۔ وہ صرف اہل بیت کا نام استعمال کرکے اور مخالفین اہل بیت کا خاتمہ کرکے اپنی حکومت و خلافت کا خواب دیکھ رہا تھا۔ آگے اس اسلسلے میں یہ ریفرنس بھی دونگا۔ بے فکر رہیں

حجاج بن یوسف کو کم سے حرمین میں اتنا ظلم نہیں کرنا چاہئے تھا کیوں کہ مروان کی حکومت عبداللہ بن زبیر رضہ کے مقابلہ میں ٹھیک نہیں تھی ، یزید کے بعد اگر کوئی خلیفہ تھا تو عبداللہ بن زبیر رضہ تھے نوی 90 فیصد اسلامی رقبہ پر ان کی بیعت ہوچکی تھی
ارے بھائی یہ حرمین پر حجاج کے ظلم و ستم کے افسانے صرف افسانے ہی ہیں، اس میں سچائی کم اور مبالغہ آرائی زیادہ ہے۔ ٹھیک ہے امیر حجاج نے مکہ و مدینہ میں چڑھائی کی اور خانہ کعبہ پر سنگ باری بھی کی، لیکن انہی لوگوں کو عتاب میں رکھا جو اسکے خلاف صف آراء ہوئے اور جنگ آزما ہوئے، باقی لوگ جو جنگ سے دور تھے، انکو امیر حجاج نے کچھ نقصان نہ پہنچایا۔ اور اکابر صحابہ و تابعین نے تو عبداللہ ابن زبیر رض کو چھوڑ کر امیر حجاج کے ہاتھوں عبدالملک کی بیعت کرلی تھی، ملاحظہ ہو تاریخ ابن خلدون سے کچھ ریفرنس
2.jpg


3.jpg

بنو امیہ کی خلافت کو بھی اکابر صحابہ جیسے ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنھم نے قبول کیا۔ صحیح بخاری میں ہے:

عبداللہ بن دینار کہتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس تھا جب لوگ عبدالملک (کی حکومت) پر متفق ہوئے۔ اس وقت ابن عمر نے (ابن الملک) کو لکھا: "میں اپنی ستطاعت کی حد تک اللہ کے بندے عبدالملک امیر المومنین کی سمع اور طاعت کا، اللہ کی سنت اور اسکے رسول کی سنت کے دائرے میں اقرار کرتا ہوں۔ میری اولاد بھی اسی کی طرح اس بات کا اقرار کرتی ہے۔ (صحیح بخاری ، کتاب الاحکام حدیث 6777)

ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ملا تو کہنے لگے" کیا آپ لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ابن زبیر خلافت کے لئے کھڑے ہوئے ہیں؟ میں نے دل میں سوچا ہے کہ میں غور کرونگا کہ آیا وہ اس کے مستحق ہیں یا نہیں۔ میں نے ابوبکر و عمر کی خلافت کے معاملے میں کبھی غور نہیں کیا کیونکہ وہ طرح سے اس کے لائق تھے۔ پھر میں نے دل میں سوچا کہ وہ ( ابن زبیر) تو نبی ﷺ کی پھوپھی کے بیٹے (پوتے) اور زبیر بن عوام کے صاحبزادے ہیں جو کہ عشرہ مبشرہ میں داخل ہیں۔ یہ حضور اکرم ﷺ کے یار غار (ابوبکر) کے نواسے ہیں اور سیدہ خدیجہ کے بھائی کےبھائی کے بیٹے ہیں اور سیدہ اسماء کے بیٹے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ وہ خود کو مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں اور اس بات کی کوشش نہیں کرتے کہ میں انکا مقرب بن جاؤں۔ میں اپنے دل میں ان سے نہ کھنچوں گا لیکن ابن زبیر میری طرف توجہ نہیں کرتے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں کچھ بھلائی محسوس کرتے ہوں، لیکن اب میں اپنے چچا کے بیٹے (عبدالملک) کی بیعت کرلونگا کیونکہ کسی غیر کے حاکم ہونے سے بہتر ہے کہ ہمارے عزیز حاکم ہوں۔

صحیح بخاری۔ کتاب التفسیر۔ حدیث 4389
اور حضرت عبداللہ بن زیبر کی حکومت کسطرح 90 فی صد منعقد ہوگئی تھی، شام کا علاقہ بدستور انکی خلافت سے دور رہا، کوفہ اور مشرقی صوبہ مختار کے قبضے میں آگئے تھے۔ مصر بھی انکے قبضے میں نہ تھا۔ صرف حجاز اور اسکے ملحقہ علاقے ہی حضرت عبداللہ بن زبیر رض کے قبضے میں تھے۔
اور عبداللہ بن زبیر رض سے جب بنوامیہ کے حامیوں نے امیر یزید رحمہ اللہ کی وفات کے بعد شام چل کر بیعت لینے کا کہا گیا تو انہوں نے اسکو اپنی ناسمجھی میں ٹھکرا دیا تھا، اور ایک متفقہ خلافت کی راہ خود ہی ختم کردی تھی۔ تاریخ ابن خلدون سے یہ دیکھئے ریفرنس

1.jpg


حتی کے ابن زبیر کے اپنے خود کے لڑکے بھی امیر حجاج کے کیمپ میں چلے گئے تھے اور انکے ساتھ فقط بس مٹھی بھر ساتھی ہی رہ گئے تھے۔ تاریخ ابن خلدون سے ملاحظہ ہو

5.jpg


یاد رہے حجاج بن یوسف طائف میں بہٹھ کر مکہ میں اپریشن کروا رہا تھا ۔۔۔ تاریخ کا مطالعہ کیجئے
اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ کہاں بیٹھ کر یہ آپریشن کروارہا تھا۔ آپ ان ریفرنسز کو دیکھئے اور مجھے بتایں کہ کیا یہ غلط ہیں، اگر عبداللہ بن زبیر اور انکے حامی کے ساتھ ساتھ امیر حجاج نے اہل مکہ کو بھی تہہ تیغ کیا تھا تو یہ اکابر صحابہ و تابعین جیسے عبداللہ بن عباس و علی زین العابدین و ابن حنفیہ جیسے افراد کیسے زندہ بچ گئے؟ ذرا آپ ہی تاریخ کا مطالعہ کرکے مجھے بتائیے

یہاں با ت کوفہ کی نہیں بلکہ مکہ میں صحابہ و صحابیات اور تابعین سے کئے گئے ظلم کی بات جارہی ہے اور آپ کوفہ میں کیوں گھوم رہے ہں-- اور جناب انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا واقعہ تو سب کو معلوم ہے اور وہ اسی بات کو لے کر شام گئے تھے لیکن وہاں خلفاء کے حالات دیکھ روتے رہ گئے اور رو رو کر ابوبکر و عمر رضہ کو یاد کرنے لگے۔۔ )حوالہ دیا جا سکتا ہے( مانگنے پر
امیر حجاج کے ہاتھوں جو صحابہ و تابعین وغیرہ کی بے حرمتی و ظلم کے افسانے جو مشہور کئے گئے، آئیے میں اسکی حقیقت سے آپ کو آگاہ کرتا ہوں
تاریخ طبری میں ہے کہ حجاج بن یوسف نے بعض صحابہ جیسے حضرت جابر بن عبداللہ، انس بن مالک اور سہل بن سعد رضی اللہ عنھم پر بھی تشدد کیا اور انکے داغ لگوائے۔ طبری میں یہ روایت سن 74/694 کے باب کے شروع میں بیان ہوئی ہے۔ انہوں نے اس روایت کی منقطع اسناد یوں بیان کی ہے: عن ابن ابی ذئب عن اسحاق بن یزید، اور حدثنی شرجیل بن ابی عون عن ابیہ۔ طبری اور ان واقعات کے درمیان دو سو برس کا طویل زمانہ ہے اور یہ ممکن نہیں کہ محض دو واسطوں سے یہ روایت ان تک پہنچی ہو۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ نامعلوم لوگ کس درجے میں قابل اعتماد تھے۔ درایت کے اعتبار سے بھی یہ روایت قرین قیاس نہیں ہے، کیونکہ جیسے جیسے اصحاب الرسول ﷺ دنیا سے رخصت ہوتے جارہے تھے، باقی ماندہ صحابہ کی قدر منزلت لوگوں کی نظر میں بہت زیادہ بڑھ رہی تھی۔ اس دور میں جب قلیل تعداد میں ضعیف العمر صحابہ باقی رہ گئے تھے، ان کے ساتھ اتنی گستاخی کی جاتی تو لوگ کوئی احتجاج نہ کرتے۔ یہ کام حجاج جیسے شخص کے لئے بھی ممکن نہ تھا۔ عین ممکن ہے کہ حجاج کے مظالم کی داستانیں اس پراپیگنڈہ کا حصہ ہوں جو بنو عباس نے بنو امیہ کی حکومت گرانے کے لئے کیا تھا۔

باقی اگر آپکا وہ خلفائے کا حالات دیکھ کر رونا اور ابی بکر و عمر رض کو یاد کرنا، میرے خیال سے وہ چیز موضوع سے متاطبقت نہیں رکھتی۔ اس لئے اسکو یہاں پیش کرنا عبث ہی ہوگا؎

بخدا حجاج بنوامیہ کا خاص تھا لیکن عبداللہ بن زبیر رضہ کے ہوتے بنو امیہ کے حکمران باغی تھے۔ اور اگر بالفرض حجاج کی قتل و غارت افسانہ ہی افسانہ ہے جیسا آپ سمجھتے ہیں تو میں برملا کہتا ہوں مختار کے لئے جو باتیں ہیں وہ بھی افسانہ ہی افسانہ ہیں----اور یہ افسانہ بنا کیسے ہے زرا اس پر بھی روشنی ڈالئے
اچھا، کیا مختار کذاب کو نبوت ملنے کا دعویٰ کیا واقعی افسانہ ہے، یہ لیں جی اسکا تاریخ ثبوت، تاریخ ابن خلدون ملاحظہ ہو
4.jpg

