وجاہت
رکن
- شمولیت
- مئی 03، 2016
- پیغامات
- 421
- ری ایکشن اسکور
- 44
- پوائنٹ
- 45
@اسحاق سلفی بھائی
پہلا سوال
آپ سے پوچھنا ہے کہ یہاں آپ کا موقف کیا ہے ؟؟؟
سوال فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين سے ہوا-
سئل فضيلة الشيخ: ذكرتم في الفتوى السابقة رقم “147”: أن الدجال غير موجود الآن، وهذا الكلام ظاهره يتعارض مع حديث فاطمة بنت قيس في الصحيح، عن قصة تميم الداري، فنرجو من فضيلتكم التكرم بتوضيح ذلك؟ .
فأجاب بقوله: ذكرنا هذا مستدلين بما ثبت في الصحيحين، عن النبي – صلى الله عليه وآله وسلم -، قال: «إنه على رأس مائة سنة لا يبقى على وجه الأرض ممن هو عليها اليوم أحد» .
فإذا طبقنا هذا الحديث على حديث تميم الداري صار معارضا له؛ لأن ظاهر حديث تميم الداري أن هذا الدجال يبقى حتى يخرج، فيكون معارضا لهذا الحديث الثابت في الصحيحين، وأيضا فإن سياق حديث تميم الداري في ذكر الجساسة في نفسي منه شيء، هل هو من تعبير الرسول – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أو لا
شیخ محمد بن صالح العثيمين سے سوال ہوا : اپ نے ذکر کیا کہ دجال ابھی موجود نہیں ہے اور اپ کا کلام حدیث فاطمہ بنت قیس سے معارض ہے جو صحیح میں ہے روایت کیا ہے قصہ تمیم الداری کا پس ہم اپ کی توضیح اس پر چاہتے ہیں
پس شیخ نے جواب دیا : ہم نے ذکر کیا جو دلیل کرتا ہے صحیح میں ثابت قول ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے کہ ١٠٠ سال کے پورا ہونے پر زمین پر کوئی زندہ نہ رہے گا – پس جب اس حدیث کو تمیم داری کی حدیث پر رکھتے ہیں تو یہ اس سے متعارض ہے جو صحیحین میں ثابت ہے اور ساتھ ہی اس حدیث میں جاسوس کا ذکر ہے جس سے دل میں چیز ہے کہ یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعبیر تھی بھی یا نہیں
دوسری طرف
@محمد عامر یونس بھائی
کیا شیخ محمد صالح المنجد کے فتویٰ کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ خضر علیہ السلام زندہ ہیں -
پہلا سوال
آپ سے پوچھنا ہے کہ یہاں آپ کا موقف کیا ہے ؟؟؟
سوال فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين سے ہوا-
سئل فضيلة الشيخ: ذكرتم في الفتوى السابقة رقم “147”: أن الدجال غير موجود الآن، وهذا الكلام ظاهره يتعارض مع حديث فاطمة بنت قيس في الصحيح، عن قصة تميم الداري، فنرجو من فضيلتكم التكرم بتوضيح ذلك؟ .
فأجاب بقوله: ذكرنا هذا مستدلين بما ثبت في الصحيحين، عن النبي – صلى الله عليه وآله وسلم -، قال: «إنه على رأس مائة سنة لا يبقى على وجه الأرض ممن هو عليها اليوم أحد» .
فإذا طبقنا هذا الحديث على حديث تميم الداري صار معارضا له؛ لأن ظاهر حديث تميم الداري أن هذا الدجال يبقى حتى يخرج، فيكون معارضا لهذا الحديث الثابت في الصحيحين، وأيضا فإن سياق حديث تميم الداري في ذكر الجساسة في نفسي منه شيء، هل هو من تعبير الرسول – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أو لا
شیخ محمد بن صالح العثيمين سے سوال ہوا : اپ نے ذکر کیا کہ دجال ابھی موجود نہیں ہے اور اپ کا کلام حدیث فاطمہ بنت قیس سے معارض ہے جو صحیح میں ہے روایت کیا ہے قصہ تمیم الداری کا پس ہم اپ کی توضیح اس پر چاہتے ہیں
پس شیخ نے جواب دیا : ہم نے ذکر کیا جو دلیل کرتا ہے صحیح میں ثابت قول ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے کہ ١٠٠ سال کے پورا ہونے پر زمین پر کوئی زندہ نہ رہے گا – پس جب اس حدیث کو تمیم داری کی حدیث پر رکھتے ہیں تو یہ اس سے متعارض ہے جو صحیحین میں ثابت ہے اور ساتھ ہی اس حدیث میں جاسوس کا ذکر ہے جس سے دل میں چیز ہے کہ یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعبیر تھی بھی یا نہیں
دوسری طرف
@محمد عامر یونس بھائی
یہاں
شیخ محمد صالح المنجد کا فتویٰ لکھ رہے ہیں -
کیا خضر علیہ السلام ابھی تک دنیا میں زندہ ہیں!
