• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت عمراورشراب سے منع کرنے والی آیات

جعفری

مبتدی
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
0
زمخشری نے کتاب ”ربیع الابرار“ (۱) کے لہو و لعب ،لذات اور عیش و نوش کی محافل (۲) کے باب میں اور شہاب الدین ابشیھی نے ”المستطرف“ (۳) میں کہا ہے :

خدا وندعالم نے شراب کے متعلق تین آیتیں نازل کی ہیں :

پہلی آیت : خداوندعالم فرماتا ہے :

” یَسْئَلُونَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ قُلْ فیہِما إِثْمٌ کَبیرٌ وَ مَنافِعُ لِلنَّاسِ وَ إِثْمُہُما اٴَکْبَرُ مِنْ نَفْعِہِما وَ یَسْئَلُونَکَ ما ذا یُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ کَذلِکَ یُبَیِّنُ اللَّہُ لَکُمُ الْآیاتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُونَ“

(۴) ۔ یہ آپ سے شراب اورجوئے کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو کہہ دیجئے کہ ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور بہت سے فائدے بھی ہیں لیکن ان کا گناہ ،فائدے سے کہیں زیادہ بڑا ہے اور یہ راسِ خدا میں خرچ کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ کیا خرچ کریں تو کہہ دیجئے کہ جو بھی ضرورت سے زیادہ ہو. خدا اسی طرح اپنی آیات کو واضح کرکے بیان کرتا ہے کہ شاید تم فکر کرسکو ۔

اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے بعض مسلمان شراب پیتے تھے اوربعض اس سے دوری اختیار کرتے تھے ، یہاں تک کہ ایک شخص شراب پی کر نماز میں مشغول ہوگیا اوربیہودہ باتیں کہنے لگا ، جس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی :
” یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا لا تَقْرَبُوا الصَّلاةَ وَ اٴَنْتُمْ سُکاری حَتَّی تَعْلَمُوا ما تَقُولُون(۵)“ ۔ ایمان والو خبر دار نشہ کی حالت میں نماز کے قریب بھی نہ جانا جب تک یہ ہوش نہ آجائے کہ تم کیا کہہ رہے ہو ۔
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد مسلمانوں نے شراب ،ترک کردی اور بعض شراب پیتے رہے ، یہاں تک کہ ایک روز ”عمر“ (رضی اللہ عنہ) نے شراب پی اور اس کے بعد ”اسود بن یعفر“ کے اشعار کے ذریعہ جنگ احد کے کفار پر نوحہ پڑھنے لگے وہ اشعار یہ ہیں:

1 ـ وکائن بالقلیبِ قلیبِ بدر من الفتیان والعربِ الکرامِ
2 ـ وکائن بالقلیبِ قلیبِ بدر من الشیزى المکلّل بالسنامِ(6)
3 ـ أیوعدنی ابنُ کبشةَ أن سنحیى وکیف حیاة أصداء وهامِ؟
4 ـ أیعجز أن یردّ الموتَ عنّی وینشرنی إذا بَلِیتْ عظامی؟
5 ـ ألا من مبلغُ الرحمن عنّی بأنّی تارکٌ شهر الصیامِ
6 ـ فقل للهِ یمنعنی شرابی وقل للهِ یمنعنی طعامی)

۱۔ کنویں (بدر کے کنویں) کے پاس عرب کے کریم جوان سو رہے ہیں، ۲۔ اس کنویں (بدر کے کنویں) کے پاس سخاوت مند افراد اپنی بزرگی کے ساتھ سو رہے ہیں ۔ ۳۔ فرزند کبشہ (پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)(۷) مجھے مرنے کے بعد زندہ ہونے سے ڈرا رہے ہیں، مرنے کے بعد خراب شدہ جسم جس کو کیڑوں اور حشرات نے کھا رکھا ہے ، کس طرح زندہ ہوسکتا ہے؟ ! ۔ ۴۔ کیا اس میں اتنی طاقت ہے کہ وہ مجھ سے موت کودور رکھے، اور میری ہڈیوں کو خراب ہونے کے بعد زندہ کرے؟!۔ ۵۔ کیا کوئی پیامبر ہے جو میری طرف سے خدا کو یہ پیغام پہنچائے کہ میں نے رمضان المبارک کے روزوں کو ترک کردیا ہے؟! ۶۔ اپنے خدا سے کہو کہ اگر اس میں طاقت ہے تومجھے شراب پینے سے روکے، ! اور خدا سے کہو کہ اگر تجھ میں طاقت ہے تو مجھے کھانا کھانے سے محروم کرے! ۔

عمر کے شراب پینے اور اشعار پڑھنے کی خبر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو دی گئی ، آنحضرت غضبناک ہوگئے اور آپ اس حالت میں وہاں پہنچے کہ آپ کی عبا زمین پر خط کھینچ رہی تھی اور آپ کے ہاتھ میں جو بھی چیز تھی اس سے عمر کے سر پر مارا ۔ عمر نے کہا : خدا اور اس کے رسول کے غضب سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں ۔

اس کے بعد خداوند عالم نے یہ آیت نازل فرمائی :
” إِنَّما یُریدُ الشَّیْطانُ اٴَنْ یُوقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَداوَةَ وَ الْبَغْضاء َ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللَّہِ وَ عَنِ الصَّلاةِ فَہَلْ اٴَنْتُمْ مُنْتَہُونَ “ ۔ شیطان تو بس یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے ذریعہ تمہارے درمیان بغض اور عداوت پیدا کردے اور تمہیں یاد خدا اور نماز سے روک دے تو کیا تم واقعا رک جاؤ گے ۔
اس وقت عمر نے کہا :
”انتھینا ، انتھینا“۔ ہم اب شراب نہیں پئیں گے ، اب شراب نہیں پئیں گے(۹) ۔ __________________
۱۔ ربیع الابرار ، ج ۴، ص ۵۱۔
۲۔ ایران اور عراق کے کتب خانوں میں اس کتاب کے متعدد نسخے موجود ہیں ۔
۳۔ المستطرف، ج ۲، ص ۲۹۱ و ۲۶۰۔
۴۔ سورہ بقرة، آیت ۲۱۹۔
۵۔ سورہ نسا، آیت ۴۳۔
۶۔ یہ بیت کتاب ”المستطرف“ میں بیان نہیں ہوئی ہے ۔
۷۔ مشرکین رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو ابوکبشہ کی طرف نسبت دیتے تھے ابوکبشہ ، قبیلہ خزاعہ سے ایک شخص تھا جو قریش کو بت پرستی سے منع کرتا تھا اورچونکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بھی ان کو بت پرستی سے منع کرتے تھے لہذاآنحضرت (ص) کو ابوکبشہ سے تشبیہ دیتے تھے ۔ کہا گیا ہے کہ ابن ابی کبشہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نانہال کی طرف منسوب ہے کیونکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے نانا وہب بن عبد مناف کی کنیت ابوکبشہ تھی اور ان کی اس سے مراد یہ تھی کہ آپ اپنے نانا سے بہت زیادہ مشابہ تھے ۔ بعض نے کہا ہے : پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی دایہ حلیمہ سعدیہ کے شوہر کی کنیت ابو کبشہ تھی یا حلیمہ کے شوہر کے بھائی کی کنیت ابوکبشہ تھی اور کبھی کبھی ابن ابی کبشہ کے بجائے ابن کبشہ کہا جاتا ہے ، اس سے مراد یہ ابن ابی کبشہ کی ترخیم ہے ، یا کبشہ سے مراد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے داد عبدالمطلب ہیں جو مکہ میں قبیلہ کے رئیس تھے اور آپ کی بہت زیادہ عظمت و جلالت تھی ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابن کبشہ ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے دادا حضرت اسماعیل کی طرف منسوب ہے ، خداوندعالم نے کبشی کو ان کا فدیہ قرار دیا تھا ۔
۸۔ سورہ مائدہ، آیت ۹۱۔
۹۔ شفیعی شاھرودی، گزیدہ ای جامع از الغدیر، ص ۵۵۷۔
 