اگر میں حجاج کی جگہ ہوتا یقنن عبداللہ بن زبیر رضہ کی بیعت کرتا کہ وہی خلیفہ برحق تھے۔ میں اس کی جگہ نہیں ہوں اس لئے اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے اور انشاء اللہ آج شکرانے کی نوافل بھی پڑہوں گا کہ میں اس کی جگہ نہین ہون۔
لیکن حیرت ہے انہی خلیفہ برحق کی بیعت اکابر صحابہ نے نہیں کی اور ایک بقول آپ ایک "باغی" عبدالملک کی کرلی، اس امر کی وضاحت کرسکتے ہیں آپ؟؟؟؟
میں تو یہ یقین سے کہہ سکتا ہو کہ اگر آپ کی موجودگی بھی اس وقت ہوتی تو آپ بھی صحابہ و تابعین کی جماعت کے ساتھ عبدالملک کی بیعت کرچکے ہوتے۔
اس پورے دور کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
1۔ ابتدائی دور(64-67/684-687): یہ سیاسی بے چینی اور خانہ جنگی کا دور تھا۔ اس دور میں عراق میں خوارج اور عراق کی باغی تحریکیں پیدا ہوئیں تاہم ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے ان پر قابو پا لیا۔ مختار ثقفی کے بعد عراق کی باغی تحریک کی قوت کا زور ٹوٹ گیا۔ اسی طرح خوارج بھی شکست کھا کر ایران کے علاقوں میں بکھر گئے اور خاموشی کی زندگی بسر کرنے لگے۔ اس دوران بنو امیہ اندرونی اختلافات کا شکار رہے تاہم انہوں نے جلد ہی کم بیک کیا اور ایک دو سال کے عرصے میں شام اور مصر پر اپنا کنٹرول بحال کر لیا۔

2۔ متوسط دور (67-71/687-691): یہ نسبتاً استحکام اور سکون کا دور تھا۔ اس زمانے میں باہمی خانہ جنگیاں نہیں ہوئیں۔ صرف ایران میں خوارج اور یمامہ میں نجدہ بن عامر نے چھوٹی موٹی بغاوتیں کیں جنہیں ابن زبیر نے فرو کر دیا۔ اس زمانے میں عبد الملک نے بھی شام، فلسطین اور مصر میں اپنی حکومت کو مستحکم کیا۔

3۔ آخری دور (71-73/691-692): یہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی حکومت کے زوال اور بنو امیہ کی حکومت کے عروج کا دور ہے۔ اس میں پہلے عراق اور پھر حجاز ابن زبیر کے ہاتھوں سے نکلتے چلے گئے اور بالآخر ان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔

یہ جذباتی طرز فکر چھوڑیں اور بنی امیہ کا بغض اپنے دل سے نکالیں اور حقائق کو مدنظر رکھیں

جیسا آپ کو سیدہ اسماء نے شاید عالم ارواع میں بتایا کہ مجھے سے یہ کلمات بے ساختہ نکلے ۔۔ مجھے بتائے آپ کی اس من مانی تشریع کو کسی ایک نے اختیار کیا ہے؟
جی نہیں۔ سیدہ اسماء سے یہ کلمات جب ادا ہوئے اور جن حالات کی موجودگی میں یہ ادا ہوئے ان ہی نے مجھے اشارہ کیا کہ ایسا ہوا ہوگا، جسکو سمجھنے کے لئے کسی قسم کا عالم ارواح سے رابطہ کرنے کی ضرورت نہیں

میرہ خیال ہے کہ اس حدیث کا اور ثقیف کذاب و مبیر والی حدیث کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔۔ یہان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شاید غصہ میں آکر کسی کو کچھ کہ دیتے ہونگے تو اس کا زکر ہے لیکن ثقیف والی حدیث تو ایک پیش گوئی ہے جیسے جیش مغفور لھم کی حدیث ایک پیش گوئی ہے۔۔ جسی ہر حال میں پورہ ہونا ہے ۔ اور الحمداللہ پوری ہوچکی کہ آج تک مختار جیسا کذاب ثقیف میں نہیں ہوا اور نہ ہی آج تک حجاج جیسا ظالم بھی ثقیف مین ہوا ہے ۔۔ اگر آپ کے پاس علم ہے تو ہمیں بتائیں۔ورنہ یہ حدیث ان پر فٹ ہے۔اور اس حدیث کو پیش کر کہ آپ نے ناچہتے ہوئے بھی سیدہ اسماء رضہ کی تشریح مان لی۔۔
جی بالکل تعلق ہے۔ آپ اس حدیث کو پیش کرکے ایک لحاظ سے مذمت ہی کررہے ہونگے امیر حجاج کی۔ جو کہ حضور اکرم ﷺ کی زبان سے نکلے۔ حضور کی یہ اگر پیشن گوئی اگر ایک برے معنوں میں ہوئی تو بھائی جان حضور اکرم ﷺ اگر کسی کے لئے کچھ برا کہتے تو وہ اسکے حق میں اچھا ہی بن کر لوٹتا۔ میں نے سیدہ اسماء کی تشریح مانی، لیکن اس "ماننے" کی جو وجوہات بیان کی ہیں، ذرا اس پر نظر دوبارہ دوڑائیے

میں اپ کو اسلامک فورم کے دور سے جانتا ہوں۔
وہاں آپ کس آئی ڈی سے موجود تھے؟؟

صحیح بات ہے لیکن یہ بات غلط ہے اس امت شرکیہ افعال قبول کئے ہیں ۔ میاں آپ کو امت سے مراد کیا لیتے ہیں بابا کے قبے پر موجود بابا ۔۔ نہیں یہان امت سے مراد امت کے علماء محدیثین اور اہل حل ہین ۔۔ میں پھر سے کہون گا کہ حجاج کے ظلم اس کے اچھے کاموں سے زیادہ ہیں۔ ۔۔۔ اچھے کام تو ابوجہل بھی کرتا ہوگا۔۔ بلکہ مختار نے بھی تو اچھے کام کئے ہونگے ۔۔ حسین رضہ کے قاتلین کو قتل کرنا اچھا کام ہی تھا پھر کذاب ہے۔
ہم اور آپ تو علمائے اور محدثین کرام نہیں ہیں، پھر ہم تک اس تاثر کا اثر کیسے آیا؟ یقینا یہ اسی غلطی کی وجہ سے آیا جو محدثین کرام سے سرزد ہوئی اس معاملے میں۔ یہ انہوں نے تو یہ حدیث بیان کرکے اپنا فریضہ ادا کردیا، اور ہم لوگوں نے ہی اس حدیث کے متعلق غلط نتائج اخذ کئے، جیسے اور جگہ محدثین روایات اور سند اپنی کتاب میں درج کرکے بری الزماء ہوجاتے ہیں۔ امیر یزید رحمہ اللہ کے متعلق بھی حدیثیں درج کرنے والے یہی محدثین کرام ہی تھے، جنکو عمر صدیق ، علی مرزا اور مولانا اسحق جیسے علماء نے پیش کرکے امیر یزید کو بدترین ویلن اور شیطان مجسم بنادیا، جبکہ شیخ کفایت اللہ اور حافظ یوسف صلاح الدین جیسے علماء نے انہیں حدیثوں کا صحیح مطالب بیان کرکے امیر یزید رحمہ اللہ کے اوپر لگے ہوئے داغوں کو دھویا۔ اب ہمارے اوپر کیا یہ ذمہ داری نہیں کہ ہم بھی سوچیں سمجھیں کہ کیا غلط ہے کیا صحیح؟ کیا تمام کام ہم نے صرف علماء پر ہی چھوڑ دیا ہے

باقی رہا ابوجہل اور مختار کے اچھے کاموں کو موازنہ کرنا، تو میرے بھائی ابوجہل تو یقینا کافر تھا اور مختار کذاب نبوت کا دعویٰ کرکے وہ بھی دائرے اسلام سے نکل گیا۔ ایک کافر لاکھ اچھے کام کرے، لیکن یہ اچھے کام اسکے آخرت میں کام نہیں آئے گے۔ جبکہ امیر حجاج مرتے دم تک مسلمان ہی رہے اور ایمان پر ہی انکا خاتمہ ہوا۔ بے شک وہ ایک سخت مزاج آدمی تھےاور اپنی سلطنت کو اور امن و مان قائم رکھنے کے لئے انکو کسی حد تک قتل و غارتگری سے بھی کام لینا پڑا، لیکن کیا اللہ تعالیٰ سے بعید نہیں کہ وہ ان انکے مبینہ جرائم سے پردہ پوشی کرتے ہوئے انکو معاف کردے اور انکو بخش دے۔ جب کہ انکے اچھے کاموں کا اعتراف آپ بھی کررہے ہو، وہ اچھے کام بھی ایسے ہی کہ جیسے قرآن کی خدمت اور اللہ کی زمین میں اللہ کی حکومت دور دور تک قائم کرنا جیسے اچھے کام۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ یقینا جنتی آدمی ہوگئے، لیکن انکی بخشش کی امید تو کی جاسکتی ہے اور انکے لئے رحمت کی دعا بھی مانگی جاسکتی ہے، جیسا کہ ہم ہر مرحوم اپنے اسلامی بھائی بہن کے لئے مانگ سکتے ہیں، اسکے مبینہ چھپے ہوئے یا ظاہری گناہوں کے بعد بھی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر جرم معاف کرسکتا ہے سوائے شرک کے۔
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
تاریخ ابن خلدون

بنو امیہ کی خلافت کو بھی اکابر صحابہجیسے ابن عمر اور ابن عباس رضیاللہ عنھم نے قبول کیا۔ صحیح بخاریمیںہے:

