ایک ہے کسی چیز کا علمی اورمعتدلانہ موقف اورایک ہے بزعم خود کچھ فرض کرلینا۔
دونوں میں بڑافرق ہے؟
یاد پڑتاہے کہ شمشاد نامی ایک صاحب نے ایک تحریر لکھی تھی جس مین اس بات پر زور دیاتھاکہ اگر حلالہ اورطلاق ثلاثہ پر لڑنے والے علماء اس کے بجائے لوگوں کو طلاق دینے کا شرعی طریقہ بتانے میں وقت صرف کریں تو امت اورعوام کو بہت فائدہ ہوگا اوریہ جھگرے شاذ ونادر کیسوں کی صورت اختیار کرلیں گے۔
حلالہ کی نوبت کیوں آتی ہے؟
طلاق کے غلط استعمال سے !
ایک شخص جانتاہے کہ اگرمیں نے زہر کھایاتومیری موت ہوجائے گی
اگرمیں نے خود پر گولی چلائی تومیری موت ہوجائے گی
اسی طرح شریعت نے طلاق مغلظہ کے استعمال سے بچانے کیلئے بتادیاہے کہ
اگرکسی نے اپنی بیوی کو طلاق ثلاثہ دیاتو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک شخص تمام باتوں کو جانتے ہوئے بھی طلاق ثلاثہ جیسے مبغٍوض فعل کاارتکاب کرتاہے تواس کو صرف اس لئے انجام سے نہیں بچایاجاسکتا کہ اس کا انجام نہایت خراب ہے۔
ہربرے عمل کا براہی انجام ہوتاہے۔ اچھاانجام نہیں ہوتا
کچھ لوگوں کا کہناہے کہ انتہائی غصہ کی شدت میں دی جاتی ہے اس وقت عقل مائوف ہوجاتی ہے اس لئے ایسی سزا نہ ہونی چاہئے جو جیتے جی زندگی کا روگ بن جائے۔
جوابآعرض ہے کہ ہرطلاق غصے اورنج کی صورت میں ہی دیاجاتاہے خوش دلی سے کوئی بھی نہیں دیتا۔
بہتر صورت تو یہ ہے کہ شریعت کے احکامات کو انسان جانے اوراس کے مطابق عمل پیراہو تواس میں نہ کوئی رسوائی ہے اورنہ کوئی ذلت
لیکن اگرایک انسان طلاق ملغلطہ کا ارتکاب کرتاہے اوراس طرح شریعت سے کھلواڑ کرتاہے اورپھر چاہتاہے کہ اس کے انجام اورعواقب سے بھی بچارہے تویہ ممکن نہیں ہے۔