• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

" حُبِ الہی، اسباب و علامات " ( خطبہ جمعہ از مسجد نبوی )

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرعبد الباری بن عواض الثبیتی حفظہ اللہ نے 24-جمادی الاولی- 1434کا خطبہ جمعہ " حُبِ الہی، اسباب و علامات " کے عنوان پر دیا،جس میں انہوں نے کہا کہ کسی کا ایمان اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک اسکی تمام تر محبتیں اللہ کے لئے نہ ہو جائیں، پھر انہوں نے محبت کا مفہوم واضح کیا، اور حصولِ محبت کے ذرائع بھی بیان کئے، اور آخر میں بتلایا کہ محبت کی چار اقسام ہیں اور ان میں فرق کرنا ہر ایک پر واجب اور ضروری ہے۔
پہلا خطبہ:
حمد و ثناء اور درود کے بعد!
میں اپنے آپ اور سب سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں جیسے کہ اللہ کا فرمان ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت آئے تو صرف اور صرف اسلام کی حالت میں۔ [آل عمران: 102]
اللہ کی محبت ایمان کے لوازمات میں سے ہے، عقیدہ توحید اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک انسان اپنے رب کو ہر اعتبار سے محبوب نہ بنا لے ، اس سے بڑھ کر محبت کی وضاحت نہیں کی جاسکتی ، کیونکہ اللہ کے سوا کو ئی چیز ایسی نہیں ہے جو انسان کو ہر اعتبار سے محبوب ہو، یہ ہی وجہ ہے کہ الوہیت، اور عبادت کے لائق صرف وہ اکیلا ہی ہے، اور وہی کمال عاجزی انکساری اور محبت کا حقدار ہے۔
اللہ کی محبت کا معاملہ ہی کچھ اور ہے؛ دل کو جتنی اپنے خالق سے ہوتی ہے کسی سے نہیں، اور کیوں نہ ہو!؟ وہی اسکا خالق ، معبود، ولی، مولا، پروردگار، کارساز ، رازق، مارنے اور زندہ کرنے والا ہے، جسکی محبت میں نفسانی شائستگی، روحانی زندگی، دلوں کی غذا، ذہنی سکون، آنکھوں کی ٹھنڈک، اور تعمیرِ باطن ہے۔
قلبِ سلیم ، پاکیزہ ارواح ، اور عقلمندوں کے ہاں اللہ کی محبت، اور اسکی ملاقات سے بڑھ کر کوئی چیز نہ تو انہیں لذت دیتی ہے اور نہ ہی محظوظ کرتی ہے۔
یحیی بن معاذ کہتے ہیں: "اسکی معافی اتنی وسیع ہے کہ تمام گناہوں کو بہا لے جائے ؛تو اسکی رضا کا کیا حال ہوگا!؟ اسکی رضا تمام امیدوں پر غالب آسکتی ہے؛ تو اسکی محبت کا کیا حال ہوگا!؟، اسکی محبت میں عقل دنگ ہے؛ تو اسکی مودت کا کیا حال ہوگا!؟، جبکہ اسکی مودت ہر چیز بھلا دے گی؛ تو اسکی لطافت کا کیا حال ہوگا!؟"
انسان جتنی اللہ کی محبت اکٹھی کریگا اسے اتنی ہی ایمان کی مٹھاس اور لذت ملے گی، اسی لئے جو اپنے دل کو حُبِ الہی میں غرق کر دے؛ اللہ اسے غنی کردیتا ہے، پھر اسے کسی سے ڈرنے یا کسی پر بھروسہ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی ، چنانچہ حُبِ الہی ہی ایک ایسی چیز ہے جو دل کی پیاس بجھا سکے اور اسکے بعد کسی کی اسے ضرورت پیش نہ آئے۔
