• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حرام خوری کی سزا

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
وہ مال جو ناجائز طریقے سے حاصل کیا گیاہو مثلا سود ،چوری، رشوت، خیانت، غصب،دھوکہ ، ظلم اور حرام پیشے کے ذریعے سب حرام ہیں ۔ ایسی کمائی اسلام میں سخت منع ہے ،اور یہ گناہ کبیرہ ہے جو ان حرام کاری کے ذریعہ زندگی گذارتا ہے ان کے لئے دنیا و آخرت میں رسواکن عذاب ہے ۔

اس بات کا اندازہ ایک حدیث سے لگائیں :

عن ابن عُمر رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم قال:لا تزالُ المسألةُ بأحدكم حتى يلقى الله تعالى وليس في وجههِ مزعةُ لحمٍ۔ (رواہ البخاری و مسلم)
ترجمہ: تم ميں سے ايک شخص مانگتا رہتا ہے يہاں تک کہ اللہ تعالی سے جا ملتا ہے (قیامت میں اس حال میں آئے گا ) کہ اس کے چہرے پر گوشت کا کوئی ٹکڑا نہيں ہوگا۔

جب بھیک مانگنے کی اتنی بڑی سزا ہے تو حرام خوری کرنےاور حرام کاری میں زندگی بسر کرنے کی کیا سزا ہوگی ؟ اللہ تعالی ہمیں کسب حرام اور اکل حرام سے بچائے ۔ آمين

(1) حرام خور کی سب سے بدترین سزا یہ ہے کہ وہ جنت سے محروم ہوجاتا ہے ۔

نبی ﷺ کا فرمان ہے : لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ لَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ ، النَّارُ أَوْلَى بِهِ( السلسلہ الصحیحۃ: 2609)

ترجمہ: "وہ گوشت جنت میں نہ جاسکے گا جس کی نشونما حرام مال سے ہوئی ہو (اورایسا حرام گوشت) دوزخ کا زیادہ مستحق ہے ۔

٭سحت: اس میں ہروہ مال شامل ہے جو حرام طریقے سے کمایا گیا ہو۔

فائدہ : اگر اللہ تعالی نے دنیا میں ہی اپنی رحمت سے معاف کردیا، یا اس سے متعلق سچی توبہ قبول کرلی تو پھر معاملہ الگ ہے ورنہ اگر مسلمان ہوکر حرام خوری کی تو اس کی سزا پہلے جہنم میں ملے پھر وہ جنت میں جائے گا۔

(2) اگر کسی نے زمیں غصب کرلی ہو تو اسے قیامت کے دن زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَنْ ظَلَمَ مِنْ الْأَرْضِ شَيْئًا طُوِّقَهُ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ. (رواه البخاري: 2452)
ترجمہ :جس نے کسی کی زمین ظلم سے لے لی، اسے قیامت کے دن سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔یعنی ساتوں طبقوں میں اسے دھنسا دیا جائے گا۔

(3) حرام کمائی کھانا،قبولیتِ دعا کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " أيها الناس ، إن الله طيب لا يقبل إلا طيبا ، وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين ، فقال : ( يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا إني بما تعملون عليم ) وقال : ( يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم ) ثم ذكر الرجل يطيل السفر ، أشعث أغبر ، يمد يديه إلى السماء ، يا رب ، يا رب ، ومطعمه حرام ، ومشربه حرام ، وملبسه حرام ، وغذي بالحرام فأنى يستجاب لذلك ". ( رواه مسلم )
ترجمہ: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لوگو! بیشک اللہ تعالی پاک ہے، اور پاکیزہ اشیاء ہی قبول کرتا ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے متقی لوگوں کو بھی وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو دیا ، فرمایا: ترجمہ: اے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ، اور نیک عمل کرو، بیشک تم جو بھی کرتے ہو میں اسکو بخوبی جانتا ہوں۔ (المؤمنون/51)اور مؤمنین کو فرمایا:ترجمہ:اے ایمان والو! ہم نے جو تم کو پاکیزہ اشیاء عنائت کی ہیں ان میں سے کھاؤ۔ (البقرہ/172) پھر اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کا ذکر فرمایا: جس کے لمبے سفر کی وجہ سے پراگندہ ، اور گرد و غبار سے اَٹے ہوئے بال ہیں، اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی جانب اٹھا کر کہتا ہے: یا رب! یا رب! اسکا کھانا بھی حرام کا، پینا بھی حرام کا، اسے غذا بھی حرام کی دی گئی، ان تمام اسباب کی وجہ سے اسکی دعا کیسے قبول ہو؟