شمولیت
اگست 16، 2011
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
317
پوائنٹ
0
زمخشری نے کتاب ”ربیع الابرار“ (۱) کے لہو و لعب ،لذات اور عیش و نوش کی محافل (۲) کے باب میں اور شہاب الدین ابشیھی نے ”المستطرف“ (۳) میں کہا ہے :

خدا وندعالم نے شراب کے متعلق تین آیتیں نازل کی ہیں :

پہلی آیت : خداوندعالم فرماتا ہے :

” یَسْئَلُونَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ قُلْ فیہِما إِثْمٌ کَبیرٌ وَ مَنافِعُ لِلنَّاسِ وَ إِثْمُہُما اٴَکْبَرُ مِنْ نَفْعِہِما وَ یَسْئَلُونَکَ ما ذا یُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ کَذلِکَ یُبَیِّنُ اللَّہُ لَکُمُ الْآیاتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُونَ“

(۴) ۔ یہ آپ سے شراب اورجوئے کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو کہہ دیجئے کہ ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور بہت سے فائدے بھی ہیں لیکن ان کا گناہ ،فائدے سے کہیں زیادہ بڑا ہے اور یہ راسِ خدا میں خرچ کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ کیا خرچ کریں تو کہہ دیجئے کہ جو بھی ضرورت سے زیادہ ہو. خدا اسی طرح اپنی آیات کو واضح کرکے بیان کرتا ہے کہ شاید تم فکر کرسکو ۔

اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے بعض مسلمان شراب پیتے تھے اوربعض اس سے دوری اختیار کرتے تھے ، یہاں تک کہ ایک شخص شراب پی کر نماز میں مشغول ہوگیا اوربیہودہ باتیں کہنے لگا ، جس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی :
” یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا لا تَقْرَبُوا الصَّلاةَ وَ اٴَنْتُمْ سُکاری حَتَّی تَعْلَمُوا ما تَقُولُون(۵)“ ۔ ایمان والو خبر دار نشہ کی حالت میں نماز کے قریب بھی نہ جانا جب تک یہ ہوش نہ آجائے کہ تم کیا کہہ رہے ہو ۔
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد مسلمانوں نے شراب ،ترک کردی اور بعض شراب پیتے رہے ، یہاں تک کہ ایک روز ”عمر“ (رضی اللہ عنہ) نے شراب پی اور اس کے بعد ”اسود بن یعفر“ کے اشعار کے ذریعہ جنگ احد کے کفار پر نوحہ پڑھنے لگے وہ اشعار یہ ہیں:

1 ـ وکائن بالقلیبِ قلیبِ بدر من الفتیان والعربِ الکرامِ
2 ـ وکائن بالقلیبِ قلیبِ بدر من الشیزى المکلّل بالسنامِ(6)
3 ـ أیوعدنی ابنُ کبشةَ أن سنحیى وکیف حیاة أصداء وهامِ؟
4 ـ أیعجز أن یردّ الموتَ عنّی وینشرنی إذا بَلِیتْ عظامی؟
5 ـ ألا من مبلغُ الرحمن عنّی بأنّی تارکٌ شهر الصیامِ
6 ـ فقل للهِ یمنعنی شرابی وقل للهِ یمنعنی طعامی)

۱۔ کنویں (بدر کے کنویں) کے پاس عرب کے کریم جوان سو رہے ہیں، ۲۔ اس کنویں (بدر کے کنویں) کے پاس سخاوت مند افراد اپنی بزرگی کے ساتھ سو رہے ہیں ۔ ۳۔ فرزند کبشہ (پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)(۷) مجھے مرنے کے بعد زندہ ہونے سے ڈرا رہے ہیں، مرنے کے بعد خراب شدہ جسم جس کو کیڑوں اور حشرات نے کھا رکھا ہے ، کس طرح زندہ ہوسکتا ہے؟ ! ۔ ۴۔ کیا اس میں اتنی طاقت ہے کہ وہ مجھ سے موت کودور رکھے، اور میری ہڈیوں کو خراب ہونے کے بعد زندہ کرے؟!۔ ۵۔ کیا کوئی پیامبر ہے جو میری طرف سے خدا کو یہ پیغام پہنچائے کہ میں نے رمضان المبارک کے روزوں کو ترک کردیا ہے؟! ۶۔ اپنے خدا سے کہو کہ اگر اس میں طاقت ہے تومجھے شراب پینے سے روکے، ! اور خدا سے کہو کہ اگر تجھ میں طاقت ہے تو مجھے کھانا کھانے سے محروم کرے! ۔

عمر کے شراب پینے اور اشعار پڑھنے کی خبر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو دی گئی ، آنحضرت غضبناک ہوگئے اور آپ اس حالت میں وہاں پہنچے کہ آپ کی عبا زمین پر خط کھینچ رہی تھی اور آپ کے ہاتھ میں جو بھی چیز تھی اس سے عمر کے سر پر مارا ۔ عمر نے کہا : خدا اور اس کے رسول کے غضب سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں ۔

