• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خوارج کے بارے میں حکم؟

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ حَتَّی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ، قَالَهَا ثَلَاثًا. شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ. قَالَهَا ثَلَاثًا.

1. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 421، رقم: 19798
2. ابن ابی شيبة، المصنف، 7: 559، رقم: 37917
3. رويانی، المسند، 2: 26، رقم: 766

’’یہ خوارج ہمیشہ نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ (دجال کے ساتھ) نکلے گا جب تم (میدانِ جنگ میں) ان کو دیکھو تو انہیں قتل کر دو۔ وہ تمام مخلوق سے بدترین لوگ ہیں۔ مزید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ الفاظ تین مرتبہ ارشاد فرمائے۔‘‘

امام حاکم کی روایت کردہ حدیث میں ہے:

لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ حَتَّی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ. قَالَهَا حَمَّادٌ ثَلَاثًا هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ قَالَهَا حَمَّادٌ ثَلَاثًا. وَقَالَ: قَالَ أَيْضًا: لَا يَرْجِعُوْنَ فِيْهِ.

1. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 2: 160، رقم: 2647
2. هيثمی، مجمع الزوائد، 6: 229

’’خوارج کے یہ گروہ مسلسل پیدا ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ (دجال کے ساتھ) نکلے گا۔ جب تم (میدانِ جنگ میں) ان سے سامنا کرو تو انہیں قتل کر دو۔ (اس حدیث کے ایک راوی) حماد بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ الفاظ تین مرتبہ ارشاد فرمائے: ’’وہ تمام مخلوق سے بدترین ہیں۔‘‘ حضرت حماد بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ الفاظ تین مرتبہ ارشاد فرمائے۔ اور حضرت حماد بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ وہ اپنے عقائد و نظریات سے رجوع نہیں کریں گے۔‘‘

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی تصریح فرما دی ہے کہ قیامت تک اِس طرح کے مسلح اور باغی گروہ مسلمانوں کی ریاستوں اور معاشروں میں نکلتے رہیں گے۔ لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ کا واضح معنی یہ ہے کہ وہ سارے گروہ خوارج ہی ہوں گے اور یہ بغیر انقطاع کے تسلسل کے ساتھ پیدا ہوتے رہیں گے حتی کہ ان کا آخری گروہ قیامت سے قبل دجال کے ساتھ نکلے گا۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ واضح کرتے ہیں کہ : خوارج کا وجود ہر دور میں رہا ہے اور یہ آج بھی موجود ہیں اور قیامت تک ظاہر ہوتے رہیں گےمگر لوگوں کو ان کی پہچان نہیں ہے۔۔
ابن تيميہ، النبوات: 222
خوارج:
سیاہ رو اور دین سے نکل جانے والےہیں۔

اللہ تعالی سورۃ آل عمران میں فرماتے ہیں:
يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ ج فَاَمَّا الَّذِيْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْهُهُمْ قف اَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِکُمْ فَذُوقُوا العَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَo
آل عمران، 3 : 106
’’جس دن کئی چہرے سفید ہوں گے اور کئی چہرے سیاہ ہوں گے، تو جن کے چہرے سیاہ ہوں گے (ان سے کہا جائے گا ) کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا؟ تو جو کفر تم کرتے رہے تھے سو اس کے عذاب (کا مزہ) چکھ لوo‘‘

امام ابنِ ابی حاتم رحمہ اللہ :
آیتِ مذکورہ کے ذیل میں یہ حدیث روایت کرتے ہیں :
عَنْ أَبِی أُمَامَةَ عَنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَّهُمُ الْخَوَارِجُ.
ابن أبي حاتم، تفسير القرآن العظيم، 2 : 594

’’سیدناابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اس (آیت میں ایمان لانے کے بعد کافر ہو جانے والوں) سے ’’خوارج‘‘ مراد ہیں۔‘‘

2۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ :
آیت مذکورہ کے تحت اس سے خوارج ہی مراد لیتے ہیں.
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 347

3۔ امام سیوطی رحمہ اللہ:
انہوں نے بھی اس آیت میں مذکور لوگوں سے ’’خوارج‘‘ ہی مراد لئے ہیں۔
سيوطی، الدر المنثور، 2 : 148
اس حدیث کی تخریج درکار ہے -

لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ حَتَّی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ، قَالَهَا ثَلَاثًا. شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ. قَالَهَا ثَلَاثًا.

دوسری طرف امام تیمیہ فرما رہے ہیں کہ
شیخ الاسلام رحمہ اللہ واضح کرتے ہیں کہ : خوارج کا وجود ہر دور میں رہا ہے اور یہ آج بھی موجود ہیں اور قیامت تک ظاہر ہوتے رہیں گے مگر لوگوں کو ان کی پہچان نہیں ہے۔۔

ان تمام روایات کا جائزہ لیا جائے تو یہ ظاہر ہوتی ہے خوارج وہ ہیں کہ جو اسلامی حکومت جو "خلافت "کے طور پر قائم ہوئی ہو جس میں امام جو کہ خلیفہ وقت کہلاتا ہے اس کے خلاف خروج کرنے بنا پراسلام سے خارج ہو جائیں گے -

جیسا کہ خضربھائی نے بھی وضاحت کی ہے کہ "خوارج ’’ خروج علی الإمام ‘‘ سے ہیں" اور اسلامی حکومت میں امام خلیفہ وقت کو کہا جاتا ہے- فلوقت دنیا میں صدیوں سے خلافت کا کوئی وجود نہیں ہے - اور نام نہاد مسلم ممالک میں کفریہ نظام جمہوریت قائم ہے - ایسی صورت میں ان کافر حکمرانوں کے خلاف جہاد یا خروج مسلمانوں میں اپنی استطاعت کے مطابق نہ صرف جائز ہے بلکہ واجب ہے -

اگر حدیث رسول خوارج کے قتل کو مباح قرار دیا گیا ہے تو اسی طرح حدیث رسول میں کافر حاکم کے قتل کی استثنائی حکم بھی ثابت ہے- ملاحظه فرمائیں یہ حدیث -

خِیَارُ اَءِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تُحِبُّوْنَھُمْ وَیُحِبُّوْنَکُمْ وَتُصَّلُّوْنَ عَلَیْھِمْ وَیُصَلُّوْنَ عَلَیْکُمْ وَشِرَارُ اَءِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تُبْغِضُوْنَھُمْ وَیُبْغِضُوْنَکُمْ وَتَلْعَنُوْنَھُمْ وَیَلْعَنُوْنَکُمْ فَقُلْنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَفَلَا نُنَابِذُھُمْ بِالسَّیْفِ عِنْدَ ذٰلِکَ قَالَ لَا مَا اَقَامُوْا فِیْکُمُ الصَّلٰوۃَ اَلَامَنْ وُلِّیَ عَلَیْہِ وَالٍ فَرَاٰہُ یَاْتِیْ شَیْءًا مِّنْ مَّعْصِیَۃِ اللّٰہِ فَلْیَکْرَہْ مَا یَاْتِیْ مِنْ مَّعْصِیَۃِ اللّٰہِ وَلَا یَنْزَعَنَّ یَدًا مِنْ طَاعَۃٍ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب خیار الائمہ وشرارھم) تمھارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں اور جن کے لیے تم دعا کرو اور وہ تمھارے لیے دعا کریں، اور تمھارے بدترین حکمران وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں اور تم ان پر لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت بھیجیں۔ ہم نے پوچھا کہ یارسولؐ اللہ کیا ایسی حالت میں ہم تلوار کے ذریعے ان کا مقابلہ نہ کریں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، جب تک وہ تمھارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں اس وقت تک تم ان کے خلاف تلوار نہیں اُٹھا سکتے۔ سنو! جس شخص پر کوئی حکمران حکومت کر رہا ہو اور وہ اس میں اللہ کی نافرمانی دیکھے تو اللہ کی اس معصیت کو تو بُرا سمجھے (اور اس میں اس کی اطاعت بھی نہ کرے) لیکن معروف میں اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے''، ۔

دعانا النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فبایعناہ فقال فیما أخذ علینا أن بایعنا علی السمع والطاعۃ فی منشطنا ومکرہنا و عسرنا ویسرنا واثرۃ علینا وأن لا ننازع الأمر أہلہ إلا أن تروا کفرًا بواحًا عندکم من اللّٰہ فیہ برہان.(بخاری،رقم ۶۵۳۲)
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بلایا اور ہم سے جن باتوں پر بیعت لی، ان میں یہ بھی تھا کہ حالات نرم ہوں یا جابرانہ، تنگی ہو یا فراخی اور دوسروں کو ہم پر ترجیح ہی کیوں نہ دی جائے، ہم ہر حال میں (اپنے حکمران کی) سمع و طاعت پر قائم رہیں گے اور ان سے اقتدار چھیننے کی کوشش نہ کریں گے، الاّ یہ کہ تم ان کی طرف سے ایسا ’’کفر بواح‘‘ دیکھو جس کے خلاف تمھارے پاس اللہ کی واضح حجت موجود ہو۔‘‘


نماز چونکہ مومن کی پہچان اور ایمان کی علامت ہے، اس لیے فرمایا کہ جب تک وہ نماز قائم کرتے رہیں تو تم ان کے خلاف تلوار نہ اٹھاؤ۔ دوسری حدیث میں آیا ہے کہ جب تک تم ان کے اندر ایسا کھلا کفر نہ دیکھو جس کے کفر ہونے پر تمھارے پاس قطعی دلیل موجود ہو، اس وقت تک تم ان سے جھگڑا نہ کرو۔(بخاری ، کتاب الفتن، مسلم، کتاب الامارۃ)