کیا خضرعلیہ السلام دنیا میں آج تک زندہ ہیں ، اورکیا وہ قیامت تک زندہ ہی رہيں گے ؟
الحمد للہ
شیخ شنقیطی رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :
خضر علیہ السلام کے بارہ میں صالحین کی حکایات کا شمار نہیں ، اوران کا یہ دعوی کہ الیاس اورخضر علیہ السلام ہرسال حج کرتے ہیں ، اوران سے بعض دعائيں بھی روایت کی جاتی ہیں یہ سب کچھ معروف ہے ، اس کے قائلین کی سب سندیں بہت ہی زيادہ ضعیف ہیں ۔
اس لیے کہ ان میں غالب طورپران لوگوں سے حکایات ہیں جن کے بارہ میں گمان ہے کہ وہ صالح قسم کے لوگ تھے ، اوریا پھر وہ خوابوں کے قصے ہیں ، اورانس رضي اللہ تعالی عنہ وغیرہ سے کچھ مرفوع احادیث بھی ہيں جو سب کی سب ضعیف ہیں اورپایہ ثبوت نہیں پہنچتیں اور نہ ہی ان سے حجت قائم ہوسکتی ہے ۔
اس مسئلہ میں دلائل کے ساتھ جوبات مجھے راجح معلوم ہوئ ہے کہ خضر علیہ السلام زندہ نہیں بلکہ وفات پاچکے ہیں ، اس کے کئ ایک دلائل ہيں جن میں سے چند ایک ذکر کیا جاتا ہے :
پہلی دلیل :
اللہ تبارک وتعالی کے اس فرمان کا ظاہر :
{ آپ سے قبل ہم نے کسی انسان کوبھی ہیشگی نہیں دی ، کیا اگرآپ فوت ہوگۓ تووہ ہمیشہ کے لیے رہ جائيں گے } الانبیاء ( 34 ) ۔
دوسری دلیل :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( اے اللہ اگر تواہل اسلام کی اس چھوٹی سی جماعت کوہلاک کردے گا توزمین میں تیری عبادت نہیں ہوگي ) صحیح مسلم ۔
تیسری دلیل :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ زمین پرجو بھی آج کی رات موجود ہے وہ سوبرس بعد باقی نہیں رہے گا ۔
توبالفرض اگر اس وقت خضر علیہ السلام زندہ بھی تھے تواس سوبرس سے زيادہ زندہ نہیں رہے ۔
امام مسلم رحمہ اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما نے بیان کیا کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک رات ہمیں عشاء کی نماز پڑھائ اورسلام پھیرنے کے بعد فرمانے لگے :
تم اپنی آج کی اس رات کویاد رکھو ، بلاشبہ جوبھی آج روۓ زمین پرموجود ہے وہ سوبرس بعد اس زمین پر باقی نہیں رہے گا ۔
عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کلمہ کوسمجھنے میں غلطی لگ گئ جس میں وہ اس سوبرس کے متعلق باتیں کرنے لگے ہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تویہ فرمایا کہ جوآج اس زمین پرزندہ ہے وہ سوبرس بعد زندہ نہیں رہے گا ، اس سے مراد تویہ تھا کہ وہ صحابہ کادورگزر جاۓ گا ۔۔۔ ۔
چوتھی دلیل :
اگرخضرعلیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانے تک زندہ ہوتے توپھروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والوں میں ہوتے اوران کی مدد وتعاون کرتے اوران کے ساتھ مل کر جھاد وقتال کرتے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب جن وانس کی طرف مبعوث کیے گۓ ہیں ۔
واللہ اعلم .
