• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دجال مدینہ کے مشرق میں کسی جزیرے میں قید ہے کیا یہ حدیث صحیح ہے

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
@اسحاق سلفی بھائی

پہلا سوال

آپ سے پوچھنا ہے کہ یہاں آپ کا موقف کیا ہے ؟؟؟


سوال فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين سے ہوا-

سئل فضيلة الشيخ: ذكرتم في الفتوى السابقة رقم “147”: أن الدجال غير موجود الآن، وهذا الكلام ظاهره يتعارض مع حديث فاطمة بنت قيس في الصحيح، عن قصة تميم الداري، فنرجو من فضيلتكم التكرم بتوضيح ذلك؟ .
فأجاب بقوله: ذكرنا هذا مستدلين بما ثبت في الصحيحين، عن النبي – صلى الله عليه وآله وسلم -، قال: «إنه على رأس مائة سنة لا يبقى على وجه الأرض ممن هو عليها اليوم أحد» .
فإذا طبقنا هذا الحديث على حديث تميم الداري صار معارضا له؛ لأن ظاهر حديث تميم الداري أن هذا الدجال يبقى حتى يخرج، فيكون معارضا لهذا الحديث الثابت في الصحيحين، وأيضا فإن سياق حديث تميم الداري في ذكر الجساسة في نفسي منه شيء، هل هو من تعبير الرسول – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أو لا


شیخ محمد بن صالح العثيمين سے سوال ہوا : اپ نے ذکر کیا کہ دجال ابھی موجود نہیں ہے اور اپ کا کلام حدیث فاطمہ بنت قیس سے معارض ہے جو صحیح میں ہے روایت کیا ہے قصہ تمیم الداری کا پس ہم اپ کی توضیح اس پر چاہتے ہیں

پس شیخ نے جواب دیا : ہم نے ذکر کیا جو دلیل کرتا ہے صحیح میں ثابت قول ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے کہ ١٠٠ سال کے پورا ہونے پر زمین پر کوئی زندہ نہ رہے گا – پس جب اس حدیث کو تمیم داری کی حدیث پر رکھتے ہیں تو یہ اس سے متعارض ہے جو صحیحین میں ثابت ہے اور ساتھ ہی اس حدیث میں جاسوس کا ذکر ہے جس سے دل میں چیز ہے کہ یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعبیر تھی بھی یا نہیں



دوسری طرف


@محمد عامر یونس بھائی
شیخ محمد صالح المنجد کا فتویٰ لکھ رہے ہیں -

کیا خضر علیہ السلام ابھی تک دنیا میں زندہ ہیں!

کیا خضرعلیہ السلام دنیا میں آج تک زندہ ہیں ، اورکیا وہ قیامت تک زندہ ہی رہيں گے ؟

الحمد للہ

شیخ شنقیطی رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :
خضر علیہ السلام کے بارہ میں صالحین کی حکایات کا شمار نہیں ، اوران کا یہ دعوی کہ الیاس اورخضر علیہ السلام ہرسال حج کرتے ہیں ، اوران سے بعض دعائيں بھی روایت کی جاتی ہیں یہ سب کچھ معروف ہے ، اس کے قائلین کی سب سندیں بہت ہی زيادہ ضعیف ہیں ۔
اس لیے کہ ان میں غالب طورپران لوگوں سے حکایات ہیں جن کے بارہ میں گمان ہے کہ وہ صالح قسم کے لوگ تھے ، اوریا پھر وہ خوابوں کے قصے ہیں ، اورانس رضي اللہ تعالی عنہ وغیرہ سے کچھ مرفوع احادیث بھی ہيں جو سب کی سب ضعیف ہیں اورپایہ ثبوت نہیں پہنچتیں اور نہ ہی ان سے حجت قائم ہوسکتی ہے ۔
اس مسئلہ میں دلائل کے ساتھ جوبات مجھے راجح معلوم ہوئ ہے کہ خضر علیہ السلام زندہ نہیں بلکہ وفات پاچکے ہیں ، اس کے کئ ایک دلائل ہيں جن میں سے چند ایک ذکر کیا جاتا ہے :