جب کہ یہ جمہوری حکمران نہ تو ملک میں نماز قائم کرتے ہیں -اور کئی معاملات میں کفر بواح (کھلے کفر) کے مرتکب بھی ہیں -ان کفریہ امور میں سودی نظام کو قائم رکھنا یہود و نصاریٰ سے اپنے مذموم مفادات کی خاطر دوستی کرنا- ملک میں شرک و بدعت کے اڈے قائم کرنا- معصوم مسلمانوں کو قتل کروا کر الزام جہادی تنظیموں پر لگا دینا - کفریہ جمہوری نظام کی ترویج کرنا - شریعت کےاحکامات کا مذاق اڑانا وغیرہ شامل ہیں -


جیسا کہ آپ کی پیش کردہ حدیث میں ہے کہ
امام ابنِ ابی حاتم رحمہ اللہ :
آیتِ مذکورہ کے ذیل میں یہ حدیث روایت کرتے ہیں :
عَنْ أَبِی أُمَامَةَ عَنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَّهُمُ الْخَوَارِجُ.
ابن أبي حاتم، تفسير القرآن العظيم، 2 : 594

’’سیدناابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اس (آیت میں ایمان لانے کے بعد کافر ہو جانے والوں) سے ’’خوارج‘‘ مراد ہیں۔‘‘

تو کتنے ہی حکمران ایسے ہیں جو ایمان لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوتے ہیں کیا یہ "خوارج" کی صف میں شامل نہیں ؟؟؟

یہاں ایک اور بات کی وضاحت بھی کردوں کہ اہل سنّت کے وہ علماء جو ہمہ وقت امام مہدی کے ظہورکی باتیں کرتے ہیں اور ان روایات کو صحیح مانتے ہیں جن میں مہدی کے ظہورکا ذکرہے - اگر بالفرض اس بات کوصحیح تسلیم کرلیا جائے تو اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ مہدی رح ایک خلیفہ وقت کے طورپردنیا پر ظاہر ہونگے - نا کہ کفریہ جمہوری نظام حکومت کے تحت کسی انتخابی مہم کے ذریے حکمران نامزد ہونگے -اور لوگ ان خلیفہ نامزد ہونے کے بعد ان کے ہاتھ پر خلافت کی بیت کریں گے- (کوئی ووٹنگ کا نظام نہیں ہو گا) اور نہ ہی بادشاہت کے طور پر ان کا خروج ہوگا - اس بنا پر جو لوگ دنیا میں نظام خلافت کے لئے کوشاں ہیں وہی امام مہدی کے حقیقی پیروکار ہیں نا کہ کفریہ جمہوری نظام کے علمبردار- بلکہ ان کفریہ جمہوری نظام کے علمبرداروں کے خلاف جہاد ہی آج کے دور میں حقیقی جہاد ہے -لیکن افسوس کہ خلافت کے لئے اپنا تن من قربان کرنے والوں کو آج کل "خوارج " کا نام سے موسوم کیا جاتا ہے-

الله ہم سب کو اپنی راہ کی طرف گامزن رکھے (آمین)-
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
جیسا کہ خضربھائی نے بھی وضاحت کی ہے کہ "خوارج ’’ خروج علی الإمام ‘‘ سے ہیں" اور اسلامی حکومت میں امام خلیفہ وقت کو کہا جاتا ہے- فلوقت دنیا میں صدیوں سے خلافت کا کوئی وجود نہیں ہے - اور نام نہاد مسلم ممالک میں کفریہ نظام جمہوریت قائم ہے - ایسی صورت میں ان کافر حکمرانوں کے خلاف جہاد یا خروج مسلمانوں میں اپنی استطاعت کے مطابق نہ صرف جائز ہے بلکہ واجب ہے -
آپ اس مضمون کا مطالعہ کریں
http://forum.mohaddis.com/threads/توحید-حاکمیت-اور-فاسق-وظالم-حکمرانوں-کی-تکفیر.726/
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
یہاں ایک اور بات کی وضاحت بھی کردوں کہ اہل سنّت کے وہ علماء جو ہمہ وقت امام مہدی کے ظہورکی باتیں کرتے ہیں اور ان روایات کو صحیح مانتے ہیں جن میں مہدی کے ظہورکا ذکرہے - اگر بالفرض اس بات کوصحیح تسلیم کرلیا جائے تو اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے
آپ ظہور مہندی کے منکر ہیں ؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
جی میں یہ مضمون پڑھ چکا ہوں-