اگر انسان اپنے دل کیلئے دنیا جہان کی آسائشیں اکٹھی کر لےپھر بھی اسے حقیقی سکون ملے گا تو وہ صرف حُبِ الہی میں ، اگر دل سے اسکا چین و سکون -حب الہی- چھین لیا جائے تو اسے آنکھ ، کان ، زبان کے ضائع ہونے بھی زیادہ تکلیف ہو، بلکہ اگر اس بدن سے روح پرواز کر جائے تواتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا حُبِ الہی سے دل کے عاری ہونے پر ہوتا ہے۔
حقیقتِ محبت کیا ہے؟ محبت اس بات کا نام ہے کہ آپ اپنا سب کچھ اپنے محبوب کے نام پر قربان کردو، اور اپنے لئے کچھ نہ چھوڑو، اسی لئے تو اللہ کی محبت سب محبتوں پر غالب رہتی ہے، تو کامیاب شخص بھی اپنی تمام تر محبتوں کو اپنے رب کی محبت کے تابع رکھتا ہے کہ اسی میں اسکی کامیابی کا راز پنہاں ہے۔
محبت کے سب مدعی آپس میں برابر نہیں ؛ اسی لئے اللہ تعالی نے مؤمنوں کو شدید محبت کرنے والا کہا، فرمایا: وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ جو لوگ ایمان لائے وہ اللہ سے شدید محبت کرتے ہیں[البقرة: 165]
لفظِ أَشَدُّ دعوی محبت میں درجہ بندی کی دلیل ہے، جسکا مطلب ہے: ایک سے بڑھ کر ایک محبت کرنے والا۔
حُبِ الہی : اللہ تعالی کی ذات اور اسکے پسندیدہ اعمال کو اپنی جان ، روح، اور مال پر ترجیح دینے کا نام ہے، جسکا تقاضا ہے کہ خلوت وجلوت ہر حالت میں اسکے فرامین کی پیروی کی جائے، اور یہ بات ذہن میں رہے کہ اسکی محبت میں کوتاہی ہو رہی ہے، دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ : ہمہ وقت اپنے آپ کو محبوب کی یاد میں مشغول کر دیں، اس پر اپنی جان نچھاور کردیں، اور دل میں محبوب کی چاہت کے علاوہ اور کچھ نہ ہو، زبان ہمیشہ اسی کی یاد سے تر رہے، اسی لئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگی: «وأسألُك حبَّك، وحبَّ من يُحبُّك، وحبَّ عملٍ يُقرِّبُ إلى حُبِّك» یا اللہ! تجھ سے محبت کا سوال کرتا ہوں، اور تیرے محبوب کی محبت کا ، اور ہر ایسے عمل کی محبت کا جو تیری محبت کے قریب تر کر دے۔
مُحِب کے دل میں محبت شدت اختیار کر جائے تو یہ (وَلَہ ) "دیوانہ پن" میں تبدیل ہو جاتی ہے، اسی صفت سے متصف ہو کر اللہ کی عبادت کرنا ہی حُبِ الہی اور حُبِ شریعت کا اعلی درجہ ہے، اس "محبت "کی "غذا "سے زیادہ لوگوں کو ضرورت ہے، کیونکہ غذا کی عدم دستیابی سے جسم کو نقصان ہوگا، جبکہ حُبِ الہی کی عدم موجودگی میں روح برباد ہو جائے گی جو زیادہ نقصان دہ ہے۔
مؤمن اپنے رب کو پہچان لے تو اس سے محبت کرنے لگتاہے ، جب محبت ہو جائے تو اسکی جانب متوجہ رہنے کی کوشش کرتا ہے، اور جب اسے چاشنی اور لذت ملنے لگے تو دنیا کو شہوت کی نگاہ سے اور آخرت کو کاہلی اور سستی کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔
حُبِ الہی انسان کو اسکے ذمہ واجب کام کرنے اور تمام ممنوعہ کاموں سے دور رہنے پر ابھارتی ہے، اور اس سے بڑھ کر مستحبات پر ترغیب ، اور مکروہات سے انسان کو دور رکھتی ہے۔
حُبِ الہی انسانی دل کو حلاوتِ ایمان سے بھر دیتی ہے، فرمانِ رسالت ہے: (جو شخص اللہ کو رب مانے، اسلام کو اپنا دین جانے، محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- کو اپنا رسول مانے تو اس نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا)