پہلی دلیل :
اللہ تبارک وتعالی کے اس فرمان کا ظاہر :
{ آپ سے قبل ہم نے کسی انسان کوبھی ہیشگی نہیں دی ، کیا اگرآپ فوت ہوگۓ تووہ ہمیشہ کے لیے رہ جائيں گے } الانبیاء ( 34 ) ۔

دوسری دلیل :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( اے اللہ اگر تواہل اسلام کی اس چھوٹی سی جماعت کوہلاک کردے گا توزمین میں تیری عبادت نہیں ہوگي ) صحیح مسلم ۔

تیسری دلیل :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ زمین پرجو بھی آج کی رات موجود ہے وہ سوبرس بعد باقی نہیں رہے گا ۔

توبالفرض اگر اس وقت خضر علیہ السلام زندہ بھی تھے تواس سوبرس سے زيادہ زندہ نہیں رہے ۔

امام مسلم رحمہ اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما نے بیان کیا کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک رات ہمیں عشاء کی نماز پڑھائ‏ اورسلام پھیرنے کے بعد فرمانے لگے :
تم اپنی آج کی اس رات کویاد رکھو ، بلاشبہ جوبھی آج روۓ زمین پرموجود ہے وہ سوبرس بعد اس زمین پر باقی نہیں رہے گا ۔
عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کلمہ کوسمجھنے میں غلطی لگ گئ جس میں وہ اس سوبرس کے متعلق باتیں کرنے لگے ہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تویہ فرمایا کہ جوآج اس زمین پرزندہ ہے وہ سوبرس بعد زندہ نہیں رہے گا ، اس سے مراد تویہ تھا کہ وہ صحابہ کادورگزر جاۓ گا ۔۔۔ ۔


چوتھی دلیل :

اگرخضرعلیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانے تک زندہ ہوتے توپھروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والوں میں ہوتے اوران کی مدد وتعاون کرتے اوران کے ساتھ مل کر جھاد وقتال کرتے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب جن وانس کی طرف مبعوث کیے گۓ ہیں ۔
واللہ اعلم .


دیکھیں اضواء البیان للشنقیطی رحمہ اللہ ( 4 / 178- 183 ) ۔


اب جن دلائل کی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ خضر فوت ہوئے کیا انہی کی بنیاد پر حدیث جساسہ کو قبول کیا جا سکتا ہے

کیا شیخ محمد صالح المنجد کے فتویٰ کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ خضر علیہ السلام زندہ ہیں -
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
@اسحاق سلفی بھائی

تیسرا سوال

ابواسحاق نے کہا، کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی حضرت خضر علیہ السلام ہوں گے۔ صحیح مسلم

اور

معمر بن راشد نے اپنی کتاب جامع میں ذکر کیا ہے

قَالَ مَعْمَرٌ: «وَبَلَغَنِي أَنَّهُ يُجْعَلُ عَلَى حَلْقِهِ صَفِيحَةٌ مِنْ نُحَاسٍ، وَبَلَغَنِي أَنَّهُ الْخَضِرُ الَّذِي يَقْتُلُهُ الدَّجَّالُ ثُمَّ يُحْيِيهِ»

اور اسی قول کو بغوی نے نقل کیا ہے

اور

صحیح ابن حبان کے مطابق

قَالَ مُعْمَرٌ: يَرَوْنَ أَنَّ هَذَا الرَّجُلَ الَّذِي يَقْتُلُهُ الدَّجَّالُ ثُمَّ يُحْيِيهِ: الْخَضِرُ


