• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حنفی مقلدوں سے ایک سوال؟

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
آپ کو غلط فہمی ہے - نبی کریم صل الله علیہ وسلم تہجد (تراویح ) اپنے حجرے میں پڑھتے تھے -
یہاں آپ جس بات کی تردید فرمارہے ہیں اپنے مراسلے کی چند سطروں بعد آپ نے جو حدیث پیش کی اس میں صراحت سے بیان ہوا کہ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں اپنے حجرہ کے اندر ( تہجد کی ) نماز پڑھتے تھے ۔ حجرے کی دیواریں پست تھیں اس لیے لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا اور کچھ لوگ آپ کی اقتدا میں نماز کے لیے کھڑے ہو گئے
اس سے معلوم ہوا کہ غلط فہمی مجھے نہیں بلکہ آپ کو ہوئی ہے

نبی کریم صل الله علیہ وسلم نوافل گھر میں پڑھتے تھے - کیوں کہ یہ افضل ہے - لیکن اہل سنّت کی اکثریت نوافل اور سنتیں مسجدوں میں پڑھتی ہے -اس سے ثواب میں کمی تو ہوتی ہے لیکن آپ نے اس منع بھی نہیں کیا -
اگر اکثریت کا عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے خلاف ہو تو وہ آپ کے نزدیک حجت ہے؟؟
یہاں ہم تراویح کو مسجد میں پڑھنے پر بات کررہے ہیں اور اس کے لئے رسول اللہ کا فرمان ہے کہ
ترجمہ از داؤد راز

پس اے لوگو! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو کیونکہ فرض نماز کے سوا انسان کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے۔
صحیح بخاری : حدیث نمبر : 7290
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
حضرت عمر کے نزدیک آیت رجم قرآن میں نازل ہوئی لیکن آج جو قرآن پڑھا جاتا ہے اس میں نہیں تو کیا سلفی اب قرآن میں آیت رجم کو شامل کرلیں گے؟؟؟ کیونکہ حضرت عمر اس کے قائل ہیں
حضرت عمر نے فرمایا
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر کتاب نازل کی، کتاب اللہ کی صورت میں جو کچھ آپ پر نازل ہوا، ان میں آیت رجم بھی تھی۔ ہم نے اسے پڑھا تھا سمجھا تھا اور یاد رکھا
صحیح بخاری : حدیث نمبر : 6830
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
تہجد (تراویح ) گھر میں افضل (مستحب) ہے مسجد کی نسبت- لیکن منع نہیں ہے -اس لئے حضرت عمر رضی الله عنہ کا فعل اپنا جگہ صحیح تھا - جو لوگ اس کو بدعت کہتے ہیں وہ صریح غلطی پر ہیں -
بلکل ایسے ہی جسے نبی کرم صل الله علیہ وسلم نےعورتوں کی نماز کو اپنے گھروں میں پڑھنے کو افضل قرار دیا - لیکن ان کو مسجدوں میں آنے سے منع بھی نہیں کیا -
یعنی حضرت عمر نے لوگوں کو نماز تراویح کو باجماعت پڑھتے دیکھکر جو یہ فرمایا کہ " یہ بدعت حسنہ ہے " تو یہ ان کی صریح غلطی تھی
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح مسجد میں پڑھائی تھی یا نہیں
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے عبدہ بن سلیمان نے یحییٰ بن سعید انصاری کے واسطہ سے بیان کیا ، انہوں نے عمرہ بنت عبدالرحمن سے ، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ، آپ نے بتلایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں اپنے حجرہ کے اندر ( تہجد کی ) نماز پڑھتے تھے ۔ حجرے کی دیواریں پست تھیں اس لیے لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا اور کچھ لوگ آپ کی اقتدا میں نماز کے لیے کھڑے ہو گئے ۔ صبح کے وقت لوگوں نے اس کا ذکر دوسروں سے کیا ۔ پھر جب دوسری رات آپ کھڑے ہوئے تو کچھ لوگ آپ کی اقتدا میں اس رات بھی کھڑے ہو گئے ۔ یہ صورت دو یا تین رات تک رہی ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ رہے اور نماز کے مقام پر تشریف نہیں لائے ۔ پھر صبح کے وقت لوگوں نے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ میں ڈرا کہ کہیں رات کی نماز ( تہجد ) تم پر فرض نہ ہو جائے ۔ ( اس خیال سے میں نے یہاں کا آنا ناغہ کر دیا ) (صحیح بخاری ٧٢٩ کتاب الاذان)
محمد علی جواد صاحب کی شیئر کی گئی حدیث کے مطابق نماز تراویح اپنے حجرے میں ادا کرتے تھے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
یہاں آپ جس بات کی تردید فرمارہے ہیں اپنے مراسلے کی چند سطروں بعد آپ نے جو حدیث پیش کی اس میں صراحت سے بیان ہوا کہ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں اپنے حجرہ کے اندر ( تہجد کی ) نماز پڑھتے تھے ۔ حجرے کی دیواریں پست تھیں اس لیے لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا اور کچھ لوگ آپ کی اقتدا میں نماز کے لیے کھڑے ہو گئے
اس سے معلوم ہوا کہ غلط فہمی مجھے نہیں بلکہ آپ کو ہوئی ہے