حقیقی حُبِ الہی دل سے اللہ کی تمام نا فرمانیوں کو باہر نکال کر انسانی جسم کو اطاعت پر مجبور کر دیتی ہے، جس سے نفس مطمئن ہو جاتا ہے، حدیث قدسی ہے (جب میں کسی بندے سے محبت کرنے لگوں تو میں اسکے کان، آنکھ ، ہاتھ، اور پاؤں کو اپنےکنٹرول میں کر لیتا ہوں)
محبت کی لذت سے انسان آنیوالی تمام مصیبتوں کو بھول جاتا ہے، اور دوسروں کی طرح اسے تکلیف بھی نہیں ہوتی، اسی لئے حُبِ الہی گناہوں سے بچنے کیلئے انتہائی مضبوط ترین ڈھال ہے، کیونکہ ہر کوئی اپنے محبوب کی بات مانتا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ دل میں جتنی مضبوط محبت ہوگی انسان اتنی ہی اللہ کی اطاعت کریگا اور نافرمانی سے بچے گا، اور جیسے جیسے محبت کمزور پڑتی جائے گی؛ نافرمانیوں کی گرفت مضبوط ہو جائے گی۔
سچے مُحِب پر اللہ کی جانب سے ایک نگہبان مقرر کیا جاتا ہے جو اسکے دل و اعضاء کی نگرانی کرتا ہے، جبکہ خالی دعوں کی محبت اسوقت تک ان سہولیات سے عاری ہوتی ہے، جب تک وہ محبت میں سچا نہ ہو جائے، چنانچہ جیسے ہی محبت میں سچائی پیدا ہو تو انسان برائیوں سے دور رہتے ہوئے اطاعت گزاری کرتا ہے، جبکہ جھوٹی محبت سے انسان اپنے تئیں تو بڑا خوش باش نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں اسکے اثرات سے بالکل عاری ہوتا ہے، اس لئے انسان کبھی اپنے دل میں اللہ کی محبت تو پاتا ہے لیکن یہ محبت اسے برائیوں سے نہیں روک پاتی۔
اسکی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ محبت میں سچائی نہیں، اللہ کی تعظیم اور جلالت اس میں شامل نہیں، جبکہ محبت کے ساتھ ساتھ اللہ کی عظمت اور جلالت مل جائے تو یہ اللہ کی بہت بڑی اور افضل ترین نعمت ہے ، وہ جسے چاہے یہ نعمت عنائت فرماتاہے۔
جب محبت عاجزی ، انکساری سے عاری ہوتو وہ صرف زبانی جمع خرچ ہے؛ جسکی کوئی وقعت نہیں، یہی حال ہے ان محبت کے دعوے داروں کا جو اپنے دعوے کے مطابق اللہ کے احکامات کی پاسداری نہیں کرتے، اور نہ ہی اپنی زندگی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین ، اور سنت کے مطابق ڈھالتے ہیں۔
لہذا جس شخص نے اپنی زندگی میں آئیڈیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نا بنایا ؛ اس نے اللہ سے محبت ہی نہیں کی، اس طرح تو یہود و نصاری دعوے کیا کرتے تھے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ یہودیوں اور عیسائیوں نے کہا کہ ہم اللہ کے بیٹے اور محبوب ہیں [المائدة: 18]
دعوی کرنے میں تو ہر کوئی شیر ہے، جبکہ اللہ تعالی نے ان تمام زبانی دعوں کی جڑ اکھیڑ کر رکھ دی ، اور سب پر حقیقت عیاں کردی فرمایا: قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ آپ کہہ دیجئے: کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ خود تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے [آل عمران: 31]