اس مضمون میں "تکفیرو خروج علی الإمام (خلیفہ) اورتکفیرو خروج دور حاضر کے حکمرانوں پر" ان دونوں کو ایک ہی ترازو میں تولا گیا ہے- جو کہ آج کل کے علماء کی سب سے بڑی اجتہادی غلطی ہے- اور اس اجتہادی غلطی کا محرک اصل میں ارجائی (مرجیہ) سوچ ہے -اﷲ کے دشمنوں کا اب تک برسر اقتدار رہنا اسی کا مرہون منت ہے۔اور اس کی ترویج میں ہمارے نام نہاد علماء کا ایک بڑا حصّہ ہے- کیوں کہ اکثر علماء اور ان کے مدارس حکومت وقت کی تنخواہ اور اس کے اخراجات کے مرہون منّت ہیں- اس لئے یہ علماء اس کے زیر اثر ہونے کے ’ارجاءی فتویٰ صادر کرتے ہیں جن کی رو سے حکمران یا کو بھی آدمی عملاً شرک کرتے رہنے سے مشرک نہیں ہوتا صرف اسکا اعتقاد رکھنے سے ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک کلمہ گو شرک اور کفر کا خواہ کوئی کام کرے بس دل میں اسکو صحیح نہ سمجھے اور زبان سے اس کو حلال کہنے کی حماقت نہ کرے تو وہ مسلمان اور موحد ہی گنا جائے گا- یعنی ان کے نزدیک کفر اور شرک کے افعال بھی عام گناہوں کی طرح ایک گناہ ہیں اور محض انکے عملی ارتکاب سے کوئی شخص دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہو سکتا- جیسے مروجہ جمہوریت کا نفاذ نہ حکومت وقت کے لئے کفر و شرک ہے اور نہ ان علماء وقت کے لئے اس کی ترویج و نفاذ کوئی بڑا گناہ ہے-
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
آپ ظہور مہندی کے منکر ہیں ؟
میں خروج امام مہدی کا متعطلقاً منکر نہیں- میرے نزدیک مہدی سے متعلق روایات کی حیثیت حکمی نہیں بلکہ تاریخی ہے- اس کو عقیدہ قرار دینا صحیح نہیں - امام مالک رح، امام بخاری رح اور امام مسلم نے اپنی احادیث کی کتب میں مہدی کی آمد سے متعلق کوئی نظریہ پیش نہیں کیا (جب کہ ان تینوں آئمہ کی کتب احادیث نبوی کو حجت تسلیم کرنے میں ایک اہم مقام رکھتی ہیں) - عقیدہ ہونے کی صورت میں ان آئمہ کے ایمان کے بارے میں کیا کہا جائے گا جنہوں نے اس نظریہ مہدی کا اپنی کتب میں متعطلقاً ذکر نہیں کیا؟؟ - البتہ آمد مہدی سے متعلق تواتر روایات ہونے کی بنا پر اس کی تاریخی حیثیت کو کسی حد تک مانا جا سکتا ہے - بہرحال مہدی کی آمد کو اگر عقیدہ تسلیم کر بھی لیا جائے - تو ان سے متعلق احادیث سے صاف ظاہر ہے کہ ان کا خروج ایک خلیفہ کی حیثیت سے ہوگا - ایک بادشاہ ( سعودی فرما رواں کی طرح) یا جمہوری حکمران کی حیثیت سے نہیں ہو گا -
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
محترم اس حدیث کو غور سے پڑھیے-
عمرو بن یحیی اپنے والد کے حوالے سے اپنے دادا کا بیان نقل کرتے ہیں ایک مرتبہ ہم صبح کی نماز سے پہلے سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جب عبداللہ رضی اللہ عنہ باہر تشریف لاتے تو ہم ان کے ساتھ چلتے ہوئے مسجد تک آیا کرتے تھے اسی دوران سید نا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ وہاں تشریف لے آئے اور دریافت کیا کیا سید نا ابوعبدالرحمن (حضرت عبداللہ بن مسعود) رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے۔ ہم نے جواب دیا نہیں تو سید نا ابوموسی رضی اللہ عنہ ہمارے ساتھ بیٹھ گئے یہاں تک کہ سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے جب وہ آئے تو ہم سب اٹھ کران کے پاس آگئے سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا اے ابوعبدالرحمن رضی اللہ عنہ آج میں نے مسجد میں ایک ایسی جماعت دیکھی ہے جو مجھے پسند نہیں آئی اور میرا مقصد ہر طرح کی حمد اللہ کے لیے مخصوص ہے صرف نیکی ہےسید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا وہ کیا بات ہے سید نا ابوموسی رضی اللہ عنہ نے جواب دیاشام تک آپ خود ہی دیکھ لیں گے۔ سید نا ابوموسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے مسجد میں کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ حلقے بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں اور نماز کا انتظار کر رہے ہیں ان میں سے ہر ایک حلقے میں ایک شخص ہے جس کے سامنے کنکریاں موجود ہیں اور وہ شخص یہ کہتا ہے سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھو۔ تو لوگ سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھتے ہیں۔ پھر وہ شخص کہتا ہے سو مرتبہ لاالہ الا اللہ پڑھو تو لوگ سو مرتبہ یہ پڑھتے ہیں پھر وہ شخص کہتا ہے سومرتبہ سبحان اللہ پڑھو تو لوگ سبحان اللہ پڑھتے ہیں سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا آپ نے ان سے کیا کہاسید نا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے جواب دیا میں نے آپ کی رائے کا انتظار کرتے ہوئے ان سے کچھ نہیں کہا۔ سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا آپ نے انہیں یہ کیوں نہیں کہا کہ وہ اپنے گناہ شمار کریں اور آپ نے انہیں ضمانت کیوں نہیں دی کہ ان کی نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی۔ (راوی بیان کرتے ہیں) پھر سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ چل پڑے ان کے ہمراہ ہم بھی چل پڑے یہاں تک کہ سید نا عبداللہ رضی اللہ عنہ ان حلقوں میں سے ایک حلقے کے پاس تشریف لائے اور ان کے پاس کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا یہ میں تمہیں کیا کرتے ہوئے دیکھ رہاہوں انہوں نے جواب دیا اے ابوعبدالرحمن یہ کنکریان ہیں جن پر ہم لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ گن کر پڑھ رہے ہیں سید نا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا تم اپنے گناہوں کو گنو میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کوئی چیز ضائع نہیں ہوگی۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت تمہارا ستیاناس ہو تم کتنی تیزی سے ہلاکت کی طرف جا رہے ہو یہ تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ تمہارے درمیان بکثرت تعداد میں موجود ہیں اور یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑے ہیں جو ابھی پرانے نہیں ہوئے اور یہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے برتن ہیں جو ابھی ٹوٹے نہیں ہیں اس ذات کی قسم جس کے یاتھ میں میری جان ہے تم ایسے طریقے پر ہو جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طریقے سے زیادہ ہدایت یافتہ ہے؟ یا پھر تم گمراہی کا دروازہ کھولنا چاہتے ہو۔ لوگوں نے عرض کی اللہ کی قسم اے ابوعبدالرحمن ہمارا ارادہ صرف نیکی کا ہے ۔ سید نا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کتنے نیکی کے خواہش مند ایسے ہیں جو نیکی نہیں کرتے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ کچھ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ قرآن ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا اور اللہ کی قسم مجھے نہیں معلوم ہوسکتا ہے ان میں سے اکثریت تم لوگوں کی ہو ۔ پھر سید نا عبداللہ رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے اٹھ کر آگئے۔ عمرو بن سلمہ بیان کرتے ہیں ہم نے اس بات کا جائزہ لیا ان حلقوں سے تعلق رکھنے والے عام افراد وہ تھے جنہوں نے نہروان کی جنگ میں خوارج کے ساتھ مل کر ہمارے ساتھ مقابلہ کیا۔
یہ روایت صاف ظاہر کرتی ہے کہ خوارج حقیقی طور پر دور قدیم میں حضرت علی رضی الله عنہ کے دور خلافت میں ہی نمودار ہوے تھے - اس کے بعد کسی خاص گروہ پر خوارج کا الزام لگانا دانشمندی نہیں- اور اسلامی تاریخ کے مطابق عباسی دور کے وسط تک شورشیں جاری رہیں-
اس حدیث سے آپ نے یہ بات کہاں سے اخذ کی ہے کہ
یہ روایت صاف ظاہر کرتی ہے کہ خوارج حقیقی طور پر دور قدیم میں حضرت علی رضی الله عنہ کے دور خلافت میں ہی نمودار ہوے تھے - اس کے بعد کسی خاص گروہ پر خوارج کا الزام لگانا دانشمندی نہیں- اور اسلامی تاریخ کے مطابق عباسی دور کے وسط تک شورشیں جاری رہیں-
اب آپ کو ایک حوالہ پیش کئے دیتا ہوں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بعد عباسی دور میں خوارج کا حکم لگایا گیا!
أُدْخِلَ خَارِجِيٌّ عَلَى المَأْمُوْنِ فَقَالَ: مَا حَمَلَكَ عَلَى الخِلاَفِ؟ قَالَ: قَوْلُهُ: {وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُون} [المائدة: 44] ، قَالَ: أَلَكَ عِلْمٌ بِأَنَّهَا مُنْزَلَةٌ؟ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: وَمَا دَلِيْلُكَ؟ قَالَ: إِجْمَاعُ الأُمَّةِ قَالَ: فَكَمَا رَضِيتَ بِإِجْمَاعِهِم فِي التَّنْزِيلِ فَارْضَ بِإِجْمَاعِهِم فِي التَّأْوِيْلِ. قَالَ: صَدَقْتَ السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا أَمِيْرَ المُؤْمِنِيْنَ!.
ایک خارجی خلفیہ مامون کے پاس حاضر ہوا،
مامون نے کہا: کس چیز نے تمہیں ہمارے خلاف ابھارا؟
خارجی نے کہا: اللہ کے فرمان{وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُون} [المائدة: 44]
مامون نے کہا: کیا تجھے علم ہے کہ یہ آیت اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے؟
خارجی نے کہا: ہاں!
مامون نے کہا: تمہاری دلیل کیا ہے؟
خارجی نے کہا: امت کا اجماع
مامون نے کہا: پس تو جس طرح تو اسے آیت کے نزول کے بارے میں امت کے اجماع سے راضی ہے(یعنی قبول کرتا ہے) اسی طرح اس آیت کے تاویل یعنی تفسیر کے بارے میں بھی امت کے اجماع سے راضی ہو جا، (یعنی اس کو قبول کر لے)۔
خارجی نے کہا: آپ نے سچ فرمایا، السلام علیکم یا امیر المومنین۔
صفحه 379 – جلد 08 - سير أعلام النبلاء - امام الذهبي - دار الحديث- القاهرة
صفحه 430 – جلد 11 - تاريخ بغداد - الخطيب البغدادي - دار الغرب الإسلامي - بيروت
صفحه 234 – جلد 01 - تاريخ الخلفاء - جلال الدين السيوطي - مكتبة نزار مصطفى الباز


اب یہ کہنا کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بعد کسی کو خوارج قرار دیا ہی نہیں گیا! چہ معنی دارد!!
آپ کا یہ کہنا کہ
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا موقف :
وَهَذِهِ الْعَلَامَةُ الَّتِي ذَكَرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هِيَ عَلَامَةُ أَوَّلِ مَنْ يَخْرُجُ مِنْهُمْ لَيْسُوا مَخْصُوصِينَ بِأُولَئِكَ الْقَوْمِ. فَإِنَّهُ قَدْ أَخْبَرَ فِي غَيْرِ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُمْ لَا يَزَالُونَ يَخْرُجُونَ إلَى زَمَنِ الدَّجَّالِ. وَقَدْ اتَّفَقَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَنَّ الْخَوَارِجَ لَيْسُوا مُخْتَصِّينَ بِذَلِكَ الْعَسْكَرِ. وَأَيْضًا فَالصِّفَاتُ الَّتِي وَصَفَهَا تَعُمُّ غَيْرَ ذَلِكَ الْعَسْكَرِ؛ وَلِهَذَا كَانَ الصَّحَابَةُ يَرْوُونَ الْحَدِيثَ مُطْلَقً

اور یہ علامات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیں ہیں، یہ علامات اس پہلے نکلنے والی لوگوں کی ہیں ان کے ساتھ خاص نہیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ دجال کے زمانے تک نکلتے رہیں گے۔ اور مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ خوارج صرف اسی عسکر ( علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے والے ) کے ساتھ خاص نہیں۔ اور اسی طرح اس پہلے عسکر (عسکر خوارج) اسے علاوہ دوسروں عسکر پر بھی پوری اترتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ صحابہ ان احادیث کو مطلقاً روایت کیا کرتے تھے۔
یہ صرف ایک امام کا موقف ہے حدیث رسول نہیں کہ اس پرایمان لایا جائے-
خیر سے آپ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مؤقف آپ کے برخلاف ہے!!
یہ آپ نے عجیب کہی کہ :
یہ صرف ایک امام کا موقف ہے حدیث رسول نہیں کہ اس پرایمان لایا جائے-
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنے مؤقف کی دلیل بھی پیش کی ہے!! شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی دلیل کو بلاجواز رد کردینا!! اب دلیل کو خواہش سے تو رد نہیں کیا جاسکتا!!
ویسے ہم نے تو آپ کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول پیش کرنے سے قبل ایک حدیث بھی پیش کی تھی ایک بار پھر عرض کیئے دیتے ہیں!

