مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,391
- ری ایکشن اسکور
- 453
- پوائنٹ
- 209
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دوکاندار غلطی سے خریدار کو زیادہ پیسہ دے دیتا ہے ، اگرخریدار ایماندار آدمی رہا تو زائدپیسہ واپس کردیتا ہے ورنہ اسے مال مفت سمجھ کر جیب میں رکھ لیتا ہے ۔ یاد رکھیں اگر ہم نے کسی کاناحق مال کاکھایا تواس کا حساب آخرت میں دینا پڑے گا ۔ اللہ تعالی حقوق العباد معاف نہیں کرتا وہ ظالم کی نیکی لیکر مظلوم کو دے دیتا ہے۔
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام سے پوچھا : تم میں مفلس کون ہے؟ صحابہ نے کہا : جس کے پاس درہم و دینار نہ ہوں وہ مفلس ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
«المُفلِسُ من أمتي: من يأتي بصلاةٍ وصيامٍ وزكاةٍ، ويأتي وقد شتمَ هذا، وقذفَ هذا، وضربَ هذا، وسفكَ دمَ هذا، وأخذَ مالَ هذا، فيأخُذ هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنِيَت حسناتُه قبل أن يُقضَى ما عليه أُخِذ من خطاياهم فطُرِحَت عليه ثم طُرِح في النار»
ترجمہ:میری امت کا مفلس وہ ہے جو(روز قیامت) نماز، روزے اور زکوٰۃ کے ساتھ آئے گا۔ اور اس حالت میں آئے گا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی کی چوری کی ہوگی، کسی کو مارا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا، کسی کا مال کھایا ہوگا۔ تو اس کی نیکیاں ان کو دے دی جائیں گی۔ اور اگر ان کا معاملہ پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان کی برائیاں اس کے حصہ میں ڈال دی جائیں گی اور پھر جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ خریدار ہی دوکاندار کو بھول کر زیادہ پیسہ دے کر چلا جاتا ہے ۔ ایسی صورت میں دوکاندار زائد پیسہ الگ سے محفوظ کرکے بطور امانت اپنے پاس رکھ لے اور جلد بازی نہ کرے بلکہ ایک مدت تک صاحب مال کی آمد کا انتظار کرے ، واپس آنے پہ اس کی امانت لوٹادے ۔ ایک مدت تک انتظار کے بعد بھی وہ خریدار واپس نہیں آیا تو اس پیسہ کو خریدار کی طرف سے صدقہ کردے ، اس کے حق میں صدقہ ہوجائے گا ۔صدقہ کے بعد اگر کبھی واپس آجائے تو آپ اسے بتلائیں کہ میں نے صدقہ کردیا ، اس نے قبول کرلیا تو ٹھیک اسے صدقہ کا اجر ملے گا ،اور اگر صدقہ قبول نہیں کیابلکہ اپنے حق کا مطالبہ کیا تو آپ اسے اس کا حق واپس کردیں ، پہلے کیا ہوا صدقے کا اجر آپ کو ملے گا۔ اللہ کا فضل بہت وسيع ہے۔
واللہ اعلم
کتبہ
مقبول احمد سلفی
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام سے پوچھا : تم میں مفلس کون ہے؟ صحابہ نے کہا : جس کے پاس درہم و دینار نہ ہوں وہ مفلس ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
«المُفلِسُ من أمتي: من يأتي بصلاةٍ وصيامٍ وزكاةٍ، ويأتي وقد شتمَ هذا، وقذفَ هذا، وضربَ هذا، وسفكَ دمَ هذا، وأخذَ مالَ هذا، فيأخُذ هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنِيَت حسناتُه قبل أن يُقضَى ما عليه أُخِذ من خطاياهم فطُرِحَت عليه ثم طُرِح في النار»
ترجمہ:میری امت کا مفلس وہ ہے جو(روز قیامت) نماز، روزے اور زکوٰۃ کے ساتھ آئے گا۔ اور اس حالت میں آئے گا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی کی چوری کی ہوگی، کسی کو مارا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا، کسی کا مال کھایا ہوگا۔ تو اس کی نیکیاں ان کو دے دی جائیں گی۔ اور اگر ان کا معاملہ پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان کی برائیاں اس کے حصہ میں ڈال دی جائیں گی اور پھر جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ خریدار ہی دوکاندار کو بھول کر زیادہ پیسہ دے کر چلا جاتا ہے ۔ ایسی صورت میں دوکاندار زائد پیسہ الگ سے محفوظ کرکے بطور امانت اپنے پاس رکھ لے اور جلد بازی نہ کرے بلکہ ایک مدت تک صاحب مال کی آمد کا انتظار کرے ، واپس آنے پہ اس کی امانت لوٹادے ۔ ایک مدت تک انتظار کے بعد بھی وہ خریدار واپس نہیں آیا تو اس پیسہ کو خریدار کی طرف سے صدقہ کردے ، اس کے حق میں صدقہ ہوجائے گا ۔صدقہ کے بعد اگر کبھی واپس آجائے تو آپ اسے بتلائیں کہ میں نے صدقہ کردیا ، اس نے قبول کرلیا تو ٹھیک اسے صدقہ کا اجر ملے گا ،اور اگر صدقہ قبول نہیں کیابلکہ اپنے حق کا مطالبہ کیا تو آپ اسے اس کا حق واپس کردیں ، پہلے کیا ہوا صدقے کا اجر آپ کو ملے گا۔ اللہ کا فضل بہت وسيع ہے۔
واللہ اعلم
کتبہ
مقبول احمد سلفی