السلام علیکم

سیدنا ابن عمر رضہ او ر بہت سے صحابہ نے امیر المومنین علی رضہ کی بیعت نہیں کی تو کیا آپ ان کی خلافت کا انکار کریں گے، سیدنا امام حسین رضہ و سیدنا عبداللہ بن زبیر رضہ نے یزید کی بیعت نہیں کیا آپ اس کی خلافت کا انکار کریں گے۔ ۔۔اگر ہاں تو آپ بات کرنے کا فائدہ نہیں اگر نہیں تو پھر ان ہستیوں کی بیعت نہ کرنے سے امیر المومنین عبداللہ بن زبیر رضہ کی خلافت پر کیا فرق پڑتا ہے۔۔ جب شام مصر تک آپ کی بیعت ہوچکی تھی۔۔ تب تب مروان باغی نے پہلے حمص پر حملہ کرکہ امیر المومنین عبداللہ بن زبیر رضہ کے گورنر صحابی رسول علیہ السلام سیدنا نعمان بن بشیر رضہ کو قتل کیا پھر دمشق پر حملہ کرکہ امیر معاویہ رضہ کے معتمد ضحاک کو قتل کیا ۔۔۔ یہیں سے اس کی نام نہاد حکومت شروع ہوئی۔۔ابھی شام و مصر پر ہی قبضہ کیا تھا کہ اس کی بیوی نے اس کو قتل کردیا۔۔۔


امیر حجاج کے ہاتھوں جو صحابہ و تابعینوغیرہ کی بے حرمتی و ظلم کے افسانے جو مشہور کئے گئے، آئیے میں اسکی حقیقت سے آپ کوآگاہ کرتا ہوںتاریخ طبری میں ہے کہ حجاج بن یوسف نے بعض صحابہ جیسے حضرت جابر بن عبداللہ، انس بن مالک اور سہل بن سعد رضی اللہ عنھم پر بھی تشدد کیااور انکے داغ لگوائے۔ طبری میں یہ روایت سن 74/694 کے باب کے شروع میں بیان ہوئیہے۔ انہوں نے اس روایت کی منقطع اسناد یوں بیان کی ہے:عن ابن ابی ذئب عن اسحاق بن یزید، اور حدثنی شرجیل بن ابی عون عن ابیہ۔ طبری اور ان واقعات کے درمیان دو سو برس کا طویل زمانہ ہے اور یہ ممکن نہیں کہ محض دو واسطوں سے یہ روایت ان تک پہنچی ہو۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ نامعلوم لوگ کس درجے میں قابل اعتماد تھے۔ درایت کے اعتبار سے بھی یہ روایت قرین قیاس نہیں ہے، کیونکہ جیسے جیسے اصحاب الرسول ﷺ دنیا سے رخصت ہوتے جارہے تھے، باقی ماندہ صحابہ کی قدر منزلت لوگوں کی نظر میں بہت زیادہ بڑھ رہی تھی۔ اس دور میںجب قلیل تعداد میں ضعیف العمر صحابہ باقی رہ گئے تھے، ان کے ساتھ اتنی گستاخی کی جاتی تو لوگ کوئی احتجاج نہ کرتے۔ یہ کام حجاج جیسے شخص کے لئے بھی ممکن نہ تھا۔ عین ممکن ہے کہ حجاج کے مظالم کی داستانیں اس پراپیگنڈہ کا حصہ ہوں جو بنو عباس نے بنو امیہ کی حکومت گرانے کے لئے کیا تھا۔


افسوس کا مقام ! حجاج لعنتی کے لئے اتنی صفائیاں دینے پر اتر آئے ہیں کہ آن جناب اسناد کو پکڑ کہ بیٹھ گئے ہیں یہ صحیح وہ صحیح ہے جب باری عبداللہ بن زبیر رضہ اور مظلوم صحابیہ کی آتی ہے تو انہی کتب کی روایات کو پیش کرکہ باور کروارہے ہیں کہ عبداللہ رضہ مروان عبدالملک کے باغی تھے۔۔اور مظلوم صحابیہ رضہ کی بات کو جھٹلانے پر اتر آئے ہیں۔ کیا معاملہ ہے اپ کے ساتھ۔بنو عباس کا پروپیگنڈہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کے حوالے سے جو صحیح احادیث ہیں وہ تو پروپگنڈہ نہیں ہوسکتیں۔۔۔ امام احمد جیسا آدمی بنو عباس کے پروپگنڈہ میں کیسے آگیا سمجھ نہیں آیا۔۔۔

باقی اگر آپکا وہ خلفائے کا حالات دیکھ کر رونا اور ابی بکر و عمر رض کو یاد کرنا، میرے خیال سے وہ چیز موضوع سے متاطبقت نہیں رکھتی۔ اس لئے اسکو یہاں پیش کرنا عبث ہی ہوگا؎

سبحان اللہ جو شخص صحابہ کو قتل کرسکتا ہے اس کے لئے بے حرمتی ممکن کیسے نہیں تھی ۔۔ اور سیدنا انس بن مالک رضہ کے ساتھ اس کا سلوک تواتر سے بیان ہوا ہے۔اور جوصحیح رویات موجود ہین ان کا کیا کریں گے آپ۔۔

اچھا، کیا مختار کذاب کو نبوت ملنے کا دعویٰ کیا واقعی افسانہ ہے، یہ لیں جی اسکا تاریخ ثبوت، تاریخ ابن خلدون ملاحظہ ہو

عقد الفرید

کمال ہے خؤد تو جناب حجاج کے لئے اسناد لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور یہاں عقد الفرید کا حوالی دے رہے ہیں کہ مختار جہوٹا تھا جناب اس کتاب کی اسنادی حالت کیا ہے اس کو واضع کریں نہ۔۔


3۔ آخری دور (71-73/691-692): یہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی حکومت کے زوال اور بنو امیہ کی حکومت کے عروج کا دور ہے۔ اس میںپہلے عراق اور پھر حجاز ابن زبیر کے ہاتھوں سے نکلتے چلے گئے اور بالآخران کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔


آپ نے یہان بھی تسلیم کیا کہ امیر المومنین عبداللہ بن زبیر رضہ کی حکومت کا زوال ہوا تو بنو امیہ کا دور شروع ہوا۔۔ میرہ بات پھر بھی ثابت۔

کچھ حوالہ جات بھی ملاحضہ ہو
ابن کثیر رحمہ اللہ سیدنا امیر المومنین عبداللہ بن زبیر بن عوام کئ ترجمہ میں لکھتے ہیں۔
وَهَذِهِ تَرْجَمَةُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزبير
هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ بْنِ خُوَيْلِدِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قُصَيِّ بْنِ كِلَابٍ، أَبُو بَكْرٍ وَيُقَالُ لَهُ أَبُو خُبَيْبٍ الْقُرَشِيُّ الْأَسَدِيُّ

تاریخ خلیفہ بن خیاط (المتوفی 240 ہجری) میںہے

وَفِي سنة أَربع وَسِتِّينَ دَعَا ابْن الزبير إِلَى نَفسه وَذَلِكَ بعد موت يَزِيد بْن مُعَاوِيَة فبويع فِي رَجَب لسبع خلون من سنة أَربع وَسِتِّينَ وَلم يكن يَدْعُو إِلَيْهَا وَلَا يدعا لَهَا حَتَّى مَاتَ يزِيد وَإِنَّمَا كَانَ ابْن الزبير يَدْعُو قبل ذَلِكَ إِلَى أَن تكون شُورَى بَين الْأمة فَلَمَّا كَانَ بعد ثَلَاثَة أشهر من وَفَاة يَزِيد بْن مُعَاوِيَة دَعَا إِلَى بيعَة نَفسه فبويع لَهُ بالخلافة لتسْع خلون من رَجَب سنة أَربع وَسِتِّينَ

یہ سال ہے 64 ہجری کا جس مین ابن زبیر رضہ نے یزید بن معاویہ کی موت کے بعد اپنی خلافت کی دعوت دی۔ ان کی بیعت رجب میں ہوئی 64 ہجری میں انہوں اس سے پہلے اپنی طرف نہ دعوی کیا نہ دعوت دی جب تک یزید بن معاویہ کا موت نہیں ہوا۔انہوں نے یزید کی موت کے 3 تین مہینے بعد امت کی شوری بلانے کی دعوت دی اور پھر رجب میں اپنی بیعت کی طرف دعوت دی ۔

امام السیوطی نے تاریخ الخلفاء مین بھی اس کی تصریح کی ہے عبداللہ بن زبیر رضہ کے باب مین لکھتے ہیں

فلما مات يزيد بويع له با لخلافة، وأطاعه أهل الحجاز واليمن والعراق وخراسان– ولم يبق خارجًا عنه إلا الشام ومصر فإنه بويع بهما معاوية بن يزيد، فلم تطل مدته، فلما مات أطاع أهلها ابن الزبير وبايعوه

جب یزید کی وفات ہوئی تو ابن زبیر خلافت کی بیعت ہوئی اور اہل الحجاز ، یمن ، عراق و خراسان نے آپ کی اطاعت کی اور شام و مصر میں ان کی بیعت نہیں ہوئی انہوں نے معاویہ بن یزید کی بیعت کی اس کی مدت کم ہوئی پھر جب اس کی موت ہوئی تو اہل مصر و شام نے ابن زبیر رضہ کی اطاعت کی اور بیعت کی۔

عرض ہے ابن کثیر لکھتے ہیں

وأرسل إلى مِصْرَ فَبَايَعُوهُ. وَاسْتَنَابَ عَلَيْهَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ جحدر، وَأَطَاعَتْ لَهُ الْجَزِيرَةُ،

آپ نے مصر والون کی طرف آدمی بھیجا تو انہوں اپ کی بیعت کرلی اور آپ نے عبدالرحمن بن جحدر کو ان پر امیر مقرر کیا جزیرہ نے آپ کی اطاعت کرلی

وَإِلَى الضَّحَّاكِ بْنِ قَيْسٍ بِالشَّامِ فَبَايَعَ، وَقِيلَ إِنَّ أَهْلَ دِمَشْقَ وَأَعْمَالَهَا مِنْ بِلَادِ الْأُرْدُنِّ لَمْ يُبَايِعُوهُ

