• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داعش خلافت: بدعت و شرک کے نام پر خانہ کعبہ، مسجد النبوی، مسجد الحرام اور ہر متبرک جگہ کی تباہی

وفا

مبتدی
شمولیت
جولائی 15، 2014
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
18
میں اس فورم کے معزز اہل توحید بھائیوں اور بہنوں کی یاد دہانی کے لیے پوسٹ کرتا چلوں کہ یہ مہوش علی بہت بڑا فتنہ ہے جیسا کہ یہ دعویٰ کرتی ہے سامری جادوگر نے جبرائیل علیہ السلام کے پاوں کی مٹی اٹھا کر بچھڑے میں سے بیل کی آواز نکال لی تھی اسی طرح یہ احادیث رسول کو توڑ مروڑ کر مسلمانوں کا رخ کعبہ سے موڑ کر کربلا اور نجف کی طرف کرنا چاہتی ہے۔ اس کے دجل و فریب کو سمجھو آپ اس کو سو دلیل بھی دیں گے تو یہ کہے گی یہ موضوع سے متعلق نہیں، آپ ظاہر پرست ہیں، ناصبی ہیں۔۔۔ ابلیسی توحید وغیرہ وغیرہ۔

ان شاء اللہ یہ اس تھریڈ سے ایسے ہی بھاگے کی جس طرح کہ بھاگنے کا حق ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ آخری عشرے کو اس رافضی پر کم سے کم ضائع کریں۔ اس کی ان شاء اللہ لفظی چھترول سب مل کر کر رہے ہیں اور کریں گے ۔۔۔۔۔

لیکن یہ مانے گی کبھی نہیں کیونکہ ماضی میں بھی ایسا ہو چکا ہے۔ ذرا غور کریں کوئی باحیا عورت متعہ کا دفاع کر سکتی ہے لیکن اس نے کیا ہے اردو ویب فورم کی بحثیں اٹھا کر دیکھ لیں۔

ذرا غور کریں یہ 24 گھنٹے ریپلائی کیسے کر سکتی ہے ۔۔۔۔۔؟ جب آپ پوسٹ کریں گے کچھ دیر میں لمبا کاپی پیسٹ ریپلائی آ جائے گا۔ اس کے دجل و فریب کو سمجھیں۔ ہم کوئی غیب دانی کا دعویٰ تو نہیں کرتے لیکن سوچیں تو سہی یہ ایک فرد کی کاوش ہے یا ٹیم ورک

یہ فواد امریکی کی طرح آن مشن ہے اور مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ان دونوں میں سے زیادہ ڈھیٹ کون ہے۔

بی بی مہوش علی ۔۔۔ ۔ ۔یہ نہ سمجھنا کہ میں اپنی بات ختم کر رہا ہوں بلکہ میری بات کا ابھی آغاز ہے۔۔۔۔۔۔

ان شاء اللہ اب تمہارے دجل و فریب کا پردہ چاک کر کے چھوڑوں گا اور تم اپنے غیض میں مرتی رہو۔

میں پھر دہراتا ہوں کہ میں اللہ کی خاطر تم سے شدید نفرت کرتا ہوں اس شرک کی وجہ سے جو تم عشرے سے زائد عرصے سے مسلسل پھیلا رہی ہو،
میں ہر بہتان تراشی کرنے والے کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کرتی ہوں۔ امین۔
آپ عقد متعہ والے تھریڈ کا لنک پیش کیوں نہیں کر دیتے (برکت والے تھریڈ کی طرح) تاکہ لوگ خود جا کر تھریڈ پڑھ لیں اور پھر دونوں طرف کے دلائل دیکھ کر خود فیصلہ کر لیں کون درست ہے اور کون غلط؟ اللہ کے فضل و کرم سے برکت والے تھریڈ کی طرح وہ تھریڈ بھی بہترین ہے جس میں وہاں کے ایڈمن نے غیر جانبدار رہتے ہوئے قرآن و حدیث سے دونوں فریقین کو دلائل پیش کرنے دیے (جبکہ یہاں کھلم کھلا ناانصافی ہے اور آپ لوگ بجائے موضوع سے انصاف کرنے کے میری ذات کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور شرم بھی نہیں آتی کہ اسکا کا برملا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ "لفظی چھترول" جاری رکھیں۔ ۔۔۔۔۔ اللہ تعالی مجھے ایسے لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ امین۔
اور دین کے معاملات بیان کرنا کب سے بے حیائی ہو گئی؟ میں نے بالکل فیئر طریقے بات کی ہے اور قرآنی حکم کے مطابق آیات اور احادیث کو بطور دلیل پیش کیا۔ تو قرآنی آیات اور احادیث پیش کرنا کب سے بے حیائی ہو گیا؟ آپ جیسے لوگوں کو سدھارنے کے لیے جناب عائشہ ہی کافی ہیں جب انہوں نے دین کے ان معاملات کو بیان فرمایا جو کہ غسل وغیرہ کے متعلق بھی تھیں۔ آپ لوگ کچھ حیا کیجئے اور بہتان تراشی سے باز آئیے۔

افسوس کہ ایسے حضرات شر ڈال کر بات کو موضوع پر نہیں رہنے دیتے، بلکہ موضوع سے ناانصافی شروع کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالی ان لوگوں کو ہدایت دے۔ امین۔
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
مہوش علی خود تو روایات نہیں مانتی جو بقول ان کے ضعیف ہوں مگر ہماری صیح روایات کے مقابلے میں ضعیف روایات پیش کرتی ہے یہ کیسی دو رخی ہے؟؟؟



مہوش علی کا دعوی کہ سعودی مفتی حضرات نامکمل روایت بیان کرتے ہیں


علامہ غلام رسول سعیدی بریلوی پر کیا فتویٰ لگاو گی، ظاہر پرستی یا ناصبیت کا؟؟؟
حالانکہ بریلوی تو آدھا شیعہ ہوتا ہے۔ ۔ ۔





عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت تو مان لو وہ تو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے


عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے والد کے ساتھ تو آپ کو چڑ ہے کہ ان کی روایت نہیں ماننی

یہ کرفرمائی صرف سعودی مفتی حضرات کے ساتھ ہی کیوں ؟ بریلوی عالم پر کیوں نہیں؟؟؟؟






جو روایات تمہارے کرتوتوں کو ظاہر کرتی ہیں ان کو تو تم نہیں مانتی اور ہماری صیح روایات کو بھی تسلیم نہیں کرتی، آخر اتنی منافقت کیوں؟؟؟؟




چلو شاباش، فتویٰ لگاو بریلوی عالم پر کہ یہ ظاہر پرست ہے اور گستاخ ہے ا




بخاری اور مسلم کی متفق علیہ روایات جو کئی طرق سے مروی ہے اس کے مقابلے میں ضعیف روایات پیش کرتے تمہیں شرم تو نہیں آئی ہو گی؟؟؟؟