ان تینوں اقوال کے بارے میں آپ کا موقف کیا ہے
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
اب آپ چاہیں تو اس پر الگ الگ تھریڈ بنا کر بات ہو سکتی ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
آپ خضر علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں یا نہیں
ان تینوں اقوال کے بارے میں آپ کا موقف کیا ہے
اب سب سوالوں کا جواب میری سابقہ پوسٹ نمبر 38 میں موجود ہے ، آپ شاید میری پوسٹوں کو پڑھتے ہی نہیں !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی یہاں موسم بہت اچھا ہے ، بہار کی آمد آمد ہے ، پرندے چہچہا رہے ہیں ،
بریلوی گا رہے ہیں ، مولوی حلوے کھا رہے ہیں ،
بجلی کے طویل بریک ڈاؤن ہمیں ستا رہے ہیں ،
اور دین کی بے وقعتی پر ہم آنسو بہا رہے ہیں ،
اور سنا ہے افغانی اٹک سے جا رہے ہیں ،
اور لال مسجد والے مولوی عبدالعزیز پھر شور مچا رہے ہیں ،
وہ جمہوریت والوں کو آنکھیں دکھا رہے ہیں
مولوی فضل الرحمن نیٹو اور آئین پاکستان کے نغمے سنا رہے ہیں
اور کیا بتاؤں اب ہم دن کا کھانا کھانے جارہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
اب سب سوالوں کا جواب میری سابقہ پوسٹ نمبر 38 میں موجود ہے ، آپ شاید میری پوسٹوں کو پڑھتے ہی نہیں !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی یہاں موسم بہت اچھا ہے ، بہار کی آمد آمد ہے ، پرندے چہچہا رہے ہیں ،
بریلوی گا رہے ہیں ، مولوی حلوے کھا رہے ہیں ،
بجلی کے طویل بریک ڈاؤن ہمیں ستا رہے ہیں ،
اور دین کی بے وقعتی پر ہم آنسو بہا رہے ہیں ،
اور سنا ہے افغانی اٹک سے جا رہے ہیں ،
اور لال مسجد والے مولوی عبدالعزیز پھر شور مچا رہے ہیں ،
وہ جمہوریت والوں کو آنکھیں دکھا رہے ہیں
مولوی فضل الرحمن نیٹو اور آئین پاکستان کے نغمے سنا رہے ہیں
اور کیا بتاؤں اب ہم دن کا کھانا کھانے جارہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں تک میں سمجھا ہوں کہ آپ کا موقف خضر علیہ السلام کے بارے میں یہ ہے کہ وہ فوت ہو چکے ہیں - اور تینوں اقوال جو پیش کیے گیۓ وہ ضعیف ہیں یا مجہول ہیں -

کیا میں صحیح سمجھا -

اور سوال نمبر ١ کا کوئی جواب نہیں دیا آپ نے ابھی تک - کئی دفعہ پوچھنے کےبا وجود-

اب جن دلائل کی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ خضر علیہ السلام فوت ہوئے کیا انہی کی بنیاد پر حدیث جساسہ کو قبول کیا جا سکتا ہے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اب جن دلائل کی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ خضر علیہ السلام فوت ہوئے کیا انہی کی بنیاد پر حدیث جساسہ کو قبول کیا جا سکتا ہے
حدیث جساسہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اور کسی عموم کی بنیاد پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت کسی خاص و معجزہ کو رد نہیں کیا جاسکتا!
خضر علیہ السلام کی حیات کے متعلق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث ثابت نہیں! اور نہ ہی قرآن میں ایسی کوئی بات ہے،
لوگوں کے اس گمان کا قرآن کی آیات و اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے عموم سے رد کیا جا سکتا ہے!
اتنی سی بات نہ سمجھنے کی بنیاد پر نجانے کون کون سے گیت گائے جا رہے ہیں!
 