محبت ِ الہی کی علامت یہ ہے کہ ، اسکے نیک بندوں سے محبت کی جائے ، اولیاء اللہ سے تعلق قائم کیا جائے، بدکاروں سے دوری اختیار کی جائے، فرائض کی ادائیگی میں مکمل جد و جہد کی جائے، اللہ کے دین کی مدد کرنیوالوں کا ہاتھ بٹایا جائے، جس قدر دل میں حُبِ الہی کی جڑیں مضبوط ہونگی یہ کام بھی اسی قدر زیادہ ہونگے۔


یہاں ہمیں غور کرنا چاہئے کہ وہ کونسے اسباب ہیں جو اللہ کی محبت دل میں پیدا کرتے ہیں؟
1) سب سے پہلے اللہ کی لا تعداد و بے شمار انعام کردہ نعمتوں کو جانیں، فرمانِ باری تعالی ہے : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا اور اگر تم اللہ کی نعمتیں گننا [١٩] چاہو تو کبھی ان کا حساب نہ رکھ سکو گے [النحل: 18]، وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ اور لوگوں سے ایسے ہی احسان کرو جیسے اللہ تمہارے ساتھ بھلائی کی ہے [القصص: 77]
2) اللہ کے اسماء و صفات کے بارے میں علم حاصل کیا جائے؛ جس نے اللہ کو پہچان لیا اس نے محبت شروع کردی، اور جو محبت شروع کر دے اسکی اطاعت بھی کریگا، اور جواسکی اطاعت کرے اس پر اپنی کرم نوازی بھی کریگا، اور جس پر کرم نوازی ہوگئی ؛ اسے اپنے قریب جگہ دے گا، اور جسے اللہ کے قریب جگہ مل جائے اسکے تو وارے نیارے ہونگے۔
3) اہم ترین سبب یہ ہے کہ اللہ کی آسمان و زمین پر بادشاہت اور ان میں موجود مخلوقات وغیرہ پر غور و فکر کیا جائے جنہیں اللہ تعالی نے اپنی قدرت، جلالت،کمال ، کبرئیائی، رحمت و لطافت کی نشانی بنایا ہے، غور و فکر کے باعث جتنا معرفتِ الہی میں اضافہ ہوگا؛ اسی قدر محبت سے بھرپور اطاعت میں بھی اضافہ ہوگا۔
4) اسی طرح اگر اللہ کے ساتھ تعلق مکمل سچائی اور اخلاص پر مبنی ہو اور نفسانی خواہشات انسان کی راہنما نہ ہوں تو اللہ کی محبت حاصل ہو سکتی ہے۔
5) کثرت سے ذکرِ الہی میں مشغول رہنے سے بھی اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے، کیونکہ محبوب کی یاد محبت کی علامت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ غور سے سنو! اللہ کی یاد سے دلوں کو سکون ملتا ہے[الرعد: 28]

اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔


دوسرا خطبہ:
حمدوشکر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے بعد!
میں اپنے نفس کو اور آپ سب سامعین کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور بات صاف سیدھی کیا کرو [70] (اس طرح) اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو درست کردے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کا کہا مان لیا اس نے بڑی کامیابی حاصل کر لی[الأحزاب: 70، 71]


اسلامی بھائیو! یہاں محبت کی چار اقسام میں فرق کرنا انتہائی ضروری ہے:
1) "محبة الله" اللہ کی محبت: اللہ کے عذاب سے بچنے کیلئے یہ کافی نہیں، کیونکہ مشرک، صلیب کے پجاری، اور یہودی وغیرہ بھی اللہ سے محبت کرتے ہیں۔
2) "محبة ما يحبه الله" اللہ کی پسندیدہ اشیاء سے محبت: محبت کی یہ ہی وہ قسم ہے جس سے انسان کفر سے نکل کر اسلام میں داخل ہوتا، اللہ تعالی کے ہاں محبت کی اس قسم والے لوگ ہی مقرب ہیں۔
3) "الحب في الله ولله" اللہ کیلئے محبت کرنا: یہ دوسری قسم کے لوازمات میں سے ہے ، اسی لئے جب تک اللہ کیلئے محبت نہ کی جائے تو دوسری قسم کسی صورت میں مکمل نہیں ہوسکتی۔
4) "محبة مع الله"اللہ کے ساتھ ساتھ کسی اور سے بھی محبت کرنا: یہ شرکیہ محبت ہے، چنانچہ کسی نے اگر اللہ کے ساتھ کسی اور سے بھی محبت کی اور وہ گذشتہ دوسری اور تیسری سے تعلق نہیں رکھتی ؛ تو ایسے شخص نے غیر اللہ کو اللہ کا ہمسر بنایا ہے ، اور یہ ہی مشرکین کا اندازِ محبت تھا، جن کے بارے میں فرمایا: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ کچھ لوگ ایسے ہیں جو غیر اللہ کو اس کا شریک بناتے ہیں۔ وہ ان شریکوں کو یوں محبوب رکھتے ہیں۔ جیسے اللہ کو رکھنا چاہیے اور جو ایماندار ہیں وہ تو سب سے زیادہ اللہ ہی سے محبت رکھتے ہیں [البقرة: 165]