----------

مہوش علی، اب تمہاری جی بھر کر میں نے ' لفظی چھترول' کرنی ہے ہمت ہے تو جواب دو۔ ۔ ۔۔ ۔


تم بھی کہو، میں بھی کہتا ہوں

جھوٹوں پر اللہ کی لعنت، جو مستحق ہو گا اسے ضرور پہنچے گی، ان شاء اللہ!
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104

بلی تھیلے سے باہر آ گئی، مہوش علی گستاخ امہات المومنین ہے


میں نے بالکل فیئر طریقے بات کی ہے اور قرآنی حکم کے مطابق آیات اور احادیث کو بطور دلیل پیش کیا۔ تو قرآنی آیات اور احادیث پیش کرنا کب سے بے حیائی ہو گیا؟ آپ جیسے لوگوں کو سدھارنے کے لیے جناب عائشہ ہی کافی ہیں جب انہوں نے دین کے ان معاملات کو بیان فرمایا جو کہ غسل وغیرہ کے متعلق بھی تھیں۔ آپ لوگ کچھ حیا کیجئے اور بہتان تراشی سے باز آئیے۔

۔
جیسا کہ میں قارئین کو بتا چکا ہوں کہ مہوش (گستاخ صحابہ) ایک رافضی ویب سائٹ آنسرنگ انصار کے لیے کام کرتی تھی اب وہ سائٹ ڈاون ہے لیکن اس کا کچھ مواد ایک ویب سائٹ Shia pen پر موجود ہے۔ اب میں اصل بات کی طرف آتا ہوں

مہوش علی نے اشارہ کیا ہے ۔ ۔۔ جناب عائشہ ہی کافی ہیں جب انہوں نے دین کے ان معاملات ۔۔ ۔۔ جو کہ غسل وغیرہ کے متعلق۔۔۔۔"


آئیے آپ کو پڑھواتا ہوں کہ یہ between the lines کہنا کیا چاہتی ہے ۔۔۔۔





دیکھا آپ نے میں کیوں اس وفا نامی خاتون کے خلاف ہوں کیوں کہ یہ امی جان عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے بغض رکھتی ہے ان کے والد سے بغض رکھتی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بغض رکھتی ہے اور دوسرے صحابہ سے بغض رکھتی ہے
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
@وفا صاحبہ !
شروع سے تمام مراسلے نظر سے گزرتے رہے ،چونکہ دعوی اور سوال بھی آپ کی جانب سے ہے ، لہذا سب سے پہلے تو آپ اپنے علم کے مطابق لفظ "تبرک" کے معنی و مفہوم سے آگاہ کر دیں۔ کیونکہ جوابات تو آپ کو دیئے جا چکے ہیں، مگر آپ وہی سننا چاہتی ہیں شاید جو آپ کے دماغ میں چل رہا ہے۔اس لیے تبرک کے مفہوم کی وضاحت کر دیں۔اور اسے موضوع سے ہٹنا نہ سمجھیئے گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر جب 35 برس تھی ، اور سیلاب سے کعبہ کی عمارت کو نقسان پہنچا تھا ، قریش نے اسے گرا کر دوبارہ تعمیر کیا۔عبد اللہ بن زبیر خلیفہ ہوئے تو انھوں نے دوبارہ کعبہ کو ابراھیمی بنیادوں پر ازسرنو تعمیر کیا۔لیکن دس سال بعد 74 ھ میں حجاج بن یوسف نے اسے دوبارہ قریش کی بنیادوں پر استوار کیا۔شعبان 1039 ھ میں موسلا دھار بارش سے کعبہ زمین بوس ہو گیا تو عثمانی خلیفہ مراد خاں نے اسے نئے سرے سے تعمیر کیا۔چناچہ کعبہ کی موجودہ عمارت عثمانی تعمیر کی ہے۔ بحوالہ اسلامی تاریخ!
نیز آپ نے جتنے بھی دلائل پیش کیئے ، ان میں برکت موجود ہونے انھیں علم تھا۔یہ بھی وآضح رہے کہ برکت اللہ کی جانب سے ہوتی ہے ، وہ چیز بذات خود برکت دینے کا اختیار نہیں رکھتی ، لہذا ان میں اگر تبرک موجود ہے ، اور وہ تبرک کیسا ہے ، تو اس کی قرآن وسنت کی روشنی میں دلیل دے دیں۔تاکہ ہم بھی جان لیں ۔!
 
Last edited:

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
@وفا صاحبہ !
آپ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ "ص" لکھ کر گویا "چھٹکارا حاصل کر لیتیں ہیں۔۔۔اور چلیں ہیں "دوسروں کو حق " سمجھانے !
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
عجیب تماشہ ہے۔ رسول (ص) سے مس شدہ چیزوں پانی، پیالہ، چادر، چھڑی، سکہ، جبہ سے صحابہ کے تبرک حاصل کرنے کے بے تحاشہ روایات بطور دلیل پیش کی گئیں۔ اور چپ سادھی گئی تو ان روایات پر سادھی گئی۔۔۔
حیرت کا مقام ہے کہ پھر بھی کیسے آرام سے آپ ادھر آپ الٹی گنگا بہا رہے ہیں اور صحابہ کے تبرکات نبوی سے نفع حاصل کرنے والے واقعے پر آتے ہی نہیں ہیں۔
حیرت کا مقام ہے کہ آپکے ایک ساتھی کتنی آرام سے پھر بھی کفار کے تبرک والے واقعات کو مسلسل مسلمانوں پر چسپاں کر رہے ہیں اور جو رسول (ص) نے مسلمانوں کو اپنے تبرکات سے نفع پہنچانے کے لیے اپنی چادر اور کرتے وغیرہ کو حکم دے کر انکا کفن بنوایا، تو آپ کے یہ ساتھی بھی اس سنتِ نبوی کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں۔
اس بات کا کس نے انکار کیا ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار اور باقیات سے تبرک کا منکر کوئی بھی نہیں ۔ بشرطیکہ اس کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار میں سے ہونا ثابت ہو ۔
لیکن آپ خلط مبحث کر رہی ہیں یا پھر آپ سے لا شعوری طور پر ہورہی ہے ۔ کیونکہ ’’ برکت ‘‘ اور چیز ہے اور ’’ اسباب برکت ‘‘ اور چیز ہیں ۔ برکت دینے والی یا بابرکت بنانے والی صرف اللہ کی ذات ہے ، حضور کی ذات گرامی اور دیگر انبیاء علیہم السلام یہ ’’ اسباب برکت ‘‘ کے اندر شمار ہوتے ہیں نہ کہ خود برکت دیتے ہیں کیونکہ برکت دینا نہ دینا یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے ۔ بیدک الخیر إنک علی کل شیء قدیر ۔
اور کفار کے واقعات کو ہم نہیں چسپاں کر رہے بلکہ یہ نتیجہ آپ کے ’’ خانہ ساز اصول ‘‘ کا ہے ۔
اور کیا تبرک کی تعریف آپ کو نہیں آتی؟ یا پھر آپ صرف اپنے آپ کو ہی عالم سمجھتے ہیں اور دوسروں کو جاہل؟ کیا لفظی تعریف بڑھ جانا، زیادتی ہو جانا کا آپ کو نہیں پتا، یا پھر امام راغب کی تعریف کا نہیں پتا کہ کسی چیز میں اللہ کی طرف سے خیر کاپیدا ہو جانا برکت ہے؟
آپ سے تبرک کی تعریف پوچھی ہے ۔ ’’ برکت ‘‘ کی تعریف آپ نے کردی ہے اچھا ہے لیکن ذرا ’’ تبرک ‘‘ کی بھی تعریف فرمادیں ۔
میں آپ کے بارے میں جانتا نہیں کہ آپ عالم ہیں یا اس کے عکس ۔ لیکن ’’ تبرک ‘‘ کی تعریف پوچھی جائے تو آپ ’’ برکت ‘‘ کی وضاحت کرکے چلتی بنیں ، اس سے کچھ نہ کچھ اندازہ تو لگایا جاسکتا ہے ۔
لیکن یہاں پر ہم جس تبرک کی قسم کی بات کر رہے ہیں، وہ یہ ہے:
" (صحیح مسلم)۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ جبہ پہنا کرتے تھے اور ہم اس جبہ کو دھو کر(اس کا پانی) شفاء کے لئے بیماروں کو پلاتے ہیں" ہمارے نزدیک یہ شفا، یہ نفع بھی تبرک ہے۔ مگر آپ رسول (ص) مس شدہ چیزوں سے تبرک سے ایک بہانے یا دوسرے بہانے فرار کے چکر میں ہیں، حالانکہ ان میں مسلمانوں کے لیے اللہ کے اذن سے شفا و نفع ہے۔
ان باتوں سے کوئی فرار نہیں ہورہا ۔ فرار آپ ہورہی ہیں اس بات سے جس کا ذکر آپ نے لڑی کے عنوان اور بعد میں کیا ہے کہ
’’ داعش اور سعودی علماء بیت اللہ اور مسجد نبوی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں ‘‘
اس اتنی بڑی بہتان بازی کے ثبوت کی دلیل پیش کریں یا پھر اپنے جھوٹ اور بد دیانتی کا اقرار فرمالیں ۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
دیکھیں کہ کون سوالوں کے جواب دے رہا ہے اور کون ہٹ دھرمی کر رہا ہے

