• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خوارج کے بارے میں حکم؟

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
خوارج تکفیرو خروج علی الإمام کی بنا خوارج کہلاے - مختصراً میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دور حاضرمیں پہلے آپ امامت (یعنی خلافت ) ثابت کریں پھراس امام کی خلافت کے خلاف کھڑے ہونے والے باغی کو خوارج قرار دینا جائزہوگا-
یعنی کہ اس حدیث سے تو آپ کا مؤقف ثابت نہیں ہوتا مگر آپ نے نے تو بہت واشگاف الفاظ میں کہا تھا:
یہ روایت صاف ظاہر کرتی ہے کہ خوارج حقیقی طور پر دور قدیم میں حضرت علی رضی الله عنہ کے دور خلافت میں ہی نمودار ہوے تھے - اس کے بعد کسی خاص گروہ پر خوارج کا الزام لگانا دانشمندی نہیں- اور اسلامی تاریخ کے مطابق عباسی دور کے وسط تک شورشیں جاری رہیں-
اب آپ الگ مدعا پیش کر ہے ہیں!!
دور حاضر میں خوارج خوارج کی رٹ لگانے والے حقیقت میں مسلم ممالک میں کفریہ جمہوری نظام کو جائز سمجھتے ہیں -اسی بنا پر انھیں خلافت علی منہاج النبوہ اور دورحاضر کے کفریہ جمہوری نظام میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا اور وہ حکومت وقت کی خللاف ادنی سازش کو بھی خوارجی تحریک سمجھنے لگتے ہیں- اسی بنا پر وہ علماء وقت جو کسی پر تکفیر کے مجاز ہیں- جن کے مدارس حکومت وقت کی تنخواہ اور اس کے اخراجات کے مرہون منّت ہیں وہ ان پر کفر کے فتویٰ لگانے میں تساہل سے کام لیتے ہیں - اور اس کے نتیجے میں حکومت وقت کی خلاف ہر تحریک خوارجی تحریک کہلانے لگتی ہے -
خلافت علی منہاج النبوہ تو صرف تیس سال رہی، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
حَدَّثَنَا سَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ أَوْ مُلْكَهُ، مَنْ يَشَاءُ<. قَالَ سَعِيدٌ: قَالَ لِي سَفِينَةُ: أَمْسِكْ عَلَيْكَ أَبَا بَكْرٍ سَنَتَيْنِ، وَعُمَرُ عَشْرًا، وَعُثْمَانُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ، وَعَلِيٌّ كَذَا، قَالَ سَعِيدٌ: قُلْتُ لِسَفِينَةَ: إِنَّ هَؤُلَاءِ يَزْعُمُونَ أَنَّ عَلِيًّا- عَلَيْهِ السَّلَام- لَمْ يَكُنْ بِخَلِيفَةٍ؟ قَالَ: كَذَبَتْ أَسْتَاهُ بَنِي الزَّرْقَاءِ.- يَعْنِي: بَنِي مَرْوَانَ
سنن أبي داؤد: كتاب السنة بَاب فِي الْخُلَفَاءِ

(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ) سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نبوت کی خلافت تیس سال رہے گی پھر اللہ تعالی اپنا ملک جسے چاہے گا عنائت کرے گا۔ سعید بن جمہان نے کہا کہ حضرت سفینہ ‎‎نے مجھے کہا حساب لگا لو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دو سال حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دس سال اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارہ سال اور اسی طرح کچھ حضرت علی رضی اللہ عنہ۔سعید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سفینہ سے کہا کہ یہ بنومروان سمجھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ نہ تھے تو انھوں نے کہا بنی زرقاء کے پچھلے حصوں نے جھوٹ بولا ہے ۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ مَنْ يَشَاءُ- أَوْ مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ-<.
سنن أبي داؤد: كتاب السنة بَاب فِي الْخُلَفَاءِ

سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” نبوت کی خلافت تیس سال تک رہے گی ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنا ملک جسے چاہے گا دیدے گا ۔ “

اس حدیث کو شیخ البانی و زبیر علی زئی نے صحیح و حسن قرار دیا ہے! لیکن میں آپ کو ان کی تصحیح پیش نہیں کرتا! میں آپ کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا کلام پیش کرتا ہوں:
وَثَبَتَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: {خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَصِيرُ مُلْكًا}
ملاحظہ فرمائیں عکس: صفحه 406 جلد 03 - مجموع فتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف

فَإِنْ قَالَ: أَرَدْتُ بِقَوْلِي أَنَّ أَهْلَ السُّنَّةِ يَقُولُونَ: إِنَّ خِلَافَتَهُ انْعَقَدَتْ بِمُبَايَعَةِ الْخَلْقِ لَهُ لَا بِالنَّصِّ.
فَلَا رَيْبَ أَنَّ أَهْلَ السُّنَّةِ وَإِنْ كَانُوا يَقُولُونَ: إِنَّ النَّصَّ عَلَى أَنَّ عَلِيًّا مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ، لِقَوْلِهِ: " «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً» "، فَهُمْ يَرْوُونَ النُّصُوصَ الْكَثِيرَةَ فِي صِحَّةِ خِلَافَةِ غَيْرِهِ.

ملاحظہ فرمائیں عکس: صفحه 454 جلد 01 - منهاج السنة النبوية لشيخ الإسلام ابن تيمية - جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية

وَأَمَّا عُلَمَاءُ أَهْلِ السُّنَّةِ الَّذِينَ لَهُمْ قَوْلٌ [يُحْكَى] فَلَيْسَ فِيهِمْ مَنْ يَعْتَقِدُ أَنَّ يَزِيدَ وَأَمْثَالَهُ مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَالْأَئِمَّةِ الْمَهْدِيِّينَ ، كَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - بَلْ أَهْلُ السُّنَّةِ يَقُولُونَ بِالْحَدِيثِ الَّذِي فِي السُّنَنِ: " «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَصِيرُ مُلْكًا» " .
ملاحظہ فرمائیں عکس: صفحه 522 جلد 04 - منهاج السنة النبوية لشيخ الإسلام ابن تيمية - جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية

آپ نے فرمایا ہے کہ :
اللہ کے رسول کو چنگیز خان کے برابر قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا بیٹا قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا رسول قرار دینا اور اس کے دیے گئے قوانین کی تعظیم کرنا' مجموعہ قوانین 'الیاسق' کا انکار کرنے والے مسلمانوں کے خون کو حلال سمجھنا اور کھانے پینے کے بعد چنگیزخان کا شکر ادا کرنا وغیرہ ایسے صریح کفریہ عقائد ہیں کہ جن کے کفر اکبر ہونے میں دو بندوں کا بھی اختلاف ممکن نہیں ہے لہذا 'الیاسق' کے مجموعہ قوانین کے بارے تاتاریوں کا جو رویہ اور عقیدہ تھا وہ اعتقادی کفر کا تھا اور اعتقادی کفر کی بنیاد پر سلفی علماء تکفیر کے قائل ہیں۔

کیا دور حاضر میں پارلیمانی نظام حکومت بھی اسی قانون یاسق کا پیش خیمہ نہیں -
پیش خیمہ پر بھی کیا وہی حکم صادر ہوتا ہے جو نتیجہ پر ہو!!! فتدبر!
دوسری بات پالیمانی نظام حکومت کو قانون یاسق کا پیش خیمہ قرار دینے کے دلائل ؟
کسی مسلم ملک کی پارلیمنٹ اگر شریعت کا کوئی حکم ملک میں نافذ کرتی ہے مثال کے طور پر قاتل کو گردن زنی کی سزا دینا یا چور کے ہاتھ کاٹنا وغیرہ اور ساتھ ہی وہ ہم جنس پرستی کا قانون بھی نافذ العمل کرتی ہے- تو کیا یہ الله کے احکامات کے معاملے میں کفر نہیں-
تو اگر مگر کی نہ بات کر، جوہوا ہے مجھے وہ بتا!!
دوم کہ کسی عمل کا کفر ہونا اور کسی شخص کا کافر ہونا دو الگ الگ باتیں ہیں!! فتدبر!
ارلیمنٹ تو صرف جمہور کی راے کو دیکھتی ہے وہ الله کے احکامات کو بھی صرف جمہور کی راے پر قانون بناتی ہے جو کہ صریح کفر ہے- اللہ کا قانون جمہورکا پابند نہیں ہے-
یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہے!! کہ پارلیمنٹ صرف جمہور کی رائے کو دیکھتی ہے!!
اب اس صورت میں دور حاضر کے حکمرانوں کے خلاف جہاد کرنا کیا خوارجی سوچ کے کہلاے گا ؟؟؟
تخیلات میں تو آپ جو چاہئیں صورتیں بنا لیں!! لیکن پھر اللہ کے واسطے ! حکمرانوں کے خلاف یہ نام نہاد جہاد بھی تخیلات میں ہی کرتے رہیں!!
مجھے یقین ہے کہ امام ابن تیمیہ رح اگر آج زندہ ہوتے تو اس دور حاضر کے حکمرانوں کو تاتاریوں کی طرح ہی کافر ہی قرار دیتے-
ایں خیال است و محال است و جنوں!!
دجال کے ساتھ خوارج کے آخری گروہ کا نکلنا اس لئے بھی ممکن ہے کہ روایات کی رو سے دجال اور امام مہدی رح کا دور ایک ہی ہو گا وہ دونوں ایک دور میں موجود ہونگے - اور وہ خلافت علی منہاج النبوہ کا دورہو گا - مہدی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے ہی "اصلی خوارج" ہونگے - یہ ان لوگوں اورعلماء کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے جو مروجہ جمہوری اور بادشاہی نظام حکومت کو عین اسلامی سمجھتے ہیں-
بھائی جان! دجال کے ساتھ یقیناً آخری خوارج نکلیں گے!! اور وہ دور یقیناً خلافت علی منہاج النبوۃ کا ہوگا۔ اور مہدی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے یقیناً اصلی خواری ہونگے!
لیکن آپ نے یہ جو لکھا ہے کہ :
مہدی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے ہی "اصلی خوارج" ہونگے -
آپ کی یہ بات گزشتہ پیش کی جانے والی احادیث کے خلاف ہے!! کہ وہی ایک گروہ اصلی خوارج کا ہوگا!! جبکہ آپ کو حدیث نبوی صلی اللہ علیہ پیش کی جا چکی ہے! فتدبر!
لہذا دور حاضر میں خوارج کو ثابت کرنے کے لئے پہلے امامت (خلافت ) کو ثابت کرنا ضروری ہے -
بھائی جان آپ کو احادیث پیش کی گئی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خلافت علی منہاج النبوہ تیس سال رہے گی، پھر مملکت قائم ہو جوئے گی!!
اور دوسری حدیث خوارج ہر دور میں نکلتے رہیں گے!!
اب ان دو احادیث سے آپ کا مدعا غلط ثابت ہوتا ہے کہ خوارج اسی وقت ہو سکتے ہیں کہ جب امامت (خلافت) موجود ہو گی!! فتدبر!!
لیکن یہ تو آپ نے بتایا ہی نہیں اباضیہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا آپ کی نظر میں وہ بھی خوارج نہیں؟؟

