• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
لیکن متن اتنا چھوٹا کیوں اور تشریح اتنی لمبی کس نے اور کیوں کردی
لگتا ہے آپ کو نہ عربی آتی ہے نہ دین کی اتنی سمجھ ہے تو میری طرف سے سلام
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
ابھی یہ ممکن کئے دیتے ہیں
کراھت والی بات امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں بیان کی ہے جیسے قرآن کے بعد اصح ترین کتاب مانا جاتا ہے اور اس میں یہ صراحت ہے کہ حضرت فاطمہ کے وصال کے بعد جب مولا علی علیہ السلام نے حضرت ابو بکر کو صلح کی پیشکش کی ا س وقت یہ جملہ امام بخاری نے بیان کیا لیجئے آپ کی خدمت میں پوری روایت ہی پیش کئے دیتا ہوں بمعہ ترجمہ کے اور ترجمہ بھی داؤد راز صاحب کا کیا ہوا ترجمہ ہے





صحیح بخاری :کتاب المغازی :باب: غزوہ خیبر کا بیان: حدیث نمبر: 4240 - 4241
پہلے تو آپ ترجمہ میں کی گئی تحریفات پر نظر کریں فاطمہ علیہا السلام کا ترجمہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کیا گیا
كراهية لمحضر عمر‏ کا ترجمہ یہ منظور نہ تھاعمر رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ آئیں
‏‏‏‏ كراهية لمحضر عمر‏ یہ الفاظ امام بخاری نے اس واقع کے تسلسل میں بیان کئے ہیں اور آپ کو اس کا علم نہیں حیرت کی بات ہے کہ آپ جس کتاب کو قرآن کے بعد اصح کتاب مانتے ہوں اسی کتاب کے آپ کو معرفت نہیں اس لئے آپ سے بھی میں یہی گذارش کروں گا کہ پہلے آپ صحیح بخاری کا مطالعہ فرمالیں اس میں بیان کئے گئے معانی و مطالب میں پوری طرح طاق ہوجائے پھر اس طرح کے موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار کریں تو بہتر ہوگا
والسلام
اگر آپ نے اس نا ممکن کو ممکن کردیا ہے تو ذرا یہ بھی ثابت کردیں کہ :كراهية لمحضر عمر‏ کے الفاظ وقتی نا پسندیدگی کے تھے یا دائمی کے ؟؟؟ کیوں کہ حدیث کے متن سے تو پتا چل رہا ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ نے صرف وقتی طور پر حضرت عمر رضی الله عنہ کی موجودگی کو نا پسند کرتے ہوے ہی یہ الفاظ فرماے تھے -

ورنہ اگر بات دائمی کراہت کی ہے تو حضرت علی رضی الله عنہ کے یہ الفاظ بھی پڑھ لیں جو "صحیح بخاری" کے ہیں : ذرا ان پر بھی غور کریں اور بتائیں کہ حضرت عمر رضی الله عنہ سے کراہت رکھنے والا شخص یہ الفاظ که سکتا ہے؟؟؟ -

صحیح بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی:
حدثني الوليد بن صالح،‏‏‏‏ حدثنا عيسى بن يونس،‏‏‏‏ حدثنا عمر بن سعيد بن أبي الحسين المكي،‏‏‏‏ عن ابن أبي مليكة،‏‏‏‏ عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال إني لواقف في قوم،‏‏‏‏ فدعوا الله لعمر بن الخطاب وقد وضع على سريره،‏‏‏‏ إذا رجل من خلفي قد وضع مرفقه على منكبي،‏‏‏‏ يقول رحمك الله،‏‏‏‏ إن كنت لأرجو أن يجعلك الله مع صاحبيك،‏‏‏‏ لأني كثيرا مما كنت أسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول كنت وأبو بكر وعمر،‏‏‏‏ وفعلت وأبو بكر وعمر،‏‏‏‏ وانطلقت وأبو بكر وعمر‏.‏ فإن كنت لأرجو أن يجعلك الله معهما‏.‏ فالتفت فإذا هو علي بن أبي طالب‏.