Last edited:

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حدیث جساسہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اور کسی عموم کی بنیاد پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت کسی خاص و معجزہ کو رد نہیں کیا جاسکتا!
ذرا اس بات کی وضاحت کر دیں @ابن داود بھائی - معجزہ کی تعریف کیا ہے اور کیا حدیث جساسہ معجزہ ہے - اور کیا جب

فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين سے سوال ہوا- اور انہوں نے یہ جواب دیا -

سئل فضيلة الشيخ: ذكرتم في الفتوى السابقة رقم “147”: أن الدجال غير موجود الآن، وهذا الكلام ظاهره يتعارض مع حديث فاطمة بنت قيس في الصحيح، عن قصة تميم الداري، فنرجو من فضيلتكم التكرم بتوضيح ذلك؟ .
فأجاب بقوله: ذكرنا هذا مستدلين بما ثبت في الصحيحين، عن النبي – صلى الله عليه وآله وسلم -، قال: «إنه على رأس مائة سنة لا يبقى على وجه الأرض ممن هو عليها اليوم أحد» .
فإذا طبقنا هذا الحديث على حديث تميم الداري صار معارضا له؛ لأن ظاهر حديث تميم الداري أن هذا الدجال يبقى حتى يخرج، فيكون معارضا لهذا الحديث الثابت في الصحيحين، وأيضا فإن سياق حديث تميم الداري في ذكر الجساسة في نفسي منه شيء، هل هو من تعبير الرسول – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أو لا


تو شیخ نے معجزہ کا ذکر کیوں نہ کیا - کیوں کہا کہ

وأيضا فإن سياق حديث تميم الداري في ذكر الجساسة في نفسي منه شيء، هل هو من تعبير الرسول – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أو لا
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
@اسحاق سلفی بھائی

یہاں پر ایک سوال کیا گیا

لنک یہ ہے

لسلام عليكم /

اخوانـــــــــــــــــــــــــــــــــي كنت اريد افادتي عن الرجل الذي يخرج الى الدجال في آخر الزمان ؟
وقد قال بعض العلماء : انه الخضر . والخضر هل هو حي ، وماذا يقول العلماء الذين قالوا بوفاته من هو هذا الرجل ؟؟؟؟؟

اس کا جواب یہ دیا گیا

الأخ الكريم..

ليس مع من قال أنه الخضر حجة تعتبر بل هو قول باطل ظاهر البطلان.

أما من يقتله فجوابه في صحيح مسلم فقد ذكر مسلم في صحيحه في كتاب الفتن وأشراط الساعة باب في فتح قسطنطينية وخروج الدجال ونزول عيسى بن مريم

وذكر حديث أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ثم لا تقوم الساعة حتى ينزل الروم بالأعماق أو بدابق فيخرج إليهم جيش من المدينة من خيار أهل الأرض يومئذ، فإذا تصافوا قالت الروم خلوا بيننا وبين الذين سبوا منا نقاتلهم.
فيقول المسلمون: لا والله لا نخلي بينكم وبين إخواننا.
فيقاتلونهم فينهزم ثلث لا يتوب الله عليهم أبدا، ويقتل ثلثهم أفضل الشهداء عند الله، ويفتتح الثلث لا يفتنون أبدا، فيفتتحون قسطنطينية. فبينما هم يقتسمون الغنائم قد علقوا سيوفهم بالزيتون، إذ صاح فيهم الشيطان إن المسيح قد خلفكم في أهليكم فيخرجون وذلك باطل، فإذا جاؤوا الشام خرج فبينما هم يعدون للقتال يسوون الصفوف إذ أقيمت الصلاة فينزل عيسى بن مريم صلى الله عليه وسلم، فأمهم، فإذا رآه عدو الله ذاب كما يذوب الملح في الماء فلو تركه لانذاب حتى يهلك ولكن يقتله الله بيده فيريهم دمه في حربته.