اللہ کے بندو! رسولِ ہدایت پر درود و سلام بھیجو جیسے کہ اللہ نے اپنی کتاب میں اسکا حکم دیا ، إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔[الأحزاب: 56].
یا اللہ اپنے حبیب محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- آپکی ازواج مطہرات اور آل پر ایسے رحمت نازل فرما جیسے توں نے ابراہیم پر نازل کی، یقینا تو قابل تعریف اور بزرگی والا ہے، یا اللہ اپنے حبیب محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- آپکی ازواج مطہرات اور آل میں ایسے برکت فرما جیسے توں نے ابراہیم میں کی، یقینا تو قابل تعریف اور بزرگی والا ہے،
اے اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، اے اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، اے اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما،یا اللہ شرک اور مشروں کو ذلیل فرما، اے اللہ کفر اور کافروں کو ذلیل فرما، اے اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، اے اللہ !اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو امن کا گہوارہ بنادے۔

یا اللہ! ہمارے شامی بھائیوں پر تکالیف کے انبار ٹوٹ پڑے ہیں جنہیں تو ہٹانے پر قادر ہے، یا اللہ! ان سے آزمائش اور تکلیف کو ختم فرما، یا اللہ انکی صفوں میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ رب العالمین! انکی تائید، مدد فرما، اور پشت پناہی فرما، یا اللہ! انکی صفوں میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ انکے نشانے درست فرما، یا اللہ ! انکی اپنے اور تیرے دشمنوں کے خلاف مدد فرما۔
یا اللہ! انکے دشمن پر اپنی گرفت فرما، یا اللہ رب العالمین! شامی ظالم اور اسکے چیلوں پر اپنی گرفت فرما، یا اللہ ! ان میں انتشار پھیلا دے، یا اللہ !انہیں تتر بتر کر دے، یا اللہ یا قوی ، یا عزیز! تباہی و بربادی انکا مقدر بنا دے۔
اے اللہ ! قرآن کو نازل کرنے والے، بادلوں کو چلانے والے، لشکرو کو شکست خوردہ کرنے والے، ان کے وشمن کو شکستِ فاش دے، اور انہیں غالب فرما، یا اللہ ملک شام میں ہمارے بھائیوں کی مدد فرما، یا اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ ہمارے شامی بھائیوں کے پاس کپڑے نہیں؛ انہیں عطا فرما، کھانے کو نہیں ؛ انہیں کھلا، یا اللہ! پاؤن سے ننگے ہیں انہیں پہنا، مظلوم ہیں انکا بدلہ لے، یا اللہ وہ مظلوم ہیں انکا بدلہ لے، یا اللہ وہ مظلوم ہیں انکا بدلہ لے، یا اللہ وہ مظلوم ہیں انکا بدلہ لے، یا قویِ، یا جبار، تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ ہماری دعا قبول فرما، یا اللہ ہماری دعا قبول فرما، یا اللہ ہماری دعا قبول فرما۔
یا ہم تجھ سے جنت مانگتے ہیں، اور ہمیں ہر ایسے قول و فعل کی توفیق دے جو ہمیں جنت کے قریب کر دے، یا اللہ ہم جہنم کی آگ سے تیری پناہ چاہتے ہیں، اور ہر ایسے قول و فعل سے بھی جو ہمیں جہنم کے قریب کرے۔
یا اللہ ہماری دینی اصلاح فرما تبھی ہم برائیوں سے دور رہ سکتے ہیں، اور ہماری دنیا بھی اچھی بنادے اسی میں ہماری معیشت ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی کر دے کہ وہیں ہم نے لوٹ کر جانا ہے، ہماری زندگیوں کو نیکیوں میں زیادتی کا باعث بنادے، اور موت کو ہر شر سے بچاؤ کا ذریعہ بنادے ۔
یا اللہ ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ کر، یا اللہ ہمیں غلبہ عنائت فرما، ہم پر کسی کو غالب نہ کرنا، یا اللہ! ہمارے حق میں تدبیر فرما ہمارے خلاف نہ ہو، یا اللہ ہمیں ہدایت نصیب فرما، یا اللہ ہم پر ظلم کرنے والوں کے خلاف ہماری مدد فرما،
یا اللہ ہمیں تیرا ذکر کرنے والا بنا، تیرا شکر گزار بنا، تیرے لئے مٹنے والا بنا، تیری ہی جانب لوٹنے والا اور رجوع کرنے والا بنا۔
یا اللہ ہماری توبہ قبول فرما، ہماری دعاؤں کو قبول فرما، اور ہمارے سینے کی تمام بیماریوں کو ختم کردے۔
یا اللہ! غمگین مسلمانوں کی غم کشائی فرما، تکلیف زدہ لوگوں کی تکالیف ختم فرما، مقروض لوگوں کے قرض ادا فرما، اور تمام مسلمان بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! تمام مسلم فوت شدگان کی مغفرت فرما۔
یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنی راہنمائی کے مطابق توفیق دے، اس کے تمام کام اپنی رضا کیلئے بنا لے، اور اسے تندرستی بھی نصیب فرما، اے اللہ ! تو ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ رب العالمین! تمام مسلم حکمرانوں کی شریعت نافذ کرنے کی توفیق دے،
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ اے ہمارے پروردگا ر! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں, ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے, اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے [الحشر: 10] رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے [الأعراف: 23]، رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی, اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔[البقرة: 201].