شام میں ضحاق بن قیس کو پیغام بھیجا تو انہوں بیعت کردی کہتے ہین کہ اردن اور دمشق کے گرد و نواح لوگوں نے اپ کی بیعت نہین کی

ابن کثیر فرماتے ہیں

وَعِنْدَ ابْنِ حَزْمٍ وَطَائِفَةٍ أَنَّهُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ في هذا الحين

یعنی ابن حزم و کچھ لوگ کے مطابق آپ رضہ اس وقت امیر المومنین تھے ۔

السیوطی تاریخ الخلفاء میں لکھتے ہیں

، ثم خرج مروان بن الحكم فغلب على الشام ثم مصر
یعنی مروان نے کا خروج اور شام و مصر اس کا غلبہ

حافظ ابن کثیر نے سمجھنے کے لئے مزید آسان کردیا
اسی بات کو ابن کثیر اس طرح زکر کرتے ہین

وَقَدْ بَايَعَ أَهْلُهَا الضَّحَّاكَ بْنَ قَيْسٍ عَلَى أَنْ يُصْلِحَ بَيْنَهُمْ وَيُقِيمَ لَهُمْ أَمْرَهُمْ حَتَّى يجتمع الناس على إمام، وَالضَّحَّاكُ يُرِيدُ أَنْ يُبَايِعَ لِابْنِ الزُّبَيْرِ، وَقَدْ بَايَعَ لِابْنِ الزُّبَيْرِ النُّعْمَانُ بْنُ بَشِيرٍ بِحِمْصَ، وبايع له زفر بن عبد الله الكلابي بقنسرين، وبايع له نائل بْنُ قَيْسٍ بِفِلَسْطِينَ، وَأَخْرَجَ مِنْهَا رَوْحَ بْنَ زِنْبَاعٍ الْجُذَامِيَّ،

شامیوں نے ضحاک بن قیس کے ہاتھ پر (ابن زبیر رضہ کی بیعت )اس شرط پر کی کہ وہ ان کے اور شامیوں کے درمیاں صلح کرائین گے اور معاملہ ٹھیک کریں گے یہاں تک کہ لوگ ایک امام (ابن زبیر رضہ) پر جمع ہوں ضحاک چاہتے تھے کہ ابن زبیر رضہ کی بیعت مکمل ہوجائے اور حمص میں نعمان بن بشیر رضہ(گورنر) نے بیعت کرادی تھی اور اور زفر بن عبداللہ کلابی نے قنسرین میں بیعت کرادی اور نائل بن قیس نے فلسطین میں (ابن زبیر) کی بیعت کرادی اور روح بن زنباع کو وہاں سے نکال دیا۔

مزید لکھتے ہیں

فَلَمْ يَزَلْ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ وَالْحُصَيْنُ بْنُ نُمَيْرٍ بِمَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ يحسنون له أن يتولى، حَتَّى ثَنَوْهُ عَنْ رَأْيِهِ وَحَذَّرُوهُ مِنْ دُخُولِ سُلْطَانِ ابْنِ الزُّبَيْرِ وَمُلْكِهِ إِلَى الشَّامِ، وَقَالُوا لَهُ: أَنْتَ شَيْخُ قُرَيْشٍ وَسَيِّدُهَا، فَأَنْتَ أَحَقُّ بهذا الأمر. فرجع عن البيعة لابن الزبير، وخاف ابن زياد الهلاك إن تولى غير بنى أمية، فعند ذلك التف هَؤُلَاءِ كُلُّهُمْ مَعَ قَوْمِهِ بَنِي أُمَيَّةَ وَمَعَ أهل اليمن على مروان، فوافقهم على ما أرادوا، وَجَعَلَ يَقُولُ مَا فَاتَ شَيْءٌ

عبیداللہ بن زیاد اور حصین بن نمیر مروان بن حکم کو امارت خوبصورت بنا کر پیش کرتے رہے اور انہوں نے اس کی راء (بیعت ابن زبیر مروان جا رہا تھا آپ کی بیعت کرنے )سے اسے موڑ دیا اور حضرت ابن زبیر رضہ کے شام میں اقتدار سے اس کو خوفزدہ کیا اور کہا کہ تم قریش کے شیخ و سردار ہو اور اسی پر تمہارہ حق ہے بس اس نے حضرت ابن زبیر رضہ کی بیعت کو ترک کردیا اور ابن زیاد نے اسے بنی امیہ سے اقتدار جانے کی صورت میں ہلاکت سے ڈرایا اور اسی طرح یہ سب لوگ بنی امیہ اور اہل یمن مروان کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ کچھ نہیں بدلا ہے۔

اسی طرح مروان نے بغاوت کی-------
مزید میری تحریر پڑہ سکتے ہیں
امیر المومنین عبداللہ بن زبیر بن العوام رضہ

یہ جذباتی طرز فکر چھوڑیں اور بنی امیہ کا بغض اپنے دل سے نکالیں اور حقائق کو مدنظر رکھیں

اگر جزباتی طرز فکر ہوتا تو جناب یزید کے بارے میں حجاج سے بھی زیادہ سخت موقف ہوتا میرہ حقائق کو دکھ کر ہی تو بات کر رہا ہون۔۔ ایک صحیح حدیث حجاج کے خلاف ہے میرے پاس ۔۔ آپ کے پاس اس کی حمایت میں قیاس آرائیوں کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔

جی بالکل تعلق ہے۔ آپ اس حدیث کو پیش کرکے ایک لحاظ سے مذمت ہی کررہے ہونگے امیر حجاج کی۔ جو کہ حضور اکرم ﷺ کی زبان سے نکلے۔ حضور کی یہ اگر پیشن گوئیاگر ایک برے معنوں میں ہوئی تو بھائی جان حضور اکرم ﷺ اگر کسیکےلئے کچھ برا کہتے تو وہ اسکے حق میں اچھا ہی بن کر لوٹتا۔ میں نے سیدہ اسماء کی تشریح مانی، لیکن اس "ماننے" کی جو وجوہات بیان کی ہیں، ذرا اس پر نظر دوبارہ دوڑائیے


اگر آپ نے سیدہ رضہ کی تشریح مان لی تو پھر جھگڑہ کس بات پر ہے ؟؟

ہم اور آپ تو علمائے اور محدثین کرام نہیں ہیں، پھر ہم تک اس تاثر کا اثر کیسے آیا؟ یقینا یہ اسی غلطی کی وجہ سے آیا جو محدثین کرام سے سرزد ہوئی اس معاملے میں۔ یہانہوںنے تو یہ حدیث بیان کرکے اپنا فریضہ ادا کردیا، اور ہم لوگوں نے ہی اس حدیث کے متعلق غلط نتائج اخذ کئے، جیسے اور جگہ محدثین روایات اور سند اپنی کتاب میں درج کرکے بری الزماء ہوجاتے ہیں۔ امیر یزید رحمہ اللہ کے متعلق بھی حدیثیں درج کرنے والے یہی محدثین کرام ہی تھے، جنکو عمر صدیق ، علی مرزا اور مولانا اسحق جیسے علماء نے پیش کرکے امیر یزید کو بدترین ویلن اور شیطان مجسم بنادیا، جبکہ شیخ کفایت اللہ اور حافظ یوسف صلاح الدین جیسے علماء نے انہیں حدیثوں کا صحیح مطالب بیان کرکے امیر یزید رحمہ اللہ کے اوپر لگے ہوئے داغوں کو دھویا۔ اب ہمارے اوپر کیا یہ ذمہ داری نہیں کہ ہم بھی سوچیں سمجھیں کہ کیا غلط ہے کیا صحیح؟ کیا تمام کام ہم نے صرف علماء پر ہی چھوڑ دیا ہے

عرض ہے کہ محدیثین پر غصہ مت نکالئے انہوں نے حجاج کو کچھ نہین بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیہ رضہ نے ہی اس کو مطعون کیا وہ بھی صحیح مسلم کی روایت کے مطابق۔۔اور ہاں جناب شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ حجاج کو یزید سے بہت زیادہ ظالم مانتے ہیں—انہوں نے اپنی کتاب میں حجاج کا دفاع بھی نہین کیا ہے۔۔

باقی رہا ابوجہل اور مختار کے اچھے کاموں کو موازنہ کرنا، تو میرے بھائی ابوجہل تو یقینا کافر تھا اور مختار کذاب نبوت کا دعویٰ کرکے وہ بھی دائرے اسلام سے نکل گیا۔ ایک کافر لاکھ اچھے کام کرے، لیکن یہ اچھے کام اسکے آخرت میں کام نہیں آئے گے۔ جبکہ امیر حجاج مرتے دم تک مسلمان ہی رہے اور ایمان پر ہی انکا خاتمہ ہوا۔ بے شک وہ ایک سخت مزاج آدمی تھےاور اپنی سلطنت کو اور امن و مان قائم رکھنے کے لئے انکو کسی حد تک قتل و غارتگری سے بھی کام لینا پڑا، لیکن کیا اللہ تعالیٰ سے بعید نہیں کہ وہ ان انکے مبینہ جرائم سے پردہ پوشی کرتے ہوئے انکو معاف کردے اور انکو بخش دے۔ جب کہ انکے اچھے کاموں کا اعتراف آپ بھی کررہے ہو، وہ اچھے کام بھی ایسے ہی کہ جیسے قرآن کی خدمت اور اللہ کی زمین میں اللہ کی حکومت دور دور تک قائم کرنا جیسے اچھے کام۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ یقینا جنتی آدمی ہوگئے، لیکن انکی بخشش کی امید تو کی جاسکتی ہے اور انکے لئے رحمت کی دعا بھی مانگی جاسکتی ہے، جیسا کہ ہم ہر مرحوم اپنے اسلامی بھائی بہن کے لئے مانگ سکتے ہیں، اسکے مبینہ چھپے ہوئے یا ظاہری گناہوں کے بعد بھی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر جرم معاف کرسکتا ہے سوائے شرک کے۔