ایک التماس: عبدہ بھائی سے گفتگو کے دوران صارفین کوئی نئی بحث شروع نہ کریں تو تھریڈ کی بحث بے ترتیب نہیں ہوگی!!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
عبدہ بھائی! میں آپ کی تحریر سے آپ کے مدعا کی تلخیص بیان کرتا ہوں ، اگر کوئی بات رہ گئی ہو تو بیان کردیں!پھر ہم آپ کے مدعا کو شیخ امین اللہ پشاوری کی تحریر پر پیش کریں گے۔ ان شاء اللہ!
حترم بھائی یہ تحریر جس بھائی نے لکھی تھی اسکے بعد اسنے اسکو شیئر کرنے کی بجائے پس پردہ ڈال دی کیونکہ اس میں تو خؤد اپنے پاوں پر کلہاڑی مارنے والی بات تھی کیونکہ اس میں انہوں نے اپنے تکفیر کے فتووں سے رجوع کرنے کی بجائے انکی تثبیت کی ہے پس فیس بک بھی جو یہ شیئر کرتا تھا وہ اس پر بات نہیں کر سکتا تھا پس آپ پہلے اسکو پڑھیں اور بتائیں کہ اس میں اپنے فتووں سے رجوع ہے یا انکی تثبیت ہے جیسا کہ شائع کرنے والے نے پہلے خود لکھا کہ انکے واضح حکمرانوں کی تکفیر معین کے فلاں فلاں فتوے دیکھ کر مجھے دکھ ہوتا تھا مگر ان انہوں نے ان فتووں سے رجوع کر لیا لیکن سوال کو دیکھیں تو اس میں انکے اپنے رجوع کے بارے یہ سوال ہی نہیں اور وہ آگے کہتے ہیں کہ میں نے اپنے فتووں میں کسی مسلمان کی تکفیر نہیں کی یعنی انہوں نے اپنے پرانے تمام فتووں کو درست قرار دیا کیونکہ مسلمان کی تو کوئی تکفیر کرتا ہی نہیں تکفیر تو کی ہی کافر کی جاتی ہے واللہ اعلم
آپ کا مدعا: شیخ امین اللہ پشاوری نے حکمرانوں کی تکفیر معین کے فتاوی سے رجوع نہیں کیا بلکہ ان کی تثبیت کی ہے، کیونکہ مسلمان کی تو کوئی تکفیر کرتا ہی نہیں تکفیر تو کی ہی کافر کی جاتی ہے۔
محترم بھائی شیخ امین اللہ کی بات کی میری تاویل میرے علم کے مطابق بالکل درست ہے البتہ شاید میں آپ کو سمجھا نہیں سکا اور آپ کو مغالطہ لگا جس میں معذرت خواہ ہوں
میں نے اوپر کہیں ہندو اور سکھ کووغیرہ کی تکفیر کا نہیں کہا بلکہ کہا ہے کہ جب کسی کی تکفیر کی جاتی ہے تو وہ تب کی جاتی ہے جب وہ کافر ہو چکا ہوتا ہے یعنی مسلمان نہیں رہتا لوگ اسکو اہل اسلام (اسلام کی طرف منسوب) میں سے کہتے ہوں تو کہتے رہیں مگر وہ مسلمان نہیں ہوتا مثلا سلمان رشدی اہل اسلام (اسلام کی طرف منسوب) تو کہا جا سکتا ہے مگر وہ مسلمان نہیں پس اسکی جب تکفیر کی گئی تھی وہ مسلمان نہیں تھا ہاں اہل اسلام یا اسلام کی طرف منسوب کوئی کہنا چاہے تو کیا اعتراض کیا جا سکتا ہے
یہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ تکفیر کامطلب ہے کسی کو کافر کہنا یعنی یہ ایک حکم ہے جو عمل پر لگتا ہے اور لازما عمل کے بعد لگتا ہے یعنی نواقض اسلام کا عمل۔ پس جب نواقض اسلام کا کوئی مرتکب ہوتا ہے تو اس وقت وہ مسلمان نہیں رہتا بلکہ کافر ہو چکا ہوتا ہے تو تب ہی اسکو کافر کہ سکتے ہیں مثلا جب کوئی چور چوری کرے گا تو تب ہی اسکو چور کا فتوی لگائیں گے چوری سے پہلے تو کوئی لگا ہی نہیں سکتا
پس فتوی کے عربی الفاظ میں ہر جگہ خالی مسلم کا لفظ موجود ہے اور اردو ترجمہ میں جا بجا مسلم کی بجائے اسلام کی طرف منسوب یا اہل اسلام کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو اصل میں غلط فہمی کا سبب بنا ہے آگے میں فتوی کے الفاظ پر بات کروں گا ان شاءاللہ
آپ کا مدعا: کہ بوقت تکفیر معین جس پر حکم لگایا جا رہا ہوتا ہے وہ، مسلمان ہوتا ہی نہیں بلکہ کافر ہو چکا ہوتا ہے، اس لئے شیخ امین اللہ پشاوری کی تحریر کے یہ معنی ہیں کہ انہوں نے جس کی تکفیر کی ہے وہ پہلے سے کافر ہو گیا تھا، اس لئے انہوں نے کسی مسلمان کی تکفیر نہیں کی بلکہ کافر کی تکفیر کی!!اور تجمہ میں اہل اسلام کا لفظ استعمال کرنے سے غلط فہمی ہو رہی ہے جبکہ ترجمہ میں لفظ مسلم ہونا چاہئے۔
اب یہ بات تو پہلے اوپر واضح ثابت ہو چکی ہے اور رجوع چھاپنے والے نے بھی لکھ دیا ہے کہ ان کے فتاوی میں جا بجا واضح حکمرانوں کی تکفیر معین موجود ہے اور اس پر انہوں نے وہ عبارات بھی نقل کی ہے جن پر اگر کوئی اشکال ہو تو انکو نقل کر کے یہاں بات کی جا سکتی ہے
پس میرا پہلا سوال ہے کہ کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ انکے فتاوی میں حکمرانوں کی واضح تکفیر معین موجود ہے اگر آپ اتفاق نہیں کرتے تو پہلے اس پر وہ عبارات نقل کر کے بات ہو سکتی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ آپ سمیت کسی کو اس پر اختلاف نہیں ہو گا ااور پھر ظاہر ہے رجوع بھی تب ہو گا جب تکفیر معین ہو گی ورنہ پھر رجوع کس چیز کا
اب جب اتفاق ہے تو پھر ذرا یہ بتائیں کہ ایک اتنی واضح چیز جو ہم سب کو نظر آ رہی ہے وہ انکو نظر نہیں آ رہی کہ وہ کہ رہے ہیں کہ

وليس في فتاوينا تكفر أي مسلم

کہ ہمارے فتاوی میں کسی مسلمان کی تکفیر نہیں
پس یہ بات واضح ہے کہ انکی مراد یہ ہے کہ میں نے جو تکفیر کی ہوئی جو سب کو نظر آ رہی ہے اور جس پر سب میرا رجوع چھاپ کر پیش کر رہے ہیں تو وہ تکفیر مسلمان کی تکفیر نہیں بلکہ اسلام سے نکل جانے والے کافر کی تکفیر ہے اور تکفیر ایک فتوی ہوتا ہے اور ہمیشہ فتوی کسی کے عمل کے بعد دیا جاتا ہے
اور سوال میں بھی دیکھیں تو کسی ایسے رجوع کا تذکرہ ہی نہیں
آپ کا مدعا: چونکہ شیخ امین اللہ پشاوری کے فتاوی میں حکمرانوں کی تکفیر معین موجود ہے اور وہ یہ فرماتے ہیں کہ ہمارے فتاوی میں کسی مسلم کی تکفیر نہیں، یعنی کہ اس کا مطلب ہوا کہ شیخ ان حکمرانوں کو کافر ہی قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ انہوں نے کسی مسلمان کی تکفیر نہیں کی بلکہ کافر حکمرانوں کو کافر کہا ہے۔
مھترم بھائی اس بات سے تو کسی کو بھی اختلاف نہیں کہ خالی محض گمان تاویلات کی وجہ سے تکفیر کرنی ہی نہیں چاہئے مگر شیخ نے تو جہاں تکفیر کی ہے اور رجوع چھاپنے والے نے جہاں اس تکفیر کے حوالے نقل کیے ہیں وہاں شیخ نے کئی کئی پوانٹس میں قرآن و سنت کے دلائل دے کر ایسا ذکر کیا ہے پس شیخ نے جس کی تردید کی ہے وہ وہم اور گمان پر تکفیر والی بات کی تردید کی ہے اور یہ بالکل درست ہے
آپ نے مدعا دہرایاکہ : شیخ امین اللہ پشاوری نے اپنے فتاوی دین الخالص میں حکمرانوں کی وضح تکفیر معین شبہات، گمانات یا تایلات کی بجائے دلائل سے مزین کی ہے۔
مھترم بھائی اگر اس سے مراد آپ کی وہ نام نہاد مجاہدین ہیں جو قرآن و حدیث کو سمجھے بغیر محض تکفیر کی بنیاد پر پاکستان یا مسلم ممالک میں جہاد یا لڑائی شروع کر کے فساد اور جہاد کو بدنام کرنے کا سبب بن رہے ہیں اور اس میں انکو شرعی دلائل دے کر انکو منع کرنے والے علماء یا عوام کی ہی تکفیر شروع کر دیتے ہیں اور انکا قتل شروع کر دیتے ہیں تو انکے خارجی ہونے میں کیا اختلاف ہو سکتا ہے البتہ جہاں علماء کے ٹھوس دلائل موجود ہوں اس کے مطابق تکفیر کرنے والے کو خارجی کہنا درست نہیں اگرچہ دوسری طرف بھی کثیر علماء ہوں
آپ کا مدعا : نام نہاد مجاہدین جو قرآن وسنت کو سمجھے بغیر مسلم پاکستان یا مسلم ممالک میں فساد برپا کرنے اور انہیں اس فساد سے منع کرنے والوں کی تکفیر کرنے والے بلا اختلاف خارجی ہیں۔ لیکن جو علماء ٹھوس دلائل کے بنیاد پر تکفیر کرتے ہیں، ان علماء کو خارجی کہنا درست نہیں!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم - افسوس کہ ہمارے علماء ، عوام اور حکمران بھی تو محض گمان، شبہ اور تاویل کی بناء پر مجاہدین کو "خوارجی" گردانتے ہیں کیا یہ طرز عمل دینی اعتبارسے قابل ستائش ہے ؟؟؟؟-
بلکل درست! یہ بات بھی قطعی طور پر قابل ستائش نہیں کہ کسی کو معین کرکے محض گمان، شبہ اور تاویل کی بناء پر خوارج قرار دیا جائے! لیکن جب ان کے افعال و افکار کا وہ خود اقرار کریں تو معین حکم بھی لگایا جانا چاہئے، اور عمومی حکم تو رہے گا ہی!!
دوسرے یہ کہ امین الله صاحب فرما رہے ہیں کہ "میں بھی کہتا ہوں: ہم بھی اہل اسلام میں سے کسی کو کافر قرار نہیں دیتے جو(لا إله إلا الله محمد رسول الله)کا اقرار کرتا ہو اور کسی اعلانیہ کفر کا ارتکاب نہ کرے جس (کے کفر ہونے)کی کھلی دلیل اللہ کی طرف سے موجود ہو، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا: إلا یہ کے تمہیں ایسا کفر نظر آ جائے جس پر اللہ کی طرف سے کھلی دلیل موجود ہو۔جو لوگ محض گمانات، شبہات یا تاویلات کی بناء پر اہل اسلام کی تکفیر کرتے ہیں، ہم ان سے برئ الذمہ اور بیزار ہیں اور ہم اہل اسلام میں سے حکام اور عوام اور علماء و جہلاء، کسی کی بھی قطعا تکفیر نہیں کرتے۔ "

یہاں وضاحت مطلوب ہے کہ اگر کفربواح (کھلے ہوے کفر) پر بھی کسی کو (چاہے وہ حکمران ہو عام آدمی یا کوئی گروہ ہو)- اس کو کافر قرار نہ دیا جائے اور اس کے کفر سے پہلو تہی کی جائے جیسا کہ ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے- تو کیا اس کا نتیجہ کبھی مثبت نکل سکتا ہے؟؟؟- اب ظاہر ہے جب ہمارے علماء اور ان کے مدارس حکومت وقت کے مرہون منّت ہوں اور علماء میں بیشتر خود اسمبلی ممبر ہوں تو کیا یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ حکمرانوں کو کفر بواح پر فتویٰ صادر کریں گے ؟؟؟