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
میری امت میں سے مشرقی جانب سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن تو پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا جب بھی ان کی کوئی نسل نکلے گی اسے ختم کردیا جائے گا یہ جملہ دس مرتبہ دہرایا یہاں تک کہ ان کے آخری حصے میں دجال نکل آئے گا۔
أَخْبَرَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الصَّنْعَانِيُّ، بِمَكَّةَ، ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَنْبَأَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَ مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، قَالَ: لَمَّا جَاءَتْ بَيْعَةُ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ قُلْتُ: لَوْ خَرَجْتُ إِلَى الشَّامِ فَتَنَحَّيْتُ مِنْ شَرِّ هَذِهِ الْبَيْعَةِ، فَخَرَجْتُ حَتَّى قَدِمْتُ الشَّامَ، فَأَخْبَرْتُ بِمَقَامٍ يَقُومُهُ نَوْفٌ، فَجِئْتُهُ فَإِذَا رَجُلٌ فَاسِدُ الْعَيْنَيْنِ، عَلَيْهِ خَمِيصَةٌ وَإِذَا هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَلَمَّا رَآهُ نَوْفٌ أَمْسَكَ عَنِ الْحَدِيثِ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ: حَدِّثْ بِمَا كُنْتَ تُحَدِّثُ بِهِ، قَالَ: أَنْتَ أَحَقُّ بِالْحَدِيثِ مِنِّي أَنْتَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ هَؤُلَاءِ قَدْ مَنَعُونَا عَنِ الْحَدِيثِ - يَعْنِي الْأُمَرَاءَ - قَالَ: أَعْزِمُ عَلَيْكَ إِلَّا مَا حَدَّثْتَنَا حَدِيثًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: «إِنَّهَا سَتَكُونُ هِجْرَةٌ بَعْدَ هِجْرَةٍ يَجْتَازُ النَّاسُ إِلَى مُهَاجَرِ إِبْرَاهِيمَ، لَا يَبْقَى فِي الْأَرْضِ إِلَّا شِرَارُ أَهْلِهَا، تَلْفِظُهُمْ أَرْضُهُمْ، وَتَقْذَرُهُمْ أَنْفُسُهُمْ، وَاللَّهُ يَحْشُرُهُمْ إِلَى النَّارِ مَعَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ، تَبِيتُ مَعَهُمْ إِذَا بَاتُوا، وَتَقِيلُ مَعَهُمْ إِذَا قَالُوا، وَتَأْكُلُ مَنْ تَخَلَّفَ» قَالَ: وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «سَيَخْرُجُ أُنَاسٌ مِنْ أُمَّتِي مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ، يَقْرَأُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، كُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ حَتَّى يَخْرُجَ الدَّجَّالُ فِي بَقِيَّتِهِمْ»
[التعليق - من تلخيص الذهبي] سكت عنه الذهبي في التلخيص

صفحه 533 جلد 04
الكتاب: المستدرك على الصحيحين
المؤلف: أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله النيسابوري (المتوفى: 405هـ)
تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا
الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 533 جلد 04 المستدرك على الصحيحين مع تعليق من تلخيص الذهبي ۔ تحقيق مصطفى عبد القادر عطا

صفحه 655 - 656 جلد 04
الكتاب: المستدرك على الصحيحين
المؤلف: أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله النيسابوري (المتوفى: 405هـ)
تحقيق: مقبل بن هادي الوادعي
الناشر: دار الحرمين

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 655 - 656 جلد 04 المستدرك على الصحيحين ۔ تحقيق مقبل بن هادي الوادعي

أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَةَ الْعَنَزِيُّ، ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، ثَنَا مُوسَى بْنُ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: خَرَجْتُ حَاجًّا، فَقَالَ لِي سُلَيْمَانُ بْنُ عَنَزٍ قَاضِي أَهْلِ مِصْرَ: أَبْلِغْ أَبَا هُرَيْرَةَ مِنِّي السَّلَامَ، وَأَعْلِمْهُ أَنِّي قَدِ اسْتَغْفَرْتُ الْغَدَاةَ لَهُ وَلِأُمِّهِ، فَلَقِيتُهُ فَأَبْلَغْتُهُ، قَالَ: وَأَنَا قَدِ اسْتَغْفَرْتُ لَهُ، ثُمَّ قَالَ: كَيْفَ تَرَكْتُمْ أُمَّ حَنْوٍ - يَعْنِي مِصْرَ -؟ قَالَ: فَذَكَرْتُ لَهُ مِنْ رَفَاهِيَتِهَا وَعَيْشِهَا، قَالَ: أَمَا إِنَّهَا أَوَّلُ الْأَرْضِ خَرَابًا، ثُمَّ أَرْمِينِيَةُ، قُلْتُ: سَمِعْتَ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنْ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «إِنَّهَا تَكُونُ هِجْرَةٌ بَعْدَ هِجْرَةٍ، فَخِيَارُ أَهْلِ الْأَرْضِ أَلْزَمُهُمْ إِلَى مُهَاجَرِ إِبْرَاهِيمَ، وَيَبْقَى فِي الْأَرْضِ شِرَارُ أَهْلِهَا تَلْفِظُهُمْ أَرْضُوهُمْ، وَتُقَذِّرُهُمْ نَفْسُ اللَّهِ فَتَحْشُرُهُمُ النَّارُ مَعَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ» وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ يَقْرَأُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، كُلَّمَا قُطِعَ قَرْنٌ نَشَأَ قَرْنٌ، حَتَّى يَخْرُجَ فِي بَقِيَّتِهِمُ الدَّجَّالُ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخْرِجَاهُ فَقَدِ اتَّفَقَا جَمِيعًا عَلَى أَحَادِيثِ مُوسَى بْنِ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ اللَّخْمِيِّ، وَلَمْ يُخْرِجَاهُ "
[التعليق - من تلخيص الذهبي] على شرط البخاري ومسلم
صفحه 556 جلد 04
الكتاب: المستدرك على الصحيحين
المؤلف: أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله النيسابوري (المتوفى: 405هـ)
تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا
الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 556 جلد 04 المستدرك على الصحيحين مع تعليق من تلخيص الذهبي ۔ تحقيق مصطفى عبد القادر عطا

صفحه 681 - 682 جلد 04
الكتاب: المستدرك على الصحيحين
المؤلف: أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله النيسابوري (المتوفى: 405هـ)
تحقيق: مقبل بن هادي الوادعي
الناشر: دار الحرمين

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 681 - 682 جلد 04 المستدرك على الصحيحين ۔ تحقيق مقبل بن هادي الوادعي

حدثنا عبد الرزَّاق أخبرنا مَعْمَر عن قَتادة عن شَهْرِ بن حَوْشَب قال: لما جاءتْنا بيعَة يزيدَ بن معاوية، قَدمْتُ الشأم، فأُخْبرتُ بمَقَامٍ يقومُه نَوْفٌ، فجئْتُه، إذ جاء رجل، فاشتدَّ الناسُ، عليه خميصةٌ، وإذا هو عبدُ الله بن عمرو بن العاصي، فلما رآه نَوْف أَمْسك عن الحَديث، فقال عبد الله: سمعتُ رسول الله -صلي الله عليه وسلم - يقوِل: "إنها ستكون هجرةٌ بعدَ هجرة، ينحازُ الناس إلى مُهِاجَر إبراهيم، لا يبقَي في الأرض إلا شرار أهلِها، يلْفظُهُمْ أَرَضُوهُم، تَقْذرُهُم نَفْس الله، تَحْشُرُهم النارُ مع القرَدة وَالخنازير، تَبيتُ معهم إذا باُتوا، وتَقيل معهم إذا قالوا، وتأكل مَنْ تخلَّف"، قال: وسمعت رسول الله -صلي الله عليه وسلم -يقول: "سيخرجُ أناسٌ من أمتي من قبَل المَشْرق، يقرؤون القرآنَ لا يُجَاوِزُ تَرَاقيَهُم، كلّما خرج منهم قَرْنٌ قُطِعَ، كَلّما خرج منهم قرن قُطع، حتى عَدَّهاَ زيادة على عَشرة (1) مرَّاتٍ: كلما خرج منهم قرن قطع، حتى يَخْرج الدجّال في بقيَّتِهم".
إسناده صحيح
صفحه 348 – 349 جلد 06
الكتاب: مسند الإمام أحمد بن حنبل
المؤلف: أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ)
المحقق: أحمد محمد شاكر
الناشر: دار الحديث – القاهرة

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 348 – 349 جلد 06 مسند الإمام أحمد بن حنبل ۔ تحقيق أحمد محمد شاكر

حدثنا أبو داود وعبد الصمد، المعنى، قالا حدثنا هشام عن قتادة عن شَهْر، قال: أتَى عبدُ الله بن عَمْرو على نَوْفٍ البكَالى وهوِ يحدث، فقال: حدِّثْ، فإنَّا قد نُهينا عن الحديث، قال: ما كنتُ لأحدِّث وعندي رجل من أصحاب رسولَ الله - صلى الله عليه وسلم -، ثم من قريش، فقال عبد الله بني عمرو: سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول: "ستكونُ هجْرة بعدَ هجرة، فخِيَارُ الأرض"، قال عبد الصمد: لخيار الأرض، إلىِ مُهَاجَر إبراهيم، فيبَقى في الأرض شرَارُ أهلها، تَلْفظُهُم الأرض، وتَقْذرُهم نَفس الله عز وجل، وتَحشرهَم النارُ مع القرَدةَ والخنازير، ثم قال: حدِّثْ، فإنا قد نُهينا عن الحديث، فقال: ما كنتُ لأحدِّث وعندي رجل من أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، ثم من قريش، فقال عبد الله بن عمرو: سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول: "يخرج قوم من قِبَل المَشرِق، يقرؤُون القرآنَ لا يُجاوز تَرَاقيَهم، كلما قطِع قرنٌ نَشأ قرن، حتى يخرج في بقيتهم الدجَّال".
إسناده صحيح
صفحه 413 – 416 جلد 06
الكتاب: مسند الإمام أحمد بن حنبل
المؤلف: أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ)
المحقق: أحمد محمد شاكر
الناشر: دار الحديث – القاهرة

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 413 – 416 جلد 06 مسند الإمام أحمد بن حنبل ۔ تحقيق أحمد محمد شاكر

نوٹ: شهر بن حوشب الأشعري مختلف فیہ راوی ہیں ، امام الذہبی نے انہیں اپنی کتاب ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق میں شمار کیا ہے۔
صفحه 100
الكتاب: ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق
المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ)
المحقق: محمد شكور بن محمود الحاجي أمرير المياديني
الناشر: مكتبة المنار – الزرقاء