اور پھر ایک بھائی نے یہ لکھا – اس کا کیا مطلب ہوا – کیا یہ اس کا رد نہیں

رد: من هو الرجل الذي يخرج على الدجال هل هو الخضر
في صحيح مسلم :
حَدَّثَنِى عَمْرٌو النَّاقِدُ وَالْحَسَنُ الْحُلْوَانِىُّ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ – وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ وَالسِّيَاقُ لِعَبْدٍ – قَالَ حَدَّثَنِى وَقَالَ الآخَرَانِ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ – وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ – حَدَّثَنَا أَبِى عَنْ صَالِحٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِى عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِىَّ قَالَ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَوْمًا حَدِيثًا طَوِيلاً عَنِ الدَّجَّالِ فَكَانَ فِيمَا حَدَّثَنَا قَالَ « يَأْتِى وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْهِ أَنْ يَدْخُلَ نِقَابَ الْمَدِينَةِ فَيَنْتَهِى إِلَى بَعْضِ السِّبَاخِ الَّتِى تَلِى الْمَدِينَةَ فَيَخْرُجُ إِلَيْهِ يَوْمَئِذٍ رَجُلٌ هُوَ خَيْرُ النَّاسِ – أَوْ مِنْ خَيْرِ النَّاسِ – فَيَقُولُ لَهُ أَشْهَدُ أَنَّكَ الدَّجَّالُ الَّذِى حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- حَدِيثَهُ فَيَقُولُ الدَّجَّالُ أَرَأَيْتُمْ إِنْ قَتَلْتُ هَذَا ثُمَّ أَحْيَيْتُهُ أَتَشُكُّونَ فِى الأَمْرِ فَيَقُولُونَ لاَ. قَالَ فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يُحْيِيهِ فَيَقُولُ حِينَ يُحْيِيهِ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ فِيكَ قَطُّ أَشَدَّ بَصِيرَةً مِنِّى الآنَ – قَالَ – فَيُرِيدُ الدَّجَّالُ أَنْ يَقْتُلَهُ فَلاَ يُسَلَّطُ عَلَيْهِ ».
قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ يُقَالُ : إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ هُوَ الْخَضِرُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ اهـ .

وفي المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج :

قَوْله : ( قَالَ أَبُو إِسْحَاق : يُقَال : إِنَّ الرَّجُل هُوَ الْخَضِر عَلَيْهِ السَّلَام )
أَبُو إِسْحَاق هَذَا هُوَ إِبْرَاهِيم بْن سُفْيَان رَاوِي الْكِتَاب عَنْ مُسْلِم ، وَكَذَا قَالَ مَعْمَر فِي جَامِعه فِي أَثَر هَذَا الْحَدِيث كَمَا ذَكَرَهُ اِبْن سُفْيَان ، وَهَذَا تَصْرِيح مِنْهُ بِحَيَاةِ الْخَضِر عَلَيْهِ السَّلَام ، وَهُوَ الصَّحِيح ، وَقَدْ سَبَقَ فِي بَابه مِنْ كِتَاب الْمَنَاقِب .

وفي إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري :

وفي صحيح مسلم عقب رواية عبد الله بن عبد الله بن عتبة قال أبو إسحاق يقال إن هذا الرجل هو الخضر وأبو إسحاق هو إبراهيم بن محمد بن سفيان الزاهد راوي صحيح مسلم عنه لا السبيعي كما ظنه القرطبي. قال في الفتح: ولعل مستنده في ذلك ما في جامع معمر بعد ذكر هذا الحديث قال معمر: بلغني أن الذي يقتله الدجال هو الخضر، وكذا أخرجه ابن حبان من طريق عبد الرزاق عن معمر قال: كانوا يرون أنه الخضر. وقال ابن العربي: سمعت من يقول إن الذي يقتله الدجال هو الخضر وهذه دعوى لا برهان لها. قال الحافظ ابن حجر: قد يتمسك من قاله بما أخرجه ابن حبان في صحيحه من حديث أبي عبيدة بن الجراح رفعه في ذكر الدجال لعله يدركه بعض من رآني أو سمع كلامي الحديث ويعكر عليه قوله في رواية لمسلم شاب ممتلئ شبابًا ويمكن أن يجُاب بأن من جملة خصائص الخضر أن لا يزال شابًّا ويحتاج إلى دليل اهـ .
__________________
رأيي أعرضه ولا أفرضه ،
وقولي مُعْلم وليس بملزم .
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
معمر ۔۔کون تھے ،اور کس زمانے کے آدمی ہیں ، اور علامہ بغوی کون اور کس دور سے تعلق رکھتے ہیں ،
آپ میری بات کو سمجھنے کیلئے پہلے ان مذکورہ محدثین کے سن پیدائش و وفات دیکھیں ، ان شاء اللہ معاملہ سمجھنا آسان ہوجائے گا ،
اور اتنی بات بغیر کسی بحث و تمحیص کے مان لیں کہ امام مسلم نے یہ خضر کی زندگی والا جملہ بالکل نہیں لکھا ، نہ روایت کیا ،
ابو اسحاق کے بارے آپ نے لکھا ہے کہ :
اس بات کو سمجھنے کیلئے ابو اسحاق ابراہیم کے حالات پر یہ کتاب پڑھیں ،