اس کے بعد خداوند عالم نے یہ آیت نازل فرمائی :
” إِنَّما یُریدُ الشَّیْطانُ اٴَنْ یُوقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَداوَةَ وَ الْبَغْضاء َ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللَّہِ وَ عَنِ الصَّلاةِ فَہَلْ اٴَنْتُمْ مُنْتَہُونَ “ ۔ شیطان تو بس یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے ذریعہ تمہارے درمیان بغض اور عداوت پیدا کردے اور تمہیں یاد خدا اور نماز سے روک دے تو کیا تم واقعا رک جاؤ گے ۔
اس وقت عمر نے کہا :
”انتھینا ، انتھینا“۔ ہم اب شراب نہیں پئیں گے ، اب شراب نہیں پئیں گے(۹) ۔ __________________
۱۔ ربیع الابرار ، ج ۴، ص ۵۱۔
۲۔ ایران اور عراق کے کتب خانوں میں اس کتاب کے متعدد نسخے موجود ہیں ۔
۳۔ المستطرف، ج ۲، ص ۲۹۱ و ۲۶۰۔
۴۔ سورہ بقرة، آیت ۲۱۹۔
۵۔ سورہ نسا، آیت ۴۳۔
۶۔ یہ بیت کتاب ”المستطرف“ میں بیان نہیں ہوئی ہے ۔
۷۔ مشرکین رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو ابوکبشہ کی طرف نسبت دیتے تھے ابوکبشہ ، قبیلہ خزاعہ سے ایک شخص تھا جو قریش کو بت پرستی سے منع کرتا تھا اورچونکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بھی ان کو بت پرستی سے منع کرتے تھے لہذاآنحضرت (ص) کو ابوکبشہ سے تشبیہ دیتے تھے ۔ کہا گیا ہے کہ ابن ابی کبشہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نانہال کی طرف منسوب ہے کیونکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے نانا وہب بن عبد مناف کی کنیت ابوکبشہ تھی اور ان کی اس سے مراد یہ تھی کہ آپ اپنے نانا سے بہت زیادہ مشابہ تھے ۔ بعض نے کہا ہے : پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی دایہ حلیمہ سعدیہ کے شوہر کی کنیت ابو کبشہ تھی یا حلیمہ کے شوہر کے بھائی کی کنیت ابوکبشہ تھی اور کبھی کبھی ابن ابی کبشہ کے بجائے ابن کبشہ کہا جاتا ہے ، اس سے مراد یہ ابن ابی کبشہ کی ترخیم ہے ، یا کبشہ سے مراد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے داد عبدالمطلب ہیں جو مکہ میں قبیلہ کے رئیس تھے اور آپ کی بہت زیادہ عظمت و جلالت تھی ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابن کبشہ ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے دادا حضرت اسماعیل کی طرف منسوب ہے ، خداوندعالم نے کبشی کو ان کا فدیہ قرار دیا تھا ۔
۸۔ سورہ مائدہ، آیت ۹۱۔
۹۔ شفیعی شاھرودی، گزیدہ ای جامع از الغدیر، ص ۵۵۷۔
محدث فورم کے ایڈمن سے گزارش ھے کہ وہ اس پوسٹ کو ڈیلیٹ کریں ۔ جزاک اللہ
 

سپاہ محمد

مبتدی
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
0
محدث فورم کے ایڈمن سے گزارش ھے کہ وہ اس پوسٹ کو ڈیلیٹ کریں ۔ جزاک اللہ
جناب اس میں ڈیلیٹ کرنے والی کیا بات ہے۔ آپ اپنی کتب کے پیش کئے گئے حوالہ جات کا علمی رد لائیں یا پھر حقیقت کو تسلیم کیجئیے۔ شکریہ
 
شمولیت
اگست 16، 2011
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
317
پوائنٹ
0
جناب اس میں ڈیلیٹ کرنے والی کیا بات ہے۔ آپ اپنی کتب کے پیش کئے گئے حوالہ جات کا علمی رد لائیں یا پھر حقیقت کو تسلیم کیجئیے۔ شکریہ
مسٹر آپ نے یہ واقعہ کسی سند سے نہیں بیان کیا ہے ۔ زمخشری ایک معتزلی عالم ہے ۔ یہ اھل السنۃ سے تعلق نہیں رکھتا ہے ۔ یہ ہماری کتب میں شامل نہیں ھے ۔ اس لیے آپ کی محنت بے کار ثابت ہوئی ۔ زمخشری ایک معتزلی شیعہ ھے جس کا اھل السنۃ والجماعۃ سے کوئی تعلق نہیں ھے ۔ درج ذیل عبارت کو پڑھیں :
زمخشری، ابوالقاسم محمود

( ملیت: ایرانی قرن:6)
(538 -467 ق)، مفسر، محدث، نحوى، متكلم، لغوى و شاعر حنفى معتزلى. ملقب به جاراللَّه. نسبت وى به زمخشر، از آبادیهاى خوارزم است در زمخشر به دنیا آمد. او در ادب و لغت عرب و فقه و حدیث و تفسیر استاد و متكلم معتزلى بود و شعر را بسیار نیكو مى‏سرود. در ضمن مسافرتهاى خود مدت مدیدى در مكه اقامت كرد و به همین مناسبت به جاراللَّه (همسایه‏ى خدا) معروف شد. به بغداد نیز سفر كرد و در آنجا از نصر بن بطر و دیگران حدیث شنید. ادب را از ابومضر محمود بن جریر ضبى اصفهانى و ابوالحسن على بن مظفر نیشابورى فراگرفت و از ابومنصور نصر حارثى و ابوسعد شقانى حدیث روایت كرد است. ابوطاهر سلفى و زینب دختر شعرى از زمخشرى با اجازه روایت كرده‏اند اسماعیل بن عبداللَّه خوارزمى و ابوسعد احمد بن محمود و دیگران از وى اشعارش را نقل كرده‏اند. سرانجام در جرجانیه‏ى خوارزم درگذشت. از آثار متعددش: «الكشاف عن حقایق التنزیل»، در تفسیر قرآن؛ «الامالى»، در نحو؛ «الانموذج»، در نحو؛ «مقدمه الادب»، در لغت؛ «اساس البلاغه»، در لغت؛ «اعجب العجب فى شرح لامیه العرب»؛ «اطواق الذهب»، در مواعظ و خطب؛ «الجبال و الامكنه و المیاه»؛ «دیوان» خطب؛ «دیوان» شعر؛ «دیوان» رسائل؛ «دیوان» تمثیل؛ «الرائض فى علم الفرائض»؛ «روس المسائل»، در فقه؛ «ربیع الابرار»، در ادبیات؛ «سوائر الامثال»؛ شرح «ابیات الكتاب» سیبویه؛ شرح مشكلات «المفصل»؛ «ضاله الناشد»؛ «القسطاس»، در عروض؛ «المجاز و الاستعاره»؛ «متشابه اسامى الرواه»؛ «المستقصى»، در امثال عرب؛ «معجم الحدود»؛ «المفرد و الموتلف»، در نحو؛ «المقامات»، در اخلاق؛ «المنهاج»، در اصول؛ «النصائح الكبار یا كبرى»؛ «النصائح الصغار»؛ «الكلم النوابغ»، در مواعظ؛ «الاحاجى النحویه»؛ «المفصل»، در نحو؛ «الفائق فى غریب الحدیث».[1]