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 100 ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق ۔ تحقيق محمد شكور بن محمود الحاجي أمرير المياديني

صفحه 265
الكتاب: من تكلم فيه وهو موثوق أو صالح الحديث
المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ)
المحقق: عبد الله بن ضيف الله الرحيلي

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 265 من تكلم فيه وهو موثوق أو صالح الحديث ۔ تحقيق عبد الله بن ضيف الله الرحيلي
جسے آپ بالکل نظر انداز کر گئے!! کہیں ایسا تو نہیں کہ اس حدیث کے بارے میں بھی آپ یہ فرمادیں کہ یہ تو خبر واحد ہے، خبر متواتر نہیں کہ اس پر ایمان لایا جائے!!
اور اگر ان کی بات ماننی ہے تو یہ بھی ذہن میں رہے کہ امام تیمیہ کے نزدیک تو تاتاری بھی کافر تھے جو اپنے قانون یاسق کو نافذ العمل رکھنے کا باوجود الله کے قوانین کی تنقیص نہیں کرتے تھے -تو پھرآ جکل کے نام نہاد مسلم حکمران کافر کیوں نہیں؟؟ جب کہ وہ بھی تا تاریوں کی طرح اسلامی شریعت کی تنقیص تو نہیں کرتے لیکن یہود کے قوانین کو ہی ملک میں نافذ العمل رکھتے ہیں؟؟
تاتاریوں کی تکفیر کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ان کی تکفیر کی وجوہات صراحتاً بیان کی ہیں:
قَالَ أَكْبَرُ مُقَدِّمِيهِمْ الَّذِينَ قَدِمُوا إلَى الشَّامِ وَهُوَ يُخَاطِبُ رُسُلَ الْمُسْلِمِينَ وَيَتَقَرَّبُ إلَيْهِمْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ. فَقَالَ هَذَانِ آيَتَانِ عَظِيمَتَانِ جَاءَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُحَمَّدٍ وجنكسخان. فَهَذَا غَايَةُ مَا يَتَقَرَّبُ بِهِ أَكْبَرُ مُقَدِّمِيهِمْ إلَى الْمُسْلِمِينَ أَنْ يُسَوِّيَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ وَأَكْرَمِ الْخَلْقِ عَلَيْهِ وَسَيِّدِ وَلَدِ آدَمَ وَخَاتَمِ الْمُرْسَلِينَ وَبَيْنَ مَلِكٍ كَافِرٍ مُشْرِكٍ مِنْ أَعْظَمِ الْمُشْرِكِينَ كُفْرًا وَفَسَادًا وَعُدْوَانًا مِنْ جِنْسِ بُخْتِ نَصَّرَ وَأَمْثَالِهِ. وَذَلِكَ أَنَّ اعْتِقَادَ هَؤُلَاءِ التَّتَارِ كَانَ فِي جنكسخان عَظِيمًا فَإِنَّهُمْ يَعْتَقِدُونَ أَنَّهُ ابْنُ اللَّهِ مِنْ جِنْسِ مَا يَعْتَقِدُهُ النَّصَارَى فِي الْمَسِيحِ وَيَقُولُونَ إنَّ الشَّمْسَ حَبَّلَتْ أُمَّهُ وَأَنَّهَا كَانَتْ فِي خَيْمَةٍ فَنَزَلَتْ الشَّمْسُ مِنْ كُوَّةِ الْخَيْمَةِ فَدَخَلَتْ فِيهَا حَتَّى حَبِلَتْ. وَمَعْلُومٌ عِنْد كُلِّ ذِي دِينٍ أَنَّ هَذَا كَذِبٌ. وَهَذَا دَلِيلٌ عَلَى أَنَّهُ وَلَدُ زِنًا وَأَنَّ أَمَّهُ زَنَتْ فَكَتَمَتْ زِنَاهَا وَادَّعَتْ هَذَا حَتَّى تَدْفَعَ عَنْهَا مَعَرَّةَ الزِّنَا وَهُمْ مَعَ هَذَا يَجْعَلُونَهُ أَعْظَمَ رَسُولٍ عِنْدَ اللَّهِ فِي تَعْظِيمِ مَا سَنَّهُ لَهُمْ وَشَرَعَهُ بِظَنِّهِ وَهَوَاهُ حَتَّى يَقُولُوا لِمَا عِنْدَهُمْ مِنْ الْمَالِ. هَذَا رِزْقُ جنكسخان وَيَشْكُرُونَهُ عَلَى أَكْلِهِمْ وَشُرْبِهِمْ وَهُمْ يَسْتَحِلُّونَ قَتْلَ مَنْ عَادَى مَا سَنَّهُ لَهُمْ هَذَا الْكَافِرُ الْمَلْعُونُ الْمُعَادِي لِلَّهِ وَلِأَنْبِيَائِهِ وَرَسُولِهِ وَعِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ. فَهَذَا وَأَمْثَالُهُ مِنْ مُقَدِّمِيهِمْ كَانَ غَايَتُهُ بَعْدَ الْإِسْلَامِ أَنْ يَجْعَلَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَنْزِلَةِ هَذَا الْمَلْعُونِ.
مجلد 28 صفحه 521 ۔ 522
الكتاب: مجموع الفتاوى
المؤلف: تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني (المتوفى: 728هـ)
الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية

قَالَ أَكْبَرُ مُقَدَّمِيهِمْ الَّذِينَ قَدِمُوا إلَى الشَّامِ، وَهُوَ يُخَاطِبُ رُسُلَ الْمُسْلِمِينَ، وَيَتَقَرَّبُ إلَيْهِمْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ فَقَالَ: هَذَانِ آيَتَانِ عَظِيمَتَانِ جَاءَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ: مُحَمَّدٌ، وَجِنْكِيزْ خَانْ، فَهَذَا غَايَةُ مَا يَتَقَرَّبُ بِهِ أَكْبَرُ مُقَدَّمِيهِمْ إلَى الْمُسْلِمِينَ أَنْ يُسَوِّيَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ أَكْرَمِ الْخَلْقِ عَلَيْهِ، وَسَيِّدِ وَلَدِ آدَمَ، وَخَاتَمِ الْمُرْسَلِينَ، وَبَيْنَ مَلِكٍ كَافِرٍ مُشْرِكٍ مِنْ أَعْظَمِ الْمُشْرِكِينَ، كُفْرًا وَفَسَادًا وَعُدْوَانًا مِنْ جِنْسِ بُخْتِ نَصَّرَ وَأَمْثَالِهِ.
وَذَلِكَ أَنَّ اعْتِقَادَ هَؤُلَاءِ التَّتَارِ كَانَ فِي جِنْكِيزْ خَانْ عَظِيمًا فَإِنَّهُمْ يَعْتَقِدُونَ أَنَّهُ ابْنُ اللَّهِ مِنْ جِنْسِ مَا يَعْتَقِدُهُ النَّصَارَى فِي الْمَسِيحِ، وَيَقُولُونَ: إنَّ الشَّمْسَ حَبَّلَتْ أُمَّهُ، وَأَنَّهَا كَانَتْ فِي خَيْمَةٍ فَنَزَلَتْ الشَّمْسُ مِنْ كُوَّةِ الْخَيْمَةِ فَدَخَلَتْ فِيهَا حَتَّى حَبِلَتْ، وَمَعْلُومٌ عِنْدَ كُلِّ ذِي دِينٍ أَنَّ هَذَا كَذِبٌ.
وَهَذَا دَلِيلٌ عَلَى أَنَّهُ وَلَدُ زِنًا، وَأَنَّ أُمَّهُ زَنَتْ فَكَتَمَتْ زِنَاهَا، وَأَخْفَتْ هَذَا حَتَّى تَدْفَعَ عَنْهَا مَعَرَّةَ الزِّنَا، وَهُمْ مَعَ هَذَا يَجْعَلُونَهُ أَعْظَمَ رَسُولٍ عِنْدَ اللَّهِ فِي تَعْظِيمِ مَا سَنَّهُ لَهُمْ، وَشَرَعَهُ بِظَنِّهِ، وَهُوَ حَتَّى يَقُولُوا لِمَا عِنْدَهُمْ مِنْ الْمَالِ هَذَا رِزْقُ جِنْكِيزْ خَانْ، وَيَشْكُرُونَهُ عَلَى أَكْلِهِمْ وَشُرْبِهِمْ، وَهُمْ يَسْتَحِلُّونَ قَتْلَ مَنْ عَادَى مَا سَنَّهُ لَهُمْ هَذَا الْكَافِرُ الْمَلْعُونُ الْمُعَادِي لِلَّهِ وَلِأَنْبِيَائِهِ وَرَسُولِهِ وَعِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ.
فَهَذَا وَأَمْثَالُهُ مِنْ مُقَدَّمِيهِمْ كَانَ غَايَتُهُ بَعْدَ الْإِسْلَامِ أَنْ يَجْعَلَ مُحَمَّدًا - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بِمَنْزِلَةِ هَذَا الْمَلْعُونِ،
مجلد 03 صفحه 521 ۔ 542
الكتاب: مجموع الفتاوى
المؤلف: تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني (المتوفى: 728هـ)
الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية

