• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حلالہ کی شرعی حثیت

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
قطع نظر اس موضوع بحث کے
مجھے شدید اعتراض ہے اس تحریر اور تحریری اسلوب اور تحریر کو باہم ترتیب دینے والے چند سخت اورمتعفن الفاظ پر۔
یہ تحریر ایک صنف نازک کی لکھی ہوئی ہے اور اس تحریر کو دعوت و اصلاح کے نام پر ترتیب دیا گیا ہے۔
اگر یہ کسی متعصب اور شدت پسند مرد کی لکھی تحریر ہوتی تو اعتراض کی گنجائش نہیں تھی۔
دعوت واصلاح کے فورم یا جماعت سے تعلق رکھنے والی ایک صنف نازک محترمہ کائنات فاطمہ کی فکر ، سوچ اور مزاج میں اس قدر سختی، کڑواہٹ ہوسکتی ہے تو اس فکر سے تعلق رکھے والے مرد مصنفین کا مزاج کیا ہوگا؟؟؟
کیا معاشرے کی تعمیر و ترقی ایسے مزاج یا فکر سے ممکن ہے؟؟؟
شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ حلالہ میں شکار بننے والی مخلوق بھی یہی صنف نازک ہی ہوتی ہے۔
جو اس درندگی سے گزر چکا ہو اس سے حال دریافت کریں گے تو شدت ہونی تو لازم ہے۔
سوال یہ ہے خود حنفی علماء آخر معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لئے ایسے مزاج یا فکر کو کیوں نہیں اپناتے جو عین شرعی بھی ہے اور موجودہ معاشرے کی اصلاح کے لئے ضروری بھی۔ اور وہ یہ کہ طلاق کا شرعی طریقہ نافذ کریں۔ سب سے پہلے لوگوں کو تعلیم دیں کہ طلاق کا شرعی طریقہ آخر ہے کیا۔ کیونکہ اس طریقہ پر تو سب ہی متفق ہیں۔ پھر ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک قرار دیں اور حلالہ کو قانوناً بھی حرام قرار دیا جائے۔ اور اس کے لاگو ہو جانے کے بعد بھی اگر کوئی مختلف طہر میں تین طلاق دے تو اس کی واپسی کے تمام دروازے بند کر دئے جائیں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ حلالہ میں شکار بننے والی مخلوق بھی یہی صنف نازک ہی ہوتی ہے۔
گردش ایام اورحوادث دوراں کتنی اصطلاحات اورتعبیرات کوبدل ڈالتاہے۔جوچیز ماضی میں ناخوب تھی وہ آج خوب شمار ہوتی ہے اورجس کو ماضی میں عیب سمجھاجاتاتھاوہ آج کا ہنرہے۔

طلاق ثلاثہ کو حدیث میں کتاب اللہ سے کھلواڑ سے تعبیر کیاگیاہے۔طلاق ثلاثہ والے کیلئے حلالہ کی شرط کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ خواب میں بھی بھول کر طلاق ثلاثہ کا نام نہ لے اورسوچے کہ اگراس نے یہ اقدام کیاتواس سے اس کی غیرت پر کتنی بڑی زد پڑے گی اوریہ حقیقت ہے کہ ایک غیرت مند شخص کبھی طلاق ثلاثہ کے انجام کو گوارانہیں کرے گا۔
آج عورت اورخواتین کی مظلومیت کے نام پر اس کی پرزور اورسرتوڑ کوشش ہورہی ہے کہ طلاق ثلاثہ کوہی کالعدم قراردیاجائے۔بجائے اس کے کہ معاشرہ میں بیداری پیداکی جائے لوگوں کے طلاق ثلاثہ کے انجام اورعواقب سے آگاہ کیاجائے اس کے بجائے طلاق ثلاثہ جوکتاب وسنت سے ثابت اورجمہور صحابہ علماء اورسلف صالحین سے ثابت ہے اسی کو زد پر لیاجارہاہے۔

یادش بخیر !پاکستان فورم پر ایک صاحب نے جن کا نام شمشاد ہے انہوں نے ایک بہت بہتر مضمون شیئر کیاتھاجس کاخلاصہ یہ تھاکہ احناف اورغیرمقلدین نے جتنی کوشش اس بات پر کی ہے کہ اک مجلس کی تین طلاق واقع ہوتی ہے یانہیں اگراتنی کوشش اس بات پر کی گئی ہوتی کہ طلاق دینے کا شرعی اوراحسن اورسنت طریقہ کیاہے اورطلاق اللہ کو پسند نہیں توشاید ہمارامعاشرہ کچھ مختلف ہوتا۔