جارالله زمخشری معتزلی
» زمخشری رنسانسی در فرهنگ قرآنی و نگارش‌های تفسیری ایجاد کرد
شهید مطهری معتقد است تفسیر «کشاف» زمخشری، در دنیای اسلام به سبب موضع‌گیری‌های اعتقادی، کلامی و بررسی جنبه‌های بلاغی قرآن کریم در فرهنگ قرآنی و نگارش‌های تفسیری، رنسانسی ایجاد کرد و عده زیادی در آن حیطه به پژوهش پرداختند.
به گزارش خبرگزاری قرآنی ایران (ایکنا)، 27 رجب برابر است با سالروز تولد «ابوالقاسم جارالله زمخشری»، در سال 467 هجری قمری.

علامه «ابوالقاسم محمود بن عمر بن محمد خوارزمی زمخشری» (467، 538 هـ.ق) یکی از علمای ایرانی بنام تفسیر و حدیث در قرن پنجم هجری بود. زمشخری اهل شهر زمخشر در خوارزم و پیرو جنبش سیاسی اجتماعی معتزله بود. به علت اقامت بسیار وی در مکه، لقب جارالله نیز به وی داده‌ شده ‌است.

اصل و نسب زمخشری که از بزرگان علمای ادب و لغت عرب و صاحب تفسیر کشاف ایرانی و از بلاد شمالی ایران و سرزمین های سردسیر بود و نسبت زمخشری هم، به همین جهت است که زمخشر، از آبادی‌های خوارزم است.

وی در علم تفسیر، حدیث و لغت و علم معانی بیان، تبحر داشت. این عالم اهل تسنن، مذهب معتزلی داشت. مسافرت‌های زیادی می‌کرد و معتقد بود که مؤمن باید در مناسب‌ترین سرزمین‌ها، از نظر حفظ دین و عبادت پروردگار ساکن شود. از این‌رو، سال‌های زیادی در مکه مجاور شد و زندگی کرد و ظاهرا در همان مکه، تفسیر بزرگ قرآن را تألیف کرده است.

او در یکی از مسافرت‌های علمی زمستانی خود در خوارزم، یک پای خود را از دست داد و بعد از آن، همیشه از پای چوبی استفاده می‌کرد. با این حال باز هم، مسافرت‌های طولانی و علمی زیادی کرد و سرانجام در سال 538 ه. ق، در سن 71 سالگی در جرجانیه خوارزم در گذشت.

«ابن‌بطوطه» قبر او را در آن‌جا دیده است. او صاحب تفسیر «کشاف» و آثاری دیگر است. این کتاب معروف‌ترین و متقن‌ترین تفاسیر اهل تسنن است و از نظر نکات ادبی، بالخصوص نکات بلاغتی، در میان همه تفاسیر قرآن، ممتاز است.

برخی از مورخان گفته‌اند زمخشری بیش از 150 اثر تألیف کرده که 120 اثر از آن‌ها به جا مانده است. برخی از آثار او عبارتند از: «اعوذج و مفصل» (در نحو)؛ «الفائق» (در حدیث)؛ «اساس‌البلاغه» (در لغت)؛ «ربیع‌الابرار و فصوص‌الاخیار»؛ «رئوس‌المسائل» (در فقه)؛ «قسطاس» (در عروض)؛ «مقدمة‌الآداب»؛ «دیوان‌الرسائل»؛ «دیوان‌الشعر»؛ «الرسالة‌الناصحه»؛ «فرهنگ جغرافیائی کتاب (الامکنه و الجبال و المیاه)»

شهید مطهری در کتاب «خدمات متقابل اسلام و ایران» درباره این کتاب نوشته است: «گستردگی اطلاعات زمخشری، دقت و موشکافی او در مسائل کلامی باعث شده که این کتاب در میان آثار تفسیری از جایگاه بلندی برخوردار باشد.»

به نوشته استاد مطهری، تفسیر کشاف در دنیای اسلام به سبب موضع‌گیری‌های اعتقادی، کلامی و بررسی جنبه‌های بلاغی قرآن کریم در فرهنگ قرآنی و نگارش‌های تفسیری، رنسانسی ایجاد کرد و عده زیادی در آن حیطه به پژوهش پرداختند. گفته می‌شود «محمود بن عمر بن محمد زمخشرى» این تفسیر را در مدت دو سال و سه ماه در کنار خانه خدا نوشته است.

«تفسیر کشاف» در رده‌بندى تفاسیر در ردیف تفاسیرى است که به «تفسیر به رأى» مشهور هستند. وی در بسیاری از شهرهای آن زمان از جمله خوارزم، بخارا، مرو، عراق و مکه از ادیبان و محدثان استفاده‌های علمی کرد.

بعد از نگارش «الکشاف فی تفسیر قرآن» این اثر تأثیر غیر قابل انکاری در علم تفسیر بر جای گذاشت. علاوه بر این «محمد قزوینی»، مصحح دیوان حافظ از تأثیر حافظ شیرازی از کتاب «الکشاف فی تفسیر قرآن» سخن گفته است. به نوشته محمد قزوینی، کمتر کسی توانسته مانند حافظ لطایف حکمی را با نکات قرآنی در هم آمیزد و تلمیحات و اشارات قرآنی را به کار برد.

حافظ در بیتی گفته است «بخواه دفتر اشعار و راه صحرا گیر / چه جای مدرسه و بحث کشف کشاف است.» محمد قزوینی در تعلیقات خود بر دیوان حافظ نوشته است. نام اصلی این کتاب «الکشف عن مشکلات الکشاف» است که شرحی است بر تفسیر کشاف زمخشری.