کیا یہ درجے سنت سے ثابت ہیں یا پھر آپکی طرف سے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ آپ حضرات کی زبان پر کل بدعۃ ضلالۃ ہی ہر وقت سننے کو ملتا ہے۔
جی یہ آپ کو بھی اچھی طرح پتا ہے کہ ہمارا ہر عالم جب بھی بدعت کے بارے لکھتا ہے تو مکفرہ اور غیر مکفرہ کی تفریق کرتا ہے اور غیر مکفرہ میں بھی فرق کرتا ہے اگر آپ کو اسکے خلاف کوئی ثبوت ملتا ہے تو کوئی ایک دلیل کے طور پر بیان کریں ہم اسکی جانچ پڑتال کے بعد اس پر رائے دے دیں گے مگر آپ کے پس خالی باتوں کے علاوہ کوئی ثبوت ہو تو پھر مزا ہے
جہاں تک کل بدعۃ ضلالۃ والی بات ہے تو کون جاہل اسکا انکار کرتا ہے کیونکہ بدعت جو مکفرہ ہو وہ تو ویسے ہی گمراہ کر دیتی ہے اور جو دوسری ہوتی ہے چاہے جتنی چھوٹی ہو وہ گمراہی کی طرف لے کر جانے والی ہوتی ہے یہی اس حدیث کا مطلب ہے جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر خطبہ میں ارشاد فرماتے تھے اس پر کوئی عقلی اور علمی اعتراض ہے تو بتائیں ہٹ دھرمی کا جواب قالوا سلاما ہی ہے جو خود آپ نے بتایا ہے

کیا شیطان کو کنکریوں کی جگہ جوتا مارنے کی بدعت اور کعبہ کو متبرک اور مقدس سمجھ کر مس کرنے اور چومنے اور پھر اسکے وسیلے سے کعبے پر ہاتھ رکھ کر حاجات طلب کرنے کی بدعت "برابر" ہیں؟
آپ پر یہ لازم ہے کہ میری کوئی پوسٹ دکھائیں جس میں میں نے ان ساری بدعتوں کو برابر کہا ہو میں نے تو پہلے جواب میں ہی یہ کہا تھا کہ کعبہ سے تبرک حاصل کرنے کی بدعت کبھی مکفرہ اور کبھی غیر مکفرہ بھی ہو سکتی ہے

آپکے عقیدے کے مطابق رسول (ص) کی قبر کو چومنے کی بدعت اور کعبے کو چومنے والی بدعت برابر ہیں۔ آپکے نزدیک دونوں میں ضلالت ہے، اور دونوں میں شرک ہے۔
لیکن ایک بدعت اور شرک کے لیے آپکے سٹینڈرڈز کچھ اور ہیں، جبکہ دوسری بدعت اور شرک کے لیے آپکے سٹینڈرڈز کچھ اور ہیں۔
یہاں بھی آپ پر لازم ہے کہ میری کوئی پوسٹ اس سلسلے میں ثبوت کے طور پر پیش کریں کیونکہ یہاں سے کوئی پوسٹ ڈیلیٹ نہیں کی گئی البتہ قرآن کی آیت فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار کو دیکھتے ہوئے کہتا چلوآ کہہ اگر آپ ثبوت پیش نہ کر سکیں اور حقیقت میں ہر گز پیش نہ کر سکیں گی تو آگ سے ڈر جائیں

چنانچہ سوال سادہ سا ہے کہ سعودی مفتی حضرات نے خانہ کعبہ کو پھر شرک کا اڈہ کیوں بن جانے دیا کہ لوگ وہاں جا کر کھل کر شرک کریں؟ ادھر آپ لوگ 85 مراسلوں کے بعد کھل کر اسے بدعت و شرک قرار نہیں دیتے، اُدھر سعودی مفتی حضرات تو آپ سے دس ہاتھ آگے ہیں کہ اٹھارویں صدی سے کھل کر اس پر بدعت اور شرک کا فتوی نہیں دیتے اور 18 ویں صدی سے انہوں نے کعبہ کو شرک کا اڈہ کیوں بنا رہنے دیا ؟
بھائی ہمارے سعودی موحد بھائیوں نے تو کھلے شرک کی اجازت کہیں نہیں دی بلکہ آپ کے قبیل کے لوگوں کو ہی یہ کہتے سنا گیا ہے کہ
تیری خیر ہووے پہریدارا روضے دی جالی چم لین دے
مگر اسکو ڈنڈے مارے جاتے ہیں پس جتنا بس چل سکتا ہے وہاں ڈنڈے مارتے ہیں
یہ بھی یاد رکھیں کہ روضہ پر بدعات شرک کے قریب ہوتی ہیں جبکہ کعبہ پر بدعات میں شرک کے چانس کم ہوتے ہیں پس ہمارے موحد بھائیوں نے اسی مناسبت سے انتظام کیا ہوتا ہے مگر اس سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ ہمارے وہ بھائی دوسری بدعتوں کو جائز سمجھتے ہیں دیکھیں صحابہ کے دور میں بھی چھوٹی چھوٹی غیر مکفرہ بدعات ہوتی تھیں مثلا ذکر کا گن کر پڑھنا ان پر کہیں نکیر ہوتی بھی تھی کہیں نہین بھی ہوتی تھی واللہ اعلم