دیکھیں اضواء البیان للشنقیطی رحمہ اللہ ( 4 / 178- 183 ) ۔
اب جن دلائل کی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ خضر فوت ہوئے کیا انہی کی بنیاد پر حدیث جساسہ کو قبول کیا جا سکتا ہے
کیا خضر علیہ السلام ابھی تک دنیا میں زندہ ہیں!
کیا خضرعلیہ السلام دنیا میں آج تک زندہ ہیں ، اورکیا وہ قیامت تک زندہ ہی رہيں گے ؟
الحمد للہ
شیخ شنقیطی رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :
خضر علیہ السلام کے بارہ میں صالحین کی حکایات کا شمار نہیں ، اوران کا یہ دعوی کہ الیاس اورخضر علیہ السلام ہرسال حج کرتے ہیں ، اوران سے بعض دعائيں بھی روایت کی جاتی ہیں یہ سب کچھ معروف ہے ، اس کے قائلین کی سب سندیں بہت ہی زيادہ ضعیف ہیں ۔
اس لیے کہ ان میں غالب طورپران لوگوں سے حکایات ہیں جن کے بارہ میں گمان ہے کہ وہ صالح قسم کے لوگ تھے ، اوریا پھر وہ خوابوں کے قصے ہیں ، اورانس رضي اللہ تعالی عنہ وغیرہ سے کچھ مرفوع احادیث بھی ہيں جو سب کی سب ضعیف ہیں اورپایہ ثبوت نہیں پہنچتیں اور نہ ہی ان سے حجت قائم ہوسکتی ہے ۔
اس مسئلہ میں دلائل کے ساتھ جوبات مجھے راجح معلوم ہوئ ہے کہ خضر علیہ السلام زندہ نہیں بلکہ وفات پاچکے ہیں ، اس کے کئ ایک دلائل ہيں جن میں سے چند ایک ذکر کیا جاتا ہے :
پہلی دلیل :
اللہ تبارک وتعالی کے اس فرمان کا ظاہر :
{ آپ سے قبل ہم نے کسی انسان کوبھی ہیشگی نہیں دی ، کیا اگرآپ فوت ہوگۓ تووہ ہمیشہ کے لیے رہ جائيں گے } الانبیاء ( 34 ) ۔
دوسری دلیل :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( اے اللہ اگر تواہل اسلام کی اس چھوٹی سی جماعت کوہلاک کردے گا توزمین میں تیری عبادت نہیں ہوگي ) صحیح مسلم ۔
تیسری دلیل :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ زمین پرجو بھی آج کی رات موجود ہے وہ سوبرس بعد باقی نہیں رہے گا ۔
توبالفرض اگر اس وقت خضر علیہ السلام زندہ بھی تھے تواس سوبرس سے زيادہ زندہ نہیں رہے ۔
امام مسلم رحمہ اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما نے بیان کیا کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک رات ہمیں عشاء کی نماز پڑھائ اورسلام پھیرنے کے بعد فرمانے لگے :
تم اپنی آج کی اس رات کویاد رکھو ، بلاشبہ جوبھی آج روۓ زمین پرموجود ہے وہ سوبرس بعد اس زمین پر باقی نہیں رہے گا ۔
عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کلمہ کوسمجھنے میں غلطی لگ گئ جس میں وہ اس سوبرس کے متعلق باتیں کرنے لگے ہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تویہ فرمایا کہ جوآج اس زمین پرزندہ ہے وہ سوبرس بعد زندہ نہیں رہے گا ، اس سے مراد تویہ تھا کہ وہ صحابہ کادورگزر جاۓ گا ۔۔۔ ۔
چوتھی دلیل :
اگرخضرعلیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانے تک زندہ ہوتے توپھروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والوں میں ہوتے اوران کی مدد وتعاون کرتے اوران کے ساتھ مل کر جھاد وقتال کرتے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب جن وانس کی طرف مبعوث کیے گۓ ہیں ۔
واللہ اعلم .
دیکھیں اضواء البیان للشنقیطی رحمہ اللہ ( 4 / 178- 183 ) ۔
اب جن دلائل کی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ خضر فوت ہوئے کیا انہی کی بنیاد پر حدیث جساسہ کو قبول کیا جا سکتا ہے
کیا شیخ محمد صالح المنجد کے فتویٰ کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ خضر علیہ السلام زندہ ہیں -