8۔خوشنودء رسول ﷺ
حفظ ِحدیث اور اس کی تبلیغ حضور ﷺ کی رضا اور منشائے قلبی تھا۔ حضور ﷺ کی رضا اور خوشنودی حیاتِ صحابہ کا عظیم سرمایہ تھا۔ صحابہ خوب جانتے تھے کہ اللہ کے رسول ﷺ کو راضی رکھنا حفظ ِایمان کے لئے ضروری ہے۔ ایک واقعہ سے اندازہ لگائیں کہ ہجرت کے بعد ایک شخص نے ایک پرتکلف مکان بنایا اور اسے چونا گچ کردیا۔ حضور ﷺ کا اِدھر سے گزر ہوا تو فرمایا یہ کس کا مکان ہے؟گویا آپ ﷺ نے ناپسند فرمایا تو جب صحابی کومعلوم ہوا کہ حضور ﷺ نے اس طرح فرمایا ہے تو اس نے اس مکان کو منہدم کردیا اور حضور ﷺ کی خدمت میں آکر اس کی خبر دی۔
ثمامہ بن اثال جب مسلمان ہوا تو اس نے یمن جاکر اہل مکہ کا غلہ بند کردیا اور کہا کہ جب تک اِذن رسول ﷺ نہ ہوگا، غلہ بند رہے گا۔ بعد میں رسول اللہ ﷺ نے از راہِ عنایت اجازت دے دی۔ حضرت عمرؓ کے تورات کی ورق گردانی پر جب ابوبکرؓ نے توجہ دلائی تو حضرت عمرؓ نے فرمایا:
’’رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا و بمحمد نبيًا‘‘ ’’میں اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے پر اور محمدﷺکے نبی ہونے پر راضی ہوں۔‘‘
صحابہؓ یہ سمجھتے اور اچھی طرح جانتے تھے کہ خدا کے رسول کی رضا میں خدا کی رضا ہے۔ خوشنودی رسول ﷺ کے لئے حفظ ِحدیث میں احتیاط سے کام لیا جاتا تھا۔
کیا مکتوبہ چیز ہی قابل اعتماد ہے…؟
یہ بات کہی جاتی ہے کہ چونکہ حدیث لکھی ہوئی نہ تھی، عہد ِرسالت میں صرف حافظہ کی مدد سے ہی اس کو محفوظ رکھا جاتا تھا یا حدیث عہد ِرسالت یا عہد ِخلافت میں لکھوائی نہیں گئی تھی، اس لئے حجت نہیں۔ سید مودودی نے اس کا جواب تفصیل سے دیا ہے، ہم ان کی کتاب سے اقتباس پیش کرتے ہیں:
’’قرآن کو جس و جہ سے لکھوایا گیا تھا وہ یہ تھی کہ اس کے الفاظ و معانی دونوں ہی من جانب اللہ تھے۔ اس کے الفاظ کی ترتیب ہی نہیں اس کی آیتوں، سورتوں کی ترتیب بھی خدا کی جانب سے تھی۔ اس کے الفاظ کو دوسرے الفاظ سے بدلنا بھی جائز نہ تھا۔ وہ اس لئے نازل ہوا تھا کہ لوگ انہی الفاظ میں اسی ترتیب کے ساتھ اس کی تلاوت کریں۔ سنت کی نوعیت اس سے مختلف تھی۔ اس کے الفاظ قرآن کے الفاظ کی طرح بذریعہ وحی نازل نہیں ہوئے تھے بلکہ حضور ﷺ نے اس کو اپنی زبان سے ادا کیا تھا۔پھر اس کا بڑا حصہ ایسا تھا جسے حضورؐ کے ہم عصروں نے اپنے الفاظ میں بیان کیا تھا۔ مثلاً حضور ﷺ کے اخلاق ایسے تھے، زندگی ایسی تھی، فلاں موقع پر حضور ﷺ نے فلاں کام کیا، حضور ﷺ کے اقوال، تقریریں نقل کرنے میں کوئی پابندی نہ تھی کہ انہیں سامعین لفظ بلفظ نقل کریں۔ بلکہ اہل زبان سامعین کے لئے یہ جائز تھا اور وہ اس پر قادر بھی تھے کہ آپ کی بات سن کر معنی و مفہوم بدلے بغیر اسے اپنے الفاظ میں بیان کردیں۔