پھر تو داعش سے منسوب خبر اگر درست ہے، اور داعش والے اگر آپ پر شرک جاری رکھنے اور کعبہ کو شرک کا اڈہ بنانے کا الزام لگا رہے ہیں تو بالکل ٹھیک کر رہے ہیں۔
یہی تو چیلنج آپ کو بار بار کیا جا رہا ہے کہ داعش سے منسوب یہ بات ثابت کر کے دکھاؤ پھر ہم بتائیں گے کہ وہ درست ہیں یا غلط کیونکہ ابھی ہمیں کوئی علم نہیں ہے تو فلا تقف ما لیس لک بہ علم کے تحت ہم خاموش ہیں ورنہ آپ جیسے رافضیوں نے جو فیس بک پر یہ باتیں پھیلائی ہیں انکی کچھ حقیقت یہاں نیچے دیکھ لیں

لیکن جاہل رافضیوں نے یہاں تصویر داعش کی بجائے جبھۃ النصرہ کے کمانڈر کی لگا دی یہ ہے آپ کے ثبوت کی حقیقت

سوال تو بہت سادہ سا تھا:
اگر تبرکاتِ نبوی میں اللہ کے اذن سے کوئی نفع نہیں ہے، تو پھر جنابِ عائشہ رسول (ص) کے جبے کو دھو کر اسکے پانی کو شفا کے حصول کے لیے کیوں پی رہی تھیں؟
یہاں بھی یہ بتائیں کہ میں نے اپنی کس پوسٹ میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اثار سے تبرک لینے کا انکار کیا ہے یا آپ کی اس بات کا جواب نہیں دیا
پہلے آپ داعش کو لارہی تھیں تو میں جواب نہیں دے رہا تھا اور کہ رہا تھا کہ پہلے داعش کو نکالیں جب داعش کو آپ نے نکال دیا تو پھر اسکے بات آپ کی ساری باتوں کا جواب دیا ہے مگر اوپر والا سوال مجھے اسکے بعد نظر نہیں آیا کہ آپ نے مجھ سے پوچھا ہو اب اس کے بارے پوچھنے پر جواب دے دیتا ہوں
جس چیز سے آپکا جسد مبارک لگا ہو، جیسے وضوکا پانی ، پسینہ، بال وغیرہ سے تبرک حاصل کرنا بھی صحابہ کرام اور صحابہ کرام کے شاگردوں کے ہاں خیر و برکت کی وجہ سے ایک جائز اور معروف کام تھا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انکے اس عمل کو برقرار رکھا۔
جبکہ مسجد الحرام یا مسجد نبوی کے در و دیوار اور کھڑکیوں وغیرہ کو تبرکاً ہاتھ لگانا بدعت ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، اس لئے یہ کام چھوڑ دینا ضروری ہے، کیونکہ عبادات توقیفی ہوتی ہیں، چنانچہ وہی عبادت کی جاسکتی ہے جسے شریعت جائز قرار دے،اسکی دلیل فرمانِ رسالت: (ہمارے دین میں ایسی نئی بات ایجاد کی گئی جو دین میں نہیں تھی وہ مردود ہوگی)اس حدیث کی صحت پر سب کا اتفاق ہے، اور مسلم کی ایک روایت میں ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں معلق بالفاظِ جزم بیان کیا ہے: (جو کوئی ایسا عمل کرے جس کے کرنے کا حکم ہماری طرف سے نہیں تھا، تو وہ مردود ہوگا)
البتہ آج تبرک لینے کے لئے یہ ثابت ہو کہ واقعی یہ انکے اثار ہیں

پہلے ریفرنس پیش فرما دیجئے۔ اگر وہ ضعیف روایت ہوئی تو پھر یہ الزام آپ پر جائے گا کہ آپ کیوں ایک ضعیف روایت کی بنیاد پر غلط الزام لگا رہے ہیں کہ یہ ہمارا "عقیدہ" ہے۔ کیا آپ کو ضعیف روایت اور عقیدے کے فرق کا علم ہے؟
یہ کام تو وہ کریں گے جنکو ٹیگ کیا تھا یعنی محترم @عامر بھائی یا محترم @lovelyalltime بھائی البتہ آپ سے پہلے یہ پوچھنا ہے کہ کیا آپ عاعشہ رضی اللہ عنہا کے بارے اچھا گمان رکھتی ہیں اور انکو نعوذ باللہ فاحشہ گمان کرنے والوں کو ملعون سمجھتی ہیں تو میں اپنی بات سے رجوع کرتا ہوں اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آپ کا یہ کہنا کہ روایت ضعیف ہو گی وہ کم علم سنیوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے آپ کا تقیہ ہے ورنہ آپ اوپر والے عقیدہ رکھنے والے کو بھی معلون نہیں کہ سکتی
میرا چیلنج ہے کہ آپ اوپر عقیدہ رکھنے والے اور اسکو کتاب میں لکھنے والے اور اس کتاب کو چھاپنے اور درست سمجھنے والوں کو ملعون سمجھتی ہیں اور یہ اعلان کھلے عام سوشل میڈیا پر شیئر کریں گی تو میں اپنی بات سے رجوع کر کے معافی مانگ لیتا ہوں ورنہ یہ تقیہ کسی اور سنی کے لئے سنبھال کر رکھ لیں
 

وفا

مبتدی
شمولیت
جولائی 15، 2014
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
18
دیکھیں کہ کون سوالوں کے جواب دے رہا ہے اور کون ہٹ دھرمی کر رہا ہے

جی یہ آپ کو بھی اچھی طرح پتا ہے کہ ہمارا ہر عالم جب بھی بدعت کے بارے لکھتا ہے تو مکفرہ اور غیر مکفرہ کی تفریق کرتا ہے اور غیر مکفرہ میں بھی فرق کرتا ہے
آپ کل بدعۃ ضلالہ پر آ کر رک گئے اور پھر مکفری و غیر مکفرہ کی بحث لے کر خانہ کعبہ پر ہونے والی بدعت اور شرک (آپکے عقیدے کے مطابق) کو "معمولی" بدعت (جیسے کہ شیطان کو کنکریوں کی جگہ جوتے مارنا) بیان کرنے لگے۔
جبکہ کل بدۃ ضلالہ کا اگلا حصہ ہے کل بدعة ضلالة و کل ضلالة فی النار
جبکہ خانہ کعبہ پر ہونے والی بدعت و شرک کنکریوں کی جگہ جوتے مارنے والی بدعت کے قریب نہیں، بلکہ روضہ رسول پر ہونے والی بدعت اور شرک کے قریب ہے۔
آپکے عقیدے کے مطابق خانہ کعبہ پر ہونے والی بدعت "کل ضلالۃ فی النار" والی بدعت ہے کیونکہ یہی بدعت فوری طور پر شرک کا باعث بن رہی ہے۔