اب آپ نے صحیح بات کی ہے اللہ تعالی اسے اگر اس کے کسی اچھے کام بدلے بخش دے تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے اور میں چیز کیا ہوں کہ اللہ تعالی پر معاذ اللہ اعتراض کروں۔۔۔۔ مختار کے متعلق بھی کوئی صحیح روایت پیش کیجئے نہ۔۔ ظاہر میں وہ بھی مسلمان تھا ۔اس بیچارے نے امام حسین رضہ کے قاتل ختم کئے اس کے دفاع کا طریقہ بھی ڈھونڈئے شاید آپ کو مل جائے کیوں کہ ہم تو اسے کذاب مانتے ہیں۔۔جیسا کہ اہل علم نے کہا ہے ۔ آپ چونکہ اہل علم کی فہم کو درست نہیں مانتے ہوسکتا ہے آپ کے پاس اس کا راستہ ہو۔۔ اور اللہ بھی آپ سے راضی ہوجائے۔۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
یدنا ابن عمر رضہ او ر بہت سے صحابہ نے امیر المومنین علی رضہ کی بیعت نہیں کی تو کیا آپ ان کی خلافت کا انکار کریں گے، سیدنا امام حسین رضہ و سیدنا عبداللہ بن زبیر رضہ نے یزید کی بیعت نہیں کیا آپ اس کی خلافت کا انکار کریں گے۔ ۔۔اگر ہاں تو آپ بات کرنے کا فائدہ نہیں اگر نہیں تو پھر ان ہستیوں کی بیعت نہ کرنے سے امیر المومنین عبداللہ بن زبیر رضہ کی خلافت پر کیا فرق پڑتا ہے۔۔
جزاکم اللہ خیرا
ایک چھوٹا سا سوال اور بھی ہے
یعنی کیا آپ کے ان جملوں سے یہ قاعدہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کچھ لوگو ں کے بیعت نہ کرنے کے باوجود خلافت منعقد ہو جاتی ہے؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
تاریخ ابن خلدون

بنو امیہ کی خلافت کو بھی اکابر صحابہجیسے ابن عمر اور ابن عباس رضیاللہ عنھم نے قبول کیا۔ صحیح بخاریمیںہے:

السلام علیکم

سیدنا ابن عمر رضہ او ر بہت سے صحابہ نے امیر المومنین علی رضہ کی بیعت نہیں کی تو کیا آپ ان کی خلافت کا انکار کریں گے، سیدنا امام حسین رضہ و سیدنا عبداللہ بن زبیر رضہ نے یزید کی بیعت نہیں کیا آپ اس کی خلافت کا انکار کریں گے۔ ۔۔اگر ہاں تو آپ بات کرنے کا فائدہ نہیں اگر نہیں تو پھر ان ہستیوں کی بیعت نہ کرنے سے امیر المومنین عبداللہ بن زبیر رضہ کی خلافت پر کیا فرق پڑتا ہے۔۔ جب شام مصر تک آپ کی بیعت ہوچکی تھی۔۔ تب تب مروان باغی نے پہلے حمص پر حملہ کرکہ امیر المومنین عبداللہ بن زبیر رضہ کے گورنر صحابی رسول علیہ السلام سیدنا نعمان بن بشیر رضہ کو قتل کیا پھر دمشق پر حملہ کرکہ امیر معاویہ رضہ کے معتمد ضحاک کو قتل کیا ۔۔۔ یہیں سے اس کی نام نہاد حکومت شروع ہوئی۔۔ابھی شام و مصر پر ہی قبضہ کیا تھا کہ اس کی بیوی نے اس کو قتل کردیا۔۔۔


امیر حجاج کے ہاتھوں جو صحابہ و تابعینوغیرہ کی بے حرمتی و ظلم کے افسانے جو مشہور کئے گئے، آئیے میں اسکی حقیقت سے آپ کوآگاہ کرتا ہوںتاریخ طبری میں ہے کہ حجاج بن یوسف نے بعض صحابہ جیسے حضرت جابر بن عبداللہ، انس بن مالک اور سہل بن سعد رضی اللہ عنھم پر بھی تشدد کیااور انکے داغ لگوائے۔ طبری میں یہ روایت سن 74/694 کے باب کے شروع میں بیان ہوئیہے۔ انہوں نے اس روایت کی منقطع اسناد یوں بیان کی ہے:عن ابن ابی ذئب عن اسحاق بن یزید، اور حدثنی شرجیل بن ابی عون عن ابیہ۔ طبری اور ان واقعات کے درمیان دو سو برس کا طویل زمانہ ہے اور یہ ممکن نہیں کہ محض دو واسطوں سے یہ روایت ان تک پہنچی ہو۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ نامعلوم لوگ کس درجے میں قابل اعتماد تھے۔ درایت کے اعتبار سے بھی یہ روایت قرین قیاس نہیں ہے، کیونکہ جیسے جیسے اصحاب الرسول ﷺ دنیا سے رخصت ہوتے جارہے تھے، باقی ماندہ صحابہ کی قدر منزلت لوگوں کی نظر میں بہت زیادہ بڑھ رہی تھی۔ اس دور میںجب قلیل تعداد میں ضعیف العمر صحابہ باقی رہ گئے تھے، ان کے ساتھ اتنی گستاخی کی جاتی تو لوگ کوئی احتجاج نہ کرتے۔ یہ کام حجاج جیسے شخص کے لئے بھی ممکن نہ تھا۔ عین ممکن ہے کہ حجاج کے مظالم کی داستانیں اس پراپیگنڈہ کا حصہ ہوں جو بنو عباس نے بنو امیہ کی حکومت گرانے کے لئے کیا تھا۔


افسوس کا مقام ! حجاج لعنتی کے لئے اتنی صفائیاں دینے پر اتر آئے ہیں کہ آن جناب اسناد کو پکڑ کہ بیٹھ گئے ہیں یہ صحیح وہ صحیح ہے جب باری عبداللہ بن زبیر رضہ اور مظلوم صحابیہ کی آتی ہے تو انہی کتب کی روایات کو پیش کرکہ باور کروارہے ہیں کہ عبداللہ رضہ مروان عبدالملک کے باغی تھے۔۔اور مظلوم صحابیہ رضہ کی بات کو جھٹلانے پر اتر آئے ہیں۔ کیا معاملہ ہے اپ کے ساتھ۔بنو عباس کا پروپیگنڈہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کے حوالے سے جو صحیح احادیث ہیں وہ تو پروپگنڈہ نہیں ہوسکتیں۔۔۔ امام احمد جیسا آدمی بنو عباس کے پروپگنڈہ میں کیسے آگیا سمجھ نہیں آیا۔۔۔

باقی اگر آپکا وہ خلفائے کا حالات دیکھ کر رونا اور ابی بکر و عمر رض کو یاد کرنا، میرے خیال سے وہ چیز موضوع سے متاطبقت نہیں رکھتی۔ اس لئے اسکو یہاں پیش کرنا عبث ہی ہوگا؎

سبحان اللہ جو شخص صحابہ کو قتل کرسکتا ہے اس کے لئے بے حرمتی ممکن کیسے نہیں تھی ۔۔ اور سیدنا انس بن مالک رضہ کے ساتھ اس کا سلوک تواتر سے بیان ہوا ہے۔اور جوصحیح رویات موجود ہین ان کا کیا کریں گے آپ۔۔

اچھا، کیا مختار کذاب کو نبوت ملنے کا دعویٰ کیا واقعی افسانہ ہے، یہ لیں جی اسکا تاریخ ثبوت، تاریخ ابن خلدون ملاحظہ ہو

عقد الفرید

کمال ہے خؤد تو جناب حجاج کے لئے اسناد لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور یہاں عقد الفرید کا حوالی دے رہے ہیں کہ مختار جہوٹا تھا جناب اس کتاب کی اسنادی حالت کیا ہے اس کو واضع کریں نہ۔۔


3۔ آخری دور (71-73/691-692): یہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی حکومت کے زوال اور بنو امیہ کی حکومت کے عروج کا دور ہے۔ اس میںپہلے عراق اور پھر حجاز ابن زبیر کے ہاتھوں سے نکلتے چلے گئے اور بالآخران کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔


آپ نے یہان بھی تسلیم کیا کہ امیر المومنین عبداللہ بن زبیر رضہ کی حکومت کا زوال ہوا تو بنو امیہ کا دور شروع ہوا۔۔ میرہ بات پھر بھی ثابت۔

کچھ حوالہ جات بھی ملاحضہ ہو
ابن کثیر رحمہ اللہ سیدنا امیر المومنین عبداللہ بن زبیر بن عوام کئ ترجمہ میں لکھتے ہیں۔
وَهَذِهِ تَرْجَمَةُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزبير
هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ بْنِ خُوَيْلِدِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قُصَيِّ بْنِ كِلَابٍ، أَبُو بَكْرٍ وَيُقَالُ لَهُ أَبُو خُبَيْبٍ الْقُرَشِيُّ الْأَسَدِيُّ

تاریخ خلیفہ بن خیاط (المتوفی 240 ہجری) میںہے

وَفِي سنة أَربع وَسِتِّينَ دَعَا ابْن الزبير إِلَى نَفسه وَذَلِكَ بعد موت يَزِيد بْن مُعَاوِيَة فبويع فِي رَجَب لسبع خلون من سنة أَربع وَسِتِّينَ وَلم يكن يَدْعُو إِلَيْهَا وَلَا يدعا لَهَا حَتَّى مَاتَ يزِيد وَإِنَّمَا كَانَ ابْن الزبير يَدْعُو قبل ذَلِكَ إِلَى أَن تكون شُورَى بَين الْأمة فَلَمَّا كَانَ بعد ثَلَاثَة أشهر من وَفَاة يَزِيد بْن مُعَاوِيَة دَعَا إِلَى بيعَة نَفسه فبويع لَهُ بالخلافة لتسْع خلون من رَجَب سنة أَربع وَسِتِّينَ