دوسری صورت میں علماء کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ کون سا عمل کفر بواح ہے اور کون سا نہیں ہے - تا کہ لوگوں کو رہنمائی ملے اور تکفیر کا فتنہ ختم ہو-
بلکل درست فرمایا! لوگ نہ جانے کیسی کیسی باتیں کرتے پھرتے ہیں، علماء کو یہ ضرور واضح کرنا چاہئے!! اور سب سے پہلے یہ بات بتلانی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ‌ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ﴿سورة الإسراء36﴾
جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے۔
کہ لوگوں کو جنہیں علم نہیں اتنے بڑے بڑے فتوے بھی صادر نہیں کرنے چاہئیں!!
دوسری بات فتنہ تکفیر ختم تو نہیں ہوگا،لیکن ان پر قابو پایا جا سکتا ہے، جیسا کہ حدیث میں پیشن گوئی ہے کہ خوارج ہر دور میں نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا گروہ قرب قیامت دجال کے ساتھ نکلے گا!!
میرے خیال میں تو یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب امام احمد بن حنبل رح کی طرح کوئی عالم دیدہ دلیری سے اٹھے اورحکومت وقت سے ٹکرلے اور ان کے کفریہ اعمال پر فتویٰ لگاے - جیسا کہ امام صاحب نے خلق قرآن کے معاملے میں کیا تھا- لیکن فلوقت ایسا ممکن نظر نہیں آتا - ظاہر ہے کون عالم ایسا ہے جو ان کی طرح آزمائش برداشت کرسکے -
اس میں سبق ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نےخلق قرآن کے قائل ،و داعی حکمرانوں کی تکفیر معین نہیں کی، اور نہ ہی ان کے خلاف خروج کیا!!
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
شیخ امین اللہ پشاوری صاحب کے رجوع کو ایک طرف کردینا چاہیے ، اس پر بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ، اگر یہ بات ضروری ہے تو شیخ سے فون پر رابطہ کرکے دو منٹ میں یہ مسئلہ حل کروایا جاسکتا ہے ۔
ویسے میری نظر میں ابن داؤد صاحب نے جو رجوع پیش کیا ہے اور اس سے جو وہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں وہ ثابت ہورہا ہے ،، لیکن عبدہ بھائی نے جو بات بیان کی ہے احتمالا وہ بھی شیخ کی مراد ہوسکتی ہے ۔ واللہ اعلم ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سب سے قبل تو میں اس بات کی وضاحت کردوں کہ عبدہ بھائی اور دیگر تمام میرے لئے محترم ہیں! مجھے خود اپنی تحریر کی ترشی کا اندازہ ہو تا ہے ، کہ جو محبت اور مٹھاس عبدہ بھائی کی تحریر میں ہوتی ہے، میری تحریر کا وہ اسلوب نہیں ہوتا!! اسے آپ مزاج کی سختی، اور میری کمزوری سمجھیں!! یا پھر یوں کہ:
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کار تریاقی


بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی في تراجع العلماء رحمهم الله عن بعج فتاويهم
سؤال: لم يفی بعض العلماء بفتویً ثم يترجع عنها؟

الجواب: الحمد الله والصلاة والسلام علی رسوله محمد وآله وصحبه أجمعين.
أما بعد: فإن الله تعالی فرض علی أهل اليمان اتباع الحق أين كان ومتی وجدوه. وحرم عليهم التمادي في الباطل بعد ما علموه. ولذلك كان من عادة النبي صلی الله عليه وسلم وأصحابه والعلماء من السنة إذا اجتهدوا ثم أظهر لهم الخطأ في اجتهادهم تراجعوا عنه، اأفتوا بما يوافق الحق، ولم يبالوا بملام الناس. وهذا هوا الواجب علی مسلم يخاف الله تعالی والدار الآخرة.
أمثلة التراجعات:
1- رأی النبي صلی الله عليه وسلم الأنصار يلقحون التمر والنخل فقال:[لو لم تفعلوا كان خيرا لكم فنقصت التمر، فقال النبي صلی الله عليه وسلم: أنتم أعلم بأمور دنياكم].
وهذا معنی الحديث الذي رواه مسلم في صحيحه، وهو في المشكاة.
فقد رجع النبي صلی الله عليه وسلم عن اجتهاده.
2- وأذن الأخت أبي سعيد الخدری رضي الله عنه في النقلة من بيت زوجها، لما مات ثم أمرها بعد ما خرجت بأن تمكث في بيته إلی انقضاء العدة. [المشكاة باب العدة].
3- ورجع عمر الفاروق رضي الله عنه عن مسائل، كما فی إحكام الأحكام لإبن حزم.
4- ورجع ابن مسعود رضي الله عنه عن فتوی في جواز المتعة، ثم حرمها كما في القرطبي في سورة المؤمنون.
5- ورجع زيد بن ثابت رضي الله عنه إلی فتوی ابن عباس في مسألة طواف الوداع للخصائض، كما رواه البخاري رحمه الله في صحيحه.
6- ورجع ابن عباس رضی الله عنهما إلی فتوی أبي هريرة في مسألة العدة بأبعد الأجلين. كما رواه البخاري.
7- ورجع الإمام أبو حنيفة رحمه الله إلی قول الصاحبين في مسائل كثيرة.
8- وكذلك الشافعي رحمه الله له قول قديم وجديد في فقه الشافعي.
9- وأمثلة ذلك خارجة عن الحصر.
10- ولقد تراجع الأشعري رحمه الله وشيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله والإمام الذهبي عن مسألة التكفير.
فقد روي الذهبي في السير (۱۵/۸۸) قال الذهبي: رأيت للأشعري كلمة أعجبتني، وهی ثابتة رواها البيهقي، سمعت أبا حازم العبدري زاهر بن أحمد السرخسي يقول: لما قرب حضور أجل أبي الحسن الأشعري في داري ببغدار دعاني فأتيته، فقال: اشهد علی أني لا أكفّر أحداً من أهل القبلة، لأن الكل يشيرون إلی معبود واحد، وإنما هذه كله اختلاف العبارات.
قلت (الذهبي): بنحو هذا أدِينُ. وكذا كان شيخنا ابن تيمية في أواکر أيامه، يقول: أنا لا أُكَفِّرُ أحداً من الأمة ويقول: قال النبي صلي الله عليه وسلم:[لا يحافظ علی الوضوء إلا مؤمن] فمن لازم الصلوات بوضوء فهو مسلم.
وقال الذهبي: وبلغنا أن أبا الحسن تاب وصعد منبر البصرة، وقال: إني كنت أقول بخلق القرآن، وأنَّ الله لا يُریٰ بالأبصار، وأن الشزّ فِعِليّ ليس بقدريّ، وإني تائبٌ مُعتقِدُ الردِّ علی المعتزلة.
أقول: ونحن لا نكفّر أحداً من المسلمين الذي يقول: [لا إله إلا الله، محمد رسول الله]. ولم يأت بكفر بواح فيه برهان من الله.
كما قال النبي صلی الله عليه وسلم [إلا أن تروا كفرا بواحا عندكم فيه برهان من الله].
والذين يكفرون المسلمين بالظنون أو بالشبهات أو بالتسلسلات أو التأويلات: فنحن برآء عنهم. ونحن لانُكفِّرُ المسملين حُكَّاماً كانوا أو عَواماً، علماءً كانوا أو غير علماء.
فمن استدل بكلامنا بعد هذا في تكفير المسلمين فهو كاذب و مفتر۪ عليَّ.
وأنا أستغفر الله تعالی وأتوب إليه إن كان صدر تكفير المسلمين منی علی خطأ، فإني لم أتعمد ذلك. وليس في فتاوينا تكفيرُ أيّ مُسلم۪. والله الحمد!!
وأنا أقول: إن المسلم يجب عليه أن يحتاط في مسألة التكفير، فإنها خطيرة. والعوام الذين لا علم عندهم يجب عليهم الكفُّ من هذه المسألة.
وصلی الله علی نبينا محمد و آله وصحبه أجمعين.

وكتبه: أبو محمد أمين الله البشاوري
۲۶/۱۱/۱۴۳۴ ھ


علماء کا کسی فتوی سے رجوع کر لینا
سوال: کچھ علماء ایک فتوی دے کر بعد میں اس سے رجوع کیوں کر لیتے ہیں؟