آپکے موحد سعودی بھائیوں نے اس بدعت ضلالہ اور شرک کو روکنے کے لیے کام ہی کیا کیا ہے؟

آپ اپنے سعودی موحد بھائیوں کے دفاع کے لیے خامخواہ کا عذر کر رہے ہیں کہ:
بھائی ہمارے سعودی موحد بھائیوں نے تو کھلے شرک کی اجازت کہیں نہیں دی


1)آپکے عقیدے کے مطابق اگر یہ کھلے عام بدعت اور شرک نہیں تو اور کیا ہے؟
2) آپ کے سعودی موحد بھائیوں نے اس کھلے عام بدعت اور شرک کو روکنے کے لیے آج تک کیا ہی کیا ہے؟
آپکے سعودی مفتی حضرات نے تو آج تک اسے "کھل" کر بدعت اور شرک تک تو کہا نہیں ہے۔ ویسے تو صبح شام انکے 24 گھنٹے ماشاءاللہ انکے منہ سے شرک، بدعت، حرام ہی کے الفاظ بطور فتویٰ نکلتے رہتے ہیں۔
کتنے پولیس والوں کو کھڑا کیا کہ وہ لوگوں کو اس فی النار والی بدعت ضلالۃ سے روکیں، اس شرک سے روکیں؟
تو پھر اگر کوئی ان پر الزام لگائے کہ انکی نااہلی، کاہلی اور سستی کی وجہ سے خانہ خدا شرک کا اڈہ بن گیا ہے تو کیا غلط کہہ رہا ہے؟

جبکہ مسجد الحرام یا مسجد نبوی کے در و دیوار اور کھڑکیوں وغیرہ کو تبرکاً ہاتھ لگانا بدعت ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، اس لئے یہ کام چھوڑ دینا ضروری ہے، کیونکہ عبادات توقیفی ہوتی ہیں،
اصول یہ تھا کہ جو چیز بھی متبرک ہو، اسے وسیلہ بنایا جا سکتا ہے اور یہ چیز نہ تو بدعت ہے اور نہ ہی شرک۔
یہ روایت دیکھئے:۔
مسند احمد بن حنبل (مسند انس ابن مالک):

12480 حدثنا روح بن عبادة، حدثنا حجاج بن حسان، قال كنا عند أنس بن مالك فدعا بإناء وفيه ثلاث ضباب حديد وحلقة من حديد فأخرج من غلاف أسود وهو دون الربع وفوق نصف الربع فأمر أنس بن مالك فجعل لنا فيه ماء فأتينا به فشربنا وصببنا على رءوسنا ووجوهنا وصلينا على النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ترجمہ:
’’ہم حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ آپ نے ایک برتن منگوایا جس میں لوہے کے تین مضبوط دستے اور ایک چھلا تھا۔ آپ نے اسے سیاہ غلاف سے نکالا، جو درمیانے سائز سے کم اور نصف چوتھائی سے زیادہ تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حکم سے اس میں ہمارے لیے پانی ڈال کر لایا گیا تو ہم نے پانی پیا اور اپنے سروں اور چہروں پر ڈالا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھا۔‘‘​

شریعت فقط اللہ اور اسکے رسول کی بتائی ہوئی چیز کا نام ہے کیونکہ جبرئیل فقط اللہ کے رسول (ص) تک وحی لاتے تھے۔
مگر یہاں صحابہ اپنے اجتہاد سے اس پیالے سے برکت حاصل کرنے کے لیے پانی بھی پی رہے ہیں، اور پھر اپنے اجتہاد سے اس پانی کو اپنے سروں اور چہروں پر بھی ڈال رہے ہیں ، اور پھر اپنے اجتہاد سے رسول (ص) پر درود بھی پڑھ رہے ہیں۔

ادھر آپ حضرات کی حالت یہ ہے کہ ہم اگر اذان کے بعد درود پڑھ لیں تو آپکی طرف سے بدعت ضلالہ کے فتووں کے پہاڑ کھڑے ہو جاتے ہیں۔

کیا صحابہ کو اس "توفیقی" اور "غیر توفیقی" کا علم نہیں تھا؟ یا پھر صحابہ آپکے مقابلے میں درست تھے اور انہیں اس عام اصول کا علم تھا کہ جو چیز بھی رسول (ص) سے مس ہو گئی، وہ اس سے تبرک کر سکتے ہیں۔
 

وفا

مبتدی
شمولیت
جولائی 15، 2014
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
18
’’ برکت ‘‘ اور چیز ہے اور ’’ اسباب برکت ‘‘ اور چیز ہیں ۔ برکت دینے والی یا بابرکت بنانے والی صرف اللہ کی ذات ہے ، حضور کی ذات گرامی اور دیگر انبیاء علیہم السلام یہ ’’ اسباب برکت ‘‘ کے اندر شمار ہوتے ہیں نہ کہ خود برکت دیتے ہیں کیونکہ برکت دینا نہ دینا یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے ۔ بیدک الخیر إنک علی کل شیء قدیر ۔
آپ خامخواہ میں بحث کو الجھانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالی نے ہی ان چیزوں میں برکت رکھی ہے اور ہم انکے وسیلے سے یہی برکت طلب کر رہے ہوتے ہیں جو شفا و نفع کی صورت میں ہوتی ہے۔
جناب عائشہ نے جبے سے مس شدہ پانی کو بیماری سے شفا کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ ایسا کرتے ہوئے اللہ کا نام تک نہیں لیا گیا۔ مگر سب کو علم ہے کہ "نیت" یہی ہے کہ یہ پانی نہیں بلکہ اللہ ہی اسکے وسیلے سے شفا عطا کر رہا ہے۔

رسول (ص) نے فرمایا تھا: اعمال کا دارومدار "نیت" پر ہے۔
مگر سلفی حضرات عقیدہ بنا کر آ گئے ہیں: اعمال کا دارومدار انکے "ظاہر" پر ہے۔

اور کفار کے واقعات کو ہم نہیں چسپاں کر رہے بلکہ یہ نتیجہ آپ کے ’’ خانہ ساز اصول ‘‘ کا ہے ۔
آپکے دعوی بغیر دلیل کے ہیں اور فقط بہتان تراشی پر مبنی ہیں۔
جبکہ اوپر مکمل دلیل پیش ہو چکی ہے کہ آپ حضرات کافر کے متعلق برکت والی روایت کو لے کر مسلمانوں کے لیے برکت کا انکار کر رہے ہیں۔ اور جب رسول اللہ (ص) اور مسلمانوں کے برکت والے واقعات پیش کیے گئے تو انہیں حسب عادت نظر انداز کر کے سوئی ابھی تک کافر والی روایت پر اٹکی ہوئی ہے۔