یہ سال ہے 64 ہجری کا جس مین ابن زبیر رضہ نے یزید بن معاویہ کی موت کے بعد اپنی خلافت کی دعوت دی۔ ان کی بیعت رجب میں ہوئی 64 ہجری میں انہوں اس سے پہلے اپنی طرف نہ دعوی کیا نہ دعوت دی جب تک یزید بن معاویہ کا موت نہیں ہوا۔انہوں نے یزید کی موت کے 3 تین مہینے بعد امت کی شوری بلانے کی دعوت دی اور پھر رجب میں اپنی بیعت کی طرف دعوت دی ۔

امام السیوطی نے تاریخ الخلفاء مین بھی اس کی تصریح کی ہے عبداللہ بن زبیر رضہ کے باب مین لکھتے ہیں

فلما مات يزيد بويع له با لخلافة، وأطاعه أهل الحجاز واليمن والعراق وخراسان– ولم يبق خارجًا عنه إلا الشام ومصر فإنه بويع بهما معاوية بن يزيد، فلم تطل مدته، فلما مات أطاع أهلها ابن الزبير وبايعوه

جب یزید کی وفات ہوئی تو ابن زبیر خلافت کی بیعت ہوئی اور اہل الحجاز ، یمن ، عراق و خراسان نے آپ کی اطاعت کی اور شام و مصر میں ان کی بیعت نہیں ہوئی انہوں نے معاویہ بن یزید کی بیعت کی اس کی مدت کم ہوئی پھر جب اس کی موت ہوئی تو اہل مصر و شام نے ابن زبیر رضہ کی اطاعت کی اور بیعت کی۔

عرض ہے ابن کثیر لکھتے ہیں

وأرسل إلى مِصْرَ فَبَايَعُوهُ. وَاسْتَنَابَ عَلَيْهَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ جحدر، وَأَطَاعَتْ لَهُ الْجَزِيرَةُ،

آپ نے مصر والون کی طرف آدمی بھیجا تو انہوں اپ کی بیعت کرلی اور آپ نے عبدالرحمن بن جحدر کو ان پر امیر مقرر کیا جزیرہ نے آپ کی اطاعت کرلی

وَإِلَى الضَّحَّاكِ بْنِ قَيْسٍ بِالشَّامِ فَبَايَعَ، وَقِيلَ إِنَّ أَهْلَ دِمَشْقَ وَأَعْمَالَهَا مِنْ بِلَادِ الْأُرْدُنِّ لَمْ يُبَايِعُوهُ

شام میں ضحاق بن قیس کو پیغام بھیجا تو انہوں بیعت کردی کہتے ہین کہ اردن اور دمشق کے گرد و نواح لوگوں نے اپ کی بیعت نہین کی

ابن کثیر فرماتے ہیں

وَعِنْدَ ابْنِ حَزْمٍ وَطَائِفَةٍ أَنَّهُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ في هذا الحين

یعنی ابن حزم و کچھ لوگ کے مطابق آپ رضہ اس وقت امیر المومنین تھے ۔

السیوطی تاریخ الخلفاء میں لکھتے ہیں

، ثم خرج مروان بن الحكم فغلب على الشام ثم مصر
یعنی مروان نے کا خروج اور شام و مصر اس کا غلبہ

حافظ ابن کثیر نے سمجھنے کے لئے مزید آسان کردیا
اسی بات کو ابن کثیر اس طرح زکر کرتے ہین

وَقَدْ بَايَعَ أَهْلُهَا الضَّحَّاكَ بْنَ قَيْسٍ عَلَى أَنْ يُصْلِحَ بَيْنَهُمْ وَيُقِيمَ لَهُمْ أَمْرَهُمْ حَتَّى يجتمع الناس على إمام، وَالضَّحَّاكُ يُرِيدُ أَنْ يُبَايِعَ لِابْنِ الزُّبَيْرِ، وَقَدْ بَايَعَ لِابْنِ الزُّبَيْرِ النُّعْمَانُ بْنُ بَشِيرٍ بِحِمْصَ، وبايع له زفر بن عبد الله الكلابي بقنسرين، وبايع له نائل بْنُ قَيْسٍ بِفِلَسْطِينَ، وَأَخْرَجَ مِنْهَا رَوْحَ بْنَ زِنْبَاعٍ الْجُذَامِيَّ،

شامیوں نے ضحاک بن قیس کے ہاتھ پر (ابن زبیر رضہ کی بیعت )اس شرط پر کی کہ وہ ان کے اور شامیوں کے درمیاں صلح کرائین گے اور معاملہ ٹھیک کریں گے یہاں تک کہ لوگ ایک امام (ابن زبیر رضہ) پر جمع ہوں ضحاک چاہتے تھے کہ ابن زبیر رضہ کی بیعت مکمل ہوجائے اور حمص میں نعمان بن بشیر رضہ(گورنر) نے بیعت کرادی تھی اور اور زفر بن عبداللہ کلابی نے قنسرین میں بیعت کرادی اور نائل بن قیس نے فلسطین میں (ابن زبیر) کی بیعت کرادی اور روح بن زنباع کو وہاں سے نکال دیا۔

مزید لکھتے ہیں

فَلَمْ يَزَلْ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ وَالْحُصَيْنُ بْنُ نُمَيْرٍ بِمَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ يحسنون له أن يتولى، حَتَّى ثَنَوْهُ عَنْ رَأْيِهِ وَحَذَّرُوهُ مِنْ دُخُولِ سُلْطَانِ ابْنِ الزُّبَيْرِ وَمُلْكِهِ إِلَى الشَّامِ، وَقَالُوا لَهُ: أَنْتَ شَيْخُ قُرَيْشٍ وَسَيِّدُهَا، فَأَنْتَ أَحَقُّ بهذا الأمر. فرجع عن البيعة لابن الزبير، وخاف ابن زياد الهلاك إن تولى غير بنى أمية، فعند ذلك التف هَؤُلَاءِ كُلُّهُمْ مَعَ قَوْمِهِ بَنِي أُمَيَّةَ وَمَعَ أهل اليمن على مروان، فوافقهم على ما أرادوا، وَجَعَلَ يَقُولُ مَا فَاتَ شَيْءٌ

عبیداللہ بن زیاد اور حصین بن نمیر مروان بن حکم کو امارت خوبصورت بنا کر پیش کرتے رہے اور انہوں نے اس کی راء (بیعت ابن زبیر مروان جا رہا تھا آپ کی بیعت کرنے )سے اسے موڑ دیا اور حضرت ابن زبیر رضہ کے شام میں اقتدار سے اس کو خوفزدہ کیا اور کہا کہ تم قریش کے شیخ و سردار ہو اور اسی پر تمہارہ حق ہے بس اس نے حضرت ابن زبیر رضہ کی بیعت کو ترک کردیا اور ابن زیاد نے اسے بنی امیہ سے اقتدار جانے کی صورت میں ہلاکت سے ڈرایا اور اسی طرح یہ سب لوگ بنی امیہ اور اہل یمن مروان کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ کچھ نہیں بدلا ہے۔

اسی طرح مروان نے بغاوت کی-------
مزید میری تحریر پڑہ سکتے ہیں
امیر المومنین عبداللہ بن زبیر بن العوام رضہ

یہ جذباتی طرز فکر چھوڑیں اور بنی امیہ کا بغض اپنے دل سے نکالیں اور حقائق کو مدنظر رکھیں

اگر جزباتی طرز فکر ہوتا تو جناب یزید کے بارے میں حجاج سے بھی زیادہ سخت موقف ہوتا میرہ حقائق کو دکھ کر ہی تو بات کر رہا ہون۔۔ ایک صحیح حدیث حجاج کے خلاف ہے میرے پاس ۔۔ آپ کے پاس اس کی حمایت میں قیاس آرائیوں کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔

جی بالکل تعلق ہے۔ آپ اس حدیث کو پیش کرکے ایک لحاظ سے مذمت ہی کررہے ہونگے امیر حجاج کی۔ جو کہ حضور اکرم ﷺ کی زبان سے نکلے۔ حضور کی یہ اگر پیشن گوئیاگر ایک برے معنوں میں ہوئی تو بھائی جان حضور اکرم ﷺ اگر کسیکےلئے کچھ برا کہتے تو وہ اسکے حق میں اچھا ہی بن کر لوٹتا۔ میں نے سیدہ اسماء کی تشریح مانی، لیکن اس "ماننے" کی جو وجوہات بیان کی ہیں، ذرا اس پر نظر دوبارہ دوڑائیے


اگر آپ نے سیدہ رضہ کی تشریح مان لی تو پھر جھگڑہ کس بات پر ہے ؟؟

ہم اور آپ تو علمائے اور محدثین کرام نہیں ہیں، پھر ہم تک اس تاثر کا اثر کیسے آیا؟ یقینا یہ اسی غلطی کی وجہ سے آیا جو محدثین کرام سے سرزد ہوئی اس معاملے میں۔ یہانہوںنے تو یہ حدیث بیان کرکے اپنا فریضہ ادا کردیا، اور ہم لوگوں نے ہی اس حدیث کے متعلق غلط نتائج اخذ کئے، جیسے اور جگہ محدثین روایات اور سند اپنی کتاب میں درج کرکے بری الزماء ہوجاتے ہیں۔ امیر یزید رحمہ اللہ کے متعلق بھی حدیثیں درج کرنے والے یہی محدثین کرام ہی تھے، جنکو عمر صدیق ، علی مرزا اور مولانا اسحق جیسے علماء نے پیش کرکے امیر یزید کو بدترین ویلن اور شیطان مجسم بنادیا، جبکہ شیخ کفایت اللہ اور حافظ یوسف صلاح الدین جیسے علماء نے انہیں حدیثوں کا صحیح مطالب بیان کرکے امیر یزید رحمہ اللہ کے اوپر لگے ہوئے داغوں کو دھویا۔ اب ہمارے اوپر کیا یہ ذمہ داری نہیں کہ ہم بھی سوچیں سمجھیں کہ کیا غلط ہے کیا صحیح؟ کیا تمام کام ہم نے صرف علماء پر ہی چھوڑ دیا ہے