زمخشری در جلد سوم کشاف، ذیل تفسیر آیه 56 از سوره عنکبوت که‏ می‏فرماید: «یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّ أَرْضِی وَاسِعَةٌ فَإِیَّایَ فَاعْبُدُونِ: اى بندگان من که ایمان آورده‏اید زمین من فراخ است تنها مرا بپرستید.» پس از آن‌که تشریح می‏کند که مؤمن باید مناسب‌ترین سرزمین‌ها را از نظر حفظ دین و عبادت پروردگار برای سکونت انتخاب کند، می‌نویسد: به جان خودم سوگند که سرزمین‌ها از این نظر تفاوت فراوان دارند.

وی می‌افزاید: ما آزمایش کردیم، پیشینیان ما نیز آزمایش کرده‏اند. سرزمین حرم خدا و مجاورت بیت‌الله الحرام تأثیر فراوانی دارد بر روح و دل از نظر مقهور ساختن نفس اماره و تمرکز فکر و خیال و پیدایش روح قناعت.*

*منابع: خدمات متقابل اسلام و ایران، استاد مطهری؛ پایگاه اطلاع‌رسانی طهور؛ دانش‌نامه اینترنتی قرآن.
لینک خبر: ایکنا - «الكشاف» زمخشری رنسانسی در فرهنگ قرآنی و نگارش‌های تفسيری ايجاد كرد
منبع خبر: خبرگزاری قرآنی ایران
نویسنده : محسن موسوی زاده ; ساعت ٦:٤٤ ‎ب.ظ ; سه‌شنبه ٧ مهر ،۱۳۸۸
 

ابو تراب

مبتدی
شمولیت
مارچ 29، 2011
پیغامات
102
ری ایکشن اسکور
537
پوائنٹ
0
جناب اس میں ڈیلیٹ کرنے والی کیا بات ہے۔ آپ اپنی کتب کے پیش کئے گئے حوالہ جات کا علمی رد لائیں یا پھر حقیقت کو تسلیم کیجئیے۔ شکریہ
السلام وعلیکم،
سپاہ محمد بھائی آپ کسی معتبر اہل السنہ امام کا حوالہ سند کے ساتھ دیں۔ اس طرح تو ترمذی،سنن ابوداؤد اور اکثر تفاسیر(التفسيرطبری، التفسيرقرطبی، التفسيرابن کثیر، التفسيرزاد المسیر، التفسيرزادالمنصور، التفسيرسالبی، التفسيرمقاتل، التفسيرابن عطیہ، التفسيرابن عاشور، التفسيرروح المعانی، التفسير الخازن، التفسيربحر العلوم، التفسير الوسيط، بیان القرآن، معارف القرآن، تیسیرالقرآن، ان میں امام حضرت علی کرم اللہ وجھہ کو کہا ہے، باقی تفاسیر میں نام نہیں یا چند روایات میں حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کو امام نقل کیا ہے) میں شراب کی حرمت والی آیت کے شان نزول میں روایت آتی ہے کہ سیدنا علی علیہ السلام اور چندصحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کے گھر دعوت پر گئے،شراب بھی نوش کی گئی(شراب اس وقت حرام نہیں تھی) اس کے بعد میں نمازکی جماعت سیدنا علی علیہ السلام نے کروائی اور(نعوذباللہ، معاذاللہ) سورت الکافرون کو غلط پڑھا تو شراب کی حرمت والی آیت نازل ہوئی۔آپ مانے گے؟
اگر بے سند ضعیف،موضوع روایات کسی غالی یا کسی اور شیعی مسلک جسے اثنا عشریہ شعیہ نہیں مانتے ان کی کتب سے یا آپ کے مسلک کی کتب سے ہم بیان کریں تو آپ قبول کریں گے؟؟؟

جزاک اللہ
 
شمولیت
اگست 16، 2011
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
317
پوائنٹ
0
السلام وعلیکم،
سپاہ محمد بھائی آپ کسی معتبر اہل السنہ امام کا حوالہ سند کے ساتھ دیں۔ اس طرح تو ترمذی،سنن ابوداؤد اور اکثر تفاسیر(التفسيرطبری، التفسيرقرطبی، التفسيرابن کثیر، التفسيرزاد المسیر، التفسيرزادالمنصور، التفسيرسالبی، التفسيرمقاتل، التفسيرابن عطیہ، التفسيرابن عاشور، التفسيرروح المعانی، التفسير الخازن، التفسيربحر العلوم، التفسير الوسيط، بیان القرآن، معارف القرآن، تیسیرالقرآن، ان میں امام حضرت علی کرم اللہ وجھہ کو کہا ہے، باقی تفاسیر میں نام نہیں یا چند روایات میں حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کو امام نقل کیا ہے) میں شراب کی حرمت والی آیت کے شان نزول میں روایت آتی ہے کہ سیدنا علی علیہ السلام اور چندصحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کے گھر دعوت پر گئے،شراب بھی نوش کی گئی(شراب اس وقت حرام نہیں تھی) اس کے بعد میں نمازکی جماعت سیدنا علی علیہ السلام نے کروائی اور(نعوذباللہ، معاذاللہ) سورت الکافرون کو غلط پڑھا تو شراب کی حرمت والی آیت نازل ہوئی۔آپ مانے گے؟
اگر بے سند ضعیف،موضوع روایات کسی غالی یا کسی اور شیعی مسلک جسے اثنا عشریہ شعیہ نہیں مانتے ان کی کتب سے یا آپ کے مسلک کی کتب سے ہم بیان کریں تو آپ قبول کریں گے؟؟؟

جزاک اللہ
ابو تراب بھائی اللہ آپ پر رحم کرے جو حدیث آپ نے امیرالمومنین علی بن ابی طالب اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی بیان کی ہے ۔ اسے امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں صحیح سند سے روایت کیا ہے ۔ لیکن میں نے اس حدیث کو صرف اس خوف سے نقل نہیں کیا کیونکہ یہ ایک الزامی جواب ہوتا اور ظالم یہ کہتے کہ دیکھو یہ امیرالمومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اور ان پر شراب نوشی کا الزام عائد کرتے ہیں ۔ گذشتہ دنوں جب ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ نے اسی حدیث کو کوڈ کیا تھا تو ان ظالموں نے اس قدر منفی پروپیگنڈا کیا تھا ڈاکٹر صاحب کے خلاف کہ کچھ حد نہیں ۔ اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت دے ۔
 

سپاہ محمد

مبتدی
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
0
اسے امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں صحیح سند سے روایت کیا ہے
جناب کیا آپ مجھے یہ روایت سنن نسائی میں دکھا سکتے ہیں۔۔۔۔؟؟؟