آپ سے تبرک کی تعریف پوچھی ہے ۔ ’’ برکت ‘‘ کی تعریف آپ نے کردی ہے اچھا ہے لیکن ذرا ’’ تبرک ‘‘ کی بھی تعریف فرمادیں ۔ میں آپ کے بارے میں جانتا نہیں کہ آپ عالم ہیں یا اس کے عکس ۔ لیکن ’’ تبرک ‘‘ کی تعریف پوچھی جائے تو آپ ’’ برکت ‘‘ کی وضاحت کرکے چلتی بنیں ، اس سے کچھ نہ کچھ اندازہ تو لگایا جاسکتا ہے ۔
جی ہاں عالم تو فقط آپ ہی ہیں۔ باقی سب تو جاہل ہیں۔ اور یہاں آپ کا مقصد موضوع کے ساتھ انصاف کرنا نہیں ہے، بلکہ فقط دوسرے فریق کو ایک طریقے یا دوسرے طریقے نیچے گرانا ہے، اور اسکا طریقہ یہ ہے کہ اسکی ذات کو نشانہ بناؤ، اسے جاہل ثابت کر دو۔
حالانکہ طریقہ یہ ہے کہ اگر کہیں کوئی کمی بیشی ہو رہی ہے تو اس بات کو کلیئر کر دیا جائے۔ اگر آپ کو لگا کہ برکت اور تبرک کی تعریف میں کہیں کوئی مسئلہ ہو رہا ہے، تو پھر آپ نے خود اسے بیان کیوں نہیں فرما دیا؟

برکت اسم ہے۔ جبکہ اسکو حاصل کرنے کے فعل کو "تبرک" کہتے ہیں۔ چلیں دیکھتے ہیں کہ آپ اس میں کہاں غلطی نکالتے ہیں اور ہمیں نیچے گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ان باتوں سے کوئی فرار نہیں ہورہا ۔ فرار آپ ہورہی ہیں اس بات سے جس کا ذکر آپ نے لڑی کے عنوان اور بعد میں کیا ہے کہ
’’ داعش اور سعودی علماء بیت اللہ اور مسجد نبوی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں ‘‘
اس اتنی بڑی بہتان بازی کے ثبوت کی دلیل پیش کریں یا پھر اپنے جھوٹ اور بد دیانتی کا اقرار فرمالیں
آپ کہتے ہیں کہ آپ تبرکات نبوی کو تباہ نہیں کرنا چاہتے۔ مگر آپکا اقوال اور اعمال تو کچھ اور گواہی دے رہے ہیں۔

کیا آپ پہلے ہی اپنے عقیدے کے نام پر ان بابرکت جگہوں کو تباہ نہیں کر چکے جو رسول (ص) سے مس ہوئیں؟

وہ گھر جہاں رسول (ص) پیدا ہوئے، جناب خدیجہ کا گھر ، وہ گھر جہاں رسول (ص) ہجرت کے بعد ٹہرے، وہ جگہ جہاں رسول (ص) تعلیم دیتے تھے، وہ گھر جہاں علی، حسن اور حسین پیدا ہوئے اور رسول (ص) وہاں تشریف لاتے تھے۔

جبکہ صحابہ ان جگہوں کو تعظیم دیتے تھے جہاں رسول (ص) کا قیام ہوا:
ابو بردہ روایت کرتے ہیں: جب میں مدینہ آیا تو میں عبداللہ ابن سلام سے ملا۔ انہوں نے کہا: تم میرے ساتھ آؤ تاکہ میں کھجورون سے تمہاری تواضع کر سکوں اور تمہیں اس (بابرکت) گھر میں لے جاؤں جہاں رسول (ص) سے ٹہرے تھے (صحیح بخاری، کتاب 58، روایت 159)۔

اسی لیے جناب ابو بکر اور جناب عمر اس حجرے میں دفن ہونے کی خواہش کر رہے تھے جہاں رسول (ص) دفن ہیں (حالانکہ آپکے نزدیک حجرے میں دفن ہونا غلط ہے)۔ جناب عائشہ کی بخاری والی روایت گواہ ہے کہ ایک جناب ابوبکر اور جناب عمر ہی کیا، بے تحاشہ صحابی یہ خواہش دل میں رکھتے تھے اور یہ درخواستیں لے کر جناب عائشہ کے پاس آئے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
وعلیکم السلام جواد صاحب:
قرآن اور درجنوں احادیث احادیث سے فقط ایک اصول ثابت شدہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو رسول (ص) سے مس ہوئی، وہ بابرکت ہو گئی۔ صحابہ نے ہر مس شدہ چیز کو بابرکت سمجھا، اس سے نفع حاصل کرنا چاہا۔ پھر یہ کیسے ہے کہ آپ ابھی تک ایک بہانے یا دوسرے بہانے اسے شرک بھی بنا رہے ہیں اور بدعت بھی؟


بلاشبہ تمام حقیقی نفع اور نقصان کا مالک اللہ تعالی کی ذات ہے۔ مگر جب یہی اللہ قرآن اور احادیث کے ذریعے یہ اصول بیان فرما رہا ہے کہ رسول (ص) سے مس شدہ تبرکات مسلمانوں کو نفع پہنچاتے ہیں تو پھر آپ کو قرآن و حدیث سے ثابت شدہ اس عقیدے کا انکار کیوں؟



ایسی عذر پیش کر کے آپ بہت ظلم والی بات کرتے ہیں۔ اللہ تو تمام نفع و نقصان کا مالک ہے، مگر آزمائشوں سے تو انہیں بھی گذرنا پڑتا ہے جو اللہ سے دعا کرتے ہیں۔ موت تو انکو بھی آئی جو ہر چیز کے مالک اللہ سے مدد مانگتے ہیں۔ تو کیا اس بنیاد پر اللہ کا انکار کر دیا جائے کہ اس نے آزمائش میں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا، اور تکلیف میں شفا دے کر مدد کرنے کی بجائے بیماری اور پھر موت دے دی؟
استغفراللہ۔
شفاعت ہو یا تبرکات عقیدہ یہ ہے کہ یہ سب اللہ کے اذن سے فائدہ دیتے ہیں۔ لیکن اگر اللہ نے تقدیر میں کچھ آزمائش یا بیماری لکھ دی ہے تو پھر اللہ کا ارادہ ہر چیز پر حاوی ہے۔ مگر اس بنیاد پر شفاعت یا تبرکات نبوی کا انکار کر دینا جہالت کی بات ہو گی۔ کیونکہ اللہ کے ارادے کے آگے اللہ سے آزمائش سے بچاؤ اور بیماری سے شفا کی دعا بھی کام نہیں آتی۔ تو کیا اس بنیاد پر اللہ سے دعا کرنا چھوڑ دینی چاہیے؟