الجواب:
الحمد رب العالمين والصلوة والسلام علی رسوله وآله وصحبه اجمعين ۔۔۔ اما بعد!
اللہ تعالی نے اہل ایمان پر حق کی پیروی فرض قرار دی ہے خواہ وہ حق کہیں سے بھی اور جب بھی ملے اور باطل کے آشکارہ ہو جانے پر، اسی پر جمے رہنے کو حرام قرار دیا ہے۔ اسی بناء پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور علماء سنت کا یہ شیوہ تھا کہ اپنی اجتہادی خطاء ظاہر ہونے پر وہ اس سے رجوع کر لیا کرتے تھے اور حق کے مطابق دوبارہ فتویٰ دیتے اور انہیں لوگوں کی ملامت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی، لہٰذا اللہ اور آخرت کا خوف رکھنے والے پر مسلمان پر یہی فرض ہے۔
رجوع کی مثالیں:
1- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار مدینہ کو کھجور کی پیوند کرتے دیکھا تو فرمایا: "تم اگر ایسا نہ کرو تو بہتر ہوگا پھر جب کھجور کی پیداوار کم ہو گئی تو فرمایا: تم اپنے دنیاوی معاملات کو مجھ سے زیادہ جانتے ہو۔"
صحیح مسلم کی اس روایت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد سے رجوع کیا۔
2- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی بہن کو اس کے خاوند کی وفات پر، عدت گزارنے کے لئے نقل مکانی کی اجازت دی پھر دوبارہ اسے واپس کا کر اپنے خاوند کے گھر میں ہی عدت گزارنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ (مشکوة باب العدة)
3- حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کئی ایک مسائل میں اپنے سابقہ قول سے رجوع فرمایا جیسا کہ ابن حزم رحمہ اللہ کی کتاب احکام الاحکام میں مذکور ہے۔
4- حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جوازِ متعہ کے اپنے مشہور فتویٰ سے رجوع فرمایا جیسا کہ امام قرطبی رحمہ اللہ نے سورۃ المومنون کی تفسیر میں ذکر کیا ہے۔
5- حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حائضہ کے لئے طوافِ وداع کے مسئلہ میں (اپنے قول سے) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے فتویٰ کی طرف رجوع کیا۔ (صحیح بخاری)
6- حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے حاملہ بیوہ کی عدت کے مسئلہ میں اپنا مؤقف چھوڑ کر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے فتویٰ کی طرف رجوع کیا۔ (صحیح بخاری)
7- امام ابو حنیفہ نے بہت سے مسائل میں اپنا قول ترک کرکے اپنے دونوں شاگردوں کا فتویٰ قبول کیا۔
8- اسی طرح فقہ شافعی میں بکثرت امام شافعی رحمہ اللہ کے ایسے اقوال ملتے ہیں جن میں ایک قول قدیم اور دوسرا قول جدید ہے (جس کا معنی ہے کہ انہوں نے اپنا قدیم فتویٰ ترک کر کے نیا فتویٰ جاری کیا۔)
9- اس قسم کی مثالیں بے شمار ہیں۔
10- متاخرین علماء میں سے امام ابو الحسن اشعری اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی مسئلہ تکفیر میں اپنے سابقہ مذہب سے رجوع کیا تھا۔
امام ذہبی رحمہ اللہ نے "السیر" (15/ 88) میں امام بیہقی رحمہ اللہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ ابو حازم زاہد بن احمد سرخسی فرماتے ہیں: امام اشعری رحمہ اللہ بغداد میں وقع میرے گھر میں جب فوت ہونے لگے تو انہوں نے مجھے بلوایا اور فرمایا: " گواہ رہنا کہ میں اہل قبلہ میں سے کسی کو کافر نہیں کہتا کیونکہ سب لوگ ایک ہی معبود کو مانتے ہیں اور (بظاہر نظر آنے والے اختلاف) صرف تعبیرات کے فرق کی وجہ سے ہے۔"
میں (ذہبی) کہتا ہوں میرا بھی یہی مسلک ہے اور اسی طرح ہمارے استاد ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اپنی زندگی کے آکری ایام میں فرمایا تھا کہ: "میں امت میں سے کسی کو کافر نہیں کہتا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [صرف مؤمن ہی وضوء کی حفاظت کرتا ہے۔] لہٰذا جو بھی وضوء کے ساتھ نمازوں کی پابندی کرتا ہے وہ مسلمان ہے۔"
امام ذہبی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: ہمیں خبر پہنچی کہ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ نے اپنے سابقہ مؤقف سے رجوع کیا اور بصرہ (کی مسجد) کے منبر پر چڑھے اور فرمایا: "میں قرآن کے مخلوق ہونے، (روز قیامت) اللہ تعالیٰ کے دیدارنہ ہونے اور شر کے قدری ہونے کی بجائے فعلی ہونے کا عقیدہ رکھتا تھا، اب میں ان سب عقائد سے توبہ کرتا ہوں اور (ان عقائد کے حامل) معتزلہ کی تردید کرتا ہوں۔
میں بھی کہتا ہوں: ہم بھی اہل اسلام میں سے کسی کو کافر قرار نہیں دیتے جو"لا إله إلا الله محمد رسول الله" کا اقرار کرتا ہو اور کسی اعلانیہ کفر کا ارتکاب نہ کرے جس (کے کفر ہونے)کی کھلی دلیل اللہ کی طرف سے موجود ہو، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا: إلا یہ کے تمہیں(ان کا) ایسا کفر نظر آ جائے جس پر اللہ کی طرف سے کھلی دلیل موجود ہو۔
جو لوگ محض گمانات، شبہات یا تاویلات کی بناء پر اہل اسلام کی تکفیر کرتے ہیں، ہم ان سے برئ الذمہ اور بیزار ہیں اور ہم اہل اسلام میں سے حکام اور عوام اور علماء و جہلاء، کسی کی بھی قطعا تکفیر نہیں کرتے۔ ہماری اس وضاحت کے بعد، جو کوئی بھی ہماری سابقہ تحریرات سے استدلال کرتے ہوئے اہل اسلام کو کافر کہے تو وہ جھوٹا اور افتراء پرداز ہو گا۔
اور میں اس بات پر اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور تائب ہوتا ہوں کہ ماضی میں اگر مجھ سے مسلمانوں کی تکفیر ہوئی ہو تو وہ جان بوجھ کر نہیں، بربناء خطاء ہے اور ہمارے فتاوی میں کسی مسلمان کی تکفیر موجود نہیں۔ ولله الحمد!!
میں کہتا ہوں: یقیناً مسلمان پر واجب ہے کہ مسئلہ تکفیر میں بہت احتیاط سے کام لے کہ یہ بہت خطرناک معاملہ ہے، خصوصاً عوام کو اس سے بہے زیادہ بچنا چاہئے کیونکہ ان کے پاس واجبی علم موجود نہیں ہوتا۔ میں اپنی بات اسی پر ختم کرتا ہون اور اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔
وصلی الله علی نبينا محمد وآله وصحبه اجمعين
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا مدعا: شیخ امین اللہ پشاوری نے حکمرانوں کی تکفیر معین کے فتاوی سے رجوع نہیں کیا بلکہ ان کی تثبیت کی ہے، کیونکہ مسلمان کی تو کوئی تکفیر کرتا ہی نہیں تکفیر تو کی ہی کافر کی جاتی ہے۔
شیخ امین اللہ پشاوری سے رجوع کے متعلق سوال ہوتا ہے کہ علماء رجوع کیوں کرتے ہیں، شیخ صاحب اس کی وجہ بتلاتے ہیں اور پھر اس کی مثالیں پیش کرتے ہیں ، جس میں دو مثالیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رجوع کی، چار صحابہ عمر بن خطاب، عبد اللہ بن مسعود، زید بن ثابت اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کے رجوع کی، امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمہ اللہ عنہما کے رجوع کی،ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کی اعتزالی عقیدہ سے رجوع کی، اور ابو الحسن اشعری اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ عنہم کی مسئلہ تکفیر میں رجوع کی مثالیں پیش کی!!
لیکن بقول آپ کے اس کے فوراً بعد شیخ نے اپنے فتاوی سے رجوع بیان نہیں کر رہے بلکہ اس کی تثبیت فرماتے ہیں!! اگر الفاظ میرے سخت نہ ہوں تو اس کا معنی تو یہ ہوا کہ شیخ امین اللہ پشاوری فرماتے ہیں کہ ان تمام نے تو اجتہادی غلطی کی تھی اور ان پر ان کی غلطی واضح ہو گئی، سو انہوں نے رجوع کر لیا، مگر میں اپنے فتاویٰ تکفیر سے رجوع نہیں کر رہا بلکہ ان کی تثبیت کر رہا ہوں!! کیونکہ میں نے جس کی بھی تکفیر کی ہے وہ بالکل صحیح ہے ۔
یہ بات بلکل غلط ہے!! شیخ امین اللہ پشاوری کا ان تمام رجوع کی مثالیں پیش کر کے اپنے حوالے سے جو بیان ہے، وہ شیخ امین اللہ پشاوی کا اپنے رجوع کا بیان ہی ہے!!
بلکل صحیح کسی کو بھی کوئی مسلمان، مسلمان سمجھتے ہوئے کافر نہیں کہتا، کافر اسے کہتا ہی اس وقت ہے جب وہ اسے کافر سمجھتا ہو!! اور جب مسئلہ تکفیر کی بات ہو تو اس سے مراد وہی ہوتے ہیں ، جو خود کو مسلمان کہلواتے ہیں، یعنی من قال لا اله الا اللہ محمد رسول الله!!
آپ کا مدعا: کہ بوقت تکفیر معین جس پر حکم لگایا جا رہا ہوتا ہے وہ، مسلمان ہوتا ہی نہیں بلکہ کافر ہو چکا ہوتا ہے، اس لئے شیخ امین اللہ پشاوری کی تحریر کے یہ معنی ہیں کہ انہوں نے جس کی تکفیر کی ہے وہ پہلے سے کافر ہو گیا تھا، اس لئے انہوں نے کسی مسلمان کی تکفیر نہیں کی بلکہ کافر کی تکفیر کی!!اور تجمہ میں اہل اسلام کا لفظ استعمال کرنے سے غلط فہمی ہو رہی ہے جبکہ ترجمہ میں لفظ مسلم ہونا چاہئے۔
اب کیا شیخ امین اللہ پشاوری نے ابو الحسن اشعری اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ عنہم کے مسئلہ تکفیر میں رجوع کی جو مثال دی ہے، وہ کیا ابو الحسن اشعری اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ عنہم نے انہیں مسلمان جانتے ہوئے تکفیر کی تھی ، جو بعد میں رجوع کر لیا!! انہوں نے بھی کافر سمجھتے ہوئے ہی اہل اسلام کی تکفیر کی ، جس سے انہوں نے رجوع کیا!!
یعنی کہ تکفیر کرتے ہوئے یہی سمجھا جاتا ہے کہ فلان کافر ہو چکا ہے، اور رجوع کرتے وقت یہ بات ظاہر ہو چکی ہوتی ہے کہ اس کا یہ فیصلہ کہ فلان کافر ہو چکا ہے غلط تھا، یا کم سے کم شبہ موجود ہے، یا اس کے پاس کوئی برہان نہیں !!لہٰذا وہ اپنے فتوی تکفیر سے رجوع کرتا ہے!! اب کسی ہندو ، سکھ ، عیسائی یا یہودی کو کافر کہنے سے کون رجوع کرے گا!! لہٰذا یہان اہل اسلام کہنا ہی صحیح بات ہے!!
آپ کا مدعا: چونکہ شیخ امین اللہ پشاوری کے فتاوی میں حکمرانوں کی تکفیر معین موجود ہے اور وہ یہ فرماتے ہیں کہ ہمارے فتاوی میں کسی مسلم کی تکفیر نہیں، یعنی کہ اس کا مطلب ہوا کہ شیخ ان حکمرانوں کو کافر ہی قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ انہوں نے کسی مسلمان کی تکفیر نہیں کی بلکہ کافر حکمرانوں کو کافر کہا ہے۔
عبدہ بھائی! اب اگر اسے الٹی گنگا بہانا نہ کہا جائے تو اور کسے کہا جا سکتا ہے!! شیخ کے فتاوی میں حکمرانوں کی تکفیر معین موجود ہے، اس پر بحث نہيں!! لیکن آپ شیخ کی تحریر کے ان الفاظ کا کیا کریں گے جو آپ کے مدعا کو باطل ٹھہراتے ہیں:
فنحن برآء عنهم. ونحن لانُكفِّرُ المسملين حُكَّاماً كانوا أو عَواماً، علماءً كانوا أو غير علماء.
فمن استدل بكلامنا بعد هذا في تكفير المسلمين فهو كاذب و مفتر۪ عليَّ.