بہر حال سنن نسائی کی روایت پر تو تبھی تبصرہ کریں گے جب آپ سکین پیج دکھائیں گے۔ اس روایت کو جسے اسرار احمد ناصبی نے بیان کیا تھا، سنن ترمذی اور سنن ابی داود میں نقل کیا گیا ہے۔اور اسکی اسناد کو حسن بتایا گیا ہے نہ کہ صحیح بتایا گیا ہے۔ اس روایت کی تحقیق بہت جلد احقر یہاں پوسٹ کرے گا اور اہلسنت کتب سے یہ ثابت کیا جائے گا کہ یہ روایت ضعیف ہے اور امید کرتا ہوں ابو تراب بھائی بھی برا۔ بن مالک صاحب کی اصلاح فرمائیں گے اور اس روایت کو ضعیف ثابت کریں گے۔
 

سپاہ محمد

مبتدی
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
0
جہاں تک علامہ زمخشری کا سوال ہے تو اسکےلئے مولوی عبدالحئ لکھنوی کی توثیق کافی ہے۔ ملاحظہ ہو۔

 
شمولیت
اگست 16، 2011
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
317
پوائنٹ
0
جناب کیا آپ مجھے یہ روایت سنن نسائی میں دکھا سکتے ہیں۔۔۔۔؟؟؟

بہر حال سنن نسائی کی روایت پر تو تبھی تبصرہ کریں گے جب آپ سکین پیج دکھائیں گے۔ اس روایت کو جسے اسرار احمد ناصبی نے بیان کیا تھا، سنن ترمذی اور سنن ابی داود میں نقل کیا گیا ہے۔اور اسکی اسناد کو حسن بتایا گیا ہے نہ کہ صحیح بتایا گیا ہے۔ اس روایت کی تحقیق بہت جلد احقر یہاں پوسٹ کرے گا اور اہلسنت کتب سے یہ ثابت کیا جائے گا کہ یہ روایت ضعیف ہے اور امید کرتا ہوں ابو تراب بھائی بھی برا۔ بن مالک صاحب کی اصلاح فرمائیں گے اور اس روایت کو ضعیف ثابت کریں گے۔
پوسٹ کا جواب حاضر خدمت ہے:
http://www.tanzeem.org/qtv/detail_qtv.gif

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقْرَبُوا الصَّلاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلا جُنُبًا إِلا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا (43)

ينهى تعالى عباده المؤمنين عن فعل الصلاة في حال السُّكْرِ، الذي لا يدري معه المصلي ما يقول، وعن قربان محلها -وهي المساجد-للجُنُب، إلا أن يكون مجتازا من باب إلى باب من غير مُكْثٍ وقد كان هذا قبل تحريم الخمر، كما دل الحديث الذي ذكرناه في سورة البقرة، عند قوله [تعالى] يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ [قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ] الآية [البقرة: 219] ؛ فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم تلاها على عمر، فقال: اللهم بين لنا في الخمر بيانا شافيا. فلما نزلت هذه الآية، تلاها عليه، فقال: اللهم بين لنا في الخمر بيانا شافيا. فكانوا لا يشربون الخمر في أوقات الصلوات فلما نزل قوله[تعالى] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأَنْصَابُ وَالأَزْلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ إلى قوله: فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ [المائدة: 90، 91] فقال عمر: انتهينا، انتهينا.


وفي رواية إسرائيل، عن أبي إسحاق، عن عمرو -وهو ابن شُرَحبيل-عن عُمَرَ بْنِ الْخطَّاب في قصة تحريم الخمر، فذكر الحديث وفيه: فنزلت الآية التي في [سورة النساء]: ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقْرَبُوا الصَّلاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ ) فكان منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قامت الصلاة ينادي: ألا يَقْرَبَنَّ الصلاة سكران. لفظ أبي داود.

وذكروا في سبب نزول هذه الآية ما رواه ابن أبي حاتم .

حدثنا يونس بن حبيب، حدثنا أبو داود، حدثنا شُعْبَة، أخبرني سِمَاكُ بن حَرْبٍ قال: سمعت مُصْعَبَ بنَ سَعْدٍ يحدث عن سعد قال: نزلت في أربعُ آيات: صنع رجل من الأنصار طعاما، فدعا أناسا من المهاجرين وأناسا من الأنصار، فأكلنا وشربنا حتى سَكرْنا، ثم افتخرنا فرفع رجل لَحْي بعير فَفَزَر بها أنف سعد، فكان سعد مَفْزور الأنف، وذلك قبل أن تحرم الخمر، فنزلت: ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقْرَبُوا الصَّلاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى ) الآية.

والحديث بطوله عند مسلم من رواية شُعْبة. ورواه أهلُ السُّنَن إلا ابنَ ماجه، من طُرُق عن سِماكٍ به .

سبب آخر: قال ابن أبي حاتم: حدثنا محمد بن عمَّار، حدثنا عبد الرحمن بن عبد الله الدَّشْتَكي، حدثنا أبو جعفر عن عطاء بن السائب، عن أبي عبد الرحمن السّلَمي، عن علي بن أبي طالب قال: صنع لنا عبد الرحمن بن عوف طعاما، فدعانا وسقانا من الخمر، فأخذت الخمر منا، وحضرتِ الصلاةُ فقدَّموا فلانا -قال: فقرأ: قل يا أيها الكافرون، ما أعبد ما تعبدون، ونحن نعبد ما تعبدون. [قال] فأنزل الله تعالى ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقْرَبُوا الصَّلاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ )

هكذا رواه ابن أبي حاتم، وكذا رواه الترمذي عن عبد بن حُمَيْدٍ، عن عبد الرحمن الدَّشْتَكي، به، وقال: حسن صحيح .

وقد رواه ابن جرير، عن محمد بن بشار، عن عبد الرحمن بن مَهْدي، عن سفيانَ الثوري، عن عطاء بن السائب، عن أبي عبد الرحمن، عن علي؛ أنه كان هو وعبد الرحمن ورجل آخر شربوا الخمر، فصلى بهم عبد الرحمن فقرأ: ( قُلْ [يَا] أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ) فخلط فيها، فنزلت: ( لا تَقْرَبُوا الصَّلاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى ) .

وهكذا رواه أبو داود والنسائي، من حديث الثوري، به.


ورواه ابن جَرِير أيضا، عن ابن حُمَيْدٍ، عن جَرِيرٍ، عن عطاء، عن أبي عبد الله السَّلَمِيّ قال: كان عَلِيٌّ في نفر من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم في بيت عبد الرحمن بن عوف، فطعموا فآتاهم بخمر فشربوا منها، وذلك قبل أن يحرم الخمر، فحضرت الصلاة فَقَدَّموا عليًا فقرأ بهم: قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ فلم يقرأها كما ينبغي، فأنزل الله عز وجل: ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقْرَبُوا الصَّلاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى ) .