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو [النحل: 90]
تم اللہ کو یاد رکھو وہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو اور زیادہ دے گا ،یقینا اللہ ذکر بہت بڑی چیز ہے ، اللہ جانتا ہے جو بھی تم کرتے ہو۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
کلیم حیدرمحمد ارسلان بھائی اگر وقت ہے تو اس کی فارمیٹنگ وغیرہ کرکے پوسٹ کردیں ۔
اصل میں میرے پاس نیٹ کی سپیڈ کافی کم ہوجاتی ہے بعض دفعہ ۔۔ کافی وقت صرف کرکے اس کی کچھ نہ کچھ فارمیٹنگ وغیرہ کرکے پوسٹ کرنا چاہا تو انگریزی کے کافی سارے الفاظ کا ساتھ ساتھ اضافہ ہوگیا ۔
سب کچھ ختم کرکے صرف کاپی پیسٹ کردیا ہے ۔

آج میں نے آسانی کے لیے ایڈیٹر کا ویسونگ موڈ کیا تھا شاید اس وجہ سے کوئی خرابی پیدا ہوئی ہے ۔ اللہ بہتر جانتا ہے ۔
ویسے میرے پاس کافی دنوں سے ڈیفالٹ ایڈیٹر میں یہ پریشانی ہے کہ کسی بھی چیز کو کاپی پیسٹ یا اس کی فارمیٹنگ میں کوئی خاص بٹن دبانے کے کافی دیر بعد کوئی نتیجہ نکلتا ہے ۔
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جزاک اللہ خیرا

ٹھیک ہے خضر بھائی میں فہرست سے سیٹنگ کر دوں گا ان شاءاللہ
ارسلان بھائی سبقت لے گئے۔