ہم سے ولید بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عیسیٰ بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے عمر بن سعید بن ابی الحسین مکی نے ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ کھڑا تھا جو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے لیے دعائیں کر رہے تھے، اس وقت ان کا جنازہ چارپائی پر رکھا ہوا تھا، اتنے میں ایک صاحب نے میرے پیچھے سے آ کر میرے شانوں پر اپنی کہنیاں رکھ دیں اور (عمر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے) کہنے لگے اللہ آپ پر رحم کرے۔ مجھے تو یہی امید تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ (دفن) کرائے گا، میں اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں فرماتے سنا کرتا تھا کہ "میں اورابوبکر اور عمر تھے" "میں نے اور ابوبکر اور عمر نے یہ کام کیا" "میں اور ابوبکر اور عمر گئے" اس لیے مجھے یہی امید تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان ہی دونوں بزرگوں کے ساتھ رکھے گا۔ میں نے جو مڑکر دیکھا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
کتاب اللہ کے بعد اصح ترین کتاب میں لکھا ہے کہ سیدہ النساء اہل جنت حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد مولا علی علیہ السلام نے حضرت ابو بکر کو اپنے یہاں بلایا صلح کرنے کے لئے اور یہ شرط رکھی کہ آپ اکیلے آئیں کسی کو اپنے ساتھ نہ لائے کیونکہ مولا علی علیہ السلام کو حضرت عمر کی موجودگی پسند نہیں تھی اگر اس ناپسنددگی کو امام بخاری کے الفاظ میں بیان کروں تو شاید کسی کے دل آزاری ہو لیکن میں تو صرف نقل کروں گا کیونکہ نقل کفر کفر نا باشد امام بخاری کے الفاظ یہ ہیں مولا علی کو حضرت عمر کی موجودگی سے کراہت ہوتی تھی ایک بار پھر معذرت کیونکہ نقل کفر کفر نا باشد اور پھر یہ کوئی کفر بھی نہیں اگر ہوتا تو امام بخاری بیان نہ کرتے

آپ یہ فرمارہیں ہیں کہ مولا علی علیہ السلام نے فوری طور سے حضرت ابو بکر کے ہاتھوں میں ہاتھ دے دیا جبکہ امام بخاری کے مطابق اس صلح کی مدت کم از کم 6 یا 7 ماہ بنتی ہے کیونکہ امام بخاری کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے 6 ماہ بعد سیدہ النساء اہل جنت زوجہ مولا علی والدہ سرداران اہل جنت حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصل ہوا اور اما م بخاری کے ہی مطابق حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو بکر سے شدید ناراض ہوکر اس دارفانی سے کوچ کرگئیں اور امام بخاری ہی حضرت فاطمہ علیہا السلام کی ناراضگی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد بیان کرتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہےکہ
" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا "
اور یہ بھی مسلم حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی اللہ تبارک تعالیٰ کی ناراضگی ہے
اگر میری اس تحریر سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معافی کا طلب گار ہوں کیونکہ میں نے وہی نقل کیا ہے جو امام بخاری نے بیان کیا
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دین کی سمجھ عطاء فرمائے اور صراط مستقیم پر گامزن رکھے آمین
صحیح بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی
حدثني عبد الله بن محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا أبو عامر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا فليح،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثني سالم أبو النضر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن بسر بن سعيد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ قال خطب رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس وقال ‏"‏ إن الله خير عبدا بين الدنيا وبين ما عنده فاختار ذلك العبد ما عند الله ‏"‏‏.‏ قال فبكى أبو بكر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فعجبنا لبكائه أن يخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم عن عبد خير‏.‏ فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم هو المخير وكان أبو بكر أعلمنا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن من أمن الناس على في صحبته وماله أبا بكر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولو كنت متخذا خليلا غير ربي لاتخذت أبا بكر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولكن أخوة الإسلام ومودته،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لا يبقين في المسجد باب إلا سد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ إلا باب أبي بكر ‏"‏‏.

مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعامر نے بیان کیا، ان سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سالم ابوالنضر نے بیان کیا، ان سے بسربن سعید نے اور ان سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کودنیا میں اور جو کچھ اللہ کے پاس آخرت میں ہے ان دونوں میں سے کسی ایک کا اختیار دیا تو اس بندے نے وہ اختیار کر لیا جو اللہ کے پاس تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے۔ ابوسعید کہتے ہیں کہ ہم کو ان کے رونے پر حیرت ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو کسی بندے کے متعلق خبردے رہے ہیں جسے اختیار دیا گیا تھا، لیکن بات یہ تھی کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ بندے تھے جنہیں اختیار دیا گیا تھا اور (واقعتا) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اپنی صحبت اور مال کے ذریعہ مجھ پر ابوبکر کا سب سے زیادہ احسان ہے اور اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو جانی دوست بناسکتاتو ابوبکر کو بناتا۔ لیکن اسلام کا بھائی چارہ اور اسلام کی محبت ان سے کافی ہے۔ دیکھو مسجد کی طرف تمام دروازے (جو صحابہ کے گھروں کی طرف کھلتے تھے) سب بند کر دیئے جائیں۔ صرف ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دروازہ رہنے دو۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
پہلے آپ نے یہ ارشاد فرمایا
اصل میں تو یہی گمان کیا جا سکتا ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ کے یہ الفاظ حضرت عمر رضی الله عنہ کے اسلام قبول کرنے سے پہلے کے ہیں نہ کہ بعد کے ؟؟؟ - کیوں کہ اسلام لانے سے پہلے ایک مسلمان کو ایک غیر مسلم سے کراہت ہونا فطری امر تھا -
پہلے تو مطلقاًانکار اور جب اس ناممکن کو امام بخاری نے ممکن کردیا تو اب وقتی اور دائمی ثابت کرنے کی بات پہلے یہ کہا جارہا تھا کہ حضرت عمر کے اسلام قبول کرنے کے بعد مولا علی علیہ السلام حضرت عمر سے کراھت کررہی نہیں سکتے
اور اب یہ
اگر آپ نے اس نا ممکن کو ممکن کردیا ہے تو ذرا یہ بھی ثابت کردیں کہ :كراهية لمحضر عمر‏ کے الفاظ وقتی نا پسندیدگی کے تھے یا دائمی کے ؟؟؟ کیوں کہ حدیث کے متن سے تو پتا چل رہا ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہنے صرف وقتی طور پر حضرت عمر رضی الله عنہ کی موجودگی کو نا پسند کرتے ہوے ہی یہ الفاظ فرماے تھے -

آپ جس کتاب کو قرآن کے بعد اصح کتاب مانتے ہوں اسی کتاب کے آپ کو معرفت نہیں اس لئے آپ سے بھی میں یہی گذارش کروں گا کہ پہلے آپ صحیح بخاری کا مطالعہ فرمالیں اس میں بیان کئے گئے معانی و مطالب میں پوری طرح طاق ہوجائے پھر اس طرح کے موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار کریں تو بہتر ہوگا
والسلام
اگرآپ میری مذکورہ بالا عرض پر غور کرلیتے تو اس طرح پنترے بدلنے کی نوبت نہیں آتی
ویسے بھی یہ باتیں ضمناً بیان کی گئی ہیں ورنہ اس دھاگہ کا موضوع صحابی رسول حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے مناقب بیان کرنا ہے ۔
سلام
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
تو مناقب بیان کریں روکا کس نےہے؟؟؟۔۔۔
وہی تو بیان کررہا ہوں آپ درمیان میں آجاتے ہیں میں تو یہ کہوں گا کہ آپ بھی حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے مناقب بیان کریں اللہ آپ کو اس کی جزاء دے گا
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
ہمارے بیان کئے گئے مناقب آپ رد کردیتے ہیں۔۔۔
اگر آپ کی خواہش ہو تو پھر میں کچھ لکھوں شہزادے؟؟؟ِ۔۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
پہلے آپ نے یہ ارشاد فرمایا

پہلے تو مطلقاًانکار اور جب اس ناممکن کو امام بخاری نے ممکن کردیا تو اب وقتی اور دائمی ثابت کرنے کی بات پہلے یہ کہا جارہا تھا کہ حضرت عمر کے اسلام قبول کرنے کے بعد مولا علی علیہ السلام حضرت عمر سے کراھت کررہی نہیں سکتے
اور اب یہ




اگرآپ میری مذکورہ بالا عرض پر غور کرلیتے تو اس طرح پنترے بدلنے کی نوبت نہیں آتی
ویسے بھی یہ باتیں ضمناً بیان کی گئی ہیں ورنہ اس دھاگہ کا موضوع صحابی رسول حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے مناقب بیان کرنا ہے ۔
سلام
مجھے حضرت علی رضی الله عنہ کے ان الفاظ کے بارے میں علم نہیں تھا - اس لئے مطلقاً انکارنہیں کیا بلکہ یہ گمان ظاہر کیا تھا کہ بظاھر ایسا ممکن نہیں -