اور ہم اہل اسلام میں سے حکام اور عوام اور علماء و جہلاء، کسی کی بھی قطعا تکفیر نہیں کرتے۔ ہماری اس وضاحت کے بعد، جو کوئی بھی ہماری سابقہ تحریرات سے استدلال کرتے ہوئے اہل اسلام کو کافر کہے تو وہ جھوٹا اور افتراء پرداز ہو گا۔
شیخ تو فرماتے ہیں کہ وہ اہل اسلام ( مسلمان) حکمام ، عوام اور علماء کی تکفیر نہیں کرتے اور اس کے بعد کلام سے ، یعنی تحریر و فتاوی سے کوئی اہل اسلام (مسلمانوں) کی تکفیر پر استدلال کرے گا تو وہ جھوٹا اور افتراء پرداز ہو گا۔ یہی الفاظ اس بارے میں بھی دلیل قاطع ہیں کہ شیخ نے اپنے فتاوی سے رجوع بیان کیا ہے!! وگرنہ یہ الفاظ : "فمن استدل بكلامنا بعد هذا ہماری اس وضاحت کے بعد، جو کوئی بھی ہماری سابقہ تحریرات سے استدلال کرتے" کہاں جائیں گے!!! جہاں تکفیر سے متعلق اپنے سابقہ کلام سے استدال کرنے سے منع کر دیا گیا!!
ویسے اسی طرح کی بات مقلدین حنفیہ کہتے ہیں کہ امام صاحب سے منقول قول :اتركوا قولي بكتاب الله، اور اتركوا قولي بخبر الرسول -صلى الله عليه وسلم میں امام صاحب کا یہ چیلنج ہے کہ میرا کوئی قول کتاب اللہ اور سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نہیں !
آپ نے مدعا دہرایاکہ : شیخ امین اللہ پشاوری نے اپنے فتاوی دین الخالص میں حکمرانوں کی وضح تکفیر معین شبہات، گمانات یا تایلات کی بجائے دلائل سے مزین کی ہے۔
تو کیا ابو الحسن اشعری اور شیخ الاسلام اب تیمیہ رحمہ اللہ نے جب تکفیر کی تھی تو کیا وہ شبہات، گمانات یا تاویلات کو بنیاد سمجھتے ہوئے کی تھی؟؟ یا جو دیگر مثالیں صحابہ رضی اللہ عنہم کے رجوع کی مثالیں اسی تحریر میں موجود ہیں انہوں نے شبہ کو شبہ ، گمان کو گمان اور تاویل کو تاویل جانتے ، سمجھتے بوجھتے وہ فتاوی دیئے تھے جس سے انہوں نے رجوع کیا؟
نہیں ! نہیں! بلکہ وہ اس وقت اپنے استدال کو صحیح سمجھ رہے تھے ، لیکن جب ان پر اپنے استدلال کا بطلان واضح ہوا، اور اپنے فتاوی میں دلیل سے استنباط اور اطلاق کا بطلان واضح ہوا، تب انہوں نے رجوع کیا!! جب بھی کوئی مفتی فتوی دیتا ہے، اس وقت وہ اپنی فتوی کو بزم خویش دلائل سے مزین ہی سمجھتا ہے، لیکن جب اس پر وہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ اس کے فتوی کی دلیل میں کوئی خامی تھی، یا اطلاق میں شبہ گمان یا تاویل، تو پھر وہ اس سے رجوع کرتا ہے!!
یہ بتائیے کہ جب ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ اعتزال کے عقیدے کے حامل تھے ، کیا اس وقت وہ اسے قرآن و حدیث کے دلائل سے مزین نہیں سمجھتے تھے!! یا آج کے اشعری و ماتریدی!! کیا یہ آج بھی اپنے عقائد کو قرآن و حدیث کے دلائل سے مزین نہیں سمجھتے!! بلکل یہ یہی سمجھتے ہیں!! لیکن جب کسی کو اللہ توفیق دیتا ہے اور اس پر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ اشعری ماتریدی عقائد قرآن و حدیث سے مزین نہیں بلکہ اس میں باطل تاویلات کا نتیجہ ہیں تو انسان رجوع کر لیتا ہے!! اللہ سب کو یہ توفیق دے!! آمین!
ہاں! یہ ممکن ہے کہ آپ شیخ امین اللہ پشاوری کے بیان کردہ دلائل اور اس کے اطلاق کو صحیح سمجھتے ہوں!! لہٰذا آپ گفتگو میں انہیں بیان کرنے کا حق بلکل رکھتے ہیں!! لیکن اس بات پر اسرار نہ کیا جانا چاہئے کہ شیخ امین اللہ پشاوری کا بھی یہی مؤقف ہے!!
آپ کا مدعا : نام نہاد مجاہدین جو قرآن وسنت کو سمجھے بغیر مسلم پاکستان یا مسلم ممالک میں فساد برپا کرنے اور انہیں اس فساد سے منع کرنے والوں کی تکفیر کرنے والے بلا اختلاف خارجی ہیں۔ لیکن جو علماء ٹھوس دلائل کے بنیاد پر تکفیر کرتے ہیں، ان علماء کو خارجی کہنا درست نہیں!
عبدہ بھائی! اگر حکم کی بات ہے تو خوارج کہلوائے جانے کے حقدار پہلے علماء ہیں، بعد میں عوام!! کیونکہ عوام کے پاس تو ایک عذر جہالت موجود ہے!!
یہ تو ان دلائل پر منحصر ہے کہ آیا ان کے پاس دلیل کیاہے اور طرز دلالت کیا ہے، کیونکہ سیدنا علی اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہم کی تکفیر کرنے والے بزعم خویش قرآن سے دلیل رکھتے تھے!!! فتدبر!!
میں تو کسی کو خارجی نہیں کہتا، سوائے چند ایک کے، اور وہ ویسے علماء و مفتیان ہیں!! جو اپنے اس منہج کا علی الاعلان بیان کرتے ہیں۔وگرنہ دیگر کے لئے میں صرف اتنا کہا کرتا ہوں کہ یہ خوارج کا طرز استدلال اور خوارج کے منہج سے موافقت اور ان کے نقش قدم پر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ:
وہی انداز ہے ظالم کا خوارج والا!!
نوٹ: شیخ امین اللہ پشاوی نے رجوع کیا یا نہیں کیا! اس بات سے قطع نظر ، کوئی اس بات کے پابند نہیں کہ اگر شیخ امین اللہ پشاوری نے رجوع کرلیا ہے تو اس پر بھی لازم آتا ہے کہ وہ بھی رجوع کرلے!! اور اگر نہیں کیا ہے تو وہ بھی رجوع نہ کرے!! لہٰذا شیخ امین اللہ پشاوری کے بیان کردہ دلائل سے اگر کوئی شخص متفق ہے تو وہ ان دلائل کو پیش کرنے میں حق بجانب ہے! اور جو اس سے متفق نہیں اسے چاہئے کہ ان دلائل کا بطلان بیان کرے!! لہٰذا موضوع وسخن وہ دلائل ہوں نہ کہ شیخ امین اللہ پشاوری۔
عبدہ بھائی! شیخ امن اللہ پشاوری کی اس تحریر پر میں اس سے زیادہ بحث کو مناسب نہیں سمجھتا، لیکن آپ کا حق ہے کہ آپ میرے اس مراسلے پر نقد تحریر کر سکتے ہیں۔ اور آپ کے اگلے جواب پر ہی اکتفاء کر کے شیخ امین اللہ پشاوری کے حوالے سے بحث کو ختم کردینے کے حق میں ہوں۔ آپ اپنی رائے بھی دیجئے گا؟
 
Last edited:

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
ویسے میری نظر میں ابن داؤد صاحب نے جو رجوع پیش کیا ہے اور اس سے جو وہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں وہ ثابت ہورہا ہے ،، لیکن عبدہ بھائی نے جو بات بیان کی ہے احتمالا وہ بھی شیخ کی مراد ہوسکتی ہے ۔ واللہ اعلم ۔
جزاکم اللہ خیرا محترم خضر حیات بھائی آپ نے ہمارے معاملے میں وقت نکال کر رائے دی
اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ آپ مجھ سے کہیں زیادہ علم میں راسخ ہیں اسی لئے ہو سکتا ہے کہ آپ کو جو سمجھ آئے میرا دماغ وہاں تک نہ پہنچ سکے
البتہ اپنی طرف سے یہ وضاحت کر دوں کہ میں ہٹ دھرمی کی وجہ سے حق سے انحراف بالکل نہیں کر رہا بلکہ میں جانتا ہوں کہ ایک سچے مومن کو سب سے زیادہ شدید محبت اللہ سے ہی ہوتی ہے پس جب میں اپنے بچوں یا ماں باپ کی وجہ سے سب تکلیفیں برداشت کر سکتا ہوں تو اپنے اللہ کے لئے کیوں ایسا نہیں کر سکتا چاہے وہ بات ولو علی انفسکم او الوالدین والاقربین کے تحت میرے اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو کیونکہ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ ان لوگوں میں سے ہوں جو خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں اور حق کی گواہی کو اشتروا بایات اللہ ثمنا قلیلا کے تحت بیچ دیتے ہیں پس میرا نہ ماننا صرف مجھے سمجھ نہ آنے کی وجہ سے ہے اور چونکہ میرا ذہن چونکہ دلائل کی روشنی میں اس کو رجوع نہیں مانتا تو میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ مخالفین کی درست بات کو حیلوں بہانوں سے رد کروں اور وہ مستقبل میں میری جائز بات کو بھی مشکوک بنا دیں جیسا کہ جہاد کو بدنام کرنے والے لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں پس ہمارے معاملے پر آج بھی میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا معاملہ ایسا ہی ہے

پس اپنے دل کی تسلی کے لئے آپ کی اوپر ہائیلائٹ کی گئی اس بات پر اپنے اشکالات رکھنا چاہوں گا کہ آپ کے نزدیک محترم ابن داود بھائی کی بات تو ثابت ہے البتہ میری بات کا احتمال ہو سکتا ہے
اگر آپ مناسب سمجھیں تو میرے نیچے اشکالات کی روشنی میں اسکی وضاحت کر دیں اور اگر آپ کو لگے کہ میرا دماغ اس قابل نہیں ہے تو مجھے معذور سمجھ لیں اور اللہ سے میرے لئے دعا کریں کہ من یرداللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین کے تحت میرے ساتھ بھی بھلائی والا معاملہ کر دے امین جزاکم اللہ خیرا

سب سے پہلے میں ترتیب وار کچھ پوائنٹ لکھتا ہوں جس میں فتوی کے متن کی وضاحت نمبر وار شامل ہو گی اگر کسی جگہ غلطی ہو تو نمبر کے ساتھ لکھ کر اختلاف بتا دیا جائے تاکہ مجھے سمجھنے میں آسانی ہو

فتاوی کے نقاط کی وضاحت:

1۔شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کے فتاوی میں مسلمان حکمرانوں کی واضح اور معین تکفیر موجود ہے اور رجوع چھاپنے والے بھائی نے بھی پہلے وہ پوائنٹ ان فتاوی سے نقل کیا ہے جن سے انکے نزدیک حکمرانوں کی تکفیر معین پر واضح استدلال موجود ہے اسکی تائید میں اوپر پوسٹ نمبر 75 میں کہا گیا ہے
شیخ کے فتاوی میں حکمرانوں کی تکفیر معین موجود ہے، اس پر بحث نہيں!!
2۔شیخ امین لا الہ پڑھنے والے کی تکفیر کرنے سے مطلقا انکار نہیں کرتے بلکہ صرف ناجائز تکفیر کا انکار کرتے جو اس لاالہ پڑھنے والے کی تکفیر ہے جو کفر بواح کا مرتکب نہ ہوا ہو البتہ جو کفر بواح کا مرتکب ہو اسکی تکفیر کے جائز ہونے پر انہوں نے رسول اللہ کا فرمان دلیل کے طور پر نقل کیا ہے جیسا کہ وہ کہتے ہیں
أقول: ونحن لا نكفّر أحداً من المسلمين الذي يقول: [لا إله إلا الله، محمد رسول الله]. ولم يأت بكفر بواح فيه برهان من الله.
میں بھی کہتا ہوں: ہم بھی اہل اسلام میں سے کسی کو کافر قرار نہیں دیتے جو"لا إله إلا الله محمد رسول الله" کا اقرار کرتا ہو اور کسی اعلانیہ کفر کا ارتکاب نہ کرے جس (کے کفر ہونے)کی کھلی دلیل اللہ کی طرف سے موجود ہو،
3-وہ تکفیری جو کسی مسلمان کی تکفیر محض گمان اور شبھات وغیرہ کی وجہ سے کرتے ہیں شیخ ان سے برات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں
والذين يكفرون المسلمين بالظنون أو بالشبهات أو بالتسلسلات أو التأويلات: فنحن برآء عنهم. ونحن لانُكفِّرُ المسملين حُكَّاماً كانوا أو عَواماً، علماءً كانوا أو غير علماء.
جو لوگ محض گمانات، شبہات یا تاویلات کی بناء پر اہل اسلام کی تکفیر کرتے ہیں، ہم ان سے برئ الذمہ اور بیزار ہیں اور ہم اہل اسلام میں سے حکام اور عوام اور علماء و جہلاء، کسی کی بھی قطعا تکفیر نہیں کرتے۔
یہاں بھی شیخ جس تکفیر سے برات کا اضہار کر رہے ہیں وہ ناجائز تکفیر یعنی شبہات والی تکفیر ہے اور جو کفر بواح پر اللہ کی طرف سے برھان (یعنی قرآن و حدیث کے دلائل) دیکھ کر تکفیر کرتے ہیں ان سے برات بالکل نہیں کرت رہے بلکہ خود کو ان میں شامل سمجھتے ہیں جیسا کہ اوپر نمبر 2 میں لکھا ہوا ہے پس جو اوپر ہائیلائٹ الفاظ ہیں کہ ہم مسلمانوں کی تکفیر نہیں کرتے اس سے مراد وہی تکفیر ہے جس سے شیخ نے برات کا اظہار کیا ہے کیونکہ اگر لا نکفر المسلمین سے مراد ہر قسم کی تکفیر مراد لے جائے کہ ہم جائز اور ناجائز کسی قسم کی تکفیر نہیں کرتے تو یہ اوپر نمبر 1 کے خلاف ہو جائے گی جس میں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ انہوں نے اپنے فتاوی میں واضح اور معین تکفیر کی ہوئی ہے