آپ نے تبرکاتِ نبوی کے نفع کا انکار کرتے ہوئے لکھا کہ: جناب رسول خدا بیماری میں مرض الموت سے شفایاب نہ ہو سکے۔
عجیب دلیل ہے آپکی۔ کس حکیم لقمان نے آپ کو کہہ دیا کہ اگر تبرک یا دعا کبھی آپ کے کام نہ آئیں تو انکا انکار کر دو؟

اللہ کا شکر ہے کہ جناب عائشہ کا عقیدہ آپکی طرح کا نہیں تھا، ورنہ وہ پھر مرض الموت میں بیماری کی شدت میں رسول (ص) کے ہاتھ انکے جسم پر برکت کے لیے نہ پھر رہی ہوتیں۔

مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہوں نے معمر سے انہوں نے زہری سے انہوں نے عروہ سے انہوں نے حضرت عائشہ سے کہ آنحضرتﷺ مرض الموت میں معوذات (سورہ فلق اور سورہ الناس) پڑھ کر اپنے اوپر پھونکتے۔ جب آپﷺ پر بیماری کی شدت ہوئی تو میں پڑھ کر آپ ﷺ پر پھونکتی اور آپﷺ کا ہاتھ آپ ﷺ کے جسم پر پھیراتی برکت کے لئے، معمر نے کہا میں نے زہری سے پوچھا کیونکر پھونکتے تھے۔ انہوں نے کہا دونوں ہاتھوں پر دم کر کے ان کو منہ پر پھیر لے۔
صحیح بخاری، کتاب الطب، ج 3 ص 338۔339 ، ترجمہ از اہلحدیث عالم مولانا وحید الزمان خان صاحب

بلکہ اگر جنابِ عائشہ آپکی ہم عقیدہ ہوتیں تو پھر رسول (ص) کی مرض الموت سے چھٹکارا نہ ملنے پر تبرکات کے ساتھ ساتھ معوذتین (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) کی بھی منکر ہو جاتیں کیونکہ اس نے بھی مرض الموت میں کچھ نہیں کیا۔



استغر اللہ۔
کیا رسول (ص) کو علم نہ تھا کہ نجات انسان کے عمل کی وجہ سے ہوتی ہے؟
آپ کو ادراک تک نہیں ہو پا رہا، مگر آپ اپنے عقیدے میں ایسے الجھے ہوئے ہیں کہ آپ کی باتوں کا نشانہ رسول (ص) کی ذاتِ اقدس بننے لگی ہے۔ کیونکہ یہ رسول (ص) تھے جنہیں بہت اچھی طرح علم تھا کہ انسان کا ایمان اور پھر اسکے اعمال اسکو فائدہ پہنچاتے ہیں، مگر اسکے ساتھ ساتھ رسول (ص) کے تبرکاتِ بھی انسان کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اسی لیے رسول (ص) اپنا کرتہ اور چادر اور دیگر چیزیں مرنے والے صحابہ کا کفن بنواتے تھے۔

ایک مرتبہ پھر، معذرت کے ساتھ، مگر ہمارے سلفی برادران واقعی میں اس بیماری میں مبتلا ہیں کہ وہ کفار کے لیے نازل کردہ آیات مسلمانوں پر چسپاں کر رہے ہوتے ہیں۔۔۔ اور یہ بیماری یہاں آگے بڑھتی ہے، اور کفار کے جنازے کے متعلق روایات کو مسلمانوں پر چسپاں کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کے لیے رسول (ص) کی سنت یہ ہے:۔

1۔ علی ابن ابی طالب کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اﷲ عنہا کا وصال ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تجہیز و تکفین کے لئے خصوصی اہتمام فرمایا، غسل کے بعد جب انہیں قمیص پہنانے کا موقعہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا کرتہ مبارک عورتوں کو عطا فرمایا اور حکم دیا کہ یہ کرتہ انہیں پہنا کر اوپر کفن لپیٹ دیں۔
طبرانی، المعجم الکبير، 24 : 351، رقم : 871
طبرانی، المعجم الاوسط، 1 : 67، رقم : 189
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1891، رقم : 4052
ابونعيم، حلية الاولياء، 3 : 121
ابن جوزی، العلل المتناهية، 1 : 269، رقم : 433
ابن جوزی، صفوة الصفوة، 2 : 54
ابن اثير، اسد الغابه، 7 : 213
سمهودی، وفاء الوفاء، 3 : 8 - 897
عسقلانی، الاصابه فی تمييز الصحابه، 8 : 60، رقم : 11584
هيثمی، مجمع الزوائد، 9 : 256

2۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تکفین کے لئے اپنا مبارک ازاربند عطا فرمایا۔
بخاری، الصحيح، 1 : 423، کتاب الجنائز، رقم : 1196
مسلم، الصحيح، 2 : 646، کتاب الجنائز، رقم : 939
ابو داؤد، السنن، 3 : 197، کتاب الجنائز، رقم : 3142
نسائی، السنن، 4 : 30، 31، 32، کتاب الجنائز، رقم : 1885، 1886، 1890
ترمذی، الجامع الصحيح، 3 : 315، ابواب الجنائز، رقم : 990
ابن ماجه، السنن، 1 : 468، کتاب الجنائز، رقم : 1458
مالک، المؤطا 1 : 222، رقم : 520
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 84
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 407، رقم : 27340
حميدی، المسند، 1 : 174، رقم : 360
ابن حبان، الصحيح، 7 : 304، 302، رقم : 3033، 3032

3۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک خاتون نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک چادر پیش کی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ زیب تن فرمائی تو ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! کتنی حسین چادر ہے، مجھے عنایت فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں عنایت فرمائی۔ حاضرین میں سے بعض نے اس کو اچھا نہیں سمجھا اور چادر مانگنے والے کوملامت کی کہ جب تمہیں معلوم تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی سائل کو واپس نہیں لوٹاتے تو تم نے یہ چادر کیوں مانگی؟ اس شخص نے جواب دیا :
إنّی واﷲ ماسألته لألبسها، إنما سألته لتکون کفنی. قال سهل : فکانت کفنه.
’’خدا کی قسم میں نے یہ چادر اس لئے نہیں مانگی کہ اسے پہنوں۔ میں نے (تو اس کی برکت کی امید سے) اس لئے مانگی ہے کہ یہ مبارک چادر میرا کفن ہو۔ حضرت سہل فرماتے ہیں : کہ یہ مبارک چادر بعد میں ان کا کفن بنی۔‘‘


بخاری، الصحيح، 1 : 429، کتاب الجنائز، رقم : 1218
بخاری، الصحيح، 2 : 737، کتاب البيوع، رقم : 1987
بخاري، الصحيح، 5 : 2189، کتاب اللباس، رقم : 5473
بخاري، الصحيح، 5 : 2245، کتاب الأدب، رقم : 5689
نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 480، رقم : 9659
بيهقي، السنن الکبریٰ، 3 : 404، رقم : 6489
عبد بن حميد، المسند، 1 : 170، رقم : 462
طبراني، المعجم الکبير، 6 : 143، 169، 200، رقم : 5785، 5887، 5997
بيهقي، شعب الايمان، 5 : 170، رقم : 6234
قرشي، مکارم الاخلاق، 1 : 114، رقم : 378
ابن ماجه، السنن، 2 : 1177، کتاب اللباس، رقم : 3555
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 333، رقم : 22876
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 454