ان اسلام کے مدعی تاتاریوں میں سے جو لوگ شام آئے ، ان میں سب سے بڑے تارتاری نے مسلمانوں کے پیامبروں سے خطاب کرتے ہوئے اور اپنے آپ کو مسلمان اور ان کے قریب ثابت کرتے ہوئے کہا: یہ دو عظیم نشانیاں ہیں جو اللہ کی طرف سے آئی ہیں۔ ان میں سے ایک محمد عربی ہیں اور دوسرا چنگیز خان ہے۔ پس یہ ان کا وہ انتہائی عقیدہ ہے جس کے ذریعے وہ مسلمانوں کا قرب تلاش کرتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کے رسول جو مخلوق میں سے سب سے بزرگ ' اولاد آدم کے سردار اور نبیوں کی مہر ہیں' انہیں اور ایک کافر اور مشرکین میں سب سے بڑھ کر مشرک' فسادی' ظالم اور بخت نصر کی نسل کو برابر قرار دیا؟ ۔ ان تاتاریوں کا چنگیز خان کے بارے عقیدہ بہت ہی گمراہ کن تھا۔ ان نام نہاد مسلمان تاتاریوں کا تو یہ عقیدہ تھا کہ چنگیز خان اللہ کا بیٹاہے اور یہ عقیدہ ایسا ہی ہے جیسا کہ عیسائیوں کا حضرت مسیح کے بارے عقیدہ تھا۔ یہ تاتاری کہتے ہیں کہ چنگیز خان کی ماں سورج سے حاملہ ہوئی تھی ۔ وہ ایک خیمہ میں تھی جب سورج خیمہ کے روشندان سے داخل ہوا اور اس کی ماں میں گھس گیا۔ پس اس طرح اس کی ماں حاملہ ہو گئی ۔ ہر صاحب علم یہ بات جانتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے...اس کے ساتھ ان تاتاریوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ وہ چنگیز خان کو اللہ کا عظیم ترین رسول قرار دیتے ہیں کیونکہ چنگیز خان نے اپنے گمان سے ان کے لیے جو قوانین جاری کیے ہیں یا مقرر کیے ہیں یہ ان قوانین کی تعظیم کرتے ہیں اور ان کا معاملہ تو یہ ہے کہ جو ان کے پاس مال ہے ' اس کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ یہ چنگیز خان کا دیا ہوا رزق ہے اور اپنے کھانے اور پینے کے بعد(اللہ کی بجائے) چنگیز خان کا شکر اداکرتے ہیں اور یہ لوگ اس مسلمان کے قتل کو حلال سمجھتے ہیں جو ان کے ان قوانین کی مخالفت کرتا ہے جو اس کافر ملعون' اللہ ' انبیاء و رسل ' محمد عربی اور اللہ کے بندوں کے دشمن نے ان کے لیے مقرر کیے ہیں۔ پس یہ ان تاتاریوں اور ان کے بڑوں کے عقائدہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ اسلام لانے کے بعد محمد عربی کو چنگیز خان ملعون کے برابر قرار دیتے ہیں۔
اختصار کے ساتھ یوں کہ:
اللہ کے رسول کو چنگیز خان کے برابر قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا بیٹا قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا رسول قرار دینا اور اس کے دیے گئے قوانین کی تعظیم کرنا' مجموعہ قوانین 'الیاسق' کا انکار کرنے والے مسلمانوں کے خون کو حلال سمجھنا اور کھانے پینے کے بعد چنگیزخان کا شکر ادا کرنا وغیرہ ایسے صریح کفریہ عقائد ہیں کہ جن کے کفر اکبر ہونے میں دو بندوں کا بھی اختلاف ممکن نہیں ہے لہذا 'الیاسق' کے مجموعہ قوانین کے بارے تاتاریوں کا جو رویہ اور عقیدہ تھا وہ اعتقادی کفر کا تھا اور اعتقادی کفر کی بنیاد پر سلفی علماء تکفیر کے قائل ہیں۔

ویسے بھی خوارج کے آخری گروہ کا تعلق دجال اکبر کے زمانے سے متعلق ہے جو ابھی شروع نہیں ہوا - (یہ ذہن میں رہے کہ یہود و نصاریٰ اور سیکولر طبقے کے پروپوگنڈے سے کوئی گروہ خوارج قرار نہیں پا تا)-
یہ تو ہم نے نہیں کہا کہ دور حاضر کے خوارج آخری خوارج ہیں!! ہم نے تو آپ کو حدیث نبوی صلی اللہ علیہ پیش کی ہے، جس سے خوارج کا ہر دور میں ممکن ہونا ثابت ہوتا ہے!!
دوم یہ کہ بلکل ہم کسی پروپگنڈے کی بنیاد پر کسی کو بھی خوارج نہیں کہتے!! اور نہ ہی ہم خوارج کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کسی کی بلا حق تکفیر کرتے ہیں!!
الله ہمیں اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن رکھے -(آمین)-
آمین!
 
Last edited:

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
ان تاتاریوں کا چنگیز خان کے بارے عقیدہ بہت ہی گمراہ کن تھا۔ ان نام نہاد مسلمان تاتاریوں کا تو یہ عقیدہ تھا کہ چنگیز خان اللہ کا بیٹاہے اور یہ عقیدہ ایسا ہی ہے جیسا کہ عیسائیوں کا حضرت مسیح کے بارے عقیدہ تھا۔ یہ تاتاری کہتے ہیں کہ چنگیز خان کی ماں سورج سے حاملہ ہوئی تھی ۔ وہ ایک خیمہ میں تھی جب سورج خیمہ کے روشندان سے داخل ہوا اور اس کی ماں میں گھس گیا۔ پس اس طرح اس کی ماں حاملہ ہو گئی ۔ ہر صاحب علم یہ بات جانتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے...اس کے ساتھ ان تاتاریوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ وہ چنگیز خان کو اللہ کا عظیم ترین رسول قرار دیتے ہیں کیونکہ چنگیز خان نے اپنے گمان سے ان کے لیے جو قوانین جاری کیے ہیں یا مقرر کیے ہیں یہ ان قوانین کی تعظیم کرتے ہیں اور ان کا معاملہ تو یہ ہے کہ جو ان کے پاس مال ہے ' اس کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ یہ چنگیز خان کا دیا ہوا رزق ہے اور اپنے کھانے اور پینے کے بعد(اللہ کی بجائے) چنگیز خان کا شکر اداکرتے ہیں اور یہ لوگ اس مسلمان کے قتل کو حلال سمجھتے ہیں جو ان کے ان قوانین کی مخالفت کرتا ہے جو اس کافر ملعون' اللہ ' انبیاء و رسل ' محمد عربی اور اللہ کے بندوں کے دشمن نے ان کے لیے مقرر کیے ہیں۔ پس یہ ان تاتاریوں اور ان کے بڑوں کے عقائدہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ اسلام لانے کے بعد محمد عربی کو چنگیز خان ملعون کے برابر قرار دیتے ہیں۔
اختصار کے ساتھ یوں کہ:
اللہ کے رسول کو چنگیز خان کے برابر قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا بیٹا قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا رسول قرار دینا اور اس کے دیے گئے قوانین کی تعظیم کرنا' مجموعہ قوانین 'الیاسق' کا انکار کرنے والے مسلمانوں کے خون کو حلال سمجھنا اور کھانے پینے کے بعد چنگیزخان کا شکر ادا کرنا وغیرہ ایسے صریح کفریہ عقائد ہیں کہ جن کے کفر اکبر ہونے میں دو بندوں کا بھی اختلاف ممکن نہیں ہے لہذا 'الیاسق' کے مجموعہ قوانین کے بارے تاتاریوں کا جو رویہ اور عقیدہ تھا وہ اعتقادی کفر کا تھا اور اعتقادی کفر کی بنیاد پر سلفی علماء تکفیر کے قائل ہیں۔
محترم بھائی آپ کی باقی باتیں تو درست ہیں مگر تکفیر کے حوالے جو آپ تاتاریوں اور موجودہ حکمرانوں میں اعتقادی اور غیر اعتقادی کفر کا فرق کر رہے ہیں میرے اور میرے شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کے اجتہاد کے مطابق وہ درست نہیں کیونکہ یہ ساری اعتقادی کفر کی خوبیاں یہاں اسی طرح موجود ہیں جو اوپر آپ نے بیان کی ہیں واللہ اعلم
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم بھائی آپ کی باقی باتیں تو درست ہیں مگر تکفیر کے حوالے جو آپ تاتاریوں اور موجودہ حکمرانوں میں اعتقادی اور غیر اعتقادی کفر کا فرق کر رہے ہیں میرے اور میرے شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کے اجتہاد کے مطابق وہ درست نہیں کیونکہ یہ ساری اعتقادی کفر کی خوبیاں یہاں اسی طرح موجود ہیں جو اوپر آپ نے بیان کی ہیں واللہ اعلم
تاتاریوں کے مذکورہ کفریہ عقائد خواہ وہ کسی حاکم میں ہو یا عوام میں، حکم وہی ہو گا جو تاتاریوں پر تھا!
اب دو مسائل ہیں اول تو یہ کہ آیا وقعی موجودہ حکمرانوں میں یہ کفر ہے بھی؟، دوم کہ تکفیر معین کے شروط پورے ہوتے ہیں؟
جہاں تک بات ہے شیخ امین اللہ پشاوری کی تو ان کا ایک تحریر مجھے ملی تھی، وہ شئیر کر دیتا ہوں!
حق کی طرف رجوع ۔ شیخ امین اللہ پشاوری
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!