جو اس درندگی سے گزر چکا ہو اس سے حال دریافت کریں گے تو شدت ہونی تو لازم ہے۔
آپ عورتوں کی عزت کی بات کرتے ہیں اوربغیر سوچے سمجھے ایسی بات کردیتے ہیں جس سے فورم کے ممبران ہی کی توہین کا پہلو نکل آتاہے۔

آئیڈیل مین نے سوال کیاتھا
عوت واصلاح کے فورم یا جماعت سے تعلق رکھنے والی ایک صنف نازک محترمہ کائنات فاطمہ کی فکر ، سوچ اور مزاج میں اس قدر سختی، کڑواہٹ ہوسکتی ہے تو اس فکر سے تعلق رکھے والے مرد مصنفین کا مزاج کیا ہوگا
راجاصاحب کا شاہانہ جواب تھا
جو اس درندگی سے گزر چکا ہو اس سے حال دریافت کریں گے تو شدت ہونی تو لازم ہے۔
منطق کی اصطلاح میں اگرکہیں تو یہ صغری اورکبری مل کر جس نتیجہ تک پہنچاتے ہیں وہ میں کہنانہیں چاہتا۔لیکن آپ کی بات اسی طرف پہنچارہی ہے۔یانحو کی اصطلاح میں مبتدااورخبرمل کر جوجملہ تشکیل دے رہے ہیں وہ لکھ نہیں سکتا۔
راجاصاحب لکھنے سے پہلے ذراسوچ تولیاکریں !کیالکھ رہے ہیں کیونکہ "بات نکلی ہے توپھردورتلک جائے گی"

سوال یہ ہے خود حنفی علماء آخر معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لئے ایسے مزاج یا فکر کو کیوں نہیں اپناتے جو عین شرعی بھی ہے اور موجودہ معاشرے کی اصلاح کے لئے ضروری بھی۔
سوال یہ ہے کہ کیایہ صرف حنفی علماء کا روناہے یادیگر تین مسالک والے بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلہ میں شافعی،حنبلی اورمالکی علماء بھی احناف کے ہم زبان ہیں۔
غیرمقلدین حضرات عمومی طورپر احناف کواہل الرائے قراردے کر بقیہ تین کو اہل حدیث مانتے ہیں سوال یہ ہے کہ اہل حدیث کا ایک بڑااوربہت بڑاطبقہ تواس تین طلاق جوایک مجلس میں دی گئی اس کو تین ہی مانتاہے۔اورصرف ایک قلیل فرقہ اورطبقہ اس کو ایک مانتاہے تو ہم اہل حدیث کے بڑے گروہ کی بات تسلیم کریں یاپھرچھوٹے گروہ کی؟؟؟؟؟؟؟
راجاصاحب کا کہنایہ ہے کہ حنفی علماء تین طلاق کو ایک نہیں مانتے ہیں لہذا وہ معاشرے کی تعمیر وترقی کے مخالف کام کررہے ہیں ۔ لیکن راجاصاحب نے حسب معمول یہ نہیں سوچاکہ ان کے اس غیرزریں ارشاد کی ضرب کن کن کولگے گی۔ اس میں تواولاصحابہ عظام،تابعین کرام اورپھر ائمہ ثلاثہ اوران کے ہزاروں لاکھوں پیروکار علماء وفقہاء آئیں گے ۔گویایہ سب بھی معاشرےکی تعمیر وترقی نہیں بلکہ اس کے مخالف فہم وفکر والے تھے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔

طلاق کا شرعی طریقہ نافذ کریں۔ سب سے پہلے لوگوں کو تعلیم دیں کہ طلاق کا شرعی طریقہ آخر ہے کیا۔ کیونکہ اس طریقہ پر تو سب ہی متفق ہیں۔ پھر ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک قرار دیں اور حلالہ کو قانوناً بھی حرام قرار دیا جائے۔ اور اس کے لاگو ہو جانے کے بعد بھی اگر کوئی مختلف طہر میں تین طلاق دے تو اس کی واپسی کے تمام دروازے بند کر دئے جائیں۔
آپ یہ بات سن کر ہندوستان کے کچھ ججوں کی بات یاد آئی گئی ہے جنہوں نے ازخود اجتہاد کرتے ہوئے طلاق کیلئے قران میں جومرحلے بتائے گئے ہیں کہ بیوی سے بسترالگ کرلو،ہلکی تادیب کرو،گھروالوں کو بیچ میں ڈال کر صلح صفائی کی کوشش کرو اس کے بعد طلاق دو۔انہوں نے ان تمام مراحل کوطلاق کیلئے شرط قراردیتے ہوئے کہاہے کہ اگرکوئی ان مراحل سے گزرے بغیر طلاق دے گاتواس کی طلاق غیرمعتبر ہوگی۔
بھلابتائیے توان نام نہاد مجتہدین اورآپ کی کتاب وسنت کی روشنی والی فہم اورفکر میں کیافرق باقی رہا۔

حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ میں طلاق کے بڑھتے واقعات کاتدارک یہ قطعاہے ہی نہیں کہ تین طلاق کو ایک کردیاجائے،یاایک کوتین کردیاجائے۔سعودی عرب میں سلفیوں کاشاید زور ہے لیکن طلاق کے بڑھتے واقعات سے سعودی معاشرہ خود پریشان ہے لہذا ضروری ہے کہ پہلے معاشرے میں پھیلے مرض کی صحیح تشخیص کی جائے پھراس کے بعد حل تجویز کیاجائے ورنہ انڈھے کی طرح ٹٹول کر کوئی خود ساختہ مرض تجویز کرلینے سے اصل مرض دورنہیں ہوتالیکن غلط دوائی سے مریض کو نیامرض ضرور لگ جاتاہے۔


والسلام
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
جمشید صاحب،
شمشاد صاحب کا مؤقف بیان کر کے آپ خود ہی اس پر عمل کر لیتے تو بہتر ہوتا۔ موکنگ کرنا کچھ دیر ایک طرف رکھ دیں، اور
اہلحدیث اور حنفی کی بحث بھی ایک طرف رکھ دیں۔
کچھ بتائیں کہ معاشرے میں سدھار کیسے لایا جائے۔
اس پر تو سب ہی متفق ہیں کہ لوگوں کو شریعت کا درست علم دیا جانا چاہئے، اور انہیں طلاق کا شرعی طریقہ سکھلایا جانا چاہئے۔ لیکن معاشرے کی جہالت، صدیوں کی سینہ بہ سینہ روایت، دین سے دوری، ہم سب کے سامنے ہے۔ حلالہ کا مسئلہ مرد کے لئے انا اور غیرت کا ہے تو عورت کے لئے بھی زندگی بھر کی پشیمانی، کرب اور تذلیل کا باعث ہے۔ جبکہ آپ بھی جانتے ہی ہوں گے اور وہ ویڈیوز بھی دیکھ رکھی ہوں گی جن میں حلالہ والے مسئلے کو کیسے ایکسپلائٹ کیا جاتا ہے۔ آپ کی نظر میں اس کا حل آخر کیا ہے؟
فقہائے احناف اس ضمن میں کچھ نہیں کر سکتے؟ مطلب حنفی مسلک میں دیگر مسالک کے فتاویٰ پر عمل کرنے کی لچک تو موجود ہے۔ فقہائے ثلاثہ کا مؤقف آپ جو بیان کر رہے ہیں، شاید وہ بھی کسی حد تک درست ہو۔ موجودہ دور میں تو سعودی علماء (جنہیں احناف حنبلی قرار دیتے ہیں) ان کا فتویٰ یہ ہے:
http://islamqa.com/ur/ref/109245

آخر گاؤں میں جمعہ کے بجائے ظہر کی ادائیگی کا مؤقف رکھنے اور اس پر دلائل رکھنے کے باوجود، علمائے احناف نے معاشرے کے بگاڑ کے پیش نظر گاؤں میں بھی نماز جمعہ کا فتویٰ دے رکھا ہے۔ یہ معاملہ اس سے کچھ ملتا جلتا نہیں؟ مطلب اس طلاق کے معاملے میں بھی لچک اختیار نہیں کی جا سکتی؟ یا آپ (علمائے احناف) کے خیال میں ایک مجلس کی تین طلاق کے ایک ہونے کے دلائل سرے سے ناپید ہی ہیں؟ یا اصل مسئلہ یہ ہے ہی نہیں؟ کچھ اور ہے؟