عرض ہے کہ محدیثین پر غصہ مت نکالئے انہوں نے حجاج کو کچھ نہین بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیہ رضہ نے ہی اس کو مطعون کیا وہ بھی صحیح مسلم کی روایت کے مطابق۔۔اور ہاں جناب شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ حجاج کو یزید سے بہت زیادہ ظالم مانتے ہیں—انہوں نے اپنی کتاب میں حجاج کا دفاع بھی نہین کیا ہے۔۔

باقی رہا ابوجہل اور مختار کے اچھے کاموں کو موازنہ کرنا، تو میرے بھائی ابوجہل تو یقینا کافر تھا اور مختار کذاب نبوت کا دعویٰ کرکے وہ بھی دائرے اسلام سے نکل گیا۔ ایک کافر لاکھ اچھے کام کرے، لیکن یہ اچھے کام اسکے آخرت میں کام نہیں آئے گے۔ جبکہ امیر حجاج مرتے دم تک مسلمان ہی رہے اور ایمان پر ہی انکا خاتمہ ہوا۔ بے شک وہ ایک سخت مزاج آدمی تھےاور اپنی سلطنت کو اور امن و مان قائم رکھنے کے لئے انکو کسی حد تک قتل و غارتگری سے بھی کام لینا پڑا، لیکن کیا اللہ تعالیٰ سے بعید نہیں کہ وہ ان انکے مبینہ جرائم سے پردہ پوشی کرتے ہوئے انکو معاف کردے اور انکو بخش دے۔ جب کہ انکے اچھے کاموں کا اعتراف آپ بھی کررہے ہو، وہ اچھے کام بھی ایسے ہی کہ جیسے قرآن کی خدمت اور اللہ کی زمین میں اللہ کی حکومت دور دور تک قائم کرنا جیسے اچھے کام۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ یقینا جنتی آدمی ہوگئے، لیکن انکی بخشش کی امید تو کی جاسکتی ہے اور انکے لئے رحمت کی دعا بھی مانگی جاسکتی ہے، جیسا کہ ہم ہر مرحوم اپنے اسلامی بھائی بہن کے لئے مانگ سکتے ہیں، اسکے مبینہ چھپے ہوئے یا ظاہری گناہوں کے بعد بھی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر جرم معاف کرسکتا ہے سوائے شرک کے۔

اب آپ نے صحیح بات کی ہے اللہ تعالی اسے اگر اس کے کسی اچھے کام بدلے بخش دے تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے اور میں چیز کیا ہوں کہ اللہ تعالی پر معاذ اللہ اعتراض کروں۔۔۔۔ مختار کے متعلق بھی کوئی صحیح روایت پیش کیجئے نہ۔۔ ظاہر میں وہ بھی مسلمان تھا ۔اس بیچارے نے امام حسین رضہ کے قاتل ختم کئے اس کے دفاع کا طریقہ بھی ڈھونڈئے شاید آپ کو مل جائے کیوں کہ ہم تو اسے کذاب مانتے ہیں۔۔جیسا کہ اہل علم نے کہا ہے ۔ آپ چونکہ اہل علم کی فہم کو درست نہیں مانتے ہوسکتا ہے آپ کے پاس اس کا راستہ ہو۔۔ اور اللہ بھی آپ سے راضی ہوجائے۔۔
السلام و علیکم و رحمت الله -

صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ ابن عمر رضی الله تعالی عنہ نے ابن زبیر رضی الله تعالی عنہ کی سولی پر لاش سے کلام کیا

عبدالله بن عمر فوقف عليه فقال السلام عليك أبا خبيب السلام عليك أبا خبيب السلام عليك أبا خبيب أما والله لقد كنت أنهاك عن هذا أما والله لقد كنت أنهاك عن هذا أما والله لقد كنت أنهاك عن هذا- (صحیح مسلم)

سلام ہو تم پر اے أبا خبيب! سلام ہو تم پر اےأبا خبيب ! سلام ہو تم پر اے أبا خبيب ! اللہ کی قسم میں نے تم کو اس سے منع کیا تھا، الله کی قسم میں نے تم کو اس سے منع کیا تھا، الله کی قسم میں نے تم کو اس سے منع کیا تھا

حضرت عبدللہ زبیر رضی الله عنہ اہل مدینہ کے چند ناعاقبت اندیش لوگوں کی باتوں میں آ کرخلافت کی کوشش میں سکرداں ہوگئے- اس اجتہادی غلطی پرحضرت ابن عمر رضی الله عنہ نے ابن زبیر رضی الله عنہ کو بہت سمجھایا - لیکن یہ ایک کر گزرنے والا فعل تھا جس کا نتیجہ الله پر چھوڑ دیا گیا تھا. اس میں جذبات زیادہ تھے- حجاج بن یوسف نے تو صرف حاکم وقت کے حکم پر کاروائی کی تھی- تا کہ اہل مدینہ کو ممکنہ بغاوت کی شرانگزیوں سے رو کا جا سکے- ابن زبیر رضی الله عنہ اہل مدینہ کےغلط پلان سے مرعوب ہو گئے نتیجہ ان کی شہادت کی صورت میں نکلا -جس کا ابن عمر رضی الله نے ان کو پہلے ہی عندیہ دے دیا تھا (واللہ اعلم)-
 

فہد ظفر

رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
193
ری ایکشن اسکور
243
پوائنٹ
95
السلام علیکم و رحمت الله و برکاتہ

ایک نظر اس پر بھی مقصد صرف امیر حجاج بن یوسف پر مواد اکٹھا کرنا ہے تاکہ انکے زندگی کے سارے پہلو سامنے آئیں-

حجاج بن یوسف کا آخری سفر​

عراق پر 20 برس حکومت کرنے کے بعد 54 برس کی عمر میں حجاج بیمار ہوا ہے اس کے معدے میں بے شمار کیڑے پیدا ہو گئے تھے اور جسم کو ایسی سخت سردی لگ گئی تھی کہ کہ آگ کی بہت سی آنگھیٹیاں بدن سے لگا کررکھ دی جاتی تھیں پھر بھی سردی میں کمی نہیں ہوتی تھی ـ جب زندگی سے نا امیدی ہو گئی تو حجاج نے گھروالوں سے کہا کہ مجھے بٹھا دو اور لوگوں کو جمع کرو ـ لوگ آئے تو اس نے حسب عادت ایک بلیغ تقریر کی ، موت اور سختیوں کا ذکر کیا ، قبراور اس کی تنہائی بیان کی ، دنیا اور اس کی بے ثباتی یاد کی ـ آخرت اور اس کی ہولناکیوں کی تشریح کی اپنے گناہوں اور ظلموں کا اعتراف کیا ـ پھر یہ شعر اس کی زبان پر جاری ہو گئے ـ

[qh]
إن ذنبي وزن السماوات والأرض
وظني بربي أن يحابي
[/qh]میرے گناہ آسمان اور زمین کے برابر بھاری ہیں ـ مگر مجھے اپنے خالق سے امید ہے کہ رعایت کرے گا ـ
[qh]

فلئن منّ بالرضا فهو ظني
ولأن مر بالكتاب عذابي
[/qh]اگر اپنی رضامندی کا احسان مجھے دے تو یہی میری امید ہے ـ لیکن اگر وہ عدل کرکے میرے عذاب کا حکم دے ـ

[qh]لم يكن منه ذاك ظلماً وبغياً
وهل يهضم رب يرجى لحسن الثواب ـ[/qh]
تو یہ اس کی طرف سے ہر گز ظلم نہیں ہو گا کیا یہ ممکن ہے کہ وہ رب ظلم کرے جس سے صرف بھلائی کی توقع کی جاتی ہے ـ
پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رودیا ـ موقعہ اس قدر عبرت انگیز تھا کہ مجلس میں کوئی بھی شخص اپنے آنسو روک نہ سکا ـ

اس کے بعد اس نے اپنا کاتب طلب کیا اور خلیفہ ولید بن عبدالملک کو حسب ذیل خط لکھوایا ـ
[qh] كنت أرعى غنمك، وأحوطها حياطة الناصح الشفيق برعية مولاه، فجاء الأسد -قصده بالأسد ملك الموت- فبطش بالراعي ومزق المرعى، وقد نزل بمولاك ما نزل بأيوب الصابر، وأرجو أن يكون الجبار أراد بعبده غفراناً لخطاياه، وتكفيراً لما حمل من ذنوبه. [/qh]
'' امابعد! میں تمہارہ بکریاں چراتا تھا ایک خیرخواہ گلہ بان کی طرح اپنے آقا کے گلے کی حفاظت کرتا تھا ، اچانک شیر آیا ، گلہ بان کو طمانچہ مارا اور چراگاہ خراب کر ڈالی ـ آج تیرے غلام پر وہ مصیبت نازل ہوئی ہے جو ایوب پر نازل ہوئی تھی ـ مجھے امید ہے کہ جبار و قہار اس طرح اپنے بندے کی خطائیں بخش اور گناہ دھونا چاہتے ہیں ـ "پھر خط کے آخیر میں یہ شعر لکھنے کا حکم دیا ـ
[qh]إذا ما لقيت الله عني راضياً
فإن شفاء النفس فيما هنا لك[/qh]
اگر میں نے اپنے خدا کو راضی پایا توبس میری مراد پوری ہوگئی

[qh]فحسبي بقاء الله من كل ميت
وحسبي حياة الله من كل هالك[/qh]
سب مرجائیں مگر خدا کا باقی رہنا میرے لیے کافی ہے ! سب ہلاک ہوجائیں مگر خداکی زندگی میرے لیے کافی ہے ـ

[qh]
لقد ذاق هذا الموت من كان قبلنا
ونحن نذوق الموت من بعد ذلك
[/qh]ہم سے پہلے یہ موت چکھ چکے ہیں ، ہم بھی ان کے بعد موت کا مزہ چکھیں گئے