3۔اسکے بعد شیخ ان لوگوں کا جھوٹا ہونا بیان کرتے ہیں جو اس وضاحت کے باوجود انکے فتاوی سے مسلمانوں کی تکفیر پر استدلال کرتے ہیں جیسا کہ وہ کہتے ہیں
فمن استدل بكلامنا بعد هذا في تكفير المسلمين فهو كاذب و مفتر۪ عليَّ.
ہماری اس وضاحت کے بعد، جو کوئی بھی ہماری سابقہ تحریرات سے استدلال کرتے ہوئے اہل اسلام کو کافر کہے تو وہ جھوٹا اور افتراء پرداز ہو گا۔
اسکے دو احتمال ہو سکتے ہیں
پہلا یہ کہ ہمارے فتاوی میں کسی کی ناجائز تکفیر (یعنی شبہات پر مبنی تکفیر) نہیں ہے اور جو فتاوی سے اس ناجائز تکفیر پر استدلال کرتا ہے تو وہ مجھ پر جھوٹ باندھنے والا ہے
دوسرا یہ کہ ہمارے فتاوی میں کسی مسلمان کی جائز نا جائز کسی بھی قسم کی تکفیر نہیں ہے پس جو ان فتاوی سے استدلال کرتے ہوئے کسی مسلمان کی کسی بھی قسم کی تکفیر کرتا ہے تو وہ مجھ پر جھوٹ باندھنے والا ہے

اب اس میں دوسرے نمبر کا احتمال تو درست ہو ہی نہیں سکتا اسکے مندرجہ ذیل دلائل ہیں
×کفر بواح کی بنیاد پر جائز تکفیر کرنے کا انہوں نے اوپر نمبر 2 میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سمجھتے ہوئے اقرار کیا ہے پس صرف پہلا احتمال ہی باقی رہ جاتا ہے
×ایک اور بات یہ ثابت کرتی ہے کہ ان کی مراد لازمی پہلا احتمال ہی ہے وہ یہ کہ پہلے نمبر میں یہ اتفاق ہو چکا ہے کہ انکے فتاوی میں واضح معین تکفیر موجود ہے پس جب واضح تکفیر موجود ہے تو دوسرا احتمال کیسے درست ہو سکتا ہے کہ فتاوی میں کسی بھی قسم کی تکفیر موجود نہیں ہے
×انکے فتاوی کے حوالے نقل کر کے واضح تکفیر پر استدلال تو خؤد رجوع چھاپنے والے نے بھی کیا ہے اور ہم سب بھی اوپر نمبر 1 کے مطابق اس پر اتفاق کر رہے ہیں کہ انکے فتاوی میں جائز یا ناجائز میں سے کوئی تکفیر لازمی نظر آ رہی ہے تو کیا رجوع چھاپنے والے بھائی اور ہم سب پھر ان کے فتاوی کے الفاظ سے تکفیر پر استدلال کرنے کی وجہ سے جھوٹے نہیں ہو جائیں گے
×جب فتاوی میں واضح تکفیر موجود ہے تو شیخ کیسے کہ سکتے ہیں کہ ہمارے فتوی سے کوئی تکفیر نہیں پس جب وہ ایسا کہ رہے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ جو تکفیر ہمیں واضح نظر آ رہی ہے شیخ اس تکفیر کے ہونے کا انکار نہیں کر رہے بلکہ کسی اور تکفیر کے ہونے کا انکار کر رہے ہیں کیونکہ ایسی عبث بات تو کسی کم عقل سے بھی ممکن نہیں
×اگر شیخ اس تکفیر کا رد کرنا چاہتے تھے جو ہم سب کو انکے فتاوی میں نظر آ رہی ہے تو یہ نہ کہتے کہ وہاں تکفیر نہیں ہے بلکہ کہتے کہ وہاں تکفیر ہے اور میں اس تکفیر سے رجوع کرتا ہوں لیکن وہ تو یہاں کہ رہے ہیں کہ میرے علم کے مطابق وہاں کسی مسلمان کی (ناجائز) تکفیر نہیں لیکن اگر کوئی غلطی سے تکفیر ہو گئی ہے تو میں نے وہ غلطی سے کی ہو گی جس میں میں رجوع کرتا ہوں
×اس رجوع والی بات کو اب ایک مثال سے سمجھتے ہیں

رجوع کی مثال سے وضاحت:
ایک جج کے بارے یہ ریکارڈ پر ہے کہ اسنے کافی لوگوں (بشمول بھٹو) کو پھانسی دلوائی ہے اس پر پی پی والے الزام لگاتے ہیں کہ اسنے بے گناہ لوگوں کو پھانسی دلوائی ہے تو وہ جج اس الزام کے جواب میں جو کہتا ہے وہ اوپر شیخ کے رجوع والے الفاظ کے سے ملتے جلتے ہیں وہ نمبر وار نیچے لکھتا ہوں

1۔میں نے کسی انسان کو پھانسی نہیں دلوائی جب تک کہ اسکے خلاف واضح ثبوت نہ موجود ہوں کیونکہ واضح ثبوت کی صورت میں قانون مجھے پھانسی دینے پر پابند کرتا ہے
2۔جو جج محض شبہات وغیرہ کی بنیاد پر کسی کو پھانسی دلواتے ہیں میں ان سے برات کا اعلان کرتا ہوں اور میں نے کسی (بے گناہ) انسان کو پھانسی نہیں دلوائی چاہے حاکم ہو یا عوام
3۔پس جو کوئی پی پی والا ہماری اوپر وضاحت کے بعد ہمارے ماضی کے فیصلوں سے یہ استدلال کرے کہ ہم (بے گناہ) انسان کو پھانسی دلواتے ہیں تو وہ ہم پر جھوٹ باندھنے والا ہے
4۔اور میں اللہ سے معافی مانگتا ہوں اگر میں نے کسی (بے گناہ) انسان کی پھانسی کا حکم دیا ہو تو جان بوجھ نہیں بلکہ غلطی سے ہوا ہو گا اور (میرے علم کے مطابق) میرے فیصلوں میں کسی (بے گناہ) انسان کو پھانسی نہیں دی گئی

اب اس اوپر والے جواب کو پڑھ کر کوئی دعوی کر سکتا ہے کہ جو اس جج نے پھانسیاں دی ہیں انہوں نے سب پھانسیوں سے رجوع کر لیا ہے اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ
×وہ اپنی جائز دی گئی پھانسیوں کا دفاع کر رہا ہے اور
×ناجائز پھانسیوں سے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے ان سے برات کر رہا ہے
×ناجائز پھانسیوں کے وجود کا ہی انکار کر رہا ہے اگرچہ جائز پھانسیوں کے وجود کا انکار کر ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ ریکارڈ پر موجود ہیں

نوٹ:یہاں بریکٹ میں بے گناہ کے الفاظ کو لکھنا ضروری ہے ورنہ اسکو محذوف مانے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں کیونکہ اگر بے گناہ کو حذف کر کے عبارت پڑھیں تو مطلب یہ بنتا ہے کہ اسنے کوئی پھانسی دی ہی نہیں بلکہ یہ آن دی ریکارڈ موجود ہے کہ اسنے پھانسیاں دی ہیں

محترم خضر حیات بھائی کے تقوی اور سادگی اور علم کے اندر راسخ ہونے کی وجہ سے میں یہ گمان کرتا ہوں کہ انکے درست ہونے کے چانس زیادہ ہیں البتہ میں اپنے کم تر عقل کے ساتھ اتنا ہی سوچ سکتا ہوں پس محترم خضر حیات بھائی اگر مجھ کو معذور سمجھتے ہوئے درگزر کریں کہ میں انکی بات کو نہیں سمجھ سکا تو اس پر اللہ انکو جزائے خیر دے امین
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

یعنی کہ اس حدیث سے تو آپ کا مؤقف ثابت نہیں ہوتا مگر آپ نے نے تو بہت واشگاف الفاظ میں کہا تھا:

اب آپ الگ مدعا پیش کر ہے ہیں!!

خلافت علی منہاج النبوہ تو صرف تیس سال رہی، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
حَدَّثَنَا سَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ أَوْ مُلْكَهُ، مَنْ يَشَاءُ<. قَالَ سَعِيدٌ: قَالَ لِي سَفِينَةُ: أَمْسِكْ عَلَيْكَ أَبَا بَكْرٍ سَنَتَيْنِ، وَعُمَرُ عَشْرًا، وَعُثْمَانُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ، وَعَلِيٌّ كَذَا، قَالَ سَعِيدٌ: قُلْتُ لِسَفِينَةَ: إِنَّ هَؤُلَاءِ يَزْعُمُونَ أَنَّ عَلِيًّا- عَلَيْهِ السَّلَام- لَمْ يَكُنْ بِخَلِيفَةٍ؟ قَالَ: كَذَبَتْ أَسْتَاهُ بَنِي الزَّرْقَاءِ.- يَعْنِي: بَنِي مَرْوَانَ
سنن أبي داؤد: كتاب السنة بَاب فِي الْخُلَفَاءِ

(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ) سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نبوت کی خلافت تیس سال رہے گی پھر اللہ تعالی اپنا ملک جسے چاہے گا عنائت کرے گا۔ سعید بن جمہان نے کہا کہ حضرت سفینہ ‎‎نے مجھے کہا حساب لگا لو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دو سال حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دس سال اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارہ سال اور اسی طرح کچھ حضرت علی رضی اللہ عنہ۔سعید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سفینہ سے کہا کہ یہ بنومروان سمجھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ نہ تھے تو انھوں نے کہا بنی زرقاء کے پچھلے حصوں نے جھوٹ بولا ہے ۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ مَنْ يَشَاءُ- أَوْ مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ-<.
سنن أبي داؤد: كتاب السنة بَاب فِي الْخُلَفَاءِ

سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” نبوت کی خلافت تیس سال تک رہے گی ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنا ملک جسے چاہے گا دیدے گا ۔ “

اس حدیث کو شیخ البانی و زبیر علی زئی نے صحیح و حسن قرار دیا ہے! لیکن میں آپ کو ان کی تصحیح پیش نہیں کرتا! میں آپ کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا کلام پیش کرتا ہوں:
وَثَبَتَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: {خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَصِيرُ مُلْكًا}
ملاحظہ فرمائیں عکس: صفحه 406 جلد 03 - مجموع فتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف

فَإِنْ قَالَ: أَرَدْتُ بِقَوْلِي أَنَّ أَهْلَ السُّنَّةِ يَقُولُونَ: إِنَّ خِلَافَتَهُ انْعَقَدَتْ بِمُبَايَعَةِ الْخَلْقِ لَهُ لَا بِالنَّصِّ.
فَلَا رَيْبَ أَنَّ أَهْلَ السُّنَّةِ وَإِنْ كَانُوا يَقُولُونَ: إِنَّ النَّصَّ عَلَى أَنَّ عَلِيًّا مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ، لِقَوْلِهِ: " «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً» "، فَهُمْ يَرْوُونَ النُّصُوصَ الْكَثِيرَةَ فِي صِحَّةِ خِلَافَةِ غَيْرِهِ.