اگر اکثریت کا عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے خلاف ہو تو وہ آپ کے نزدیک حجت ہے؟؟
یہاں ہم تراویح کو مسجد میں پڑھنے پر بات کررہے ہیں اور اس کے لئے رسول اللہ کا فرمان ہے کہ
ترجمہ از داؤد راز

پس اے لوگو! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو کیونکہ فرض نماز کے سوا انسان کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے۔
صحیح بخاری : حدیث نمبر : 7290
یہاں آپ جس بات کی تردید فرمارہے ہیں اپنے مراسلے کی چند سطروں بعد آپ نے جو حدیث پیش کی اس میں صراحت سے بیان ہوا کہ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں اپنے حجرہ کے اندر ( تہجد کی ) نماز پڑھتے تھے ۔ حجرے کی دیواریں پست تھیں اس لیے لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا اور کچھ لوگ آپ کی اقتدا میں نماز کے لیے کھڑے ہو گئے
اس سے معلوم ہوا کہ غلط فہمی مجھے نہیں بلکہ آپ کو ہوئی ہے



اگر اکثریت کا عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے خلاف ہو تو وہ آپ کے نزدیک حجت ہے؟؟
یہاں ہم تراویح کو مسجد میں پڑھنے پر بات کررہے ہیں اور اس کے لئے رسول اللہ کا فرمان ہے کہ
ترجمہ از داؤد راز

پس اے لوگو! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو کیونکہ فرض نماز کے سوا انسان کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے۔
صحیح بخاری : حدیث نمبر : 7290
میں اپنی بات کی تردید نہیں کر رہا بلکہ - آپ نے میرے پورے جملے پرغور نہیں کیا - میرے آخری الفاظ یہ تھے " کہ یہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کا یہ اپنا فعل تھا - حکم نہیں تھا - دوسرے معنی میں یہ مستحب تھا کہ تراویح حجرے میں پڑھی جائے - لیکن اگر مسجد میں پڑھی جائے تو اس سے منع نہیں کیا گیا - لہذا حضرت عمر رضی الله عنہ کا فعل بھی اپنی جگہ بلکل صحیح تھا -

گھر یا حجرے میں نوافل پڑھنے میں آپ صل الله علیہ وسلم کا حکم نماز کی افضلیت پر ہے- نا کہ مسجد میں تراویح یا نوافل پڑھنے کی صورت میں نماز باطل ہونے پر ہے - اگر ایسا ہوتا آپ کا فرمان یہ ہوتا کہ جو کوئی تراویح یا نوافل مسجد میں پڑھے گا - وہ قبولیت کے درجے کو نہیں پہنچے گی -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
یعنی حضرت عمر نے لوگوں کو نماز تراویح کو باجماعت پڑھتے دیکھکر جو یہ فرمایا کہ " یہ بدعت حسنہ ہے " تو یہ ان کی صریح غلطی تھی

امام ابن تیمیہ اپنی کتاب ''منہاج السنۃ'' میں لغوی بدعت اور شرعی بدعت کو واضح کرتے ہوئے ''نعمت البدعۃ ہذہ'' کے ذیل میں بیان کرتے ہیں۔