اس موضوع پر ایک سیمینار کی کاروائی کتابی شکل میں شائع ہوئی ہے۔ جس میں کئی علمائے احناف نے بھی شرکت کی۔ سوائے ایک بریلوی عالم کے باقی سب نے قریب اس بات پر اتفاق کا اظہار کیا تھا کہ موجودہ معاشرے کا یہ ایک بڑا المیہ ہے اور اس کا ایک متفقہ حل بھی پیش کیا گیا تھا۔ یہ کتاب یہاں موجود ہے:
http://www.kitabosunnat.com/kutub-library/article/1-urdu-islami-kutub/213-teen-talaq.html
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
شمشاد صاحب کا مؤقف بیان کر کے آپ خود ہی اس پر عمل کر لیتے تو بہتر ہوتا۔ موکنگ کرنا کچھ دیر ایک طرف رکھ دیں، اور
یہ موکنگ نہیں بلکہ صحیح لفظ استعمال کریں تو پھر ٹیزنگ تھی۔لیکن یہ ٹیزنگ بھی محض ابتسامہ کے طورپر تھی۔
مقصود اس سے قطع محبت نہیں مجھے

کچھ بتائیں کہ معاشرے میں سدھار کیسے لایا جائے۔
کیاہمارامعاشرہ صرف طلاق کے حوالہ سے بگاڑ کاشکار ہے یاپھر معاشرہ اپنی بنیاد میں ہی بگڑاہواہے۔اگرہم یہ مان لیں کہ معاشرہ میں جوبگاڑہے وہ محض طلاق وغیرہ کے تعلق سے ہے تواس کا حل نہایت آسان ہے لیکن اگراس کو تسلیم کریں کہ معاشرہ کی جوبنیاد خصوصااسلامی اورایمانی بنیاد ہونی چاہئے وہ کھوکھلی ،بے بنیاد اورمتزلزل ہے توپھراس کیلئے دوسرے حل تلاش کرنے پڑیں گے۔
اس پر تو سب ہی متفق ہیں کہ لوگوں کو شریعت کا درست علم دیا جانا چاہئے، اور انہیں طلاق کا شرعی طریقہ سکھلایا جانا چاہئے۔ لیکن معاشرے کی جہالت، صدیوں کی سینہ بہ سینہ روایت، دین سے دوری، ہم سب کے سامنے ہے۔ حلالہ کا مسئلہ مرد کے لئے انا اور غیرت کا ہے تو عورت کے لئے بھی زندگی بھر کی پشیمانی، کرب اور تذلیل کا باعث ہے۔ جبکہ آپ بھی جانتے ہی ہوں گے اور وہ ویڈیوز بھی دیکھ رکھی ہوں گی جن میں حلالہ والے مسئلے کو کیسے ایکسپلائٹ کیا جاتا ہے۔ آپ کی نظر میں اس کا حل آخر کیا ہے؟
آپ کو ایک بات واضح کردوں جوآپ نے مرد کی اناوغیرت اورعورت کی پشیمانی اورتذلیل کے بارے میں کہاہے۔ جب کسی کی غیرت پر زد اورضرب پڑتی ہے توکیاوہ پشیمان نہیں ہوتا کیااس کی تذلیل نہیں ہوتی ؟؟؟؟؟حقیقت یہ ہے کہ یہ عورت سے زیادہ مرد کیلئے پشیمانی اورتذلیل کا موقعہ ہے کیونکہ طلاق اس نے دی ہے اپنی عزت اپنے ہاتھوں سے اس نے ہی گنوائی ہے۔
دوسری بات حلالہ کے تعلق سے عرض کروں۔
حلالہ کیلئے عورت کی رضامندی بھی اتنی ہی لازمی ہے جتنی کہ مرد کی رضامندی۔احناف کے یہاں شادی کے بعد عورت کی رضامندی کھلے لفظوں میں لینی لازمی ہے جب تک عورت اپنے منہ سے حلالہ والے نکاح پر "ہاں"نہیں کرے گی تب تک نکاح منعقد نہیں ہوگااورجب نکاح ہی نہیں ہوگا توپھر حلالہ ہوہی نہیں سکتا۔لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ حلالہ کے تعلق سے عورت بھی "ہاں"کہنے میں اتنی ہی قصوروار ہے جتناکہ مرد ہے۔
ہاں چونکہ طلاق ثلاثہ دینے میں ساراقصور مرد کاہی ہوتاہے لہذا اس معاملے میں عورت بے قصور اورمجبور ہے لیکن اس کے بعد نکاح کیلئے راضی ہونے میں عورت کومجبورنہیں کہاجاسکتااوراگرمعاشرتی دبائو،بچوں کی ذمہ داریاں وغیرہ کو مجبوری بنایاجائے تومرد بھی اتناہی مجبور ثابت ہوتاہے اس اضافی ذمہ داری کے ساتھ کہ اس نے طلاق ثلاثہ بیک مجلس دے کر گناہ کاارتکاب کیاہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے۔