ثم قال: حدثني المُثَنَّى، حدثنا الحجَّاج بن المِنْهال، حدثنا حَمَّاد، عن عطاء بن السائب، عن عبد الله بن حبيب -وهو أبو عبد الرحمن السَّلَمي؛ أن عبد الرحمن بن عَوْفٍ صنع طعامًا وشرابا، فدعا نفرا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فصلى بهم المغرب، فقرأ: قل يا أيها الكافرون. أعبد ما تعبدون. وأنتم عابدون ما أعبد. وأنا عابد ما عبدتم. لكم دينكم ولي دين. فأنزل الله، عز وجل، هذه الآية: ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقْرَبُوا الصَّلاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ )

فی التفسیر الطبری:
القول في تأويل قوله : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقْرَبُوا الصَّلاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ

قال أبو جعفر: يعني بقوله جل ثناؤه: " يا أيها الذين آمنوا "، صدّقوا الله ورسوله =" لا تقربوا الصلاة "، لا تصلوا =" وأنتم سكارى "، وهو جمع " سكران " =" حتى تعلموا ما تقولون "، في صلاتكم فتميّزون فيها ما أمركم الله به أو ندبكم إلى قيله فيها، مما نهاكم عنه وزَجَركم.

* * *

ثم اختلف أهل التأويل في" السكر " الذي عناه الله بقوله: " لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى ".

فقال بعضهم: عنى بذلك السّكر من الشراب.

ذكر من قال ذلك

9524 - حدثنا محمد بن بشار قال، حدثنا عبد الرحمن قال، حدثنا سفيان، عن عطاء بن السائب، عن أبي عبد الرحمن، عن علي: أنه كان هو وعبد الرحمن ورجل آخر شربوا الخمر، فصلى بهم عبد الرحمن فقرأ: قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ فخلط فيها، فنـزلت: " لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى ".

9525 - حدثني المثنى قال، حدثنا الحجاج بن المنهال قال، حدثنا حماد، عن عطاء بن السائب، عن عبد الله بن حبيب: أن عبد الرحمن بن عوف صنعَ طعامًا وشرابًا، فدعا نفرًا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فأكلوا وشربوا حتى ثَمِلوا، فقدّموا عليًّا يصلي بهم المغرب، فقرأ: " قُلْ يَا أَيُّهَا الْكافِرُون أَعْبُد مَا تَعْبُدُون، وَأَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ وَأَنَا عَابِدٌ مَا عَبَدْتُمْ لَكُمْ دِيِنكُمْ وَلِيَ دِين "، فأنـزل الله تبارك وتعالى هذه الآية: " لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى حتى تعلموا ما تقولون ".

فی التفسیر البغوی:
قوله عز وجل: ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقْرَبُوا الصَّلاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى ) الآية، والمراد من السُّكْرِ: السُّكْرُ من الخمر، عند الأكثرين، وذلك أن عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه صنَع طعامًا ودعا ناسًا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وأتاهم بخمر فشربوها قبل تحريم الخمر وسَكِرُوا فحضرتْ صلاة المغرب فقدَّمُوا رجلا ليصلي بهم فقرأ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ أعبد ما تعبدون، بحذف ( لا ) هكذا إلى آخر السورة، فأنـزل الله تعالى هذه الآية، فكانوا بعد نـزول هذه الآية يجتنبون السُّكْرَ أوقات الصلوات حتى نـزل تحريم الخمر .

وفی ذلک احادیث کثیرہ منھا:
كنز العمال الإصدار 2.01 - للمتقي الهندي
المجلد الثاني >> سورة النساء

4320 - عن علي قال: صنع لنا عبد الرحمن بن عوف طعاما فدعانا، وسقانا من الخمر، فأخذ الخمر منا، وحضرت الصلاة، فقدموني فقرأت: {قل يا أيها الكافرون، لا أعبد ما تعبدون، ونحن نعبد ما تعبدون، فأنزل الله: {يا أيها الذين آمنوا لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى حتى تعلموا ما تقولون}.
(عبد بن حميد د ت وقال حسن صحيح غريب ن وابن جرير ابن المنذر وابن أبي حاتم ك ص).

7220/21- حدثنا أبو عبد الله محمد بن يعقوب الحافظ، حدثنا علي بن الحسن، حدثنا عبد الله بن الوليد، حدثنا سفيان.
وحدثنا أبو زكريا يحيى بن محمد العنبري، حدثنا أبو عبد الله البوشنجي، حدثنا أحمد بن حنبل، حدثنا وكيع، حدثنا سفيان، عن عطاء بن السائب، عن أبي عبد الرحمن السلمي، عن علي -رضي الله تعالى عنه- قال:
دعانا رجل من الأنصار قبل أن تحرم الخمر، فتقدم عبد الرحمن بن عوف، وصلى بهم المغرب، فقرأ: {قل يا أيها الكافرون}، فالتبس عليه فيها.
فنزلت: {لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى} [النساء: 43].
هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه.
وقد اختلف فيه على عطاء بن السائب من ثلاثة أوجه، هذا أولها وأصحها.

المستدرك على الصحيحين،الإصدار 2.02 - للإمام محمد بن عبد الله الحاكم النيسابوري.
المجلد الثاني >> - 27 -كتاب التفسير >> -4- تفسير سورة النساء
--مزيد-- تحريم الخمر فحضرت صلاة المغرب، فتقدم رجل فقرأ: {قل يا أيها الكافرون} فالتبس عليه، فنزلت: {لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى حتى تعلموا ما تقولون} [النساء: 43]. الآية.
هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه.
وفي هذا الحديث فائدة كثيرة وهي أن الخوارج تنسب هذا السكر وهذه القراءة إلى أمير المؤمنين علي بن أبي طالب دون غيره، وقد برأه الله منها، فإنه راوي هذا الحديث. (مجموع الأحرف: 573)

المستدرك على الصحيحين،الإصدار 2.02 - للإمام محمد بن عبد الله الحاكم النيسابوري.
المجلد الرابع >> -34- كتاب الأشربة
--مزيد-- والوجه الثاني:
حدثناه أبو زكريا العنبري، حدثنا أبو عبد الله البوشنجي، حدثنا أحمد بن حنبل، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، عن عطاء بن السائب، عن ابن عبد الرحمن، عن علي -رضي الله تعالى عنه-:
أنه كان هو وعبد الرحمن ورجل آخر يشربون الخمر، فصلى بهم عبد الرحمن بن عوف، فقرأ: {قل يا أيها الكافرون}، فخلط فيها.
فنزلت: {لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى}. (مجموع الأحرف: 362)

