• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حمل کی حالت میں اکٹھی دو طلاقیں دی اور عدت میں رجوع کرلیا

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ہذا کے سلسلے میں کہ سنبل حنیف (حالیہ مقیم امریکہ) کے شوہر فواد مجید نے آج سے تقریبا چار ماہ قبل حالت حمل میں ایک ساتھ دو طلاقیں دی ، پھر دودن بعد شوہر نے رجوع کرلیا۔ اور ہفتہ دن بعد اس سلسلے میں فتوی منگاکر اطمینان بھی کرلیا گیا۔ پھر دونوں میاں بیوی ہنسی خوشی ایک ساتھ پہلے کی طرح زندگی بسر کرنے لگے ۔ درمیان میں کسی قسم کی کوئی بات نہیں آئی ۔ اس وقت کچھ دنوں سے فواد مجید کے والد جو امریکہ میں ہی مقیم ہیں کہنے لگے کہ میں نے پاکستان سے فتوی منگایا ہے جس کی روشنی میں میان بیوی کے درمیان طلاق ہوچکی ہے ، اب یہ دونوں اکٹھا نہیں رہ سکتے کہہ کر میاں بیوی کے درمیان جدائی پیدا کرنے کے لئے زبردستی کر رہے ہیں۔ اس مسئلہ کا قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا حل ہے ؟

سائل : راجہ کمال پاکستان کمیونٹی طائف ، سعودی عرب

الجواب بعون الوھاب بشرط صحۃ السوال

صورت مذکورہ کی روشنی میں سنبل حنیف کو حالت حمل میں دی گئی دو طلاقوں میں سے ایک ہی طلاق واقع ہوئی تھی کیونکہ ایک وقت میں ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے گرچہ دو یا تین طلاق دی گئی ہو۔

حالت حمل میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے ، اس کی دلیل:

«عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ طَلَّقَ اِمْرَأَتَهُ وَهِیَ حَائِضٌ ، فَذَکَرَ «عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ» ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ﷺ ،فَقَالَ «لَهُ»: مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ، ثُمَّ لِيُطَلِّقْهَا وَهِیَ طَاهِرٌ أَوْ حَامِلٌ» (نسائى)

ترجمہ: ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی پس یہ بات حضرت عمر نے نبیﷺ کو بتائی تو رسول اللہﷺنے عمر کو فرمایا کہ اسے حکم دیں کہ وہ رجوع کرے پھر حالت طہر یا حمل میں طلاق دے۔

٭ اس حدیث کو شیخ البانی ؒ نے صحیح قرار دیا ہے ۔ ( صحیح النسائی : 12244)

ایک وقت میں ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے ، اس کی دلیل : اللہ تعالی کا فرمان:

الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان (سورہ بقرہ : 229)

ترحمہ: طلاق دو مرتبہ ہے اس کے بعد پھر نیکی کے ساتھ لوٹا کے رکھنا یا بھلائی کے ساتھ چھوڑدینا ہے-

یہ آیت کریمہ واضح کرتی ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی طلاق ہوگی، نہ دو، نہ تین کیونکہ "مرّتان" کا اطلاق "مرۃ بعد مرۃ" یکے بعد دیگرے پر ہوتا ہے۔

سيدنا رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں لیکن بعد میں سخت غمگین ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے ان سے پوچھا: « كيف طلقتها » کہ ’’تم نے اسے کس طرح طلاق دی تھی؟‘‘ انہوں نے کہا: تین مرتبہ۔ آپﷺ نے پوچھا: « في مجلس واحد؟ » کہ ’’ایک ہی مجلس میں؟‘‘ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا: « فإنما تلك واحدة، فارجعها إن شئت » کہ ’’پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے، اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو۔‘‘ راوی سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سیدنا رکانہ نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا۔ (مسند اَحمد)

یہاں یہ بھی واضح رہے گوکہ اس مسئلہ میں فقہاءکے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے مگر راحج یہی ہے کہ اگر شوہر عدت کے دوران دوسری اور تیسری طلاق دے تو ایک ہی طلاق مانی جائے گی ۔

جیساکہ سوال میں ذکر ہے کہ شوہر فواد مجید نے بیوی سے دو دن بعد رجوع کرلیا تھا اس لئےاب میاں بیوی کے درمیان کوئی معاملہ نہیں ہے ، بیوی ابھی بھی فواد مجیدکی زوجیت میں باقی ہے۔ فواد مجید کے والد کا طلاق کا بہانہ بناکر میاں بیوی میں زبردستی جدائی کرنے کی کوشش کرنا از قبیل شرع حرام ہے ، انہیں اس کام سے باز آنا چاہئے ۔

واللہ اعلم بالصواب


کتبہ /مقبول احمد سلفی

داعی دفتر تعاونی برائے دعوت وارشاد شمال طائف مسرہ
 
شمولیت
دسمبر 11، 2015
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
57
جزاك الله خيراً شیخ صاحب اگر ایک طلاق کو
8یا9 مہینے گزر جائے تو کیا ایک ہی ہوگی
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
فواد مجید کے والد کا رد عمل ہر ”اعتبار“ سے غلط ہے۔
  1. جن لوگوں کے نزدیک ایک ساتھ دی گئیں دو طلاقیں ”دو“ شمار ہوتی ہیں، ان کے نزدیک بھی تو عدت کے اندر رجوع کی گنجائش ہے۔ اور فواد نے طلاق دینے کے دو دن کے اندر اندر رجوع کرلیا۔ لہٰذا اب وہ شرعاً میاں بیوی ہیں۔ اب ان کے مابین جبراً جدائی کروانا غلط ہے۔
  2. جن لوگوں کے نزدیک ایک ساتھ دی گئیں دو طلاقیں ”ایک“ ہی شمار ہوتی ہیں، ان کے نزدیک بھی عدت کے اندر رجوع کی گنجائش ہے۔ اور فواد نے طلاق دینے کے دو دن کے اندر اندر رجوع کرلیا۔ لہٰذا اب وہ شرعاً میاں بیوی ہیں۔ اب ان کے مابین جبراً جدائی کروانا غلط ہے۔
  3. فواد مجید کے والد صاحب ”طلاق کے دو مروجہ طریقوں“ سے ہٹ کر ایک نیا اور ”تیسرا نکتہ نظر“ پیش کررہے ہیں۔ کیا وہ کوئی ”نیا مذہب“ پیش کر رہے ہیں؟؟؟
واللہ اعلم بالصواب
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
جزاك الله خيراً شیخ صاحب اگر ایک طلاق کو
8یا9 مہینے گزر جائے تو کیا ایک ہی ہوگی
ہاں یہ ایک ہی طلاق شمار ہوگی ۔
لیکن اس سے وہ عورت مطلقہ ہوگئی۔ اب اگر وہ چاہے تو کسی بھی ہم پلہ شخص سے شادی کرسکتی ہے۔ پہلے شوہر کو صرف عدت کے اندر رجوع کا حق تھا عدت گذرنے کے بعد ختم ہوگیا۔ اب وہ اس عورت کو دوبارہ اپنے ساتھ نکاح کے لئے مجبور نہیں کرسکتا۔ ہاں اگر عورت راضی خوشی اس سے نکاح پر رضامند ہو تو نکاح ہوسکتا ہے کیونکہ ابھی وہ اس کے لئے مغلظہ نہیں ہے۔
ایک ساتھ تین طلاق کی صورت میں اس کو مغلظہ ہی سمجھیں وگرنہ حرام میں داخل ہونا یقینی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو شک میں پڑا وہ حرام میں داخل ہؤا (ٍصحیح مسلم)۔
 
Top