حضرت علی رضی الله عنہ کی حضرت عمر رضی الله عنہ سے دائمی کراہت کا انکار اس بنیاد پر ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ سے منسوب بے شمار ایسی صحیح روایات موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت علی رضی الله عنہ کے دل میں شیخین اور دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے بارے میں کسی قسم کا بغض نہیں پایا جاتا تھا- جیسا کہ رافضیوں کے دلوں اور زبانوں پر پایا جاتا ہے - ان پاک ہستیوں کا اختلاف وقتی ہوتا تھا - اور آپ کی تسلی کے لئے میں نے اپنی پھچلی پوسٹ میں "صحیح بخاری" کی روایت بھی پپیش کردی کہ حضرت عمر رضی الله عنہ کی تدفین کے موقع پر حضرت علی رضی الله عنہ نے انھیں جو خراج تحسین پیش کیا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی -

آپ کی تسلی کے لئے کچھ مزید روایت پیش خدمت ہیں- اگر رافضیت کا چولہ اتار کر پڑھیں گے تو خوشی ہو گی -

حضرت علیؓ کا يہ فرمان اور ارشاد ہے کہ
آنحضرت ﷺ کے بعداس امت میں سب سے افضل ابوبکرؓ اور عمرؓ ہیں اور بعض روایات میں ہے کہ اگر میں تیسرے (حضرت عثمانؓ) کا نام بھی لوں تو یں ایسا کر سکتا ہوں۔ (الشافی ج1 ص171اور ےہ روایت السنة ص242'243، عبداﷲ بن احمد بن حنبلؒ میں بھی ہے)

اﷲ ! ہماری اسی طری اصلاح فرما جس طرح تو نے خلفاءراشدین کی اصلاح کی۔ سوال کیا گیا کہ خلفاءراشدین کون تھے حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ وہ میری دوست اور میری چچے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ ہیں وہ دونوں ہدایت کے امام اور قریش کے مرد تھے اور جناب رسول کرےم ﷺ کے بعد رہنما اور مقتدی تھے وہ دونوں شیخ الاسلام تھے جس نے بھی ان کی پیروی کی وہ گمراہی سے بچ گیا اور جو ان کے نقش قدم پر چلا وہ صراط مستقیم پا گیا۔
(الشافی ج2ص428طبع ایران)

حضرت علیؓ نے حضرت امیر معاويہؓ کو خط لکھا کہ بے شک میری بیعت اسی قوم نے کی ہے جس نے حضرت ابو بکر۔ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کی بیعت کی ہے اور انہیں شرطیوں پر کی ہے جن پر ان کی بیعت کی تھی سو کسی موجود کےلئے گنجائش نہیں کہ اپنی مرضی کرے اور کسی غیر حاضر کو مجال نہیں کہ وہ اس کو رد کرے اور یقینی امر ہے کہ شورٰی کا حق مہاجرین اور انصار کوحاصل ہے سو وہ جس آدمی کے بارے میں اتفاق کر لیں اور اس کا امام مقرر کریں ( نہج البلاغة -مولف علامہ الشریف ابو الحسن محمد الرضی بن الحسن الموسوی المتوفی404ھ)

حضرت علی ؓ نے لوگوں کو جمع کر کے اﷲ تعالیٰ کى حمدوثناء کے بعد زمانے جاہلیت کی بدبختی اور بداعمالی کا ذکر کیا پھر اسلام کی برکت اور خوبی بیان فرمائی اور مسلمانوں کی آپس میں الفت و محبت اور ايک جماعت ہونے زور دیا اور فرمایا کہ بلاشبہ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کے نبی ﷺ کے بعد خلیفہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور پھر ان کے بعد عمر بن الخطاب ؓ اور پھر ان کے بعد حضرت عثمان ؓ پر جمع کیا پھر امت میں اختلاف کا يہ حادثہ پیش آیا۔(تاریخ الام والملوک للطبری ج4ص493، البدايہ النہایہ ج7ص339،
والسلام
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
وہی تو بیان کررہا ہوں آپ درمیان میں آجاتے ہیں میں تو یہ کہوں گا کہ آپ بھی حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے مناقب بیان کریں اللہ آپ کو اس کی جزاء دے گا
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ، (کنیت ابو یقظان ) حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے اور صحابی رسول تھے- حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نےدور اسلام کے شروع میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ ان کے والد حضرت یاسر رضی اللہ عنہ اور والدہ اسلام کے پہلے شہیدوں میں سے تھے۔ حضرت عمار بن یاسررضی اللہ عنہ حبشہ کو ہجرت کرنے والوں کے سربراہ تھے۔ جنگ بدر اور دیگر جنگوں میں شریک تھے اور صلح حدیبیہ میں بھی شامل تھے۔ ان کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وحی الہی کے ذریے خبر دی کہ انہیں ایک باغی گروہ شہید کرے گا۔ اکثریت کا ماننا ہے کہ حضرت یاسر رضی اللہ عنہ جنگ صفین میں حضرت علی رضی الله عنہ کی سرکردگی میں لڑتے ہوے شہید ہو گئے تھے - لیکن کچھ دوسرے تاریخی حقائق سے پتا چلتا ہے کہ آپ رضی الله عنہ حضرت عثمان رضی الله عنہ کے دور خلافت میں مصر کے موالی بن کر بھیجے گئے اور وہیں عبدللہ بن سبا یمنی کے پیروکاروں کے ہاتھوں شہید کر دیے گئے (واللہ اعلم)