ملاحظہ فرمائیں عکس: صفحه 454 جلد 01 - منهاج السنة النبوية لشيخ الإسلام ابن تيمية - جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية

وَأَمَّا عُلَمَاءُ أَهْلِ السُّنَّةِ الَّذِينَ لَهُمْ قَوْلٌ [يُحْكَى] فَلَيْسَ فِيهِمْ مَنْ يَعْتَقِدُ أَنَّ يَزِيدَ وَأَمْثَالَهُ مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَالْأَئِمَّةِ الْمَهْدِيِّينَ ، كَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - بَلْ أَهْلُ السُّنَّةِ يَقُولُونَ بِالْحَدِيثِ الَّذِي فِي السُّنَنِ: " «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَصِيرُ مُلْكًا» " .
ملاحظہ فرمائیں عکس: صفحه 522 جلد 04 - منهاج السنة النبوية لشيخ الإسلام ابن تيمية - جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية


پیش خیمہ پر بھی کیا وہی حکم صادر ہوتا ہے جو نتیجہ پر ہو!!! فتدبر!
دوسری بات پالیمانی نظام حکومت کو قانون یاسق کا پیش خیمہ قرار دینے کے دلائل ؟

تو اگر مگر کی نہ بات کر، جوہوا ہے مجھے وہ بتا!!
دوم کہ کسی عمل کا کفر ہونا اور کسی شخص کا کافر ہونا دو الگ الگ باتیں ہیں!! فتدبر!

یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہے!! کہ پارلیمنٹ صرف جمہور کی رائے کو دیکھتی ہے!!

تخیلات میں تو آپ جو چاہئیں صورتیں بنا لیں!! لیکن پھر اللہ کے واسطے ! حکمرانوں کے خلاف یہ نام نہاد جہاد بھی تخیلات میں ہی کرتے رہیں!!

ایں خیال است و محال است و جنوں!!

بھائی جان! دجال کے ساتھ یقیناً آخری خوارج نکلیں گے!! اور وہ دور یقیناً خلافت علی منہاج النبوۃ کا ہوگا۔ اور مہدی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے یقیناً اصلی خواری ہونگے!
لیکن آپ نے یہ جو لکھا ہے کہ :

آپ کی یہ بات گزشتہ پیش کی جانے والی احادیث کے خلاف ہے!! کہ وہی ایک گروہ اصلی خوارج کا ہوگا!! جبکہ آپ کو حدیث نبوی صلی اللہ علیہ پیش کی جا چکی ہے! فتدبر!

بھائی جان آپ کو احادیث پیش کی گئی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خلافت علی منہاج النبوہ تیس سال رہے گی، پھر مملکت قائم ہو جوئے گی!!
اور دوسری حدیث خوارج ہر دور میں نکلتے رہیں گے!!
اب ان دو احادیث سے آپ کا مدعا غلط ثابت ہوتا ہے کہ خوارج اسی وقت ہو سکتے ہیں کہ جب امامت (خلافت) موجود ہو گی!! فتدبر!!
لیکن یہ تو آپ نے بتایا ہی نہیں اباضیہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا آپ کی نظر میں وہ بھی خوارج نہیں؟؟

ایک التماس: عبدہ بھائی سے گفتگو کے دوران صارفین کوئی نئی بحث شروع نہ کریں تو تھریڈ کی بحث بے ترتیب نہیں ہوگی!!
و علیکم السلام و رحمت الله -

محترم - معذرت کی ساتھ کہ آپ نے خوارج سے متعلق احادیث کا باریک بینی سے مطالعہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی آپ کی خوارج کی تاریخ سے متعلق آشنائی ہے - جس کی بنا آپ ان تمام روایات کا غلط مطلب کشید کررہے ہیں اور اس بات پر بضد ہیں کہ دور حاضر بلکہ ہر دور میں خوارج موجود ہیں-

مطلب اگر آپ کا کہنا ہے کہ احادیث میں ہے کہ "ہر دور " میں خوارج نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال اکبر کے ساتھ نکلے گا ؟؟ تو اس سے کیا مراد ہے - کیا ہر صدی ، یا ہر دور حکومت ( چاہے خلافت پر مبنی ہو یا کفریہ جمہوری حکومت ہو یا بادشاہت ہو وغیرہ )؟؟؟-

پھر یہ کہ ہر گروہ یا مسلمان ہر دور میں جو حاکم وقت کے خلاف خروج کرتا ہے اس کو کس بنا پر "خوارج" قرار دینا صحیح ہے ؟؟؟ صحابی رسول حضرت عبدللہ بن زبیر رضی الله عنہ اور حضرت حسین رضی الله عنہ کے خروج کے متعلق آپ کیا کہیں گے ؟؟ کیا وہ بھی اس اصول کے تحت خوارجیوں کی صف میں شامل نہیں ہو جائیں گے ؟؟ ان کا خروج بھی تو "ہر دور" میں شامل ہے ؟؟-

خوارج کی نشانیوں میں سے سب سے منفرد دو نشانیاں ہیں -

١-قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا -
مسند امام احمد بن حنبل 3 / 354، الرقم : 1461 ، بخاری شریف، کتاب : توحيد، باب : قراءة الفاجر و المنافق و أصواتهم و تلاوتهم لاتجاوز حناجرهم، 6 / 2748، الرقم : 712،
مسلم شریف، کتاب : زکوة باب : التحريض علي قتل الخوارج، 2 / 748، الرقم : 1066،

آج کتنے ہونام نہاد مسلمان و علماء ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں لیکن قرآن ان کے حلق سے نہیں اترتا - (یعنی قرآن کی باطل تاویلیں کرتے ہیں)- کیا یہ بھی خوارجی نہیں ؟؟

٢-خوارجیوں کی نشانی سر منڈانا اور ہمیشہ منڈائے رکھنا ہے۔
ابو داود شریف، کتاب : السنة، باب : قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم : 4765، ابن ماجة شریف، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 60، الرقم : 169،

آج کل مروجہ مسلمانوں کی تبلیغی جماعت اور دوسرے بہت سے علماء سر منڈا کر رکھتے ہیں- کیا یہ بھی خوارجی نہیں ؟؟

آپ کے نزدیک مروجہ پارلیمانی جمہوریت "کفر" نہیں -تو پھر اس آیت سے مراد کون لوگ ہیں جو اپنے فیصلے الله اور اس کے رسول کے نافذ کردہ قانون کے بجاے طاغوت کے زریے کرواتے ہیں؟؟-

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا سوره النساء ٦٠
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جواس چیز پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں جو تجھ پر نازل کی گئی ہے اور جو چیز تم سے پہلے نازل کی گئی ہے وہ چاہتے ہیں کہ اپنا فیصلہ طاغوت سے کرائیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ اسے نہ مانیں اور شیطان تو چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دو رجا ڈالے-

معاف کیجئے گا - تخیلات میں تو آپ ہے جن کو پارلیمانی جمہوریت کا واضح کفر نظر نہیں آ رہا- پارلیمنٹ کا تو سارا نظام ہی یہود و نصاریٰ کے قوانین کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا ہے - جس کی ترویج کے لئے وہ دن رات ایک کر رہے ہیں اور ہمارے حکمران اس کفر (جمہوریت) کی اساس پر زندہ ہیں- اور آپ که رہے ہیں کہ "حکمرانوں کے خلاف یہ نام نہاد جہاد بھی تخیلات میں ہی کرتے رہیں" ؟؟

اور جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے :
خلافت علی منہاج النبوہ تو صرف تیس سال رہی، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
حَدَّثَنَا سَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ أَوْ مُلْكَهُ، مَنْ يَشَاءُ<. قَالَ سَعِيدٌ: قَالَ لِي سَفِينَةُ: أَمْسِكْ عَلَيْكَ أَبَا بَكْرٍ سَنَتَيْنِ، وَعُمَرُ عَشْرًا، وَعُثْمَانُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ، وَعَلِيٌّ كَذَا، قَالَ سَعِيدٌ: قُلْتُ لِسَفِينَةَ: إِنَّ هَؤُلَاءِ يَزْعُمُونَ أَنَّ عَلِيًّا- عَلَيْهِ السَّلَام- لَمْ يَكُنْ بِخَلِيفَةٍ؟ قَالَ: كَذَبَتْ أَسْتَاهُ بَنِي الزَّرْقَاءِ.- يَعْنِي: بَنِي مَرْوَانَ سنن أبي داؤد: كتاب السنة بَاب فِي الْخُلَفَاءِ

تو محترم یہ حدیث ضعیف ہے -
محدثین نے اس روایت میں راوی سعید بن جمھان کو ضعیف قرار دیا ہے - (الضعفاء الكبير)-