حضور کے الفاظ کی تلاوت مقصود نہ تھی بلکہ اس تعلیم کی پیروی مقصود تھی جو آپ نے دی تھی۔ احادیث میں قرآن کی آیتوں اور سورتوں کی طرح یہ ترتیب محفوظ رکھنا بھی ضروری نہ تھا کہ فلاں حدیث پہلے ہو اور فلاں بعدمیں، اس بنا پر احادیث کے معاملہ میں یہ کافی تھا کہ لوگ انہیں یاد رکھیں اور دیانت کے ساتھ انہیں لوگوں تک پہنچائیں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کسی چیز کے حجت ہونے کے لئے اس کا لکھا ہوا ہونا ضروری نہیں ہے ۔ اعتماد کی اصل بنیاد اس شخص یا اشخاص کابھروسہ کے قابل ہونا ہے، جس کے ذریعہ بات دوسروں تک پہنچے خواہ مکتوب ہو یا غیر مکتوب۔ خود قرآن اللہ تعالیٰ نے آسمان سے لکھوا کر نہیں بھیجا بلکہ نبی کی زبان سے اس کو بندوں تک پہنچایا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی پورا انحصار اس بات پر کیا کہ جو لوگ نبی کو سچ مانیں گے وہ نبی کے اعتماد پرقرآن کو بھی کلام الٰہی مان لیں گے۔
نبی کریمﷺکی جتنی تبلیغ و اشاعت تھی، زبانی تھی۔ آپ کے صحابہؓ مختلف علاقوں میں جاکر تبلیغ کرتے۔ وہ قرآن کی سورتیں لکھی ہوئی نہ لے جاتے تھے۔ لکھی ہوئی آیات اور سورتیں تو اس تھیلے میں پڑی رہتی تھیں جس کے اندر آپ انہیں کاتبانِ وحی سے لکھوا کر ڈال دیا کرتے تھے۔ باقی ساری تبلیغ واشاعت زبانی ہوتی تھی۔
ایمان لانے والے، صحابہ کے اعتماد پر تسلیم کرتے تھے کہ جو کچھ وہ سنا رہا ہے، وہ اللہ کا کلام ہے یارسول اللہ ﷺ کا حکم۔ اور جو حکم وہ پہنچا رہا ہے وہ حضور ﷺ ہی کا حکم ہے۔
تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ لکھی ہوئی چیز خود کبھی قابل اعتماد نہیں ہوتی جب تک زندہ انسانوں کی شہادت اس کی توثیق نہ کرے۔ محض لکھی ہوئی چیز اگر ہمیں ملے اور ہم لکھنے والے کا خط نہ پہچانتے ہوں یا لکھنے والاخود نہ بتائے۔ یہ اس کی تحریر ہے یا ایسے شواہد موجود نہ ہوں جو اس امر کی تصدیق کریں کہ یہ تحریر اسی شخص کی ہے جس کی طرف منسوب کی گئی ہے تو ہمارے لئے وہ تحریر یقینی کیا معنی، ظنی بھی نہیں ہوسکتی۔‘‘ (۱۶)
اس طویل اقتباس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کسی چیزکا لکھا ہوا ہونا ہی حجت نہیں جب تک زندہ انسانوں کی شہادت موجود نہ ہو۔ قرآن حضور ﷺ کو تحریری صورت میں نہ دیا گیا تھا۔ جبریل علیہ السلام زبانی ہی وحی لاتے تھے اور حضور ﷺ بھی زبانی ہی صحابہ کو بتاتے تھے۔ آج بھی قرآن اس لئے حجت نہیں کہ یہ لکھا ہوا ہمارے پاس موجود ہے بلکہ زندہ انسانوں کی شہادت ہے جو مسلسل اس کو سنتے اور آگے بعد میں آنے والوں تک اسے پہنچاتے چلے آرہے ہیں۔ اگر قرآن کے سلسلہ میں زندہ انسانوں کی شہادت حجت ہے تو سنت ِرسول ﷺ کے بارے میں حجت کیوں نہیں۔