محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,786
- پوائنٹ
- 1,069
حسین خوشبو تھے ...اور خوشبو لٹ گئی ...( رضی اللہ عنہ)
...
وہ سب اپنے اپنے زمانے کےنبی تھے ، محض اپنے زمانے کے اور اپنی قوم کے نبی - لیکن اب کے اللہ نے ان کو بھیجا اور انہی ہاتھ اپنا سندیسہ بھیجا کہ اب کوئی نہیں آئے گا ، اور اب یہ جو آ گئے ہیں تو جبرائیل بھی نہیں آئے گا
ایک روز بے برگ و باہ پہاڑ کے پہلو میں غار میں جبرائیل اترے ، تنہائ میں مصروف فکر عبدالمطلب کے فرزند چونک پڑے ، کچھ ڈر سے گئے ، پہلی وحی کا نزول تھا
..... "اقراء" ......
اور یہ ہی اعلان تھا کہ اب آسمان سے روح القدس ، جبرائیل ، فرشتوں کے سردار کسی پر وحی لے کر نہیں اتریں گے
رب نے موتیوں کی ، اور جواہرات کی اس لڑی کا امام مقرر کر دیا کہ مقتدی پھلے سے آچکے تھے ، یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تھے - سردار مکہ کے یتیم پوتے ، لیکن ازل تا ابد انسانیت کے فخر اور سب سے افضل
اک روز ساتھی کے ساتھ مدینے کے راستے میں نکلے ، بچے کھیل رہے تھے ، اک بچہ کچھ الگ سا تھا ، زیادہ پیارا، زیادہ "سوہنا " .... نبی کے قدم ٹھہر گئے ، بچہ بھی کھل اٹھا ، آپ آگے بڑھے کہ بچے کو پکڑ لیں ، بچہ آگے کو بھاگا ، کھیل ہی کھیل میں "پکڑن پکڑائ" شروع ہو گئی ...اور جب یہ کھیل نانا اور نواسے کا ہو تو تو دیر تک نواسہ ہی جیتتا ہے - جانتے ہیں کیوں ؟ ...نانا کا جی کب چاہتا ہے کہ نواسہ ہارے ..... پھر نواسہ نانا کو چمٹ گیا ، ساتھی روایت کرتا ہے کہ نانا نے ایک ہاتھ نواسے کی ٹھوڑی کے نیچے رکھا ، چوما اور پھر صاحب وحی نے کہا کہ جو اپنی مرضی سے نہیں بولتے :
"حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ، یا اللہ تو اس سے محبت کر جو حسین سے محبت کرتا ہے ، حسین نواسوں میں سے ایک نواسہ ہے "
اور پھر ان سے یوں محبت ہوئی کہ مثال نہ ملی ، اس روز بہت مصروف تھے جناب عمر رضی اللہ عنہ کہ حسین چلے آئے ، مصروفیت دیکھ کر جو پلٹے تو امیرالمومنین کو خبر ہو گئی "حسین بیٹا کیوں واپس چل دئیے؟"
سید نے کہا "آپ مصروف جو تھے"
"ہمارے سر پر عزت کا جو تاج ہے وہ اللہ کے فضل کے بعد خاندان نبوت کی برکت سے ہی تو ہے"...
.یہی تو وجہ تھی کہ جب مجوس کا دیس ایران فتح ہوا تو وہاں کی شہزادی قید ہو کر کے آئ تو سیدنا عمر نے اس شہزادی کے لیے مدینے کے شاہزادے کو کہا اور ان کے نکاح میں دے دی ..