بہرحال خوارج تکفیرو خروج علی الإمام کی بنا خوارج کہلاے تکفیرو خروج علی حاکم کفر پرخوارجیت نہیں ہوتی- امامت خلافت سے ہے نہ کہ کفریہ جمہوری یا بادشاہی نظام سے-
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم خضر حیات بھائی کے تقوی اور سادگی اور علم کے اندر راسخ ہونے کی وجہ سے میں یہ گمان کرتا ہوں کہ انکے درست ہونے کے چانس زیادہ ہیں البتہ میں اپنے کم تر عقل کے ساتھ اتنا ہی سوچ سکتا ہوں پس محترم خضر حیات بھائی اگر مجھ کو معذور سمجھتے ہوئے درگزر کریں کہ میں انکی بات کو نہیں سمجھ سکا تو اس پر اللہ انکو جزائے خیر دے امین
عبده بھائی ! شرمندہ نہ کریں ، اللہ آپ کوبرکت دے ، ان مسائل میں بحث و مباحثہ ہم آپ جیسے اہل علم اور اصحاب فکر و نظر سے سیکھتے ہیں ، پشاوری صاحب کے رجوع کو نظر انداز کریں ، اس پر اتنا زیادہ غور و فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ، اگر آپ کے پاس ان کا نمبر نہیں ہے تو میں آپ کو کہیں سے ان کا نمبر تلاش کردیتا ہوں ۔
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
ماشاء اللہ اگر یہ موضوع عنوان کے مطابق ہی چلتا تو اب تک بہت فائدہ ہو چکا ہوتا قدر اللہ و ما شاء فعل
میرے خیال سے اگر شیخ کے فتوی کے رجوع کی بات کرنی ہے تو وہ اسی تھریڈ میں کر لی جائے جہاں پہلے کسی دور میں ہوئی تھی اور جو عنوان ہے اس پر بات کر لی جائے
عبدہ بھائی کی بات بجا ہے کہ پہلے خوارج کی جامع مانع تعریف کی جائے جتنی بھی سابقین کی تعریف ہیں وہ انہون نے خوارج کی بعض صفات کو ملحوظ خاطر کر کی ہیں
اس کے بعد خوارج کے حکم پر بحث کی جائے
خوراج کی تعریف کے لحاظ سے کہ خوارج کی تعریف کیا ہے دکتور ھشام طاھری کی کتاب تقریر ائمۃ الدعوہ میں درج تعریف اچھی لگی ہے کل من خرج علی الامام الحق مع تکفیرھم المسلمین بالذنب غیر المکفر شرعا صفحہ ۸۲ تعریف ذکر کر کے اس پر دلائل بھی دیئے ہیں اور
تمام تعریفات ذکر کر کے جو وہ جمع کر سکے ان پر کلام کیا ہے کہ یہ جامع نہیں اور یہ مانع نہیں
کتاب کا لنک یہ ہے http://saaid.net/book/20/13298.pdf
اسی کتاب کو مختصر کر کے مکتبۃ طالب العلم جمعیۃ احیاء التراث کے مکتبہ ثامنہ میں شامل کر کے تقسیم بھی کیا گیا تھا
اگر کسی کو اس تعریف پر بھی اعتراض ہے تو وہ اعتراض کیا جائے ورنہ پھر اگلے مرحلے کی طرف چلیں خوارج کا حکم کیا ہے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
محترم - معذرت کی ساتھ کہ آپ نے خوارج سے متعلق احادیث کا باریک بینی سے مطالعہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی آپ کی خوارج کی تاریخ سے متعلق آشنائی ہے - جس کی بنا آپ ان تمام روایات کا غلط مطلب کشید کررہے ہیں اور اس بات پر بضد ہیں کہ دور حاضر بلکہ ہر دور میں خوارج موجود ہیں-
جناب! میں نے آپ کو حدیث بھی پیش کی ہے اور اس حدیث سے استدلال بھی پیش کیا ہے ! اگر استدلال میں کوئی خامی ہے تو وہ بیان کیجئے!! وہ باریک نکتہ بیان کریں جو میری نظر سے اوجھل ہو !! صرف یہ کہہ دینا کوئی حثیت نہیں رکھتا!!
مطلب اگر آپ کا کہنا ہے کہ احادیث میں ہے کہ "ہر دور " میں خوارج نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال اکبر کے ساتھ نکلے گا ؟؟ تو اس سے کیا مراد ہے - کیا ہر صدی ، یا ہر دور حکومت ( چاہے خلافت پر مبنی ہو یا کفریہ جمہوری حکومت ہو یا بادشاہت ہو وغیرہ )؟؟؟-
جی بالکل ! خوارج کا وجود اس وقت بھی ممکن ہے جب خلافت علی منہاج النبوۃ قائم نہ ہو! اور اس وقت بھی ممکن ہے جب بادشاہی نظام ہو، اور اس وقت بھی ممکن ہے، جب جمہوری طرز حکومت قائم ہو، اور اس وقت بھی ممکن ہے جب دنیا میں مسلمانوں کی کوئی حکومت ہو ہی نہ!!
پھر یہ کہ ہر گروہ یا مسلمان ہر دور میں جو حاکم وقت کے خلاف خروج کرتا ہے اس کو کس بنا پر "خوارج" قرار دینا صحیح ہے ؟؟؟ صحابی رسول حضرت عبدللہ بن زبیر رضی الله عنہ اور حضرت حسین رضی الله عنہ کے خروج کے متعلق آپ کیا کہیں گے ؟؟ کیا وہ بھی اس اصول کے تحت خوارجیوں کی صف میں شامل نہیں ہو جائیں گے ؟؟ ان کا خروج بھی تو "ہر دور" میں شامل ہے ؟؟-
جناب ! ابھی تک تو یہ بات ہوئی بھی نہیں کہ کس بنیاد پر کس کو خوارج قرار دیا جاسکتا ہےمیں نے تو ابھی ان اصولوں کو بیان بھی نہیں کیا!! آپ میری تحریر میں سے وہ عبارت پیش کر دیں، جس کی زد میں کوئی صحابی رسول آتا ہو!! ابھی تو آپ اس بات پر مصر ہیں کہ خوارج پہلے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے دور میں تھے ، اور اس کے بعد دجال کے ساتھ ہی نکلیں گے!!
نہيں عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ ہمارے اصول کے مطابق خوارجیوں میں شامل نہیں ہوتے!
خوارج کی نشانیوں میں سے سب سے منفرد دو نشانیاں ہیں -

١-قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا -
مسند امام احمد بن حنبل 3 / 354، الرقم : 1461 ، بخاری شریف، کتاب : توحيد، باب : قراءة الفاجر و المنافق و أصواتهم و تلاوتهم لاتجاوز حناجرهم، 6 / 2748، الرقم : 712،
مسلم شریف، کتاب : زکوة باب : التحريض علي قتل الخوارج، 2 / 748، الرقم : 1066،

آج کتنے ہونام نہاد مسلمان و علماء ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں لیکن قرآن ان کے حلق سے نہیں اترتا - (یعنی قرآن کی باطل تاویلیں کرتے ہیں)- کیا یہ بھی خوارجی نہیں ؟؟
اب باطل تاویل ، معتزلہ، جہمیہ، قدریہ، جبریہ، مرجئہ ، خیر تمام باطل فرقے کرتے ہیں؟ کیا ان سب کو خوارج کہا جاسکتا ہے؟ نہیں، ایسا نہیں ہے!! اور حکم اس طرح نہیں لگایا جاتا!
٢-خوارجیوں کی نشانی سر منڈانا اور ہمیشہ منڈائے رکھنا ہے۔
ابو داود شریف، کتاب : السنة، باب : قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم : 4765، ابن ماجة شریف، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 60، الرقم : 169،

آج کل مروجہ مسلمانوں کی تبلیغی جماعت اور دوسرے بہت سے علماء سر منڈا کر رکھتے ہیں- کیا یہ بھی خوارجی نہیں ؟؟
نہیں سرمنڈوانے سے کوئی خارجی نہیں بن جاتا!! یہ اتنی منفرد ہے تو بتلائیے کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ نے سر نہیں منڈوایا!!

آپ کے نزدیک مروجہ پارلیمانی جمہوریت "کفر" نہیں -تو پھر اس آیت سے مراد کون لوگ ہیں جو اپنے فیصلے الله اور اس کے رسول کے نافذ کردہ قانون کے بجاے طاغوت کے زریے کرواتے ہیں؟؟-
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا سوره النساء ٦٠
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جواس چیز پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں جو تجھ پر نازل کی گئی ہے اور جو چیز تم سے پہلے نازل کی گئی ہے وہ چاہتے ہیں کہ اپنا فیصلہ طاغوت سے کرائیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ اسے نہ مانیں اور شیطان تو چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دو رجا ڈالے-
جو اس آیت میں بیان ہوا ہے کہ جو اللہ کی نازل کی ہوئی وحی کے برخلاف کسی طاغوت سے فیصلہ کروانا چاہتے ہیں!!
معاف کیجئے گا - تخیلات میں تو آپ ہے جن کو پارلیمانی جمہوریت کا واضح کفر نظر نہیں آ رہا- پارلیمنٹ کا تو سارا نظام ہی یہود و نصاریٰ کے قوانین کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا ہے - جس کی ترویج کے لئے وہ دن رات ایک کر رہے ہیں اور ہمارے حکمران اس کفر (جمہوریت) کی اساس پر زندہ ہیں- اور آپ که رہے ہیں کہ "حکمرانوں کے خلاف یہ نام نہاد جہاد بھی تخیلات میں ہی کرتے رہیں" ؟؟
نہیں میں نے یہ نہیں کہا کہ وہ یہ نام نہاد جہاد تخیلات میں کرتے ہیں، میں نے یہ کہا کہ وہ یہ نام نہاد جہاد بھی تخیل میں ہی کر لیا کریں!!
جناب وہ اس نام نہاد جہاد سے فساد بلکل حقیقت میں پیدا کررہے ہیں!!
ایک تو میں اس " اظهر من الشمس" والی دلیلوں سے بڑا تنگ ہوں!! پو چھو کہ بھائی دلیل کیا ہے، جواب ملے واضح ہے، اظهر من الشمس!!
اور جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے :
خلافت علی منہاج النبوہ تو صرف تیس سال رہی، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
حَدَّثَنَا سَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ أَوْ مُلْكَهُ، مَنْ يَشَاءُ<. قَالَ سَعِيدٌ: قَالَ لِي سَفِينَةُ: أَمْسِكْ عَلَيْكَ أَبَا بَكْرٍ سَنَتَيْنِ، وَعُمَرُ عَشْرًا، وَعُثْمَانُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ، وَعَلِيٌّ كَذَا، قَالَ سَعِيدٌ: قُلْتُ لِسَفِينَةَ: إِنَّ هَؤُلَاءِ يَزْعُمُونَ أَنَّ عَلِيًّا- عَلَيْهِ السَّلَام- لَمْ يَكُنْ بِخَلِيفَةٍ؟ قَالَ: كَذَبَتْ أَسْتَاهُ بَنِي الزَّرْقَاءِ.- يَعْنِي: بَنِي مَرْوَانَ سنن أبي داؤد: كتاب السنة بَاب فِي الْخُلَفَاءِ

تو محترم یہ حدیث ضعیف ہے -
محدثین نے اس روایت میں راوی سعید بن جمھان کو ضعیف قرار دیا ہے - (الضعفاء الكبير)-
بھائی جان! اسی لئے میں نے آپ کو شیخ الاسلام کا مؤقف بیان کیا تھا! اور شیخ الاسلام نے اس حدیث نہ صرف قبول کیا بلکہ اسی حدیث سے احتجاج کرنے کو اہل سنت کا مسلک قرار دیا!! اسے ذرا ایک بار پھر دیکھ لیں!!
جہاں تک سعید بن جمهان کا تعلق ہے! آپ نے بہت آسانی سے کہہ دیا کہ محدثین نے اس روایت میں سعید بن جمھان کو ضعیف قرار دیا!! اور حوالہ دیا امام عقیلی کی کتاب الضعفاء الكبير کا، غالباً آپ کو حوالہ دینے میں غلطی ہوئی ہے!! کیونکہ سعید بن جمهان کی تضعیف الضعفاء الكبيرمیں نہیں ، کم سے کم مجھے نہیں ملی!!
میں آپ کو الضعفاء الكبير کا لنک پیش کر دیتا ہوں مجھے وہاں سے جلد اور صفحہ بتا دیں!!
لنک: كتاب الضعفاء الكبير

لیکن میں آپ کو سعید بن جمهان کی توثیق پیشگی بتلا دیتا ہوں!!
امام الذہبی نے سعيد بن جمهان کو اپنی كتاب ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق میں شمار کیا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:عكس صفحه 85 ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق ۔ تحقيق محمد شكور بن محمود الحاجي أمرير المياديني
ملاحظہ فرمائیں:عكس صفحه 219 من تكلم فيه وهو موثوق أو صالح الحديث ۔ تحقيق عبد الله بن ضيف الله الرحيلي

امام ابن حجر العسقلانی نے سعید بن جمهان کو صدوق قرار قرار دیتے ہیں:
سعيد ابن جمهان بضم الجيم وإسكان الميم الأسلمي أبو حفص البصري صدوق له أفراد من الرابعة مات سنة ست وثلاثين

صفحه 375
الكتاب: تقريب التهذيب
المؤلف: أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ)
الناشر: دار العاصمة

ملاحظہ فرمائیں:عكس صفحه 375 تقريب التهذيب ۔ دار العاصمة

اور ایک اہم نکتہ بتلا دوں، کہ جس راوی کی توثیق یا تضعیف پر امام الذہبی اور امام ابن حجر العسقلانی متفق ہوں ، تو اس کے برخلاف ثابت کرنے کے لئے بہت پکی ٹھکی دلیل درکار ہے!!
اب اس کے بعد بھی اگر آپ سعيد بن جمهان پر جرح و تعدیل کے اقوال کے حوالے سے بحث کرنے کے خواہش مند ہیں تو ہم حاضر ہیں!!
بہرحال خوارج تکفیرو خروج علی الإمام کی بنا خوارج کہلاے تکفیرو خروج علی حاکم کفر پرخوارجیت نہیں ہوتی- امامت خلافت سے ہے نہ کہ کفریہ جمہوری یا بادشاہی نظام سے-
یہ آپ کا مؤقف ہے، مگر بلا دلیل!!
 
Last edited:
Top