کتاب یہاں دیکھیں

قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: “يُقَالُ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ هُوَ الْخَضِرُ عَلَيْهِ السَّلَامُ


ابو اسحاق إبراهيم بن سفيان نے کہا: کہا جاتا ہے یہ خضر ہوں گے


یہ صحیح مسلم کی کتاب کے راوی ہیں –

یہ بات صیغہ تمریض سے ہے لیکن یہ بات یاد رہے کہ قرون ثلاثہ کے محدثین جب صیغہ تمریض استعمال کریں اور تضعیف نہ کریں تو وہ قول قبولیت پر بوتا ہے

اس پر تھریڈ صیغہ تمریض سے کیا مراد ہے ؟ میں تفصیل موجود ہے
کے مطابق

هو أبو إسحاق إبراهيم بن محمد بن سفيان النيسابوري1، ولم تذكر المصادر سنةَ ولادته، ويظهر أنَّها كانت في النصف الأول من القرن الثالث؛ لأنَّ الإمام مسلماً رحمه الله فرغ من كتابة الصحيح سنة خمسين ومائتين، كما ذكر العراقي2، ثم أخذ يمليه على الناس حتى فرغ من ذلك لعشر خلون من رمضان سنة سبع وخمسين ومائتين، كما نصَّ على ذلك ابن سفيان3، وعاش ابن سفيان بعد ذلك حتى أول القرن الرابع كما سيأتي.


امام مسلم المتوفی ٢٦١ ھ نے ابو اسحاق کو صحیح املا کرائی سن ٢٥٧ ہجری رمضان تک


یعنی یہ الفاظ کہ کہا جاتا ہے یہ خضر ہوں گے یہ الفاظ امام مسلم نے نہیں امام ابو اسحاق نے املا کرتے وقت شامل کر دیے یا بعد میں جب صحیح مسلم دوسروں کو املا کرائی تو اپنی بات روایت کی شرح کے طور پر پیش کی

معمر بن أبي عمرو راشد الأزدي مولاهم، أبو عروة البصري، نزيل اليمن (المتوفى: 153هـ) ہیں یعنی یہ تو امام بخاری و مسلم سے بھی پہلے کے ہیں

صحیح ابن حبان کے مطابق

قَالَ مُعْمَرٌ: يَرَوْنَ أَنَّ هَذَا الرَّجُلَ الَّذِي يَقْتُلُهُ الدَّجَّالُ ثُمَّ يُحْيِيهِ: الْخَضِرُ


مُعْمَرٌ نے کہا محدثین دیکھتے تھے کہ یہ شخص جس کو دجال قتل کرنے کے بعد زندہ کر سکے گا یہ خضر ہوں گے


یعنی یہ تو سلف کا قول ہے

بغوی متاخرین میں سے ہیں -بغوی نے ان معمر کا قول نقل کیا ہے رد نہیں کیا-
 
Top