- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,552
- پوائنٹ
- 641
ایک وقت میں ہمارے اس فورم میں حسن لغیرہ کی حجیت کی ایک بحث شروع ہوئی تھی اور اس وقت راقم کی طرف سے یہ کہا گیا تھا کہ اس بارے محدث فورم کی انتظامیہ کی طرف سے ایک مضمون شائع کیا جائے گا جو اس لنک میں شائع کر دیا گیا ہے۔ اس مضمون کا ایک مختصر سا خلاصہ بھی ساتھ ہی پیش خدمت ہے:
ابتدائیہ
حدیث، روایت یا خبر کو ایک اعتبار سے تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
۱۔خبر صحیح یا حسن
۲۔ خبر ضعیف
۳۔ خبر موضوع
صحیح یا حسن حدیث جمیع اہل علم کے نزدیک دینی مسائل میں قابل احتجاج اور حجت ہے جبکہ موضوع روایت بالاتفاق علماء کے نزدیک مردود ہے۔ خبر کی تیسری قسم ضعیف روایت کے ِمختلف احوال میں حجت ہونے یا نہ ہونے کے بارے اہل علم کے ہاں تفصیل ہے۔ ہماری اس تحریر کا موضوع یہ ہے کہ ایک ضعیف روایت یا خبر کتاب و سنت اور سلف صالحین کے فکر کی روشنی میں کن قرائن و شواہد یا حالات و کیفیات یا شروط و قیود کی روشنی میں صالح یا حسن یا قابل احتجاج قرار پاتی ہے۔
آسان فہم الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک موضوع روایت کی مثال ایک مردہ شخص کی سی ہے کہ جس میں حیات کو امکان کے درجہ میں پانے کی بھی امید نہیں ہوتی ہے جبکہ ضعیف روایت کی مثال ایک بیمار شخص کی سی ہے کہ جس کے بعض احوال و کیفیات میں تندرستی اور صحت کے امکانات ہوتے ہیں۔ زیر نظر تحریر میں ان قرائن و شواہد کو موضوع بحث بنایا گیا ہے کہ جن کی روشنی میں ایک خبر کے بارے وہم، ظن غالب یا علم کے درجہ کو پہنچ جاتا ہے یعنی ضعیف روایت قابل احتجاج یا حسن درجہ کو پہنچ جاتی ہے۔ یہ مضمون سہ ماہی حکمت قرآن کے آئندہ شمارہ میں اشاعت کے لیے بھی دیا گیا ہے۔
حرف آخر
آخر میں ہم اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ مضمون ایک علمی مسئلہ میں اہل علم کی ایک غالب جماعت کی ترجمانی کے لیے تحریرکیا گیا اور اس سے مقصود کسی مناظرہ ومباحثہ کا آغاز کرنا نہیں ہے جیسا کہ ہمارے ہاں بعض رسائل میں اس موضوع سے متعلق ایک بحث 'حسن لغیرہ' کے ضمن میں فریقین کی جانب سے شدید نقد وتعاقب اور بعض اوقات تو طعن وطنز بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ امکان ہے بعض اصحاب علم وفضل کو اس نقطہ نظر سے اختلاف بھی ہو اور ان کے پاس اپنے موقف کے اثبات کے دلائل بھی ہوں۔
پس اس مسئلہ میں ضرورت اس امر کی ہے کہ جانبین ایک دوسرے کے موقف کے لیے تحمل اور برداشت کا رویہ پید اکریں اورممکن حد تک کسی مناظرانہ اور مباحثانہ فضا سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے موقف اور اس کے دلائل کو مثبت انداز میں بیان کر دیا جائے، جس کے موقف اور استدلال میں جان ہو گی، وہ اہل علم اور خواص میں عام ہو جائے گا۔اور اپنا موقف واضح کر دینے کے بعد اتنا کہہ دینا کافی ہے:
اللَّـهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ ۖ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ ۖ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ۖ اللَّـهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ ﴿١٥﴾
ابتدائیہ
حدیث، روایت یا خبر کو ایک اعتبار سے تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
۱۔خبر صحیح یا حسن
۲۔ خبر ضعیف
۳۔ خبر موضوع
صحیح یا حسن حدیث جمیع اہل علم کے نزدیک دینی مسائل میں قابل احتجاج اور حجت ہے جبکہ موضوع روایت بالاتفاق علماء کے نزدیک مردود ہے۔ خبر کی تیسری قسم ضعیف روایت کے ِمختلف احوال میں حجت ہونے یا نہ ہونے کے بارے اہل علم کے ہاں تفصیل ہے۔ ہماری اس تحریر کا موضوع یہ ہے کہ ایک ضعیف روایت یا خبر کتاب و سنت اور سلف صالحین کے فکر کی روشنی میں کن قرائن و شواہد یا حالات و کیفیات یا شروط و قیود کی روشنی میں صالح یا حسن یا قابل احتجاج قرار پاتی ہے۔
آسان فہم الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک موضوع روایت کی مثال ایک مردہ شخص کی سی ہے کہ جس میں حیات کو امکان کے درجہ میں پانے کی بھی امید نہیں ہوتی ہے جبکہ ضعیف روایت کی مثال ایک بیمار شخص کی سی ہے کہ جس کے بعض احوال و کیفیات میں تندرستی اور صحت کے امکانات ہوتے ہیں۔ زیر نظر تحریر میں ان قرائن و شواہد کو موضوع بحث بنایا گیا ہے کہ جن کی روشنی میں ایک خبر کے بارے وہم، ظن غالب یا علم کے درجہ کو پہنچ جاتا ہے یعنی ضعیف روایت قابل احتجاج یا حسن درجہ کو پہنچ جاتی ہے۔ یہ مضمون سہ ماہی حکمت قرآن کے آئندہ شمارہ میں اشاعت کے لیے بھی دیا گیا ہے۔
حرف آخر
آخر میں ہم اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ مضمون ایک علمی مسئلہ میں اہل علم کی ایک غالب جماعت کی ترجمانی کے لیے تحریرکیا گیا اور اس سے مقصود کسی مناظرہ ومباحثہ کا آغاز کرنا نہیں ہے جیسا کہ ہمارے ہاں بعض رسائل میں اس موضوع سے متعلق ایک بحث 'حسن لغیرہ' کے ضمن میں فریقین کی جانب سے شدید نقد وتعاقب اور بعض اوقات تو طعن وطنز بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ امکان ہے بعض اصحاب علم وفضل کو اس نقطہ نظر سے اختلاف بھی ہو اور ان کے پاس اپنے موقف کے اثبات کے دلائل بھی ہوں۔
پس اس مسئلہ میں ضرورت اس امر کی ہے کہ جانبین ایک دوسرے کے موقف کے لیے تحمل اور برداشت کا رویہ پید اکریں اورممکن حد تک کسی مناظرانہ اور مباحثانہ فضا سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے موقف اور اس کے دلائل کو مثبت انداز میں بیان کر دیا جائے، جس کے موقف اور استدلال میں جان ہو گی، وہ اہل علم اور خواص میں عام ہو جائے گا۔اور اپنا موقف واضح کر دینے کے بعد اتنا کہہ دینا کافی ہے:
اللَّـهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ ۖ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ ۖ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ۖ اللَّـهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ ﴿١٥﴾
٭٭٭٭٭