فقہائے احناف اس ضمن میں کچھ نہیں کر سکتے؟ مطلب حنفی مسلک میں دیگر مسالک کے فتاویٰ پر عمل کرنے کی لچک تو موجود ہے۔ فقہائے ثلاثہ کا مؤقف آپ جو بیان کر رہے ہیں، شاید وہ بھی کسی حد تک درست ہو۔ موجودہ دور میں تو سعودی علماء (جنہیں احناف حنبلی قرار دیتے ہیں) ان کا فتویٰ یہ ہے:
http://islamqa.com/ur/ref/109245
آپ لوگوں کو چاہئے کہ فقہ حنفی کے تعلق سے کوئی ایک موقف اختیار کریں اپ کی جماعت کا ہرشخص فقہ حنفی کے تعلق سے ایک نیااورمختلف نظریہ رکھتاہے۔آپ نے موجودہ حنفی علماء کی بات رکھی ہے۔ جب کبھی ہم ان حنفی علماء کی بات کو پیش کرتے ہیں توآپ ہی کی جانب سے جواب آتاہے کہ یہ لوگ مقلد ہیں مجتہد نہیں ہیں ان کی باتوں کا کوئی اعتبار نہیں۔ لیکن طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں شاید آپ ان ہم عصر حنفی علماء کو مجتہد تسلیم کرلیتے ہیں۔ چلوشکریہ کم ازکم اسی بہانے سے حنفی علماء کی قدرومنزلت توبڑھی آپ کی نظروں میں۔
جہاں تک بات سعودی علماء کی ہے توسعودی علماء بھی پورے کے پورے ابن تیمیہ کی رائے کے قائل نہیں ہیں۔ بلکہ بہت سارے اوراگرمیں غلط نہیں ہوں توبیشتر حنبلی علماء کی رائے یہی ہے اوررہی ہے کہ تین طلاق ایک مجلس کی تین ہی ہوتی ہے ایک نہیں۔ اس ضمن میں شیخ محمد بن ابراہیم جس کے شاگردوں میں ابن باز ابن عثیمین اوردیگر موجودہ سربرآورہ علماء ہیں کی رائے یہی ہے کہ تین طلاق ایک مجلس کی تین ہی ہوتی ہے اس ضمن میں انہوں نے محمد بن عبدالوہاب کی بات بھی نقل کی ہے کہ ہم نے پہلے ابن تیمیہ کی رائے پر فتوی دیاتھا لیکن بعد میں چل کر ائمہ اربعہ کی رائے علمی طورپر مضبوط نظرآئی۔

آخر گاؤں میں جمعہ کے بجائے ظہر کی ادائیگی کا مؤقف رکھنے اور اس پر دلائل رکھنے کے باوجود، علمائے احناف نے معاشرے کے بگاڑ کے پیش نظر گاؤں میں بھی نماز جمعہ کا فتویٰ دے رکھا ہے۔ یہ معاملہ اس سے کچھ ملتا جلتا نہیں؟ مطلب اس طلاق کے معاملے میں بھی لچک اختیار نہیں کی جا سکتی؟ یا آپ (علمائے احناف) کے خیال میں ایک مجلس کی تین طلاق کے ایک ہونے کے دلائل سرے سے ناپید ہی ہیں؟ یا اصل مسئلہ یہ ہے ہی نہیں؟ کچھ اور ہے؟
کیاگائوں میں جمعہ کی نماز پڑھنے کا فتوی معاشرے کے بگاڑ کے پیش نظر ہے یہی نئی بات معلوم ہوئی۔ شاید آپ کہناکچھ اورچاہ رہے تھے لیکن تعبیر میں غلطی کرگئے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ ضرورت کے پیش نظر ہے نہ کہ معاشرے کے بگاڑ کے پیش نظر۔
کراچی ایک شہر ہے۔ کیااس میں کوئی ایسی مسجد ہے جہاں پورے کراچی کے مسلمان نماز پڑھ سکیں۔ لاہور میں کوئی مسجد اتنی وسعت رکھتی ہے جہاں پورے شہر کے مسلمان سماسکیں۔ یہی حال دیگر شہروں کا ہے۔ حقیقت تویہ ہے کہ آبادی اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ جمعہ کی نماز میں شہر کی بڑی سے بڑی مسجدیں صرف اپنے پاس پڑوس کے مسلمانوں کیلئے تنگی دامانی کا شکوہ کرتی ہیں اب اگراس میں سارے شہر کے مسلمان اجائیں توپھر سوچئے کیاحال ہوگا۔لہذا گائوں میں جمعہ کی نماز پڑھنے کا فتوی ضرورت اورمجبوری بناء پر ہے کیونکہ گائوں والوں کیلئے ضروری ہوگاکہ وہ شہر جاکرنماز پڑھیں اورشہر کی مساجدمیں گائوں والوں کو سمونے کی وسعت نہیں ہے۔