(4) صدقہ کی عدم قبولیت :
وعن عبد الله بن عمر رضي الله عنه أنّ رسول الله صلى الله عليه آله وسلم قال : لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ وَلاَ صَدَقَةٌ مِنْ غُلُولٍ . ( رواه مسلم )
ترجمہ: اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی نماز بغیر طہارت کے قبول نہ کی جائے گی اور نہ ہی حرام مال کا کوئی صدقہ قبول کیا جائے گا۔

٭ غلول کہتے ہیں ہر وہ مال جس میں حرام عنصر داخل ہو۔

(5) حرام مال کا اثر عبادت پہ بھی ہوتا ہے جیساکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
لا يقبل اللّه صلاة امرىء في جوفه حرام(جامع العلوم والحکم لابن رجب)
ترجمہ: اللہ اس آدمی کی عبادت قبول نہیں کرتا جس کے پیٹ میں حرام داخل ہو۔

(6) حرام مال کھانا عذاب قبر کا موجب ہے جیساکہ بخاری کی حدیث میں سود خور کے متعلق ہے خون کا ایک دریا ہے ، جس میں ایک آدمی (تیر رہا ) ہے ، اس نہر کے ایک کنارے ایک آدمی کھڑا ہے ، اس کے پاس پتھروں کا ایک ڈھیر ہے ، خون کے دریا میں جو آدمی ہے ، وہ کوشش کرتا ہے کہ اس دریا سے باہر نکل جائے ، جب وہ کنارے کے قریب آتا ہے، تو کنارے پر کھڑا شخص اس کے منہ میں زور سے پتھر دے مارتا ہے ، پھر وہ شخص خون کے دریا کے وسط میں چلا جاتا ہے ،پھر وہ کوشش کرتا ہے کہ باہر نکل جائے ، لیکن کنارے پر کھڑا شخص اس کے منہ پر پھر زور سے ایک پتھر مارتا ہے ۔ اس کے ساتھ مسلسل یہی سلوک ہورہا ہے ۔
سود خور کی اور بھی سزائیں احادیث میں مذکور ہیں ۔

(7) حرام مال کھانے والا ملعون ہے جیساکہ رشوت خور کے متعلق آیا ہے :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ ‏.‏{ سنن ابو داود ، ترمذی ، ابن ماجہ }
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر ورضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے پر لعنت فرمائی ہے ۔

(8) حرام مال عدم برکت اور زوال نعمت کا سبب ہے :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ سَمِعْتُ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏: الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا، فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا، وَإِنْ كَذَبَا وَكَتَمَا مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا ‏(رواه البخاری)
ترجمہ: حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بائع اور مشتری کو اختیار ہے( بیع کو توڑنے کا یا اس کوباقی رکھنے کا) جب تک کہ وہ جدانہ ہوجائیں، پس اگر ان دونوں نے (بیع و شراء کرتے ہوئے) سچ بولا اور ( صاف صحیح) بیان کیا( تو ) ان دونوں کو بیع و شراء میں برکت دی جائے گی اور اگر ان دونوں نے جھوٹ بولا اور چھپایا (یعنی سود ے یا قیمت کے عیوب کو بیان نہ کیا) تو ان کی اس بیع وشراء میں برکت ختم کردی جائے گی۔

(9) قیامت میں رسول اللہ اس کے دشمن ہوں گے اور اس سے نمٹیں گے جو مزدور کا حق مارتے ہیں :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَنْ كُنْتُ خَصْمَهُ خَصَمْتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُوفِهِ أَجْرَهُ(رواہ البخاری)
ترجمہ: رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تین اشخاص ایسے ہیں (جن کا روز قیامت میں دشمن ہوجاؤنگا) اور میں ان سے اچھی طرح نمٹوں گا، ان میں ایک وہ مرد جس نے میرا نام لے کر وعدہ کیا پھر اس نے وعدہ پورا نہ کیا، دوسرا وہ شخص ہے جس نے آزاد مرد یا عورت کو بیچا اور اس کی قیمت کو کھاگیا، تیسرا وہ شخص جس نے اجرت پر مزدور لیا اس سے کام تو پورا کرایا مگر مزدوری پوری نہیں دی۔

میں نے اختصار سے حرام خوری سے متعلق چند سزاؤں کا تذکرہ کیا وگرنہ اس سے متعلق بے شمار سزائیں ہیں ، اس کے لئے تفصیل کی ضرورت ہے جس کا موقع یہاں نہیں۔

بالاختصار یہ بھی جان لیں کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو حلال کمائی کی ترغیب دی اور حرام کمائی سے منع کیا لہذا حلال طریقے سے ہی روزی کمائی جائے ۔ سلف صالحین حرام کمائی بلکہ مشتبہ امور سے بھی بچتے تھے جس کا اسلام نے حکم دیا ہے مگر آج کا زمانہ نبی ﷺ کے فرمان کا مصداق ہے کہ ایک ایسا زمانہ آئے جب لوگ حلال و حرام کی پرواہ نہیں کریں گے ۔
 
Top