إنما سماها بدعة لأن ما فعل ابتداء، بدعة لغة، وليس ذلک بدعة شرعية، فإن البدعة الشرعية التي هي ضلالة ما فعل بغير دليل شرعي ''اِسے بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا لہٰذا حضرت عمر رضی الله عنہ کے قول کے مطابق یہ بدعتِ لغوی ہے بدعتِ شرعی نہیں ہے کیونکہ بدعتِ شرعی وہ گمراہی ہوتی ہے جو دلیل شرعی کے بغیر سر انجام دی جائے۔''[ابن تيميه، منهاج السنة، 4 : 224]؛
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
امام ابن تیمیہ اپنی کتاب ''منہاج السنۃ'' میں لغوی بدعت اور شرعی بدعت کو واضح کرتے ہوئے ''نعمت البدعۃ ہذہ'' کے ذیل میں بیان کرتے ہیں۔

إنما سماها بدعة لأن ما فعل ابتداء، بدعة لغة، وليس ذلک بدعة شرعية، فإن البدعة الشرعية التي هي ضلالة ما فعل بغير دليل شرعي ''اِسے بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا لہٰذا حضرت عمر رضی الله عنہ کے قول کے مطابق یہ بدعتِ لغوی ہے بدعتِ شرعی نہیں ہے کیونکہ بدعتِ شرعی وہ گمراہی ہوتی ہے جو دلیل شرعی کے بغیر سر انجام دی جائے۔''[ابن تيميه، منهاج السنة، 4 : 224]؛
اِسے بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا
اور بدعت کس چڑیا کا نام ہے ایسی کو تو بدعت کہا جاتا ہےعمل کا ایسا انداز جو پہلے نہ ہوا ہو
جہاں تک بات ہے لغوی اور شرعی بدعت کی تو جب آپ لوگ بدعت کی اقسام حسنہ اور سئیہ کے قائل نہیں جب کہ اس تقسیم کے حضرت عمر قائل ہیں تو پھر بدعت لغوی اور شرعی کو کیوں مانتے ہیں کیا اس وجہ سے کہ ابن تیمیہ اس تقسیم کے قائل ہیں اور یہ ان کا قیاس ہے اور آپ ابن تیمیہ کے مقلد ہیں

حضرت عمر نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ لغوی بدعت ہے بلکہ فرمایا کہ یہ بدعت حسنہ ہے
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
میں اپنی بات کی تردید نہیں کر رہا بلکہ - آپ نے میرے پورے جملے پرغور نہیں کیا - میرے آخری الفاظ یہ تھے " کہ یہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کا یہ اپنا فعل تھا - حکم نہیں تھا - دوسرے معنی میں یہ مستحب تھا کہ تراویح حجرے میں پڑھی جائے - لیکن اگر مسجد میں پڑھی جائے تو اس سے منع نہیں کیا گیا - لہذا حضرت عمر رضی الله عنہ کا فعل بھی اپنی جگہ بلکل صحیح تھا -

گھر یا حجرے میں نوافل پڑھنے میں آپ صل الله علیہ وسلم کا حکم نماز کی افضلیت پر ہے- نا کہ مسجد میں تراویح یا نوافل پڑھنے کی صورت میں نماز باطل ہونے پر ہے - اگر ایسا ہوتا آپ کا فرمان یہ ہوتا کہ جو کوئی تراویح یا نوافل مسجد میں پڑھے گا - وہ قبولیت کے درجے کو نہیں پہنچے گی -
آپ نے فرمایا کہ "اپنے حجرے میں نماز تراویح پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا فعل تھا یہ حکم نہیں تھا "
لیکن نماز تراویح کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم یہی ہے کہ
پس اے لوگو! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو کیونکہ فرض نماز کے سوا انسان کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے۔
صحیح بخاری : حدیث نمبر : 7290
آپ اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیوں صرف نظر فرما رہیں ہیں اور بار بار ایک ہی بات کی تکرار کئے جارہیں کہ نماز تراویح گھر میں پڑھنے کا حکم نہیں دیا
اب آپ اتنا بتادیں کہ جو عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے خلاف ہو کیا وہ بھی قبولیت کے درجے پر پہنچ سکتا ہے ؟؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
آپ نے فرمایا کہ "اپنے حجرے میں نماز تراویح پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا فعل تھا یہ حکم نہیں تھا "
لیکن نماز تراویح کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم یہی ہے کہ
پس اے لوگو! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو کیونکہ فرض نماز کے سوا انسان کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے۔
صحیح بخاری : حدیث نمبر : 7290
آپ اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیوں صرف نظر فرما رہیں ہیں اور بار بار ایک ہی بات کی تکرار کئے جارہیں کہ نماز تراویح گھر میں پڑھنے کا حکم نہیں دیا
اب آپ اتنا بتادیں کہ جو عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے خلاف ہو کیا وہ بھی قبولیت کے درجے پر پہنچ سکتا ہے ؟؟
آپ کیوں نہیں سمجھ رہے کہ یہ حکم کہ گھروں میں نوافل یا تراویح پڑھی جائے صرف لوگوں کو ترغیب دینے کے معنوں میں دیا گیا ہے - نبی کریم صل الله علیہ وسلم کا ایک اور فرمان پیش خدمات ہے -

نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا" اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ ( تلاوت سے آباد رکھو)، جس گھر میں سورة بقرة کی تلاوت ہوتی ہے وہاں شیطان داخل نہیں ہو سکتا۔ [ صحیح مسلم، کتاب الصلاة، حدیث:780 ]
آپ سے سوال ہے کہ اس حدیث کی رو سے تو مسجدوں میں قرآن پڑھنا بھی نا جائز ہونا چاہیے -کیوں کہ اس میں قرآن گھروں میں پڑھنے کا حکم ہے - کیا کہتے ہیں آپ ؟؟؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اِسے بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا
اور بدعت کس چڑیا کا نام ہے ایسی کو تو بدعت کہا جاتا ہےعمل کا ایسا انداز جو پہلے نہ ہوا ہو
جہاں تک بات ہے لغوی اور شرعی بدعت کی تو جب آپ لوگ بدعت کی اقسام حسنہ اور سئیہ کے قائل نہیں جب کہ اس تقسیم کے حضرت عمر قائل ہیں تو پھر بدعت لغوی اور شرعی کو کیوں مانتے ہیں کیا اس وجہ سے کہ ابن تیمیہ اس تقسیم کے قائل ہیں اور یہ ان کا قیاس ہے اور آپ ابن تیمیہ کے مقلد ہیں

حضرت عمر نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ لغوی بدعت ہے بلکہ فرمایا کہ یہ بدعت حسنہ ہے
حضرت عمر رضی الله عنہ کے یہ قول کہ "''نعمت البدعۃ ہذہ'' لغوی معنوں میں ہے - جیسے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ہور مرد وعورت پر علم کا حاصل کرنا فرض ہے (متفق علیہ )- اس حدیث میں علم کے لغوی معنی لئے جائیں تو تمام علوم اس میں شامل ہو جائیں گے - لیکن شرعی طور پر اس علم سے مراد دینی علم ہے اور جس کی فرضیت کا حکم الله کے نبی نے ہر مسلمان مرد و عورت کو دیا-

یہی فرق بدعت شرعی اور لغوی بدعت میں ہے - حضرت عمر رضی الله عنہ کی مراد یہاں بدعت لغوی سے تھی نا کہ بدعت شرعی سے -

ویسے بھی اگر آپ کے نزدیک حضرت عمر رضی الله عنہ بدعت شرعی کے مرتکب ہوے تھے تو حضرت علی رضی الله عنہ جو آپ کی خلافت میں آپ کے مشیر خاص تھے - اور آپ لوگوں کا نزدیک باب العلم تھے -تو انہوں نے حضرت عمر رضی الله عنہ کو اس بدعت سے روکا کیوں نہیں ؟؟؟ اگر ہاتھ سے نہیں تو زبان سے تو برا جان سکتے تھے؟؟ کیا وہ یہ بھی نہیں کر سکے ؟؟ باقی معاملات میں تو وہ حضرت عمر رضی الله عنہ کو اکثر و بیشتر اپنے علمی مشوروں سے نوازتے رہتے تھے -؟؟ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ تو خود حضرت عمر رضی الله عنہ کے جاری کردہ عمل یعنی تراویح پڑھنے والوں میں سے تھے -
کیا کہتے ہیں آپ ؟؟؟
 
Top