اس حدیث سے آپ نے یہ بات کہاں سے اخذ کی ہے کہ

اب آپ کو ایک حوالہ پیش کئے دیتا ہوں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بعد عباسی دور میں خوارج کا حکم لگایا گیا!
أُدْخِلَ خَارِجِيٌّ عَلَى المَأْمُوْنِ فَقَالَ: مَا حَمَلَكَ عَلَى الخِلاَفِ؟ قَالَ: قَوْلُهُ: {وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُون} [المائدة: 44] ، قَالَ: أَلَكَ عِلْمٌ بِأَنَّهَا مُنْزَلَةٌ؟ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: وَمَا دَلِيْلُكَ؟ قَالَ: إِجْمَاعُ الأُمَّةِ قَالَ: فَكَمَا رَضِيتَ بِإِجْمَاعِهِم فِي التَّنْزِيلِ فَارْضَ بِإِجْمَاعِهِم فِي التَّأْوِيْلِ. قَالَ: صَدَقْتَ السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا أَمِيْرَ المُؤْمِنِيْنَ!.
ایک خارجی خلفیہ مامون کے پاس حاضر ہوا،
مامون نے کہا: کس چیز نے تمہیں ہمارے خلاف ابھارا؟
خارجی نے کہا: اللہ کے فرمان{وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُون} [المائدة: 44]
مامون نے کہا: کیا تجھے علم ہے کہ یہ آیت اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے؟
خارجی نے کہا: ہاں!
مامون نے کہا: تمہاری دلیل کیا ہے؟
خارجی نے کہا: امت کا اجماع
مامون نے کہا: پس تو جس طرح تو اسے آیت کے نزول کے بارے میں امت کے اجماع سے راضی ہے(یعنی قبول کرتا ہے) اسی طرح اس آیت کے تاویل یعنی تفسیر کے بارے میں بھی امت کے اجماع سے راضی ہو جا، (یعنی اس کو قبول کر لے)۔
خارجی نے کہا: آپ نے سچ فرمایا، السلام علیکم یا امیر المومنین۔
صفحه 379 – جلد 08 - سير أعلام النبلاء - امام الذهبي - دار الحديث- القاهرة
صفحه 430 – جلد 11 - تاريخ بغداد - الخطيب البغدادي - دار الغرب الإسلامي - بيروت
صفحه 234 – جلد 01 - تاريخ الخلفاء - جلال الدين السيوطي - مكتبة نزار مصطفى الباز


اب یہ کہنا کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بعد کسی کو خوارج قرار دیا ہی نہیں گیا! چہ معنی دارد!!

خیر سے آپ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مؤقف آپ کے برخلاف ہے!!
یہ آپ نے عجیب کہی کہ :

شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنے مؤقف کی دلیل بھی پیش کی ہے!! شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی دلیل کو بلاجواز رد کردینا!! اب دلیل کو خواہش سے تو رد نہیں کیا جاسکتا!!
ویسے ہم نے تو آپ کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول پیش کرنے سے قبل ایک حدیث بھی پیش کی تھی ایک بار پھر عرض کیئے دیتے ہیں!


جسے آپ بالکل نظر انداز کر گئے!! کہیں ایسا تو نہیں کہ اس حدیث کے بارے میں بھی آپ یہ فرمادیں کہ یہ تو خبر واحد ہے، خبر متواتر نہیں کہ اس پر ایمان لایا جائے!!

تاتاریوں کی تکفیر کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ان کی تکفیر کی وجوہات صراحتاً بیان کی ہیں:
قَالَ أَكْبَرُ مُقَدِّمِيهِمْ الَّذِينَ قَدِمُوا إلَى الشَّامِ وَهُوَ يُخَاطِبُ رُسُلَ الْمُسْلِمِينَ وَيَتَقَرَّبُ إلَيْهِمْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ. فَقَالَ هَذَانِ آيَتَانِ عَظِيمَتَانِ جَاءَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُحَمَّدٍ وجنكسخان. فَهَذَا غَايَةُ مَا يَتَقَرَّبُ بِهِ أَكْبَرُ مُقَدِّمِيهِمْ إلَى الْمُسْلِمِينَ أَنْ يُسَوِّيَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ وَأَكْرَمِ الْخَلْقِ عَلَيْهِ وَسَيِّدِ وَلَدِ آدَمَ وَخَاتَمِ الْمُرْسَلِينَ وَبَيْنَ مَلِكٍ كَافِرٍ مُشْرِكٍ مِنْ أَعْظَمِ الْمُشْرِكِينَ كُفْرًا وَفَسَادًا وَعُدْوَانًا مِنْ جِنْسِ بُخْتِ نَصَّرَ وَأَمْثَالِهِ. وَذَلِكَ أَنَّ اعْتِقَادَ هَؤُلَاءِ التَّتَارِ كَانَ فِي جنكسخان عَظِيمًا فَإِنَّهُمْ يَعْتَقِدُونَ أَنَّهُ ابْنُ اللَّهِ مِنْ جِنْسِ مَا يَعْتَقِدُهُ النَّصَارَى فِي الْمَسِيحِ وَيَقُولُونَ إنَّ الشَّمْسَ حَبَّلَتْ أُمَّهُ وَأَنَّهَا كَانَتْ فِي خَيْمَةٍ فَنَزَلَتْ الشَّمْسُ مِنْ كُوَّةِ الْخَيْمَةِ فَدَخَلَتْ فِيهَا حَتَّى حَبِلَتْ. وَمَعْلُومٌ عِنْد كُلِّ ذِي دِينٍ أَنَّ هَذَا كَذِبٌ. وَهَذَا دَلِيلٌ عَلَى أَنَّهُ وَلَدُ زِنًا وَأَنَّ أَمَّهُ زَنَتْ فَكَتَمَتْ زِنَاهَا وَادَّعَتْ هَذَا حَتَّى تَدْفَعَ عَنْهَا مَعَرَّةَ الزِّنَا وَهُمْ مَعَ هَذَا يَجْعَلُونَهُ أَعْظَمَ رَسُولٍ عِنْدَ اللَّهِ فِي تَعْظِيمِ مَا سَنَّهُ لَهُمْ وَشَرَعَهُ بِظَنِّهِ وَهَوَاهُ حَتَّى يَقُولُوا لِمَا عِنْدَهُمْ مِنْ الْمَالِ. هَذَا رِزْقُ جنكسخان وَيَشْكُرُونَهُ عَلَى أَكْلِهِمْ وَشُرْبِهِمْ وَهُمْ يَسْتَحِلُّونَ قَتْلَ مَنْ عَادَى مَا سَنَّهُ لَهُمْ هَذَا الْكَافِرُ الْمَلْعُونُ الْمُعَادِي لِلَّهِ وَلِأَنْبِيَائِهِ وَرَسُولِهِ وَعِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ. فَهَذَا وَأَمْثَالُهُ مِنْ مُقَدِّمِيهِمْ كَانَ غَايَتُهُ بَعْدَ الْإِسْلَامِ أَنْ يَجْعَلَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَنْزِلَةِ هَذَا الْمَلْعُونِ.
مجلد 28 صفحه 521 ۔ 522
الكتاب: مجموع الفتاوى
المؤلف: تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني (المتوفى: 728هـ)
الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية

قَالَ أَكْبَرُ مُقَدَّمِيهِمْ الَّذِينَ قَدِمُوا إلَى الشَّامِ، وَهُوَ يُخَاطِبُ رُسُلَ الْمُسْلِمِينَ، وَيَتَقَرَّبُ إلَيْهِمْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ فَقَالَ: هَذَانِ آيَتَانِ عَظِيمَتَانِ جَاءَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ: مُحَمَّدٌ، وَجِنْكِيزْ خَانْ، فَهَذَا غَايَةُ مَا يَتَقَرَّبُ بِهِ أَكْبَرُ مُقَدَّمِيهِمْ إلَى الْمُسْلِمِينَ أَنْ يُسَوِّيَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ أَكْرَمِ الْخَلْقِ عَلَيْهِ، وَسَيِّدِ وَلَدِ آدَمَ، وَخَاتَمِ الْمُرْسَلِينَ، وَبَيْنَ مَلِكٍ كَافِرٍ مُشْرِكٍ مِنْ أَعْظَمِ الْمُشْرِكِينَ، كُفْرًا وَفَسَادًا وَعُدْوَانًا مِنْ جِنْسِ بُخْتِ نَصَّرَ وَأَمْثَالِهِ.
وَذَلِكَ أَنَّ اعْتِقَادَ هَؤُلَاءِ التَّتَارِ كَانَ فِي جِنْكِيزْ خَانْ عَظِيمًا فَإِنَّهُمْ يَعْتَقِدُونَ أَنَّهُ ابْنُ اللَّهِ مِنْ جِنْسِ مَا يَعْتَقِدُهُ النَّصَارَى فِي الْمَسِيحِ، وَيَقُولُونَ: إنَّ الشَّمْسَ حَبَّلَتْ أُمَّهُ، وَأَنَّهَا كَانَتْ فِي خَيْمَةٍ فَنَزَلَتْ الشَّمْسُ مِنْ كُوَّةِ الْخَيْمَةِ فَدَخَلَتْ فِيهَا حَتَّى حَبِلَتْ، وَمَعْلُومٌ عِنْدَ كُلِّ ذِي دِينٍ أَنَّ هَذَا كَذِبٌ.
وَهَذَا دَلِيلٌ عَلَى أَنَّهُ وَلَدُ زِنًا، وَأَنَّ أُمَّهُ زَنَتْ فَكَتَمَتْ زِنَاهَا، وَأَخْفَتْ هَذَا حَتَّى تَدْفَعَ عَنْهَا مَعَرَّةَ الزِّنَا، وَهُمْ مَعَ هَذَا يَجْعَلُونَهُ أَعْظَمَ رَسُولٍ عِنْدَ اللَّهِ فِي تَعْظِيمِ مَا سَنَّهُ لَهُمْ، وَشَرَعَهُ بِظَنِّهِ، وَهُوَ حَتَّى يَقُولُوا لِمَا عِنْدَهُمْ مِنْ الْمَالِ هَذَا رِزْقُ جِنْكِيزْ خَانْ، وَيَشْكُرُونَهُ عَلَى أَكْلِهِمْ وَشُرْبِهِمْ، وَهُمْ يَسْتَحِلُّونَ قَتْلَ مَنْ عَادَى مَا سَنَّهُ لَهُمْ هَذَا الْكَافِرُ الْمَلْعُونُ الْمُعَادِي لِلَّهِ وَلِأَنْبِيَائِهِ وَرَسُولِهِ وَعِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ.
فَهَذَا وَأَمْثَالُهُ مِنْ مُقَدَّمِيهِمْ كَانَ غَايَتُهُ بَعْدَ الْإِسْلَامِ أَنْ يَجْعَلَ مُحَمَّدًا - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بِمَنْزِلَةِ هَذَا الْمَلْعُونِ،
مجلد 03 صفحه 521 ۔ 542
الكتاب: مجموع الفتاوى
المؤلف: تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني (المتوفى: 728هـ)
الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية

ان اسلام کے مدعی تاتاریوں میں سے جو لوگ شام آئے ، ان میں سب سے بڑے تارتاری نے مسلمانوں کے پیامبروں سے خطاب کرتے ہوئے اور اپنے آپ کو مسلمان اور ان کے قریب ثابت کرتے ہوئے کہا: یہ دو عظیم نشانیاں ہیں جو اللہ کی طرف سے آئی ہیں۔ ان میں سے ایک محمد عربی ہیں اور دوسرا چنگیز خان ہے۔ پس یہ ان کا وہ انتہائی عقیدہ ہے جس کے ذریعے وہ مسلمانوں کا قرب تلاش کرتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کے رسول جو مخلوق میں سے سب سے بزرگ ' اولاد آدم کے سردار اور نبیوں کی مہر ہیں' انہیں اور ایک کافر اور مشرکین میں سب سے بڑھ کر مشرک' فسادی' ظالم اور بخت نصر کی نسل کو برابر قرار دیا؟ ۔ ان تاتاریوں کا چنگیز خان کے بارے عقیدہ بہت ہی گمراہ کن تھا۔ ان نام نہاد مسلمان تاتاریوں کا تو یہ عقیدہ تھا کہ چنگیز خان اللہ کا بیٹاہے اور یہ عقیدہ ایسا ہی ہے جیسا کہ عیسائیوں کا حضرت مسیح کے بارے عقیدہ تھا۔ یہ تاتاری کہتے ہیں کہ چنگیز خان کی ماں سورج سے حاملہ ہوئی تھی ۔ وہ ایک خیمہ میں تھی جب سورج خیمہ کے روشندان سے داخل ہوا اور اس کی ماں میں گھس گیا۔ پس اس طرح اس کی ماں حاملہ ہو گئی ۔ ہر صاحب علم یہ بات جانتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے...اس کے ساتھ ان تاتاریوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ وہ چنگیز خان کو اللہ کا عظیم ترین رسول قرار دیتے ہیں کیونکہ چنگیز خان نے اپنے گمان سے ان کے لیے جو قوانین جاری کیے ہیں یا مقرر کیے ہیں یہ ان قوانین کی تعظیم کرتے ہیں اور ان کا معاملہ تو یہ ہے کہ جو ان کے پاس مال ہے ' اس کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ یہ چنگیز خان کا دیا ہوا رزق ہے اور اپنے کھانے اور پینے کے بعد(اللہ کی بجائے) چنگیز خان کا شکر اداکرتے ہیں اور یہ لوگ اس مسلمان کے قتل کو حلال سمجھتے ہیں جو ان کے ان قوانین کی مخالفت کرتا ہے جو اس کافر ملعون' اللہ ' انبیاء و رسل ' محمد عربی اور اللہ کے بندوں کے دشمن نے ان کے لیے مقرر کیے ہیں۔ پس یہ ان تاتاریوں اور ان کے بڑوں کے عقائدہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ اسلام لانے کے بعد محمد عربی کو چنگیز خان ملعون کے برابر قرار دیتے ہیں۔
اختصار کے ساتھ یوں کہ:
اللہ کے رسول کو چنگیز خان کے برابر قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا بیٹا قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا رسول قرار دینا اور اس کے دیے گئے قوانین کی تعظیم کرنا' مجموعہ قوانین 'الیاسق' کا انکار کرنے والے مسلمانوں کے خون کو حلال سمجھنا اور کھانے پینے کے بعد چنگیزخان کا شکر ادا کرنا وغیرہ ایسے صریح کفریہ عقائد ہیں کہ جن کے کفر اکبر ہونے میں دو بندوں کا بھی اختلاف ممکن نہیں ہے لہذا 'الیاسق' کے مجموعہ قوانین کے بارے تاتاریوں کا جو رویہ اور عقیدہ تھا وہ اعتقادی کفر کا تھا اور اعتقادی کفر کی بنیاد پر سلفی علماء تکفیر کے قائل ہیں۔


یہ تو ہم نے نہیں کہا کہ دور حاضر کے خوارج آخری خوارج ہیں!! ہم نے تو آپ کو حدیث نبوی صلی اللہ علیہ پیش کی ہے، جس سے خوارج کا ہر دور میں ممکن ہونا ثابت ہوتا ہے!!
دوم یہ کہ بلکل ہم کسی پروپگنڈے کی بنیاد پر کسی کو بھی خوارج نہیں کہتے!! اور نہ ہی ہم خوارج کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کسی کی بلا حق تکفیر کرتے ہیں!!

آمین!
محترم -

خوارج تکفیرو خروج علی الإمام کی بنا خوارج کہلاے - مختصراً میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دور حاضرمیں پہلے آپ امامت (یعنی خلافت ) ثابت کریں پھراس امام کی خلافت کے خلاف کھڑے ہونے والے باغی کو خوارج قرار دینا جائزہوگا- دور حاضر میں خوارج خوارج کی رٹ لگانے والے حقیقت میں مسلم ممالک میں کفریہ جمہوری نظام کو جائز سمجھتے ہیں -اسی بنا پر انھیں خلافت علی منہاج النبوہ اور دورحاضر کے کفریہ جمہوری نظام میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا اور وہ حکومت وقت کی خللاف ادنی سازش کو بھی خوارجی تحریک سمجھنے لگتے ہیں- اسی بنا پر وہ علماء وقت جو کسی پر تکفیر کے مجاز ہیں- جن کے مدارس حکومت وقت کی تنخواہ اور اس کے اخراجات کے مرہون منّت ہیں وہ ان پر کفر کے فتویٰ لگانے میں تساہل سے کام لیتے ہیں - اور اس کے نتیجے میں حکومت وقت کی خلاف ہر تحریک خوارجی تحریک کہلانے لگتی ہے -

آپ نے فرمایا ہے کہ :
اللہ کے رسول کو چنگیز خان کے برابر قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا بیٹا قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا رسول قرار دینا اور اس کے دیے گئے قوانین کی تعظیم کرنا' مجموعہ قوانین 'الیاسق' کا انکار کرنے والے مسلمانوں کے خون کو حلال سمجھنا اور کھانے پینے کے بعد چنگیزخان کا شکر ادا کرنا وغیرہ ایسے صریح کفریہ عقائد ہیں کہ جن کے کفر اکبر ہونے میں دو بندوں کا بھی اختلاف ممکن نہیں ہے لہذا 'الیاسق' کے مجموعہ قوانین کے بارے تاتاریوں کا جو رویہ اور عقیدہ تھا وہ اعتقادی کفر کا تھا اور اعتقادی کفر کی بنیاد پر سلفی علماء تکفیر کے قائل ہیں۔

کیا دور حاضر میں پارلیمانی نظام حکومت بھی اسی قانون یاسق کا پیش خیمہ نہیں -کسی مسلم ملک کی پارلیمنٹ اگر شریعت کا کوئی حکم ملک میں نافذ کرتی ہے مثال کے طور پر قاتل کو گردن زنی کی سزا دینا یا چور کے ہاتھ کاٹنا وغیرہ اور ساتھ ہی وہ ہم جنس پرستی کا قانون بھی نافذ العمل کرتی ہے- تو کیا یہ الله کے احکامات کے معاملے میں کفر نہیں- پارلیمنٹ تو صرف جمہور کی راے کو دیکھتی ہے وہ الله کے احکامات کو بھی صرف جمہور کی راے پر قانون بناتی ہے جو کہ صریح کفر ہے- اللہ کا قانون جمہورکا پابند نہیں ہے- اب اس صورت میں دور حاضر کے حکمرانوں کے خلاف جہاد کرنا کیا خوارجی سوچ کے کہلاے گا ؟؟؟ مجھے یقین ہے کہ امام ابن تیمیہ رح اگر آج زندہ ہوتے تو اس دور حاضر کے حکمرانوں کو تاتاریوں کی طرح ہی کافر ہی قرار دیتے-

دجال کے ساتھ خوارج کے آخری گروہ کا نکلنا اس لئے بھی ممکن ہے کہ روایات کی رو سے دجال اور امام مہدی رح کا دور ایک ہی ہو گا وہ دونوں ایک دور میں موجود ہونگے - اور وہ خلافت علی منہاج النبوہ کا دورہو گا - مہدی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے ہی "اصلی خوارج" ہونگے - یہ ان لوگوں اورعلماء کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے جو مروجہ جمہوری اور بادشاہی نظام حکومت کو عین اسلامی سمجھتے ہیں-

لہذا دور حاضر میں خوارج کو ثابت کرنے کے لئے پہلے امامت (خلافت ) کو ثابت کرنا ضروری ہے -
 
Top