عن عبدالله بن عباس رضي الله عنهما أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال : (عُرضت علي الأمم، فرأيت النبي ومعه الرهيط، والنبي ومعه الرجل والرجلان، والنبي وليس معه أحد، إذ رفع لي سواد عظيم فظننتُ أنهم أمتي، فقيل لي هذا موسى وقومه، ولكن انظر إلى الأفق، فنظرتُ فإذا سواد عظيم، فقيل لي انظر إلى الأفق الآخر، فإذا سوادٌ عظيم، فقيل: لي هذه أمتك ومعهم سبعون ألفاً يدخلون الجنة بغير حساب ولا عذاب، ثم نهض فدخل منزله )، فخاض الناس في أولئك الذين يدخلون الجنة بغير حساب ولا عذاب، فقال بعضهم: فلعلهم الذين صحبوا رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، وقال بعضهم: فلعلهم الذين وُلدوا في الإسلام فلم يشركوا بالله، وذكروا أشياء، فخرج عليهم رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: (ما الذي تخوضون فيه؟) فأخبروه فقال: (هم الذي لا يسترقون ولا يتطيرون وعلى ربهم يتوكّلون) ، فقام عكاشة بن محصن رضي الله عنه فقال: ادع الله لي أن يجعلني منهم، فقال: (أنت منهم) ، ثم قام رجل آخر فقال: ادع الله أن يجعلني منهم، فقال: (سبقك بها عكاشة) متفق عليه واللفظ للبخاري .
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ارسلان بھائی سبقت لے گئے۔

عن عبدالله بن عباس رضي الله عنهما أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال : (عُرضت علي الأمم، فرأيت النبي ومعه الرهيط، والنبي ومعه الرجل والرجلان، والنبي وليس معه أحد، إذ رفع لي سواد عظيم فظننتُ أنهم أمتي، فقيل لي هذا موسى وقومه، ولكن انظر إلى الأفق، فنظرتُ فإذا سواد عظيم، فقيل لي انظر إلى الأفق الآخر، فإذا سوادٌ عظيم، فقيل: لي هذه أمتك ومعهم سبعون ألفاً يدخلون الجنة بغير حساب ولا عذاب، ثم نهض فدخل منزله )، فخاض الناس في أولئك الذين يدخلون الجنة بغير حساب ولا عذاب، فقال بعضهم: فلعلهم الذين صحبوا رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، وقال بعضهم: فلعلهم الذين وُلدوا في الإسلام فلم يشركوا بالله، وذكروا أشياء، فخرج عليهم رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: (ما الذي تخوضون فيه؟) فأخبروه فقال: (هم الذي لا يسترقون ولا يتطيرون وعلى ربهم يتوكّلون) ، فقام عكاشة بن محصن رضي الله عنه فقال: ادع الله لي أن يجعلني منهم، فقال: (أنت منهم) ، ثم قام رجل آخر فقال: ادع الله أن يجعلني منهم، فقال: (سبقك بها عكاشة) متفق عليه واللفظ للبخاري .
جزاک اللہ خیرا
جزاک اللہ خیرا

ٹھیک ہے خضر بھائی میں فہرست سے سیٹنگ کر دوں گا ان شاءاللہ
پوسٹ کی فارمیٹنگ کردی گئی ہے۔بحمد اللہ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جزاکم اللہ خیرا ۔۔۔۔ و زوجک اللہ بکرا ۔۔۔
آمین یا اللہ رب العالمین
آمین یا اللہ رب العالمین
آمین یا اللہ رب العالمین
آمین یا اللہ رب العالمین
آمین یا اللہ رب العالمین
آمین یا اللہ رب العالمین
آمین یا اللہ رب العالمین
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
آمین یا اللہ رب العالمین
آمین یا اللہ رب العالمین
آمین یا اللہ رب العالمین
آمین یا اللہ رب العالمین
آمین یا اللہ رب العالمین
آمین یا اللہ رب العالمین
آمین یا اللہ رب العالمین
سات دفعہ آمین کہا آپ نے اگر یہ سب دعائیں قبول ہوگئیں تو ؟
ابتسامہ ۔۔۔
 
Top