المستدرك على الصحيحين،الإصدار 2.02 - للإمام محمد بن عبد الله الحاكم النيسابوري.
المجلد الرابع >> -34- كتاب الأشربة
--مزيد-- فدعا ناسا من أصحاب النبي -صلَّى الله عليه وسلم-، فيهم علي بن أبي طالب -رضي الله تعالى عنه-، فقرأ: قل يا أيها الكافرون لا أعبد ما تعبدون، ونحن عابدون ما عبدتم.
فأنزل الله -عز وجل-: {يا أيها الذين آمنوا لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى حتى تعلموا ما تقولون}.
هذه الأسانيد كلها صحيحة.
والحكم لحديث سفيان الثوري، فإنه أحفظ من كل من رواه عن عطاء بن السائب. (مجموع الأحرف: 560)

تهذيب سنن أبي داود، الإصدار 1.12 - لابن القيم
21 ـ كتاب الأشربة >> 1373 ـ باب تحريم الخمر
--مزيد-- عن أبي عَبْدِالرّحْمَنِ السّلَمِيّ عن عَلِيّ بنِ أبي طَالِبٍ: "أنّ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ دَعَاهُ وَعَبْدَالرّحْمَنِ بنَ عَوْفٍ فَسَقَاهُمَا قَبْلَ أنْ تُحَرّمَ الْخَمْرُ، فأَمّهُمْ عَلِيّ في المَغْرِبِ وَقَرَأَ {قُلْ يَأَيّهَا الْكَافِرُونَ} فَخَلَطَ فِيهَا، فَنَزَلَتْ {لا تَقْرَبُوا الصّلاَةَ وَأنْتُمْ سُكَارَى حَتّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ}". (مجموع الأحرف: 442)

نتيجة 18 من 291
كنز العمال الإصدار 2.01 - للمتقي الهندي
المجلد الثاني >> سورة النساء
--مزيد-- فسقاهما قبل أن يحرم الخمر، فأمهم علي في المغرب، وقرأ {قل يا أيها الكافرون} فنزل قوله تعالى {يا أيها الذين آمنوا لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى حتى تعلموا ما تقولون}.
(مسدد). (مسدد بن مسرهد بن مسربل البصري الأسدي أبو الحسن الحافظ. وقال ابن عدي: أنه أول من صنف المسند بالبصرة وذكره ابن حبان في الثقات. وقال البخاري وغير واحد توفي (228). تهذيب التهذيب (10/107)). (مجموع الأحرف: 417)

سنن الترمذي (وشرح العلل)، الإصدار 2.12 - للإمام الترمذي
المجلد الرابع >> أبواب تفسير القرآن، عن رسول الله صلى اللّه عليه وسلم >> 5- ومن سورة النساء
--مزيد-- أبي جعفر الرازي، عن عطاء بن السائب عن أبي عبد الرحمن السلمي، عن علي بن أبي طالب قال:
"صنع لنا عبد الرحمن بن عوف طعاما فدعانا وسقانا من الخمر، فأخذت الخمر منا وحضرت الصلاة، فقدموني فقرأ قل يا أيها الكافرون لا أعبد ما تعبدون ونحن نعبد ما تعبدون، فأنزل اللّه: يا أيها الذين آمنوا لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى حتى تعلموا ما تقولون". هذا حديث حسن غريب صحيح. (مجموع الأحرف: 409)

تحفة الأحوذي، الإصدار 1.09 - للمباركفوري
46 ـ كتاب تفسير القرآن عن رَسُولِ الله صلى الله عليه وسلم >> 1810 ـ باب وَمِنْ سُورةِ النّسَاء

3121 ـ حدثنا عَبْدُ بنُ حُمَيْدٍ أخبرنا عَبْدُ الرّحْمَنِ بنُ سَعْدٍ، عن أبي جَعْفَرٍ الرّازِيّ، عن عَطَاءِ بنِ السّائِبِ عن أبي عَبْدِ الرّحْمنِ السّلَميّ، عن عَلَيّ بنِ أبي طَالِبٍ قالَ: "صَنَعَ لَنَا عَبْدُ الرّحْمَنِ بنُ عَوْفٍ طَعَاماً فَدَعَانَا وَسَقَانَا مِنَ الْخَمْرِ، فَأَخَذَتْ الْخَمْرُ مِنّا وَحَضَرَتِ الصّلاَةُ، فَقَدّمُوني فَقَرَأْتُ: قُلْ يَا أَيّهَا الكَافِرُونَ لاَ أعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ وَنَحْنُ نَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ قال: فَأَنْزَلَ الله تعالى {يَا أَيّهَا الّذِينَ آمَنُوا لاَ تَقْرَبُوا الصّلاَةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ}.
قال أبو عيسى: هذا حديثٌ حسنٌ صحيحٌ غريبٌ.



.
 

سپاہ محمد

مبتدی
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
0
جناب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ہم آپ کے سامنے اس روایت کی پوری اسناد پیش کر دیں جو امام ترمذی و امام داود نے بیان کی ہے۔ لیجئیے! پہلے ذرا اس روایت کی سند پر سرسری نظر فرمائیں:

(الف): حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيِّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ۔۔۔۔ (سنن ترمذی)

ترجمہ: "عبد بن حمید نے عبدالرحمٰن بن سعد سے، انہوں نے ابو جعفر رازی سے، انہوں نے عطا٫ بن سائب سے انہوں نے عبدالرحمٰن سلمی سے، اس نے حضرت علی بن ابی طالب علیہم السلام سے روایت کی ہے کہ۔۔۔۔"


(ب):حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ سُفْيَانَ حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلَام۔۔۔ (سنن ابی داود)

ترجمہ: "مسددبن مسرھد بن مسربل بصری نے یحیٰ بن سعید بن فروخ القطان بصری سے، انہوں نے سفیان بن سعید بن مسروق ثوری سے، انہوں نے عطا٫ بن سائب سے اور انہوں نے عبدالرحمٰن سلمی سے اس نے حضرت علی بن ابی طالب علیہم السلام سے روایت کی ہے کہ۔۔۔"

اوپر دی گئی اسناد میں دو مرکزی راوی ہیں :

۱۔ ابو عبدالرحمٰن السلمی جس کا پورانام عبداللہ بن حبیب بن ربیعہ سلمی ہے۔

۲۔ عطا٫ بن سائب۔

ہماری بحث ان دو راویوں کے متعلق ہو گی۔
 
Top