دور اسلام کی ابتداء میں مشرکین مکہ نے حضرت عمار بن یاسر رضی الله عنہ اور آپ کے والدین پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی - اور ان کو رسیوں سے باندھ کر مارا پیٹا جاتا اور گرم لوہے سے داغا جاتا -یہ منظر لوگوں سے دیکھا نہ جاتا -نبی کریم صل الله علیہ وسلم فرماتے اے اہل یاسر صبر کرو تمہیں اس آزمائش کے بدلے میں جنّت کی بشارت ہو -

جب ظلم و ستم کی حد ہو گئی اور حضرت یاسر رضی الله عنہ اور ان کے والدین کے استقلال میں کوئی کمی نہیں ہوئی تو امر بن ہشام (المعروف ابو جہل ) نے شرط رکھی کہ اے ابن یاسر اگر تم ہمارے معبودوں کو مانو گے اور ان کی تعریف و توصیف بیان کرو گے تو تمھارے والدین کو ظلم و ستم سے خلاصی مل سکے گی - پہلے تو حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ، ہچکچاے لیکن پھر والدین کی تکلیف دیکھی نہ گئی تو زبان سے مجبوراً کلمہ کفر نکل گیا - لیکن چند گھنٹوں بعد ہی احساس ہو گیا کہ یہ میں نے کیا که دیا - اگلے دن یا اسی دن نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی بار گاہ رسالت میں روتے ہوے حاضر ہوے اور فرمایا کہ "الله کے نبی مجھ سے کفرکا کلمہ سرزد ہوگیا ہے کیا میرے لئے واپسی کی کوئی امید ہے"- نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ پوری بات بتاؤ - جس پر حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ پورا قصہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا -کہ کس طرح انھیں کلمہ کفر پر مجبور کیا گیا -اور کلمہ کفر زبان سے صرف اپنے والدین کو مشرکین مکہ کے ظلم و ستم سے بچانے کے لئے ادا ہوا - نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے سینے پر ہاتھ مار کر پوچھا : "اے عمار تیرا دل کیا کہتا ہے"؟؟؟ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کہنے لگے "اے الله کے نبی دل تو یہی گواہی دیتا ہے کہ الله کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ الله کے آخری اور سچے رسول ہیں" - اس پر نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے محبّت سے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوے فرمایا " کوئی فکر نہیں اگرچہ وہ مشرکین تجھے دوبارہ اس کے لئے مجبور کریں اور دوبارہ تمہاری زبان سے یہی الفاظ نکلیں جو پہلے ان کے سامنے نکل گئے تھے" -

محدثین کرام کی اکثریت اس پر متفق ہے کہ سوره النحل کی آیت ١٠٣ حضرت عمار بن یاسر رضی الله عنہ کی شان میں ہی نازل ہوئی تھی -


مَن كَفَرَ بِاللّہِ مِن بَعْدِ اِيمَانِہِ اِلاَّ مَنْ اُكْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالاِيمَانِ (۔سورہ النحل:آیت 103)
ترجمہ: جس نے اللہ پر ایمان لانے کے بعد کفر کیا،اس پر اللہ کا غضب اور عذاب عظیم ہے،لیکن جسے مجبور کیا جائے اور اسکا دل ایمان پر مطمئن ہو(اس پر کوئی گرفت نہیں)۔


الله نبی کریم صل الہ علیہ وسلم اور آپ کے تمام صحابہ کرام رضوان الله اجمین پر اپنی بے شمار رحمتیں نازل فرماے اور ان کو جنّت میں سب سے اعلیٰ مقام عطاء کرے (آمین)
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top