[qh]فإن مت فاذكرني بذكر محبب
فقد كان جماً في رضاك مسالكي[/qh]
اگر میں مر جاؤں تو مجھے محبت سے یاد رکھنا ، کیونکہ تمہاری خوشنودی کے لیے میری راہیں بے شمار تھیں ـ

[qh]
وإلا ففي دبر الصلاة بدعوة
يلقى بها المسجون في نار مالك
[/qh]یہ نہیں تو کم ازکم ہر نماز کے بعد دعامیں یاد رکھنا جس سے جہنم کے قیدی کو کچھ نفع پہنچے

[qh]
عليك سلام الله حياً وميتاً
ومن بعدما تحيا عتيقاً لمالك
[/qh]تجھ پر ہر حال میں اللہ کی سلامتی ہو ـ جیتے جی ، میرے پیچھے اور جب دوبارہ زندہ کیاجاؤں ـ

حضرت بصری عیادت کو آئے تو حجاج نے ان سے اپنی تکلیفوں کا شکوہ کیا ـ حسن نے کہا '' میں تجھے منع نہیں کرتا تھا کہ نیکوکاروں کو نہ ستا مگر افسوس تم نے نہیں سنا ـ''حجاج نے خفا ہو کر جواب دیا ـ'' میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ اس مصیبت کو دور کرنے کے لیے دعا کرو ، میں تم سے یہ دعا چاہتا ہوں کہ خدا جلد از جلد میری روح قبض کرے اور اب زیادہ عذاب نہ دے ''

اسی اثباء میں ابومنذر یعلی بن مخلد مزاج پرسی کو پہنچے ـ
'' حجاج ـ ! موت کے سکرات اور سختیوں پر تیرا کیا حال ہے ؟''
انہوں نے سوال کیا ـ
'' ائے یعلٰی ! '' حجاج نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا '' کیا پوچھتے ہو ، شدید مصیبت ! سخت تکلیف ! ناقابل بیان الم ، ناقابل برداشت درد! سفر دراز! توشہ قلیل ! آہ ! میری ہلاکت ! اگر اس جبار و قہار نے مجھ پر رحم نہ کھایا ! ''
یہ سن کر ابومنذر نے کہا '' ائے حجاج! خدا اپنے انہی بندوں پر رحم کھاتا ہے جو رحم دل اور نیک نفس ہوتے ہیں ـ اس کی مخلوق سے بھلائی کرتے ہیں ـ محبت کرتے ہیں ـ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو فرعون اور ہامان کا ساتھی تھا کیونکہ تیری سیرت بگڑی ہوئی تھی ، تو نے اپنی ملت ترک کر دی تھی ـ راہ حق سے کٹ گیا تھا ـ صالحین کے طور طریقوں سے دور ہو گیا تھا تو نے نیک انسان قتل کر کے ان کی جماعے فنا کر ڈالی ، تابعین کی جڑیں کاٹ کر ان کا پاک درخت اکھاڑ پھینکا ، افسوس تو نے خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت کی ـ تو نے خون کی ندیاں بہا دیں ، جانیں لیں ، آبروئیں برباد کیں ، قہر و جبر کی روش اختیار کی ـ تو نے نہ اپنا دین ہی بچایا ، نہ دنیا ہی پائی ـ تونے خاندان مروان کو عزت دی ـ مگر اپنا نفس ذلیل کیا اور ان کا گھر برباد کیا ، مگر اپنا گھر ویران کر لیا ، آج تیرے لیے نہ نجات ہے نہ فریاد ، کیونکہ تو آج کے دن اس کے بعد غافل تھا ، تو اس امت کے لئے مصیبت او رقہر تھا ، اللہ کا ہزار ہزار شکرہے کہ اس نے تیری موت سے امت کو راحت بخشی اور تجھے مغلوب کر کے اس کی آرزو پوری کر دی ـ ''

راوی کہتا ہے کہ حجاج یہ سن کر مبہوت ہو گیا ، دیر تک سناٹے میں رہا ، پھر اس نے ٹھنڈی سانس لی ـ آنسو ڈبڈبا آئے اور آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کہا کہ '' ائے الہٰی ! مجھ بخش دے ، کیونکہ لوگ کہتے ہیں تو مجھے نہیں بخشے گا ـ پھر یہ شعر پڑھا :
۔
رب إن العباد قد أيأسوني
ورجائي لك الغداة عظيم
۔الٰہی ! بندوں نے مجھے ناامید کر ڈالا ـ حالانکہ میں تجھ سے بڑی امید رکھتا ہوں -
یہ کہ کر اس نے آنکھیں بند کر لیں ـ ''

اس میں شک نہیں ، رحمت الہٰی کے بے کنار وسعت دیکھتے ہوئے اس کا یہ اندازا طلب ایک عجیب تاثیر رکھتا ہے اور اس باب میں بے نظیر مقولہ ہے یہی وجہ ہے کہ جب حضرت حسن بصری سے حجاج کا یہ قول ذکر کیا گیا تو وہ پہلے متعجب ہوئے ـ'' کیا واقعی اس نے یہ کہا ـ'' ہاں ! اس نے ایسا ہی کہا ہے '' فرمایا '' تو شاید ! یعنی اب شاید اللہ اسے بخش دے ـ


البدایة والنہایة ج 9 ص 138

تحریر ۔/ مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ


لنک
 
Last edited:

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
یعنی ابھی تک بحث عنوان پر ہی ہو رہی ہےکہ کیا حجاج بن یوسف کے نام کے ساتھ دعائیہ کلمات استعمال کیے جا سکتے ہیں یا نہیں
یا اس کے لیے رحم کی دعا کی جا سکتی ہے یا نہیں
اس کے حوالے سے جو ظلم و ستم بیان کیا جا تے ہیں اگر وہ سو فیصد سچے ہوں اور اسی پس منظرکے مطابق ہیں تو کیا اس کی موت کفر پر ہوئی تھی ؟
جبکہ اس حوالے سے کچھ مبالغہ آرائی بھی پائی جاتی ہے۔
مزید عرض ہے حجاج بن یوسف کے ظلم وستم کو بیان کرنے والے حضرات سے عرض ہے کہ
ایک نظر کرم عبداللہ بن علی، ابو جعفر المنصور، ابو العباس السفاح، ابو مسلم خراسانی کی طرف بھی کر لی جائے جنہوں نے حکومت حاصل کرنے کے لیے اور حاصل کرنے کے بعد بھی لاتعداد بنو امیہ کے افراد ، بنو امیہ کے حمایتی ، خراسان اور اس کے قرب وجوار میں تو صرف عربی ہونا ہی موت کے لیے کافی تھا
صحابی رسول معاویہ رضی اللہ عنہ کی قبر کھود کر لاش نکالی گئی انا للہ و انا الیہ راجعون
چلیں یزید بن معاویہ تو ایک متنازعہ شخصیت ہے اس کے ساتھ تو جو ہوا سو ہوا انا للہ و انا الیہ راجعون
لیکن مروان بن الحکم رحمہ اللہ تابعی اور راوی صحیح بخاری، عبدالملک بن مروان فقہا المدینہ ، بلکہ ہشام بن عبدالملک کی لاش کو نکال کر پھانسی دی گئی اس کی لاش کو جلایا گیا انا للہ و انا الیہ راجعون
اسلام کے کفار کے ساتھ جنگوں کے اصول مدنظر لیے جائیں اور یہ بھی کہ بنو امیہ کے مکمل دور میں علوی خاندان کے افراد کے ساتھ جو کچھ ہوا اگر وہ یہ کرتے تو کچھ سمجھ میں بھی آتا ہے کہ چلیں جی انتقاما کیا جا رہا ہے لیکن علی بن حسین رحمہ اللہ، محمد بن الحنفیہ رحمہ اللہ خلفا بنو امیہ کی بیعت کرتے ہیں بلکہ ان کے خلاف کسی بھی بغاوت کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں
یہ ایک بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب مجھے آج تک نہیں ملا کہ آخر بنو امیہ کے دور حکومت میں بنو عباس کے ساتھ ایساکیا ہوا تھا جو وہ انسانیت کی تمام تر حدود سے تجاوز کر کے بدترین ظلم وستم کرنے والے بن گئے تھے ۔ خدارا یہاں پر بنو امیہ کے ظلم وستم کی داستانیں نہ سنائی جائیں کہ ان کا ردعمل ہے ان کے ظلم وستم کا جو لوگ نشانہ بنے وہ تو ان کے تابع و فرمانبردار رہے اور چوتھے محلے سے بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کے مصداق جب ظلم و ستم ہو چکا مدت بیت گئی پھر اچانک انہیں خیال آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وغیرہ وغیرہ کیا یہ سب ظلم و ستم نہیں تھا ، درندگی، سفاکیت نہیں تھی بنو عباس کا انسانیت کی تمام حدوں کو تجاوز کرنے کے باوجود ان کا ظلم سستم قابل توجہ نہیں اور ،،،،،،،،،، لیکن صرف بنو امیہ اور اس کے وابستگان کا ظلم و ستم ہی نظر آئے تو عرض ہے کہ عینک اگر تبدیل کرو لی جائے تو بہتر ہے کہ ظلم و ستم جہاں بھی ہو نظر آئے
اس پر بھی تحقیقی نظر ہو گی کہ بنو عباس کے ان ظلم وستم کے ان قصوں میں کتنی حقیقت ہے ان شاء جلد ہی حاضری ہو گی اس حوالے سے
 
Last edited:

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آیئے ذرا ایک اور پی ایچ ڈی کا تھیسس جو اسی موضوع پر لکھا گیا ہے کہ العراق فی عہد الحجاج بن یوسف
مقالہ نگار نے جہاں حجاج بن یوسف کے حوالے سے انتظامی پہلووں پر بات کی وہاں حجاج بن یوسف کی کچھ حسنات کا ذکر بھی کیا
Document-page-032.jpg
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top