4۔ حضرت عبداللہ بن سعد بن سفیان غزوہ تبوک میں شہید ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے مبارک قمیص کا کفن پہنایا۔
ابن اثير، اسد الغابه، 3 : 262
عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 4 : 111، رقم : 4715

5۔ حضرت عبداللہ بن حارث بن عبدالمطلب بن ہاشم فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی مبارک قمیص کا کفن پہنا کر دفن کیا، اور فرمایا : ھذا سعید ادرکتہ سعادۃ ’’یہ خوش بخت ہے اور اس نے اس سے سعادت حاصل کی ہے۔‘‘

ابن اثیر، اسد الغابہ، 3 : 207
ابن عبدالبر، الاستیعاب، 3 : 884، رقم : 1496
عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، 4 : 47، رقم : 4605
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 4 : 48



آپ کا آرگومینٹ ہرگز درست نہیں۔
جہاد میں بھی برکت ہے، اور تبلیغ میں بھی برکت ہے، اور اس لیے صحابہ جہاد اور تبلیغ کے لیے نکلے۔


استغفراللہ۔
پھر آپ جناب ابوبکر اور جنابِ عمر کے لیے کیا کہیں گے جن کی خواہش پر انہیں جناب عائشہ کے حجرے میں رسول (ص) کے ساتھ دفن کیا گیا؟ (حالانکہ آپکے نزدیک گنبد کے نیچے دفن ہونا درست نہیں)
اور جناب شیخین تنہا نہیں، بلکہ جناب عائشہ کہتی ہے کہ بے تحاشہ صحابہ ان سے اس خواہش کا اظہار کرتے رہے کہ انہیں حجرے میں دفن ہونے کی اجازت دی جائے۔

بلکہ پہلے صفحہ پر موجود آرٹیکل میں پر اس مسئلے پر مزید نصوص پیش کی جا چکی تھیں۔ افسوس کہ آپ لوگ اس سے سبق نہیں سیکھ رہے۔

السلام علیکم -

محترمہ -آپ نے نہ میرے مراسلے کو اچھی طرح پڑھا اور نہ ہی سمجھا ہے - اس لئے مجھ پر طنز کے تیر برسا دیے - میں نے کب نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی ذات مبارکہ اور آپ سے منسوب چیزوں کی تاثیر اور برکتوں کا انکار کیا ہے - میرے نزدیک ان کا انکار کفر ہے (جیسا میں پہلے بھی که چکا ہوں ) - یقیناً صحابہ کرام اور صحابیات رضوان اللہ اجمعین آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے تبرکات اور آپ کی ذات سے نفع اٹھاتے رہے اور یہ سب کچھ الله کے اذن سے تھا - لیکن اصل معامله ترجیحات کا ہوتا ہے -صحابہ و صحابیات کرام رضوان الله اجمعین اور ہم اہل سلف کی ترجیحات انسان کا عمل ہے نہ کہ یہ تبرکات اور وسیلے - تمام صحابہ کرام اپنے عمل کو ہی نجات کا ذریہ سمجھتے تھےوہ پاک ہستیاں ان تبرکات اور شفاعت نبوی پر بھروسہ کر کے نہیں بیٹھ جاتی تھیں - یہی نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے اپنے صحابہ اور امّت کو تعلیم دی تھی- آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ :

"
جس کا عمل اس کو پیچھے چھوڑ گیا - اس کا نسب اس کو آگے نہیں بڑھا سکے گا"


ہم چاہے جتنا مرضی یہ گن گاتے رہیں کہ ہم نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی امتی ہیں اور قیامت کے دن ہماری ان سے نسبت ہمیں جنّت میں لے جائے گی تو یہ ہماری خوش فہمی ہے - صرف ان لوگوں کی نجات ممکن ہو گی جن کے نیک عمل اور کوشش اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہو گی- اور ان ہی کی سفارش کی انبیاء کو اجازت ملے گی -

حقیقت یہ ہے کہ ان تبرکات اور معجزات کی نام نہاد تشہیر وہی لوگ کرتے ہیں جو مشرک زدہ بدعتی ہوتے ہیں - کیوں کہ ان کا منشاء الله کے نبی کی تعلیمات پر عمل نہیں ہوتا بلکہ اپنے آ باء اجداد کے باطل عقیدوں پر چلنا ہوتا ہے- ان کے آ باء اجداد نے انھیں یہی سکھایا ہوتا ہے کہ بیٹا جو مرضی کرلو - بس تمہارا تبرکات اور معجزات پر ایمان و محبّت تمہیں الله کے عذاب سے بچا کر جنّت میں لے جائے گا -

یہ مشرک زادہ بدعتی لوگ جو اہل سلف کو گستاخ کہتے ہیں اصل میں خود نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے گستاخ ثابت ہو جاتے ہیں- یہ کمینے لوگ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم سے منسوب شدہ برکات اور خوصوصیات کو اپنے نام نہاد بزرگان دین سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں - کہتے ہیں فلاں پیر صاحب کے دیے ہوے تبرکات استمال کرو تو نفع حاصل ہوگا - فلاں پیر صاحب ہر بات جانتے ہیں - فلاں پیر صاحب کو اگر ناراض کردیا تو تمہارا بیڑا غرق ہوجائے گا - فلاں پیر صاحب نے اپنے ہاتھوں سے یہ کمال کر دکھایا وغیرہ- کیا یہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی شان میں گستاخی نہیں کہ جو چیز الله نے اپنے نبی کو بطور معجزہ عطا کی تھی اس کو ایک غیر نبی میں تلاش کیا جائے -

اصل مسلہ یہ ہے کہ یہ مشرک زادہ بدعتی لوگوں کو نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی ذات اور احکامات سے کوئی غرض نہیں - یہ صرف اپنے نام نہاد بزرگان دین اور نام نہاد ولیوں کی اندھی تقلید پر عمل کرنا چاہتے ہیں اور انہی سے جڑے رہنا چاہتے اور اپنی دکان چمکانا چاہتے ہیں - اس لئے اپنی کمزوری کو دوسروں پر تھوپ دیتے ہیں کہ "وہابی و اہل حدیث تو گستاخ ہیں- اصل محب نبی تو ہم ہیں" - جب کے حقیقی گستاخ یہ خود ہیں -اگر یہ اپنے گریبان میں جھانکیں تو خود ان کے نفس اس کی گواہی دیں گے کہ یہ الله اور اس کے نبی صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے احکامات و ارشادات پر کتنا عمل کرتے ہیں ؟؟-
 
Top