اس موضوع پر ایک سیمینار کی کاروائی کتابی شکل میں شائع ہوئی ہے۔ جس میں کئی علمائے احناف نے بھی شرکت کی۔ سوائے ایک بریلوی عالم کے باقی سب نے قریب اس بات پر اتفاق کا اظہار کیا تھا کہ موجودہ معاشرے کا یہ ایک بڑا المیہ ہے اور اس کا ایک متفقہ حل بھی پیش کیا گیا تھا۔ یہ کتاب یہاں موجود ہے:
http://www.kitabosunnat.com/kutub-library/article/1-urdu-islami-kutub/213-teen-talaq.html
[/QUOTE]
اگربات محض معاشرے کے بگاڑ کی ہے توابن حزم کا فتوی ہے کہ موسیقی جائزہے معاشرے کے بگاڑ کے پیش نظراس کو کیوں نہ اختیار کرلیاجائے اورمسلمانوں میں جوبگاڑعمومی طورپر سرایت اختیار کرگیاہے اس کو اختیار کرلیاجائے۔ اگربات محض معاشرے کے بگاڑ کی ہے توخواتین بے پردہ اورچہرہ کھول کر چلتی ہیں تواس مسئلہ میں البانی کی رائے کیوں نہ اختیار کرلیاجائے۔اگربات محض معاشرے کے بگاڑ کی ہے توہم حنفی ہی پہلے امام ابوحنیفہ کی رائے کیوں نہ اختیار کرلیں کہ شراب محض انگورکاہی ہے ۔بقیہ دیگراجناس کے شراب پینے پر تعزیر ہے حد نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے معاشرے کابگاڑ کوئی کلی اوراصولی ضابطہ نہیں ہے کہ اس کے نام پر ہرچیز کو جائزقراردیاجائے۔ اس کی اپنی کچھ حدود ہیں،کچھ ضابطے ہیں۔
میں اپنی ذاتی بات کروں۔
اگرطلاق ثلاثہ کا مسئلہ مفقود الخبر یاائمہ اربعہ میں دیگر اختلافی مسائل کی طرح ہوتاتوہمیں معاشرے کے بگاڑ کے پیش نظر وہ رائے اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہوتی لیکن جس مسئلہ پرائمہ اربعہ متفق ہیں۔ اس سے باہر جانااورخروج کرناراقم الحروف اپنے لئے بقول حضرت شاہ ولی اللہ کہ ائمہ اربعہ کے اجتہادات سے باہر نکلناجائزنہیں ہے،جائز نہیں سمجھتا۔
اس کے علاوہ طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں ابن تیمیہ نے درحقیقت جس شدومد کے ساتھ کام لیاہے وہ درحقیقت ایک ایسے غالی شخص کے خلاف تھاجس نے اس رائے سے خروج کرنے والے کے کفر اورقتل کا فتوی دیاتھا۔بہرحال ایک ایسی رائے جس کی کچھ نہ کچھ دلیل مل جاتی ہو اس پر اتناسخت فتوی اورفیصلہ شریعت کے مزاج اورمذاق کے خلاف ہے اسی تناظر میں ابن تیمیہ نے طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر شدومداورتفصیل کے ساتھ قلم اٹھایا۔ابن تیمیہ کے بعد ابن قیم نے حسب معمول اس مسئلہ کو اپنے فکر ونظرکی جولان گاہ بنایااوردلائل چاہے جیسے بھی ہوں اس سے اپنی کتاب نہیں کتابوں کو بھردیا۔حالانکہ یہ واضح رہناچاہئے تھاکہ ابن تیمیہ اس مسئلہ میں محض ایک غالی رائے کی تردید کرناچاہ رہے تھے نفس طلاق ثلاثہ سے ان کو زیادہ سروکار نہیں تھا۔
والسلام
 
Top