اور حسن و حسین ، کریم ابن کریم تھے نجیب ابن نجیب تھے ، اصحاب رسول سے ملنے والے اس محبت کا ، پیار کا بدلہ اس روز دیا کہ جب باغی مدینے پر چڑھ دوڑے ، خلیفہ کے گھر کا محاصرہ کر لیا - سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مگر سختی سے اپنے ساتھیوں کو مقابلے میں اترنے سے روک دیا - مگر حسین نہ رہ سکے تھے کس کے نواسے کہ جو بہادری کا استعارہ تھے - تلوار حمائل کی ، اور سیدنا عثمان ، کہ جو ان کے خالو تھے ، کی چوکھٹ سے آن لگے
جگ تے توں جیویں
تے تیری آس تے میں جیواں
جب تک سیدنا حسین اپنوں میں رہے ، مامون رہے ، مدینے میں رہے سر کا تاج تھے ، مکے میں گئے ماتھے کا جھومر ٹہرے ....حجاز کی رونق تھے اہل حجاز کی جان تھے- تے تیری آس تے میں جیواں
لیکن ...... فرشتہ تو بہت پہلے آ گیا تھا ، صاحب وحی اس روز اشک بار تھے ، ایک ساتھی جو پاس آیا تو آنسو دیکھ کے تڑپ اٹھا ، پیغام بر آئے تھے ،خبر دے کر گئے کہ فرات کے کنارے خوشبو لٹ جائے گی ، حسین شیہد ہو جائیں گے .... کہا بھی یہی تھا نا کہ
"حسن و حسین دنیا میں میری خوشبو ہے "
سیدنا حسین عراقیوں میں چلے آئے ، کوفے کی بےوفا مٹی نے ان سے بھلا کیا وفا کرنا تھی .... ایک روز ایک کوفی عبداللہ بن عمر ( رضی اللہ عنہ) سے سوال کر بیٹھا کہ حالت احرام میں مچھر کو اگر مار لیا .....؟ بے ساختہ کہہ اٹھے کہ
"عراقیوں نے حسین کے خون کو بہا لیا اور مچھر کی فکر میں ہیں " -
کوفہ آ گیا ، خطوں کی بوریاں کھل گئیں ، لیکن کوفی سب بھاگ گئے ، صاف مکر گئے ، سید کے لیے تکلیف دہ معاملہ ہو گیا ، امیر معا ویہ رضی اللہ عنہ نے اک بار ان کو خط لکھا تھا ، ذھبی نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے کہ امیر ( رضی اللہ عنہ) نے لکھا تھے :
"حسین ! ان عراقیوں کو آپ آزما چکے ، یہ وہی تو ہیں جنہوں نے آپ کے والد ، اور بھائی کے ساتھ بھی دھوکہ کیا تھا "
اور جب سید بادشاہ کوفے کے جوار میں پہنچے تو ان کو معلوم ہو گیا کہ امیر کی بات سچ ہو گئی ... ان کے ساتھ اہل عراق نے دھوکہ کیا ، ان کو اس روز سیدنا علی کی بات یاد آئ ہو گی کہ معاویہ تیرے ساتھ کھرے میرے کھوٹے ہیں .... کرب وبلا میں اک ہنگام تھا اور ایسے میں سیدنا حسین نے تقریر کی ، مقتل حسین کا شیعہ مصنف روایت کرتا ہے کہ سید نے فرمایا:" ہم تمھاری مدد کو آئے ، تم نے ہم پر تلواریں سونت لیں ، تمہارا ناس ہو ، تم اس امت کے طاغوت ، حق سے منحرف ، کتاب اللہ کو پھینکنے والے ، سنتوں کو مٹانے والے اور پیغمبروں کی اولادوں کو قتل کرنے والے ہو "
....سید عرب ، جگرگوشہ رسول نے اپنے قاتلوں کی امت کو خبر کر دی.....کہ جنہوں نے پیغمبروں کی اولاد کو قتل کرنا تھا........
سورج چمک رہا تھا ، تلوار چل رہی تھی نہ جانے کس کی چمک زیادہ تھی ......تلوار اٹھی ، جھکی ، چلی .............اور خوشبو لٹ گئی
...................ابوبکرقدوسی